پشاور: چائنہ مرکز میں سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انشوریٹی کی دسویں تقریب سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا خطاب تحریری صورت میں 13 جون 2023


 پشاور: چائنہ مرکز میں سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انشوریٹی کی دسویں تقریب سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا خطاب 
 13 جون 2023

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

پاک چائنہ ونڈو کی طرف سے مجھے دعوت دی گئی میں اسی ادارے کے سربراہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اِس اعزاز سے نوازا ۔

اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سی پیک یہ پاکستان کی ترقی کا راستہ ہے، یہ پاکستان کی ترقی کی شاہراہ ہے اور ظاہر ہے کہ سویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد عالمی سیاست میں جو تغیرات آئیں سیاسی اور اقتصادی حوالے سے بھی اُس میں چاٸنہ نے پہل کی، سن 1995 میں جب میں فارن افیٸر کمیٹی کا چیٸرمین تھا تو چاٸنہ نے پوری فارن کمیٹی کو بلایا، دعوت دی اور چین کے نٸے اقتصادی وژن سے انہوں نے ہمیں اگاہ کیا، کمیونسٹ ملک ہونے کے باوجود اور وہاں پر باقاعدہ ایک سوشلسٹ نظام کے باوجود انہوں نے چین کے پانچ شہروں کو فری اکانومی زون بنادیا تھا جس میں فرد کی ملکیت کو تسليم کیا گیا، اُس کو سرمایہ کاری کا حق دیا گیا اور وہاں پر تجارت کے راستے کھولے گٸے، لیکن اُن کا جو وژن تھا وہ اپنی تجارت کو پوری دنیا میں فروغ دینے کا تھا اور اُس کے لیے انہوں نے راستوں کا تعین بھی کرلیا تھا، ہم نے اُن کی ساری تفصیلی گفتگو سننے کے بعد ٹریڈ وایہ پاکستان کا تصور پیش کیا اور ہماری طرف سے ” سیون ریزنز فار دی ٹریڈ وایہ پاکستان “ باقاعدہ ریکارڈ پر تحریری صورت میں پیش کیا گیا تھا اور ایک ہفتہ کی گفتگو مذاکرات کے بعد انہوں نے ہمارے اِس نظریے کو قبول کرلیا تھا ۔

چین کے ساتھ دوستی پاکستان میں غیر متنازعہ ہے عوام کے صفوں میں ہم من حیث القوم چین کو اپنا دوست سمجھتے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت تھی دو ہزار آٹھ میں بنی یا دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت دونوں نے اِس حوالے سے ایک ہی پالیسی کو تسلسل دیا اور سی پیک پر کام شروع ہوا، یہ محض ایک سڑک کا نام نہ تھا یہ ایک تجارتی شاہراہ تھی جو ایک پیکج تھا جس میں انڈسٹریل زون تھے، انڈسٹریل زونز کو جس مقدار میں انرجی کی ضرورت تھی اُس حوالے سے انرجی کی سیکٹر میں پیداواری قوت کو بڑھانا، اُس حوالے سے گیس پاکستان کو مہیا کرنا تاکہ انڈسٹری جو ہے وہ چل سکے، آپٹیکل فاٸبر کہ جو اِس موٹروے پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے اور حادثات کا راستہ روکنے کے لیے ایک موثر جدید ساٸنسی ٹیکنالوجی ہے وہ پاکستان کو دی، ریلوے لاٸن اِس سے وابستہ تھا لیکن جب دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں تو اِس پر اتفاق راٸے ہے تو مغربی دنیا نے امریکہ کی سربراہی میں ا ن ڈیا کے مشہور ایک تیسری قوت پیدا کی اور پاکستان کو اُس تیسری جنس کے حوالے کردیا جس کا ایجنڈہ سی پیک کو روکنا تھا، جس کا ایجنڈہ اتنی بڑے اقتصادی راستے کو پاکستان کے راستے روکنا تھا جیسے وہ پاکستان کو ایک کالونی سمجھتے ہو کہ یہ سرزمین صرف ہمارے مفاد کے لیے استعمال ہوگی خود اپنے پاکستانی قوم کے مفاد کے لیے بھی استعمال نہیں ہوسکے گی ۔

