پارلیمانی لیڈر مفتی اسعد محمود صاحب کا قومی اسمبلی میں بیان تحریری شکل میں 29 ستمبر 2021


 پارلیمانی لیڈر مفتی اسعد محمود صاحب کا قومی اسمبلی میں بیان تحریری شکل میں

29 ستمبر 2021

 شکریہ جناب سپیکر، بل کے حوالے سے اپوزیشن کا موقف، مسلم لیگ کا موقف، پیپلز پارٹی کا موقف، جمیعت علماء اسلام کا موقف، یہ ان کروڑوں ووٹرز کا موقف ہے جو کچھ عرصے سے انتخابات کے حوالے سے ترمیمی بل زیر گردش رہا۔ میڈیا کے اندر اس بل کے حوالے سے ذہن سازی کرنے کی کوشش کی حکومت نے، اس پر ایک رائے جو بل کی صورت میں حکومت نے ترمیمی بل کی صورت میں حکومت نے پیش کی، جس پر الیکشن کمیشن نے اعتراضات اٹھائے۔ اپوزیشن کے موقف کی تائید کرتے ہوئے جب یہ اجلاس بلایا گیا روز اول سے اس کے ایجنڈے پر یہ ترمیمی بل تھا۔ اپوزیشن چیمبر میں آپ سے اراکین اپوزیشن نے بات کی اور اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا موقف آپ کو پیش کیا گیا۔ آپکی طرف سے میری معلومات یہ ہے آپ اس کو رد بھی کرسکتے ہیں اور اس پر اتفاق بھی کرسکتے ہیں، کہ آپ کے یہ الفاظ تھے کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں اس پر کیا کروں؟ کمیٹی بنادوں پارلیمانی کمیٹی بنادوں؟ اس کے بعد اپوزیشن جماعتيں آپ کے پاس آئی، انہوں نے کمیٹی کے حوالے سے روایات کے مطابق جس طرح ماضی میں ایک کمیٹی آئینی اصلاحات کے حوالے سے، یا انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو روایت اس پارلیمنٹ کی ہے اسکو ایڈاپٹ کرتے ہوئے اس ترامیمی بل میں کمیٹی کے تشکیل پر آمادگی کا آپ کو کہا۔ حکومت کی طرف سے منسٹر صاحب کی رائے یہ تھی کہ نہیں جو دو الیکشن بلوں میں ایکٹ کے ترامیم کے لیے قومی اسمبلی سے بل پاس ہوئے پھر سینیٹ میں وہ پاس نہ ہوسکے صرف اس حوالے سے آپ اس میں کمیٹی بنائے۔ جمعیت علماء اسلام کا موقف اس میں دیگر پارٹیوں کے ساتھ اس حوالے سے اتفاق اصولی طور پر کرتے ہیں، کہ اگر روایات کے مطابق ایسی پارلیمانی کمیٹی جس میں تمام پارٹیوں کی نمائندگی ہو، جس میں کنسنسیز کے ساتھ ایک ترمیمی بل وہ آئے جس میں الیکشن کمیشن سے رائے لی جائے، یا متعلقہ ادارے کی جو خود جس نے الیکشن کروانے ہے اسکے جو تحفظات ہے تمام اس کمیٹی کے سامنے مرحلہ وار اس بل پر اصلاحات کے حوالے صرف یہ دو ترامیم نہیں بلکہ مکمل طور پر اصلاحات پر ہر پارٹی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کیا تجاویز پیش کرتی ہے کیا رائے دیتی ہے۔ دوسرا یہ کہ کمیٹی کنسنسیز کے ساتھ جب تک کنسنسیز پیدا نہیں ہوجاتا، حکومتی پارٹی اور اپوزیش پارٹی کے درمیان تب تک اس کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جائے گا، تاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ انتخابی طریقہ کار پر اتفاق کرسکے جس پر پوری قوم مطمئن ہو، لیکن یہ مذاکرات شروع تھے اور یہ سلسلہ چل رہا تھا، بجائے اس کے کہ جمعیت علماء اسلام کا اس پر اصولی موقف یہ ہے، کہ ہم ایک ایسے حکومت کے ساتھ جو خود دھاندلی کے ذریعے حکومت اور اقتدار میں آئی ہے، چور دروازے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، ہم چوری کا راستہ نہیں روک سکتے، لیکن ہم نے اس پر اپوزیشن کو یہ اعتماد اور یقین دلایا تھا کہ اگر آپ روایات کے مطابق ایک اصولی موقف حکومت سے منوا لیتے ہیں تو تمام پارٹیوں کے تجاویز کو قبول کیا جائے گا۔ اُس پر اس پارلیمانی کمیٹی میں بات کی جائے گی اگر اس پر کنسنسیز پیدا ہوجاتا ہے ہم اپوزیشن کو اپنی طرف سے یہ مینڈیٹ دے سکتے ہیں کہ ہم اس پر بات کرسکتے ہیں، لیکن آج صبح جب کل، بلکہ ہمیں اطلاع کی گئی کہ اپوزیشن چیمبر میں دو بجے آپ کے ساتھ مشاورت ہوگی اپوزیشن جماعتیں آپ کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ ابھی ہم مشاورت کے مرحلے میں ہے کہ آپ کے دفتر سے ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ اسد عمر صاحب منسٹر ہے، ان کو میں بلاتا ہوں اور پھر میں آپ کو جواب دیتا ہوں۔ خود غالباً کوئی آدھا گھنٹہ انتظار میں نے کیا، مجھ سے پہلے میرے ساتھیوں نے کافی ٹائم وہاں انتظار کیا، ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔ جب ایک چیز کے بارے میں آپ کا چیمبر کردار ادا کررہا ہے اور آپ کردار ادا کررہے ہیں، آپ کی طرف سے ایک کوشش جاری ہے، اپوزیشن کی تمام پارٹیاں آپس میں مشاورت کررہی ہے، کہ اگر سپیکر صاحب اس میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس پر ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ لیکن ہمیں ایجنڈہ ملتا ہے اجلاس کا اور اس میں تحریک پیش کی جارہی ہے کہ جوائنٹ سیشن میں ہم بل پیش کریں گے اور اسکو پاس کریں گے۔

جناب سپیکر! اس طرح میرے اکابر پارلیمنٹیرین، جنہوں نے طویل عرصے سے پاکستان میں انتخابات لڑے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح متنازعہ قانون سازی (سپیکر کے الفاظ: میں ان شاء اللہ اپنی یہ پوری کوشش رکھوں گا میرا جو رول ہے میں کسٹوڈینٹ آف دی ہاوس کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا آگے بھی کروں گا، باقی حکومت اور اپوزیشن کی اپنی انڈرسٹینڈنگ ہے ایک چیز پر ایگری ہوتے ہے تو ہوتے ہے، نہیں ایگری ہوتے تو نہیں ایگری)

جناب سپیکر! میں گزشتہ اجلاس کے حوالے سے آپ کو وہ چیزیں نہیں بتانا چاہتا، نہ ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں یہاں آپ سے ایک ڈیمانڈ کرتا تھا آپ مجھے وہاں سے جواب دے دیتے، میں آپ کی باتوں کی نفی نہیں کرنا چاہتا نہ ماضی کو دہرانا چاہتا ہوں بلکہ ریکارڈ پر موجود ہے پارلیمان کے، کہ ان تمام چیزوں پر جو گفتگو آپ کی اور جو ان خدشات کا اظہار یہاں سے ہم نے کیا تھا، آپ نے اس پر ہمیں تسلی دی تھی۔ آج مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایک کمیٹی بنائی گئی، وہ کمیٹی ابھی تک موجود ہے، ابھی تک اس کمیٹی کی رپورٹ نہیں آئی، اور اس سے پہلے پہلے ازسر نو یہ چیز پارلیمنٹ میں آگئی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس پر آپ رائے نہیں دے سکتے کیونکہ حکومت کا بل ہے ہم یہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اس پارلیمنٹ میں جن لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اسکا نام ہے پاکستانی قوم۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، پاکستان میں تین سال تحریک چلی اس دھاندلی کے خلاف، (حذف شدہ الفاظ)۔ پاکستان میں تحریک چلی تین سال اب تک تحریک چل رہی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ حکومت جعلی ہے، اس حکومت کا مینڈیٹ جعلی ہے۔

جناب سپیکر! میں اس وقت بھی اس بل پر جو رائے دینا چاہتا ہوں، میں آپ کو درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس میں کردار ادا کریں، اسطرح متنازعہ قانون سازی کو روکے ورنہ جس طرح خواجہ صاحب نے فرمایا اور میں اس پر کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں، یہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو یہاں اقدام کیا جارہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک میں ہنگاموں کی بنیاد رکھی جارہی ہے، ملک کے اندر افراتفری کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ آج جس طرح تمام دیگر اداروں کو متنازعہ بنایا گیا اور اسطرح الیکشن کمیشن کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ آپ مجھے بتائے کہ الیکشن حکومت نے کرانے ہے یا الیکشن کمیشن نے کرانے ہے؟ الیکشن کمیشن اس پر اعتراضات کررہی ہے اور آپ مطمئن نہیں کررہے۔ آپ اپوزیشن کو اصلاحات کی بات کرتے ہیں، آپ کل کہیں گے کہ اپوزیشن اصلاحات کے لیے بات نہیں کررہی۔ 

ضبط تحریر: سہیل_سہراب

ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat




0/Post a Comment/Comments