قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اب تک نیوز کے ڈاکٹر دانش کے ساتھ خصوصی انٹرویو تحریری صورت میں 20 ستمبر 2023

 قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اب تک نیوز کے ڈاکٹر دانش کے ساتھ خصوصی انٹرویو
20 ستمبر 2023

ناظرین السلام علیکم! اب تک ڈاکٹر دانش کے ساتھ حاظر ہوں۔ آج ہمارا ایک ایکسکلوزیو انٹرویو ہے اور ہمارے ساتھ ہے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب، السلام علیکم سر، وقت دینے کا بہت بہت شکریہ 
مولانا فضل الرحمٰن: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ، بڑی مہربانی جی۔

ڈاکٹر دانش: سر بات شروع کرونگا، سب سے پہلے الیکشن سے ہی کرلیتا ہوں، کیا دیکھتے ہیں سر کہ الیکشن ہوگا، کب ہوگا، کیونکہ بہت سے سوالات اس وقت آرہے ہیں، اتحادی حکومت کے مختلف سیاسی جماعتوں کی ڈیمانڈ بھی مختلف آرہی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن: الیکشن تو ہوگا یہ آئین کا تقاضا ہے، اور یہ کہ کب ہوگا؟ میرے خیال میں اس کا تعلق ہم سے کم اور الیکشن کمیشن سے زیادہ ہے، کیونکہ ایک فیصلہ جو ہماری حکومت آخری دنوں میں کر چکی تھی، اُس میں تو سب شریک تھے کہ نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن ہونا چاہیے، اب ظاہر ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق کہی پر حلقے بڑھیں گے تو کہی پر حلقے کم ہونگے، یہ بہت بڑا کام ہے، بہت بڑا مسئلہ ہے، تو اس کے لیے ظاہر ہے ہم تھوڑا فری ہینڈ دینا چاہیے الیکشن کمیشن کو، اور صرف نمبر سکورنگ کے لیے کہ جی ہم تو بروقت الیکشن اور بڑے الیکشن کے لیے، اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، کوئی تکلف کی ضرورت نہیں ہے، بلا تکلف ہمیں سیاسی نظام کو آگے بڑھانا چاہیے۔

ڈاکٹر دانش: تو اگلے سال جون تک صحیح رہے گا سر؟ 
مولانا فضل الرحمٰن: میں کوئی جون یا جولائی، فروری یا مارچ، میں ایسے باتوں میں کیوں الجھوں، میں تو باقی سیاسی قیادت کو بھی مشورہ دونگا کہ وہ اس معاملے کو کم از کم متنازعہ نہ بنائیں، ٹائمنگ کے حوالے سے، الیکشن ہے ہونگے، اور اس کا ایک فریم ورک ہے، وہ فریم ورک الیکشن کمیشن کب اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ قوم کو دے سکیں، تو دینا پڑیگا ان شاءاللہ العزیز۔

ڈاکٹر دانش: لیکن سر یہ الیکشن جو ہے، یہ ہونے سے پہلے ہی متنازع ہوگیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل این کہتی ہے کہ فروری 2024 کو ہوگا، یہ وہ بالکل سٹیٹ آوے کہتے ہیں، پیپلز پارٹی جو اتحادی حکومت کا حصہ بھی تھی، وہ کہتی ہے الیکشن نوے دن میں ہوگا، کیونکہ آئین نوے دن کا کہتی ہے، جے یو آئی کا ہم نے سنا ہے کہ اگر کل الیکشن ہو جائے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں، اسی طرح مختلف جماعتوں کے مختلف باتیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جناب ہم تیس دسمبر سے پہلے حلقہ بندیاں نہیں کرسکتے، صدر صاحب نے تجویز دی ہے کہ چھ نومبر آخری تاریخ ہے اس سے پہلے پہلے کرالیں، دوسری طرف نگران حکومت ہے، اس پر پیپلز پارٹی کا سنگین الزام ہے، تاثر پھر بھی بیٹھ جاتا ہے کہ یہ ایکسٹینشن ہے پی ایم ایل این کی، اور یہ ایک طریقے سے جانبدار حکومت ہو جاٸے گی، غیر جانبدار نہیں رہے گی، تو اتنے سارے جو الیکشن کے میٹر سامنے آرہے ہیں، تو یہ تو پہلے ڈسپیوٹ ہوگیا، سر اس میں تو کوئی ہارے گا تو یہی کہے گا کہ جناب ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن: میں اپنی بات کو پھر دہراؤنگا، الیکشن ہونگے اور وہ بھی نوے دن کے اندر اندر ہونگے جی، جب بھی ہونگے نوے دن کے اندر ہونگے، تو نوے دن کے اندر ہی ہوتے ہیں، اور وہ نوے دن کا تعین بھی الیکشن کمیشن نے کرنا ہوتا ہے، اگر کوئی غیر ضروری ہم نے محسوس کیا کہ اس میں تاخیر کی جارہی ہے، تو ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، ہم بھی بات کر سکتے ہیں لیکن یہ جو ہم نے ایک سیاست شروع کر دی ہے بلیم کرنے کی، کہ یہ مسلم لیگ کے لیے ہو رہا ہے، تو یہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہو رہا ہے، تو یہ جے یو آئی کے ساتھ، یہ تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن میں ایسے تنازعات میں نہ قوم کو الجھانا چاہتا ہوں نہ ملک کو الجھانا چاہتا ہوں کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو ہمارے آپس کے باہمی تنازعات کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتے ہیں، تو خامخواہ کیوں اس ایک چیز کو متنازع بنائیں، کوئی ضرورت نہیں ہے، کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے کہ جس میں ہم ایک چلتے ہوئے نظام کو تنازع کی طرف لے جائے، ایسے تنازعات میں میرے خیال میں اب قوم متحمل نہیں ہے، بہت ہوچکا ہے اور بہت قوم نے بھگت لیا ہے ۔ 

ڈاکٹر دانش: کیا الیکشن مسائل کا حل ہے سر؟ 
مولانا فضل الرحمٰن: ظاہر ہے جی کہ الیکشن میں جب آپ الیکشن لڑتے ہیں اور الیکشن عوام کے رائے کے مطابق ان کے نتائج آجاتے ہیں، وہ نتائج تسلیم ہو جاتے ہیں، تو حکومت کے اپنے اندر بھی ایک خود اعتمادی ہوتی ہے، اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میں نے پانچ سال تک حکومت کرنی ہے اور پھر دنیا بھی آپ پر اعتماد کرتی ہے اور آپ کے ساتھ معاملات کرتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ باقاعدہ عوام کے اعتماد سے ایک مستحکم حکومت وجود میں آئے جو پاکستان کے اندر ایک پولیٹیکل سٹیبیلٹی اور سیاسی استحکام کی علامت ہو، وہ ملک کے اندر بھی خود اعتمادی پیدا کرے گی، قوم کے اندر بھی ایک اعتماد لائے گی اور بیرونی دنیا کے ساتھ جو ہمارے معاملات ہیں اس میں بھی ایک اعتماد کا ماحول ہم اپنے لیے پیدا کر سکیں گے، یہ جو عارضی بنیادوں پر ہم، تو یہ تو ہم حضرت شارٹ ٹائمز یا قلیل المدتی معاملات تو ہم چلا سکیں گے جی لیکن اس سے وہ خود اعتمادی نہ حکومت کے اندر آتی ہے، نہ وہ اعتماد عوام کے اندر پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی برادری میں ہم اپنا اعتماد بنا سکتے ہیں۔ 

ڈاکٹر دانش: لیکن سر یہ جو صورتحال ہے اس وقت اس میں گراؤنڈ ریالیٹیز یعنی زمینی حقائق تو یہ بتا رہے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اکیلے 172 سیٹس بھی نہیں لے سکے گی اور اگر ایسی صورتحال ہوتی ہے تو پھر ہم ایک اتحادی حکومت دیکھتے ہیں اور ابھی اتحادی حکومت میں جو کہ سولہ مہینے کی رہی، اس میں اب بڑی اختلاف سامنے آچکے ہیں عمران خان سیاست سے فی الحال اس سیاسی اس وقت باہر ہیں پی ٹی آئی تقریبا اس وقت باہر نظر آرہی ہے تو اختلاف ان کے درمیان ہے اس کا مطلب ہے اب جو بھی لڑائی ہوگی ان سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوں گی تو ایک نیا اتحاد پیدا ہوگا، سولہ مہینے کی گیارہ سیاسی جماعت اور پچاسی کابینہ آپ سمجھتے ہیں کہ سر انہوں نے کوئی کارکردگی کی ہے ماسواٸے ایک جملہ ہم سنتے ہیں کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔
مولانا فضل الرحمٰن: میرے خیال میں یہ جو ہم بحث کو ایک خاص دنوں تک یا خاص مہینوں تک ایک خاص مدت تک محدود کر دیتے ہیں تو اس میں پھر آپ کو پورا جواب نہیں ملے گا جی، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو ذرا تھوڑا سا، اگر آج میاں شہباز شریف صاحب پرائم منسٹر تھے اور اس سے پہلے میاں نواز شریف صاحب پراٸم منسٹر تھے تو وہ بھی تو مسلم لیگ تھی جی تو ابھی تو مسلم لیگ تھی باقی اس کی اتحادی ہے اس وقت شاید ان کی اتحادی کم تھے اب تو بارہ تیرہ جماعتیں یا گیارہ بارہ جماعتیں تھیں یہ فرق تو ہو سکتا ہے لیکن جو قیادت کرتا ہے وہ پالیسیز تشکیل دیتا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ 2017/18 تک پاکستان کی جو اکانومی تھی وہ سالانہ مجموعی ترقی کی جو شرح تھی جی ڈی پی گروتھ وہ 6 فیصد سے بڑھ گئی تھی، تو 2017/18 تک یہ صورتحال تھی، جب اقتدار تبدیل ہو گیا تو آپ کو یاد ہے کہ آپ کے ملک کی سالانہ ترقی زیرو سے بھی نیچے آگئی، مائنس میں چلی گئی تھی! یہ بھی دیکھا نا، اب یہ حقیقت بھی آپ تسلیم کریں کہ جب آپ کی گروتھ مکمل ختم ہو جائے اور پھر آپ گرتے پڑتے کبھی کہتے ہیں میں وہ کچھ کچھ بڑھا دیا تو پھر نیچے گر جاتا ہے آپ کی افراط زر کا کیا حشر ہوا؟ آپ کی مہنگائی کا کیا حال ہوا اور ایک دفعہ آپ پہاڑ سے گرے تو ایسے گرے کہ میں نے کم از کم عمران خان کی حکومت میں بڑے بڑے جلسوں میں یہ بات کہی تھی اور میں اپنی گفتگو کا ذمہ دار ہوں کہ معیشت کی عمارت ایسی زمین بوس ہوئی ہے کہ آنے والی کوٸی بھی حکومت کے لیے اٹھانا مشکل ہو جائے گا یہ میں نے اپنی حکومت کے دوران نہیں کہا یہ میں نے پہلے کہا تھا جی اور میں ان حقائق کو تسلیم کررہا تھا، یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ساتھیوں نے اختلاف رائے کیا اور میں نے اپنے رائے پر ضد بھی نہیں کی، میں اس دوستوں کے ساتھ چلتا رہا کہ آپ باقاعدہ براہ راست عام الیکشن کی طرف جائیں اور ایک مضبوط مستحکم حکومت وجود میں لائے تاکہ لوگوں میں ایک اعتماد پیدا ہو، ورنہ آپ نہیں اٹھا سکیں گے معیشت کو، لوگ آپ پہ اعتماد نہیں کریں گے، آپ کا دوست چائنہ ہے، آپ کا دوست سعودی عرب ہے، آپ کا دوست امارات ہے، جو مشکل وقت میں آپ کو زر مبادلہ بھی مہیا کر لیتا ہے کچھ ذخائر میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے، اب آپ مجھے بتائیں کہ جہاں پر سولہ سترہ ارب ڈالر کے ذخائر 2017/18 میں ہم نے چھوڑے تھے وہ آپ کے آگئے صرف دو ارب پہ، آپ کہتے ہیں ڈیفالٹ کی بات آپ کر رہے ہیں، جب آپ کے سالانہ گروتھ بھی مائنس پہ آجائے، جب آپ کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی دو ارب پہ آجائیں تو پھر دیوالیہ پن کسی جانور کا نام تو نہیں ہوتا جی اب اس جگہ سے آپ نے کیسے آگے بڑھنا ہے، ہمارے پاس ایک سال تھا کیونکہ چار پانچ مہینے تو ایسی ہی گزر جاتے ہیں حکومت بناتے اور ایڈجسٹ کرنے پارٹیوں کو جی، اس ایک سال کے اندر افراط زر کو بھی کنٹرول کیا ہے، تقریباً 6 ارب ڈالر کے قرضے بھی ہم نے ادا کیے، اتنی ہی شاید ہم نے ری شیڈول بھی کیے ہیں، اس کے نصف جس پر مختلف ممالک کے ساتھ بات چیت بھی چلتی رہی ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ پاکستان کی معیشت 2017/18 میں دنیا کی معیشت میں 24 واں تھا، عمران خان کی حکومتیں 47 پہ ہم چلے گئے، آپ کے پڑوس میں جی 20 کا اتنا بڑا کانفرنس ہو گئی، ہم چار پوائنٹ پر رہ رہے تھے آج تک ہم وہاں پہنچے تھے اور اتنے بڑے کانفرنس میں ہم اس پہ شریک ہوتے ہیں اب وہ اس جگہ پہ پہنچا دیا گیا کہ پتہ نہیں اگلے کئی عشروں میں آپ دوبارہ وہاں آبھی سکیں گے یا نہیں آسکیں گے، تو یہ وہ فرق ہے اب جو نئے حکومت آئی ہے ابھی ان کو ہم نے وہ حکومت دی ہے کہ جہاں پر آپ کے ذخائر دوبارہ جو ہے دس گیارہ ارب ڈالر پہ پہنچ گئے ہیں دیوالیا سے آپ نکل چکے ہیں، قرضے آپ کا ادا ہو چکے ہیں، افراط زر میں دوبارہ بحالی کی طرف ہم گئے ہیں اور یہ اب اس حکومت کی وہ ظاہر ہے جو بھی چند مہینے کی ہے کچھ زیادہ اس کو اگر مینٹین رکھ سکیں تو بھی بڑی بات ہوگی لیکن ہم نے آگے جانا ہے، آگے بڑھنا ہے، ہم نے سیاسی جماعتوں کو بھی یہی بات کہنی ہے کہ ایک مستحکم سیاسی نظام کی طرف ہمیں جانا چاہیے، صرف یہ کہ بس ہم آپس میں جیتنے اور ہارنے کے سیاست اور سیٹیں کتنے اور کتنے، تو یہ چیزیں جو ہیں یہ سب اپنی جگہ پر بجا ہیں ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ محنت بھی کرے وہ ووٹ بھی دے جو اس کا حق ہے اس کو ملے اور زیادتی کسی کے ساتھ نہ ہو۔

ڈاکٹر دانش: سر مجھے سوال پوچھنے دیں جے یو آئی پاکستان کی موجودہ سیاست میں کہاں کھڑی ہے سر، پی ایم ایل این سنتے ہیں بڑی جماعت ہے، پیپلز پارٹی سنتے ہیں بڑی جماعت ہے، پی ٹی آئی بڑی سیاسی جماعت ہے، تو جے یو آئی کو تو ہم دیکھتے ہیں بڑے بڑے جلسے کرتی ہے آخر کیا وجوہات ہیں سر، کہ آپ کی پوزیشن کہاں ہے سر جی
مولانا فضل الرحمٰن: میں اس سلسلے میں بڑے احتیاط کے ساتھ بات کروں گا کیونکہ ہم نے بھی سیاست کرنی ہے احتیاط کے ساتھ، ہمارے لیے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے، جنہوں نے ہماری لیے رکاوٹ پہ رکاوٹیں کھڑی کی اور ہمیں ایک کنویں کے اندر بند رکھنے کی انہوں نے ساری توانائیاں اس پر صرف کئیں ہیں، ہم نے اس کے پرواہ کیے بغیر ہم چلتے رہے، ہم نے اس کو نوٹس بھی نہیں لیا، ہم نے ہمیں کوئی شور غوغا بھی نہیں سنا ہوگا اس حوالے سے، لیکن پبلک میں جب آپ جاتے ہیں تو آپ کو اندازہ لگتا ہے کہ میری کیا پوزیشن ہے ایک کینڈیڈیٹ میں جب حلقے میں جاتا ہے تو پبلک کو بھی پتہ ہوتا ہے کون جیت رہا ہے اور کینڈیڈیٹ کو بھی پتہ ہوتا ہے اور جو دو مقابلے میں ہوتے ہیں ان کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ہم دو مقابلے میں ہیں یا اس نے دو ہزار پہ جیتنا ہے یا میں نے دو ہزار پہ جیتنا ہے یہ اندازے جو ہیں الیکشن میں جو لوگ جاتے ہیں ان کو پتہ چلتے رہتے ہیں ہماری خفیہ ایجنسیاں بھی اندازے جمع کرتی ہے سیاسی جماعتیں خود بھی اپنے اندازے جمع کرتی ہے تو اس اعتبار سے ہم نے حضرت جو ہمارے ساتھ ہوا ہے جو 2008 میں ہوا ہے ہمارے ساتھ، جو 2013 میں ہوا ہے، ہم نے جس طرح برداشت کیا ہے سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے، اس کے بعد جب تیسری مرتبہ 2018 میں ہوا اور پھر ایک ایسی پارٹی کے لیے دھاندلی کی گئی کہ جس کو میں کو نویں پاکستان کی فکر کی جماعت سمجھتا ہوں، نہ پاکستان کے ساتھ اس کو سنجیدہ سمجھتا ہوں، ایک بیرونی ایجنڈے کے حامل ایک جماعت کو پاکستان پر مسلط کیا گیا پھر میں نے صرف اپنی سیاست اور اپنے ووٹ کی جنگ نہیں لڑی، پھر میں نے ملک کی بھی جنگ لڑی ہے، اس کے نظریے کی بھی جنگ لڑی ہے اور پھر جب ہم میدان میں نکلے ہیں تو میں نے پورے ملک کے اندر پندرہ ملین مارچ کیے ہیں اور اس کے علاوہ جو جلسے کیے ہیں وہ تو اپنی جگہ پر اور پھر آزادی مارچ میں جہاں ہمارے پاس سولہ سترہ لاکھ جو اسلام آباد میں جمع تھے یہ ساری کارکردگی اس نے ہمیں اندازہ دے دیا کہ پاکستان میں عوام کی توجہ اس وقت جمیعت علماء کے طرف کس درجے کی ہے، میں نہ پیپلز پارٹی کے حوالے سے بحث کر رہا ہوں اس کے پاس اگر عوامی قوت ہے، تائید ہے، آپ کو پتہ ہے کہ وہی 2018 تھا اگر سندھ نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا میں نے اس پہ اعتراض نہیں کیا اگر پنجاب نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا میں نے اس پہ اعتراض نہیں کیا میں نے صرف یہ بات ضرور کہی ہے میں نے نواز شریف صاحب سے بھی کہی ہے، میں نے مسلم لیگ سے بھی کہی ہے کہ ہم کے پی میں 2013 میں حکومت بنا سکتے تھے لیکن آپ نے کہا کہ وہ لارجسٹ پارٹی ہے تو پھر ذرا اس کا حق ہونا چاہیے، تو اس کا احترام پھر انہوں نے پنجاب میں کیا؟ لارجسٹ پارٹی تو مسلم لیگ تھی کوئی انہوں نے احترام نہیں کیا ان کے پاس اخلاقیات کا کوئی چیز ہے بھی نہیں جی اور پھر 126 دن کا جو دھرنا دیا اور جس طرح انہوں نے چین کی امداد کو دھکیلنے کے لیے ایک بیرونی ایجنڈے کے تحت خدمات سرانجام دی، وہ ساری کی ساری ہماری ایک تاریخ ہے، میں اب بھی بڑی وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اتنے اندھے ہم بھی نہیں ہیں کہ بالکل اندھے ہو کر سیاست کر رہے ہیں نہ آگے دیکھتے ہیں نہ پیچھے دیکھتے ہیں نہ پبلک کا بتایا ہے، ہم پبلک کے اندر ہوتے ہوئے سیاست کر رہے ہیں اور ہم آئندہ جب بھی الیکشن ہو چاہے 2023 میں ہو چاہے 2024 میں ہو، جب بھی میں نے عرض کیا کہ الیکشن کمیشن شیڈول دے گا ہم بھی اس کے نتائج پر نظر رکھیں گے اگر جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ پھر زیادتی کی گئی اور ہمارے جو عوام کے اندر ایک تائید حمایت موجود ہے اگر اس کے مطابق ہمیں نتائج نہیں ملے تو پھر زمین بھی وہی ہے گز بھی وہی ہوگا ان شاءاللہ آپ ہم پھر ہمیں میدان میں دیکھیں گے۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر یہ بتائیں کہ آپ نے واضح طور پر بتا تو دیا کہ جے یو آئی کہاں کھڑی ہے، اب جو ایک بات ہے وہ یہ ہے کہ آئندہ آنے والے وقت میں جو الیکشن ہے اس میں کے پی کے اور بلوچستان، میں ذرا اس پہ آجاتا ہوں کہ اس پہ جے یو آئی کیا اس پوزیشن پہ ہے کہ وہ حکومت بنائے اور کیا وجوہات ہیں سر سندھ بلوچستان اور کے پی کے میں تو ہم جے یو آئی کی بڑی موجودگی دیکھتے ہیں اور سب سے بڑا جو صوبہ ہے پنجاب اس میں جے یو آئی وہاں عوامی لیول پر اتنی پذیرائی اس کو کیوں نہیں ملی سر ؟
مولانا فضل الرحمٰن: آپ نے ایسا سوال کیا ہے جس کے جواب دینے میں تھوڑی مجھے ذرا مشکل محسوس ہو رہی ہے، پنجاب میں کچھ ہماری جماعتی سطح پہ کچھ تنظیمی کمزوریاں ہیں، وہ اس کا بنیادی وجہ رہی ہے اب ہم اس کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان شاءاللہ ہو جائیں گے دور تو پنجاب میں بھی آپ کو جمیعت علمائے اسلام بڑے متحرک نظر آئے گا ان شاءاللہ کیونکہ پبلک تو ہے لیکن ان کو ذرا اٹھانا متحرک کرنا اس کو میدان میں لانا اس کے لیے کچھ محنت کی ضرورت ہوگی۔

ڈاکٹر دانش: میاں نواز شریف صاحب ناراض ہو جائیں گی ذرا آپ سے
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں کیوں ناراض ہوں گے ہم ان شاءاللہ امید رکھتے ہیں کہ ان شاءاللہ ہم مل کر چلیں گے ان شاءاللہ 

ڈاکٹر دانش: لیکن اگر آپ نے اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا اور پی ایم ایل این کا ووٹ بینک کم ہوا تو وہ ناراض نہیں ہوں گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ہمارے ووٹ بینک سے وہ ان شاءاللہ ناراض ہوں گے ۔

ڈاکٹر دانش: عمران خان بھی ناراض ہو سکتے ہیں کہ بھئی ان کا ان کا ووٹ بینک آپ لیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن: ہمارے لیے خیر اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر سندھ کے اندر دیکھنے کو آرہے ہیں آپ نے پہلے بھی اتحاد جے یو آئی کا ہم نے دیکھا پاکستان پیپلز پارٹی کے اگینسٹ بڑا مضبوط اتحاد ہم دیکھ رہے ہیں جن میں جے یو آئی بھی ہے، فنکشنل بھی ہے، جی ڈی اے بھی ہے اور ایم کیو ایم بھی ہے قوم پرست جماعتیں ہیں تو کیا سر پیپلز پارٹی کے خلاف آپ نے پورا یہاں محاذ بنا لیا ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: بہرحال اس کی وجہ ہم نہیں ہیں اور شاید اس میں خود پیپلز پارٹی کے اپنے رویوں اور ماضی کے اس کے جو ہم جمیعت علماء کے حوالے سے ان کا جو روش رہی ہے کچھ اس کا بھی اس میں دخل ہوگا اور اس وقت بھی ہمیں کوئی ان کے رویوں میں کوئی زیادہ بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ہرچند کے وہ کہتے ہیں کہ آؤ بیٹھیں بات کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن آپ کو پتہ ہے جی کہ ہم نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں جتنا بھی کام کیا ہے سندھ میں، تو اس میں اینٹی پیپلز پارٹی نے زیادہ ہمیں سپورٹ کیا ہے جی تو اب انتخابی جو سٹریٹیجی ہے وہ ہم زیادہ تر مرکز کی سطح پہ نہیں بنایا کرتے، ہم صوبوں کی جماعتوں کے حوالے کرتے ہیں، صوبے بھی آگے ضلعی جماعتوں کے حوالے کر لیتے ہیں تاکہ لوکل سطح پر جس بھی پارٹی کے ساتھ آپ کی ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے اور اپنے سیٹوں کو محفوظ بنانے کے لیے تو ہم ان کے سپرد کر دیتے ہیں کہ آپ یہ ایڈجسٹمنٹ کیا کریں تو اتنا بھی کوئی شدید انداز سے ہمارا رویہ نہیں ہوتا لیکن اب بہرحال حالات ہوتے ہیں اس وقت جہاں تک رابطے کا تعلق ہے تو زیادہ تر رابطہ ہمارا جو ہے یہ ہماری جی ڈی اے اور اس میں شامل جماعتیں۔ 

ڈاکٹر دانش: کل اگر پیپلز پارٹی سندھ، صوبہ سندھ یا چلیں یہیں لے لیتے ہیں پہلے کہ یہاں بھی اگر پی ٹی آئی آپ کے ساتھ کھڑے ہونا چاہے اتحاد کا حصہ بننا چاہے جو بھی پی ٹی آئی اس وقت ہے تو کیا آپ اس کو بھی اتحاد کا حصہ بنائیں گے؟
مولانا فضل الرحمٰن: پی ٹی آئی کو تو پاکستان میں ہی نہیں ہونا چاہیے آپ کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ اتحاد کریں یہ پاکستان کی جماعت ہی نہیں ہے ۔

ڈاکٹر دانش: لیکن سر وہ میں ایک جگہ سن رہا تھا بلکہ منظور وسان صاحب کا بیان آگیا تھا کہ پیپلز پارٹی ہو سکتا ہے کہ آئندہ چل کے پی ٹی آئی سے اتحاد کرے تو ایک بڑی سیاسی جماعت جو کہ آپ کا اتحاد کا حصہ رہی
مولانا فضل الرحمٰن: وہ کسی کو بلیک میل کر رہے ہیں کسی کو بلیک میل کر رہا ہے ورنہ ان کی بھی کیا دلچسپی ہو سکتی، جو میں کہہ رہا ہوں آپ سے وہی وہ کہتے رہیں میرے ساتھ بیٹھ کر 

ڈاکٹر دانش: دیکھیں سر اب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ کل تک آصف زرداری اور بلاول بھٹو صاحب کا یہ سٹیٹمنٹ تھا کہ اگلے حکومت ہماری آرہی ہے اور ایسا تاثر بن رہا تھا لیکن ابھی کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے بلاول بھٹو صاحب کا بیان ہے ہمیں اوپن فیلڈ نہیں دی جا رہی ہے بلینک فیلڈ نہیں دی جا رہی ہے اور اگر زرداری صاحب سے ہم ریکویسٹ کریں گے کہ ہمارے ہاتھ اوپن کیے جائیں تو سر ایک بڑی سیاسی جماعت ہے پیپلز پارٹی، تو کون لوگ ان کو اوپن فیلڈ نہیں دے رہے ہیں اپ کیا سمجھتے ہیں کیا وجوہات ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن: میں اس وقت کوئی آپ کو جواب نہیں دے سکتا کیونکہ میں کبھی بھی کسی کے گھر میں نہیں جھانکتا، مجھے ان کی پارٹی کے حوالے سے کس سے ان کو شکایت ہے اور کیا وہ اپنی سٹریٹجی بنائیں گے یہ ان کا اپنا معاملہ ہے اور بہرحال ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے تو اتنا میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ ذرا اپنے حجم سے ذرا بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں ۔

ڈاکٹر دانش: پیپلز پارٹی والے یا بلاول صاحب؟
مولانا فضل الرحمٰن: یہ دونوں ہی کر رہے ہیں ۔

ڈاکٹر دانش: لیکن سر یہ کیا آپ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے یہ ضرور مطالبہ نہیں کریں گے غیر سیاسی جماعت کو پلینگ فیلڈ ملنی چاہیے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: اگر ان کا حجم بڑا ہوتا تو کم از کم وہ کچھ بھی کہہ سکتے تھے لیکن پی ٹی آئی کی بات نہ کررہے ہوتے۔

ڈاکٹر دانش: تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ہم یہ محسوس کریں کہ سر اگر اتحاد کی ضرورت سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنی تو جے یو آئی پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی پی ایم ایل این کے ساتھ کرے گی اور اگر کل حکومت بنے گی اقتدار کی بات آئی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں کرے گی پی ایم ایل این کے ساتھ کرے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن: میں اس طرح وضاحت نہیں کروں گا ممکن ہے کہیں پر ایسی جگہ ہو کہ جہاں پر مسلم لیگ کی قوت کمزور ہو تو ہم نے تو پھر اپنے سیٹ کا تحفظ کے لیے سوچنا ہوگا کہیں پر پیپلز پارٹی کی حکومت ایسی ہو سکتی ہے کہ اگر ہم ان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کریں تو ہماری پارٹی پوزیشن محفوظ ہو سکتی ہے جی، تو اس میں ہم نے سپیس رکھا ہوا ہے اتنا بھی بندشیں نہیں ہیں کہ ہم کوئی بالکل حتمی طور پر یہ طے کر رہے ہیں ہاں عمومی طور پر ملک میں جو ایک نظریاتی ہم آہنگی ہے خاص طور پر پاکستان ایک رائٹ ٹیسٹ یا رائٹ ونگ پاکستان ہے وہ جنرل مشرف کے زمانے سے کیوں ایک لیفٹ ٹسٹ پاکستان نظر آرہا ہے ایک اسلامی پاکستان اس کے مقابلے میں پاکستان ایک سیکولر پاکستان کیوں نظر آرہا ہے یہ وہ چیزیں ہیں کہ جس میں ہم اپنے آپ کو سمجھ جائیں کہ مسلم لیگ اس تصور میں ہمارے قریب ہے ۔

ڈاکٹر دانش: ٹھیک ہے سر تو یہ بتائیں یہ کے پی کے جو موجودہ صورتحال ہے اس میں اے این پی کھڑی ہوئی ہے اب ایک نئی سیاسی جماعت مرج کر کے آئی ہے اس کا نام پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین ہے ایک جلسہ انہوں نے بڑا بھرپور کیا ہے اور دعوی بھی ہے کہ اور وہ لوگ شامل ہیں جو دو دفعہ اس حکومت کا حصہ رہے یعنی وزیراعلی محمود صاحب بھی ہیں پرویز خٹک صاحب بھی ہیں کیسے دیکھتے ہیں پی ٹی آئی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کو آیا وہ کل آپ ان سے اتحاد کر سکتے ہیں سر وہاں ؟
مولانا فضل الرحمٰن: پہلے تو ہم ذرا ان کو جانچ رہے ہیں ابھی تک ان پہ ہمارے نظر ہے کہ وہ اپنے گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں یا کسی دوسرے کے گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں جب ہم دیکھیں گے کہ وہ اپنے گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں تو پھر اس کے بعد پتہ چلے گا کہ ان کے سامنے پانی کتنا ہے ۔

ڈاکٹر دانش: تو آپ کو نظر آجاتا ہے گھاٹ ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ہاں نظر آجاتا ہے پہچان لیتے ہیں ۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر یہ مجھے بتائیں کہ عمران خان صاحب کو مستقبل ہے اب ہم کیا دیکھ رہے ہیں ؟
مولانا فضل ارحمٰن: بس وہ تحریک تاریک ہے۔ تاریک ہے بالکل اندھیرا ہی ہے ۔

ڈاکٹر دانش: وہ جو پاپولرٹی تھی سر ان کی کچھ وہاں کھڑی ہے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں مصنوعی تھی مصنوعی ختم ہو جاتی تھی ۔

ڈاکٹر دانش: تو ان کے اوپر جو کیسز ہیں آپ اس بنیاد پہ کہہ رہے ہیں یا لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا 
مولانا فضل الرحمٰن: آپ نے میری پوری سیاست دیکھی ہوگی کہ میں نے کبھی کسی پارٹی کے کیسز کا سوال نہیں اٹھایا جی اور نہ میں نے ایشوز تلاش کیے ہیں کہ میں اپنی پاپولرٹی کے لیے ایشوز تلاش کروں، کچھ پارٹیاں ہیں آپ کو نظر آتی ہوں گی کہ وہ اپنے پاپولرٹی کے لیے کوئی ایشو کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی چیز ہمیں مل جائے اور ہم اس کے اوپر کوئی ہڑتال کی اپیل کر دے، کوئی جلسہ کر لیں، کوئی اپنا مظاہرہ کر لیں، کوئی دھرنا کر دیں، جو پارٹی ایشوز کی تلاش میں ہوتی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ الحمدللہ ہم ایسی جماعت نہیں ہے کہ ہم اپنے نظریے کے اساس پہ کھڑے نہیں ہیں، جمیعت علماء کا اپنا منشور ہے، اپنا نظریہ ہے، اپنی بنیاد ہے، اپنی اساس ہے اور ہم ملک کو مجموعی صورتحال کے حوالے سے دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ وقتی جنگیں لڑنا کوئی ایک قوت جو ہے وہ ذرا مشکل میں آجائے عدالت کا مسئلہ ہو جائے، کبھی فوج کا مسئلہ ہو جائے، کبھی جرنیلوں کا مسئلہ ہو جائے، کبھی اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہو جائے، ہم ایسی چیزوں کو تلاش کر کے پھر اسی کی بنیاد پر ہمیں مجموعی طور پر ملکی آئین کے حوالے سے سوچنا ہوتا ہے، الیکشن ہونا آئین کا تقاضا ہے اور اگر وہ غلط ہوتے ہیں تو اس پھر احتجاج ہمارا حق ہوتا ہے، ہم نے کئیں ہیں اور کوئی ایسا موقع آپ نے نہیں دیکھا ہوگا کہ ہم نے کوئی چھپ کر سیاست کی ہو ہم بڑے خودداری کے ساتھ سیاست کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر دانش: عمران خان اگر جیل میں ہے تو آپ سمجھتے ہیں پی ٹی آٸی ختم ؟
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں جیل کی بات میں نہیں کر رہا اسی لیے تو میں زیادہ آپ کے سوالات کو اوائیڈ کر رہا ہوں کہ عمران خان جیل میں ہے اور دشمن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں اور میرے ہاتھ کھلے ہوئے ہوں اور میں پھر اکیلا میدان میں ہوں ۔
ڈاکٹر دانش: آپ کیوں نہیں بلا لیتے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: وہ ہے قانون کا معاملہ، میں قانون کے راستے میں تو رکاوٹ نہیں ہوں، کل میں بھی کسی قانون کے زد میں آسکتا ہوں میرے خلاف بھی قانون حرکت میں آسکتا ہے، آپ کے خلاف بھی آسکتا ہے وہ میرا مسٸلہ نہیں ہے لیکن میں کسی سیاستدان کے جیل میں رہنے کے مزاج کے مطابق حق میں نہیں ہوتا اور جب میرے ہاتھ کھلے ہوں تو پھر اس کی بھی ہاتھ کھلے ہوں تاکہ کھلے میدان میں ہم بات کریں اور جب وقت آئے گا تو ہم ان شاءاللہ آئندہ بھی کھلے میدان میں کریں گے ۔

ڈاکٹر دانش: وہ وقت آئے گا جب وہ کھل کے باہر آئیں گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: اگر آگئے مجھے کوئی اعتراض نہیں مجھے کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا ۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر ملک سے اگر باہر بھیج دیا جائے ان کو ایک ایک بات چیت ہو رہی تھی کہ جی عمران خان صاحب اب سیاست نہیں کریں گے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: پہلے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کا آپ کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط کہ ان کی رائے آجائے گی پھر بات کریں گے ۔

ڈاکٹر دانش: تو نواز شریف بھی تو گئے تھے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: وہی کہہ رہا ہوں کہ ان سے ہی پوچھا جائے نا، عمران خان سے کہ آپ نے جو ان کو بھیجا تھا وہ صحیح ہوا تھا یا غلط ہوا تھا، اس کے بعد ہی ہم تبصرہ کرینگے نا

ڈاکٹر دانش: سر ایک دفعہ پہلے بھی شریف صاحب چلے گئے تھے اور ان کو تو اگر اس طرح سے کوئی ان کو لے جائے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو باہر جانا چاہیے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: باہر کس چیز کے لیے جانا چاہیے یعنی اس کا معنی ہے کہ ایک سودے کی بنیاد پر، آپ کو پتہ ہے نواز شریف صاحب جو ملک سے باہر ابھی نہیں گئے تھے تو میرا شدید اختلاف رائے تھا ان کے ساتھ، لیکن جب ملک سے باہر گئے تو میں نے اسے جھگڑا چھوڑ دیا جی اور جدہ میں میری پہلی ملاقات ان کے ساتھ ہوئی تھی اور پھر آج تک وہ ملک سے باہر ہیں ۔

ڈاکٹر دانش: مولانا صاحب، نواز شریف صاحب اگر ملک سے باہر جا سکتے ہیں سزا ہونے کے بعد، تو عمران خان بھی تو جا سکتے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن: یہ میرا کام نہیں ہے میں تو عمران خان کو اور اس کی پارٹی کو اس کے منشور کو اس کے ایجنڈے کو نہ پاکستانی سمجھتا ہوں اور نہ سمجھوں گا اور اگر اس کو ووٹ بھی مل جائے تب بھی ایکسپوز کرتا رہوں گا کیونکہ میں نظریاتی آدمی ہوں اور میں اپنے نظریے پر کبھی سودا نہیں کروں گا ۔

ڈاکٹر دانش: تو ان کے لوگوں کے حوالے کر دینا جن کے بارے میں ان پہ الزام ہے کہ جی وہ اس کے آدمی ہیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن: یہ ملک سے باہر جانے میں کیا حکمت ہے ذرا مجھے بتایا جائے نا، اس میں کیا حکمت ہے ؟