اِس حوالے سے ہوائی راستے سے بھی تجارت کے لیے چین نے اپنے پیسے سے گوادر میں ایک بین الاقوامی معیار کا اٸیرپورٹ بنانے کا اور شاٸد بن بھی چکا ہے لیکن نقصان یہ ہوا کہ گوادر کی بندرگاہ جو پورے ریجن میں سب سے گہری ترین بندرگاہ ہے گہرا ترین سمندر ساڑھے تین سال کے بعد مٹی نے کنارے پہ اتے اتے اُس کی سطح کہی نو فٹ چھوڑ دی ہے کہی گیارہ فٹ چھوڑ دی ہے، اب اِس کو دوبارہ اُس مقام پہ لے جانا تاکہ واقعی خطے کے سب سے گہرے سمندر کا کردار ادا کرے اور سب سے بڑی بندرگاہ ہو ازسر نو اخراجات کرنے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ اُس کے لیے چین کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا، چین نے پاکستان میں بے شمار شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اُس میں ایگرکلچر کو فوقیت دے رہا ہے لیکن اُس کو اعتماد تو چاہیے کہ اُس کا پیسہ تو نہ ڈوبے، اسی حکومت میں جس طرح آپ نے رشکٸی اکانومک زون کا ذکر کیا اسی طریقے سے اب ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اور بنوں میں بھی انڈسٹریل زون بنیں گے سو ہم نے حکومت کو ایک تجویز دی کہ اگر یہاں پر انڈسٹریل زون بنتا ہے تو چوں کہ ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک دامانی علاقہ ہے اور اِس پر بارہ ہزار ایکڑ بیک وقت نہری بننے کی صلاحيت رکھتا ہے اُس کے لیے وسائل مجتمع کیے جاٸیں جو علاقائی وسائل ہے ہم کوٸی دور سے اُس کے لیے پانی نہیں مانگ رہے لیکن یہاں سے بھی ایک ریجنل کارگو اٸیرپورٹ ہونا چاہیے جس پر حکومت نے رضامندی ظاہر کرلی ہے اور اِس خطے سے بھی وسطی ایشیا اور مشرقی وسطی تک تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہوائی راستے کا تعین کیا جارہا ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اِس دوستی کو اور مضبوط کرنا ہے یہ صرف دوستی ہے جو اب ستر سال کے بعد اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوگٸی ہے اور اِس کے سامنے جو بھی رکاوٹ اٸے اُسے ملیامیٹ کردینا چاہیے، قوم کو چاہیے کہ وہ اِس پہلوؤں پہ نظر رکھیں ۔
تجارت کی تین سطحیں ہوتی ہیں ایک تجارت ہوتی ہے پبلک ٹو پبلک، دوکاندار ہے محلے میں بیچ رہا ہے چھوٹی موٹی چیزیں ہیں کوٸی زمین بیچ رہا ہے کوٸی دوکان بیچ رہا ہے کوٸی خرید رہا ہے، ایک ہوتا ہے پبلک اور سٹیٹ کے درمیان، جب آپ کوٸی چھوٹی سی انڈسٹری لگارہے ہو آپ بینک سے قرضہ لیتے ہیں وہ آپ کو سپورٹ کررہا ہوتا ہے گورنمنٹ آپ کو سپورٹ کررہی ہوتی ہے اور ایک میگا لیول پر جب بین الاقوامی سرمایہ کاری آپ کے ملک میں اتی ہے سٹیٹ ٹو سٹیٹ ٹریڈ ہوتی ہے اور ڈویلپمنٹل کام ہوتے ہیں، پہلی مرتبہ ہم نے دیکھا کہ باقاعدہ سرکاری طور پر پالیسی اعلان کی گٸی کہ پاکستان میگا پراجیکٹس کا متحمل نہیں ہے سارے منصوبے فریز کردیے گٸے اور کہا کہ ہم ماٸیکرو لیول پر تجارت کو فروغ دیں گے انڈوں اور کٹو کی تجارت، ملک کے ساتھ مذاق کیا گیا، پچیس کروڑ آبادی کا ملک، ایک بڑے رقبے پر آباد ملک اور اُس کو دنیا سے کاٹنے کی کوشش کی گٸی، چاٸنہ سے کاٹنے کی کوشش کی گٸی تو ظاہر ہے کہ پھر ملک میں تبدیلی لانا ضروری تھا اور ہماری جو جدوجہد تھی وہ ملکی مفاد قدم قدم پہ ثابت کررہی ہے یہ اُسی کے لیے تھی، ہم نے وہ عزائم سمجھ لیے تھے کہ کس مقصد کے لیے دو ہزار اٹھارہ میں ایک نٸی جنس پیدا کی گٸی اور دھاندلی کے ذریعے ملک پر مسلط کی گٸی، ہمارے بہت سے سیاسی دوست کبھی نرمی کبھی مصلحت سے کام لیتے رہے لیکن ہم مصلحتوں سے بالاتر ہوگٸے اور تحریک کو دوام دیا اور وہ تحریک تمام سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ پر متحد رکھنے کا باعث بنا اور بالآخر اُس نے نتائج بھی حاصل کیے، لیکن کچھ ہوتی ہے حکومتی کمزوریاں، لیکن حکومتی کمزرویاں جب سٹیٹ کو کمزور کردے تو پھر وہ کمزور سٹیٹ کل اگر آپ کے پاس تھا تو وہی آج میرے پاس ہے اور پھر وہی کمزور سٹیٹ اگلے کو منتقل ہوگا، کمزور سٹیٹ کو دوبارہ طاقتور بنانا، بین الاقوامی دنیا کے ساتھ مفادات کا اشتراک، اُس کے لیے اُن کا اعتماد، یہ کوٸی معمولی مسٸلہ نہیں کہ آپ کہتے ہے کہ ایک سال کے اندر اندر، فرق یہ ہوتا ہے کہ کبھی آپ جی ڈی پی ساڑھے چھ فیصد میں رکھتے ہیں اور اگلی حکومت اتی ہے وہ زیرو پہ لے اتی ہے اتنا بڑا تفاوت پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھا ہوگا تو ظاہر ہے اب ریاست کو اٹھانے میں دقت پیش اتی ہے سیاسی ہلچل سیاسی عدم استحکام یہ بذات خود معاشی عدم استحکام کا سبب بھی بنتا ہے لیکن الحَمْدُ ِلله جب تیسری مرحلے میں دنیا داخل ہورہی تھی کہ اب دفاعی نظام کو سبوتاژ کیا جاٸے تو اُس مرحلے کو بھی ہم نے بچایا ہے اور اللّٰہ کے فضل و کرم سے ان شاء اللّٰہ العزیز معاشی طور پر بھی ملک کو مستحکم کیا جاٸے گا اور اِس ملک کو ترقی دی جاٸے ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جاٸے گا ۔

میں بہت خوش ہوا کہ پشاور میں ایسا مرکز کہ جو پاک چاٸنہ کے تعلقات اور دوستی کا عنوان بن گیا ہے اِس کو اگے بڑھنا چاہیے اِس کا ایک کردار ہونا چاہیے جس طرح اچھی بلڈنگ کی بنیاد میں سریا روڑہ وغیرہ ہوتا ہے تو ہماری حیثیت اُس کی ہے یہ چیزیں نظر اتی ہے لیکن ہماری چوں کہ اِس میں دلچسپی ہے اُس کے لیے ہم تعاون کے لیے تیار ہے آپ سے رہنمائی کے لیے ہم تیار ہے اور ان شاء اللّٰہاِس مقصد کو ہم حاصل کریں گے اور کسی بھی قسم کے رکاوٹ کو ان شاء اللّٰہ قومی وحدت کے ساتھ دور کریں گے، پبلک کو بھی یہ ساری باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کو کمزور کرنا ایسی قوتوں کو ہم نے فارغ کرنا ہے، ملک کو طاقتور بنانا ایسی قوتوں کو ہم نے اگے لانا ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے، پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ترقیوں سے سرفراز فرمائے ۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

🌺 سوال و جواب 🌺

صحافی کا سوال: مولانا صاحب جیسا کہ آپ نے کہا کہ چاٸنہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے ہے دنیا کے ساتھ جو تعلقات خراب ہوگٸے ہیں زیرو پر چلے گٸے ہیں اُن کو بحال کرنا ہے لیکن وہ ایک سال میں نہیں ہوسکتا، تو اِس کا مطلب تو یہ نہیں کہ الیکشن پر اثر پڑے گا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے الیکشن اِس چیز میں رکاوٹ نہیں بنتی، اگر ہم قومی طور پر متحد ہیں تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اسی منصوبے پر کام ہوا، مسلم لیگ کی حکومت اٸی اسی منصوبے پر کام ہوا اِس کو سمجھنا چاہیے کہ باہر کا ایجنڈہ کون لے کر ایا، اِس کو پبلک کو سمجھنا چاہیے، کس نے پھر اِس کو روکا ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ نے بات کی کہ چاٸنہ زراعت میں انویسٹمنٹ کرنے کو تیار ہے لیکن وہ گارنٹی مانگ رہے ہیں تو کس قسم کی گارنٹی ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: اِس گارنٹی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ ضمانت لکھواٸے یا انگھوٹے لگواٸیں گے مثال کے طور پر جس طرح یہاں پاکستان میں کبھی ایک بھونچال اجاتا ہے اور ایک تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ شاٸد وہی قوت دوبارہ نہ اجاٸے، صادق اور آمین کہی دوبارہ نہ اجاٸے تو وہ ہاتھ روک لیتے ہیں جب حالات بنتے ہیں کہ وہ چور اچھکے اقتدار میں آٸینگے تو پھر اُن کو دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو یہ فرق ذرا سمجھنا چاہیے کہ صادق اور آمین کون ہے اور چور کون ہے اِس کو جو الٹی گنگا پاکستان میں بہاٸی جارہی ہے اِس پر دنیا کی نظر ہے اِس کو ہمیں ٹھیک کرنا ہے تاکہ پاکستان کا اعتماد دنیا میں بحال ہو اور وہ پاکستان میں انویسٹمنٹ کے لیے تیار ہو جاٸے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ جو پٹرول کی نٸی کھیپ اٸی ہے جو ٹریڈ شروع ہوگٸی ہے اِس کا کریڈیٹ کس کو جاتا ہے سابقہ حکومت کو یا موجودہ کو ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے اِس بات کی ایک بہت لمبی تاریخ ہے کہ دنیا دو حصوں میں منقسم تھی، گروپنگ تھی امریکہ اور مغرب کی گروپنگ اور رشیا اور مشرقی دنیا کی جس میں ایک کو راٸٹسٹ اور دوسرے کو لیفٹسٹ کہتے تھے اور روس مذھب اور اسلامی دنیا کو اپنا دشمن تصور کرتا تھا، ا ف غ ا نستان کی جنگ بھی اسی کشمکش کا ایک تسلسل تھا، جمعیت علماء اسلام نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمیشہ جو نظریہ دیا ہے وہ خطے کے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کا، مشترکہ مفادات کا اور ہمارے اُس فلسفے کو بلآخر رشیا نے آج تسلیم کرلیا ہے کہ وہ آج اسلامی دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات کررہا ہے تو میرے خیال میں یہ ایک بہتر پیش رفت ہے اور ایک پیغام امریکہ اور مغربی دنیا کو ضرور گیا ہے کہ پاکستان اپنی معشیت کے حوالے سے اُن پر انحصار نہیں رکھے گا وہ اپنے نٸے دوست بھی پیدا کرے گا اور پاکستان کی خارجہ پاليسی کا محور پاکستان کا مفاد ہوگا ۔
بہت شکریہ جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments