ڈیرہ اسماعیل خان سربراہ پی ڈی ایم قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی 24 نیوز کے نمائندے ساجد بلوچ سے گفتگو 26 ستمبر 2021


 ڈیرہ اسماعیل خان سربراہ پی ڈی ایم قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی 24 نیوز کے نمائندے ساجد بلوچ سے گفتگو

26 ستمبر 2021

دیکھیے مسئلہ ہے اصولی ہم پی ٹی آئی کی اکثریت کو تسلیم نہیں کرتے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اس وقت پی ڈی ایم کا ایک متفقہ موقف رہا ہے کہ یہ دھاندلی کی پیداوار حکومت ہے۔ اس لحاظ سے یہ جاٸز حکومت نہیں، اور اگر کوئی ادارہ بھی ان کو سپورٹ کررہا ہے تو وہ بھی ہمارے نظر میں مجرم ہے۔ جو دھاندلی سے آئی ہو ان کو حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ ہمیں منصفانہ انتخابات کے لیے قانونی مسودے بناکر دے۔ انتخابی اصلاحات ہمارے لیے کرے۔ مشینیں بناکر ہمیں دے اور ہمیں کہیں کہ یہ ایک منصفانہ انتخاب کی ضمانت ہے۔ تو اصولی طور پر میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حکومت کے نا ترمیمی مسودات نا قانون سازی کو اور پھر ان کے ساتھ اس موضوع پر اسمبلی کے اندر بھی کسی بھی کمیٹی میں بیٹھنے کو اپنے اصولوں کی نفی سمجھتا ہوں۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ ہم پی ڈی ایم میں کریں گے۔ تمام دوستوں کے ساتھ شیٸر کریں گے اپنے سوچ کو اس فکر کو، انکی بھی سنیں گے اور اپنی بھی بات کریں گے۔ اور اگر یہ حکومت ہم پر اپنے اصلاحات ایمپوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس کے پیچھے کچھ قوتیں ہیں جو آئندہ کے لیے دھاندلی کے منصوبے کو ہم سے منوانا چاہتے ہیں اور اسکو قانونی جواز دینا چاہتے ہے۔ تو پھر میں اپنے دوستوں کے سامنے اس تجویز کو بھی رکھونگا کہ کیوں نہ ہم اسطرح کے الیکشن کا ہی بائیکاٹ کرے۔

کیا ضرورت ہے ہم لوگوں کو بھی خوار کرے خود بھی خوار ہو، اور اسکے باوجود بھی نتائج جو ہے وہ کسی کے خواہش کے تابع ہو کسی کے مرضی کی تابع ہو، اور عوام کی مرضی دھری کی دھری رہ جاٸے۔ تو اس طرح بائیس کروڑ انسانوں کا ملک ہے یہ اور پھر بہت بڑی مسلمان اکثریت کا ملک ہے، اس قوم کے ساتھ بند کمروں کے اندر منصوبہ بندی کرکے مذاق اڑایا جائے ان کی رائے کا، ہم کیوں اپنے ورکرز اور عوام کو خوار کرے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کا سوال ہے حضرت الیکشن کمیشن نے 37 اعتراضات اٹھائے ہیں اس کے اوپر، اور اس نے پبلک کیے ہیں ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی بند کمرے میں کٸے ہیں، اور بڑا اک جراتمندانہ انہوں نے اس حوالے سے اپنا سٹاف دیا ہے۔ لہٰذا اب ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ان کو بھی جب پبلش ہوگٸے ہیں تو حکومت کے ساتھ کسی بند کمرے میں معاملات طے کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اب فیصلہ سیاسی لوگ کریں گے سیاسی جماعتیں کریں گی۔ ہم چیف الیکشن کمیشن کے اس ٹاسک کو جراتمندانہ سمجھتے ہے اسکی تحسین کرتے ہے۔ لیکن اس پر ان سے استقامت کا بھی تقاضہ کرتے ہیں، اور یہ نہیں کہ پچھلے الیکشن میں دھاندلی کس نے کی اور گالیاں الیکشن کمیشن کو ملتی رہی۔ اب پھر بھی ایسے حالات پیدا کیے جائے کہ ہم دھاندلی دھاندلی کرتے رہے اور مورد الزام الیکشن کمیشن کو ٹہرایا جاتا رہے گا۔ لہٰذا الیکشن کمیشن نے بھی اپنا اعتماد بحال کرنا ہے، پچھلے الیکشن میں جو الیکشن کمیشن کی بے بسی نظر آئی اور اس سے پہلے بھی بے بس نظر آتی رہی ہے اور اب بھی کوئی ذیادہ خودمختار الیکشن کمیشن پاکستان میں نہیں ہے کہ وہ تمام نتائج اور انتخابی نظام اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔ لہٰذا ہمیں ایک مستحکم مظبوط خودمختار الیکشن کمیشن چاہیے جس پر پاکستان کا نہ کوئی فرد نہ منصبدار نہ ادارہ اثرانداز ہوسکے۔ اس میں ہم ان کے ساتھ ہے لیکن ہر ایسی چیز جو آئیندہ ایک بار پھر ہمیں دھاندلیوں کی طرف اور ان ناجائز حکومت سازیوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا تو ہمیں اسکی مزاحمت کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ میں یہ پھر تجویز کروں گا اپنے دوستوں کے سامنے رکھوں گا الگ الگ فیصلے نہیں کریں گے ہم کہ پھر ایسے الیکشن کا ہی بائیکاٹ کیا جاٸے۔ کیا ضرورت ہے کہ ہم اس قسم کی ایک ریاضت ایک مشق ایک ایکسر سائز اس سے گزرے اور اسکا کوئی فائدہ قوم کو نہ ہو۔

میرے خیال میں صرف چیرمین کی بات نہیں ہے۔ یہ موضوع بحث کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہے۔ چیرمین نیب ایک فرد ہے بات تو ادارے کی ہے ادارہ اسٹبلشمنٹ کی کنٹرول میں ہے، وہ جس کو چاہے اس کے خلاف کیس بنواو، اسکے خلاف تلاش کرو، اور انکے اثاثے تلاش کرو، دوست تلاش کرو انکے فرنٹ مین تلاش کرو، اور صرف ایک ہی پارٹی ہے پی ٹی آئی اور اسکا لیڈر عمران خان جس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہے چور کہہ دے اور پھر وہ چور ہوجاٸے۔ سارا ملک کھا لے، بیڑہ غرق کرکے رکھ دے، عام آدمی کے پیٹ سے نوالہ چھین لے، لوگوں کو فاقوں کے ہاتھوں خودکشی پر مجبور کردے۔ گرانی، مہنگائی، ٹیکسز کیا کیا بلاٸیں ، نہ باہر کا کوئی پاکستانی پاکستان پر اعتماد کرنے کو تیار ہے ترسیلات بند ہوگٸی ہے ٹیکس دینے کو کوئی عام آدمی تیار نہیں اسٹیٹ پر اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود ان کے زبانوں پر کوئی آئے کہ فلاں چور ہے وہی چور ہے۔ اسی کو اچھالا جاتا ہے، اور اب تو ان کے اپنے جو کارکن ہے جنہوں نے دنیا کو چور کہا ہے آپ تو ان کو روزانہ سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہونگے انکو چور چور کہہ رہے ہیں۔ اپنے اوپر لعنتیں بھیج رہے ہیں کہ ہم نے کیا لعنت کی تھی۔ ابھی میرے سامنے سے یہ میرے گھر کے سامنے ایک پی ٹی آئیی کا جیالہ وہ بیچارہ پریشان کہ ہم نے کیا کیا ہم نے تو اس لحاظ سے کیا تھا اُس لحاظ سے کیا تھا۔ تو یہ چیزیں حضرت آپ عام آدمی کو ایک چکمہ دیتے ہیں ایک ان کے سامنے ایک خوبصورت باغ کا ایک تصویر پیش کرتے ہیں پیچھے حقیقت کچھ نہیں ہوا کرتی۔ تو تصورات کی دنیا میں کب تک قوم کو زندہ رکھا جاٸے گا۔ یقیناً ایک چیلنج ہے اگر ہم بھی اقتدار میں آئیں گے تو اس حکومت کے گزرنے کے بعد اس ملک کو اٹھائیں گے کیسے یہ ہے فکرمندی والی بات اب، لہٰذا اس ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے انہوں نے، اور نیب بیچارہ وہ تو ہے ہی کٹھ پتلی ادارہ اسکا تو خاتمہ ہونا چاہیے چہ جائے کہ ہم چیرمین پر بات کرے، یہاں پر ہمیں بات کرنی چاہیے یہ ادارہ نہیں ہونا چاہیے۔

دیکھیے افغا ن ستان کی صورتحال یقیناً قابل توجہ ہے، اور عالمی برادری کے لیے قابل توجہ ہے، وہ قوم جو چالیس سال سے حالت جنگ میں ہے چالیس سال سے جی، روس کے خلاف، پھر انکی اپ کی لڑائیاں، پھر ایک ط ال ب ان کا دور، پھر بیس سال امریکہ سے لڑائیاں نیٹو سے لڑاٸیاں۔ پورا افغا ن ستان جو ہے اس وقت کھنڈر ہے کھنڈر، اور ایک کھنڈر ملک اس وقت ط ال ب ان کو ملا ہے۔ اب یہ تو نہیں کہ فتح یابی کے اگلے دن افغا ن ستان جو ہے وہ سرسبز و شاداب بن جائے اور ہر گھر میں گھی اور شہد کی نہریں بہنے لگ جاٸے۔ ابھی اس کو بنانا ہے، عالمی برادری نے اس ملک کو تباہ کیا ہے، نیٹو نے اس ملک کو تباہ کیا ہے، امریکہ نے اس ملک کو تباہ کیا ہے، اس ملک کو آباد کرنے کی ذمہ داری بھی اب انہی کے اوپر ہے۔ کہ وہ افغا ن ستان پر اتنا خرچ کریں کہ افغا ن ستان بن جائے۔ ایسے شرائط رکھنا طا ل ب ا ن کے سامنے کہ دوحہ معاہدے سے تجاوز ہو اس میں اضافہ ہو، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، اور ہم نے ان سے کہا ہے کہ اپ جو شرائط رکھ رہے ہیں ایک تو اس امن معاہدہ میں اضافہ ہے۔ آپ انسانی حقوق کی بات کرتے ہے آپ خواتین کی حقوق کی بات کرتے ہیں، انکی تعلیم کی بات کرتے ہیں، اداروں میں انکی ملازمتوں کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ طا ل ب ا ن ابھی حالت جنگ میں ہے، اور پھر جو سخت گیر قسم کے لوگ جو مورچوں میں رہے ہیں اور بیس سال مورچوں میں لڑ کر اترے ہیں ظاہر ہے کہ اس ماحول پر ان کے اثرات غالب ہے۔ لہٰذا پہلے امن کا استحکام، اس سے آگے بڑھے پھر سیاسی استحکام، ایک نظام وہاں پر موجود ہونا۔ پھر اس سے آگے جائے تو پھر ان کی معیشیت اور اسکے مستقبل کو معاشی لحاظ سے مستحکم کرنے کی بات کرے۔


ضبط تحریر: سہیل سہراب 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments