قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز پر حامد میر کے ساتھ کیپیٹل ٹاک میں خصوصی گفتگو تحریری صورت میں 12 ستمبر 2023

 قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز پر حامد میر کے ساتھ کیپیٹل ٹاک میں خصوصی گفتگو
12 ستمبر 2023

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم کیپیٹل ٹاک میں خوش آمدید 
آج کل پاکستان کی سیاست میں بہت سے سوالات زیر بحث ہیں، سیاسی رہنما بہت سے نئے نئے ایشوز جو ہیں ان پر اظہار خیال کر رہے ہیں اور سب سے جو اہم ایشو ہے جس پہ بہت بیان بازی ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن ہوگا یا نہیں ہوگا الیکشن جب ہوگا تو کب ہوگا 90 دن میں ہوگا یا اگلے سال جنوری یا فروری میں ہوگا، تو اسی موضوع پہ ہم نے کافی سارے سیاسی رہنماؤں سے گفتگو کی ہے لیکن آج صرف اس ایک اہم ایشو پہ نہیں بلکہ کچھ اور بھی اہم ایشوز ہیں ان پہ گفتگو کریں گے ہمارے ساتھ موجود ہیں جناب مولانا فضل الرحمن صاحب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ، بہت بہت شکریہ مولانا صاحب۔

حامد میر: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب جو ہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے اور کافی للکاریں مار رہے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ میرے اتحادی جو ہیں وہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں تو جن کی طرف ان کا اشارہ ہے کیا اس میں جے یو آئی بھی شامل ہیں کیا آپ بھی الیکشن سے بھاگ رہے ہیں؟
مولانا فضل الرحمٰن: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، حامد میر صاحب آپ کا بھی بہت شکریہ، لمبے عرصے کے بعد ہم بیٹھ رہے ہیں اور کچھ موضوعات پر بحث کرنے کے لیے، آپ نے جو موضوع چھیڑا ہے اس حوالے سے کہ ہر پارٹی کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کچھ اور کہنا چاہتے ہیں اور صحافتی دنیا میں چونکہ ایک خاص طور پر ان کی ایک تربیت ہے کہ وہ اس کی زاویے کو ذرا ٹیڑھا کر دیتی ہے جسے آپ کہتے ہیں کہ ہم نے اینگلائز کر دیا ہے، تو اس وجہ سے کچھ غیر ضروری بیان بازی جس کو میں نے اہمیت نہیں دی کیونکہ میں گفتگو کر رہا ہوں ایک ہسٹری کے حوالے سے اور پی ڈی ایم کے قیام یا اس سے پہلے کی جو نقطہ نظر تھا اس حوالے سے کی ہے، معروضی حوالے سے میں نے بات نہیں کی ہے، جس کو اب میں ہوا دوں اور بحث مباحثہ یہاں شروع کروں۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے 2018 کا الیکشن تسلیم نہیں کیا اور 25 جولائی کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر ہم نے آل پارٹیز کانفرنس کی اور اس پر ایک متفقہ موقف طے کر لیا کہ ہم اس انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور جب انتخابی نتائج کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ فوری طور پر دوبارہ الیکشن کا مطالبہ تھا ہمارا جی، اب اس دوبارہ الیکشن کے مطالبات کی طرف قوم کو متوجہ کرنے کے لیے کچھ اقدامات کی ضرورت تھی چنانچہ ہم نے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ ہم حلف برداری کی تقریب میں نہ جائیں اگر مؤخر بھی ہو جاتا ہے تو پبلک متوجہ ہو جائے گی کہ آدھی اسمبلی کیوں نہیں تھی اور انہوں نے کیوں حلف نہیں اٹھایا؟ ان کا خیال تھا کہ ہم تو صوبوں میں حکومتیں بنا رہے ہیں، مسلم لیگ پنجاب میں بنا رہی ہے اور پارٹی سندھ میں بنا رہی ہے، تو اس عذر کی بنیاد پر انہوں نے کہا جی کہ اب ہمیں تو حلف اٹھانے کی طرف جانا ناگزیر ہو گیا ہے، ہم یہ بھی کر سکتے تھے کہ قومی اسمبلی کو اور صوبوں کو ذرا الگ کر لیتے لیکن بہرحال ہم نے ان کی اس عذر کو تسلیم کر لیا جس میں یہ ہوا کہ ہمارا جو موقف تھا وہ ذرا وہ پذیرائی اور قبولیت جو فوری طور پر چاہئیے ہوتی تھی وہ فوری طور پر نہ مل سکی اور ہمیں ایک لمبی تحریک کی طرف پھر جانا پڑ گیا، تو ہم نے تو ساڑھے تین سال صرف اس بات پہ گزارے کہ الیکشن کراؤ، الیکشن کراؤ، لیکن کس طرح کرائے جی، ہمارا خیال تھا کہ قومی اسمبلی سے اگر ہم سب استعفے دے دیتے ہیں تو آدھا ایوان خالی ہو جاتا ہے اگر ہم پنجاب سے استعفے دے دیتے ہیں تو آدھا ایوان خالی ہو جاتا ہے، اگر ہم سندھ کی اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو ایوان ختم ہو جاتا ہے، اس طرح بلوچستان اور کے پی میں اتنی تعداد ہماری ضرور تھی کہ ہم دوبارہ الیکشن پر ان کو مجبور کر سکتے تھے، لیکن غالباً اس وقت اسٹبلشمنٹ بھی نہیں چاہتی تھی کہ فوری طور پر الیکشن ہوں اور ہمیں اس بات پر تھوڑا سا گلا تھا کہ جب پی ڈی ایم بن رہا تھا تو استعفوں کو آپشن ہی اعلامیے سے نکال دیا گیا تھا جس کو ہم نے زبردستی پھر لڑ کر اس میں دوبارہ ڈلوانا پڑا لیکن اندازہ تو لگ گیا، سوچ میں فرق تو آگیا، اس کے بعد کے حالات اور تھے اب ظاہر ہے جی کہ جب آپ عدم اعتماد کی طرف جائینگے تو عدم اعتماد میں آپ کے ساتھ ایم کیوں ایم بھی آئی گی، عدم اعتماد میں آپ کے ساتھ باپ پارٹی بھی آئے گی، بیس سے تیس پی ٹی ائی کے لوگ بھی وہاں سے ٹوٹ کے آئیں گے، تو ایک دن کے لئے تو وہ آپ کے ساتھ نہیں آتے نا جی کہ آپ آئے فوراً اسمبلی توڑ دیں اور تو یہ جو سلسلہ چلا جس پر ہم نے پھر حکومت کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری لی اور سب نے طے کیا کہ ٹھیک ہے، تو یہ کوئی صرف جے یو آئی کی پھر تو سیاست نہیں ہوئی سب کے مشترکہ متفقہ سیاست تھی، تو اس میں کوئی زیادہ بیان بازی کی ہمیں ضرورت نہیں تھی کہ بڑی واضح ہسٹری ہے ان کی بھی سوچ واضح تھی ہماری بھی سوچ واضح ہے، اب اس کو یہ کہہ دینا کہ آپ الیکشن اور نوے دن کی بات کر رہے ہیں ہم بالکل کل الیکشن کرا دیں ہم کل بھی تیار ہیں لیکن سوال بنیادی یہ ہے کہ کیا الیکشن کرانے کے لیے ہم سپریم کورٹ کو اجازت دے دیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ ہمیشہ شیڈول دے گا، کیا ہم الیکشن شیڈول کے لیے صدر مملکت کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ ہمیں شیڈول دے گا یا اس کے لیے الیکشن کمیشن بذات خود ایک ادارہ ہے، اس کے بعد اس گورنمنٹ نے جس میں پیپلز پارٹی جو ہے دوسری بڑی قوت تھی ہم تو بہت پیچھے تھے وہ تو دوسری بڑی قوت تھی انہوں نے نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کر لیا اب نئے مرد شماری کی بنیاد پر جب آپ آئین میں ترمیم بھی نہیں کر سکتے، آپ الیکشن کے پارلیمنٹ کے نشستوں میں اضافہ اور کبھی بیشی بھی نہیں کر سکتے اور اسی تعداد کے اندر آپ نے از سر نو حلقہ بندیاں کرنی ہے تو ظاہر ہے کہ آبادی کا تناسب اور ہو گیا، کہیں پر سیٹ کاٹنی پڑتی ہے کہیں پہ بڑھانی پڑتی ہے کہاں پر، تو یہ سارے معاملات الیکشن کمیشن کو تفویض شدہ ہیں آئین کے طور پر اور وہ اب فیصلہ کریں کہ وہ کب الیکشن کرانا چاہتے ہیں ۔

حامد میر: لیکن اگر صدر عارف علوی صاحب کل پرسوں تک الیکشن کی ڈیٹ دے دیتے ہیں تو کیا یہ آپ کے لیے قبول ہوگا ؟
مولانا فضل الرحمٰن: غیر آئینی ہوگا اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا وہ صدر مملکت ہے وہ الیکشن کمیشن کا ذمہ دار نہیں ہے۔

حامد میر: وہ ان کا یہ کہنا ہے جی کہ ٹھیک ہے الیکشن ایکٹ 2017 میں پچھلی پارلیمنٹ نے ایک ترمیم کر کے الیکشن کی ڈیٹ دینے کا اختیار جو ہے وہ الیکشن کمیشن کو دے دیا ہے لیکن آرٹیکل 48 کی جو سب کلاس 5 ہے اس کے تحت یہ اختیار ابھی تک میرے پاس ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: بدنیتی کی بنیاد پر ہوگا ایک قانون ہوتا ہے اس کا استعمال ہوتا ہے، اس طریقے سے تو عمران خان کی پارٹی کا ایک مطالبہ ہے تو عمران خان کی پارٹی کا بندہ ہے وہ جی تو اس نے وہی فیصلہ کرنا ہے جو اس کے پارٹی چاہتی ہے جی تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایک پارٹی کی سیاست میں یرغمال ہے، اس لیے کہ اس کا ایک بندہ اور اس کی بھی مدت گزر چکی ہے، اب تو ڈے ٹو ڈے معاملات میں نظر رکھیں نا، اب تو پالیسی میٹر نہ چھیڑو نا، تو لہٰذا ابھی اگر اس نے کچھ وقت کے لیے بیٹھے رہنا ہے تو پھر اپنے قد قامت کو سمجھ کر اپنے اوقات میں رہ کر گزارا کریں نا جی یہ کیا مطلب کہ انہوں نے ایک پارٹی کی فلسفے کو پوری قوم پر مسلط کرنا ہے اور ہم پر مسلط کرنا ہے جی یہ تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔

حامد میر: اچھا مولانا صاحب اب الیکشن جب بھی ہوتا ہے 2023 میں ہوتا ہے 2024 میں ہوتا ہے جب بھی ہوتا ہے تو جب آپ کمپین میں جائیں گے اور لوگوں سے ووٹ مانگیں گے تو جو لوگ ہیں ان کے سامنے پی ٹی آئی کی حکومت کے 44 ماہ ہوں گے اور پی ڈی ایم کی حکومت کے 16 ماہ ہوں گے آپ مانے یا نہ مانے تو آپ بھی سمجھتے ہیں کہ لوگ کمپیریزن کریں گے تو پی ڈی ایم کی جو 16 ماہ کی حکومت ہے اس میں ایسا کون سا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے آپ لوگوں سے کہیں گے کہ آؤ ہمیں ووٹ دو ہم نے یہ کارنامہ کیا ہے ہم دوبارہ بھی اس طرح کے کارنامے کریں گے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: دیکھیے آپ تقابل ضرور کریں لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ساری نہیں لیکن مسلم لیگ یا میاں نواز شریف صاحب کی قیادت میں ایک حکومت 2017/18 تک بھی رہی تھی 2017/18 تک بھی جو انہی جماعتوں کی کارکردگی تھی نا جی کہ جس میں آپ کو جی ڈی پی گروتھ دیا 6 فیصد کا جی، سالانہ مجموعی ترقی کا انہوں نے جو ہدف دیا اپ کو 6 فیصد کا دیا جی اور پی ٹی آئی کی حکومت نے زیرو کا دیا جی، یعنی یہ ذرا تقابل بھی آپ دیکھیں زیرو پہ لے آیا جی، پاکستان دنیا کے ممالک کی جو معیشت ہے اس میں 24 ویں نمبر پہ آیا، آج پی ٹی آئی کی حکومت میں 47 ویں نمبر پر چلا گیا، ہم ملک کو لے گئے تھے دنیا کے 24 ویں معیشت پر، پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں اس کو وہاں لا کھڑا کیا ہے جب دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا پاکستان، اور جب اداروں نے بھی اس کا اعتراف کر لیا کہ ملک دیوالیہ ہونے پہ جا رہا ہے تب ان کی سوچ بدلی کہ یہ نالائق اور نااہل اور یہ کس طرح سنبھالیں گے جی، چنانچہ ان 13 ، 14 مہینوں میں یا ایک سال کے اندر ہم نے ملک کو دیوالیہ پن سے تو نکال لیا نا جی، ہم نے قرضوں کا جو بوجھ ہے وہ تو کم کیا نا جی، ہم نے قرضے ادا کیے جی اور بہت سے ممالک کے قرضے ہم نے ادا کئیں، کچھ چھ ارب سے زیادہ قرضے ہم نے ادا کیے تھے، اب قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی ہم نے کم کیا ان دنوں میں، افراط زر کو بھی ہم نے کنٹرول کیا اس کے علاوہ دیوالیہ پن سے ہم نے ملک کو نکال دیا چنانچہ اب جو آپ کی حکومت اس وقت ہے اس کو وہ ملک ملا ہے جو دیوالیہ پن سے بھی نکل چکا ہوا ہے اور جس کے پاس دو ارب ڈالر رہ گئے تھے یعنی کہیں پر ہمارے پاس 16 ، 17 ارب ڈالر جو ہے وہ بینک میں پڑے ہوئے تھے ریزرو میں اور کہیں عمران خان کی حکومت میں دو ارب پہ آگئی تھی بات جی، اب اس دو ارب سے اب دوبارہ اٹھ دس ارب یا گیارہ ارب پہ لے جانا یہ اس گیارہ مہینوں کی حکومت نے کیا اور اب اس میں حکومت کے حوالے کیا ہے ۔

حامد میر: لیکن مولانا صاحب اگر ہم اپریل 2022 میں واپس چلے جائیں جب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آپ نے پیش کی اس وقت عمران خان جو ہے اس کی حکومت سے لوگ بڑے ناراض تھے بڑی ڈس اپوائنٹمنٹ تھی بڑی مایوسی تھی پھر آپ کی تحریک عدم اعتماد آئی اور اس کے بعد آج ستمبر 2023 میں آپ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ نے جو تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا اس سے عمران خان کو فائدہ ہوا آپ کو کیا فائدہ ہوا ؟
مولانا فضل الرحمٰن: یہ کچھ ہمارے سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ہوا یعنی اس وقت جب اس کا گراف بالکل نیچے تھا اور ہم کہہ رہے تھے کہ الیکشن کی طرف جاؤ اور تحریک کی قوت سے جاؤ سیاسی عمل کی قوت سے جاؤ تو ہم پارلیمنٹ کی طرف آگئے تو پارلیمنٹ کی طرف آگئے تو پھر ہماری مجبوری ہم مختلف ہو گئی اب ہمارے الیکشن نہیں کرا سکتے تھے اب ہم نے مدت پوری کرنی تھی جب مدت پوری کرنی تھی تو میں نے واضح طور پر ان سے کہا تھا اور یہ تمام اکابرین گواہ ہیں اس بات کے کہ فضل الرحمن اجلاس میں کیا کہتا رہا ہے میں نے واضح طور پر کہا کہ ملک اس حد تک کمزور ہو چکا ہے کہ اگر آپ نے مدت پوری کرنے والی حکومت سنبھالی تو چونکہ معیشت کمزور ہو چکی ہے ریاست کی سطح پر ہمارے اندر کمزوری ہے ہم نہیں اٹھا سکیں گے ملک کو، جب نہیں اٹھا سکو گے تو پھر اس کا گراف اٹھے گا اور آپ کا گراف نیچے آئے گا اور وہیں ہو رہا ہے ۔

حامد میر: لیکن ایک جو میٹنگ تھی جس میں جنرل باجوا نے آپ کے جو ساتھی تھے بہت سے ان کو بلایا اس میں شہباز شریف صاحب بھی تھے آصف زرداری صاحب بھی تھے خالد مقبول صاحب تھے اختر مینگل صاحب تھے شاہ زین بگٹی صاحب تو بہت سے لوگ تھے تو اس ملاقات میں تو جنرل باجوہ صاحب جو ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ آپ تحریک عدم اعتماد واپس لے اور عمران خان الیکشن کا اعلان کر دے گا تو آپ سمیت سب نے ان کی یہ تجویز مسترد کر دی تھی ۔
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں عمران خان کے ساتھ سودا بازی کی بنیاد پر تو ہم کسی بھی عمل کے خلاف تھے، ہم نے کہا ٹھیک ہے اب استعفے وہ دیدیں بغیر شرط کے، عدم اعتماد جو ہے وہ خود بخود ختم ہو جائے گی اسمبلی ٹوٹ جائے گی جب اسمبلی ٹوٹ جائے گی تو ہم الیکشن کرائینگے، اس میں بیٹھنے کا اور سودا بازی کا کیا معنی، یعنی ایک شخص کے ساتھ آخر وقت تک وہ ہمیں ایک سودا بازی کی طرف لے جانے کی بات کرنے والا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھا ۔

حامد میر: لیکن اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جنرل باجوہ جو ہیں وہ عمران خان کو ہیلپ آؤٹ کر رہے تھے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: اصل میں بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ جو ہمارے آرمی چیف رہے ہیں ہمیں جہاں ان سے اختلاف رائے تھا اور ہم نے ان کی مجالس میں ان کے ساتھ بھرپور اختلاف رائے کیا وہاں بحیثیت آرمی چیف کے اور فوج کے ادارے کے سربراہ کے ہم نے پبلکلی ان کے خلاف بیان بازی سے اعتراض کیا، میں اخلاقی طور پر آج بھی مناسب نہیں سمجھتا ہے کہ اگر کل وہ آرمی چیف صاحب میں ان کے خلاف نہیں بول رہا تھا تو آج جب وہ گر گیا ہے تو اب میں اس کے خلاف باتیں شروع کر دوں، ادھر تھوڑا سا مجھے سیاسی اخلاقیات کے خلاف نظر آتا ہے جی، لیکن بہرحال اس قدر تو ضرور ہے کہ انہوں نے ادراک کیا کہ سیاسی عدم استحکام، پھر معاشی عدم استحکام، پھر فوج کے درمیان اختلاف رائے، ادارے کے درمیان جب اس حد تک ان کو ادراک ہوا تو انہوں نے بھی سوچا کہ بھئی اس آدمی کو اب نہیں ہونا چاہیے تو ہم نے اس کو ویلکم کیا باقی رہی یہ بات کہ سیاسی فیصلے جو ہیں وہ ہمیں کرنے چاہیے جی جی اور ہمیں بھرپور طور پر کرنے چاہیے تھی لیکن اندر اندر سے کیا ہوتا رہا، وہ عدم اعتماد کی طرف جو حالات کیسے چلے گئے ۔
حامد میر: اچھا ان دنوں میں آپ نے بہت سی آل پارٹیز کانفرنسز جو ہیں ان کا انعقاد کیا اور کئی اجتماعات میں بھی آپ نے بات کی آپ بار بار صدارتی طرز حکومت کی مخالفت کر رہے تھے کوئی آپ کو خطرہ نظر آرہا تھا کہ پاکستان جو ہے وہ 1973 کے آئین سے انحراف کرتے ہوئے صدارتی نظام کی طرف جا رہا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: دیکھیے بہت سی چیزیں تھیں، بنیادی بات یہ تھی کہ ملک کو نظریاتی حوالے سے اور ملک کو اقتصادی حوالے سے کس طرح تباہ کرنا ہے یہ اعتراض تھا ہمارا عمران خان کی پالیسیوں پر جو بظاہر کچھ کہتا تھا اندر سے صورتحال کچھ اور تھی مثلاً سی پیک کا معاملہ ہے اب چائنہ جو ہمارا 70 سال تک انتہائی گہرا دوست اور 70 سال کے بعد اب اس کی دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہو گئی اور اتنا بڑا ٹرسٹ کیا کہ اس نے اپنے نئی ویژن کا آغاز جو ہے وہ پاکستان کے راستے سے تجارت کے راستے سے کیا اس کو ہم نے کیوں ڈیمج کیا، اس لیے کہ امریکہ کی پالیسی پاکستان کے حوالے سے بڑی واضح تھی سی پیک کا حامی امریکہ کا دشمن اور سی پیک کا دشمن جو ہے وہ امریکہ کا حامی ہے یہاں پر آپ اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور عمران خان کہا کھڑا تھا کس طرح فریز کیا انہوں نے اس بہت بڑے منصوبے کو اور آج دوبارہ چائنہ جیسا ملک ہم پہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے، نئی انویسٹمنٹ کے لیے بھی تیار نہیں ہو رہا یہ ساری مصیبتیں اب تک اس کے اثرات موجود ہیں، اس کے بعد آئین کو کیسے نقصان پہنچانا ہے اب ظاہر ہے جو آئین کو نقصان پہنچائیں گے تو آئین مشتمل ہے بہت سے امور پہ جس میں اس کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے اس بنیادی ڈھانچے پر بھی اتفاق ہے اور ہم نے ہر فورم پر یہ بات کی ہے کہ چار چیزیں آئین کے اثاث ہیں اگر اس میں ایک گرتا ہے تو آئین گرتا ہے نمبر ایک پاکستان اسلامی ملک ہوگا سیکولر ملک نہیں ہوگا اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہے، آئین کے دفعہ ایک جہاں قرارداد مقاصد ہے وہ کہتا ہے حاکمیت مطلقہ جو ہے وہ اللہ رب العالمین کی ہے پھر اس کے بعد قرآن و سنت کے مطابق قوانین قرآن و سنت کے خلاف قوانین کی پابندی یہ ساری چیزیں آئین بنیادی طور پر طے کر رہا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل اسی لیے قائم ہوئی اب عمل درآمد کا مسئلہ ہے اس پر ہمیں شکایات ہے کہ عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا لیکن اساس تو ہے وہ تو موجود ہے نا آئین میں جی، دوسری بات یہ کہ جمہوری نظام ہونا چاہیے جی یعنی کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہوگا یہاں پر، جمہوریت ہوگی عوام الیکشن کریں گے ووٹ دیں گے جس پر اعتماد کریں گے ان کو حکومت کرنے کا حق ہوگا، نمبر تین کہ پارلیمانی طرز حکومت ہوگی یہ وہ مطالبہ تھا جب ایوب خان کے مقابلے میں ملک کے اندر تحریک اٹھی اور ڈیموکریٹک ایکشن کونسل وجود میں آئی جس کے کنوینر اس وقت نوابزادہ نصراللہ خان صاحب تھے اور میرے والد صاحب اور مولانا مودودی اور تمام اس وقت کے شیخ مجیب الرحمٰن سب اس کونسل میں موجود تھے، انہوں نے جو متفقہ مطالبہ ایوب خان سے کیا وہ دو نکات کا تھا جی ایک متفقہ مطالبہ کے ملک کے اندر پارلیمانی طرز حکومت ہونا چاہیے ۔

حامد میر: 1956 کا ائین بحال کریں، اس وقت 1956 قائم تھا نا ۔
مولانا فضل الرحمٰن: ہاں لیکن ایک نیا مطالبہ اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن ہونے چاہیے، یہ مطالبہ جب منظور ہوا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم ان کا موقف تھا صدارتی طرز حکومت کا، لیکن جب الیکشن ہو گئے اور پارلیمانی بنیاد پہ ہو گئے تو انہوں نے سن 1973 کے آئین میں پارلیمان طرز حکومت کو قبول کر لیا اور خود وزیراعظم بن گئے جبکہ اس سے پہلے وہ صدر پاکستان بنے تھے تو اس لحاظ سے رفتہ رفتہ جاتے جاتے ایک استحکام کے ساتھ اتفاق رائے جو ہے وہ آئینی طور پر پیدا کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنا موقف جو ہے اس پہ نرمی پیدا کر کے ایک پارلیمانی طرز حکومت جو ہے ملک کے اندر قبول کر لیا اب اگر اس پہ وہ آج صدارتی طرز حکومت کو نشانہ بنا رہا ہے تو اس کا معنی ہے ایک آئین کو گرا رہا ہے تو اگر آئین کے خلاف اگر سازش ہوگی تو پھر وہ اسلام کی خلاف بھی ہوگی ۔

حامد میر: آپ کو لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف کے دورے حکومت میں ملک کو صدارتی نظام کی طرف واپس لے جانے کی کوشش ہورہی ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: اسی پر اسی پر میں نے آل پارٹیز کانفرنس کی صوبہ خیبر پختونخوا میں، آل پارٹیز کانفرنس کی صوبہ بلوچستان میں، آل پارٹیز کانفرنس کی میں نے صوبہ سندھ میں، پنجاب کی سیاسی جماعتوں سے میں نے بات کی اور ایک اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی دو باتوں کے اوپر، نمبر ایک کے صدارتی طرز حکومت نہیں، آئین کے مطابق پارلیمانی نظام چلے گا، نمبر دو اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی نہیں کی جائے گی صوبوں کے جو اختیارات ہیں اس میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے تو یہ دو ایسی اصولی باتیں تھیں کہ جس پر ہم نے آل پارٹیز کانفرنس کر کے ایک اتفاق رائے حاصل کیا ۔

حامد میر: اٹھارویں ترمیم کا مخالف کون تھا ؟
مولانا فضل الرحمٰن: اٹھارویں ترمیم بھی تو اسی میں آرہا تھا نا جی جب آپ کو میں بتاؤں کہ کچھ لوگوں نے جب کہا کہ آپ استعفوں کی بات نہ کریں انہی پارٹیوں کا میرے سامنے یہ دلیل تھی کہ مولانا صاحب یہ استعفے مت دو یہ ضمنی الیکشن کرا دیں گے یہ ٹو تھرڈ مجارٹی لے لے گا صدارتی طرز حکومت چلایا جائے گا، 18وی ترمیم ختم کر دے گا یہی تو یہ دلائل دے رہے تھے مجھے جی ۔

حامد میر: پیپلز پارٹی والے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ان کے علاوہ بھی لوگ تھے جی ان کے علاوہ بھی لوگ تھے صرف پیپلز پارٹی نہیں تھی جی اور کچھ باتوں پر پھر ہمیں اپنے دوستوں کے سامنے نرمی اختیار کرنی پڑتی تھی ورنہ اتحاد ٹوٹ جاتا جی تو وہ اس وقت ملک اس متحمل نہیں تھا کہ ہم ملک کو یکجہتی کو توڑے ۔

حامد میر: اچھا اب وہ عمران خان کی پارٹی جو آپ کے خیال میں ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتی تھی آپ نے اس کو نکال دیا لیکن اب ان کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد جو ہے وہ خیبر پختون خواہ میں پرویز خٹک صاحب کی چھتری تلے اکٹھی ہو گئی ہے پنجاب میں وہ جہانگیر ترین کی چھتری تلے اکٹھے ہو گئے ہیں تو یہ جو لوگ ہیں ان کے ساتھ اگلے الیکشن میں آپ کی کوئی ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے اُن کے ساتھ کوئی اتحاد ہو سکتا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: دیکھیے اس وقت تک تو کوئی ایسے رابطے نہیں ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کوئی اتحاد کی طرف جائیں اور دوسری بات یہ ہے جی کہ ہم نے کسی کیریکٹر کے ساتھ سیاست میں جانا ہوتا ہے جی، اب جن کو انہوں نے وزیراعلی بنایا جن کو وزیر دفاع بنایا جب بڑے عزت سے انہوں نے نوازا پنجاب میں نوازا جن کو ایک بھی ان کے ساتھ نہیں ہے جی اب ایسے عناصر کے ساتھ آپ اس کو سہارا لیں گے جو اپنی قیادت کے ساتھ یہ کرے وہ میرے ساتھ کیا کرے گا آپ کے ساتھ کیا کرے گا ۔

حامد میر: لیکن آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ پرویز خٹک اور محمود خان ناقابل اعتبار ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ناقابل اعتبار ہیں ، ٹھیک ہے انہوں نے اپنی پارٹی کے اندر جو فیصلہ کیا ہے میں اس پہ بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ کہ اب میں اس پہ کتنا ٹرسٹ کروں کیوں کروں کیسے کروں یہ بجا خود اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے ۔

حامد میر: لیکن یہ جو آپ نے بات کی بڑی اہم بات کی ہے کہ دونوں ناقابل اعتبار ہیں لیکن جن لوگوں کا اعتبار ان کو حاصل ہے ان کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ بڑے طاقتور لوگ ہیں آپ سے بھی زیادہ طاقتور لوگ ہیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں طاقت بھی ہوتی ہے دنیا میں اور طاقت کا ایک رول بھی ہوتا ہے لیکن دلیل بھی تو ایک طاقت ہوتی ہے نا دلیل تو کہی جاتی نہیں نا جی ۔

حامد میر: تو اگلے الیکشن میں آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپ کی چومکھی لڑائی ہوگی ایک طرف تحریک انصاف ہوگی اور دوسری طرف پرویز خٹک ہوگا اور تیسری طرف جہانگیر ترین ہوگا چوتھی طرف پیپلز پارٹی ہوگی ۔
مولانا فضل الرحمٰن: بس الیکشن میں ہمیشہ ہمیں اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ایک بات ذہن میں رہے کہ ہم نے انتخابی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ہمارا نشان ایک ہوگا ہمارا منشور ایک ہوگا ۔

حامد میر: پی ڈی ایم کا؟
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں نہیں جے یو آئی کا جی، اور پی ڈی ایم کی جماعتیں ہوں یا اس کے علاوہ تو علاقائی طور پر ڈسٹرکٹ لیول پر ہماری جماعتوں کو ہم اختیار دیتے ہیں کہ اگر وہاں کوئی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو کر لیا کریں ۔

حامد میر: تو یہ جو سندھ میں ہم سن رہے ہیں کہ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم اور جے یو آئی اور مسلم لیگ نون بالکل ہو سکتا ہے جن کے ساتھ آپ کا اتحاد ہو سکتا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: بالکل ہو سکتا ہے ۔

حامد میر: پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں ہو سکتا؟
مولانا فضل الرحمٰن: جی ابھی تک تو جو ہمارے زیادہ تر رابطے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہے جی۔ 

حامد میر: مولانا صاحب آپ نہیں سمجھتے کہ آئندہ انتخابات میں سب سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ ملنی چاہیے بشمول پاکستان تحریک انصاف، اگر تحریک انصاف پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو آپ کے خیال میں یہ مناسب ہوگا ؟
مولانا فضل الرحمٰن: دیکھیے ویسے تو اصولی طور پر جو آپ کہہ رہے ہیں دنیا میں اصول تو یہی ہے لیکن ممکن ہے میری رائے کو لوگ کوئی انتہا پسندانہ رائے سمجھے، میں پارٹیوں کو اس کے ایجنڈے کے تناظر میں دیکھا کرتا ہوں، پی ٹی آئی جس ایجنڈے پہ ملک کے اندر انسٹال کی گئی ہے اور جس طرح ان کو یہاں پر وہ پاکستانی ایجنڈا نہیں ہے ایسی پارٹیاں ملک میں نہیں ہونے چاہیے بہت واضح ہوں گے جو پھر خواہش کے خلاف ہوں گے لیکن میں اپنی رائے آپ کو کھل کر دے رہا ہوں ۔

حامد میر: یہ آپ نے میرے سامنے کوئی نئی بات نہیں کی تقریباً 14 ، 15 سال سے کچھ باتیں آپ نجی طور پہ پرائیویٹلی ہمارے ساتھ کرتے رہے ہیں اور شروع شروع میں میں آپ کی بات جو ہے اس کو نظر انداز کر دیتا تھا میں نے کہا مولانا صاحب پتہ نہیں یہ کہاں سے بات لے کے آرہے ہیں لیکن جو باتیں آج سے 10 ، 15 سال پہلے آپ نجی محفل میں کرتے تھے بند کمرے میں اور سیاسی اجتماع میں نہیں کرتے تھے اب وہ باتیں جو ہیں وہ بہت سے جو طاقتور لوگ ہیں وہ پبلکلی انہوں نے کرنی شروع کر دی ہیں کوئی آپ کے پاس ثبوت ہے یہ جو آپ نے کہا انسٹال کیا جا رہا ہے تو ایک دفعہ آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کے پاس کوئی اہم لوگ آئے تھے اور انہوں نے آپ کو آفر کی تھی کہ اگر آپ تحریک انصاف کو سپورٹ کریں تو آپ کو یہ مل جائے گا یہ مل جائے گا تو کوئی تھوڑی سی آج آپ تھوڑی سی جو راز ہیں ان کو سامنے بھی تو لے کے آئے نا ۔
مولانا فضل الرحمٰن: دیکھیں میں آپ کو ایک حوالہ دوں گا سن 1997 کا جب ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم وہ فرماتے ہیں کہ یہ ایلومناٹی اس کا نام لے کر کہتا ہے اور پھر اس کے بعد اسی زمانے کی جب صاحبزادہ یعقوب خان مرحوم وزیر خارجہ تھے تو اس وقت واشنگٹن کی ایک میٹنگ کہ جس میں ہنری کیسنجر انہیں کہتا ہے کہ لُک افٹر اور بوائے اور یہ کہتا ہے کہ ہو از یور بوائے تو اس نے کہا عمران خان، اور اس وقت گولڈ سمتھ موجود تھا اس میٹنگ کے اندر، پھر مصر کا ایک اخبار نے غالباً اس کا اخبار کا نام الیوم ہے اس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان میں ایک بندے کو انسٹال کیا جا رہا ہے، یہو دی لابی کی طرف سے اور صیہونی لابی کی طرف سے، پھر اس زمانے میں نوائے وقت نے ایک دو کالم سرخی لگائی تھی چھوٹی سی لیکن اس میں انہوں نے کہا تھا کہ 2020 تک اسرا ئیل نے جنوب ایشیا میں اپنا نیٹورک مکمل کرنے کا پلان بنا لیا ہے اور اس کے لیے ایک کرکٹر عمران خان کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں یہ 1997 کی بات ہے میں نے جو بات کی ہے وہ بات کی ہے 2011 میں، میں بہت پیچھے ہوں ان لوگوں کے اور یہ چیزیں بہت پہلی تھی ساتھ میری معلومات میں بھی نہیں تھی اس وقت اس ساری صورتحال

حامد میر: کیا آپ سے رابطہ 2011 میں ہوا تھا ؟
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں حضرت میں رابطے کی بنیاد پہ بات نہیں کر رہا ہوں ۔

حامد میر: نہیں جنہوں نے آپ سے کہا کہ آپ اس کو ان کو سپورٹ کرنے کا کہا تھا ۔
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں وہ 2013 میں ہوا وہ 2013 میں جب ایک وفد میرے پاس آیا، میں ان کے نام اس لیے نہیں لوں گا کہ وہ چونکہ مجھے ذرا محفوظ ملے تھے تو اب مناسب نہیں ہے لیکن انہوں نے کئی باتیں کہی تھی نمبر ایک یہ کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور ان مذہب کی گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس عمران خان سے زیادہ اور مناسب بندہ نہیں ہے اس لیے ہم نے صوبے کی حکومت ان کے حوالے کیا ہے اور صوبے میں نئی فضا پیدا کرنا مذہب سے دوری مذہب سے بیزاری نوجوان نسل اس پر این جی اوز کے ذریعے سے ہم نے 15 سال محنت کی ہے اور دنیا کی معیشت یہو د یوں کے ہاتھ میں ہے اگر ہمیں پیسہ ملے گا تو انہی کی پالیسیوں کے تحت ملے گا لہذا ان کے ساتھ معاملات کرنا یہ کوئی بری بات نہیں ہے آپ اس کو کیوں سنگین لے رہے ہیں آج، پھر آخر میں مجھے دھمکی دی کہ پیسہ آئے گا بہت بڑا پیسہ آئے گا گلی گلی کوچے کوچے تک پہنچے گا آپ کی مسجد تک پہنچے گا مولوی صاحب تک پہنچے گا خطیب تک پہنچے گا امام تک پہنچے گا اور تم تنہا رہ جاؤ گے لہذا سوچ سمجھ کر فیصلے کیا کرو مجھے نصیحت کر رہے تھے اب میں تنہا ہوں میرے پاس نہ مولوی ہے نہ میرے پاس مسجد ہے نہ میرے اوپر مدرسہ ہے لیکن حقائق کے سامنے آئے تو یہ ساری چیزیں جو ہیں میرے ساتھ براہ راست ہو چکی ہے اس لیے میں یہ سوچتا ہوں کہ کس طرح ہمارا نوجوان ہمارا ایک مسلمان بھائی پاکستانی محب وطن کس طرح ان کی چپٹی باتوں سے جو ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہے ۔

حامد میر: لیکن ایک سوال ہے نا کہ عمران خان نے تو اس طرح ان کو تسلیم کرنا سے انکار کر دیا وہ اپنی ہر تقریر کا آغاز ایاک نعبد وایاک نستعین سے کرتا ہے اس کی اہلیہ محترمہ جو ہے وہ ویسا ہی پردہ کرتی ہے جیسا آپ کے گھر کی خواتین کرتی ہیں یہ تو بہت بڑا تضاد ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: حضرت یہ چیزیں جو ہیں نا تھوڑا سا ڈسکس نہ کریں تو اچھا ہے کسی کے گھر میں جا کے جھانکنا کسی کے گھر میں جا کر اس کے ساتھ تعلقات بنانا کسی کے گھر میں جا کر اس کی بیوی جو ہے اسے طلاق دلوا کر اپنی بیوی بنا لینا یہ ہمارا کلچر ہے ؟ یہ ہمارے اخلاقیات ہیں ؟ اور کیا اس پر بحث کروں میں، مجھے میری شرافت اجازت نہیں دی تھی کہ میں اس پہلو پر اس کو ڈسکس کروں جی ۔

حامد میر: لیکن کچھ آپ کے ایسے پرانے سیاسی دوست ہیں جو اپنا خاندان اپنا سیاسی ورثہ چھوڑ کے عمران خان کے ساتھ چلے گئے اور آپ نے آپ کے بزرگ بھی اس خاندان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں میرا اشارہ چودھری پرویز الٰہی کی طرف ہے آپ کے والد صاحب اور ان کے والد صاحب کے بڑے تعلقات تھے اکٹھے رہے وہ اپوزیشن میں ۔
مولانا فضل الرحمٰن: حضرت میرے حوالے سے آپ کیوں مجھ سے سوال کرتے ہیں سب سے پہلے تو یہ سوال چودھری شجاعت حسین سے بنتا ہے اپنے بھائی کے ساتھ کیا کیا جس بھائی نے اس کو گود میں رکھ کر ساری زندگی اپنے ساتھ رکھا جب سکول جاتے تھے بچے تھے سکول تو اکٹھے جاتے تھے رکشے میں اکٹھے جاتے تھے موٹر میں بھی اکٹھے جاتے تھے پھر گریجویشن اکٹھی کی پھر سیاست اکٹھی شروع کی یہاں تک پہنچے اور یہاں تک وہ اپنے گھر کے ساتھ وفاداری نہیں کر سکا پھر بڑے کے ساتھ وفاداری نہیں کر سکا میرے حوالے سے آپ کیوں مجھ پہ سوال کرتے ہیں ۔

حامد میر: نہیں میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب جو ہیں وہ اس وقت صدر ہیں تحریک انصاف کے تو وہ اگر انہوں نے تحریک انصاف کو جوائن کیا تو کچھ سوچ سمجھ کے کیا ہوگا جو چیزیں آپ کو نظر آئی ہیں وہ ان کو کیوں نہیں نظر آئی ؟
مولانا فضل الرحمٰن: حضرت جو آدمی مفادات کی سیاست کرتا ہے وہ اسی طرح بھٹکتا ہے جس طرح ہمارا بھائی بھٹکا ہے جی، اور جو نظریات کی سیاست کرتا ہے اس کو نقصانات ہوتی ہیں اس پر سوالات کی بوچھاڑ ہوتے ہیں اس پر ہر قسم کی مسائل آتے ہیں لیکن آپ نے دیکھا کہ میرے موقف میں 2011 سے لے کر 2023 تک کوئی جھول نہیں آیا کوئی فرق نہیں آیا میرے گفتگو میں میرے سوچ کے اندر اور میں مسلسل یہ بات کر رہا ہوں الیکشن بھی ہو جائیں نا جی اور وہ کامیاب بھی بالفرض ہو جائے تب بھی میں ایکسپوز کرتا رہوں گا میں نظریات پہ سودا نہیں کیا کرتا ۔

حامد میر: اچھا اور یہ تو چلیں ٹھیک ہے چھوڑ دیں پرویز الہی صاحب نے صحیح کیا غلط کیا لیکن اس وقت جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے کہ عدالت کہتی ہے کہ ان کو رہا کرو پولیس ان کو پھر گرفتار کرتی ہے یہاں تک کہ آئی جی اسلام آباد پہ توہین عدالت لگ گئی ہے یہ صحیح ہو رہا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: میں تو صرف چودھری پرویز کے بارے میں نہیں کہوں گا میں تو اس سے میں نے لاہور بھی صحافیوں سے کہا میں کسی سیاستدان کا جیل میں رکھنے کا حق میں نہیں ہوں، یعنی میں کھلا پھر رہا ہوں میرے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں میرے مد مقابل کے ہاتھ انہوں نے باندھ لیے ہیں میں وہ سیاست دان ہوں جو اپنے دشمن کے ساتھ کھلے ہاتھوں سے لڑنا چاہتا ہوں ان سے یہ نہیں کہ میری خواہش ہوئی کہ میں دوسرے کے ہاتھ باندھ لوں اور میرے ہاتھ کھلے رہیں میں اس ذہن کا آدمی ہوں باقی رہا نظام اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، قانون، عدالتیں یہ ان کا اپنا معاملہ ہے اس سے میرا کوئی سروکار نہیں ۔

حامد میر: آپ کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان اور پرویز الٰہی سمیت تمام جو سیاسی مخالفین جیل میں ان کو رہا کیا جائے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: میں کھلے میدان میں مقابلے کرنے کا حامی آدمی ہوں میں مطالبہ نہیں کر رہا وہ قانون کا معاملہ ہے کوئی شخص قانون کے حوالے ہو چکا ہے اور قانون کی گرفت میں ہے تو قانون کا اپنا حق ہے اس کا اپنے حقوق ہے جی لیکن ایک ہے میری خواہش اور مرضی میرا مزاج میرا مزاج کم از کم اس قسم کی سیاست نہیں مانتا کہ میں اپنے دشمن کے جو ہاتھ باندھ لوں اور خود جو ہے کھلا ان کو مقابلہ کروں اسی لیے تو میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں عام طور پر جلسوں میں اب اس موضوع کو بہت کم چھیڑتا ہوں کیونکہ میرے مد مقابل جو ہے ازاد نہیں ہے تو وہ ازاد ہوگا تو پھر آپ دیکھیں گے ان شاءاللہ العزیز ۔

حامد میر: اسی لیے میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ اگر تحریک انصاف پہ پابندی لگتی ہے تو آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جب آپ کو یاد ہے کہ جب نیپ کی اور آپ کی پارٹی کی ایک مخلوط حکومت تھی بلوچستان میں اور خیبر پختون خواہ میں تو بلوچستان میں جو نیپ کی حکومت کو ہٹایا گیا تو آپ کے والد صاحب چیف منسٹر تھے ان کی حکومت نہیں ہٹائے گی تھی انہوں نے بطور احتجاج اس وقت صوبہ سرحد تھا وہاں کی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا اور بعد میں جب نیپ پر پابندی لگی تو اس کی بھی انہوں نے مخالفت کی حالانکہ پابندی سپریم کورٹ نے لگائی تھی تو وہ تاریخ وغیرہ اب دوبارہ دہرائی جاتی ہے 2023 میں تو آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں ؟
مولانا فضل الرحمٰن: حالات حالات ہوتے ہیں اور ایک 1972، 73 کا زمانہ اور آج ایک نئے ایرا میں ہم داخل ہیں بالکل مختلف اوقات ہیں ایٹیچیوڈ میں بھی فرق ہے، ایجنڈے میں بھی فرق ہے، حالات میں بھی فرق ہے، بین القومی سیاست تبدیل ہو چکی ہے، 1973 کا جب ہم آئین بنا رہے تھے اس وقت امریکہ جو ہے وہ مذہب کے ساتھ گزارا کرتا تھا، سن 73 کا آئین بھی بنا اسلام کے اس کی بنیاد بنا، قرآن و سنت بھی بنا اور روس جو ہے وہ بالکل اسلام کے مقابلے میں کھڑا ہوتا تھا جی اب جو سویت یونین ٹوٹ چکا ہے تو ان کی جگہ امریکہ اور مغرب نے لے لی ہے اسلام دشمنی، قران جلایا جا رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائے جا رہے ہیں، توہین کی جا رہی ہے، مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے اور ولادمیر مسجد میں جاتا ہے قرآن کو سینے سے لگا رہا ہے اور بیان دے رہا ہے کہ قرآن کی توہین جو ہے وہ آزادی رائے کے زمرے میں نہیں آتی تھی بالکل الٹے ہو گئے نا سیاست جی تو وہ حالات اس زمانے میں کچھ اور طرح تھے پاکستان اور بیرونی قوتوں کے اثرات تھے اس وقت ہم آئین بنا رہے تھے اور اسلام کو جگہ مل رہی تھی آج ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ جو بنی ہوئی چیزیں ہیں وہ نکل نہ جائیں اس کو بچا سکیں کسی طریقے سے یہاں پہ جی ۔

حامد میر: مولانا صاحب آپ کا جو صوبہ ہے خیبر پختون خواہ وہاں پہ تو پچھلے 20 ، 22 سال سے امن و امان کی صورتحال بڑی خراب ہے لیکن پچھلے دنوں باجوڑ میں آپ کا ایک ورکرز کنونشن تھا اس پر ایک خودکش حملہ ہوا، بڑا افسوسناک واقعہ ہے جس میں آپ کے بہت سے لوگ شہید ہو گئے اور اس کے بعد ابھی بھی بلوچستان میں اور خیبر پختون خواہ یہاں پہ دہشت گردی کے واقعات جو ہیں یہ مسلسل ہو رہے ہیں آپ نہیں سمجھتے کہ جب انتخابی مہم شروع ہوگی تو جو جلسے جلوس ہوں گے ان کی سیکیورٹی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: یہ سوال تو خود میرا ہے لیکن میں اس بات سے بھی ڈرتا ہوں کہ جب میں اس پر تبصرہ کرتا ہوں تو یوں سمجھا جاتا ہے جیسے میں الیکشن کو ملتوی کرنے کے لیے کوئی بہانے تلاش کرتا ہوں یا جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، ہمارے جہاں تک سانحہ باجوڑ کا تعلق ہے سانحہ باجوڑ سے قبل ڈیڑھ دو سالوں کے اس عرصے میں ہماری جماعت کا ٹارگٹڈ شہید وہ 19 واں ہیں اور اس کے بعد یہ بڑا واقعہ ہوا اس میں 73 ہمارے ساتھی شہید ہوئے اور ڈیڑھ سو کے قریب ہوئے زخمی بھی ہوئے اور اس کے بعد بھی وہاں پر ہمارے کارکن اب بھی محفوظ نہیں ہیں ان کو تھریٹس مل رہے ہیں اور غیر محفوظ اپنے آپ کو محسوس کر رہے ہیں یہ صورتحال صرف باجوڑ کی نہیں حضرت، یہ صورتحال آپ جائیں وزیرستان اس وقت بھی ٹانک میں، وزیرستان میں، دوسری میر علی میں آپ جائیں وزیرستان میں روزانہ یعنی اگر میران شاہ میں آپ جائیں تو چار پانچ روزانہ جو ہیں وہ لاشیں گرتی ہیں یہی صورتحال وانا کی سائیڈ پہ ہے یہی ٹانک کی چار پانچ سال سے روزانہ کی حساب سے آپ ہو رہی تھی یہی صورتحال بنوں میں ہے یہی صورتحال کرک میں ہے یہی صورتحال ہنگو میں ہے یہی صورتحال کرم ایجنسی میں ہے اور اورکزئی ایجنسی میں ہے اب باجوڑ تک آپ جائیں آخر تو وہی رہ جاتا ہے اس وقت چترال میں ہیں صورتحال جنگ کی صورتحال ہے اب آپ مجھے بتائیں کہ ایک صوبے کی اتنے طول و عرض کے اندر جب اس قسم کے حالات پیدا ہوں گے تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے، ہمیں حق ہے کہ میں ایک کام شروع کروں اور بڑے اچھے نیت کے ساتھ اور اچھے جذبے کے ساتھ، لیکن شروع کرنے پہ میں نے غور کرنا ہے ہم نے کیا اس کا انجام پہ غور نہیں کرنا ؟ ان کے نتائج پہ ہم نے غور نہیں کرنا ؟ تو تدبیر اور تدبر تو اسے کہتے ہیں کہ آپ کے انجام پہ نظر ہو اب اس کے حوالے سے کیا ہوگا کہ میسج جائے گا کہ پاکستان کے اندر حالات الیکشن کے لیے مناسب نہیں، نمبر دو سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں تو ہم جو معاشی طور پر بہتری کی طرف جانا چاہتے ہیں آپ کا وہ سفر رک جائے گا جمہوریت کو مستحکم کرنے کی طرف ہم جا رہے ہیں تو سفر رک جائے گا اور بڑے فخر سے کہیں گے کہ ہم تو نہ جمہوریت کو چھوڑ دیں پاکستان میں اور نہ ہم معیشت کو چھوڑیں گے نہ ہم چین کو چھوڑیں گے وغیرہ وغیرہ یہ فکر اور یہ نظریہ جب دنیا میں آئے گا تو آپ بتائیں کہ جو اس کے نتائج اور اس کے جو منفی اثرات ہوں گے کیا وہ سب اس بات پہ کافی ہو جائیں گے کہ ہم تو اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں اسلام کی جنگ لڑنے کے لیے تو علماء کرام ہیں نا، یعنی کراچی سے لے کر چترال اور کراچی سے لے کر گلگت تک علماء کرام ہیں نا وہ آپ کے تربت سے لے کر کہاں کہاں تک علماء کرام پھیلیں ہوئیں ہیں، تو یہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام وہ کیوں مسلح جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں اور صرف کچھ لوگ جو ہیں وہ کیوں بضد ہیں کہ وہ اپنے ہی رائے کو جو ہے وہ آخری اور حتمی اور شرعی رائے سمجھتے ہیں تو اس میں ہمیں اعتدال کی طرف جانا چاہیے ۔

حامد میر: لیکن اس میں آخری سوال میرا یہ ہے کہ کیا یہ ایک بات درست نہیں ہے کہ جب سے افغا نستان میں افغان طا لبان کی حکومت قائم ہوئی ہے تو جو پاکستان اور افغا نستان کے سرحدی علاقے ہیں بلوچستان کے اور خیبر پختون خواہ کے وہاں پہ د ہشت گردی بڑھ گئی ۔
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے یہ تو ہوگا کیونکہ جنگ ختم ہوئی ہے نا جنگجو تو ختم نہیں ہوا جنگجو کے لیے تو کوئی جنگ کا میدان چاہیے ورنہ کا کام گزارا کرے گا ۔

حامد میر: نہیں پہلے تو جنگجو کا ٹارگٹ امریکہ تھا اب کون ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں جنگجو اپنے لیے ٹارگٹ تلاش کر لیتا ہے ٹارگٹ تلاش کرنا تو کوئی مشکل بات نہیں ہے وہ تو اپنے آپ کو مصروف رکھنا ہے وہ تو کرنا پڑے گا بنیادی بات یہ ہے کہ باڑ لگائی ہم نے، اس باڑ کے ہوتے ہوئے 40 ، 50 ہزار پاکستانی نوجوان افغا نستان کیسے گئے؟ اور جب وہاں پر جنگ ختم ہو گئی تو 40 ، 50 ہزار پاکستان واپس کیسے آگئے؟ یہ ایک سوال ہے دونوں ملکوں سے ا مارت اسلامیہ سے بھی اور پاکستان کے جو ہمارے ادارے ہیں ان سے بھی دونوں ملکوں کے لوگ جو ہے غیر محفوظ ہیں اب اسی پہ ہم گزارا کرتے رہیں گے کہ ہم ان کے الزام لگائیں گے وہ ہم پہ الزام لگائیں گے ۔

حامد میر: آپس میں مذاکرات کرنے چاہیے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: مذاکرات بھی کرنی چاہیے ، کمیشن بنانی چاہیے جو مشترکہ کمیشن ہے جو ان قسم کے معاملات جس طرح ان کی انٹیلیجنس اور ہماری انٹیلیجنس کے درمیان کچھ ایک انڈرسٹینڈنگ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو معلومات فراہم کریں اسی طرح اس کے اوپر جو بننے والی سٹریٹیجی ہے اس کے لیے بھی ان کی کوئی کمیشن مشترکہ ہونی چاہیے ۔
حامد میر: بہت بہت شکریہ مولانا صاحب
مولانا صاحب: مہربانی اللہ خوش رکھے آپ کو

ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments