قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز پر سلیم صافی کے ساتھ جرگہ پروگرام میں انٹرویو 02 اکتوبر 2022

پی ڈی ایم کے سربراہ و امیر جمعیت علماء اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز پر سلیم صافی کے ساتھ جرگہ میں مکمل انٹرویو

 02 اکتوبر 2022

👈سلیم صافی: بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

ناظرین کہتے ہیں کہ ہم میڈیا والوں کو اپوزیشن والے اچھے لگتے ہیں، تو اُس کی ایک وجہ بھی ہے ایک تو ہمارا کام بنیادی طور پر تنقید کرنا ہے اور غلطیاں نکالنا ہے، لیکن اِس میں ہمیں ایک سماجی مسٸلہ بھی آجاتا ہے، اب مثلاً مولانا فضل الرحمٰن صاحب ہمارے محترم ہے، اپوزیشن کے دنوں میں ہمیں انٹرویوز کے لیے بھی دستیاب ہوتے تھے، گپ شپ کے لیے بھی دستیاب ہوتے تھے، پینٹا کھلانے کے لیے بھی دستیاب ہوتے تھے، لیکن جب حکومت میں پھنس گٸے ہیں تو پھر ہاتھ نہیں آرہے تھے اور بڑی مشکلوں کے بعد کٸی مہینے بعد مولانا صاحب کو ہم نے انٹرویو کے لیے مجبور کرلیا ہے، مولانا صاحب وقت دینے لیے بہت شکریہ اور سب سے پہلے مجھے کھلا تضاد نظر اتا ہے یہ جو اسمبلیاں ہے میں بھی اِن کو جعلی کہتا تھا، آپ بھی اِن کو جعلی کہتے تھے، الیکشن میں جو کچھ ہوا، آر ٹی ایس کو جس طرح فیل کیا گیا، پولنگ ایجنٹوں کو نکالا گیا، باقی سب کچھ، تو اِس اسمبلی کی اور اِس کی تو کوٸی کریڈیبیلٹی نہیں ہے یا سینیٹ کی، آپ لوگ جعلی اسمبلی کو دوام کیوں دینا چاہتے ہیں اور فری اینڈ فیٸر الیکشن سے ڈرتے کیوں ہیں ؟

👈مولانا فضل الرحمٰن : بلکل آپ نے بجا فرمایا اُصولی طور پر ہم نے 2018 کے الیکشن کو تسلیم نہیں کیا اور اِن اسمبليوں کو بھی ہم نے تسلیم نہیں کیا، لیکن چوں کہ ملک کی سیاست میں تنہا ہم نہیں لڑ رہے تھے، ہم عدم اعتماد اور اسمبليوں کے اندر تبدیلی لانے سے اُصولی طور پر اختلاف رکھتے تھے، اور اکثریت جو ہے جب دوسری جماعتيں بھی اکر مل گٸی تو پلڑا اُس ساٸیڈ کا بھاری ہوگیا کہ اب ایوان کے اندر تبدیلی کے چوں کہ امکانات زیادہ واضح ہیں تو بھی ہم نے عدم اعتماد میں پی ٹی آٸی کے لوگوں کا ووٹ نہیں لیا، اور جو پولیٹیکل فورسز تھی اور اُن کی باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹیاں تھی دوسری اتحادی، تو جس طرح پہلے سے مینگل صاحب اگٸے تھے وہ تو کافی عرصہ پہلے اگٸے تھے، اِس موقع پر جو بقیہ دو چار پارٹیاں جو ہے ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور دوسرے اٸے، تو یہ جو ایک ماحول بن گیا اور اس ایک طرف پورے ملک میں عمران خان کی کارکردگی سے لوگ مایوس تھے اور اُس کو ہر قیمت پر جلد از جلد اتارنے کی توقع اور تمنا رکھ رہے تھے تو وہ جو معروضی کیفیت تھی اور معدودی ضرورت تھی وہ غالب اگٸی، اور پھر ظاہر ہے کہ اِس وقت اتحاد کو توڑنا، اُس سے الگ ہونا وہ شاٸد پھر اُس عنصر کو زیادہ تقویت دیتا جس سے قوم نجات حاصل کرنا چاہتی تھی، تو اُن حالات میں پھر جو سب دوستوں نے سوچا ۔

سلیم صافی : لیکن جس عنصر سے قوم نجات چاہتی تھی وہ عنصر یعنی پی ٹی آٸی تو پاپولر ہوگٸی، نہ آپ لوگوں سے عمران خان قابو ہورہے ہیں، نہ ڈالر قابو ہورہے ہیں، نہ حکومت آپ چلاسکتے ہیں، تو جب چلا نہیں سکتے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : صافی صاحب میں بڑی وضاحت کے ساتھ بات کرو، قوم سے کیوں بات چھپاٸی جاٸے، یہ بھی میری دلیل تھی کہ اگر ہم نے مہنگائی مارچ کیے ہیں، اپنے جلسے کیے اور مہنگائی کے ایشو کو ہم نے اٹھایا، تو ہمارا ایک جشی تلی ایک راٸے تھی کہ ریاست کمزور ہوگٸی ہے، اور ریاست جب کمزور ہوگٸی ہے تو اگر حکومت ہم بھی حاصل کرلے تو کمزور ریاست ہمارے ہاتھ میں اٸے گی، نتيجہ یہ نکلے گا کہ اُس نقصانات کی تلافی میں وقت لگے گا، مہنگائی کو ختم کرنا، لوگوں کو ریلیف مہیا کرنا اِس میں کافی وقت گے گا، اب عام آدمی اِن باریکیوں میں نہیں سوچتا، عام آدمی اپنے مشکل کو دیکھتا ہے، ایک غریب آدمی اپنے بھوک کو دیکھتا ہے، اِس پر یہ میں نے اُن سے کہا تھا کہ اگر اِن حالات میں آپ حکومت لے گے تو پھر کمٹمنٹ یہ کرلے کہ صرف انتخابی اصلاحات کا قانون پاس کرکے اور نیب کے حوالے سے اصلاحات کرکے آپ الیکشن کا اعلان کردے، لیکن ہوا یہ کہ اُس نے جو ڈرامے کھیلے، اور جن ڈراموں کی بنیاد پر انہوں نے جعلی قسم کے خط اور یہ ہلا کر ایسا ماحول پیدا کردیا کہ جس ماحول کے بعد پھر اِن تمام اتحادیوں نے اِس بات پر سوچا کہ ٹھیک ہے وقتی طور پر ہمیں سیاسی نقصان بھی ہوگا، وقتی طور پر وہ کچھ اُوپر بھی جاٸے گا اور جس کا ہم پہلے بھی خدشہ کررہے تھے سو وہی ہوا اور ہورہا ہے، لیکن جب ہم نے ملکی حالات کو ہاتھ ڈال لیا اور پھر اُس کے بعد ہم بڑے گہرائی میں اِس صورتحال کی طرف گٸے تو یقیناً ضرورت اِس امر کی تھی، اِس پر اتفاق ہوگیا کہ ہمیں وقت پورا کرنا چاہیے تاکہ ہم تلافی کی طرف جاسکے، اِس وقت تک صورتحال کنٹرول نہیں ہو پارہی ابھی تک، لیکن اُس کی بنیادیں فراہم کرلی گٸی ہے اور اُس کے لیے ان شاء اللّٰہ العزیز مجھے تو اطمینان ہے کہ جس طرح جلسوں میں بھی میاں شہباز شریف صاحب کہا کرتے تھے کہ مجھے چھ مہینے چاہیے ہوں گے، تو ساڑھے تین سال جس نے ملک کو غرق کیا ہے اور آپ بتاٸے کہ تین مہینوں کے اندر ہم صورتحال کو اُسی کیفیت میں لانا، تو وہ جو معاہدات بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہوٸے، ملک کو آٸی ایم ایف کے ہاتھ میں گروی رکھا گیا اور پھر ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر قانون سازیاں ہوٸی، اور پھر آپ نے سٹیٹ بینک کو آزادی کے نام پہ آٸی ایم ایف کے حوالے کردیا، تو جو ملک کی معشیت کی چابیاں ہوتی ہیں اور جو ادارے ملک کی معشیت کو کنٹرول کرتے ہیں وہ آپ کی اِس حد تک کمزور ہوگٸے ۔

سلیم صافی : لیکن وہ تو کہتا تھا کہ میں امریکہ سے آزادی چاہتا تھا اور روس کی طرف گیا تھا اور آپ لوگ امریکہ کے مہرے بن کے اُن کے خلاف سازش میں استعمال ہوٸے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے اِس میں تو اب سارے حقائق سامنے ارہے ہیں وہ ساٸفر جو عام طور پر دنیا میں ایک سفیر جو اپنے ملاقاتوں کے جو تاثرات ہوتے ہیں اور وہ اجاتے ہیں اور وہ ایک سیکریٹ ڈکومنٹس ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک سیکرٹری خارجہ کے پاس جب باہر سے کوٸی ڈکومنٹس اتی ہے تو وہ اِس کا بھی پابند نہیں ہے کہ اُس کے ڈکومنٹس وزیر خارجہ کو دکھاٸے، لیکن انہوں نے ایک ایسا طریقہ کرکے کے اُس کے منٹس جو ہے تیار کیے جاٸے اور منٹس کو استعمال کیا جاٸے، تو اب تو امریکہ نے بھی اِس کی تردید کردی، پاکستان کے اداروں نے بھی تردید کردی اور اُن کے اِس حوالے سے جو بے باکانہ بیانات تھے اُس پر تو ہمارے سپریم کورٹ نے بھی اُن کی باتوں کو آٸین شکنی قرار دیا، آٸین شکنی کا لفظ استعمال ہوا اور اب جو آڈیو لیک سامنے ارہے ہیں جس میں وہ خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے اِس خط کو استعمال کرنا ہے، اِس کے مندرجات کو استعمال کرنا ہے اور خبردار امریکہ کا نام نہیں لینا اور میں آپ کو واضح طور پر کہتا ہوں کہ امریکہ کا نام نہیں لینا، تو امریکہ کا نام نہیں لینا اور امریکہ کا خیال بھی رکھنا ہے اور امریکہ سے اٸے ہوٸے ایک خط کو استعمال بھی کرنا ہے، اِن تضادات کو اکھٹا کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گٸی اور حقائق روز بروز سامنے ارہے ہیں اور آپ خود اُس کا مشاہدہ کررہے ہیں، مجھ سے زیادہ آپ نے اِس کا مطالعہ کیا ہوگا کہ یہ صورتحال کس قدر بھونڈی اور کس قدر اُن اندر ایک خلا ہے، اُس کی کوٸی وجود نہیں ہے، سو آج وہ ایکسپوز ہورہا ہے، کھل کر ایکسپوز ہورہا ہے کہ ڈرامے کیوں کرتے ہو، اِن ڈراموں کو بھی ایکسپوز کرنے کی ضرورت تھی ۔

سلیم صافی : لیکن آپ تو عرصہ دراز سے اُن پے غیر ملکی ایجنٹ کا الزام لگاتے رہے، تو آپ کے الزام کا تو کوٸی ثبوت سامنے نہیں ایا، اُس کی وجہ یہ کہ وہ روس چلاگیا اور انہوں نے اُن کے ساتھ تعلقات مظبوط کیے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : روس چلاگیا تو وہاں پر جو قدم مبارک انہوں نے رکھے اور یوکرین کا مسٸلہ اُسی دن پیدا ہوا، تو اُس کے جانے کا تو یہ نتیجہ تھا، گیا کیوں ؟ دنیا کے جو بین الاقوامی ضابطے ہیں اِس کے اندر یہ صلاحيت نہیں ہے کہ جس ملک میں وہ جارہا ہے اُس ملک کی اُس وقت کی جو سٹریٹیجک پوزیشن ہے وہ اُس کو معلوم کرنی چاہیے، اُس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہاں کی جو اکنامک پوزیشن ہے وہ کیا ہے، اِس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ جس ملک میں میں جارہا ہوں اُس کی پولیٹیکل پوزیشن کیا ہے اور جس ملک میں میں جارہا ہوں وہاں میں کیا حاصل کروں گا، تو دورے تو ملکوں میں ہوتے رہتے ہیں، ہر ملک کا وزیراعظم ہر ملک میں جاتا ہے، اور یہ اُس کی ڈیوٹی بھی ہوتی ہے تو اگر اُس نے اِس سٹیٹس کو استعمال کرکے روس چلاگیا تو یہ بمقابلہ امریکہ تھا، کیا روس کو اب ہمارا وزیراعظم جاٸے گا یا ابھی انہوں نے وہاں اقوام متحدہ میں اُن سے ملاقاتیں کی ہے ورسز امریکہ ہوتی ہے، یا امریکہ ہم ملے گے تو ورسز چاٸنہ ملے گے، پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوٸے یہ چیزیں ہوتی ہے، اِس کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ جس ملک میں میں جارہا ہوں اِس میں پاکستانی مفادات کو غرق کررہا ہوں یا حاصل کررہا ہوں ۔

سلیم صافی : لیکن اِس وقت مولانا فضل الرحمٰن، زرداری، نواز شریف اور یہ سب لوگ ایک طرف ہے ورسز عمران خان وہ دوسری طرف ہے وہ اپنے جھوٹ کو قوم کو بیچ سکا، آپ جیسے قدآوار لیڈر، زرداری صاحب جیسے، نواز شریف، مریم نواز، یہ سب اِن کے بیانیے کو لوگوں نے قبول نہیں کیا، یہ آپ لوگوں کی سیاسی ناکامی نہیں ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے حکومت سے لوگوں کی توقعات ہوتی ہے کہ وہ میرے مشکل کو حل کرے گی، جب تک آپ اُس کی مشکل کو حل نہیں کریں گے یہ تاثر جو منفی یا تنقیدی پبلک میں جاتی ہے وہ ایک فطری عمل ہوتا ہے اور اِس سے آپ کسی کو روک نہیں سکتے، لیکن ایک چیز پبلک کو سوچنا ہوگا کہ متضاد الخیالات، مختلف الخیالات بھی نہیں، متضاد الخیالات پارٹیاں وہ ملک کی تمام کی تمام آج یکجاں ہیں اِس کا مطلب کہ قومی یکجہتی کی ضرورت تمام پارٹیاں کیوں محسوس کررہی ہے، اِس لیے کہ اگر یہ شخص بدستور برقرار رہتا ہے اور عالمی ایجنڈے کی پیروی میں پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے، پاکستان کی دفاع کو نقصان پہنچا رہا ہے، پاکستان کی ایٹمی صلاحيت کو نقصان پہنچا رہا ہے، پاکستان کی معشیت کو نقصان پہنچا رہا ہے، پاکستان کے نظریے کو نقصان پہنچا رہا ہے، تو اِس کے مقابلے میں ساری قوتیں یکجاں ہوکر ایک قومی یکجہتی یہ بحرانوں میں ہوتا ہے، سیاسی اختلافات کو بھلانا پڑتا ہے، یکجہتی ہوتی ہے، ایک سیاسی پارٹی کی جعلی حکومت کے مقابلے میں پوری قوم کو یکجاں ہونا اِس کی بھی ذرا وجوہات ہوتی ہیں ۔

سلیم صافی : اِس کا مطلب عمران خان بہت بڑی قوت ہے کہ جس نے اپنے مقابلے میں آپ سب جیسے متضاد الخیال لوگوں کو یکجاں کیا ۔

مولانا فضل الرحمٰن : تو یہی چیز ہے کہ وہ خود کچھ نہیں ہے، میں تو بار بار کہہ رہا ہوں اِس میں کوٸی صلاحيت نہیں ہے ، نہ وہ پڑھا لکھا ہے، انگریزی ٹھیک ہے بول لیتا ہے، چھکا مار سکتا ہوگا ، گیند پھینک سکتا ہوگا، اِس کیٹیگری کا ہے، لیکن جس قوتوں نے پیچھے سے اُن کو یہاں پر پہنچایا ہے اور اُن کے جو ایجنڈے ہیں اُن کو ہم نے ناکام بنایا ہے، اور آپ جانتے ہے کہ بین الاقوامی مغربی استعمار یا اُس کی قیادت کرنے والا امریکہ اِس کے خلاف ایک نظریاتی آواز جمعیت علماٸے اسلام کے علاوہ پاکستان میں کون ہے، اور کتنی قوت کے ساتھ ہم نے ملک کو بیدار کیا اور قوم کے اندر یکجہتی پیدا کی، اگر اسرا ٸیل کو تسلیم کرنے کی بات ہوٸی ، اُس کا راستہ اگر روکا ہے تو جمعیت علماٸے اسلام نے روکا ہے کہ یہ پاکستان کا نظریہ نہیں ہے، اِس قسںم کا تصور پاکستان کے اساس کے خلاف ہے، فلسطینیوں کے حقوق کو دبانا ہے اور اُن کو دفن کرنا ہے، قبلہ اول بیت المقدس کو دفن کرنا ہے، یہ ساری بحثیں ملک میں چھڑ گٸی اور جس کے مقابلے میں جس صدر سکندری کا مظاہرہ ہمارے نوجوانوں نے کیا، الحَمْدُ ِلله قوم نے ساتھ دیا ۔

سلیم صافی : لیکن اقوام متحدہ میں اسلامک فوبیا کے خلاف بھرپور تقریر تو انہوں نے کی ۔

مولانا فضل الرحمٰن : تو بے اصل ثابت ہوٸی ناں، یہ ساری چیزیں نمائش تھی، بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا لفظ بھی بول لیتا ہے، تو نمائشوں سے حکومتيں نہیں چلتی، کمٹمنٹ سے چلتی ہے، آپ یا کارڈ استعمال کریں گے یا کاز استعمال کریں گے، اسلام ہو، ریاست مدینہ ہو اِس پر ہمارا کاز ہے، اور آپ نہیں سمجھتے یہ آدمی اِن تمام چیزوں کو بطور کارڈ استعمال کررہا ہے، تو کارڈ دو دن چلتا ہے تیسرے دن نہیں ختم ہو جاتا ہے ۔

سلیم صافی : لیکن اِس کے بھی تو کوٸی ثبوت سامنے اجاتے ناں، جب آپ کہہ رہے تھے کہ جی وہ غیر ملکی ایجنٹ ہے، یہ ہے وہ ہے، اُس کا بھی کوٸی ثبوت ابھی آپ کی حکومت ہے سامنے نہیں لاسکے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : میرے خیال میں سیاسی دنیا میں پبلک کو اگاہ کیا جاتا ہے اور اُس حوالے سے بہت سی چیزیں سامنے اگٸی ہے، تمام چیزیں سامنے اگٸی ہے، آج بچے بچے کے زبان پر یہی لفظ ہے کہ یہ بیرونی ایجنٹ ہے، بیرونی ایجنڈے پر پاکستان بھیجا گیا، پہلے اِس ملک میں سیاسی عدم استحکام لایا گیا، سیاسی عدم استحکام پانامہ کے ذریعے لایا گیا، پھر اُس کے بعد اقتصادی عدم استحکام لایا گیا وہ عمران خان کے ذریعے لایا گیا، آپ خود اندازہ لگاٸے کے سی پیک کتنا بڑا منصوبہ ہے، اتنے بڑے منصوبے اور چین جیسے دوست کی پاکستان میں انوسٹمنٹ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیاد ٹہرا کہ اگر سی پیک کا کوٸی حامی ہے تو امریکہ کا دشمن اور سی پیک کا کوٸی مخالف وہ امریکہ کا ساتھی، اِس نے اُس منصوبے کو فریز کیا، اُس نے میگا پراجيکٹس کو فریز کیا، اِن لوگوں نے بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ۔

سلیم صافی : تو آپ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سی پیک میں رکاوٹیں ڈال کے امریکہ کی خدمت کی ۔

مولانا فضل الرحمٰن : ظاہر ہے امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مدار یہی تھا اور اُس کا ابھی بھی ہے، لیکن ہم نے ملک کی مفاد کو دیکھنا ہے، ہم امریکہ سے بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے مفادات کے دشمن نہیں ہے لیکن اگر آپ پاکستان کے مفاد پر کلہاڑا مارے گے تو پھر ہمیں اپنے مفاد کے تحفظ کا حق حاصل ہے ۔

سلیم صافی : لیکن پھر جوباٸیڈن اُن کو فون بھی نہیں کرتے اور شہباز شریف سے بھی ملے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : وہ سیاسی معاملات ہیں بلکہ اِس میں زیادہ تر امریکہ کے اندرونی معاملات بھی ہے کہ اُس نے وہاں جاکر ٹرمپ کو سپورٹ کیا، جوباٸیڈن کے خلاف اُس کو سپورٹ کیا اور ٹرمپ کا جو داماد تھا جیرڈ کروشنر، اُس کے ساتھ تو زولفی بخاری نے باقاعدہ یاری لگواٸی تھی، اور پھر اِس حد تک قریب ہوگٸے کہ میں کسی طریقے سے ٹرمپ کے ذریعے واٸٹ ہاٶس میں پہنچو گا، یہ سارے ڈرامے یہ پہلے بھی کھیلتا رہا ہے، بش کے زمانے میں بھی کھیلتا رہا ہے کہ میں واٸٹ ہاٶس تک رسائی حاصل کرسکو، تو اِس ساری صورتحال میں جوباٸیڈن کا ایک ردعمل تھا جو اُس کے امریکہ کے سیاست میں مداخلت کے حوالے سے تھا اور اُس میں ظاہری بات ہے کہ اُس کی ناراضگی ایک فطری سی بات ہے جو ابھی تک چل رہی ہے، تو اِس کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کے حوالے سے ہے، بلکہ اِس کے اُس کردار سے ہے، اب آپ دیکھے ایک دفعہ یہ ایک کو لے ایا اپنے ایک سالے مشیر بنانے کے لیے پبلک نے ہنگامہ کیا، آج پھر وہ لاس اینجلس میں ایک کونسلر کی انتخاب کے لیے سپورٹ میں انٹرویو دیا، دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کا آپ کا کیا کام ہے، جاتا ہے اپنے سالے کے الیکشن کمپیٸن کے لیے برطانیہ وہ بھی ایک برطانوی نژاد مسلمان کے خلاف، ظاہر ہے یہ سارا کچھ اُس نے کیا ہے، تو یہ ساری چیزیں دلیل نہیں ہے اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس زیک سمتھ کی الیکشن میں یہ گیا ہے اُس کا جس تنظیم سے تعلق ہے آپ آج بھی دیکھے اُس کا لوگو Logo کیا ہے (کنزرویٹیو فرینڈز آف اسرا ٸیل سی ایف آٸی) اُس کی تنظیم کے سٹیج پر جاکر باقاعدہ اُس کے لیے کنونسنگ کرتا ہے، آپ مجھ سے ثبوت مانگتے ہیں اور میں آپ کو کیا ثبوت دو ۔

سلیم صافی : نہیں لیکن عمران خان کا اپنا لوگو Logo تو ریاست مدینہ ہے ناں، وہ تو آج بھی جب تقریر کرتا ہے تو کہتا ہے میں ریاست مدینہ قاٸم کرنا چاہتا ہو، تو امریکی ایجنٹ اب کیسے ریاست مدینہ کی بات کرسکتا ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : سلیم صافی صاحب آپ کا اختیار ہے آپ جو بھی سوال کرتے ہے، ایک خاتون اپنے خاوند کے ساتھ اتی ہے اور یہ اُس کو اٹھا کے پراٸم منسٹر ہاٶس میں ڈیڑھ دو مہینے تک یرغمال رکھتا ہے، حبس بے جا میں رکھتا ہے وہ عدالت میں رونے دھونے چلی گٸی ہے کہ مجھے پراٸم منسٹر ہاٶس میں کیوں حبس بے جا میں رکھا گیا، یہ ریاست مدینہ ہوتا ہے، طیبہ گل کی بات کررہا ہوں، یہ ہوتی ہے ریاست مدینہ، کہ آپ اپنے گھر کے اندر اور پراٸم منسٹر ہاٶس کے اندر ایک میاں بیوی کو ایک لمبے عرصے تک کس جرم میں یرغمال بناٸے ہوٸے حبس بے جا میں رکھا اور بات آپ ریاست مدینہ کی کرتے ہیں، اِس بات پر شرم نہیں آتی ۔

سلیم صافی : مولانا صاحب یہ تو اب ڈھکی چھپی بات نہیں کہ 2018 کے الیکشن میں اُن اداروں نے ہی جن کو آپ مسٹر ایکس اور مسٹر واٸے کہتے ہے اُسی مسٹر ایکس اور مسٹر واٸے نے اُن کی پارٹی میں لوگوں کو بھی شامل کرایا، اُن کے لیے آر ٹی ایس فیل کروایا، اُن کے لیے پولنگ ایجنٹوں کو نکالا، تو پھر وہ یہ کام کیوں کررہے تھے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : مجھے اِس بات کا احساس ہے کہ آپ نے سوال کرلیا تو مجھے اِس پر بات کرنی پڑگٸی ورنہ اب ہم اُس کی تلافی کی طرف جارہے ہیں، اگر ادارے بھی اُس کی تلافی کی طرف جاتے ہیں اور اُن کو احساس ہو جاتا ہے کہ ہاں ہم سے اگر ایسی کوٸی بھول چوک ہوٸی ہے یا ہم نے کوٸی بین الاقوامی دباؤ کے تحت ایسے کام کیے ہیں جس کو میری قوم نے قبول نہیں کیا، عوام نے قبول نہیں کیا اور اُس کی تلافی کی طرف اتے ہیں تو میں نے پہلے دن بھی یہ کہا تھا موسٹ ویلکم، ہمیں اُس پہ کوٸی اعتراض نہیں ہے ۔

سلیم صافی : تو اب وہ کہتے ہیں کہ جس ادارے کو تنازع سے بچانے کے لیے اتفاق رٸے سے نٸے آرمی چیف کا تعین ہونا چاہیے اور وہ کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ کو ایک مخصوص مدت کے لیے ایگزٹنشن دیا جاٸے اور اِس کے بعد جو فری اینڈ فیٸر الیکشن ہو وہ نٸی حکومت اُس کا انتخاب کرے، تو آپ جنرل باجوہ کو ایگزٹنشن دینے کے حق میں ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے عمران خان جب وہ وزیراعظم تھا جعلی تھا یا جو بھی تھا تو اُس نے کس سے پوچھا، اپنی کیبنٹ سے پوچھا، اپنی پارليمنٹ سے پوچھا، کسی ایک سے مشورہ کیا، تبھی تو نوٹیفیکیشن کا ڈرافٹ غلط تیار کیا، یہاں تک کے عدالت نے کہا قانون بناو، اور پھر قانون سازی کی طرف عمل چلاگیا، یہ ساری چیزیں انہوں نے اپنی ذاتی راٸے اور فیصلے کی بنیاد پر کی، کہ وہ اپنی کابینہ کو بھی اعتماد میں لینے کے لیے تیار نہیں ہے، آج نٸی حکومت اگٸی وہ ہوتا کون ہے ہمیں ڈاٸریکشن دینے والا، اُس کا حق کیا ہے، اُس کی اوقات کیا ہے کہ آپ یوں کرے یوں کرے، جو بھی فیصلہ ہوگا آٸین کے مطابق ہوگا، جو بھی فیصلہ ہوگا میرٹ پر ہوگا، جو بھی فیصلہ ہوگا جس منصب کو اِس کا اختیار حاصل ہے وہی فیصلہ کرے گا ۔

سلیم صافی : آپ جنرل باجوہ صاحب کے ایگزٹنشن کے حق میں نہیں ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : میں نے اُس وقت بھی کہا تھا جب صرف ایگزٹنشن کی بات تھی، مجھ سے پریس کانفرنس میں پوچھا گیا تو میں نے کہا سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ اور ایگزٹنشن کے معاملات چلتے رہتے ہیں، ہم اِس کو ایک پولیٹیکل ایشو نہیں بنانا چاہتے لیکن جب آپ نے ڈرافٹ ہی غلط کردیا ایک ایشو بن گیا، پھر کورٹ میں چلاگیا، پھر کورٹ نے قانون سازی کا کہا، تو مسٸلہ آپ نے بنا لیا تھا، میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ اِس کو ایک پولیٹیکل ایشو ہمیں نہیں بنانا چاہیے اور اگر اُس کی مدت پوری ہوگٸی ہے تو یہ پراٸم منسٹر کا اختیار ہے کہ اُس کو جانے دیتے ہے یا اُس کو اختیار ہے کہ اگر ضرورت ہے تو اُس کو رہنے دیتے ہے ۔

سلیم صافی : لیکن اِس وقت وہ کہتے ہیں کہ میں ایک پاپولر لیڈر ہو، پنجاب میں میری حکومت ہے، کے پی میں میری حکومت ہے، آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں میری حکومت ہے، تو اُن کی راٸے ضروری نہیں ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : یہ بات آپ کی صحیح ہے یہ سب آفٹر شاکس ہے، جب زلزلہ آتا ہے، یہ 2018 کے انتخابی نتائج کا شاکس ہے جو ابھی قوم کو دھچکے مل رہے ہیں کہ اُس کو ابھی تک ہم کے پی، پنجاب، گلگت بلتستان بلکہ کشمیر میں بھی بھگت رہے ہیں، تو یہ چیزیں بہر حال عام انتخابات میں طے ہوگی، تو عام انتخابات انے دے ساری صورتحال بلکل کلیٸر اور صاف ہو جاٸے گی، کوٸی مسٸلہ نہیں۔

سلیم صافی : تو آپ سمجھتے ہیں کہ نٸے آرمی چیف کے تقرر کا اختیار مطلق وزیراعظم کا اختیار ہے، کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : ہاں یہ اُس کی بھلاٸی ہوگی کہ ہر کام مشورے سے ہو تو اُس میں برکت ہوتی ہے وہ کیبنٹ سے پوچھ سکتا ہے، اجازت آٸین دے رہا ہے میں نہیں دے رہا۔

سلیم صافی : آپ کیا سجسٹ کرتے ہیں کہ کس بنیاد پہ کرے؟ سنیارٹی پہ کرے، کسی اور خوبی کی بنیاد پہ کرے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : میں نے آج تک اِس میں دلچسپی نہیں لی، میں نے نہ وہ رولز پڑھے ہیں نہ وہ قوانین پڑھے ہیں لیکن جو بھی آٸین اور قانون کا تقاضا ہے اُس کو پورا کیا جاٸے میں اِس پر قاٸم ہوں، باقی سب ہمارے لیے برابر ہیں ۔

سلیم صافی : اچھا قانون اور آٸین کا ایک اور تقاضا بھی ہے، اصل میں اب یہ دیکھے کہ عمران خان صاحب نے اب یہ بیانیہ بنایا ہے ناں کہ میرے خلاف سازش ہوٸی کبھی وہ امریکہ سے جوڑتے ہیں کبھی فوج سے جوڑتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ مسٹر ایکس اور مسٹر واٸی نے میری حکومت چھین لی، حالانکہ اصل سازش اور اصل مداخلت 2018 میں ہوٸی تھی، اب آپ لوگ حکمران بنے ہیں تو وہ جو 2018 میں غیر آٸینی، غیر قانونی کام ہوٸے ہیں الیکشن میں مداخلت ہوٸی ہے تو اُس کی تحقیقات اب آپ کیوں نہیں کرتے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : ہاں یہ بات اب ضرور ہے کہ جو ان کا بیانیہ ہے کہ میرے خلاف سازش ہوٸی ہے نہیں آپ کو لانے کے لیے سازش ہوٸی ہے جس میں بین الاقوامی سازش بھی شامل ہے، بین الاقوامی فنڈنگ بھی شامل ہے اور وہ اب ایکسپوز بھی ہوگیا ہے الیکشن کمیشن نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ یہو دیوں سے پیسہ ایا ہے، انڈ یا سے پیسہ ایا ہے، امریکہ سے پیسہ ایا ہے اور کہاں کہاں سے ایا ہے اور کتنے اکاونٹس اُس کے نہیں دکھاٸے گٸے، چوری چھپے رکھے گٸے، یہ تو بابر صاحب کو اللّٰہ تعالیٰ اجر دے کہ اُس نے اپنی پارٹی میں رہتے ہوٸے اُن ساری چیزوں کو پبلک کے سامنے لایا، عدالت میں اُن ساری چیزوں کو لایا، اور وہ ثابت کر گٸے ایسا نہیں کہ کوٸی نعرہ تھا اور ختم ہوگیا، ثابت کردیے اور ڈکومنٹری ثبوت انہوں نے پیش کردیے ، تو اب جو آدمی عدالت سے ثابت ہو چکا ہو کہ وہ آٸین شکن ہے، جو الیکشن کمیشن سے ثابت ہوچکا ہو کہ بین الاقوامی چور ہے ، پوری دنیا سے فنڈ اکر اُس نے کھایا، تو وہ آدمی دوسروں کو چور کہتا ہے اِن کو شرم نہیں اتی ۔

سلیم صافی : نہیں اُن کو شرم اتی ہے یا نہیں اتی،اتی لیکن اِس حکومت کو شرم نہیں اتی کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ دے دیا، عدالت نے فیصلہ دے دیا، لیکس اگٸی، لیکن اپنی کیسز تو یہ حکومت ختم کررہی ہے، نیب قوانین تبدیل کردیے ، لیکن آج تک وہ 2018 میں یہ سب کام کرنے والے اور عمران خان کے خلاف یہ سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود اُن کے خلاف کوٸی کارواٸی نہیں ہورہی ہے، تو کیا یہ حکومت بزدل ہے یا نااہل ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : میری جماعت اِس معاملے میں میاں شہباز شریف صاحب سے بات بھی کرچکی ہے، ہم دباؤ بھی ڈال رہے ہیں کہ کس چیز کا انتظار ہے ؟ کون سی مصلحت آڑے ہے ؟ کیا یہ میاں نواز شریف صاحب سے زیادہ محترم ہے، کیا وہ اُس کی بیٹی سے زیادہ محترم ہے، کیا وہ زرداری صاحب سے زیادہ محترم ہے، کیا وہ شہباز شریف سے زیادہ محترم ہے، اِن کو سالوں سال جیلوں میں رکھا گیا، کال کوٹھڑی میں رکھا گیا، چور کہا گیا، اُن کو ذلیل کیا گیا اور جو بیحرمتی اِن لوگوں کی ہوٸی ہے وہ آج اتنا اہم بن گیا ہے کہ اُس پر ہاتھ تک نہیں ڈال سکتے، اور میں نے یہ بات رانا ثناءاللّٰہ سے بھی کی ہے وہ کہہ رہے ہے کہ مجھے فوراً اجازت دے ۔

سلیم صافی : عدلیہ نے تو اپنے ماتحت جج کے وقار اور رٹ کو بحال کردیا، اُس نے آپ کی آٸی جی اور ڈی آٸی جی کو بھی دھمکی دی تھی، اِس حکومت آٸی جی اور ڈی آٸی جی کے رٹ کہ بارے میں کیا کیا ؟

مولانا فضل الرحمٰن : میرا خیال یہ ہے کہ وہ ایک کوشش کررہا ہے، عمران خان ایک کوشش کررہا ہے کہ میری چوریاں،چوریاں آٸین شکنیاں، بغاوتیں وہ سارے سامنے اگٸی ہے اور میرے خیال میں کیبنٹ نے اب فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ اُن کے خلاف باقاعدہ کچھ آڈیوز انے کے بعد اور میرے خیال میں اُس کو بہت سے حوالوں سے تھوڑا مذید ایکسپوز کرنا چاہتے ہیں، جو مجھے مصلحت اُن کی نظر ارہی ہے حالانکہ میں آپ کے راٸے کے ساتھ ہو، اور یہ کوشش کررہا ہے کہ میں ایک تاثر دو کہ مجھے کسی پولیٹیکل ایشو پر گرفتار کیا گیا ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے کہ اُس کے جرائم اتنے ہیں دیانت کے حوالے سے، امانت کے حوالے سے اور ریاست کے حوالے سے، اُس کے اتنے جرائم ہیں کہ اُس پر اُن کو ہاتھ ڈالنے کے لیے شاٸد کچھ مذید مواد کی ضرورت ہو، اِس کے علاوہ مجھے کوٸی اور مصلحت سمجھ نہیں ارہی ۔

سلیم صافی : لیکن مواد سے پہلے وہ دوبارہ اسلام اباد پر چڑھاٸی کا ارادہ رکھتے ہیں اب وہ اگر لاکھوں لوگوں کو اکھٹا کرکے اسلام اباد پر حملہ آور ہو جاٸے تو پنجاب میں بھی اُن کی حکومت ہے، پختونخواہ میں بھی، تو آپ کیا کریں گے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : اف ہو لاکھوں، یہ کیا لفظ ہے سمجھ میں نہیں ارہی ، لاکھوں والی یہ غریب فقیر لوگ ہیں، لاکھوں والے یہ لوگ نہیں ہے، یہ تتلیاں، یہ یوتھیے اِن کے تلوے اتنے نازک ہیں کہ وہ گرم زمین پر رکھنے کے لیے نہیں ہوتی ۔

سلیم صافی : نہیں تو اُن کے جلسوں میں تو ارہے ہیں، تو وہ جب آٸیں گے تو آپ کے وہ فقیر تو گھروں میں ہوں گے ناں، اِدھر پولیس سے اُن کا سامنا ہوگا ۔

مولانا فضل الرحمٰن : جلسے بھی اِن کے ناکام جارہے ہیں، ابھی پرسوں آپ نے دیکھا کشمیر میں اُن کی حکومت ہے اور اِس کی جو رپورٹنگ تقریر کے دوران ارہی تھی، جو منظر نظر ارہا تھا وہ آپ نے بھی دیکھا ہوگا، پتہ ہے کہ پبلک اب اُس کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے، تو یہ روز روز کا اُس کا دوڑنا، چلنا، آنیاں جانیاں بس یہی دیکھتے رہیں گے ، اور اب اُس میں وہ جاذبیت ختم ہوچکی ہے ، وہ پولیٹیکل لیڈر تو الریڈی نہیں تھا ۔

سلیم صافی : یہ آپ کے ہاں چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت کی بڑی آنیاں جانیاں ہوتی تھی، آپ کے اُن کے ساتھ خاندانی تعلقات بھی ہے ، یہ پرویز الہی آپ کے ہاتھ سے کیسے نکل گیا، اور جس طرح شبلی فراز نے اپنے بڑوں کی عزت کو داو پر لگادیا تو اِس وقت تو چوہدری پرویز الہی بلکل شہباز گل کا لہجہ استعمال کررہے ہیں، تو یہ آپ کے کنٹرول سے اتنا باہر کیوں گیا ؟

مولانا فضل الرحمٰن : بہر حال مجھے تو اُس کے رویے پر افسوس ہے سیاستدان کو اپنی زندگی میں سیاسی کردار اس طرح پاوں تلے نہیں روندنا چاہیے جس طرح انہوں نے کیا ، ہم اُن کو بڑی عزت دینا چاہتے تھے لیکن خدا جانے کس لالچ میں اُس نے یہ بھونڈی حرکت کی، یقین جانے مجھے اُس کے اوپر ایک دوست کے حیثیت سے افسوس ہے ۔

سلیم صافی : آپ اور زرداری صاحب کچھ کوشش کررہے ہیں کہ اُن کو دوبارہ راہ راست پہ لے اٸے اور جو پہلے سے پنجاب میں ارینجمنٹس ہوٸی تھی تو کوٸی تبدیلی کا امکان ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : اگر اُس حوالے سے کچھ ہے بھی تو وہ انٹرویو میں کہنے کا نہیں ہے ۔

سلیم صافی : مولانا صاحب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اِس حکومت میں اِس لیے ہمت نہیں ہے کہ نیوٹرلز ایکچولی نیوٹرلز نہیں ہوٸے ہیں، تو اِس وقت آپ اسٹبلشمںٹ کے رول سے مطمٸن ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے کچھ چیزیں ضروری نہیں کہ آپ اُس پر بحث کرے اور اُس پر گفتگو کرے، بظاہر تو ایسی کوٸی چیز نہیں ہے کیوں کہ ہم ظاہر کے مکلف ہے اگر آپ مجھ سے بات کررہے ہیں تو مجھے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے، آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی آپ کا مقصود ہوگا، اور پھر جو ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں جن کے رویے سے ریاست کی استحکام اور اُس کی کمزوری وابستہ ہوتی ہے اور پھر کچھ چیزیں جو مشاہدے میں آچکی ہے کہ تجربہ شدہ چیز کو دوبارہ تجربے میں لانا اُس کا نتیجہ سواٸے ندامت کے اور کچھ نہیں ہوتا، اتنا بڑا ادارہ ایسا کیوں سوچے گا، اور آخر کیسے سوچے گا، تو ساری چیزیں ہم سے زیادہ اُن کے سامنے ہیں، ساری صورتحال میں ہم سے زیادہ بہتر وہ جانتے ہیں، لہذا اِس حوالے سے کسی شک کی بات کرنا یہ مناسب نہیں ہے ۔

سلیم صافی : اچھا شک کی بات تو نہیں کرتے لیکن ایک بات جو یقینی ہے ایک معاملہ ایسا تھا جس میں آپ کا اور عمران خان کا موقف ایک تھا، آپ بھی افغا ن طالبا ن کے سپورٹر تھے وہ بھی سپورٹر تھے، آپ بھی سمجھتے تھے کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کا کوٸی آپس میں ربط نہیں ہے اور عمران خان بھی یہ سمجھتے تھے کہ اِن کا آپس میں کوٸی ربط نہیں ہے لیکن اِس وقت خیبر پختونخواہ میں ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہوگٸی ہے اور حالت یہاں تک اگٸی ہے کہ میں نے آج پتہ کیا تو سوات میں پی ٹی آٸی کا کوٸی ایم این اے کوٸی ایم پی اے بشمول وزیراعلی وہ پچھلے ایک مہینے کے دوران اُدھر جانے کی جرات بھی نہ کرسکا، تو یہ ٹی ٹی پی کا مسٸلہ افغا ن طالبا ن کے انے سے حل ہونے کی بجائے بڑھ کیوں گیا ؟

مولانا فضل الرحمٰن : یہ ایک معمہ بھی ہے اور معمہ نہیں بھی ہے دونوں صورتیں اُس کی موجود ہے، معمہ اِس لیے ہے کہ اِس پر کھل کر بات نہیں ہوسکتی اور سادہ اس لیے ہے کہ یہ سب چیزیں اُس کی حکومت میں کیوں نہیں ہورہی تھی اور آج کیوں ہورہی ہے ، کیوں مشکلات پیدا کی جارہی ہے ، یہ پریشان کن صورتحال ہے ، بجائے اِس کے کہ ہم بیٹھ کر ماضی کو بھلاٸے، تنقید کرے، اچھا کہے برا کہے، دو پہلوؤں سے سوچنا ہے ، دیکھیے میں ایک بات آپ کے سامنے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے کہتا ہوں ، جمہوری جدوجہد سے آٸین میں اصلاحات کرنا، آٸین کو اسلامی بنیادیں فراہم کرنا ، قوانین کو شریعت کے مطابق بنانا، یہ ایک منہج ہے جو ہمارا ہے ، لیکن آج اگر ایک جنگ ہورہی ہے اور اُس میں مجھے کوٸی شخص کہتا ہے کہ بندوق کے راستے سے شریعت کیوں، اگر میں آپ کی بات مان بھی لیتا ہو اور میں بندوق کو پاکستان کے اندر مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں اور اپنے دینی مقاصد کے لیے اُس کو حکمت عملی کی بنیاد پر نقصان دہ سمجھتا ہوں، لیکن اگر مجھے پارليمنٹ کے راستے سے بھی شریعت نہیں مل رہی اور سنہ 1973 سے نہیں مل رہی، آج سے نہیں سنہ 73 سے، اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام،قیام اُن کی سفارشات مکمل اور پھر مکمل اور ایک قانون سازی آج تک نہیں ہوٸی تو پھر مجھے اِس بات کا اندیشہ ہے خدا نہ کرے خدا نہ کرے کہ جمہوریت پھر اپنا مقدمہ ہار نہ جاٸے ۔

سلیم صافی : نہیں تو اِس کا مطلب آپ بھی بندوق اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟

مولانا فضل الرحمٰن : نہیں نہیں میں تو روکنے کی کوشش کررہا ہوں اور کروں گا، لیکن میں اپنے دوستو کو کہنا چاہتا ہوں ، اپنے اداروں کو کہنا چاہتا ہوں، پولیٹیکل پارٹیز کو کہنا چاہتا ہوں کہ بھاٸیو آٸین کی پیروی ہم سب کا فریضہ ہے ، اگر ایک سیاستدان مجھے یہ کہتا ہے کہ آٸین کے اندر جو اسلامی دفعات ہیں میرا ہدف یہ ہے کہ میں اُس کو آٸین سے نکال دو ۔

سلیم صافی : اچھا ٹی ٹی پی کا آپ بھی کہتے ہیں مذاکرات مذاکرات ، تو یہ مذاکرات کا نتیجہ امن کی بجائے بدامنی کی صورت میں کیوں نکلا ؟

مولانا فضل الرحمٰن : یہ تو میرا سوال ہے کہ ہمیں یہاں پر کہا گیا کہ مذاکرات چاہیے، ہم نے کہا مذاکرات چاہیے ، ہم سیاسی لوگ ہے مذاکرات سے کیسے اختلاف کرسکتے ہیں، مذاکرات کی نتیجے میں صلح چاہیے ہمیں قبول ہے ، صلح کے نتیجے میں امن چاہیے ، اب یہ پتہ ہمیں نہیں لگا کہ مذاکرات کس نے کیے ، کب ہوٸے ، صلح ہوٸی، کب ہوٸی ، معاہدہ ہوا تو کب ہوا، اور اِس کے بعد نتيجہ امن کی بجائے جس طرح آپ فرما رہے ہیں یہ کیا ہورہا ہے ۔

سلیم صافی : حکومت میں ہوکے آپ اتنے بے خبر ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : بے خبر نہیں بے اختیار ہیں، چیخ و چلا کر ہم باتیں کررہے ہیں، اب آپ مجھے بتاٸے کہ جہاں پر اِس قسم کے حساس معاملات وہ اِس لیول پر ڈیل کیے جارہے ہو کہ جہاں پر نہ اہم شخصیات، نہ وہاں پر سٹیک ہولڈرز اور کوٸی آدمی اِدھر اُدھر کا وہاں پر اکر، کیوں کہ پشتو بولتا ہے ۔

سلیم صافی : تو جب بے اختیار ہیں تو پھر حکومت میں کیوں بیٹھے ہیں ؟

مولانا فضل الرحمٰن : تو حکومت میں ایک شق کے لیے آدمی نہیں بیٹھا ہوتا، یہ تو ایک سوال ہے ناں کہ آپ حکومت میں کیوں ہیں، یہ تو ہر بات میں ہوسکتا ہے، میں آپ سے کہتا ہوں ایک کمزوری ہے حل نہیں ہورہی، دوسری کمزوری اور ہر ایک پر آپ کہتے ہے حکومت میں کیوں ہے ۔

سلیم صافی : آپ پختون بھی ہے، آپ مذہبی جماعت کے رہنما بھی ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : میری پروپوزل یہ ہے کہ وزیراعظم اِس کو خود ٹیکل کرے، اِس کو کیبنٹ میں باقاعدہ زیر بحث لاٸے، اِس کو ایجنڈے پہ لے اٸے ، سیکیورٹی کی جو کمیٹی ہے اُس کا اجلاس بلاٸے، اُس میں سنجیدہ معاملات پر بحث کی جاٸے، لوگوں کی راٸے لی جاٸے، جو ہمارے صوبوں سے متعلق پارٹیاں ہیں اگر پارليمنٹ میں نہیں بھی ہے تو بھی اُن کی راٸے تو ہے ناں ، اے این پی ہے جو بھی قوم پرست پارٹیاں ہیں، مذہبی پارٹیاں ہیں جو بھی ہے سب کو بٹھا کر بلایا جاٸے، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ پر لیکن امن پر تو اتفاق ہے ۔

سلیم صافی : اور اُدھر کس سے بات کی جاٸے ٹی ٹی پی سے براہ راست یا افغا ن حکومت سے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : یہ ابھی میں نہیں کہہ سکتا کیوں کہ جب تک ہم بیٹھتے نہیں ہے، یہ سٹریٹجی کا حصہ ہے کہ کہاں بات کی جاٸے، کس سے بات کی جاٸے، اُن کے ہاں سٹیک ہولڈرز کون ہے، کس سے گفتگو کی جاٸے ، اِس کو خراب کرنے کی بجاٸے ہمیں کسی بہتری کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے ۔

سلیم صافی : اِس کو تو آپ بہتری کی طرف جانے گے یا اِس میں جب آپ بے اختیار بھی ہے ، ایک چیز جس میں آپ بااختیار ہے روزانہ جب ہم صبح اٹھتے ہیں تو دس پندرہ معاون خصوصی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوچکا ہوتا ہے اور پتہ نہیں وہ کیا کام کرتے ہیں، اُس روز میں نے کہہ دیا کہ بس یار تینوں پارٹیوں کے سارے ممبران کا نوٹیفیکیشن جاری کردے، لیکن آج تک آپ تین صوبوں کے گورنر مقرر نہیں کرسکے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : اسی لیے تو ہم نام نہیں دے رہے کہ اتنی تھوک میں جو چیزیں بانٹی جارہی ہے ۔

سلیم صافی : لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخواہ جیسے صوبوں کے گورنر نہیں ہے وہاں پی ٹی آٸی والے ابھی تک اللو تللو میں بیٹھے ہوٸے ہیں اور یہ وزیراعظم کے دستخط سے ہوتا ہے اور اِس میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : جتنا ٹاٸم کو اُس کو مل رہا ہے یا مل گیا ہے اُس نے ایک قدیم یونیورسٹی جو پشاور یونیورسٹی کے بعد صوبے کی بڑی یونیورسٹی اُس کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا، اور بلکل جیسے پی ٹی آٸی اور اُس کی حکومت نے چچے تلے انداز کے ساتھ ایک یونیورسٹی کے ساتھ ظلم کیا ہے اور اُس کو تباہ و برباد کیا ہے تو اِس تاخیر میں تو یہ ساری نقصانات ہورہی ہے ۔

سلیم صافی : لیکن ہمیں تو یہ بتایا جارہا ہے کہ آپ کے اور اے این پی کے جھگڑے کی وجہ سے گورنر مقرر نہیں ہورہا ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : نہیں میری ملاقات ابھی کچھ عرصہ پہلے ایمل خان کے ساتھ ہوٸی تھی اور میرے پاس تشریف بھی لاٸے تھے، ہمارے درمیان تو اُس میں کوٸی الجھن نہیں ہے ، کہاں الجھن ہے اب اُس پر وہ بھی پریشان ہے ہم بھی پریشان ہے ۔

سلیم صافی : آپ اُن کو دینے کو تیار ہیں ؟ میاں افتخار بڑے اچھے آدمی ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن: میاں افتخار ہمارا برخوردار ، بھاٸی بلکل باعزت آدمی ہے، غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اچھے خاندان سے اُس کا تعلق ہے لیکن یہ معاملات شخصیات کی نہیں ہے یہ پارٹیوں کی ہوتی ہے ۔

سلیم صافی : آپ کا اصرار ہے کہ یہ جے یو آٸی کا حق ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : ظاہر ہے وہاں مقابلہ میں ہم ہیں ، اب بلدیاتی الیکشن میں آپ دیکھے جتنے اُن کے پاس میٸر ہیں اتنے ہمارے پاس بھی ہے، برابر برابر سیٹیں ہیں ۔


سلیم صافی : اے این پی آپ کے ساتھ مان گٸی ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : اُن کے ہاں اِس میں شدت نہیں ہے ۔


سلیم صافی : اور بلوچستان میں کیا مسٸلہ ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : اُس کے بارے میں مجھے نہیں معلوم، جس کی ذمہ داری ہے اُس کو پورا کرنے دے، اب میں ہر بات کا جواب دہ تھوڑی ہوں ۔

سلیم صافی : نہیں تھوڑا سا آپ فراخدلی دکھاٸے ناں، اُدھر اختر مینگل کو دے دے یا کسی اور کو دے دے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : وہاں پر کوٸی مسٸلہ نہیں ہے، کسی بھی معاملے پر ہماری ضد نہیں ہے لیکن کیوں تاخیر ہورہی ہے یہ میرے نزدیک بھی سوال ہے اور تاخیر سے نقصان ہورہا ہے، اب کراچی میں کیوں نہیں ہے، کے پی میں کیوں نہیں ہے، بلوچستان میں کیوں نہیں ہے ، گلگت میں ہوگیا، کشمیر میں صورتحال ابھی تک جوں کے توں جارہی ہے ، تو یہ ساری صورتحال ایسی ہے کہ میں نے آپ سے کہا کہ آفٹر شاکس ہیں ، ابھی صوبوں میں صورتحال وہ نہیں ہے کہ جس میں ہم کوٸی حتمی بات کرسکے ۔

سلیم صافی : لیکن آپ نہیں سمجھتے کہ ایک طرف سیلاب، غربت، معشیت تباہ اور 73 رکنی کابینہ، تو آپ ایڈوایز نہیں کریں گے کہ یہ کابینہ ری شیپل کرکے مختصر سی کابینہ رکھے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : جتنی زیادہ پارٹیاں ہوں گی اتنی ہی زیادہ آپ کو اکاموڈیٹ کرنا ہوگا، پارٹی جتنی شامل ہوں گی اِس لیے اُصول سمجھے کہ تحریک جب چلتی ہے اور سارے مل کر چلاٸے تو تحریک طاقتور ہوتی ہے، حکومتیں جو ہے اب اگر تنہا وہ حکومت کریں گے وہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے، جتنے زیادہ اُس میں لوگ شامل ہوتے ہیں وہ کمزور چلتی ہے، اُس میں بہت سے لوگوں کو راضی رکھنا ، اور پھر جہاں ایک حکومت جو ہے وہ ایک دو ووٹوں کی اکثریت سے قاٸم ہے ۔

سلیم صافی : یہ ستر اور وزیروں کی توقع ہم رکھے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : نہیں ستر تو نہیں ہوں گے لیکن میرے خیال میں یہ سلسلہ نہیں ہونا چاہیے، اِس لیے جمعیت علماٸے اسلام نام نہیں دے رہی ناں ، تو اِس لیے نہیں دے رہی کہ کیوں بلاوجہ اُس میں اضافہ کرے ۔

سلیم صافی : آپ کے دور میں ٹرانسجینڈر بل منظور ہوتا ہے ، آپ حکومت کا حصہ ہے ، آپ کی حکومت میں یہ سب کچھ، جس پر تمام دینی جماعتیں معترض ہیں ۔

مولانا فضل الرحمٰن : ایک تو مصیبت یہ ہے کہ آپ حکومت کا حصہ ہے اور آپ حکومت میں ہے ، جیسے کہ ہم نے صبح شام ایک کرکے ، اب اسمبلی میں نارمل قسم کی چیزیں بھی اتی ہے اراکین ہوتے بھی ہے اور اراکین نہیں بھی ہوتے ، جہاں جہاں پر ہمارے نوٹس میں ایک چیز ہوتی ہے تو یہ کوشش کرتے ہیں کہ اِن کے این جی اوز جو ہے وہ غلط اور معصومانہ قسم ابتدا کرتے ہے ، پارٹیوں کے اندر لابنگ کرتے ہیں، پھر اُن کو پاس کرنے کے لیے ایسا موقع تلاش کرتے ہیں کہ ہو جاٸے ، اتفاق سے اُس دن ہماری ایک خاتون ممبر موجود تھی اور وہ چیخ رہی تھی کہ کمیٹی میں لے جاو سمجھنے تو دو ۔

سلیم صافی : آپ بھی اُس پہ معترض ہے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : ہاں میں معترض ہوں، معترض کیا میں اسے اسلام سے متصادم سمجھتا ہوں ، مجھے اِس کی کوٸی پرواہ نہیں کہ آپ حکومت میں تھے، آپ اسمبلی میں تھے تو آپ یہ تھے اور آپ یہ تھے ، کل اگر اِس پر مجھے آگاہی نہیں تھی یا میری توجہ اُس طرف نہیں جاسکی اِس کا یہ معنی تو نہیں ہے کہ یہ صحیح ہوگیا ۔

سلیم صافی : آپ واپس کراٸیں گے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : ان شاء اللّٰہ پوری جامع ترمیم ہم نے تیار کی ہے اور وہ سینیٹ میں داخل کی ہے ۔

سلیم صافی : آپ جس تنظیم کے سربراہ تھے پی ڈی ایم، وہ پی ڈی ایم مرحوم سی ہوگٸی ہے ، غاٸب ہوگٸی ہے تو آپ کا اُس کو دوبارہ زندہ کرنے کا کوٸی ارادہ ہے یا وہ صرف حکومت گرانے کے لیے تھا ؟

مولانا فضل الرحمٰن : پی ڈی ایم کا اجلاس ان شاء اللہ العزیز بلانا ہے ، میرے خیال میں اِس مہینے ان شاء اللہ سربراہی اجلاس کریں گے ۔

سلیم صافی : ابھی زندہ ہے برقرار ہے ۔

مولانا فضل الرحمٰن : بلکل ہے بلکل ہے ۔

سلیم صافی : اور پیپلز پارٹی کو اُس میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دیں گے ؟

مولانا فضل الرحمٰن : نہیں ابھی اُن کی شمولیت کی ایجنڈے کی بات نہیں ہے، پہلے تو ہمیں خود ایک لمبے عرصے کے بعد آپس میں بیٹھنا چاہیے ۔

سلیم صافی : چلے اللہ آپ کو جلد بیٹھنے کی توفیق عطا فرماٸے، ناظرین مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ایک بار پھر شکریہ کے ساتھ آج کے جرگے سے اجازت چاہتا ہوں اللّٰہ حافظ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

#teamjuiswat 

0/Post a Comment/Comments