سانحہ سیالکوٹ: قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی سلیم صافی سے گفتگو تحریری شکل میں 04 دسمبر 2021


 سانحہ سیالکوٹ: قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی سلیم صافی سے گفتگو تحریری شکل میں

 04 دسمبر 2021۔

سلیم صافی : حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب یہ جو سیالکوٹ کا اندوہناک اور افسوس ناک واقع ہوا اور یہ سب کچھ رحمت اللعٰلمینﷺ کے مقدس نام پہ ہورہا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے؟

مولانا فضل الرحمن صاحب : دیکھیے جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے اس سے ملتے جلتے واقعات جو اب تک ہوئے ہیں یہ جناب رسول اللہﷺ سے محبت کی علامت نہیں ہے اور نہ ہی اسلام کی اس طرح تعلیمات ہے - 

رسول اللہﷺ کی توہین کا الزام کسی پہ لگانا یہ بہت بڑا الزام ہے، یہ کوئی معمولی الزام نہیں ہے، اور اُس کے لٸے پھر اسی درجے کا ثبوت بھی ہونا چاہیے تاکہ پھر اس کو قرار واقعی سزا دی جاسکے، لیکن اگر ہر شخص خود اٹھ کے جذبات میں اور کہے کہ میں نے حب رسول میں ایسا کیا ہے تو اسی سے پھر انارکی پیدا ہوتی ہے، اسی سے پھر مشکلات پیدا ہوتے ہیں، ہر ایک کے اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں ہر ایک اپنے معیار پر اقدامات کرتا ہے جس سے نظم و ضبط ٹوٹ جاتا ہے، تو نظم ریاست کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو قانون کو نافذ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، معاملہ اس کے پاس جانا چاہیے۔

 ہمارا آئین جو ہے وہ جناب رسول اللہﷺ کے ناموس پہ تحفظ کی ضمانت مہیا کرتا ہے، انسداد توہین رسالت کا باقاعدہ اس حوالے سے ایک آٸینی فیصلہ موجود ہے، تو چوں کہ ہمارے ہاں مشکل یہ ہے کہ ریاست اس حوالے سے کوتاہی کرتی ہے، ماضی میں کتنے واقعات ہوئے کہ جس میں ریاست نے ایسے فیصلے دے دیے کہ جس سے اشتعال پیدا ہونا اور عوامی حلقوں میں اس کے خلاف ایک رد عمل آنا یہ فطری چیز ہوجاتی ہے۔

سلیم صافی : مثلاً کس طرح کے اقدامات یا فیصلے ؟

مولانا فضل الرحمن صاحب : جس طرح ہم نے ناموس رسالت کے توہین کے مرتکب لوگوں کو جس طرح رہائی دی ہے، لیکن میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ نہ تو افراد کو خود اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اقدام کرے اور نہ ریاست جو ہے اس سے بری الذمہ ہوسکتی ہے کہ وہ اقدام نہ کرے تو پھر پبلک میں کہی تو اشتعال کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے، اس طرح کوئی شخص اشتعال میں کسی کو قتل کردیتا ہے یا اپنے بھاٸی کا وہ انتقام لیتا ہے یا باپ کا انتقام لے لیتا ہے، جب کہ قانون موجود ہے کہ سرکار اس کو کیسے سزا دے سکتی ہے، جب ریاستی سطح پر کوتاہیاں ہوتی ہیں تو پبلک میں پھر اس قسم کی چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں، ہمیں مجموعی طور پر اس پورے معاملے کی اصلاح کی ضرورت ہے ورنہ اس قسم کے اقدامات جو منظر عام پر آتے ہیں، وہ اسلام کا ایک ایسا چہرہ پورے عالمی برادری کے سامنے رکھ لیتا ہے کہ جس سے ہم نے جتنی محنت کی ہوتی ہے اس پر پانی پھیر جاتا ہے۔

سلیم صافی : مولانا صاحب ایک چیز ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملی ہے کہ لوگوں کی ذاتی رنجشیں ہوتی ہے یا پھر کوئی ذاتی سکور سیٹل کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بندے پر توہین رسالت یا توہین قرآن کا الزام لگا دیتے ہیں تو یہ بہتر نہیں ہوگا کہ قذف کا جو شرعی قانون ہے وہ توہین رسالت کے قانون کے ساتھ بیعتی کیا جائے تاکہ اگر کوئی جھوٹا الزام لگائے تو اس کو بھی وہی سزا ملے جو توہین رسالت کے مرتکب مجرم کو ملتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن صاحب : نہیں قذف تو حدود میں شامل ہے جب کہ یہاں پر تو فقہا کے آرا کو دیکھنا پڑے گا ان کے اجتہاد کو دیکھنا پڑے گا کہ توہین رسالت کے مرتکب کو جو ثابت ہو جائے کہ اس نے توہین کی ہے تو اس کو جو سزا دی جائے گی وہ ارتداد کی بنیاد پر دی جائے گی یا یہ کہ حد کی بنیاد پر دی جائے گی، تو وہاں پر ہمیں اپنے نظریاتی کونسل کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے تاکہ ہم اس بات کا تعین کرسکے کہ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، وہاں پر تمام علما تمام مکاتب فکر کے لوگ موجود ہوتے ہیں اور وہاں اک ایسا اتفاق رائے پیدا کرلیا جاتا ہے کہ جو پبلک کے لئے بھی قابل قبول ہوتا ہے۔ اگر اس طرح ہم ایک ایک اپنے رائے دیتے رہے، لیکن یہ ہے کہ حد و تعذیر میں فرق ہونا چاہیے اور یہ کہ حد اور قصاص میں فرق ہونا چاہیے۔ یہ ساری چیزیں جب ہم کبھی خلط ملط کر لیتے ہیں تو ایک کی سزا  ہم دوسری جگہ نافذ کرلیتے ہیں دوسرے کی سزا ہم تیسری جگہ نافذ کرلیتے ہیں۔ تو ان چیزوں کے لئے علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسلامی نظریاتی کونسل ہمارا ایک بہترین فورم ہے، اس وقت آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت کی رو سے فیصلے دینے کے لٸے جو شرعی عدالت موجود ہے وہ فیصلے تو دے رہا ہے لیکن شریعت بورڈ موجود نہیں ہے، اس کے اندر جو ججز کی تعداد ہے وہ بہت ہی معمولی رہ گئی ہے اس پوزیشن میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان میں شریعت بورڈ موجود ہے تو یہ بورڈ بھی مکمل ہونا چاہیے تاکہ اس طرح کے مقدمات اگر ان کی طرف جائے تو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح فیصلے دے سکے۔

سلیم صافی : جناب فضل الرحمن صاحب ہمیں وقت دینے کا بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#Teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments