جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری صاحب کا ایوان بالا میں سانحہ باجوڑ کے حوالے سے تاریخی خطاب
2 اگست 2023
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ (القرآن)
جناب چیئرمین آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے باجوڑ کے واقعے سے متعلق مجھے بولنے کا حکم دیا۔ باجوڑ کا واقعہ یہ ایک انسانی المیہ تھا جو ہم پر گزر گئی، پاکستان پر گزر گیا، جناب چیئرمین! باجوڑ کے علاقے میں مسلسل تین چار سال سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع تھا اور اس میں تقریبا ہمارے ہی جمعیت علماء اسلام سے وابستہ علماء، بڑے بڑے فضلاء، 20 سے زیادہ اس واقعے سے قبل شہید کر دیے گئے، ان واقعات پر علاقے میں احتجاج بھی ہوا، امن مارچ بھی ہوئے اور امن جلسے بھی ہوئے، لیکن یہ سلسلہ نہیں رکا، تاآنکہ ورکرز کنوینشن میں یہ بم دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں 80 کے لگ بھگ ہمارے جوان علماء شہید ہو گئے اور دو سال سے زیادہ لوگ زخمی ہیں اور اب تک تقریبا 60، 70 لوگ مختلف ہاسپٹلوں میں اس وقت بھی موجود ہے۔
کل ہمارے جو صوبائی امیر ہے، مولانا عطاء الرحمن صاحب ان کی قیادت میں ہمارا وفد تیمرگرہ اور پھر باجوڑ اور وہاں متاثرین سے تعزیتیں بھی کی، ہم چھوٹے چھوٹے بچے، شیر خوار بچے تک ہمارے سامنے لائے گئے، بس چیزیں تو ناقابل برداشت تھی مگر اللہ نے ہمیں بھی حوصلہ دیا، ان لوگوں کے حوصلے تو پھر بھی بلند تھے، کہ اگر ہم نظریہ اسلام کے لیے اور پاکستان کے لیے، پاکستان کے جغرافیائی حدود کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں تو جمیعت علماء اسلام کے کارکن یہ قربانیاں مسلسل دیتی رہی ہیں، ماضی میں بھی اگر دیکھا جائے تو سینکڑوں کے حساب سے اور ان میں درجنوں بڑے بڑے جید علماء، شیوخ شہید کیے گئے۔ میرے قائد پر چار حملے ہوئے، ان کے بیٹے پر براہ راست حملہ ہوا، اکرم خان درانی پر حملہ ہوا، خود مجھ پہ حملہ ہوا، ہم یہ سب کچھ اپنے نظریے کے لیے، اپنے عقیدے کے لیے اور ظاہر ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، شریعت کی بات کرتے ہیں، ہمارا ایک نظریہ ہے، اُس نظریے پر جو حملہ کرنے والے ہیں، ظاہر ہے وہ پھر وہ قوتیں ہیں جن کے نزدیک اسلام، شریعت یا پاکستان وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ورنہ دیکھا جائے تو ہمارا کیا جرم ہے؟ جرم یہ ہے کہ ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں، جرم یہ ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، اسلام اور پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تحفظ، ختم نبوت کا تحفظ، اس کو ہم ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں، کہ یہ ہمارے ایمانیات سے ہے، حب الوطن من الایمان، آپ ہماری تمام سرگرمیوں کا جائزہ لیں، جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، اب تک ہماری کوئی ایسی اسٹیٹمنٹ نہیں جو ریاست کے خلاف ہو، ایسی اسٹیٹمنٹ جو شریعت اور اسلام کے خلاف ہو، تو پھر ہم پہ یہ حملے کون کروا رہا رہا ہے؟ کیا اگر ہم نے سی پیک کی حمایت کی ہے اور سی پیک معاہدے میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے کردار ادا کیا ہے اور اس کی خشت اول کے طور پر جو مولانا فضل الرحمن صاحب کا کردار رہا ہے، یہ پاکستان کے لیے، پاکستانی قوم کے لیے کیا، یہ بھی ہمارا جرم ہے؟ جو ہمارے اڑوس پڑوس یا بین الاقوامی قوت ہے یا امریکہ اور اسرائیل اور مغربی دنیا کے ساتھ ہمارے ان معاہدات کو غلط نظر سے دیکھتے ہیں، کیا یہ بھی ہمارے جرائم میں شامل ہیں اور اگر ہمارے یہ جرم ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہیں ہم شریعت کی بات کرتے ہیں، پاکستان کی بات کرتے ہیں، ہم سی پیک کی بات کرتے ہیں، ہم ملک کی ترقی اور قومی یکجہتی کی بات کرتے ہیں، اگر یہ جرم ہے تو پھر یہ جرم تا حیات ہم کرتے رہینگے۔ یہ جرم ہے؟ آخر پاکستان میں اور جماعتیں بھی ہیں، تو جناب چیئرمین یہ دلخراش واقعہ، افسوسناک واقعہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی جب سے پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا ہے، اس سے تین چار سال پہلے یہ مسئلہ نہیں تھا؟ انتہائی احترام کے ساتھ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے جو حکومت تھی عمران خان کی صورت میں وہ ان قوتوں کی حکومت تھی، اسرا ئیل، قا د یانی، امریکی ملٹینیشنل کمپنیاں اور انڈیا، یہ میں الزام نہیں لگا رہا یہ فارن فنڈنگ سے یہ ساری چیزیں ثابت ہو گئی ہے جو ہم کہتے تھے اور وہی ساری چیزیں ثابت ہو گئی، تو پھر اگر میں تو نہیں کہتا کہ ان کے دور میں امن تھا لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ امن تھا تو پھر ایجنٹ ان کا تھا اور اس ایجنٹ کو ہٹانے کے لیے جمعیت علماء اسلام نے ایک کردار ادا کیا اور وہ کردار ان قوتوں کو امریکہ، اسر ائیل، بھارت، مودی جو ایک درندہ صفت انسان ہے جو کشمیریوں کا قتل عام کروا رہا ہے، اب تو کشمیر سے بات آگے بڑھ گئی ہے، انڈیا میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے نیشنلزم کے نام پہ۔ تو جناب چیئرمین! پھر یہ ساری قوت متحرک ہو گئی اور ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں، وہ بھی کر سکتے ہیں، ہمارے آرمی کے جوان، ایف سی کے جوان، رینجرز، پولیس کے جوان جو مسلسل جام شہادت نوش کر رہے ہیں، اپنے ملک کی دفاع کے لیے، قوم کے دفاع کے لیے، جرم کیا ہے؟ قصور کیا ہے؟ ملک کی دفاع ہے، قوم کی دفاع ہے، تو یہ چیز ہے جو وہ انتہائی شرمناک ہیں اور ہم ان شاءاللہ ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ان واقعات سے حوصلے بڑے ہیں، بزدلانہ حملے ہمارے عزائم پست نہیں کر سکتے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت میں جو اس ملک کے نظریے کے لیے، اس ملک کے دفاع کے لیے اور امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے، آج میں جو بات کہنے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ آپ سمجھے کہ یہ مبالغہ آرائی ہے مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمٰن آج صرف جمعیت علماء اسلام کے لیڈر نہیں ہے یا پاکستان کی کوئی سیاسی لیڈر نہیں ہے بلکہ وہ امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر ہے، جہاں کہیں بھی اگر کوئی ظلم ہو، زیادتی ہو، جبر ہو، تو مولانا فضل الرحمن کی ایک ہی مؤثر آواز ہے، چاہے وہ فلسطین میں ہو، چاہے کشمیر میں ہو اور وہ اپنی طاقت کے مطابق کر کے دکھاتے ہیں۔ اسرائیل کی تسلیم کرنے کی بات چل پڑی، پارلیمنٹ میں بھی ان کی حمایت ہی بول پڑے اور یہاں تک کہنے لگے کہ جی اس میں جھگڑے کی کیا بات ہے؟ جھگڑے کی کیا بات ہے؟ بیت المقدس یہودیوں کا قبلہ ہو اور بیت اللہ مسلمانوں کا قبلہ ہو، اس میں جھگڑے کی کیا بات ہے؟ جیسے یہ بیٹھ کے یہاں یہ سارا کچھ تقسیم کر رہے ہیں، ہم نے اس پر بھی رد عمل دیا، کراچی میں لاکھوں لوگ اس اجتماع میں شریک ہوئے، امام مسجد اقصیٰ نے ٹیلیفونک بات کی، حماس کے لیڈروں نے، لبنان کے لیڈروں نے اور پوری دنیا سے جو مسلمان لیڈرز تھے، ان سب نے بات کی، ہمارا کردار ایک بڑا واضح ہے، ہم پرامن لوگ ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ ہم نے یہاں پاکستان میں 15 ملین مارچ کئیں سابقہ حکومت کے خلاف، لیکن کوئی ثابت کرے کہ ہمارے کسی جلسے میں، کسی جلوس میں کوئی گملہ ٹوٹا ہو، کسی گاڑی کو نقصان پہنچا ہو، کسی دکان کو نقصان پہنچا ہو، کراچی سے لے کر اسلام آباد تک، گوادر اور کوئٹہ سے لے کر اسلام آباد تک، گلگت بلتستان اور لاہور سے اور پشاور سے یہ قافلے چلے، ایک دہشت گردی یا ایک کوئی کسی کو نقصان پہنچانے کی بات آج تک ریکارڈ میں نہیں ہے، اور ہمارے علاوہ جو آپ نے دیکھا کہ 9 مئی کو کیا ہوا؟ تو جناب والا ہم آئین کے دائرے میں رہ کر احتجاج بھی کرتے رہے ہیں، آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی بات بھی کی ہے، نہ کسی سیاسی جماعت کو نقصان پہنچایا، نہ کسی ملک کے ادارے کو نقصان پہنچایا، نہ ملک کا نقصان کیا، نہ قوم کا نقصان کیا اور اپنی جدوجہد جاری رکھی اور وہ جدوجہد نتیجہ خیز بھی ثابت ہوئی۔
تو جناب چیئرمین! میں باجوڑ واقعے کی جتنی بھی مذمت کروں وہ کم ہے، ایسا دل خراش، افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اب ایک بات ضرور ہے کہ ہمارے جو سیکورٹی ادارے ہیں، ان سے بھی پوچھنا چاہیے، کہ یہ جو باڑ لگا ہوا ہے دو ہزار کلومیٹر کا اس کے باوجود تخریب کار دہشت گرد اندر آکے، اپنے ایجنٹ بھیج کے کاروائیاں کرواتے ہیں، اس پہ بھی نظر ہونی چاہیے! تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک مؤثر قرارداد یہاں پاس کی جائے اور جو دلخراش واقعہ ہوا ہے، کوئی ایسے فیصلے کیے جائیں اور ملک کے ادارے اپنی ذمہ داری سمجھ کر اپنے ذمے لے کر اس کو ایک ایسے اقدامات کریں کہ دوبارہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے۔ بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں