میں کیا بنوں؟
عالم، صوفی، مجاہد یا کہ سیاست دان؟
دینی دوستوں کو عالم دین، صوفی مجاہد اور سیاست دان میں فرق سمجھنا چاہیے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان چاروں کا طریقہ کار اور مزاج اتنا جداگانہ ہوتا ہے کہ اگر آپ ان کو ایک دوسرے کے آئینے میں دیکھوگے تو خود بھی تشویش میں مبتلا ہونگے اور دوسروں کو بھی تذبذب میں ڈالوگے اور یہ فرق مثال سے بخوبی سمجھ آئی گی کہ فرض کریں کہ ایک کمرے میں مذکورہ چار حضرات تشریف فرما ہو کہ کچھ لوگ کلاشنکوف اٹھا کر قتل کرنے جارہے ہو قاتلوں کو قتل سے روکنے کے لیے ان چار حضرات کا طریقہ کار مختلف ہوگا، عالم دین قاتلوں کو قتل کی وعید سمجھائے گا جبکہ صوفی تو شاید اپنے اخلاق حسنہ اور محبت سے ان کو باز رکھنے کی کوشش کریگااور بس، مگر مجاہد کی تو غیرت گوارا نہیں کریگی کہ وہ یا تو للکار کر اور ایک قدم آگے بڑھ کر انہی اپنے انجام تک پہنچائے گا۔ جبکہ سیاست دان تو پہلے انہی یہ کہ کر سیاسی داؤ آزمائیگا کہ مال لینا ہو تو وہ لے لو مگر قتل کا ارادہ ترک کرو پھر کہے گا کہ فائرنگ سے تم پھنس سکتے ہو خامخا قتل ہی کرنا ہے تو چھری سے کرو غرض ان کو بندوق سے چھری اور اس سے ڈنڈے تک لا کر قابو میں کریگا جبکہ یہ طریقہ مصلحت کے عین قریب بھی ہے اور منطقی بھی مہتمم دارالعلوم دیوبند شیخ الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب کہا ہے کہ اسلام کے تین رنگ ہیں شریعت، طریقت اور سیاست۔ یہ تینوں یکجا ہونگے تو اسلام کی کامل عمارت بنی گی۔
شریعت؛ یہ تو راستہ ہے راستہ نہ ہو تو چلوگے کس طرف
طریقت؛ یہ راستے پر چلنے کے اصول ہیں، راستہ ہو اور چلنے کا طریقہ نہ آوے تو سفر کیسے کروگے۔
سیاست؛ شریعت کے راستے پر طریقت کے اصول کے مطابق چلتے ہوئے جو روکاوٹیں اور مشکلات آتے ہیں ان کو دور کرنے کا نام سیاست ہے سورج سے زیادہ واضح ہے کہ آپ راستے پر چل رہے ہیں پتھریلی زمین اور جھاڑیاں اگتی ہیں تو وہاں ڈنڈا اور ہتھوڑا لینا ہوتا ہے اور اب جب آپ روکاوٹ دور کرانے کے لیے یہ چیزیں استعمال کروگے تو شورو غوغا ہوگا اسی لیے سیاست کے میدان میں اکثر شورو غوغا رہتا ہی ہے مگر جب یہ تینوں چیزیں ہوگی تو اعتدال ہوگا بصورت دیگر اگر صرف شریعت ہو اور طریقت اور سیاست معاون نہ ہو تو تجربہ سے ثابت ہے کہ نفس شریعت سے وابستہ ہونے والا شخص دوسروں کی بات نہ ماننے والا بند کمرے کا تنگ نظر ملّاں ہوتا ہے
نیز اگر صرف طریقت ہو اور شریعت اور سیاست معاون نہ ہو تو پھر یہ دوسروں کو بند کمروں کے طرف کھینچتے ہیں جبکہ مریدوں کو بند کمرے میں کھینچنا اور معاشرتی راہ و رسم سے کاٹ کر صرف اپنا گرویدہ بنا دینا اسلام کی خدمت نہیں بلکہ رہبانیت ہے جس سے سختی سے منع کیا گیا ہے
بلکہ اسلامی تعلیمات تو یہ ہے کہ گھروں سے نکل کر محلوں، شہروں، صحراؤں اور روئے زمین کے چپے چپے کو مسخر کرنا ہے
لہٰذا شریعت اور سیاست کے بغیر صرف طریقت کی بھی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح صرف سیاست ہو اور شریعت اور طریقت نہ ہوتوپھر یہ سیاست تکبر اور غرور پیدا کریگی اور یہی تجربہ ہے کہ محض سیاست دان اپنے وقت کا فرعون ہوتا ہے
اس اصول کی بنیاد پر ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان اپنے اندر جامعیت پیدا کرنی ہوگی لہٰذا مدرسے ہو یا جماعت، خانقاہ ہو یا تنظیم ان میں اگر یکجاتیت ہوگی تو خود کام کرنے والے کی بھی اصلاح ہوگی اور تسخیر عالم کے منازل بھی بآسانی طے ہونگے اور یوں یہ جماعت ادخلوا فی السلم کافۃً کی جیتی جاگتی تصویر ہوگی۔
تحریر مفتی رفیع اللّٰہ
سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام تحصیل چارباغ ضلع سوات
ایک تبصرہ شائع کریں