قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قبائلی گرینڈ جرگہ کا اعلامیہ بیان کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو تحریری صورت میں 4 اگست 2023


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب قبائلی گرینڈ جرگے کا اعلامیہ بیان کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو 

4 اگست 2023

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
ایک شاعر کہتا ہے
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا 
میں کیسے صلح کرلوں قتل کرنے والے سے
میں تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین، قبائیلی عمائدین، علماء کرام، مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن، عہدیداران جو آج اس قومی جرگے میں تشریف لائے ہیں، ایک بار پھر ان کی تشریف اوری پر دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ حضرات نے اپنی سرزمین کے امن کے لیے، اپنے اس منطقے کے ترقی کے لیے، جس فکرمندی کا ثبوت دیا ہے، تاریخ آپ کے اس جذبے، آپ کے اس احساس اور اس احساس پر مشتمل آج کے اس جرگے کو بھلا نہیں سکے گی۔ ہماری اس سرزمین کی ایک بہت طویل تاریخ ہے، برصغیر پر نظر ڈالی جائے تو صدیوں طویل تاریخ، افغانستان پر نظر ڈالی جائے تو صدیوں طویل تاریخ، واقعات آتے رہے ہیں، مختلف تجزیے دوستوں نے پیش کیے ہیں لیکن بہت سی باتیں ہمیں تاریخ کے حوالے کرنے ہوتی ہیں، ہمیشہ کے لیے کسی بھی کام کی ابتدا کی نسبت تدبیر کی طرف ہوتی ہے لیکن نتیجہ کی نسبت تکوین کی طرف ہوا کرتی ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ایک طرف ہماری تاریخی جدوجہد، ایک طرف ہماری قربانیاں، ایک طرف خون سے لکھے ہوئی ہماری ماضی اور دوسری طرف وہ سازشیں جو باہر کی قوتوں نے بھی کی اور ہمارے اپنے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے، اور کس طرح انہوں نے ہماری جدوجہد کو سبوتاژ کیا، اسے نقصان پہنچایا، اسے بے نتیجہ کیا، سو یہ جنگ ہے، یہ چلتی رہے گی۔
 میں جب پرسوں ہسپتال میں سانحہ باجوڑ کے شہداء کے زخمیوں کے پاس گیا، تو سب سے پہلے مریض جو وہاں مجھے ملا، میں نے اس کو سلام کیا، اس نے مجھے ہاتھ ملایا قبل اس کے کہ میں ان سے پوچھوں کہ آپ کا کیا حال ہے، اس نے اپنی ہی طرف سے کہہ دیا
إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
ترجمہ: اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو انہیں بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے، اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے بعضوں کو شہید کرے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران 140) 
یقین جانیے ایسے ساتھیوں کے، ایسے حوصلوں پر میں فخر نہ کروں تو اور کیا کر سکتا ہوں! ایسی رفاقتوں پر جو اللہ نے ہمیں عطاء کی ہیں، میں اللہ کا شکر ادا نہ کروں تو کیا کروں، ہم سب اسی لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہر ایک کا اپنا تجزیہ ہے، چاہے اس کا شخصی تجزیہ ہو، چاہے اس کی پارٹی کا تجزیہ ہو، اس کی اپنی رائے ہو، اس کی پارٹی کی رائے ہو، سب اکٹھے ہوں سب اپنی اپنی رائے پیش کریں، اسی سے پھر ایک نتیجہ اخذ کر لیا جاتا ہے، مجھے خوشی ہے کہ آج ہمارے جتنے دوست مختلف سیاسی جماعتوں کے ہوں یا مختلف علاقوں کے ہوں، عمائدین ہوں، سیاسی رہبر ہوں، سب نے گفتگو کی اور ان گفتگو سے جو مشترکہ آراء سامنے آئی ہیں، جس سے رہنمائی ملی ہے، میں اس پر بھی پہلے اپنے رب کا شکریہ ادا کرتا ہوں پھر آپ کا دل و جان سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

آج کے اس گرینڈ قبائلی جرگہ نے جس اعلامیہ پہ اتفاق کیا ہے میں وہ آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام قبائلی گرینڈ جرگہ گزشتہ روز باجوڑ میں ورکرز کنونشن کے موقع پر ہونے والے واقعہ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر رنج غم اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کے خاندانوں سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ جرگہ زخمی افراد کی جلد صحتیابی کے لیے بھی دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرمائے اور ان کے جو خاندان ہیں ان کے جو ورثا ہیں اہل و عیال ہیں اللہ ان کو صبر و سلوان نصیب فرمائے۔ گرینڈ قبائلی جرگہ پولیس لائن پشاور، تحصیل باڑہ، خیبر کی علی مسجد اور مختلف اضلاع میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف عملی اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے امن و امان کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔ گرینڈ قبائلی جگہ ان تمام واقعات کو ریاست پاکستان کے خلاف کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک بین الاقوامی منصوبہ کے تحت پاکستان کو معاشی، سیاسی اور داخلی طور پر مفلوج کرنے اور ملک کی بنیادوں کو کھوکلا کرنے کی سازش پر کام شروع ہو چکا ہے، لہذا ریاستی ادارے بے گناہ عوام کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنے کو ترجیح دیں تاکہ مشترکہ طور پر ملک دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مختلف عنوانات سے کی جانے والے اب تک اپریشنز کے نتائج سے قوم مطمئن نہیں ہے اور ان اپریشنز سے عوام اور قومی سطح پر جو نقصانات ہوئے ہیں ان کا ازالہ بھی نہیں ہو سکا ہے ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان نقصانات کا ازالہ ہو، قوم کو ان کے نتائج سے آگاہ کیا جائے، جس کے متعلق امن کے قیام کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔
جرگہ میں افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات کو مؤثر بنانے اور دونوں ملکوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مضبوط حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ جرگہ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ قبائلی عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کیے گئے وعدوں کو عملی شکل دینے کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور جرگہ نے اس بات پر زور دیا کہ انضمام کے موقع پر قبائلی عوام سے صحت، تعلیم، روزگار اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے جو وعدے کیے گئے اور سالانہ فنڈز جاری کرنے کے اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جائے اور قبائلی عوام کے احساس محرومی کو ختم کیا جائے۔
 جرگہ میں نو مئی کے واقعے کو ریاست پاکستان کے خلاف ایک گھناؤنی سازش، منظم منصوبہ بندی اور بیرونی سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ آئین پاکستان اور قانون کے تحت اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
 جرگہ ملک کی معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے چین، سعودی عرب، امارات اور دیگر ممالک کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی اعلانات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر معاشی طور پر استحکام کی طرف بڑھتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔
 جرگہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری دہشت گردی کی لہر، پولیس، ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر مسلسل حملوں کے پیش نظر ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور مختلف طبقات زندگی کی اتحاد و اتفاق اور مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز پیش کرتا ہے۔
جرگہ باجوڑ سانحہ کے شہداء اور زخمیوں کے لیے حکومت اور جمیعت علماء اسلام کی طرف سے مالی اعانت کے اعلان کو خوش آئند اور بروقت اقدام قرار دیتا ہے، حکومت کی طرف سے ہر شہید کے لیے 20 لاکھ روپے کا اعلان کیا گیا اور جمعیت علماء اسلام نے 5 لاکھ روپے کا اعلان کیا، زخمی کے لیے حکومت نے 7 لاکھ کا اعلان کیا اور جمیعت علماء اسلام نے 3 لاکھ کا اعلان کیا ہے اور وہ مدد پہنچا بھی دی گئی ہے ان شاء اللہ بہت جلد گھروں تک پہنچ جائے گی۔
جرگہ ملک کے موجودہ تشویشناک صورتحال کے پیش نظر سیاسی، مذہبی جماعتوں، قبائلی عمائدین کے گرینڈ جرگہ میں شرکت اور مشترکہ لائحہ عمل کو سراہتے ہوئے یہ امید ظاہر کی گئی کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر، اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ اسی طرح جاری رکھیں گے اور اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں پر واضح کریں گے کہ پاکستانی قوم ملکی وحدت اور سلامتی اور تحفظ کیلئے متحد ہیں اور ملک وملت کے خلاف بیرونی اور اندرونی سازشوں کو مشترکہ طور پر نا کام بنانے کیلئے پر عزم ہیں۔ قیام امن کیلئے قوم کا متحد ہونا وقت کا اہم تقاضہ ہے تاکہ موجودہ حالات میں ہر قسم کی عالمی سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔

 اس کے ساتھ ہی میں ان نکات کو جو ان کے تقاریر، ارشادات سے اخذ کیے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اس میں اکثر باتیں اعلامیہ میں آچکی ہیں لیکن چونکہ اعلامیہ اس دوران میں تیار ہوا اور میں ان کے نوٹس لیتا رہا تو اس کا جو خلاصہ ہم نے سامنے رکھا ہے وہ تقریباً یہی ہے
 تجویز یہ آئی ہے کہ ایک باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی جائے، جو صوبے اور مرکز کی سطح پر ریاستی اداروں سے رابطہ کر کے انہیں اس ذمہ داری کا احساس دلائیں کہ ایسے واقعات کے پیچھے کیا حقائق ہیں، اپنی معلومات ہمارے ساتھ شیئر کریں۔ اس بات کا انتظام کیا جائے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے روک تھام، ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے۔ 
افغان امارت اسلامی کے ساتھ رابطہ کیا جائے کہ ایسے عناصر جو افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور پاکستان میں اس طرح کے کاروائیوں کی ذمہ دار ہیں ان کی کاروائیوں کا سدباب کریں۔
پاکستان کی معیشت کی تباہی ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے، ڈالروں کے بدلے پاکستان کے امن کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے، سی پیک اور بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ روکنا یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے جس کو ہم مشترکہ طور پر اور مشترکہ جدوجہد سے ان شاءاللہ اس کو روکیں گے۔ یہ ہے وہ ایک مشترکہ سوچ جو آج اس جرگے سے سامنے آئے ہیں۔
ایک بات کا ذکر ہوا کہ صرف یہ نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، ہمارے کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب وہاں پر فرقہ وارانہ فسادات ہوں گے تو پھر وہاں پر دہشت گردوں اور مسلح قوتوں کو بھی اپنا کام دکھانے میں آسانی ہوگی، تو ریاست کی جو ذمہ داری ہے ایسے فسادات کو روکنے کے لیے ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
ان شاءاللہ العزیز کل جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوگا، جو دو دن جاری رہے گا اور اس میں اس جرگے میں جو مشترکہ اعلامیہ کے تجاویز سامنے آئی ہیں وہ بھی ان کے سامنے پیش کی جائیں گی اور یہ تجویز کے پورے ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر بلایا جائے، اس کے لیے بھی ان شاءاللہ العزیز اس پر مشاورت کی جائے گی اور اس کے لیے حکمت عملی اور طریقہ کار وضع کیا جائے گا، شیڈول وضع کیا جائے گا، تو یہ سلسلہ ان شاءاللہ قومی مشاورت کا جاری رہے گا، ہمیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ ملکی سیاسی حالات جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں الیکشن کا بھی اب ہم نے سامنا کرنا ہے، انتخابی ماحول بھی سامنے آئے گا، انتخابی ماحول میں وحدت کو برقرار رکھنا بھی ایک بڑا امتحان ہے، ہر سیاسی جماعت اس سے اپنی پلیٹ فارم پر جا کر انتخابی مہم چلانی ہے، اس میں باہمی نظریاتی اختلافات بھی زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے اندر بھی ہم نے اس بات کو طے کرنا ہے کہ نہیں ملک کے لیے ہم ایک ہیں، قوم کے لیے ہم ایک ہیں اور ہمارا تجربہ ہے، آپ کو یاد ہوگا جب 25 جولائی 2018 کو الیکشن ہوا تو ہم سب نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا اور پورا الیکشن مہم ایک دوسرے کے خلاف لڑا لیکن 27 یا 28 تاریخ کو ہم نے دعوت دی اور دو تین دن کے اندر تمام سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی، دو دن پہلے کا جو ماحول تھا اسے پیچھے رکھا ہے اور ایک نئے مستقبل کے لیے سب نے ایک پرفارم پر اکٹھا کیا، تو پاکستان کی سیاست دانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مشترکات کو سمجھتے ہیں، ملکی مفاد کو سمجھتے ہیں اور پاکستان کے آئین اور قانون کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ان شاءاللہ اس پر ہمارا کام جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو قبول فرمائے اور اسے ملک کے اندر اور اس پشتون بیلٹ میں، قبائلی علاقوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں بلکہ پورے ملک میں امن و امان اور عافیت کا سبب اور ذریعہ بنائے۔
 میں آپ کا بے حد مشکور ہوں، صحافی حضرات کا بھی مشکور ہوں اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ تشریف لائیں۔
 واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

صحافی کو جواب: دیکھیے بات یہ ہے ہم سیاسی عمل سے وابستہ لوگ ہیں، حرکت جاری رہے گی، گفتگو چلتی رہی گی، اجتماع اس سے ماحول بنتا ہے، اس سے دہشت گرد تنہا ہو جاتا ہے، آج عمومی طور پر تمام مکاتب فکر ہوں، علماء کرام ہوں، عمائدین ہوں، سیاسی کارکن ہوں، عوام ہوں ہر سطح پر قوم ایک ہے اور اگر ہم خاموشی ظاہر کر لیں تو نتائج سامنے آتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ فوراً سامنے آئے اور کچھ اللہ کی طرف بھی رجوع کرنا پڑتا ہے کیونکہ نتائج اسی کے ہاتھ میں ہوا کرتے ہیں۔

صحافی کو جواب: میرے خیال میں تو کوئی رد و بدل کا تو مجھے اطلاع نہیں ہے (نگران صوبائی کابینہ کا)۔ 
صحافی کو جواب: الیکشن کمیشن کو میں واضح طور پر پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ایک مفرور کے خط پر تم بلیک میل ہوتے ہو تو تم نے خاک انصاف کرانا ہے۔  

صحافی کو جواب: الیکشن تو ہونے ہیں، لیکن ہم تو دیکھو ٹھیک 9 تاریخ کو اپنی حکومت چھوڑ رہے ہیں اور اگے پھر نگران حکومت بنے گی، نگران حکومت کی پھر اپنی ذمہ داری ہیں وہ اپنی ذمہ داری نبھائے اور بروقت الیکشن کرائے۔ 

صحافی کو جواب: دیکھئے جب تک ریاستی ادارے سیاسی لوگوں کو مشاورت میں نہیں لیں گے، تنہا پرواز کریں گے، اپنے ادارے میں بیٹھ کر فیصلے کریں گے، اس وقت تک ان کے فیصلوں کو عوامی تائید نہیں ملے گی، سیاسی سپورٹ نہیں ملے گی اور اس وقت تک پھر کسی کوئی کامیابی بھی نہیں مل سکے گی۔

صحافی کو جواب: میں نے اس میں تین اپنے حوالے سے دوسرے جماعتوں نے بھی کیے ہوں گے لیکن اپنے حوالے سے تین دستاویزات کا ذکر کیا ہے، ایک اجتماع جو پشاور میں ہوا تھا جس میں 25 ہزار علماء کرام شریک ہوئے تھے اور وہ تحریری ایک اعلامیہ ہے جس میں اس قسم کی تمام کاروائیوں (خودکشی) سے علمائے کرام نے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا، پھر اس کے بعد یہی قرارداد ہم کوئٹہ لے گئے، 10 ہزار علماء کرام نے وہاں پر شرکت کی، اس طرح پھر سندھ اور بلوچستان میں بھی کنونشنز کئیں اس حوالے سے، پھر تمام مکاتب فکر پر مشتمل ایک اجتماع لاہور میں ہوا، اس کا اعلامیہ بھی میں نے خود لکھا تھا اور ایک حرف کی بھی اس میں کسی نے تبدیلی گوارا نہیں کی، اس کو قبول کیا اضافہ ہوا کیونکہ گفتگو جب ہوتی ہے تو کچھ نکات بڑھ جاتے ہیں، یہ دوسری دستاویز تھی ہماری، تیسری دستاویز جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی سطح پر علماء کرام نے کیا، جس میں مولانا سمیع الحق صاحب بھی شریک تھے، مولانا مفتی اعظم مفتی محمد رفیع صاحب وہ شریک تھے، مولانا تقی عثمانی صاحب شریک تھے، مولانا عبد الرزاق اسکندر صاحب شریک تھے، مولانا خان محمد صاحب شریک تھے، ان تمام علماء کرام کی موجودگی میں پورے ملک کے طول وعرض میں، کراچی ہو، تربت ہو، گلگت ہو، چترال ہو، پورے ملک سے علماء کرام آئے تھے اور متفقہ طور پر کہا کہ ہمارے مقاصد پاک اور دینی مقاصد ہیں لیکن ان مقاصد کے لیے اسلحے کا استعمال یہ غیر شرعی ہے، اس پر تمام نے اتفاق رائے کیا تھا، یہ تینوں دستاویز میں نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کا حصہ بنا کر سپیکر کو پیش کیے تھے ڈائیس پہ جا کے، تو یہ چیز میں چونکہ پہلے تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہم نے 22 سال گزارے ہیں، نائن الیون کے بعد جس طرح کا پالیسی یہاں ملک میں بنائی گئی اور جس طرح نوجوانوں میں اشتعال آیا اور مذہبی طبقے میں جو اشتعال آیا، اس کو ہم نے کس حکمت سے کنٹرول کیا اور آج کس طرح ملک کے اندر دینی مدارس کام کر رہے ہیں اور صحیح طور پہ کام کر رہے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ملک کے اندر، تو اس پر ہماری ایک تاریخ ہے اور یہ خودکش پاکستان میں خودکش کیا! نفس بندوق اٹھانا مقاصد کے لیے یہ بھی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے، ہمیں آئین اور قانون کے اندر چلنا چاہیے۔
صحافی کو جواب: حضرت سب لوگوں کو اس مرحلے سے گزرنا پڑا ہے، آپ جانتے ہیں کہ میرے اوپر تین حملے ہوئے، میرے گھر پر تین راکٹ آئے، میرے بیٹے کے اوپر حملہ ہوا، آپ جانتے ہیں ہمارے مولانا حسن جان صاحب ہمارے پارلیمنٹیرین تھے وہ شہید کر دیے گئے، مولانا معراج الدین ہمارے پارلیمنٹیرین تھے ان کو شہید کیا گیا، مولانا نور محمد صاحب وانہ کے وہ ہمارے پارلیمنٹیرین تھے ان کو شہید کیا گیا، مفتی نظام الدین شامزئی سے لے کر ہمارے مولانا محسن شاہ صاحب تک یہ تمام علماء کرام کی ایک لمبی فہرست ہے جو اس دہشت گردی کا نشانہ ہوئے ہیں، تو ایسا نہیں ہے ہم پہلے بھی اس دریا سے گزرے ہیں اور آج دوبارہ جب یہ لہر سامنے آئی ہے تو ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے، ہم نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا، ہم اپنے موقف پر پوری طرح قائم ہیں، مولانا سمیع الحق صاحب اسی محاذ میں شہید ہوئے، تو یہ ساری چیزیں ہمارے اوپر گزری ہیں اور تلخ زندگی ہم نے گزاری ہے لیکن تحمل کے ساتھ، برداشت کے ساتھ، آئین اور قانون سے وابستہ ہو کر اور اب بھی میں تمام کارکنوں کو پورے ملک میں یہی کہوں گا کہ صبر اور  تحمل اور برداشت کا دامن نہ چھوڑے۔

صحافی کو جواب: دیکھیے ہمارے جو سرحدات ہیں تاریخی طور پر وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں، شریک قومیں ہیں، آدھی برادری ادھر ہے آدھی برادری ادھر ہے، مسجد ادھر ہے تو محراب ادھر ہے، کہیں حد تک ہم تو اس قسم کے صورتحال میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی وہاں کا آدمی ادھر نہیں ہوگا یا ادھر کا آدمی وہاں نہیں ہوگا، تو اس حوالے سے ہمیں ایک مشترکہ اقدامات کے لیے حکمت عملی بنانی ہوگی اور ہمیں اپنے تعلقات مضبوط رکھنے ہوں گے، کیونکہ افغانستان کا استحکام یہ پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کا استحکام یہ افغانستان کی ضرورت ہے۔

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments