مفتی محمود رحمہ اللہ کے مختصر دورحکومت میں عظیم کارنامے
قسط نمبر 15
آئین سازی میں جمعیت کا کردار
برصغیر کی آزادی اور پاکستان کو وجود میں آئے تقریباً ربع صدی گزر چکی ہے، لیکن اس طویل مدت میں نہ تو پاکستان کو کوئی مستقل آئین میسر آیا اور نہ اس کے لیے کوئی مخلصانہ کوشش ہی کی گئی، ماضی میں ملک کو جو آئین دیے گئے وہ نہ تو ملکی تقاضو سے ہم آہنگ تھے اور نہ ہی عوام کے خواہشات کے آئینہ دار تھے، ان حالات کی وجہ سے ملک کو بے پناہ مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا، پاکستانی قوم کو گزشتہ پچیس سالہ دور میں آئین کے مسئلے پر جو حالات و واقعات پیش آئے وہ ہماری قومی تاریخ میں ایک ناخوشگوار باب کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے اعادہ سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ دسمبر سن ١٩٧١ سے پاکستانی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا، جب عوام نے آمریت سے نجات پائی اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد ہوا، تو بھٹو صاحب نے وقتی طور پر کام چلانے کے لیے ایک عبوری آئین تشکیل دیا اور مستقل آئین کی تیاری کا کام قومی اسمبلی کو سپرد کردیا، قومی اسمبلی نے آئین کے بنیادی اور رہنما اصول متعین کرنے کے لیے آئین کمیٹی تشکیل دی جس میں تمام جماعتوں کے نمائیندے لیے گئے۔ اس آئین کمیٹی میں جمعیتہ علماء اسلام اور دیگر مخالف جماعتوں نے قابل تعریف رول ادا کیا، ایک موقع پر جب حکومتی پارٹی کی طرف سے ملک میں صدارتی طرز کا آئین بنانے کے لیے کوششیں تیز ہوئیں تو جمعیت علمائے اسلام اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بڑی سختی سے اس کی مخالفت کی اور ملک میں پارلیمانی قائم کرنے پر زور دیا، حتی کہ بھٹو صاحب اور اس کے ساتھی مجبوراً پارلیمانی طرز کا آئین بنانے پر رضامند ہوگئے اور دس اپریل کے تاریخی دن کو پاکستان کے لیے ایک اسلامی وفاقی اور جمہوری آئین تیار ہوگیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آئین کی تیاری میں خاصی مشکلات پیش آئیں۔ ہر چند اس سلسلے میں ایوان کے باہر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے رہنماؤں کے درمیان آئین کے نکات پر سمجھوتہ ہوگیا تھا، لیکن بعد میں متفق علیہ شقوں کی تعبیر میں گونا گوں اختلافات پیدا ہوگئے اور ملک میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایک مرحلے پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنی چند آئینی ترامیم جن کا تعلق بنیادی حقوق، عدلیہ کی آزادی اور اسلامی مشاورتی کونسل کی دفعات کو مؤثر بنانے سے تھا منظور کرانے کی غرض سے دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا۔ آئین سازی کی راہ میں یہ ایک نازک موڑ تھا، عام طور پر یہ اندیشہ پایا جاتا تھا کہ اگر مستقل آئین کو تمام وفاقی یونٹوں کی حمایت حاصل نہ ہوئی تو ملک میں سنگین بحران پیدا ہوجائے گا جس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ حزب اختلاف کے دستور ساز اسمبلی کے بائیکاٹ کے باعث صوبہ بلوچستان کے تمام ارکان اسمبلی اور سرحد کی اکثریت اور سندھ کے تیس فی صد ارکان دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہورہے تھے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ حزب اقتدار نے عین موقع پر مفاہمت کی راہ اختیار کرتے ہوئے حزب اختلاف کی گیارہ میں سے سات ترامیم منظور کرلیں۔ حزب اختلاف کی ترامیم کی منظوری کے بعد متفقہ طور پر آئین منظور کرلیا گیا۔ آئین میں سب سے بڑا اور اہم کارنامہ اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینا اور مسلمان کی تعریف آئین میں شامل کرنا تھا۔ اور یہ دونوں کارنامے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی سعی و کاوش کا نتیجہ ہے۔ مفتی صاحب نے آئینی کمیٹی میں صدر کے ساتھ آئینی مذاکرات کے دوران اور دستور ساز اسمبلی کے اندر پوری قوت سے یہ مطالبہ جاری رکھا کہ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا جائے اور آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کی جائے، دیگر جماعتوں نے بھی مفتی صاحب کے ان مطالبات کی پوری پوری تائید کی۔ اسی طرح اسلامی مشاورتی کونسل کو بااثر بنانے کے لیے مفتی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے آئین میں ترامیم کروائیں۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے اور بنیادی حقوق کی دفعات کو مؤثر بنانے کے لیے بھی ترامیم پیش کیں۔ بلاشبہ قوم مفتی محمود صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ممنون ہے کہ انہوں نے حزب اقتدار کی جانب سے بے پناہ مشکلات اور مصائب کو برداشت کرکے ایک حد تک قوم کو ایک اسلامی اور جمہوری آئین دیا۔
ماوخوذ: مفتی محمود کا دور حکومت (محمد فاروق قریشی)
ناقل : #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں