مفتی محمود رحمہ اللہ کے مختصر دورحکومت میں عظیم کارنامے قسط نمبر 2 اردو کو صوبے کا سرکاری زبان قرار دینا

 

مفتی محمود رحمہ اللہ کے مختصر دورحکومت میں عظیم کارنامے 

قسط نمبر 2

اردو کو صوبے کا سرکاری زبان قرار دینا 

مفتی صاحب کا دوسرا بڑا اقدام اُردو کو سرکاری زبان قرار دینا تھا۔ اُردو کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی اور اس نے بہت تھوڑے عرصے میں السنہ عالم کی محفل میں ایک منفرد و ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے کان یہ سنتے چلے ارہے ہیں کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے، لیکن عملی طور پر قومی زبان کی ترقی و ترویج اور نفاذ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، بلکہ عملی طور پر انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر برقرار رکھا گیا۔ پاکستان کی خوش نصیبی تھی کہ اس نے اپنی قومی زبان کے لیے ایسی زبان کا انتخاب کیا جو دنیا کی سب سے متحرک، فعال اور لچکدار زبان ہے جو اپنے زور قدرت سے برابر پھیلتی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت قائداعظمؒ نے یہ بارہا یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ ٢٤ مارچ ١٩٤٨ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے تقسیم اسناد کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قاٸداعظمؒ نے کہا تھا: ”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ میری رائے میں اُردو صرف اُردو ہے“۔ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد اردو کے نام کو محض سیاست کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اس کی ترقی و ترویج کے لیے ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی گئی۔ مولانا مفتی محمودؒ نے اردو کو صوبہ سرحد کی سرکاری زبان قرار دے کر آج تک اس زبان کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کی تلافی کی۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کے لیے ایک زبان اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ: ”کوئی ریاست متحد و مربوط نہیں رہ سکتی جب تک اس کی ایک مرکزی زبان نہ ہو“۔ مفتی صاحب کی طرف سے قومی وحدت کی خاطر اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیے جانے پر مخالفین کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیوں کہ مفتی صاحب نیپ اور جمعیت کے مخلوط پارٹی کے قائد تھے، اور نیپ کے بارے میں آج تک یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پختونستان کے حامی ہے اور صوبہ پرست ہے۔ ثانیاً صوبہ سرحد میں اکثریت پشتو بولنے والوں کی ہے جو اردو کے ابجد سے بھی واقف نہیں۔ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ پشتو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جاتا، لیکن مفتی صاحب نے قومی وحدت اور ملکی سالمیت کو مقدم سمجھتے ہوئے اردو کو صوبے کی سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ مفتی صاحب کے اس دانشمندانہ فیصلے کا نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ ملک بھر میں زبردست خیر مقدم کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صوبائی زبانوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے بلکہ ضروری کہ قومی زبان کے ترویج کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں کا بھی خیال رکھا جائے اور ان کی ترویج و اشاعت ہو۔ اس کے برعکس حب الوطنی پر اجارہ داری قائم کرنے والوں نے سندھ میں صوبائی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا شوشہ چھوڑ کر اڑسٹھ فیصد اردو بولنے والی آبادی کے حقوق پامال کیے اور پھر اس زبان کے مسئلہ پر سندھ میں جو خون خرابہ ہوا، امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی، بے گناہوں کا مال و اسباب لوٹا گیا، انسانوں جانوں کا قتل عام ہوا، زمینوں سے لوگ بے دخل کیے گئے۔ ہنوز عوام کے ذہنوں میں اس کی خلش موجود ہے لیکن صوبہ پرستی کا طعن نیپ اور جمعیت کو دیا جاتا ہے۔

ماوخوذ: مفتی محمود کا دور حکومت (محمد فاروق قریشی) 

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


قسط نمبر1 

قسط نمبر 2 

قسط نمبر 3 

 قسط نمبر 4 

قسط نمبر 5 

قسط نمبر 6

قسط نمبر 7 

قسط نمبر 8 

قسط نمبر 9 

قسط نمبر 10 

قسط نمبر 11 

قسط نمبر 12 

قسط نمبر 13 

قسط نمبر14 

قسط نمبر15 

قسط نمبر16 

قسط نمبر17 

قسط نمبر18 



0/Post a Comment/Comments