وفاقی وزیر مواصلات و پارلیمانی لیڈر مفتی اسعد محمود صاحب کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے ولولہ انگیز خطاب تحریری صورت میں 8 اگست 2023

وفاقی وزیر مواصلات و پارلیمانی لیڈر مفتی اسعد محمود صاحب کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے ولولہ انگیز خطاب

8 اگست 2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شکریہ جناب اسپیکر! آج ہمارے یہاں پارلیمنٹیرینز نے کچھ ایسے مسائل پر اپنی رائے دی ہے کہ جہاں پر ریاستوں کا معاملہ ہے، ریاستوں کے درمیان تعلقات کا معاملہ ہے، ریاستوں کے درمیان معاملات کا تعلق ہے اور مجھے گزشتہ 2018 کے بعد، میں سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کا شکر گزار ہوں، میں اپنی جماعت کا کہ انہوں نے مجھ پر یہ اعتماد کیا، پانچ سال ہم نے یہاں پر گزارے، مختلف کیفیات کے اندر، مختلف اوقات میں، مختلف انداز سے، ہم نے کوشش کی کہ ہم اپنی خدمات اس قوم کے دیے ہوئے امانت کے طور پر اس ایوان کے سامنے اور آپ کے چئیر کے سامنے پیش کریں، قطعاً ہم نے اس بخل سے کام نہیں لیا کہ اگر ایک اچھی بات بھی اس فلور آف دی ہاؤس پر آئی ہو تو ہم نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہو، یہ ایک جہد مسلسل ہے جناب اسپیکر، ہم نے ملک حاصل کیا، ہماری بدبختی کہ ہم 25 سال تک اس ملک کو آئین نہیں دے سکے، ہم نے سن 73 کے اندر متفقہ آئین دیا، اس آئین کے جو سپیرٹ تھیں، اس آئین کے جو گولز تھے، ہم نے اس کے بعد اپنے اس آئین میں دیے ہوئے حقوق، جو اس ریاست کے اندر بسنے والے لوگوں کے تھے، اس میں کتنی اچیومنٹ کی ہے؟ کتنا ڈلیور کیا ہے؟ حکومتوں میں کتنا ڈلیور کیا ہے؟ پولیٹیشنز نے کتنا ڈلیور کیا ہے اور اس کے تحت بڑھنے والے اداروں نے کتنا ڈلیور کیا ہے، اس پر ہم اس دن بحث نہیں کرنا چاہتے، لیکن سب کے سامنے اس کا آئینہ موجود ہے، وہ اپنے آئینے کے اندر اپنی کارکردگی کو بھی دیکھ سکتے ہیں، اپنے اس کارکردگی کی بنیاد پر نتائج کو بھی دیکھ سکتے ہیں، ہم سیاسی حوالے سے ایک قدیم جماعت ہے جو برصغیر کے اندر شہریوں کی اور پھر پاکستان بن جانے کے بعد اس ریاست میں بسنے والی قوم کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہے، ان کا اسلامی نظریہ، ان کی اسلامی تہذیب، ان کی مشرقی تہذیب اور آئین میں جو ان کے حقوق ہیں اس کے لیے، اس سفر میں آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ متعدد پارلیمنٹیرینز جو اس پارلیمنٹ کے رکن رہے، ہماری جماعت سے حاجی منیر اورکزئی صاحب انہوں نے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا، مسلم لیگ کے ممبران، ایم کیو ایم کے ممبران، جمیعت علماء اسلام کے اس وفاقی کیبنٹ کے وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور صاحب، پیپلز پارٹی کے ایم این ایز جو اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور ان کی خدمات کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، موجودہ ممبران جو خواتین و حضرات موجود ہیں ان کی خدمات کو بھی اللہ قبول فرمائے، ہماری خدمات کو بھی اللہ قبول فرمائے، ہمیں یقینًا بہت احتیاط کے ساتھ یہاں پر بات بھی کرنی چاہیے، میرے دل و دماغ میں یقیناً بہت ساری چیزیں ہیں لیکن میں صرف آج کی بات پر جو یہاں پر پارلیمنٹیرین نے آپ کے سامنے رکھی اور انہوں نے بنا سوچے بنا سمجھے ایک ایسا جملہ کسا جس پر میں شدید احتجاج کرتا ہوں جناب اسپیکر اور ان کی اس بات کو مسترد کرتا ہوں کہ جو انہوں نے کہی اور ہمارا یا کسی بھی پاکستانی کا یا کسی بھی ممبر کا کوئی بھی موقف ہو سکتا ہے، ہم ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے کر سکتے ہیں لیکن کبھی بھی ریاست کو نشانے پر رکھنا اور کسی اور کے عزائم کی تکمیل کے لیے خود کو پیش کرنا، میں ایسی سیاست کو مسترد کرتا ہوں جو میری ریاست کو بھی نشانہ بنائے، میرے ریاستی اداروں کو بھی نشانہ بنائیں، ہمیں گلے ہیں، ہم گلہ کریں گے، ہمیں اختلاف ہے ہم اختلاف کریں گے لیکن مجہول ایک بات کی گئی اور یہ بات کی گئی کہ افغانستان میں امارت اسلامی کا پرچم لہرانے کے بعد اور اشرف غنی جو امریکہ کا پٹھو حکمران تھا اس کے جانے پر جو یہاں افسوس کا اظہار کیا گیا اور امارت اسلامی کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کے آجانے کے بعد پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں اس پر جشن منانے والوں پر بھی کہ جو امارت اسلامی کے آنے کے بعد جشن منا رہے تھے ان کے ہاتھ بھی خون سے رنگے ہیں، آپ مجھے بتائیں کہ جب امارت اسلامی افغانستان میں برسر اقتدار نہیں آئی تھی، جب وہ فاتح نہیں تھے، اس سے پہلے کہ جو واقعات ہیں، اس کا خون پھر ہم کس کے ہاتھ پر تلاش کرے؟ اس اس کا خون ہم کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟ جناب اسپیکر پاکستان پیپلز پارٹی جمہوری قوت، مسلم لیگ جمہوری قوت، جمیعت علماء اسلام جمہوری قوت، یہاں پر بیٹھے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں وہ آئین کے تحت اپنا کردار ادا کر رہی ہے، وہ اپنا موقف رکھ سکتی ہے ہمسایہ ممالک کے بارے میں بھی اور بین الاقوامی ممالک کے بارے میں بھی لیکن اس طرح کی گفتگو کرنا کہ آپ اپنے ملک کے اندر ایسی گفتگو کریں اور یہ باتیں ہم جناب اسپیکر پانچ سال سے سن رہے ہیں، یہ پانچ سال سے ہم سن رہے ہیں، لیکن آپ بھی گواہ ہیں اراکین اسمبلی بھی گواہ ہے کہ ہم نے کبھی لب کشائی اس حوالے سے نہیں کی کیونکہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو انتہائی سنجیدہ سمجھتے ہیں، سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے ہیں، ہم اگر اپنی رائے دیتے ہیں تو امانتاً دیتے ہیں، ہم نے اس پر اپنی قوم کو متحد کرنا ہے کہ اپنے ملک کے اندر امن کو کیسے قائم کرنا ہے، ہم نے اپنی قوم کو متوجہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنی قوم کو متحد کر کے ہمارے معاشی اقدامات کے ہم نے وہ گولز کیسے اچیو کرنی ہے، یہاں پر صبح و شام آکر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں دہشت گرد ہے، فلاں یہ ہے، فلاں وہ ہے، بنا سوچے آپ ریاست کی طرف اپنی قوم کو ان قوم کے اندر تقسیم لانا چاہتے ہیں، آپ اپنے اداروں کو نشانہ بناتے ہیں، آپ اپنے عوام کے اندر اپنے اداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں، اس قسم کے الفاظ کی اجازت ہم نہیں دیں گے اور ہم آئینہ بھی دکھائیں گے، جب 70 ہزار شہداء یہاں پر، ہم آج 80 ہزار شہداء کی بات کرتے ہیں جناب اسپیکر اور میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں اور میری اس بات کو تمام پارلیمنٹیرینز غور سے سنیں کہ ہم ایک موقف رکھتے ہیں، ہم نے افغانستان کے حوالے سے، ہماری قومی جرگہ کل پشاور کے اندر ہوا، قومی جرگے کا مطالبہ، یہ قبائل کا قومی جرگہ جمعیت علماء اسلام کا قومی جرگہ نہیں جناب اسپیکر، انہوں نے متفقہ طور پر آرمی چیف کی موجودگی میں اس بات کی تجویز دی کہ پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر ان تمام صورتحال کے لیے ایک مشترکہ پالیسی اپنانی ہوگی کیونکہ اس قسم کے واقعات کا شکار افغانستان بھی ہے اور پاکستان بھی ہے، ہم صلح کی بات کرتے ہیں، ہم اس قسم کے معاملات میں بے جام مداخلت اور آپ کو یاد ہوگا جناب اسپیکر جب ہم اپریشنز کی مخالفت کر رہے تھے یہاں پر، یہاں پر جب ہم اپریشنز کی مخالفت کر رہے تھے قبائل کے اندر، تو یہ وہی لوگ جو آج کسی اور کے ہاتھوں پر مسلمانوں کا خون تلاش کر رہے ہیں، یہی اچھل اچھل کر کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں فوج اپریشن قبائل میں کیوں نہیں کر رہی؟ اس لیے کہ جمیعت علماء اسلام اس کی مخالفت کر رہی ہے یا اس لیے کہ جماعت اسلامی اس کی مخالفت کر رہی ہے، ایک طرف تو آپ فوج کے اپریشنز کو دعوت دے رہے تھے اور آپ ان کو اس لحاظ سے دعوت دے رہے تھے کہ قبائل مذہب کی وجہ سے، یا مذہبی لوگوں کی وجہ سے اس خلفشار کا شکار ہیں اور پھر جب فوج نے وہاں پر اپریشن کی ہے اور تمہاری خواہش کے مطابق کیے تو تم نے اپنے پشتون حقوق کے حوالے سے تنظیم بنائی، پورے ملک کے اندر گالیاں دی، اسی فوج کو جس فوج کو تم قبائل کے اندر اپریشن کی دعوت دے رہے تھے، یہ دو رنگی ہمیں قبول نہیں ہم نے اگر اختلاف کیا ہے تو دلائل کی بنیاد پر کیا ہے اور ہم نے اگر حمایت کی ہے تو دلائل کی بنیاد پر کی ہے، یہ سطحی سیاست اور اس کی آڑ میں آپ کس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، جب کبھی وہاں امریکہ کا پٹھو حکمران افغانستان کے اندر حکومت کرتا ہے تو آپ ان کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور جب وہاں پر امارت اسلامی کی حکومت آتی ہے تو آپ یہاں پر لوگوں کے ہاتھوں پر خون تلاش کرتے ہیں۔ دلائل کی بنیاد پر بات ہونی چاہیے جناب اسپیکر، اس طرح کسی کو کسی کو قاتل کہنا اور کسی کو دہشت گرد کہنا۔ اگر اقوام متحدہ دہشت گردی کی تعریف آج تک نہیں کر سکی تو پھر ہمیں بھی اس بات پر سوالات ضرور اٹھانے چاہیے کہ آپ کس چیز کو جہاد کہتے ہیں اور کس چیز کو دہشت گردی کہتے ہیں؟ یہ جو کچھ افغانستان کے اندر ہو رہا ہے، اگر ہم نے امارت اسلامی کی اس جدوجہد کو امریکہ کے خلاف آزادی کی جنگ قرار دیا تھا، جہاد قرار دیا تھا تو ہم نے کشمیر کے اندر بھی کشمیریوں کی آزادی کی اس تحریک کو جنگ آزادی سے تعبیر کیا تھا، وہاں پر شہید ہونے والے مجاہدین کو تعبیر کیا تھا اور آج اپ خلط ملط کر رہے ہیں، اس بات کو خلط ملط نہیں کرنے دیا جائے گا، جو لوگ دہشت گرد ہیں ببانگ دہل کہیں گے کہ وہ دہشت گرد ہیں اور جو جہاد ہے ببانگ دہل کہیں گے کہ یہ مجاہدین ہیں، ہمارے منہ میں امریکہ کی زبان نہیں کہ امریکہ ہماری ڈگڈگی ہلائے گا تو یہاں ہم اچھل اچھل کر کہیں گے کہ ہاں یہ مجاہدین ہیں اور یہ دہشت گرد ہے، ہماری رائے رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، ہم پاکستان کے اندر امن چاہتے ہیں جناب اسپیکر، ہم پاکستان کے اندر معاشی استحکام چاہتے ہیں، سیاسی استحکام چاہتے ہیں اور جو باتیں یہاں پر کی جا رہی ہیں، کیا ہماری قیادت ائین بنانے والوں میں سے نہیں تھی؟ کیا ہم جمہوریت پسند نہیں ہے؟ کیا ہم نے جمہوریت کا علم نہیں بلند کیا؟ آج بھی اگر ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ جمہوریت کفر ہے اور یہ لوگ مرتد ہیں، اس لیے کیونکہ یہ جمہوریت کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ ہماری قیادت کو نشانہ بنایا گیا، شہید کیا گیا، درجنوں پارلیمنٹیرینز، سینکڑوں کارکن، آپ کے ان پانچ سالوں کے اندر بھی ہم نے اپنے کارکنوں کے جنازے اٹھائے، صرف اس بنیاد پر کہ ہم آپ کے ساتھ اس جمہوریت میں اپنے آپ کو شریک کرتے ہیں، آپ کے ساتھ اس آئین پر حلف اٹھانے کو ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، ہمارے فرائض میں آتا ہے، آسانی کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہے کہ افغانستان کے اندر کہ افغانستان کے اندر امارت اسلامی کو سپورٹ کرنے والوں کے ہاتھوں پر ان کا خون تلاش کیا جائے، یہ بات تو میں بھی کر سکتا ہوں کہ کس کے ہاتھ پر کس کا خون تلاش کیا جائے، ہم امارت اسلامیہ افغانستان کو ان کے مطالبے کو ان کے اپنے ریاست کے حوالے سے جائز سمجھتے تھے، جس طرح کشمیریوں کو اور ان کی جدوجہد آزادی کو جائز سمجھتے ہیں، ہم دلیل کی بنیاد پر کر رہے ہیں، تمام چیزیں ایسا نہ کریں، ایسا نہ کریں کہ آپ حضرات اس قسم کی باتیں کریں اور لوگوں کی گمراہ کرنے کی کوشش کریں اور ہم نے امریکی ایجنٹ عمران خان کا تختہ بھی الٹا ہے اور ہم نے اللہ کے فضل سے اس کو بھی پاکستان کی سیاست سے باہر کیا ہے، اس طرح کے بلبلے بھی ان شاءاللہ جمیعت علماء اسلام، پاکستان کے آئین ،پاکستان کی جمہوریت، پاکستان کے اداروں کا، پاکستان کے اداروں میں اپنی خدمات دینے والے لوگوں کا، راستہ اور ان کا مورال ان شاءاللہ نہیں توڑ سکتی۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جناب اسپیکر، مجھے آئندہ شاید موقع ملے یا نہ ملے لیکن میں اس پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اپنے اکابرین کا جنہوں نے ہماری زندگی جتنی یہاں پر زندگی گزاری ہے پارلیمنٹیرینز بن کر، میں نے آپ تمام حضرات سے گزشتہ پانچ سال میں بہت کچھ سیکھا ہے، بہت کچھ آپ حضرات سے ہم نے حاصل کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو گزشتہ پانچ سال میں جدوجہد کی ہے، جو قربانیاں ہمارے کارکنوں نے دی ہیں، جو قربانیاں ہمارے تنظیموں نے دی ہیں، جو قربانیاں پاکستان کے شہری ہونے دی ہیں، یقیناً ہم اس پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، آج ہم الحمدللہ اس بنیاد پر یہ بات کر سکتے ہیں کہ ہمارے اس اتحاد نے اس اتفاق نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا صرف بلکہ وہ ایگریمنٹس جو گزشتہ دور حکومت میں، تحریک انصاف نے کیے اور پھر خراب کیے، ان ایگریمنٹس کو پاکستان کے لیے دوبارہ بحال کیا، مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مجھے اس حکومت میں اور اس کابینہ میں جو خدمات حاصل امانتاً دی گئی تھی، میں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ میری وزارت کے اندر پانچ ہزار ملازمتیں ایک سال کے اندر اس قوم کو دی گئی اور الحمدللہ ہم نے اس پہ کارکردگی دکھائی، ہم نے 51 نئے منصوبے جناب اسپیکر اس قوم کو اس سال گراؤنڈ بریکنگ کی اور کل تک بھی وزیراعظم ان کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں، ہم نے یہاں پر پارلیمنٹ کی اس قوت کو استعمال کیا، سن 94 سے جناب اسپیکر آپ کی توجہ چاہتا ہوں آپ کے دور حکومت میں، مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں، دیگر جماعتوں کے دور حکومت میں جو مشکلات ہمارے ڈویژن کمیونیکیشن میں ملازمین کو حاصل تھی، لاحق تھی، ان کا سدباب کیا اور 2200 لوگوں کو جناب اسپیکر ہم نے ریگولر کیا اور نیشنل ہائی وے کونسل کے ممبران کا اور ان کے ذمہ داران کا کہ جنہوں نے اپنے اتھارٹی کو استعمال کیا اور ان کو ریگولرائز کیا۔
میں آپ تمام حضرات کا لیکن ایک ضروری نوعیت کی بات ہے، یہاں پر لاء منسٹر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، قانون سازی آرہی ہے جناب اسپیکر، دھڑا دھڑ قانون سازی آرہی ہے، میں نے آپ کے ساتھ آپ کے دفتر میں بھی یہ بات کی کہ جو قانون سازیاں ہو رہی ہیں اور جس عجلت میں ہو رہی ہے، اسی پر ہمیں پچھلے 2018 کے بعد پچھلی حکومت میں بھی جب قانون سازیاں ہو رہی تھی اور کلب کر کے 40، 40 قانون سازیاں پاس کی جاتی تھی، ہم نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا، آج قانون سازیاں ہو رہی ہے، ہمیں باہر سے پتہ چلتا ہے کہ کیا قانون سازی ہو رہی ہے، کس قسم کے قانون سازی پاس ہو رہی ہے، میں جناب اسپیکر آپ کی توجہ چاہتا ہوں اور میں اس میں بالکل مجھے حیرت نہیں ہے کہ کہ اس قانون سازی کے اڑ میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک چیز آجائے کہ راجہ پرویز اشرف صاحب اس پانچویں گھنٹے کے بعد چھٹے گھنٹے میں اس کرسی پر نہیں بیٹھیں گے اور آپ خود پاس کر رہے ہوں گے اس چیز کو، تو اس قسم کی قانون سازیاں نہ کریں، اس کو روک دے، اگر ضروری ہے تو آنے والی حکومت اور آنے والی اسمبلی پر اس کو چھوڑ دے، عجلت کا کام شیطان کا ہوتا ہے جناب اسپیکر، صبر کا کام اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، ضروری چیز ہے، آپ نے کمیٹی بنائی کہ جو قانون سازی ہونی ہے، تمام پارٹیوں کی نمائندے اس کمیٹی میں بیٹھے، کیوں جمعیت علماء اسلام کے رکن کو آپ نے ان قانون سازیوں کا نہیں بتایا جو آپ کے روسٹرم میں اور جو یہاں پر آرہی ہیں اور پاس ہو رہی ہیں اور ایک قانون سازی ہے، ایک قانون سازی جو گزشتہ 14 ماہ کے اندر ہم نے اس پر وزارت تعلیم کے ساتھ میٹنگز کئیں، تین مرتبہ اس پر اتفاق رائے پیدا ہوا، آج بھی متفقہ طور پر اتفاق رائے پیدا ہوا، آپ کے ابھی سپلیمنٹری میں وہ قانون سازی موجود ہے لیکن اس کو لے نہیں کیا جا رہا، اگر آج آپ اس قانون سازی کو لے نہیں کریں گے، کل ہمارا آخری دن ہے یہ سینٹ میں بھی جانا ہے، اگر اس پر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو کل سینٹ میں بھی آپ کے پاس گنجائش ہے لیکن اگر آج آپ اس کو لے نہیں کرتے، تو 60 لاکھ طلباء کرام اور طالبات مدارس کے اندر پڑھتے ہیں وہ آپ کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا چاہتے ہیں، آپ کے ساتھ رجسٹر ہونا چاہتے ہیں، آپ کے دیے ہوئے قانون کے تحت رجسٹر ہونا چاہتے ہیں، آپ تو ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھی نہیں سمجھ رہے، یہاں پر جانوروں کے لیے قانون ہے یہاں پر قال اللہ اور قال رسول کو پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے قانون نہیں ہے، وہ بغیر قانون کے اپنی خدمات دے رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہم جس قانون کے تحت آپ دیگر اداروں کو رجسٹر کر رہے ہیں، آپ ہمیں اسی قانون کے تحت رجسٹریشن دے لیکن آپ لوگ نہیں کر رہے، میرا مطالبہ ہے جناب اسپیکر، مدارس کا مطالبہ ہے، مذہبی جماعتوں کا مطالبہ ہے، آپ نے اتنا سستا سمجھ لیا ہے کہ قرآن پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے قانون سازی میں آپ کو دائیں بائیں دیکھنا ہوگا، جب ہم کسی صورت میں بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتے، ہم صرف پاکستان کو دیکھتے ہیں، ہم صرف اسلام کو دیکھتے ہیں، تو پھر ہم آپ سے بھی یہی توقع کرتے ہیں، ہم یہاں پر بیٹھے ہوئے پارلیمنٹیرین سے بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ خدارا 75 سال آپ نے دائیں بائیں دیکھا اور اس کی صورتحال میں آج پاکستان اس صورتحال تک پہنچا پہنچا ہے جس میں ہم کھڑے ہیں، خدارا اپنی قوم کی طرف دیکھے، اسلام آپ کو کیا کہتا ہے، پاکستان کس بنیاد پر بنا تھا، اس طرف دیکھیں اور قانون سازی کریں اور میری درخواست ہے جناب سپیکر کہ ہمارے سپلیمنٹری بل کو لے کیا جائے اور اس کو کل سینٹ میں اگر کوئی کچھ ترمیم کی ضرورت ہو تو کل آجائے گا۔
واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
  
ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات 
#TeamJuiSwat



0/Post a Comment/Comments