قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا ڈیلی میدان کے میزبان فدا عدیل کے ساتھ خصوصی انٹرویو
12 جون 2023
فدا عدیل : ناظرین اِس وقت میں مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ موجود ہوں اور آپ اِس نام سے بھی واقف ہیں اِس کے کردار سے بھی واقف ہیں اور اِس شخصیت کی خدمات اور جدوجہد سے بھی واقف ہیں، مولانا صاحب بہت شکریہ
مولانا صاحب ایک تو بڑا لوگ پوچھتے ہیں میرے ذہن میں بھی ایک سوال تھا کہ میں جب بھی مولانا صاحب کے ساتھ بیٹھوں گا تو پہلا سوال میرا یہ ہوگا اور پھر آپ کے مخالفين بڑا یہ سوال پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب جو ہے وہ کس مسجد کے امام ہے ؟ کس مسجد کے خطیب ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : میں تو جدی پشتی مولوی ہوں اور میرے دادا جی نے ساری زندگی ایک خانقاہ میں گزاری خانقاہ یاسین زٸی میں، اور وہی پر اُنہوں نے ظاہری و عدم باطنی علوم حاصل کی اور میرے والد صاحب کی ولادت بھی وہی پنیالہ میں ہوٸی اور اُسی خانقاہ میں اُنہوں نے پرورش پاٸی اور اُنہی بزرگوں کے سرپرستی میں تعلیم حاصل کی، اُنہی بزرگوں کی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ہند و ستا ن گٸے اور بہار آباد کے مدرسہ شاہی میں چھ سال وہاں پڑھے، والد صاحب کے طالب علمی کا دور جو ہے وہ بنوں سے بھی متعلق ہے، بنوں میں بھی مولانا صاحب سے پڑھے ہیں اور یہ جو آپ کے بنوں کے مولانا فضل شہید صاحب تھے یا آپ کے مشر مولوی صاحب اور کشر مولوی صاحب اُن کے ہم سبق بھی تھے ہم سفر بھی تھے، تو اُس کے بعد پھر والد صاحب جو ہے وہ میرے چچا جان کے ساتھ ہی عبدالخیل گاٶں اٸے مسجد کے امام کے طور پر اٸے، تو چوں کہ مفتی صاحب کے پاس تدریسی قوت تھی بہت بڑی تدریسی قوت تھی تو اِس بے آب و گیاہ علاقے میں تشنگان علوم بلوچستان سے افغا نستا ن تک تھے اور علاقے کہ تو تھے ہی، وہ عبدالخیل میں رہے مجھے اب بھی معلوم ہے میرے گاٶں کے کون کون سے حجروں میں وہ طلباء رہتے تھے وہاں پر وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے ۔
پھر 1950 میں میرے والد صاحب دعوت کے جامعہ قاسم العلوم ملتان گٸے تھے اور وہاں پر اُنہوں نے اپنے تدریسی جوہر دکھاٸے اور وہاں چند ہی سالوں میں دورہ حدیث کی بڑی کتابیں پڑھانے کی خدمت اُن کو ملی اور میری پیداٸش 1953 میں عبدالخیل کی ہے لیکن میں 1961 میں جب بہت چھوٹا تھا تیسری جماعت میں تھا تو ملتان گیا تھا پھر کبھی گاٶں میں کبھی اُدھر، زیادہ تر ہماری تربیت گاٶں میں ہوٸی گاٶں میں بھی ہمارے چچا جان ہماری سرپرستی فرماتے تھے اور پھر میں نے دسویں ملتان سے پاس کیا اور پھر دو سال میں وہاں ملتان کے گردونواح میں دیہاتوں میں پڑھتا رہا ابتدائی کتابیں میں نے وہاں یاد کیں، اُس کے بعد 1972 میں میں اکوڑہ خٹک ایا اور پھر 79-78 تک یہاں پڑھتا رہا، پھر تدریس کے لیے میں ملتان چلاگیا تو 1980 میں والد صاحب رحمہ اللّٰہ کا انتقال ہوگیا پھر کچھ تدریسی ذمہ داریاں کچھ جماعتی ذمہ داریاں لیکن زیادہ تر مجھے جمعیت نے ہی اپنے طرف زیادہ کھینچ لیا تو وہ تدریسی سلسلہ پھر میں برقرار نہ رکھ سکا ۔
تو شناخت تو ہماری بڑی مولویانہ ہے، تعارف ہمارا مولویانہ ہے اور مسجد مدرسے سے ہماری نسبت قاٸم ہے اِس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں جامعتہ المعارف شرعیہ کے نام سے وہاں ایک بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے اگرچہ وسائل کی کمی کے باعث مشکلات ہوتی ہیں لیکن وہ سلسلہ بھی چل رہا ہے قاسم العلوم ملتان کا سلسلہ بھی چل رہا ہے (الحَمْدُ ِلله) اور اُن کو ہمارے دوسرے بھاٸی بیٹے سنبھال رہے ہیں اور میں نے خود جمعیت علماء کی جماعت کے لیے زندگی وقف کی ہوٸی ہے ۔
فدا عدیل : تو تقریباً ساری عمر تو آپ کی جو ہے وہ سفر میں گزری ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : بس میرا جو سیاست کا آغاز 1980 میں ہوا تو ظاہر ہے کہ اُس وقت مارشل لاء تھی اور جو والد صاحب نے ایک نظریہ مارشل لاء کے خلاف چھوڑا تھا ہم نے آنکھیں بند کرکے اُس کی پیروی کی اور پھر اگلے ہی سال سے پہلے ابتدا صوبہ بدین سے ہوٸی پھر 81 میں قید و بند سے آغاز ہوا 86-85 تک قید و بند کا سلسلہ وقفوں وقفوں کے ساتھ چلتا رہا اور پھر 88 میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا ممبر بنا ۔
فدا عدیل : جیل میں بھی گٸے متعدد مرتبہ
مولانا فضل الرحمٰن : 86-85 تک جیل میں بھی جاتا رہا
فدا عدیل : پہلے سیاست کو جیل میں جانا چاہیے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : یہ تو حالات ایسے ہوتے ہیں خوشی سے کوٸی تھوڑی جاتا ہے، کوٸی جانا لازم تو نہیں، لیکن حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ دو راستوں میں ایک راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے آپ کو اپنے موقف پہ ڈٹ جانا ہوگا تو پھر جیل میں بھی جانا پڑے گا، آپ کو ناراض کرنا پڑے گا اور پھر ڈکٹیٹر کو ہم نے ناراض کیا اور یا پھر عافیت کا گوشہ لینا ہوگا اُس کے لیے بھی بہت لوگ ہیں ۔
فدا عدیل : آپ کی ایک تصویر آج بھی انٹرنيٹ پر دستیاب ہے جس میں پرویز مشرف کے ساتھ آپ کھڑے ہیں گروپ تصویر ہے اُس میں عمران صاحب بھی ہے تو یہ بھی ایک زمانہ تھا کہ جب جمعیت علماء اسلام تھوڑا ڈکٹیٹر کے قریب چلی گٸی تھی ؟
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں ڈکٹیٹر کے ساتھ ہمارا اِس طرح تو نہیں جس طرح ذاتی دشمنی ہوتی ہے، بارہ اکتوبر کو مارشل لاء لگا اور پچیس اکتوبر کو جمعیت علماء اسلام کے مرکزی مجلس شوریٰ نے بیٹھ کر اُس کو مسترد کردیا، اب یہ حکمران تو ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ایکٹ کرتا ہے کس کے خلاف زیادہ کس کے خلاف کم، تو صورتحال کچھ یوں بنی کہ چوں کہ اُس وقت ہماری ملک کی سیاست دو حصوں میں تقسیم تھی ملک کے اندر مارشل لاء تھا اور بین الاقوامی سطح پر ناٸن الیون ہوگیا تھا تو اب ترجيحات طے کرنی تھی یہ نہیں کہ مفاد کا موقع تھا ترجیحات کا مسٸلہ تھا، ناٸن الیون کے بعد جب افغا نستا ن کے اوپر حملہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو جمعیت علماء اسلام اور دوسرے مذہبی جماعتوں نے امریکی جارحیت کو ترجیح دی اور اُس کی مدافعت میں میدان میں نکل اٸے امریکہ مردہ باد کی تحریک چلائی میں نے پورے ملک کا دورہ کیا، دفاع افغا نستا ن کونسل بنائی، جمعیت نے اپنے پلیٹ فارم سے جو جلسے کیے ہیں میرے خیال میں وہ چوبیس اور اڑتالیس گھنٹوں کے نوٹس پر تا حد نظر لوگوں کے اجتماعات اُس وقت ہوتے تھے اور مجھے یاد ہے ٹل میں میں نے جلسہ کیا جو افغا نستا ن کے سرحدات کے قریب ہے، بنوں میں میں نے جلسہ کیا تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ شاٸد وہی تھا، ٹانک میں کیا پھر میں بلوچستان میں گیا اُس زمانے میں چمن اور گوادر تک گیا ہوں اِس سے پورے ملک میں بلکہ میں آپ کو اگر یہ کہہ دوں پورے سب کانٹیننٹ کے اندر جو اینٹی امریکنزم پیدا کیا وہ ہمارے اُس تحریک نے پیدا کیا تھا اور عام آدمی کے اندر امریکی جارحیت سے نفرت اور مخالفت وہ کوٹ کوٹ کر سامنے اگیا تھا ۔
اب اُس حوالے سے جنرل مشرف نے چوں کہ امریکی اتحادی ہونے کا اعلان کردیا تو ہماری اُن کے خلاف رویوں میں سختی اگٸی اور پھر میں بھی جیل میں اور قاضی حسین احمد صاحب مرحوم بھی جیل میں اور ہمارے دوسرے کارکن بھی جیلوں میں، سندھ میں بلوچستان میں جگہ جگہ پر بڑا ٹینشن پیدا ہوا اور جو ہماری دوسری سیاسی جماعتیں تھی اُنہوں نے جو انٹرنل پولیٹکس تھی اُس کو ترجیح دی جس میں الیکشن کا مطالبہ، مارشل لاء کا خاتمہ، تو ہم اُن میٹنگز میں بھی بیٹھتے تھے ہمارا اُن سے کوٸی اختلاف تو نہیں تھا لیکن امریکہ کے خلاف مظاہروں میں وہ شریک نہیں ہوتے تھے ہم اُن کے ساتھ مارشل لاء کی مخالفت میں شریک ہوتے تھے، تو اِس وجہ سے کچھ دو زاویے سے اور ہر ایک کا زاویہ دوسرے سے مختلف تھا، تو اُن حالات میں کون سی ایسی میٹنگز تھی جس میں، میرے خیال میں ہمیں تو کٸی میٹنگز یاد ارہی ہے جو جنرل مشرف نے خود بلاٸی تھی اور اُس میں تمام سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا تھا، تمام لیڈر شپ موجود تھی ممکن ہو اُس ماحول میں تصویر لی گٸی ہو اور وہ تصویر اب بھی چل رہی ہوگی تو تصویر تو پھر کہی جاتی نہیں، اب کوٸی پوچھتا ہے کس ماحول میں کن حالات میں کیسی یہ تصویر اٸی تھی اور اُس وقت عمران خان کا اور ہمارا کوٸی جھگڑا بھی نہیں تھا کیوں کہ زبانی حد تک وہ بھی امریکہ کے خلاف، جنگ مخالفت اور ڈرون حملوں کے خلاف بولتا تھا تو اُن کے جو اندر کے عزائم تھے جو اندر کے رابطے مختلف دنیا کے اتھاریٹیز کے ساتھ تھے اُس سے ہم اُس وقت ناواقف تھے یہاں تک کے 2002 میں جب ہم پارليمنٹ میں الیکشن کے لیے چلے گٸے اور جمالی صاحب کے مقالے میں وزارت عظمٰی کا کینڈیڈیٹ میں تھا تو اُس میں مجھے ووٹ بھی دیا تھا ایسی وجہ نہیں کہ ہم بلاوجہ کسی کے مخالف ہوگٸے، اچھے تعلقات تھے تعلقات کیوں خراب ہوگٸے کوٸی ایسی ذاتی وجہ تو نہیں تھی، تو یہ وہ تصویر ہے جو اُس زمانے میں چلی ہوگی تو اِن حالات کے تناظر میں کبھی میٹنگز ہوتی ہے لیکن میٹنگز میں ہم اپنا موقف پیش کرتے ہیں یہ تو نہیں کہ ایک میٹنگ میں ہم بیٹھے ہیں تو بہت سے لوگوں نے مشرف کی حمایت کی لیکن مجھے یاد ہے ہم نے مخالفت کی ۔
فدا عدیل : تو جو آپ نے مہم چلاٸی مختلف جگہوں پر جلسے کیے، ریلیاں نکالی اُس کا سیاسی فاٸدہ تو ہوا متحدہ مجلس عمل بنی اور آپ کو اِس صوبے میں حکومت ملی، عوام نے ووٹ دیے یا آپ کو دلواٸی گٸی ؟ کچھ تاثر ایسا بھی ہے کہ آپ چوں کہ پرویز مشرف صاحب کے قریب تھے تو آپ کو خیبر پختونخواہ کے اندر یہ حکومت دلواٸی گٸی تھی ۔
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں ہم قریب نہیں تھے میں اُس زمانے میں چھ چھ مہینے جیل میں رہا ہوں قاضی صاحب بھی ہمارے کولیگ تھے مختلف صوبوں میں ہمارے کارکنوں جیل میں رہے، ماریں کھاٸی، شہید ہوٸے، مظاہروں میں ہمارے کارکن گولیوں سے شہید ہوٸے، تو ایک نظریاتی تقابل تو ہے لیکن آپ یوں سوچ رہے ہوں کہ باہر والے سیاست میں آپ کو زیادہ سختی اور انٹرنل میں نرمی نظر اتی ہوگی تو اگر اُس نرمی کو لوگ کہتے ہیں تو یہ حکمت عملی تھی یہ انٹرنل تھا کیوں کہ اُس وقت حکومت اور اسٹبلشمنٹ اور آپ کا پورا میڈیا جو ایک سیکولر دنیا ہے اور بیوروکریسی وہ مذہب کے خلاف ایک جان ہوگٸی تھی، مذہبی انسٹيٹيوٹ کے خلاف، مسجد مدرسہ کے خلاف، اُن کو دہش ت گردی سے جوڑنا اور زبردستی جوڑنا اور سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی نوعیت میں چل رہا ہے ایسا نہیں کہ نہیں چل رہا، تو ظاہر ہے کہ اُن حالات میں جو ہم نے موقف لیا میں نے آپ سے کہا کہ صرف پاکستان نہیں برصغیر میں ہم نے انٹی امریکنزم پیدا کی تو ایک لہر ہمارے حق میں اٸی اور میں آپ پر واضح کردوں کہ ہمارا بڑا واضح موقف تھا کہ ہم اپنے حق میں دھاندلی کا ایک ووٹ بھی قبول نہیں کریں گے، اسٹبلشمنٹ اگر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے حق میں کسی نے کوٸی حرکت کی تو ہم اس کو بھی رد کردیں گے لیکن ہم نے اتنا ضرور کہا تھا کہ ہمارے خلاف آپ دھاندلیاں نہ کرے، ہمارے خلاف کوٸی کارواٸی نہ کرے تو اُس ویو کو وہ بھی اُس وقت نہیں روک سکے اور ظاہر ہے ہم نے پنجاب میں بھی سیٹ جیتی تھی ۔
فدا عدیل : وہ اُس اتحاد کی برکت تھی ؟
مولانا فضل الرحمٰن : جی اتحاد کی برکت تھی وہ جو بین الاقوامی فضا بن گٸی تھی اُس میں ہمارا جو موقف تھا اُس کو لوگوں نے قبول کیا، بعد میں پھر 2008 میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا، 2013 میں جو کچھ ہوا پھر 18 میں جو کچھ ہوا وہ تسلسل تھا ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب آپ کا جو سیاسی سفر ہے اُس کی منزل کیا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے ہم تو ایک واضح موقف رکھتے ہیں پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اُس مقصد کی تکمیل ہونی چاہیے، کوٸی شخص یہ سمجھتا ہے کشمیر حاصل ہوگا تو یہ تکمیل پاکستان ہے بلکل ہمیں کوٸی اعتراض نہیں لیکن جمعیت علماء اسلام جہاں جغرافيائی حوالے سے سوچتی ہے وہاں نظریاتی حوالے سے بھی سوچتی ہے کہ جب تک پاکستان میں اسلام کا عادلانہ نظام نہیں ہوتا، اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہوتا، ایک اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں اٸے گا تو اِس طرح تو پاکستان کا جو دنیا میں تعارف ہے اور شناخت ہے وہ بنیاد سے مختلف ہوگا یعنی پاکستان کی اساس لاالہ الااللہ اور پاکستان کا موجودہ تعارف ایک سیکولر پاکستان، تو ظاہر ہے جمعیت علماء اسلام کو یہ صورت تو قبول نہیں ہے لیکن ہم کسی شدت کا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں نہیں ہے ہم بلکل معتدل، رواداری کا اور اپنے موقف کو داعیانہ انداز میں پیش کرنا تاکہ میرے دلیل سے لوگ مطمئن ہو، اُس کے لیے آٸینی اداروں کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا یہ ہمارا روش ہے اور اسی پہ ہم جارہے ہیں ۔
تو ہر ایک کو اپنے نظریات کے حوالے سے فورم استعمال کرنے حق بھی حاصل ہے اور اسی بنیاد پہ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی معشیت کو بہتر ہونا چاہیے، اور اُسی کے خلاف مسلسل ہم نے سود کے خلاف بات کی ہے ہم نے اگر خواتین کی حقوق کی بات کی ہے تو قرآن و سنت کی روشنی میں کی ہے اور اگر آٸینی قوانین اٸے ہے تو میرے والد صاحب نے سن 62 کی اسمبلی میں جنگ لڑی ہے میں حیران ہوں کہ اتنا دلائل سے بھرپور قرآن و حدیث، فقہ اور ہر فقہ سے دلائل اتنا لمبا وقت انہوں نے دیا کیسے، لیکن بڑی ایک دلیل کی جنگ ہم نے لڑی ہے لیکن پھر بھی پارليمنٹ میں ہماری ایک آواز ہی ہوتی ہے اگر ہماری اکثریت نہیں ہے تو قانون بنانے کا اختیار تو پھر کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو حکمران ہوتا ہے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ۔
تو اِس حوالے سے ایک جدوجہد ہے ہم جدوجہد کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے ۔
فدا عدیل : مطلب مولانا صاحب اسلامی نظام تب نافذ ہوگا جب مولانا فضل الرحمٰن صاحب صدر ہوں گے یا وزیراعظم ہوں گے، مطلب اُن کے ہاتھ میں اختیار ہوگا ۔
مولانا فضل الرحمٰن : یہ بھی ضروری نہیں ہے میں آپ کو ایک اُصول بتادوں کہ جو پارليمانی سیاست ہے جس کو ہم جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں یہ ایک تدریجی اصلاحات کا نام ہے سو اگر اِس جدوجہد میں کبھی آپ کو کچھ عرصے کی حکومت بھی مل جاتی ہے تو وہ منزل نہیں ہوا کرتی وہ بھی منزل کے طرف سفر کا حصہ ہوتا ہے اور بھی ایک پڑاٶ ہوتا ہے اور آپ مذید اگے بڑھنا چاہتے ہیں لہذا یہ ایک ذہن بن جاتا ہے کہ ایک دفعہ آپ پراٸم منسٹر بن گٸے تو آپ مختار کُل بن گٸے، یہاں پر آپ کے پاس پارليمنٹ بھی ہے، اسٹبلشمنٹ بھی ہے، بیوروکریسی بھی ہے، مختلف ادارے ہیں اِن سب کے مجموعے کا نام حکومت ہوا کرتا ہے صرف عوام کے ووٹ سے اقتدار میں پہنچ جانے کا نام ہے آپ اُس کے نگران بن جاتے ہیں یہ ٹھیک ہے، اب وہ نگرانی آپ اچھے اور بہترین طور پر کرلیتے ہیں تو آپ اُس سے سیاسی فاٸدہ اٹھاتے ہیں اور اگر آپ نے نقصان کردیا تو عوامی سطح پر نقصان ہی ہوگا، تو اُس میں عوام کے اعتماد کو کیسے بحال رکھنا ہے اُن کو کیسے مطمئن رکھنا ہے ہرچند کے آپ کے ساتھ اِس نظام میں بہت سے ادارے شریک ہیں لیکن عوام جو ہے جس نے ووٹ سیاستدان کو دیا ہے لہذا عام آدمی اُس کا ذمہ دار سیاستدان کو ہی ٹہراتا ہے ۔
فدا عدیل : تو یہ باتیں ٹھیک نہیں ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب پی ڈی ایم کے صدر ہیں، پی ڈی ایم کی حکومت ہے آرمی چیف حافظ قرآن ہے تو اسلامی نظام فوراً نافذ ہو جانا چاہیے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں یہ بات صحیح نہیں ہے وہ ایک آدمی ہے اگر حافظ قرآن ہے تو کون سا جرم ہوگا دوسرا اُس کے ساتھ ایک بڑا انسٹيٹيوشن ہے اور اُس کے اندر برابر کے جنرلز ہیں کس خیال کے ہوں گے کس سوچ کے ہوں گے وہ اُن کا اپنا مسٸلہ ہے لیکن ٹھیک ہے فوج اپنا ایک نظم رکھتی ہے اُس کا اپنا ایک کمانڈ ہوتا ہے اور پی ڈی ایم سے ضرور مجھے صدارت ملی ہے لیکن چوں کہ جو تبدیلی اٸی ہے یہ ہمارے فلسفے کے مطابق نہیں اٸی ہے کہ ہم تحریک کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتے تھے اور عام انتخابات کا مطالبہ فوری طور پر ہم کررہے تھے لیکن عدم اعتماد لانے کا ماحول بن گیا جب عدم اعتماد کا ماحول بن گیا تو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہے ہم حکومت میں شریک ہوٸے ۔
فدا عدیل : تو پھر وہی اسمبلیاں وہی پارليمنٹ جو آپ نے جعلی قرار دی تھی وہ جاٸز ہوگٸی ۔
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں اُس میں تو یہ تھا کہ چوں کہ جن لوگوں نے ہمیں ووٹ دیا ہے حکومت بنائی ہے اُس کا کسی تقابل پی ٹی آٸی سے نہیں، ہم پی ٹی آٸی کے اکثریت کے خلاف تھے اور ہم اُس کو دھاندلی کہتے تھے اُس میں اگر دوسری پارٹيوں کے لوگ ہیں اور اُس کے ممبران ہیں تو وہ تو آپ دیکھتے ہیں مینگل صاحب اُس میٹنگ میں ہمارے ساتھ تھے جب ہم نے کہا کہ یہ الیکشن غلط ہوا ہے لیکن حکومت میں چلے گٸے پھر ایم کیو ایم پہلے میٹنگ میں ہمارے ساتھ بیٹھی تھی حکومت میں چلے گٸے تو اب اُن کے ممبران کو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کیوں کہ وہ بھی اِس الیکشن سے شاکی تھے تو بہت سی پارٹیاں تھی کہ جو اِس لیکشن کے نتائج سے مطمئن نہیں تھیں تاہم حکومت میں چلی گٸی وہ جب واپس اٸے اور دوسری طرف اُن کے پارٹی کے لوگ سب اپوزیشن میں چلے گٸے اور اپوزیشن میں جو پارٹیاں تھی وہ سب حکومت میں اگٸی تو ہم نے ایک ووٹ بھی پی ٹی آٸی کا وصول نہیں کیا، یہی وجہ ہے اگر ہم وصول کرنا چاہتے یا ہم اسٹبلشمنٹ کی خواہش پوری کرنا چاہتے تو اُن کے ووٹ سے ہم دو تہائی اکثریت میں چلے جاتے ۔
فدا عدیل : کیا اسٹبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ آپ وہ ووٹ لے لیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن : میں چوں کہ اِس مذاکرات میں موجود نہیں تھا کیوں کہ یہ ساری صورتحال میرے فلسفے کے خلاف تھی تو پھر یہ ہوا کہ تین چار ووٹوں سے ہماری اکثریت بنی اور اسی پہ حکومت قاٸم ہوٸی ۔
فدا عدیل : تو عمران خان جو ہے وہ یہ سارا کریڈٹ یا رجیم چینج کے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں اِس کا سب سے بڑا ذمہ دار باجوہ صاحب کو قرار دیتے ہیں، تو یہ جو باجوہ صاحب کا کردار ہے یہ کردار آپ نہیں مانتے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُس کو لانے میں تو یقیناً اُن کا بڑا کردار تھا باجوہ صاحب کا بھی اور فیض حمید صاحب کا بھی، اور جو جرم انہوں نے کیا ہے وہ ذمہ دار ہیں کیوں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور جب تک اُس کی حکومت تھی اُن کی سرپرستی اُس کو حاصل تھی، جب میں کہتا تھا ناں کہ یہ نکا ہے یہ نکے کا ابا ہے لیکن جس وقت جنرل صاحب نے یہ محسوس کیا کہ مسٸلہ سیاست سے اگے چلا گیا ہے اور اب سٹیٹ کو نقصان پہنچ رہا ہے تو پھر سٹیٹ کی ذمہ دار اخر فوج ہی ہوتی ہے اِس کا ادراک انہوں نے کیا، اِس بات کا ادراک کیا کہ ملک ڈوب رہا ہے انہوں نے ہاتھ اٹھالیا اور جونہی انہوں نے ہاتھ اٹھالیا تو بات ختم ہوگٸی، کھیل ختم ہوگیا ۔
فدا عدیل : تو آج کے دور کا نکا کون ہے اور نکے کا ابا کون ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : آج کل تو بندیال صاحب ابا کا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
فدا عدیل : امکان ہے کہ قومی سطح پر مذاکرات ہو اور پھر اُس میں عمران خان بھی شامل ہو ۔
مولانا فضل الرحمٰن : کس سے مذاکرات کریں، بارہ پارٹیاں حکومت میں ہے ۔
فدا عدیل : ایک قومی مکالمہ ہو، سب مل بیٹھ کے قوم کے لیے ملک کے لیے بات کرے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : کس کے ساتھ کی جاٸے فوج کے ساتھ بات جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں، کوٸی اور ادارہ ہو تو اُس کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، پولیٹکلی ہم کس سے بات کریں، دیکھیے آپ مذاکرات کو پی این اے پہ نہ لے جاٸے اُس وقت ایک ذوالفقار علی بھٹو نے نو ستاروں کے ساتھ بات کی، نو بڑی پارٹیاں ایک اتحاد میں تھیں ملک کے اندر جتنے علاقائی تنظیمیں تھی سب اُس سے وابستہ تھی، لہذا ایک حکمران نے پورے مخالف اتحاد کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور وہ اُس میں کامیاب ہوگٸے، آج ساری قوم اٹھ کر ایک آدمی کو راضی کرے اور اُس کا پریشر کیا ہے، چلو ابھی تو نو مٸی کے واقعے کے بعد آپ دیکھ رہے ہیں، نو مٸی سے پہلے آپ دیکھے انہوں نے لانگ مارچ کیا فیل ہوگیا، انہوں نے جیل بھرو تحریک شروع کی ایک آدمی جیل میں نہیں گیا تو ایسا نہتا آدمی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ 2018 کی حکومت دھاندلی سے بنایا گیا اور اُس کے بعد جو حکومت ختم ہوٸی تو اُس نے امریکہ کا کارڈ استعمال کیا کہ مجھے امریکہ نے ہٹایا ہے، امریکہ نے اُس پر کوٸی احتجاج نہیں کیا اِس کا مطلب یہ کہ وہ چورن اُن کے مرضی سے بیچ رہا تھا، اسی طریقے سے جو ابھی امریکن کانگریس کے اندر لوگ ہے جو سی اٸی اے کے ریٹائرڈ لوگ ہے جیسے زلمی خلیل زاد ہوگیا یا اِس کے علاوہ جو برطانیہ کے پارليمنٹ کے اندر لوگ ہے یا جو کنزرویٹیو فرینڈز آف اسرا ٸیل ہے اور امریکی پارليمنٹ کے اندر اسرا ٸیل فرینڈز کی جو کمیٹی ہے یہ سب اُس کی حمایت کررہے ہیں، اور ایسے ایسے لوگ کررہے ہیں کہ جو پاکستان کے اندر علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں وہی عمران خان کی حمایت کررہے ہیں کہ اِس کی اقتدار کی صورت میں پاکستان کے ٹوٹنے کی امکانات زیادہ ہے، تو جو یہو د ی لابی ہے وہ اِس کی حمایت کررہی ہے، ایسی خاتون جس کو پاکستان نے پاکستان مخالفت کی بنیاد پر اٸیرپورٹ سے ڈی پورٹ کیا تھا وہ بھی اِس کی حمایت کررہی ہے ۔
تو اِس قسم کی دنیا جب اُس کی حمایت کرے گی لیکن آج اُن کی جو چاں چوں تھی وہ بھی خاموش ہوگٸی، تو اِس طرح تو اتنی جلدی میں واقعی اگر کوٸی قومی سطح کا لیڈر ہو اس طرح اتنی جلدی میں نہتا نہیں ہوتا جس طرح وہ نہتا ہوگیا ۔
فدا عدیل : اب اگر وہ مذاکرات یا بات کرنا چاہے، ایک غلط لفظ ہے میں معذرت کے ساتھ استعمال کررہا ہوں آپ ڈیزل سے مولانا صاحب ہوگٸے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ آپ سے بات ہو، فوج سے بات ہو، سیاستدانوں سے بات ہو تو پھر اُن کی بات نہ مانی جاٸے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں پھر میں آپ سے مذاکرات کیوں نہ کروں، یہ چیزیں جو انہوں نے سیاست میں کارکنوں کو متعارف کرواٸی ہے یہاں تک کے امریکہ واشنگٹن میں جلسہ کرکے مجھے گالیاں دی گٸی، پارليمنٹ کے اندر مجھے گالیاں دی گٸی، پارليمنٹ کے باہر ہر جلسے میں مجھے برے نام سے پکارنا یہ اُن کا شیوہ بن گیا تھا، مجھے کیا فرق پڑا، میری تحریک میں تو کوٸی فرق نہیں ایا، میری تحریک تو اگے بڑھی ہے، میرا کارکن تو اور منظم ہوا ہے، پبلک میں گیا ہے پبلک کو اٹھایا ہے اور پبلک نے ہمیں سپورٹ کیا ہے تو کیا ایسی صورتحال میں میں نے حوصلہ ہارا ہے، کیا میں اِس قسم کی خرافات سے متاثر ہوا ہوں اور میں نیچے گرا نہیں ہوں میں نے اپنا لیول ٹھیک رکھا ہے، میں نے اُن کو گالی نہیں دی کسی کو یہو د ی ایجنٹ کہنا یہ اُس کے سیاسی کردار کا نام ہے کوٸی گالی نہیں دی میں اِس پہ دلائل رکھتا ہوں اور میں پہلے کیوں نہیں کہہ رہا تھا جب کہ لوگ 1997-1996 میں کہہ چکے ہیں، ڈاکٹر اسرار 1996 میں کہہ چکا ہے، حکیم محمد سعید نے 1996 میں کتاب لکھی ہے، مصر کے ایک اخبار نے یہ خبر 1996 میں شاٸع کی ہے، ہمارے اِس وقت بزرگ سیاستدان راجہ ظفر الحق صاحب ہے انہوں نے یہ چیزیں مجھے رپورٹ کی ہے وہ 1997 کی ہے، میں نے تو یہ بات12 -2011 میں کی ہے ۔
تو یہ چیزیں میں نے کوٸی خدانخواستہ ایسی بات نہیں ہے کہ میں نے پہلی مرتبہ کوٸی بات کی ہے میں نے بڑی تاخیر سے یہ بات کی ہے مجھ سے زیادہ بڑے بڑے دانشوروں نے پہلے یہ باتیں کی ہے ۔
فدا عدیل : انے والا جو الیکشن ہے وہ ایک تو یہ بتاٸیے کہ اسی سال میں الیکشن ہوں گے آپ کو پتہ ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے بنیادی بات یہ ہے الیکشن ہمارا مطالبہ بھی رہا ہے ساڑھے تین سالہ تحریک میں ہم نے ایک بات کی کہ 2018 کا الیکشن غلط تھا اور الیکشن کراٸے جاٸے تو ہم اپنے اِس اصول سے انحراف کرنے کو تیار نہیں ہے لیکن اب صرف ہم تو پاکستان میں نہیں ہے ہمارے علاوہ بھی تو دماغ ہے، ادارے ہیں، دانشور ہیں، پاکستان کے اندر ایک سوچ ہے یہ آٸین میں یہ گنجائش کیوں رکھی گٸی کہ الیکشن مٶخر بھی کیے جاسکتے ہیں یہ کن حالات کے لیے رکھے گٸے ہیں، کیا پاکستان کے حالات واقعی وہ ہوگٸے کہ اب مسٸلہ پارليمنٹ اور سیاست کا نہیں رہا بلکہ ریاست کا ہوگیا ہے، اگر آپ پہلے سیاسی عدم استحکام پیدا کرتے ہیں جس طرح پانامہ کے ڈرامے سے شروع کیا گیا، پھر عمران خان کو لایا گیا اور معاشی عدم استحکام لایا گیا، اب آپ نتائج کی طرف دیکھے ساڑھے تین سال میں کیا فوج کے اندر پہلی مرتبہ اختلاف سامنے نہیں ایا، کیا عدلیہ میں پہلی مرتبہ اختلاف سامنے نہیں ایا اور اِس طرح ہم دوسرے اداروں میں بھی جاٸیں گے، تو اداروں کے اندر فکری تقسیم جو ہے اب اگر آپ کا دفاعی نظام بھی آپ کا اِس طرح خطرے میں پڑ جاٸے تو میرا خیال یہ ہے کہ باجوہ صاحب کو اِس کا ادراک ہوا بلکہ فیض حمید صاحب کو بھی اِس کا ادراک ہوا تھا اور اب بھی فوج تقریباً اِس راٸے پر متفق ہے کہ ہم آپس میں کیوں اتنے دور ہوگٸے یہی تو اخری سہارا ہے، ملک کو اخر میں بچاتا ہی یہی ہے اور ا ن ڈ یا نے تبصرہ کیا ہے تبصرہ یہ ہے کہ ہم ستر سال میں پاکستان کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکے جو ساڑھے تین سال کے اندر عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا، اور پاکستان کو بچانے والا گون، گون فوج ہے جس نے ملک کو جوڑا ہوا ہے اب ہم اُس کو توڑنے کے قریب تھے عمران خان اُس کو توڑنے کے قریب تھا لیکن یہ ہے کہ حالات بدل گٸے اور یہاں تک بھی انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے اِن کوکشمیر بیچنے کے لیے سو کروڑ دیے ۔
تو یہ ساری چیزیں اب منظرعام پر ارہی ہیں اور اِس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تھوڑا سا عام آدمی کو بھی سوچنا پڑے گا کہ ہم جو چیز کٸی سالوں سے کہہ رہے ہیں بلاوجہ نہیں کہہ رہے ہیں، وقت ثابت کررہا ہے ایک ایک واقعہ سامنے اتا رہا ہے تو جو چیز ہم دور بادلوں میں دیکھتے ہیں آپ تب مانتے ہیں جب آپ کے سر پر بارش برس رہی ہوتی ہے، تو کچھ ہم ملک اور پاکستان کے عوام کی ہمدردی میں بات کرتے ہیں اُن کو اعتماد کرنا ہوگا ۔
فدا عدیل : تو دور بادلوں میں آپ کو الیکشن نظر نہیں ارہا ؟
مولانا فضل الرحمٰن : میں ابھی تک یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اگر اِس وقت حالات قابو میں اگٸے، صورتحال بہتر ہوگٸی ہماری جماعت کا تو ایک ہی موقف ہے کہ وقت پر الیکشن ہو، ہماری جماعت یہی کہہ رہی ہے دوسرے لوگ کیا سوچتے ہیں انہیں دیکھنا پڑے گا ۔
فدا عدیل : تو امن و امان کی صورتحال بھی پہلے سے بہتر ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : جی نہیں ٹھیک نہیں ہے آپ بنوں کے رہنے والے ہے میں ڈی آٸی خان کا رہنے والا ہوں، لکی مروت اِن علاقوں کے حالات آپ نہیں جانتے کہ وہاں کیا صورتحال ہے، روزانہ پولیس کی چوکیاں بند ہو جاتی ہے ایک سپاہی نہیں مرتا چوکیوں کی چوکیاں اڑ جاتی ہے، تو اِس صورتحال میں تو نہیں سمجھتا کہ ہم الیکشن کمپیٸن کے لیے کھل کر نکل سکے، میں نے اِن حضرات سے کہا تھا کہ کم از کم میں اپنے علاقے میں جو حالات دیکھ رہا ہوں ہم تو شاٸد انتخابی مہم میں نکلنے کے لیے قابل نہیں ہے ۔
فدا عدیل : حالانکہ آپ کا جو مرکزی مجلس شوریٰ ہے اُس نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ باقاعدہ انتخابی مہم شروع کی جاٸے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : وہ ٹھیک ہے یعنی یہ تو نہیں ہے کہ اگر الیکشن اکتوبر یا نومبر میں ہوتے ہیں اور ہم ہوم ورک بھی نہ کرے، ہوم ورک تو بہرحال کرنا ہے ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب آپ کو کس سے خطرہ ہے ٹی ٹی پی سے یا کسی اور تنظیم سے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : یہاں پاکستان میں حضرت ایک تنظیم نہیں ہے ہر ایک علاقے کی اپنی تنظیم ہے اور وہ خودمختار ہے اُس کی اپنی شریعت ہے، اپنا قانون ہے، اپنا قاضی ہے اپنا مفتی ہے اور جو کسی کے خلاف کارواٸی کرے، اِس قسم کی صورتحال ہے ۔
فدا عدیل : الگ الگ جو نظام ہے یہ شرعی ہے اِس کا کوٸی جواز ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : دیکھیے یہ جو صورتحال اگر ہے تو ظاہر ہے یہ علماٸے کرام کے اتفاق راٸے کا ایک نظام ہے کراچی سے لے کر گلگت اور چترال تک اور تربت اور ایران کے سرحدات تک جاٸیں تمام ملک کے علماء متفق ہیں تمام مذہبی تنظیمیں کے ہم ملک کے آٸین کے ساتھ ہے، یہاں ادارے موجود ہیں یہاں قباٸلیت پر تمدن غالب ہے لہذا قباٸلی طور طریقے جو ہے اُن علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں سسٹم نہ ہو، آٸین نہ ہو، ادارے نہ ہو تو وہاں قباٸلیت غالب ہو جاتی ہے، ہمارے ملک میں تمدن غالب ہے اور یہاں پر آٸین اور اداروں کا ایک کردار ہے ہاں اُس میں ضعف ہے کمزوریاں ہیں، اُس کی مذہبی حیثیت میں بھی کمزوریاں ہیں، اُس کی سیاسی حیثیث میں بھی کمزوریاں ہیں، معاشی لحاظ سے بھی کمزوریاں ہیں اُن کمزوریوں کی اصلاح کی کوشش کرنا یہ تدریجی اصلاحات کا عمل ہے جو جمہوریت کا تقاضا ہے ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب چوں کہ آپ کے سامنے یہ جاننے کا موقع ملا ہے تو میں اِس سے فاٸدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا جو ا فغا ن طا لبا ن کی ثالثی میں مذاکرات ایک عمل شروع ہوا تھا جس میں سابق عسکری حکام ہے اُن کا بھی نام لیا جاتا ہے عمران خان کے دور میں یہ سلسلہ تھا کچھ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو رہا بھی کیا گیا، اِس سارے مذاکراتی عمل سے آپ متفق تھے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : نہ میں متفق تھا اور نہ میں اُس کا حصہ تھا ۔
فدا عدیل : تو پھر ایسے لوگوں سے کیسے نمٹا جاٸے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : بہرحال معقول راستے اختیار کیے جاٸے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے، اداروں کا اتفاق راٸے ضروری ہے، آپ اگر یہ سوال کرے کہ وہ معقول راستہ کیا ہوگا تو اُس پر بحث کرنے میں بہت الجھنی پیدا ہوں گی، ضرورت نہیں کہ اِس پر بات کی جاٸے لیکن ہم بیٹھ کر معقول راستے تلاش کرسکتے ہیں ۔
فدا عدیل : تو مولانا صاحب یہ تو پاکستان کا بہت بڑا مسٸلہ رہا ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : میں مطمئن ہوں کہ ہم پاکستان کے اندر پرامن ماحول بنانے کی پوزیشن میں ہے، کرسکتے ہیں راستے نکال سکتے ہیں اُن قوتوں کو بھی ہم امادہ کرسکتے ہیں لیکن ہم چاہیں گے کہ ہم اُن کے ساتھ جھوٹ نہ بولے ۔
فدا عدیل : آپ کے اُن علاقوں میں قبائلی علاقے ہو یا پاکستان افغا نستا ن کی جو سرحدی پٹی ہے یا پھر افغا نستا ن کے اندر دیکھ لے آپ کی بات کو وزن دی جاتی ہے، آپ کی بات مانی جاتی ہے تو اگر آپ کو کردار ادا کرنے کا کہا جاٸے تو آپ کریں گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : یہ ایک بنیادی مسٸلہ ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہوں گا میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور ایک سیاسی جماعت سے میرا تعلق ہے جو اتھاریٹیز ہیں اصل ذمہ داریاں اُن کی ہے وہ تنخواہ بھی اسی چیز کی لیتے ہیں کہ اتھارٹی کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری کرے اور اِس حوالے سے ریاستی ادارے کام کرے، اب تک جو لوگ کام کررہے ہیں ہم نے اُن کو نہیں چھیڑا، یہ خواہش بھی ظاہر نہیں کی، اگر کوٸی میرا احترام کرتا ہے میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں ہمارے اور آپ کے علاقے سے قبائل کتنا دور ہے ہمارے قبائل وہ قبائل ہے کہ جو خالصتاً مذہبی ذہن رکھتے ہیں آج وہاں پر بھی محنت اور کوشش ہورہی ہے کہ نٸے نوجوان نسل کو آپ جذباتی نعرے دے دے، علاقائی نعرے دے دے، قومیتوں کے نعرے دے دے، اشتعال دلا دے، فوج کے خلاف اُن سے نعرے لگوا دے کیوں کہ فوج آپریشن کرتی ہے جب آپریشن کرتی ہے تو پھر اُس میں اعتدال تو نہیں رہتا، لوگوں کی ناراضگیاں رہتی ہے اُن ناراضگیوں کو ایکسپلاٸڈ کرنا یہ ساری چیزیں ہورہی ہیں اور قبائل کے مزاج کا جتنا میں واقف ہوں شاٸد ہی کوٸی واقف ہو، اُن کے ساٸیکی کو ہم جانتے ہیں کہ اُن کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے، تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں جہاں پر ادارے کام بھی کررہے ہیں اُن کے طریقہ کار سے مجھے اتفاق نہیں ہے لیکن رکاوٹ بھی تو نہیں بننا چوں کہ مجھے شریک نہیں کرتے، اور اگر کوٸی اتھارٹی نہیں ہے اگر کوٸی میری ایسی ذمہ داری نہیں ہے ہاں اتنا میں کرسکتا ہوں کہ میں لسی میں مکھن نہیں دیکھ رہا تو اسے منہڑی کرنے کی کوٸی خواہش نہیں کرتا ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب آپ نے فاٹا انضمام کے خلاف ایک تحریک چلاٸی اور آج اسی قبائلی حصے کو یا اُس علاقے کو پیسہ بھی نہیں مل رہا جس کا وعدہ کیا گیا تھا تو آج آپ حکومت میں ہے گورنر خیبر پختونخواہ آپ کی جماعت کا ہے تو کیا کہیں کسی بیٹھک میں کسی محفل یا کسی اجلاس میں یہ بات بھی ہوٸی کہ جی فاٹا مرجر کو ریورس کیا جاٸے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : ریورس کی بات تو بعد میں ہوگی ہمارا بنیادی موقف کیا تھا ایک ایسا علاقہ کہ جس علاقے کے ساتھ آٸین کے سینکڑوں شقوں میں سے صرف دو شقوں کا تعلق تھا ہم نے قبائلی عوام سے پوچھے بغیر اُن پر آٸین کے سینکڑوں شقیں سوار کردی اور صرف دو شقیں وہاں سے نکال دی اتنی بڑی تبدیلی کے لیے کیا قبائلی عوام کا اعتماد لینا ضروری نہیں تھا، یہ کیا بھیڑ بکریاں ہیں جس طرح چاہو آپ اُس کو ہانکتے رہو، چارہ آپ اُس کے سامنے ڈالتے رہو کہ یہ کھاتے رہو اور وہ کھاتے رہے، تو اُس کے لیے بھی ہم نے کہا تھا کہ عوام سے پوچھ کر ریفرنڈم کرادو اور صرف اُس وقت نہیں کہا اب تو پانچ چھ سات سال ہوگٸے ناں، تو لہلہاتے باغ ہوں گے وہ بہت خوش ہوں گے ابھی کرادے، تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب قبائلی لوگ اپنے علاقوں سے نکالے جارہے تھے جب آپ نے اُن کو مہاجر بنایا تو اُس وقت اُن کی تعداد کتنی تھی اور آج اُن کے علاقوں میں تعداد کتنی ہے، اُن کے ووٹوں میں اتنی کمی کیوں لاٸی گٸی اُن کی آبادی میں اتنی بڑی کمی کیوں لاٸی گٸی، ایک تو یہ مطلب کہ عوام کا بھی اپنا ایک حق ہوتا ہے دوسری بات کہ انگریز کے زمانے سے آل ا نڈ یا کا جو معاہدہ ا فغا نستا ن کے ساتھ ہوا تھا اُس پہ جس کو ہم فاٹا کہتے ہیں یہ آل ا نڈ یا اور ا فغا نستا ن کے درمیان ایک بفر زون تھا پھر اُس کے بعد ایف ار تھا یہ فاٹا اور سیٹلڈ ایریا کے بیچ بفر زون تھا، یہ ایک جغرافيائی ساخت تھی جس کو قاٸداعظم محمد علی جناح نے قبائلی جرگے کے ساتھ بیٹھ کر برقرار رکھا، چوں کہ جب پاکستان بن گیا تو معاہدہ تو ختم ہوگیا اب یہ علاقہ غیر بن گیا ابھی ابھی ہمارے لوگ اُس کو علاقہ غیر کے نام سے پکارتے ہے لیکن بانی پاکستان نے اکر خیبر میں قبائلی جرگے کے ساتھ بیٹھ کر وہ پرانا سارا پیکج وہ قبائل کو دیا اور قبائل نے اُس کے مقابلے میں پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا، اُس کے بعد تو قبائل نے پاکستان کے سرحدات کی حفاظت ہی کی ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ کسی نے غداری کی ہے لیکن آج اُن کا اتنا بھی حق نہیں کہ اُن سے پوچھا جاٸے، اب بتاو جب آپ نے ڈیورنڈ لاٸن کو سرحد میں شامل کیا تو اب تو بفر زون نہیں رہا اب تو سیدھا سیدھا آپ نے خیبر پختونخواہ بنادیا، کیا ہم نے ا فغا نستا ن کے ساتھ ڈیورنڈ لاٸن کا مسٸلہ حل کردیا، اب اگر وہ کسی دن سرحدی مسٸلہ چھیڑے گا کسی بھی وقت خدا نہ کرے کہ چھڑ جاٸے طرح طرح کے معاملات دنیا میں ہوتے ہیں، ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں، سوٸے رہتے ہیں کوٸی اُس کو جگاتا نہیں ہے لیکن اگر کسی وقت کوٸی اُس کو جگانے کی کوشش کرے گا تو کیا ہم نے کوٸی اُس کا راستہ روکا ہے، ریاستوں کے درمیان آپ بس زبانی کہہ دے کہ آپ کرے ہمیں کوٸی اعتراض نہیں تو کیا اِس سے ہو جاتا ہے ۔
تو کشمیر کے مسٸلے کے بعد ہم نے ادھر ایک نیا ایشو پیدا کردیا، اب حضرت کشمیر کے حوالے سے مجھے لوگ کہتے ہیں کہ آپ اسے کشمیر سے کیوں جوڑ رہے ہیں تو میں کہتا ہوں قدم قدم پر اِس کی کشمیر کے مسٸلے کے ساتھ مماثلت ہے لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ غلط اور یہاں جو ہم کیا وہ صحیح یہ کیسے ہوسکتا ہے، جب ہم نے اُن کے ساتھ وعدے کیں، آپ مجھے یہ بتائے کہ جس وقت ہمارے سرتاج عزیز صاحب کمیٹی وہ کہتی ہے کہ ہمیں دس سال تک ہر سال اُن کو سو ارب روپے دینے ہوں گے، کس مقصد کے لیے فاٹا کے علاقوں میں انفرا سٹرکچر، سڑکیں، بجلی کا نظام، درسگاہیں یونیورسٹیز کالجز، ہاسپٹلز صحت کا نظام، اُن کے معیار زندگی کو سیٹلڈ لوگوں کے معیار پہ لانا، اگر آپ نے اِس کی مدت دس سال دے دی ہے تو پھر جلدی کیا تھی کہ اِس پارليمنٹ میں آپ بغیر ڈیبیٹ کے فیصلہ کررہے تھے ۔
تو میاں نواز شریف صاحب میرے لیے نہایت قابل احترام ہے اُس وقت جو انہوں نے راٸے دی میرا اُن سے اختلاف راٸے ہوا، پھر میں نے اپنی بات منواٸی لیکن پھر صورتحال تبدیل ہوگٸی، پھر میں آپ کو ایک اور بات عرض کروں کہ اگر میرے ساتھ اپنے ملک کے لوگ بات کرتے تو میں سمجھتا کہ ہمارے اپنے پاکستانيوں کی راٸے ہے لیکن اگر میرے گھر میں اکر ایک امریکی افسر مجھے یہ کہتا ہے کہ آپ کیوں مخالفت کررہے ہے اور کہتا ہے یہ انضمام لازمی ہے آپ کو کرنا پڑے گا اور اُس کے انگریزی میں الفاظ یہ ہے " this is your first priority" پھر بھی میں اِس کو پاکستان کا فیصلہ کہوں گا ۔
فدا عدیل : تو یہ جو فاٹا انضمام تھا یہ پھر امریکی سازش تھی یا امریکی مداخلت تھی ؟
مولانا فضل الرحمٰن : وہی تو کہہ رہا ہوں میرے ساتھ خود بات ہوٸی کسی اور کا قصہ میں آپ سے بیان نہیں کررہا، تو پھر آپ مجھے بتائے کہ جب اِس قسم کے لوگ اتے ہیں اور باجوہ صاحب نے خود میرے ساتھ میٹنگ کی ہے اور مجھے کہا کہ جی ہم پر پریشر ہے، کیوں پریشر آپ قبول کررہے ہیں ؟ کیا کریں، پھر مجھے کہا کہ فاٹا کہ تو سارے لوگ ہمارے ساتھ ہیں، فاٹا کے ممبران پارليمنٹ، میں نے کہا حضرت فاٹا کے صرف ممبرز آپ کے ساتھ ہیں باقی ہمارے ساتھ ہیں، آپ نے اُن کے ہاتھ پاوں باندھے ہوٸے ہیں ابھی اُن کے ہاتھ پاوں کھول دو ابھی پریس کانفرنس کریں گے، نتيجہ کیا نکلا کہ جس دن ووٹنگ کا دن ایا فاٹا کے تمام ممبران چلے گٸے دو تین نے ووٹ ڈالا ہے اور پریس کانفرنس میں بیان دیا کہ اگر ہم انضمام کے حق میں یہ ووٹ دے دیتے ہمارا اپنے حلقوں میں جانا ممکن نہ ہوتا، یہ فاٹا کے نماٸندگان کی حالت تھی ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب اِس کا مطلب تو یہ ہے کہ امریکی دباؤ یہاں پہ قبول ہوتا رہا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : میں آپ کو ایک اور بات بتاوں سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی یہاں ہم نے پراٸیویٹلی فاٹا کمیٹی بنائی اور ہم نے ایسی کمیٹی بنائی کہ ہم گاٶں گاٶں تک گٸے کہ جس گاٶں میں جینون باپ دادا کے زمانے سے قبیلے کا سردار چلا ارہا ہے اُس کو بلانا ہے صرف یہ نہیں کہ جس کے سر پر قلا برابر ہو جاٸے اور اُس کو ہم ملک کہہ دے، نہیں باقاعدہ اُن کے پاس اپنی قوم کی اتھارٹی ہو یہ دو ہزار بارہ سے وہ کمیٹی بنی اور مسلسل ہم نے اُس کے وفود بنائے اگر سرکار کی کمیٹی کسی ایجنسی میں گٸی اُس کے ساتھ اگر دو سو سے تین سو لوگوں نے یا تین سو سے پانچ سو لوگوں نے ملاقات کی ہے تو میری جو کمیٹی گٸی ہے انہوں نے تین سے پانچ ہزار تک لوگوں سے بات کی ہے ، اُس کے باوجود انہوں نے فاٹا مرجر پاس کرلیا، اب پاس کرنے کے بعد آپ مجھے بتائے ہم پشاور ہاٸی کورٹ کو فاٹا تک ایکسٹنڈ کردیا، فاٹا میں عدالت میں دو قسم کے کیسز پیش ہوتی ہے ایک فوجداری ایک دیوانی، فوجداری تو چلو ایف اٸی ار درج ہوگیا ٹھیک ہے، دیوانی کیس میں جب آپ کے پاس لینڈ ریکارڈ ہی نہیں ہے اور اِس وقت تک بھی نہیں ہے عدالت تو آپ کے کیسز وہاں سن ہی نہیں سکتی، کیس ہی نہیں بنتا اور چھٹا یا ساتواں سال ہے اِس وقت تک آپ کے فاٹا میں ایک پٹواری نہیں اسکا، لینڈ ریکارڈ کیسے بنے گا ؟ کون بنائے گا ؟ پھر جب چار پانچ پشتوں سے ایک پورا علاقہ ”خاورہ“ جسے کہتے ہیں وہ قوم کے نام پہ ہیں آج آپ قومیں تقسیم کریں گے اُس کا کیا ہوگا ؟ اب سیٹیلاٸٹ سے آپ تصویریں نکالیں گے پھر زمین تقسیم کریں گے تو کیا اُن کو بیچ میں نہیں انا پڑے گا ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب امریکہ کا اِس میں کیا مفاد تھا ؟
مولانا فضل الرحمٰن : مجھے کچھ نہیں معلوم، اُن کا کشمیر میں بھی مفاد ہے وہ کھیل انہوں نے کھیلا وہ ٹرمپ کے دفتر میں گٸے ہیں تو ٹرمپ کے دفتر میں جب تک جون کے مہینے تک عاصم منیر آٸی ایس آٸی کا چیف تھا وہ رکاوٹ رہا، چنانچہ وہ پاکستان میں پہلا آٸی ایس آٸی چیف ہے جو دسویں مہینے میں ہٹایا گیا اور ٹھیک جولاٸی میں عمران خان اور یہ سارے ٹرمپ کے دفتر چلے گٸے اُن کے ساتھ بات کی اور کشمیر کا سودا کرلیا مودی بھی وہی تھا یہ بھی وہی تھا ۔
تو یہ ساری سازشیں جو ہمارے ملک کے اندر بین الاقوامی سازشوں کے تحت ہوتی ہیں یہ ساری باتیں منظر پہ ارہی ہیں بلآخر اہی جاتی ہے سو سال آپ چھپاٸے لیکن نتیجہ اٸے گا تو نظر اٸے گا ناں، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو میرے سامنے ہوٸی ہے ایسا نہیں کہ غاٸبانہ قسم کی باتیں ہیں، ہم نے جو بھی موقف اختیار کیا ہے میں آج بھی کہتا ہوں کہ اگر آج بھی قوم سے پوچھ لیا جاٸے مجھے کیا پرواہ ہے اگر عوام خوش ہے تو میں خوش، لیکن اِس وقت وہاں کوٸی نظام نہیں ہے پولیس وہاں پہ نہیں ہے خاصہ داروں کو پولیس کی وردی پہناٸی گٸی ہے، وہاں پر پولیس ٹریننگ کی جگہیں نہیں ہے، ٹھیکدار کام نہیں کررہا جب تک آپ لوگوں کو کمیشن نہیں دیں گے تو یہ ساری چیزیں بے وقت کی گٸی ، اگر وقت پر کی جاتی پڑوسی ممالک کے ساتھ اعتماد بحال ہوتا، عوام کا اعتماد حاصل کرکے ہم کرتے تو بہت اچھی بات تھی اب یہ کہ جو فاٹا انضمام کے مخالف ہے جیسے پاکستان کا مخالف ہے، او خدا کا خوف کرو، حب الوطنی کا معیار تمہارے ہاتھ میں ہوگا، او پارليمنٹ میں بحث کرتے ہیں ہم اپنی بات وہاں پہ کرتے ہیں، تو اب تو گزرا ہوا پانی ہے اُس کو کس طرح روکا جاسکتا ہے، تلافی کیسی ہوسکتی ہے میں نہیں سمجھتا کہ یہ مسٸلہ کوٸی اتنی جلد حل ہونے والا ہے ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب یہ تو آپ نے کوٸی نٸی کہانی نہیں سنائی آٸی ایس آٸی چیف کو دس مہینے بعد تبدیل کرلینا، یہ جو کہانی ہم سنتے ارہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ اُن کا کوٸی کرپشن کے معاملات پہ تنازغہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
مولانا فضل الرحمٰن : میں نے شاہراہ دستور پر یہ بات کہی تھی کہ مشہور یہ کیا گیا کہ جیسے آٸی ایس آٸی نے بشری بی بی کے کرپشن اُن کے سامنے رکھے اُس پر وہ ناراض ہوگیا، نہیں یہ تھی بات کہ جون میں اسے ہٹاکر جولاٸی میں یہ لوگ وہاں گٸے ہیں یا نہیں ٹرمپ کے دفتر، اور مودی بھی وہاں پہنچا اور یہ بھی پہنچے ہوٸے تھے، اسرا ٸیل کو تسلیم کرنے کا مسٸلہ تھا، کشمیر کو ا نڈ یا کے حوالے کرنے کا مسٸلہ تھا اور قا د یا نیو ں کو دوبارہ مسلمان کی حیثیت پاکستان میں دلانے کا مسٸلہ تھا یہ ساری چیزیں اُس میں تھی اور ثبوت لاو ثبوت لاو، بھٸی کوٸی ثبوت نہیں وقت خود ثبوت پیش کرتا رہے گا، میں نے بارہ سال پہلے بات کی تھی ساری باتیں سامنے ارہی ہے یا نہیں ارہی ۔
فدا عدیل : اسر ا ٸیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو ایک سلسلہ چل رہا ہے اُس میں آپ کی جماعت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھی اور آج وہ لوگ آپ کے جماعت کا حصہ نہیں ہے مولانا شیرانی صاحب، گل نصیب خان صاحب، تو یہ اِس کی کیا وجوہات ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : فلسطین کہا جاٸے گا، اسر ا ٸیل کو تسلیم کرنے کی بات بڑی اہم ہے اور فلسطینیوں کی سرزمین اور فلسطینی مسلمان بھاٸی اور مسجد اقصٰی کدھر جاٸے گا، ذرا خدا کا بھی تھوڑا خوف کرے اپنے مسلمان بھاٸی کے لیے بھی کچھ سوچنا ہے یا نہیں سوچنا، دیکھیے جمعیت علماء اسلام کا ایک منشور ہے ہمارے عقائد جمعیت کے ساتھ وابستہ ہر ادمی کے عقائد کی بنیاد میں یہ منشور ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں طے کیا گیا ہے اُس میں فلسطین اور اسر ا ٸیل کے حوالے سے جماعت کا واضح موقف موجود ہے تو یہ منشور سے انحراف ہے یا نہیں ۔
فدا عدیل : مسٸلہ منشور سے انحراف تھا ؟
مولانا فضل الرحمٰن : جی ہاں انحراف تھا ۔
فدا عدیل : کوٸی اور مسٸلہ نہیں تھا ؟
مولانا فضل الرحمٰن : ہر بات پہ بحث تو ہوسکتی ہے کشمیر پہ بحث نہیں ہوسکتی، پچھتر سال بعد بھی کشمیر پہ بحث ہوسکتی ہے، اسر ا ٸیل پر بحث ہوسکتی ہے لیکن ادارے کے اندر کرو ناں، اگر پبلک میں جاتے ہیں اور آپ کی راٸے پبلک کی ملکیت بنتی ہے اور وہ بلکل صراحتاً آپ کے آٸین اور دستور سے انحراف ہو تو پھر تو پارٹی کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور الحَمْدُ ِلله ہم نے اِس حوالے سے بڑے مضبوط فیصلے کیے ہیں اور وہ چل پڑے اور کارکن نے اُس کو قبول کرلیا ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب، مولانا شیرانی صاحب، مولانا گل نصیب خان، شجاع الملک صاحب
مولانا فضل الرحمٰن : میں اِس پر بات نہیں کروں گا، میں اِس سوال کا جواب نہیں دوں گا میں اُن کو اہمیت نہیں دیتا ۔
فدا عدیل : اہمیت کی بات نہیں ہے اُن کا ایک الزام ہے کہ جے یو آٸی میں مورثیت ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : اُن کی بات چھوڑو موج ہے دریا میں اور بیرونی دریا کچھ نہیں ۔
فدا عدیل : جماعت کے اندر آپ کے باقاعدہ الیکشن ہوتے ہے اور انے والا الیکشن کب ہے اور اُس میں بھی مولانا صاحب جے یو اٸی کے سربراہ ہوں گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : تو مورثیت جو ہے یہ عالم دین کے شایان شان ہے، انبیاء کا ایک لمبا طویل سلسلہ نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی ہے یا نہیں ہے اُس سے بڑا منصب کاٸنات میں کوٸی ہے اگر اتنی عظیم الشان منصب میں اللّٰہ تعالیٰ نے مورثیت رکھی ہے تو آج ہم یورپ کی تقلید کرے اگر کسی کو اعتراض ہو تو ہٹادے ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب پھر آپ الیکشن کیوں کراتے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن : اگر میں نااہل ہو جاتا ہوں، کارکردگی نہیں دکھاتا تو جماعت کا اختیار ہے مجھے ہٹادے ۔
فدا عدیل : اچھا یہ اختیار جماعت کو ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : جی بلکل جماعت کو اختیار ہے، میں کوٸی والد کا وارث نہیں ہوں میرے والد صاحب جنرل سیکرٹری تھے، امیر تو حضرت مولانا درخواستیؒ تھے یا مولانا عبدالکلیم یا اُن سے پہلے حضرت احمد لاہوریؒ تھے یا سارے حضرات جماعت کے امیر رہے ہیں لیکن اگر کارکن نے میرے اوپر اعتماد کیا ہے آپ ہوتے کون ہے کہ ایسا مسٸلہ اٹھاتے ہیں جو مغرب سے منتقل ہوکر ہمارے اسلامی معاشرے میں سراٸیت کیا ہوا ہے ۔
فدا عدیل : اور وہ جاکے پی ٹی آٸی کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن : دہ کور گند سڑے ڈیران تہ غورزوی ” گھر کا گند لوگ کچرے میں ہی پھینکتے ہیں “ ۔
فدا عدیل : اچھا اب اتے ہیں تھوڑا سیاست کی طرف، مولانا صاحب آپ انے والے الیکشن میں پی ٹی آٸی کا وجود دیکھ رہے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں ان شاء اللہ، ہم لڑیں گے اِس فکر کے ساتھ ہماری اعلان جنگ ہے اور لڑیں گے یہو د یت، اسرا ٸیلیت اِس کا پاکستان میں دخل، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ 1996 کی خبر ہے کہ دو ہزار بیس تک جنوبی ایشیا میں اسر ا ٸیل نے اپنے نیٹ ورک کو مکمل کرنے کا پلان بنایا ہوا ہے اور اِس کے لیے عمران خان کی خدمات حاصل کی جارہی ہے ہم نے حضرت اُس نیٹ ورک کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔
فدا عدیل : تو یہ نیٹ ورک تو تباہ ہوگیا انے والے الیکشن میں آپ کو پی ٹی آٸی بھی وجود رکھتی نظر نہیں ارہی تو آپ کا مقابلہ کس سیاسی جماعت کے ساتھ ہوگا ؟
مولانا فضل الرحمٰن : نظریاتی لحاظ سے ہر پارٹی کا اپنا منشور ہے، پی ڈی ایم کوٸی انتخابی اتحاد تو ہے نہیں ہاں لاٸک ماٸنڈڈ پارٹیاں الیکشن میں علاقائی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہے ۔
فدا عدیل : تو یہ ایمل ولی خان پھر آپ کے خلاف کسی جلسے میں تقریر کررہے ہوں گے جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ نہیں اُن کو کوٸی سمجھایا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : ھھھ میں کیسے سمجھاوں اُن کا خاندان باپ دادا کے زمانے سے سیاسی لوگ ارہے ہیں میرے دل میں پورے خاندان کا اک احترام ہے، میں نے اُن کو بھی اپنے اولاد کی طرح محبت دی ہے، اُن کے والد میرے بڑے بھاٸی ہے، اُن کے والد کو میں نے اپنے والد کا مقام دیا ہے، خان عبدالغفار خان کے ساتھ نیازمندی بھی حاصل رہی ہے، اُس کا پیار مجھے حاصل رہا ہے، وہ میرے لیے ایک اثاثہ ہے،ے تو ایسے الیکشن ہوتے ہیں ۔
فدا عدیل : کس سیاسی جماعت کے ساتھ زیادہ ایسا لگتا ہے کہ انتخابی اتحاد جے یو آٸی کا ممکن ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : میں آپ سے عرض کروں کہ ایک پارٹی کی بات نہیں کی جاسکتی سندھ میں جاٸیں گے تو وہاں پیپلز پارٹی کے علاوہ اور پارٹیاں ہیں جو وہاں اُس کا مقابلہ کرے گی، ہم اگر پیپلز پارٹی سے جوڑ نہیں کرسکے تو وہاں مقامی حالات کو دیکھیں گے، بلوچستان میں پھر اُس سے مختلف صورتحال ہے وہاں اپنی قوم پرست جماعتيں ہیں تو وہاں اُس حوالے سے بلوچ بیلٹ ہے، پشتون بیلٹ ہے، پنجاب میں جاٸیں گے تو وہاں بلوچستان کی کوٸی پارٹی نہیں ہوگی تو پنجاب میں مسلم لیگ ہوگی یا پھر اور جماعتيں، وہاں علاقائی طور پر ہمیں کون سی جماعت سوٹ کرتی ہے جس سے ہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے زیادہ سے زیادہ سیٹیں ہم نکال سکیں، کے پی میں پھر آپس میں اور فریق ہے جو دوسروں صوبوں میں شاٸد نہ ہو، تو ہم نے ہر صوبے کے وہاں ضلعی لیول پر جاکر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کس پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتے ہیں ۔
فدا عدیل : مولانا صاحب ایک الزام اور بھی ہے جمعیت علماٸے اسلام یعنی علماء کرام کی یہ جماعت ہے لیکن جب بھی حکومتی عہدوں کے حوالے سے جب بھی موقع ملتا ہے یا پارٹی عہدوں کے حوالے سے تو پھر غیر مولوی شخصیات ہیں وہ اگے کردیے جاتے ہیں جیسے گورنر خیبر پختونخواہ، ماضی میں اکرم خان درانی کی مثال لے لے اور آج جب جمعیت علماء اسلام کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اور یہ بات کی جاتی ہے کہ مستقبل جے یو اٸی کا ہے تو وہ اُن شمولیتوں کی بنیاد پر یہ بات کی جاتی ہے جو آپ نے مردان، صوابی اور جنوبی اضلاع میں کی اُن میں زیادہ تر جو شمولیتیں ہیں وہ اُن لوگوں کی ہیں جو کلین شیو ہیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن : جی میں ایک بات واضح کردوں جمعیت علماء اسلام یہ عنوان ہے یعنی مملکت کی اجتماعی، مملکتی، قومی، ملّی معاملات میں قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی کرنا یہ علماٸے کرام کا کام ہے تو ہمارے ہاں جو شوریٰ نظام ہے اُس میں علماء کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو کوٸی ایسا مسٸلہ کہ جس کا تعلق قرآن و سنت سے ہو تو اُس پر وہ اپنے راٸے دیتے ہیں اور قرآن و سنت ہی کی روشنی میں طے کرتے ہیں ہمارا منشور اول تا اخر قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے، اب آپ دیکھے محلے کی مسجد ہے تو محلے کی مسجد پبلک کی ہوتی ہے، محلے کی لوگوں کی ہوتی ہے لیکن نماز مولوی صاحب پڑھاتے ہیں تو یہاں پر امامت علماٸے کرام کرتے ہیں اِس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ہم گاٶں کے مَلک کو مسجد سے یہ کہہ کر نکال دے کہ تم تو مَلک ہو مسجد میں کیسے اگٸے، لہذا مَلک کی ملکی برقرار رہے گی، خان کی خانی برقرار رہے گی، پاکستانی کی شہریت برقرار رہے گی اُس کی اپنی حیثیت برقرار رہے گی اور جناب رسول اللّٰہﷺ نے جب کفار کا کوٸی بڑا سردار اسلام میں شامل ہوتا تھا تو اُس کی جو پرانی قومی حیثیت ہوتی تھی وہ برقرار رکھتے تھے، اُس کو نہیں چھیڑتے تھے اُس کو وہی مقام اور عزت دیتے تھے ۔
لہذا یہ تاثر تو ہم کسی کو نہیں دے سکتے کہ تم جمعیت میں اگٸے اب تم کمزور ہوگٸے، نہیں ایسا نہیں ہے، تو یہ پارليمنٹ ممبر شپ ہے، عوام کی نماٸندگی ہے عوام کی نمائندگی میں یہاں پر کلین شیو بھی چلتا ہے، ادھوری داڑھی والا بھی چلتا ہے اور عالم دین اور سنت کے مطابق والا بھی چلتا ہے لیکن فیصلے سب جمعیت کے پالیسی کی تابع ہوں گی اور پالیسی قرآن و سنت کی تابع ہوگی ۔
فدا عدیل : تو یہ سوال ان الفاظ میں بھی ہوسکتا ہے کہ نماز تو مولوی پڑھاتا ہے، جنازہ بھی مولوی پڑھاتا ہے حلوہ کوٸی اور کھا جاتا ہے، حلوہ جو ہے وہ مولوی کو بہت زیادہ پسند ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : نہیں حلوہ میں سب شریک ہوتے ہیں اُس میں کسی کو انکار نہیں ہے یہ تو مولوی کے سر تھوپا گیا ہے ورنہ میرے خیال میں جب کھانے کے دوران آپ دیکھیں گے تو سارے لوگ کھارہے ہوں گے ۔
فدا عدیل : تھوڑا سا لاٸٹ بات کرتے ہیں آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : پینڈا یقیناً زیادہ پسند ہے اِس میں تو کوٸی شک نہیں ہے لیکن اب ستر سال عمر ہوگٸی ہے اب یہ بھی مت کھاو یہ بھی نہ کھاو اور اِس سے پرہیز کرو ۔
فدا عدیل : یہی آپ کی صحت کا راز ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : اب یہی زندگی گزار رہے ہیں ٹھیک ہے ۔
فدا عدیل : میرے خیال میں اتنی مصروف زندگی میں آپ کو واک یا ایکسرساٸز کا موقع تو نہیں ملتا ہوگا ؟
مولانا فضل الرحمٰن : یہی تو مسٸلہ ہے ۔
فدا عدیل : اور جب آپ ملتان میں پڑھتے تھے یا کسی اور شہر میں پڑھتے تھے تو کھیل کود کا موقع ملا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : جی کھیل کود کے بھی موقعے ملتے تھے جہاں تک کھانے کا تعلق ہے تو اِس کے ہم مکلف نہیں ہے دیہاتی لوگ ہے ایک زمانہ ہم نے وہ بھی دیکھا کہ جب گھر میں کچھ پکتا نہیں تھا اور ہم روٹی کے اوپر سرخ مرچ اور نمک ڈال کر حل کرلیتے تھے اُس میں لقمہ ڈال کر کھایا کرتے تھے یہ دن بھی ہم نے دیکھے ہیں، تو ہم اِس طرح نہیں ہے کہ ہماری ساری زندگی اِس طرح کے ماحول میں گزری ہے، ہم نے ہر ماحول دیکھا ہے ۔
فدا عدیل : وہ ماحول دیکھا ہے وہ وقت دیکھا ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن : جی غریب کے غربت کا ہمیں ہی زیادہ احساس ہوتا ہے کسی اور کو شاٸد بہت کم ہوتا ہو ہم نے وہ ماحول دیکھا ہے جب غربت اور دیہاتی زندگی میں وقت گزارتے تھے گھر میں پنکھے تک نہیں ہوتے تھے اور ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان کی گرمی ہم برداشت کرتے تھے ۔
فدا عدیل : ایک اور گستاخانہ سوال کی بھی مولانا صاحب اجازت دے دے جب آپ نے وہ وقت دیکھا ہے اتنی غربت دیکھی ہے تو آج آپ کی زندگی بڑی شاہانہ ہے، بہت اچھی بڑی گاڑی میں پھرتے ہیں، بنگلوں میں آپ رہتے ہیں آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن : کوٸی ذریعہ معاش نہیں ہے ” واللہ یرزقکم من یشاء بغیر حساب“ یہ سب آپ کے ہے، آپ نے بناکر دیے ہیں دادا صاحب کو بھی آپ نے بناکر دیے تھے، والد صاحب کو بھی آپ نے بناکر دیے تھے، ہمارے ساتھ بھی لوگ تعاون کررہے ہیں اور چل رہا ہے ۔
فدا عدیل : بہت بہت شکریہ مولانا صاحب
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں