وفاقی وزیر مواصلات مفتی اسعد محمود صاحب کا سانحہ باجوڑ کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اجلاس سے خطاب تحریری صورت میں 31 جولائی 2023

وفاقی وزیر مواصلات مفتی اسعد محمود صاحب کا سانحہ باجوڑ کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اجلاس سے خطاب
31 جولائی 2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد 
سب سے پہلے تو میں کل کے دردناک واقعہ پر، افسوسناک، اذیت ناک واقعہ پر، شہداء کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتا ہوں، پسماندگان کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا فرمائے، زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے۔ جن ممالک کے سفراء نے پاکستان کی سیاسی، مذہبی، قبائلی مشران جنہوں نے رابطہ کر کے جمعیت علماء اسلام سے شہداء کے خاندانوں سے تعزیت کی، اس غم کی گھڑی میں ہمارے ساتھ شرکت کی، اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ 
جناب اسپیکر! ہفتے کے روز میری قیادت بیرون ملک دورے پر گئی چند روز کا بیرونی ممالک کا دورہ تھا، ابھی ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ ہمیں اس خوفناک واقعہ کی خبر موصول ہوئی، آج مجھے واپس آنا تھا، سی پیک کی دس سالہ تقریبات کے حوالے سے جو مہمان پاکستان آئے ہیں چائنہ سے، ان کے اعزاز میں اور کل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے پورے ملک کو پورے خطے کو رنجیدہ کر دیا، غم سے نڈھال کر دیا، ہر طرف سے جو پیغامات جمعیت علماء اسلام کی قیادت کو، آپ کو بذات خود سپیکر کی حیثیت میں، حکومت کو جو ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ الفاظ کی صورت میں تعاون کی صورت میں اظہار کی جا رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کل کا واقعہ اور اس سے قبل جو واقعات ہوئے ہیں پاکستان کے اندر، ان میں سے کوئی واقعہ ایسا نہیں ہے جو کسی پر ذاتی حیثیت میں ہوا ہو، جو کسی پارٹی پر ہوا ہو، جو کسی گروہ پر ہوا ہو، جو کسی تنظیم پر ہوا ہو، بلکہ یہ تمام حملے بشمول کل کے حملے کے، یہ پاکستان پر حملہ ہے، یہ پاکستان کے امن پر حملہ ہے، یہ پاکستان کی معیشت پر حملہ ہے، یہ پاکستان کی جمہوریت پر حملہ ہے، یہ بے گناہ مسلمانوں پر حملہ ہے، یہ بے گناہ امت مسلمہ پر حملہ ہے، آج امت مسلمہ کی جو دنیا بھر میں حالت ہے، وہی پاکستان کے اندر حالت ہے اور ایک ہفتہ قبل یا 10 روز قبل جب یہاں پر مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جناب اسپیکر آپ کی موجودگی میں باجوڑ کے اندر جو صورتحال تھی، قبائل کے اندر جو صورتحال تھی، ان تمام صورتحال کے حوالے سے میں نے وہ تمام معلومات اس ایوان کے سامنے رکھی، حکومت کے سامنے رکھی، کہ ہمارے قبائل وہ جل رہے ہیں، ہمارے قبائل میں سیاسی کارکنوں کو جو آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، جو جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں، جو پاکستان میں ایک آئینی جدوجہد کے لیے جمہوری جدوجہد کے لیے قوم کو دعوت دے رہی ہے، ان کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس میں سرفہرست جناب اسپیکر کل کے واقعے سے پہلے گزشتہ ڈیڑھ سال کے اندر یا دو سال کے اندر 19 شہادتیں صرف جمیعت علمائے اسلام کی ذمہ داروں نے دی، عام کارکن بھی نہیں جناب اسپیکر، وہ ذمہ دار ساتھی کہ جو اثر و رسوخ رکھتے تھے، وہ علماء کرام جو مقتدا کی حیثیت سے وہاں پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، انسانی جان اس کی اہمیت اور اس کا احترام، اس کو انسان ہی سمجھ سکتا ہے، کل جو واقعہ ہوا آپ نے خود بھی شاید اس کی ویڈیوز دیکھی ہوں گی، میں نے ایک ویڈیو اس میں کھولی جناب اسپیکر ایوان کو بتانا چاہتا ہوں، لوگ بکھرے ہوئے زمین پر پڑے ہوئے تھے، کسی کا سر پڑا ہوا تھا، کسی کے پاؤں پڑے ہوئے تھے، کسی کے ہاتھ پڑے ہوئے تھے، میں خود نہیں دیکھ سکا جناب اسپیکر کہ وہاں پر کس قسم کے لوگوں پر کرب و اذیت گزری ہوگی اور ایک ایک خاندان سے تین تین لوگ شہید ہوئے ہیں، باپ شہید ہوا ہے تو بیٹا بھی شہید ہوا ہے، بھائی شہید ہوا ہے تو دوسرا بھائی بھی شہید ہوا ہے، قبائل باجوڑ کے اندر خصوصاً جناب اسپیکر ایسے گھر جمیعت علمائے اسلام کے رہ گئے ہیں، جہاں پر ان کے گھروں میں مرد اب باقی نہیں رہے، تمام خواتین رہ گئی ہیں، کیا مذہب کی اڑ میں آپ اپنی ریاست کی ذمہ داریوں کو بھول جائیں گے! کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بھول جائیں گے! کیا ان کو احساس ذمہ داری نہیں ہوگا! جب دس دن پہلے میں نے اپ کو اس ایوان میں نشاندہی کی! جناب وزیراعظم صاحب کی موجودگی میں نشاندہی کی! وزیر داخلہ صاحب کی موجودگی میں نشاندہی کی! اس کے باوجود بھی ہم جیسے ایک بے اثر سی آواز ہے اور ہماری آواز کی کوئی قیمت کوئی قدر نہیں ہے، اس کے باوجود قبائل کے اندر کل کا واقعہ رونما ہوا، کیسے رونما ہوا جناب اسپیکر؟ کیسے یہ ممکن ہوا کہ اربوں روپے ہمارے اداروں کو سالانہ اسی ذمہ داریوں کے لیے ملتے ہیں اور ہمارے وہاں پر قبائلوں کو جس تکلیف اور کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس سے قبل خیبر ایجنسی میں علی مسجد کا واقعہ ہوا، وہاں پر قرآن کریم کو شہید کیے گئے، مسجد کو شہید کیا گیا، تیرا میں آج سے چار روز قبل ایک امن کے نام پر قبائلی عوام نے ازخود ایک اجتماع کیا جناب اسپیکر، لوگ گھروں سے نکلے اس اجتماع کے اندر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو باتیں کی گئی ہیں، ان کو میں یہاں پر آپ کے سامنے ذکر نہیں کر سکتا کہ کس طرح میں ان الفاظ کو یہاں پر آپ کے سامنے پیش کروں لیکن پیش کروں گا جناب اسپیکر ذمہ دار فورم پر کروں گا اور یہ احساس دلاتا رہوں گا کہ کیوں ہم اس پر خاموش ہیں؟ کیوں ہم اس احساس ذمہ داری کو نہیں سمجھ رہے ہیں! حکومت چلی گئی، افغانستان کے اندر اما رت اسلامی کی حکومت آئی، پاکستان ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہا جناب اسپیکر کہ ہم نے کیا فیصلہ کرنا ہے افغانستان کے حوالے سے، وہاں پر جو لوگ ٹی ٹی پی کے حوالے سے یا دوسری عسکری تنظیمیں پاکستان کے اندر مسلسل مداخلت کر رہی ہیں، اس کے حوالے سے ہم نے کیا کرنا ہے۔
میں گواہ بنانا چاہتا ہوں یہاں پر وزرائے کرام کو کہ ہمارے پاس ذمہ دار اداروں کے لوگ آئے ہم سے کہا کہ ہم نے بات چیت شروع کی ہے، آپ ہمیں اجازت دیں ہماری کابینہ نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے مذاکرات شروع کیے ہیں تو اجازت آپ کو ملی ہوگی، انہوں نے کہا کہ ہمیں زبانی اجازت ملی ہے آپ رٹن میں ہمیں اجازت دیں اور کچھ مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پاکستان کے اندر قبائل کے اندر بلوچستان کے اندر پھر سے یہ دوبارہ چیزیں شروع ہوئی۔ لوگ آنا شروع ہوئے وہاں کے لوگ گواہ ہیں اس بات پر کہ شاید مذاکرات کامیاب ہو گئے اور مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد امن پر اتفاق ہوا ہے، جب یہاں کاروائی شروع ہوئی ہمیں جواب دیا گیا کہ مذاکرات تو ناکام ہوئی ہیں۔ 1600 کلومیٹر بارڈر پر باڑ لگائی گئی ہے، سولہ سو کلومیٹر پر کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے بارڈر کو پار کر کے پاکستان میں اس قسم کے واقعات ہو سکتے ہیں اور ہمارا کل کا اجتماع امن کے عنوان سے جناب اسپیکر اس کا انعقاد ہوا، اور جنہوں نے اس امن کے جلسے پر حملہ کیا وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم پاکستان کے امن کو انتشار میں بدلیں گے، ہم پاکستان کے امن کو تباہی میں بدلیں گے، لیکن جمیعت علماء اسلام جس کی اپنی جدوجہد کے سو سال ہوئے ہیں، ہم نے قربانیاں دی ہیں، ہم نے یہ ملک حاصل کیا ہے، ہم نے اس ملک کا آئین بنایا ہے۔ گزشتہ 22 سالوں کے اندر آپ کے پارلیمنٹیرینز، آپ کے کولیگ، جو یہاں پر نیشنل اسمبلی میں آپ کے کولیگ تھے، جو سینٹ میں آپ کے کولیگ تھے، میں اگر ان کی شہادتوں کے واقعات جناب اسپیکر آپ کو سناؤں، کہ جمیعت علمائے اسلام نے کون کون سی شہادتیں اور کیسے کیسے حاصل کیے ہیں، آپ اپنے آنسو نہیں روک سکیں گے جناب اسپیکر، ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید آپ کا سینٹ کا رکن، صبح بیٹی کی شادی تھی اس کی، بیٹی کی شادی کے لیے ایک پروگرام سے آرہا تھا، راستے میں جماعت کا ایک دفتر تھا جس کی بنیاد انہوں نے رکھی، مسجد کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا اور وہاں انہوں نے صبح کی نماز کی ادائیگی کی غرض سے وہاں رکے، سنت ادا کر رہے تھے، سجدے میں سر تھا، گولی ماری گئی، سجدے کے اندر ان کو اللہ تعالیٰ نے شہادت نصیب کی، مولانا معراج الدین صاحب آپ کے اس پارلیمنٹ کی رکن، حلقہ محسود سے ان کا تعلق تھا، جس نشست پر آج مولانا جمال الدین صاحب کامیاب ہوتے ہیں، مسجد کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ماتھے پر ان کو نشانہ بنایا گیا اور کس چیز کی پاداش میں؟ صرف اس لیے کہ وہ پاکستان کے آئین کے ساتھ کمٹمنٹ کی بات کرتے تھے، وہ اسلام کی بات کرتے تھے، وہ جمہوریت کی بات کرتے تھے، وہ یہ سوالات اٹھاتے تھے کہ جو لوگ پاکستان میں یہ تخریب کاریاں کر رہے ہیں اور جن لوگوں سے ان تخریب کاریوں کو جوڑا جا رہا ہے ان کو خود کش جیکٹ بنانا کس نے سکھایا؟ ان کو بم بنانا کس نے سکھایا؟ ان کو یہ تخریب کاری کی وہ مہارتیں جس کے سامنے ہماری مہارت ہیش ہو چکی ہے یہ کس نے سکھائی؟ مولانا نور محمد آپ کے اس پارلیمان کے رکن، وانا کے اندر درس حدیث کے دوران ان پر خودکش حملہ ہوتا ہے، مقتدیوں کے ساتھ شہید ہو جاتے ہیں، مفتی نظام الدین شامزئی شہید جو کراچی اپنے گھر سے نکلتے ہیں تاکہ امن کے لیے اپنی جدوجہد اور اپنی آواز اور اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکے، گھر کے دروازے کے اندر ان کے سینے کو چھلنی کیا جاتا ہے، مفتی جمیل خان ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ان کے سینے کو چھلنی کیا جاتا ہے، آپ کے یہاں پر مولانا حسن جان شہید، آپ کے اس پارلیمان کے رکن، رمضان المبارک کے اندر اپنے کسی شاگرد کی نکاح کی غرض سے ان کے گھر گئے واپسی پر جب لوٹتے ہیں، ان کے چہرے پر اور سینے پر گولیوں سے ان کو نشانہ بنا کر شہید کیا جاتا ہے، کتنے جنازے ہم نے اس پارلیمنٹ کے اراکین کی اٹھائے ہیں، کل کون سی عمر تھی، جہاں پر وہاں پاکستان کے شہریوں نے، مسلمانوں نے اور دین پرست اور دین دوستوں نے شہادتیں نہیں دی؟ 8 سال کے بچوں سے لے کر 70 سال کے عمر تک کے لوگوں نے شہادتیں دی، ابھی ایک گھنٹہ پہلے تک شہادت 46 ہو چکی ہیں اور لوگ بھی کریٹیکل ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو صحت دے، اللہ تعالیٰ ان کے خاندانوں کو اس غم سے محفوظ رکھے، جن کے گھروں میں جنازے گئے ہیں، دو دو تین تین جناب اسپیکر ان پر کیا گزر رہی ہے! ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا! تمام جماعتوں نے قربانیاں دی ہیں لیکن دین دوست اور مذہب پرستوں کو جو پاکستان کے ساتھ کمیٹڈ ہیں، جو پاکستان کے آئینی جدوجہد، آئین کے دیے ہوئے دائرے کے اندر جدوجہد کر رہے ہیں، جو آپ کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کو جب نشانہ بنایا جاتا ہے جناب اسپیکر، تو پھر یہ احساس ان کو ضرور دیا جائے کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں، وہ پاکستان کے محب وطن ہیں، یہاں پر ہر فتنہ، مذہب کے نام پر الاٹ کر دیا جاتا ہے، اسلاموفوبیا کی بات ہوتی ہے، لیکن دراصل جو عزائم ہیں اس خطے کے اندر مذہب پرستوں کے خلاف، قوم پرستوں کے خلاف، مجھے کوئی اور نہیں یہاں پر مذہب کو بھی ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، پاکستان کے خلاف اور وہ قوتیں جو پاکستان کے معاشی استحکام کو اپنے حق میں صحیح نہیں سمجھتے، یہاں پر قوم پرستی کو بھی ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں چاہتے۔
 میرے والد صاحب پر چار حملے ہوئے جناب اسپیکر، چار سدہ کے اندر حملہ ہوا، اس سے پہلے مردان کے اندر حملہ ہوا 14 کارکن ان کے ساتھ شہید ہوئے، چار سدہ میں حملہ ہوا 14 کارکن ان کے ساتھ شہید ہوئے، مولانا عبدالغفور حیدری صاحب پر حملہ ہوا 26 کارکن ان کے ساتھ شہید ہوئے، دورانی صاحب پر حملہ ہوا، ہماری جماعت کی دیگر قیادت پر حملہ ہوا، مجھ پر حملہ ہوا جناب اسپیکر، آپ کے 2018 کے انتخابات میں، اس سے قبل 2007 کے اندر میرے گھر کو نشانہ بنایا گیا، لیکن ہمارا عزم نہیں ٹوٹا اور ان قوتوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کی قسم تم پاکستان کے لیے ہمارا عزم نہیں توڑ سکتے! تم اسلام کے لیے ہمارا عزم نہیں توڑ سکتے! ہمارے اکابر نے ہمارے لیے اس راستے کا انتخاب کیا ہے! اسی راستے پر چلیں گے! پاکستان کو معاشی طور پر بھی مستحکم کریں گے! سیاسی طور پر بھی مستحکم کریں گے اور کسی صورت بھی پاکستان پر کمپرومائز نہ پہلے کیا ہے نہ آج کیا ہے نہ اسلام پر کمپرومائز کریں گے! نہ جمہوریت پر کمپرومائز کریں گے! اور اپنی طاقت کو منظم کریں گے! ان شاءاللہ ان شہداء کا یہ خون ہماری لیے راستے آسان کرے گا، اللہ ہمیں توفیق دے اس ملک کی خدمت کرنے کی۔
 80 ہزار سے زیادہ لوگوں کی شہادتیں یہ قوم دے چکی ہے، لیکن یہ سوالات میں ضرور چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ کون لوگ ہیں جو ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں اور یہ لوگ آجاتے ہیں، اس کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ مذاکرات تو ناکام ہوگئے، اس کرداروں کو سامنے لانا چاہیے۔ (وقفہ اذان)
 جناب اسپیکر! یہ تمام صورتحال آپ کے سامنے میں نے رکھ دی ہے، آپ کے کل کے جلسے میں مولانا جمال الدین صاحب خود شریک تھے اور غالباً نماز کی غرض سے وہ ساتھ ایک دیہاتے میں گئے اور آپ کے سابقہ سینیٹر وہ سٹیج کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے، مولانا عبدالرشید صاحب ہمارے وہاں تحصیل امیر مولانا ضیاء اللہ جان صاحب اس حادثے میں سانحے میں شہید ہوئے، ان کے ساتھ جماعت کے دیگر ذمہ داران تحصیل خار کے شہری جمیعت علماء اسلام کے کارکن اس میں شہید ہوئے، ہم پارلیمان میں اپنی بات رکھ چکے ہیں، ہم ان شاءاللہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس بھی بلائیں گے، پشتون قوم کے مشران کو بھی بلائیں گے، دعوت دیں گے، ہم سیاسی زعماء کا بھی اجلاس بلائیں گے، ہم علمائے کرام کو بھی ان شاءاللہ بلائیں گے ان کے ساتھ بھی مشاورت کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل مشاورت سے طے کریں گے کہ کھول کر پاکستان کے ان مسائل کو قوم کے سامنے رکھا جائے۔ کیا مشکلات ہیں؟ کس کو مشکلات ہیں؟ کس طرح اس کا حل ڈھونڈا جائے؟ کیسے ان مشکلات سے نکلا جائے؟ ذمہ داری ہے بحیثیت پارلیمانی رکن کے، ہم سب کی کہ ہم اس ملک کے امن کے لیے ہم اس ملک میں رہنے والوں کے معاش کے لیے بہترین حکمت عملی ترتیب دے، ہم بہت ساری معلومات جناب اسپیکر رکھتے ہیں، ہم یہاں پر ان واقعات کا ذکر نہیں کرتے لیکن ذمہ دار فورم پر ضرور ان کا تذکرہ کرتے رہے ہیں، کرتے رہیں گے، یہ بھیڑ بکریاں نہیں ہیں جناب اسپیکر! یہ مرغیاں نہیں ہے! یہ انسان ہے! اور وہ انسان جو محب وطن شہری ہے، جو امن کے نام سے اجتماعات کرتے ہیں، جو پاکستان کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، جو اسلام کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ہم بہت رنجیدہ ہیں جناب اسپیکر، اور آج میرے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے، میں آج ہی پہنچا ہوں پاکستان، ہماری قیادت بھی آج پہنچ گئی ہے، کچھ ملاقاتیں یہاں پر تھی، اب ان شاءاللہ ہم جائیں گے شہداء کے پاس، ان کے خاندانوں کے پاس، ان کے لواحقین کے پاس اور ایک وسیع مشاورت کے بعد ہم اپنی ریاست کو متوجہ کریں گے، ہم اپنی ریاست کو بتائیں گے کہ کہاں کہاں مشکلات ہیں اور اس کو کس طرح کس طرح حل کرنا ہے۔ کل کے واقعے پر بھی جناب اسپیکر ہم نے امن کا پیغام دیا، ہم نے ان کو تحمل اور برداشت کا پیغام دیا، ہمارا کارکن پر امن ہے، ہم امن چاہتے ہیں، آپ خود جب اس منصب پر نہیں بھی ہوتے ہیں تب بھی بلٹ پروف گاڑیوں میں پھرتے ہیں، ہمارے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے، سب کے ساتھ یہی صورتحال ہے، میں چاہتا ہوں، میری یہ خواہش ہے کہ میں اجلاس کے اختتام پر خورشید شاہ صاحب کے ساتھ لاجز پیدل جا سکوں، میری خواہش ہے کہ میرے ساتھ رکن ممبران، ان کو میں کل عام امن کے ساتھ، عام شہریوں کو امن کے ساتھ کاروبار کرتا ہوا دیکھ سکوں، تعلیم حاصل کرتا ہوا دیکھ سکوں، ان کو میں آزادانہ طور پر پرامن ماحول میں زندگی گزارتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور ہم سب کی خواہش ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی طاقتور ریاست اور اس کی اتنی طاقتور ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے جو کچھ اس خطے میں ہوا، جو کچھ پاکستان میں ہوا، اس کا راستہ تو کب کا بند ہو جانا چاہیے تھا! لیکن ان شاء اللہ اس پر مشاورت کریں گے اور اپنا موقف بھی دیں گے، آج حقیقت یہ ہے کہ الفاظ نہ ساتھ دے رہے ہیں، نہ مل رہے ہیں، کہ کس طرح ہم قبائلیوں کے اس درد اور کرب کا احساس آپ کے سامنے رکھے۔ پشاور کے اندر پولیس لائن کے اندر واقعے ہوئے اللہ رحم فرمائے اور صرف باجوڑ نہیں ہے، کون سی ایجنسی ہے جس کے اندر یہ کچھ سب کچھ نہیں ہو رہا! 
بہرحال میں ایک مرتبہ پھر تعزیت کرنے والے حضرات کا انتہائی شکر گزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ جمیعت علماء اسلام کے قائدین کو، کارکنوں کو اور اس ملک میں رہنے والے اپنے بھائیوں، بہنوں کو جو اس واقعے اور سانحے کی وجہ سے غمزدہ ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور شہداء کو بلند درجات عطا فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ 
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat



 

1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں