پشاور قبائلی زعماء اور تاجروں کے مشترکہ جرگہ سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب اور انٹرویو 22 مٸی 2022


پشاور قبائلی زعماء اور تاجروں کے مشترکہ جرگہ سے قاٸد جمعیت کا خطاب اور انٹرویو تحریری صورت میں
 22 مئى 2022
بسمہ اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
کافی عرصے کے بعد قباٸلی زعماء کی اِس مجلس اور اِس جرگے میں شریک ہورہا ہوں، میں آپ تمام حضرات کا شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لاٸے اور آپ نے یہ مجلس منعقد کی اور مجھے کچھ بولنے کے لیے موقع فراہم کیا، میں حاجی محمد شاہ صاحب کا، جناب منظور آفریدی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اپنے گھر میں اہتمام کرکے ہمیں مل بیٹھنے کا موقع عنایت فرمایا۔
میرے محترم دوستو! ہم کس کس بات کو روٸے، دنیا میں سب سے بڑا پرچار جو ہوتا ہے جمہوریت کا ہوتا ہے، ملکی اور قومی معاملات میں عوام کی شراکت کی بات ہوتی ہے اور دوسری بات انسانی حقوق کی ہوتی ہے، لیکن ایک طویل زمانہ سیاست کے اِن غلام گردشوں میں گھومتے پھرتے کم از کم میں ذاتی طور پر اِس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ دنیا میں اگر کمزور ہے تو وہ جمہوریت ہے، دنیا میں اگر مظلوم ہے تو وہ جمہوریت ہے، پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے بنتے ہیں لیکن پوری دنیا میں غریب انسانيت کے حقوق پامال ہوتے ہیں، کمزور قوموں کے حقوق پامال ہوتے ہیں، پاکستان میں دیکھے عالمی اسٹبلشمنٹ جو دنیا میں چاہتی ہے وہ طاقت کے بَل بوتے پر کرتی ہے عوام کے منشا کے مطابق نہیں کرتی، دنیا کے جغرافیے کو تبدیل کرتے ہیں لیکن پبلک کو نہیں دیکھتے، اور آج اگر دنیا تقسیم ہے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں ہم بٹے ہوٸے ہیں اور مذید بانٹا جارہا ہے یہ تقسیم عالمی قوتوں کے مفادات کے لیے ہے یہ تقسیم عوام کے مفادات اور خوشحالی کے لیے نہیں ہے، لیکن لفظ جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے شراکت کے ساتھ، چھوٹے چھوٹے ممالک بناکر دنیا کو جغرافیاٸی طور پر تقسیم کیا جاتا ہے، نٸی نٸی سرحدیں بناٸی جاتی ہے، لیکن جب انسانی حقوق کا لفظ اٸے گا تو امریکہ اور مغرب کے لیے اِس کی کوٸی سرحدات نہیں ہے اسلام پر جس ملک میں چاہے اپنے فوجیں اُتار دے، لیکن پھر انسانی حق اور انسان کا خون بہتا چلا جاتا ہے، جتنا جتنا وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اتنا ہی انسان کا خون ارزان ہوتا چلا جاتا ہے، میں نے اِسی لیے کہا تھا کہ آپ اگر فاٹا کی ایک سو پچیس سال کی سٹیٹس کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس سٹیٹس کے تحت قباٸل کی چھ نسلیں گزر چکی ہیں اور اُن کی ایک خاص طرز زندگی وہ پختہ ہوچکی ہے اُن کے زندگیوں میں سراٸیت کرچکی ہے ان کی طبعیت ثانیہ بن چکی ہے، آج جب آپ اُن کو نٸے سٹیٹس میں لے کر جارہے ہیں تو کم از کم عوام سے پوچھ لو، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب میں قباٸلی عوام سے پوچھنے کی بات کرتا تھا تو طاقتور قوتیں میرے اِس لفظ کا مذاق اُڑاتی تھی اور میں نے اُن سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ آج قباٸل سے نہیں پوچھیں گے تو کل کشمیر ہڑپ ہو جاٸے گا اور ہ ن د و ست ا ن وہاں کشمیری عوام سے نہیں پوچھے گے، پاکستان کے استصواب راٸے کا مٶقف دھرا کا دھرا رہ جاٸے گا اور وہی ہوا، اگر اِس طرح بین الاقوامی طاقتیں جبر کی بنیاد پر کمزور قوموں پر اپنے فیصلے مسلط کرتی ہے اور ہمارے مقامی اسٹبلشمنٹ کو دباو میں لاکر اپنے ہی قوم پر جبری فیصلے مسلط کرتی ہے آپ بتاٸے پھر ایسی قوم کا مستقبل کیا ہوگا، آپ کیا حاصل کرسکیں گے۔
تو میں تو ظاہر ہے جو شکایتیں آپ آج کررہے ہیں میں نے اپنا حق ادا کیا ہے میں نے یہ ساری باتیں آپ سے کہی ہے، مجھ سے کہا گیا کہ مولانا صاحب آپ تو پارليمنٹ میں قبائل کے نمائندے نہیں ہے آپ کیوں قبائل کی بات کرتے ہے اور قبائل کے جتنے نمائندے ہے وہ تو سب ہمارے ساتھ ہیں تو میں نے اس وقت بھی اُن سے کہا تھا کہ قبائل کے اُنیس نمائندے ہیں صرف چار آپ کے ساتھ ہیں پندرہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن اُن پندرہ کے ہاتھ پاوں تم نے باندھے ہوٸے ہیں ابھی آپ ان کے ہاتھ پاوں کھول دے میں ابھی پریس کانفرنس کرکے اُن پندرہ آدمیوں کو پیش کرکے فاٹا انضمام کے خلاف اُن کا بیان دلواو گا، آج وہ بھی پشیمان ہے کہ ہم نے کیا کیا، مجھے کہا گیا کہ قبائل کا نوجوان چاہتا تھا، قباٸل کا یوتھ یہ چاہتا تھا، تو میں نے کہا قبائل کی یوتھ کی تین تنظیمیں ہیں اُن میں ڈھاٸی میرے ساتھ ہیں آدھی آپ کے ساتھ ہیں، آپ اُس آدھی کو اگے اگے کررہے ہیں اور ڈھاٸی تنظیمیں جو ہمارے ساتھ ہمارے مٶقف کی حمایت کررہے ہیں اُس کو آپ کیوں نہیں سننا چاہتے، اُس کو کیوں نظرانداز کررہے ہیں۔
تو یہ راٸے کا ایک اختلاف ہوتا ہے لیکن راٸے کے اختلاف کا فیصلہ عوام کرتی ہے، جب پارٹیوں کے اندر راٸے کا اختلاف ہوتا ہے تو پارٹی کا کارکن فیصلہ کرتا ہے، لیکن یہاں پر جبر کیا گیا آج ہر قبائلی پریشان ہے، جو بے گھر ہوچکے تھے ابھی تک اُن کو گھر نہیں ملا، اُن کے گھروں کا سامان اُن کو نہیں ملا، جو چھوڑ کے اٸے تھے جب واپس ہوٸے تو سب کچھ لُٹ چکا تھا، کس کس کو روٸے گھروں میں گلی کوچوں میں جنگل اُگ اٸے تھے اُس کے لیے بھی کہا گیا کہ خود کاٹو، آج کراچی سے لے کر گلگت تک قبائل پھیلا ہوا ہے، پنجاب میں قبائل پھیلا ہوا ہے ابھی بھی وہ اپنے گھر واپس جانے کے قابل نہیں رہا، یہ زیادتی کیوں کی گٸی کیوں سبز باغ دکھاٸے گٸے، ہر سال سو ارب روپے اور دس سال تک ایک ہزار ارب ہم دیں گے، پانچ سال گزر گٸے ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ پچاس سے ساٹھ ارب روپے کے درمیان پیسے ہمیں ملے ہیں، پچاس ساٹھ یا ستر ارب مِلا ہو مجھے کوٸی قبائلی بتادے کہ وہ پیسہ کس کو مِلا ہے، کہاں خرچ ہوا ہے، ہاں کچھ خاص خاص ایریاز ہیں اُن خاص ایریاز میں سڑکیں بھی بناٸی گٸی ہیں، اُن میں قلعے بھی بناٸے گٸے ہیں، اُن خاص علاقوں میں دو چار مساجد بھی بناٸی گٸی ہے، جب دنیا کے وفود اتے ہیں تو اُن کو وہی لے جاتے ہیں کہ دیکھو قبائل نے کتنی ترقی کرلی ہے اور یہ کُل قبائل کا ایک فیصد حصہ نہیں ہے، آج تک قبائلی علاقوں میں ایک انچ قبائلی زمین اُس کا پٹوار نہیں ہوا، وہ بندوبستیں نہیں بن سکی، پٹواری وہاں نہیں جاسکتا، وہاں پر زمین کی تقسیم نہیں ہوسکتی، چھ نسلوں سے جو زمین ہماری مٹی مشترک چلی ارہی ہے اُسے آپ کیسے تقسیم کریں گے، اور کیا یہ خصوصی سٹیٹس جو قبائل کو حاصل تھا دنیا میں کسی اور لوگوں کو حاصل نہیں ہے، ستر اَسی ممالک ہم گنوا سکتے ہیں کہ جہان اُن ملکوں کے اندر مختلف علاقوں کے سٹیٹس مختلف ہیں، لوگوں کی سہولت کے خاطر اُن کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دی جارہی ہے، لیکن ہم مظلوم ہیں میں نے جب کہا تو ہماری مذاق اُڑاتے تھے، قبائل کون ہوتے ہیں کہ ہم اُن سے پوچھیں گے تو نتیجہ کیا ہوا بلوچستان پاکستان میں بعد میں شامل ہوا آج تک وہاں پر اسٹبلشمنٹ کی حکومت ہے وہاں کے عوام کی نماٸندہ حکومت کی حیثیت نفی ہوا کرتی ہے، اور جب قبائل کی بات ہوگی لاکھ دفعہ آپ کا انضمام ہو لیکن وہاں د ہ ش ت گ ردی کے نام پر جو تنظیمیں ہیں وہاں پر جو بندوق کی سیاست ہورہی ہے یہ جاری رہے گی پھر اس کے خلاف اپریشن ہوں گے تاکہ پاکستان کے طاقتور قوتوں کو وہاں پر موجود رہنے کا جواز مہیا ہو۔
آپ جمہوری ہوا میں زندگی نہیں گزار سکیں گے بھلا آپ لوگوں کو منتخب کرے بھلا آپ کے منتخب نمائندے ہو، بظاہر نظر اٸیں گے لیکن جمہوریت کمزور رہے گی، مظلوم رہے گی، انسانی حقوق پامال ہوتے رہیں گے اور یہ چلتا رہے گا، اگر فیصلہ ہے ہوگیا، اگر آپ ناراض نہ ہو میں پرانی بات دہرادو پتہ نہیں آپ کی کیا راٸے ہوگی اُس وقت تو میری بات نہیں مانی گٸی جب میں نے کہا عوام سے پوچھ لو، قبائل سے پوچھ لو، ریفرنڈم کراو، آج تو پانچ سال گزر گٸے ناں تو آپ کو انضمام کا مزہ اگیا ہوگا ناں، اب تو انضمام کے ذریعے سے خوشحالی خوشحالی اچکی ہوگی ناں، اب تو قبائلی علاقہ فرانس کے برابر ہوتا نظر ارہا ہوگا، پیرس بن رہا ہوگا، چلو آج ریفرنڈم کرادو پتہ چل جاٸے گا کہ قبائلی عوام انضمام کو قبول کرتے ہیں یا اِس کو مسترد کرتے ہیں، پانچ سال گزر گٸے ہیں لوگوں پر جو بیتی ہے اگر وہاں کی خوشحالی اٸی ہے اور لوگ مطمٸن ہیں تو وہ کہیں گے
بسمہ اللّٰہ ہمیں انضمام قبول ہو ہمارے سر انکھوں پہ، کوٸی مسٸلہ نہیں ہے، لیکن فیصلے اگر عوام کی مرضی پہ ہو، عوام کی وہ مرضی جس کا حق اللّٰہ نے اُنہیں دیا ہے، جب اللّٰہ انسان کو ایک فیصلے کرنے کا حق دیتا ہے وہ حق ایک طاقتور انسان ان سے چھین لیتا ہے، تو بڑا اسان اگیا کہ جمہوریت مردہ باد، جمہوریت کفر ہے، اِس جہالت کا تو میرے پاس کوٸی علاج نہیں ہے۔
تو ہماری نظر میں یہ چیزیں ہیں، اب آپ کے پرابلمز اگٸے ہیں جو آپ کے انڈسٹریل مسائل ہیں آپ کے مراعات ہیں وہ آپ سے چھین لیے گٸے، تو اِسی صوبے میں گدون انڈسٹریل زون کیوں بیٹھ گیا، دی ہوٸی مراعات آپ نے اُن سے چھین لیے تب یہی مسٸلے پیدا ہوتے ہیں کہ یہ ظلم صرف ایک علاقے کے ساتھ کیوں ہوتا ہے، یہ زیادتی ایک زبان بولنے والوں کے ساتھ پاکستان میں کیوں ہورہا ہے، یہ زیادتیاں ایک خاص قومیت کے ساتھ کیوں ہورہی ہے، ظاہر ہے وہ نعرے لگاٸیں گے، چیخیں گے چلاٸیں گے اپنے حقوق کی بات کریں گے یہ پریشانی ہے، اب ظاہر ہے جو ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرگیا، انڈسٹری کو تباہ کرگیا، انڈسٹری تباہ ہوتی ہے تو پاکستان کی پیداواری صلاحيت گرتی ہے اور جب پاکستان کی پیداواری صلاحيت ختم ہوگی تو پھر آپ بتاٸے بازار میں کہاں سے مال اٸے گا، عام آدمی کے جیب میں اگر خرید کے لیے پیسہ ہو بھی تو مال نہیں ہے اور جب اٸے گا تو طلب زیادہ ہوگی رسد کم ہوگی مہنگائی بڑھے گی۔
تو اِس وقت یہ وہ مسائل ہے جو قبائل کے حوالے سے ہمیں درپیش ہیں، میں اب بھی آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے جو مساٸل ہے جب میں اُس وقت بھی آپ کے حق میں لڑ رہا تھا جب نواز شریف کی حکومت تھی اور ہم اُن کے اتحادی تھے، میں نے اِس بات کی پرواہ نہیں کی کہ میں کسی حکومت کا اتحادی ہوں تو اب میں اِس میں عوام کی بات نہیں کروں گا، میں اِس میں اختلاف راٸے نہیں کروں گا، اور ان شاء اللّٰہ اب بھی میں آپ کی آواز اپنی حکومت کے اقتدار کی ایوانوں تک پہنچاوں گا، اور میری پوری کوشش آپ کے ساتھ ہوگی، ہم جس طرح پہلے آپ کے صف میں تھے آج بھی آپ کے صف میں ہیں، ہم پہلے بھی آپ کی جنگ لڑ رہے تھے اب بھی آپ کی جنگ لڑیں گے اور آٸندہ بھی شانہ بشانہ قدم بہ قدم آپ کے ساتھ ہوں گے، اللّٰہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرماٸے۔
واخر دعوان ان لحمد للّٰہ رب العالمین

سوال و جواب
صحافی کے سوال پر جواب
میں ابھی فی الحال اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، لانگ مارچ جو ہم نے کی ہے کسی کا باپ بھی اُس کا ریکارڈ نہیں توڑ سکتا اور ان شاء اللّٰہ العزیز رات کو جو آپ نے جلسہ دیکھا یہ خواہ مخواہ اپنے سروں پر فرضی طور پر وہم کی بنیاد پر دباو مسلط کردینا اسلام اباد ارہے ہیں اسلام اباد ارہے ہیں اسلام اباد میں مکھیاں مارنے کے لیے اٸے گے، کون پاکستانی ہوگا جو ملک کی تباہی میں آج اُس کے ساتھ شریک ہوگا اور اسلام اباد جاٸے گا۔

صحافی کے سوال پر جواب
لانگ مارچ کی کوٸی اہمیت نہیں ہے، دو پیسے کی اہمیت نہیں ہے، میڈیا والوں میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں پہلے بھی آپ نے اِس کا دماغ خراب کیا اور اِس ملک کو یہاں پہنچایا اب دوبارہ اِس کا دماغ خراب کررہے ہو۔

صحافی کے سوال پر جواب
چار سال میں آپ نے اِن کی خرابیوں کو پاکستان میں یہاں تک دیکھا، چار سال کی خرابی کا اب ہم سے کہتے ہیں چار دن میں پورا کرو، یہ گند اُٹھاتے اُٹھاتے شاٸد اگلی حکومتوں کو بھی وقت لگے گا ملک یہاں تک پہنچ گیا ہے، دیوالیہ کے کنارے نہیں ہے میں کہتا ہوں ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، یہ تو اللّٰہ کا کرم ہے کہ ہم ابھی زندہ ہے اور اِس حالت میں ہم وقت گزار رہے ہیں، میں نے رات بھی آپ سے کہا کہ ڈالر دو سو روپے پہ جاٸے گا، یہ عمران کے حکومت کے پہلے روز اُن کے اپنے معاشی ماہرین نے یہ بات کی تھی اور آج اُنہی پالیسیوں کے تسلسل کے اثرات ابھی تک جاری ہے، اثرات ابھی رہیں گے، اور ہم نے جلسوں میں کہا تھا کہ ہم حکومت کو سنبھال لے گے لیکن سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ اِس ملک کو دوبارہ کیسے اٹھایا جاٸے گا، یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور اِس میں ہمیں پبلک کی سپورٹ چاہیے، حوصلہ افزاٸی چاہیے، اِس قسم کے سوالات نہیں کہ پھر آپ حکومت کیوں نہیں چھوڑ رہے، ایسی باتیں منہ سے نکالنا اسان بات ہے، تو یہ باتیں سنجیدگی کے ساتھ دیکھنی ہوگی خدا کے لیے میڈیا کی دنیا کو میں کہنا چاہتا ہوں ذرا اپنے گفتگو میں سنجیدگی پیدا کرلو، وقار پیدا کرلو، وزن پیدا کرلو۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھیے میں گزارش کرتا ہوں ملک ہم سب کا ہے اگر ملک ڈوبتا ہے تو عوام کا نہیں ڈوبتا ہے فوج کا بھی ڈوبتا ہے، اگر ملک ڈوبتا ہے تو بیوروکریسی کا بھی ڈوبتا ہے، فضاٸیہ کا بھی ڈوبتا ہے، بحریہ کا بھی ڈوبتا ہے، بَری کا بھی ڈوبتا ہے، یہ ملک ہم سب کا ہے، ہم آج یہی بات کہہ رہے ہیں کہ ملک کی اس مشکل میں سیاست دان ہو یا ادارے ہو دونوں کو ایک پیج پر مشترکہ اور متفقہ کردار ادا کرنا ہوگا، کوٸی بالادستی کا احساس دلانے کی کوشش نہ کرے، طاقتور ہونے کی احساس دلانے کی کوشش نہ کرے، جمہوریت کو کمزور ہونے کا اور کمزوری کا احساس نہ دلاٸے، انے والے مستقبل میں ہم نے کچھ صورتحال کو بہتر بنانے کی طرف جانا ہے، دنیا اس وقت آپ کا ساتھ دینا چاہتی ہے، مجھے پتہ ہے چاٸنہ آپ کو سرکاری طور پر خط لکھ چکا ہے کہ ہم پاکستان کے مختلف شعبوں میں آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں اور تمام محمکوں میں ایگریکلچر، مواصلات، ہاوسنگ کہاں کہاں وہ آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں تو ہمیں حالات بنانے چاہیے کہ وہ میدان میں اٸے۔
صحافی کے سوال پر جواب
اِسی پہ لگے ہوٸے حضرت، یہ ایک دن میں نہیں ہوتا، ہم پہلے قدم سے اپنے کام کا اغاز کرتے ہیں اور میڈیا اخری قدم پہ ہم سے سوال کرتی ہے تو یہ تھوڑا سا مسٸلہ آپ کا اور ہمارا ہے۔
صحافی کے سوال پر جواب
ابھی تو حکومت نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ بقیہ جو مدت ابھی باقی ہے اِس کو پورا کریں گے۔
صحافی کے سوال پر جواب
میرے خیال میں پتہ چل گیا ہے کہ کتنا بڑا بہادر آدمی ہے اور آپ کو پتہ ہے یہ کہاں پر رہ رہا ہے گھر میں رہ رہا ہے گھر میں (ہنسی کے ساتھ )
بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#Teamjuiswat 

0/Post a Comment/Comments