ڈاکٹر دانش: حکمت صرف اتنا ہے کہ ایک شخص اگر یہ کہتا ہے کہ بھائی جس طریقے سے کوئی سیاسی مثلا کوئی میاں نواز شریف صاحب کو جب سزا ہوئی تو ان کو باہر بھیج دیا گیا کوئی اگر وہاں سے کوئی ڈیمانڈ کرے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: انہوں نے جو خود فیصلہ کیا وہ تو پہلے بتائے نا کہ اس نے صحیح کیا ہے یا غلط کیا، اس کو وہ صحیح کہہ رہا ہے یہ غلط کہہ رہا ہے۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر میاں نواز شریف صاحب آرہے ہیں آپ کیا سمجھتے ہیں یہاں بھی آپ کا یہ سوال ہے کہ قانونی جو پیچیدگیاں ہیں مسائل ہیں، میاں نواز شریف صاحب کو فیس کرنا پڑے گا، اس کے بعد ہی وہ چوتھی دفعہ وزیراعظم کے لیے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ایک ہے اصول کی بات اور ایک ہے اس اصول کے تابع جو کچھ جزیات ہوتی ہیں، کچھ گراؤنڈ پر موجود کچھ مسائل ہوتے ہیں، جہاں تک ہے ان کا آنا موسٹ ویلکم، ان کا اپنا وطن ہے ہم دل و جان سے ان کو خوش آمدید کہیں گے، باقی رہی یہ بات کہ ان کے کیسز قانون وہ اس حوالے سے خود بہتر جانتے ہیں میں چونکہ اس کے بارے میں کوئی سٹڈی نہیں رکھتا وہ ان کے وکیل ہیں ان کی پارٹی ہے ان کے ٹیم ہے وہی اس کے بارے میں پھر اپنا فیصلہ دے سکتی ہے ۔

ڈاکٹر دانش: تو آپ سمجھتے ہیں سر کہ میاں نواز شریف صاحب اگر کل یہاں اترتے ہیں اور قانون حرکت میں آتا ہے اور یقینا قانونی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جو ان کا تاحیات نااہلی اس کے اوپر دو پوائنٹ آف ویو آتا ہے ایک سمجھتے ہیں کہ شاید ختم ہو گیا الیکشن ایکٹ 2017 میں امینڈمنٹ ہوا ہے دوسرا یہ سمجھتے ہیں کہ ریویو اینڈ ججمنٹ کے حوالے سے ان کو ریلیف نہیں ملتا ہے پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشنز کا کیس ہے یہ جہانگیر ترین کا بھی ان کا بھی اور کل ان کو جیل بھیجا جاتا ہے اور قانون اب حرکت میں آتا ہے تو جے یو آئی کا اس میں کیا رول ہوگا ؟
مولانا فضل الرحمٰن: میں تو حضرت اس فیصلے کی بھی خلاف ہوں جس میں ان کو جیل بھیجا گیا تھا اور اب چونکہ ایک فیصلہ ہے فیصلہ جب ہو جاتا ہے تو پھر اس کا مالک تو پھر وہی ہوگا جس نے فیصلہ دیا ہے تو یہ تو کورٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ میرے اور آپ کے اوپینین میں فرق ہو سکتا ہے لیکن اس کا کوئی معنی نہیں ہے تب تک کے عدلیہ جو ہے وہ خود اپنی رائے اور فیصلہ نہ دے دے تو ممکن ہے کہ ایسی صورتحال اگر برقرار رہتی ہے تو حتمی فیصلہ پھر بھی کورٹ کا ہی ہوگا جی ۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر آپ کے لیے اگر ایک ایسا کیونکہ آپ نے شہباز شریف صاحب کے ساتھ بھی کام کیا ہے آپ نے نواز شریف صاحب کے ساتھ بھی کام کیا ہے دونوں کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اگر ایک ایسا موقع آجاتا ہے کہ کہ پی ایم ایل این کی دو وزیراعظم کے کینڈیڈیٹ بن جاتے ہیں میاں نواز شریف صاحب یا شہباز شریف صاحب تو مولانا فضل الرحمن صاحب کس کی طرف ووٹ کا پلڑا اپنا بڑھائیں گے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ایسا لمحہ آئیگی بھی نہیں اس کی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے یہ میں نے تو نہیں کرنا ہوگا جی جو بھی اس کی پارٹی کی طرف سے امیدوار آئے گا اسی طرح ہمارا تو معاملہ پارٹی ٹو پارٹی ہوگا ۔

ڈاکٹر دانش: لیکن آدمی کو خوشی تو ہوتی ہے نا سر، تو آپ کے لحاظ سے کون بہتر وزیراعظم ثابت ہو سکتے ہیں سر ابھی آپ شہباز شریف کے ساتھ 
مولانا فضل الرحمٰن: میں خود بہت وزیراعظم ثابت ہوسکتا ہوں ۔

ڈاکٹر دانش: چلیئے میں اگلا کوسچن آپ سے پوچھ لیتا ہوں بہت ہی امپورٹنٹ ہے، صدر علوی صاحب نو ستمبر 2023 کو ان کا سورج غروب تو ہو چکا ہے لیکن الیکٹرو کالج نہیں ہے تو اس لیے وہ ابھی آگے بڑھ رہے ہیں بونس پہ کام کر رہے ہیں آگے چل کے جب الیکٹرو کالج آتا ہے تو اس کے بعد ایک نئے صدر کے لیے ہوگا بہت سارے لوگ ایک نام دیتے ہیں وہ ہے مولانا فضل الرحمن جے یو آئی کے سربراہ کا، آپ کیا سمجھتے ہیں سر کہ ایسے موقع پہ آپ اپنے آپ کو وہاں ریکمنڈ کرتے ہیں اور پھر آپ ان تمام اتحادیوں کے ساتھ جن کے ساتھ آپ نے کام کیا ہے آپ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ آپ کو ووٹ دیں گے سر ؟
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں میں خود کیوں اپنے آپ کو ریکمنڈ کروں گا میری پارٹی ہے اگر پارٹی ڈیمانڈ کرتی ہے تو ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے لیکن ہر پارٹی آندھی تو نہیں ہوتی اس نے دیکھنا ہوتا ہے کہ میرا الیکٹرو کالج میں ووٹ کتنا ہے کیا میں اس ووٹ کے ساتھ اس گھر میں جا سکتا ہوں یا نہیں جا سکتا جی وہ ساری چیزیں اس معیار پہ دیکھنے ہوتی ہے ان حقائق کی بنیاد پر دیکھنے ہوتی ہے تو ایسی اگر صورتحال بنتی ہے کہ ہمارے الیکٹرو کالج جو ہے وہ موجود ہو اور اس میں ہماری ایک سٹرنھ بنتی ہو ظاہر ہے کہ ہماری اپنی سٹرنتھ تو اتنی نہیں ہوگی لیکن اپنے اتحادیوں اور دوستوں کی جو صورتحال ہوگی اسی کو سامنے رکھتے ہوئے تو پھر پارٹی کا اس حوالے سے مطالبہ کرنا کوئی ناجائز تو نہیں ہے ۔

ڈاکٹر ہلال: تو سر آپ سے امید رکھتے ہیں کہ آپ کے وہ جو اتحادی ہیں وہ آپ کو سپورٹ کریں گے کوئی خاص پارٹی 
مولانا فضل الرحمٰن: یہ تو ان سے پوچھیں گے مجھے تو ابھی تک جب تک میں اس پوزیشن میں نہیں آتا یا میری پارٹی اس پوزیشن میں نہیں آتی میں ایسی بات کیوں کروں۔

ڈاکٹر دانش: چلیں میں سر اگلا سوال پوچھ لیتا ہوں اور وہ یہ پوچھتا ہوں کہ سر دو وزیراعظم کے کینڈیڈیٹ آگئے پارلیمنٹ میں ایک شہباز شریف ہے اور ایک بلاول بھٹو ہیں آپ کا ووٹ کدھر جائے گا اس کا فیصلہ تو آپ کر سکتے ہیں سر
مولانا فضل الرحمٰن: ان شاءاللہ میں پھر اس صورت میں ووٹ شہباز شریف کا ساتھ دونگا، ہمارے اتحادی ہیں ابھی بھی ہم اتحادی ہیں آپس میں اور 
ڈاکٹر دانش: سر بلاول بھٹو ایک نیا چہرہ ہے نیا فیصلہ ہے نئی امنگ ہے
مولانا فضل الرحمٰن: ابھی وقت ہے ابھی وقت ہے میں یہ ان کی نفی نہیں کررہا ہوں لیکن ابھی بیچ میں وقت ہے ۔

ڈاکٹر دانش: تو شہباز صاحب نے تو کر لیا سر 
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں ابھی کام بہت کام باقی ہے بہت سنجیدہ کام باقی ہے ہمارے لیے اور اس سنجیدہ کام کے لیے اتنا ہی تجربہ اتنی ہی میچیورٹی کی ضرورت ہے

ڈاکٹر دانش : کیا آپ ریکمنڈ یہ تو کر سکتے ہیں اپنے دوست کو کہ میاں صاحب ادھر آجائیں آپ کیونکہ ووٹ بینک تو آپ کا ہے لیکن ایڈمنسٹریٹو تجربہ اور ان کا جو ان کی سولہ مہینے میں وزیراعظم کی حیثیت سے ان انکا کام بھی بڑا اچھا، ان کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بڑا زبردست انٹریکشن رہا ہے ان کے کچھ منسٹرز جو ساتھ اب سابقہ منسٹرز ہیں پی ایم ایل این کے، ان میں سے چند کئی تو یہ خیال ہے کہ آئندہ بھی اگر پی ایم ایل این کا کینڈیڈیٹ میاں نواز شریف صاحب آں بھی جائیں تب بھی وزیراعظم جو ہے وہ شہباز شریف صاحب کو ہونا چاہیے ۔
مولانا فضل الرحمٰن: ڈاکٹر صاحب میرے سے کیا تعلق ہے پارٹیوں کے اندر میں نے اس سے پہلے بھی کہا کہ نہیں جھانکا کرتا، پارٹیاں خود فیصلہ کرتی ہے مسلم لیگ نے فیصلہ کرنا ہے اور جس کا بھی فیصلہ کرنا ہے ۔

ڈاکٹر دانش: اچھا مریم کو کیسے دیکھتے ہیں سر ؟
مولانا فضل الرحمٰن: مریم اس نے ایک اچھے پولیٹیشن کا ایک مظاہرہ تو کیا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں ہے اور میاں صاحب کی غیر موجودگی کو انہوں نے کور کیا ہے صحیح معنوں میں انہوں نے بہر حال کور کیا ہے ۔

ڈاکٹر دانش: تو میاں صاحب چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کی بجائے اپنی بیٹی کو اگر وزیراعظم کے کینڈیڈیٹ کی ضرورت
مولانا فضل الرحمٰن: نہیں انہوں نے بیٹی کو نہیں بنانا پبلک نے ان کو بنانا ہے جس کو بنائے گی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کسی کو بنانا ہوتا ہے یہ جو ہم شخصیات کی طرف چلے جاتے ہیں کہ میں نے کسی کو وزیراعظم بنانا ہے یا آپ نے کسی کو تو میں اس لیے آپ کو کہا نا کہ پھر میں خود اپنے آپ کو وزیر اعظم کیوں نہ بناؤں۔

ڈاکٹر دانش: موروثیت کی سیاست تو ہمارے ہاں اتنی زیادہ ہے کہ اس سے باہر ہم نکلتے ہی نہیں ۔
مولانا فضل الرحمٰن: موروثی سیاست نہیں ہوتی جی
ڈاکٹر دانش: دیکھیں نا بھائی ہیں سر حمزہ وزیراعلی بنتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن: بہت اچھی بات ہے اگر ایک خاندان کو اتنی قبولیت حاصل ہے کہ عوام جو ہے اس خاندان کے افراد کو قبول کرتے ہیں، یہ موروثیت موروثیت یہ تو مغرب کا تصور ہے، مغرب میں چونکہ وراثت ہے نہیں، پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا خاندان کیا ہے، وہ خاندانی زندگی ٹوٹ چکی ہے اور ہم پیروکار ہیں ان کے، جو اصطلاح وہاں سے آتی ہے جو تصور وہاں سے آتا ہے ہم دل و جان سے اس کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں، میرے خیال میں نہ انبیاء کا یہ سنت ہے اور نہ ہمارے اسلاف کی یہ سنت ہے، اگر کہیں پر اولاد باصلاحیت ہو ان کے نظریات کا حامل ہو اور اس کے تابعداری میں اس کی راہ پہ چلتے ہو، تو پھر جو اعتماد وہ حاصل کر سکتا ہے بڑوں کے نسبت کی وجہ سے کہ وہ نسبت بھی تو کام کر رہے ہوتے ہیں نا جی ہاں اگر وہ نہ ہو تو پھر نہیں پھر نہیں۔ 

ڈاکٹر دانش: اچھا سر یہ ایک بتائیے کہ جنرل عاصم منیر پچھلی حکومت میں بھی انہوں نے بڑا اہم کام کیا اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل خود وزیراعظم نے کہا کہ ان کا ویژن تھا اور یہ جو نگران حکومت ہے اس کے ساتھ بھی مل کر وہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
مولانا فضل الرحمٰن: دیکھئے ہمیں کچھ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا چاہے اصولی طور پر آپ اس سے اتفاق بھلا نہ کرے لیکن کچھ حقائق ہیں جس کو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی مستقل ایک قوت ہے اور ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار اس وقت زیادہ نمایاں سامنے آجاتا ہے جب کوئی غیر مستحکم حکومت ہوتی ہے یا عارضی حکومت ہوتی ہے یا نگران حکومت ہوتی ہے تو ایسی حکومتوں میں اس کا زیادہ رول سامنے آتا ہے، اب یہ تو ایک حقیقت ہے کہ پاکستان معاشی مشکلات میں تو ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں ہے اگر وہ اس حوالے سے ان حالات میں ایک کردار ادا کرتے ہیں جو کہ ایک نگران حکومت ہے، ایک کمزور حکومت ہے، ایک تھوڑی مدت کے لیے ہے اور اس میں وہ پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر لیتے ہیں تو کس کو قابل قبول نہیں ہے وہ کون چاہے گا کہ ہمارے ملک کے حالات بہتر نہ ہوں، تو اس حوالے سے ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ایک حیثیت ہوتی ہے ہم چاہیں نہ چاہیں اس پر کوئی رول نہ ہو وہ اپنی جگہ پر ہے لیکن پاکستان کو اس وقت اس طرح کے ایک رول کی ضرورت ہے اگر وہ اس طرح کا رول ادا کرتے ہیں اور ملک کو ان حالات سے نکالنے میں پیش رفت کرتے ہیں جو شاید مکمل طور پر تو نہ ہو سکے لیکن پیش رفت بھی بہتر بات ہے ہم نے بھی تو ایک ڈیڑھ سال کے اندر بے پیش رفت کی ہے نا کوئی ایسے تو حالات ہم نے تبدیل نہیں کئیں ہیں ۔

ڈاکٹر دانش: سر وہ کریک ڈاؤن جو کہ اس نگران حکومت میں دیکھنے کو ملا صرف چند دنوں میں وہ ہمیں اتحادی حکومت میں نہیں ملا کیا وجوہات ہیں کہ اتحادی حکومت مافیاز کے خلاف ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سمگلروں کے خلاف کاروائی کرنے سے ڈرتی ہیں یا اس کا حصہ ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: ڈاکٹر صاحب آپ صحافی لوگ ہیں آپ کی جو مرضی ہے جس طرح سوال کریں ہمیں عمران خان کی ساڑھے تین سال حکومت کے حالات ملے تھے اور ان کو ہمارے حالات ملے، تو ہم نے بہتری کی طرف حالات کیے ہیں، ہم نے قرضوں میں ادائیگیاں کئیں ہیں ۔

 ڈاکٹر دانش: بجلی کے بل دیکھئیے سر، گیس کے حالات دیکھ لے سر، روپے اور ڈالر کی حالت، پھر عوام تو مر گٸی ناں سر
مولانا فضل الرحمٰن: بالکل میں 100 فیصد آپ کے ساتھ ہوں، کیوں مر رہی ہے ہاں آپ نے پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا یا آپ کے ہاتھ میں ہے؟ تسلیم کرو اس بات کو کہ حقائق کیا ہیں نمبر ایک، کیا آپ اسٹیٹ بینک کو اس کے حوالے کیا یا نہیں کیا، اب جب آپ کی معیشت بھی آپ کے ہاتھ میں نہ ہو آپ کی قیمتیں بڑھانا بھی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہو ٹیکسز بڑھانا بھی آئی ایف کے ہاتھ میں ہو، نہیں بڑھاتے تو پھر آپ کا اگلا جو ان کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے وہ معطل ہو جاتا ہے دنیا کی امدادیں آپ کے اوپر بند ہو جاتی ہیں پھر آپ کا بینک سٹیٹ بینک وہ نہ وزیراعظم کو جواب دہ، وہ نہ کابینہ کو جواب دہ، نہ حکومت کو جواب دہ، نہ پارلیمنٹ کو جواب دہ، براہ راست آئی ایم ایف کو جواب دہ ہے۔ اس دلدل میں تو ہمیں اس نے پھینکا ہے

ڈاکٹر دانش: وہ سارا بوج اب آپ ہم پہ ڈال رہے ہیں سر اشرافیہ پہ تو نہیں ڈالتے، ذراعت پہ آپ انکم ٹیکس جو ہیں جو
مولانا فضل الرحمٰن: یہ فنی معاملات ہیں اس کو ایکسپرٹس ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں شاید میں اس کا حق آپ کے ساتھ گفتگو کرتے وقت ادا نہ کر سکوں ۔

ڈاکٹر دانش: تو پھر میں عام آدمی کے مسائل میں
مولانا فضل الرحمٰن: میں یہ اعتراف کرنے کو تیار ہوں کہ ہر چند کے صورتحال اگر بہتری کی طرف گئی ہے لیکن عام آدمی تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ چکے ہیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ قیمت کو دیکھیں تو کیا قیمت بڑی ہے یا روپے گرا ہے، جب روپے گرتا ہے تو جو 12 روپے کوئی چیز ملتی ہے 24 میں چلی جائے گی اگر اس سے بھی آگے بڑھتی ہے ۔

ڈاکٹر دانش: سر بجلی کا ایک بل، گیس کا بل، کھانے پینے کی ساری چیزیں، میڈل کلاس ختم ہوچکی ہے، یا تو اشرافیہ ہے یا غریب ہے تو سر اس تمام چیزوں پہ ذمہ داری کیا سیاستدان لیں گے کہ یہ ہماری ناکامی ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: اگر ایک طویل المدت مستحکم سیاسی حکومت وجود میں آئے اور وہ اپنے ٹرن کے اندر کیونکہ طویل المدت منصوبے کے بغیر آج آپ پاکستانی معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتے ہر چند کے غریب آدمی کو صبح اور شام کی روٹی چاہیے وہ یہ نہیں سوچتا کہ آج شام کی میرے پاس اگر روٹی نہیں ہے تو صبح دے دیں گے آپ کو کل دے دیں گے اس کا انتظار نہیں کیا جاتا جی اس میں غریب کی اپنی اہ و بکا وہ بالکل برحق ہے لیکن اگر بیٹا بھی اپنے باپ سے پیسے مانگتا ہے تو بیٹے کا مطالبہ تو ناجائز نہیں ہوتا نا لیکن دیکھنا ہے کہ باپ کی جیب میں کچھ ہے یا نہیں ہے جی تو ریاست کے جیب میں کچھ ہوگا تو پھر عوام کو ملے گا نا

ڈاکٹر دانش: یہ غلطی کس کی ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: صرف عمران خان کی ہے اس کی حکومت میں ساڑھے تین سال میں

ڈاکٹر دانش: ٹھیک ہے سر ان کی ہے لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں صرف عمران خان یا اس کے ساتھ کوئی شریک ہے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: کوئی شریک نہیں ہے یا شریک ہیں اس کے ساتھ تو باجوہ صاحب شریک ہے یا فیض حمید صاحب شریک ہے اسٹیبلشمنٹ ہی اس کے پشت پر تھی اور انہوں نے اس کو اس مقام پر پہنچایا ۔

ڈاکٹر دانش: اچھا سر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی عوام کا اعتماد ابھی بھی سیاستدانوں، میں مختصر سا پھر میں ایک امپورٹنٹ کوسچن کروں گا ۔
مولانا فضل الرحمٰن: میں یہ بات آپ کو واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں آپ عوام کی بات چھوڑیں میں بھی تو عوام میں سے ہوں نا، عوام کو بھی یہی مشورہ دینا چاہوں گا کہ ذرا اپنا زاویہ نظر تبدیل کریں، جو ایک نظریاتی حوالے سے ملک کو چلانا چاہتے ہیں، جو دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کی طرف دیکھتے ہیں، فائدے اور نقصان کے ممالک کو بھی سمجھتے ہیں، ملک کے اندر ان کی کارکردگی چوری اور کرپشن کی نہیں ہے، اور وہ ملک کی معیشت کو بہتر مینج کر سکتے ہیں تو ان جماعتوں کی طرف دیکھیں نا جی

ڈاکٹر دانش: ووٹ آپ کو ڈالتے ہیں نکلتا ہے کہیں اور سے ایسا کیوں، آپ کو کیوں نہیں آنے دیتے ؟
مولانا فضل الرحمٰن: یہی عرض کر رہا ہوں نا کہ جمیعت علماء اگر اتنی مظلوم جماعت ہے کہ اچھی کارکردگی کے باوجود بھی ہمارے اوپر روزانہ کوئی چار پانچ الزامات لگا کر میڈیا میں دے دیتے ہیں اور میڈیا تین چار روز جب اچال کر ہمیں گندا کرتا ہے وہ لوگوں کے پاس منہ میں بطور دلیل کی مل جاتی ہے ان کو، یہ روش اگر ایسی جماعتوں کے ساتھ رہا کون سیاست کرے گا پاکستان میں کون عزت کی سیاست کرے گا میرے تو نہ جاگیر ہے نہ کارخانے ہیں نہ کوئی جائیدادیں ہیں ایک سفید پوش کی طرح زندگی گزار رہا ہوں ملک کے اندر اور سیاست کر رہا ہوں حکمت کے ساتھ کر رہا ہوں کوئی زیادہ میرے اندر وہ ضد والی سیاست بھی نہیں ہے کوشش کرتا ہوں کہ حالات کے ساتھ سمجھ کر ہم آگے بڑھیں ۔

ڈاکٹر دانش: عوام کے ووٹ کا احترام کیا جائے سر جس کو بھی ووٹ دیتے ہیں 
مولانا فضل الرحمٰن: ایک ہے ووٹ دینا یہ عوام کا حق ہے ووٹ دے کر اس سے اختلاف رائے کرنا اس کا بھی حق ہے نا، جب آپ اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں تو اس کا معنی ہے کہ آپ نے قوم کی اکثریتی رائے کو اختلاف کیا ہے نا جی تو جمہوریت نام ہی اس چیز کا ہے پارلیمانی سیاست کہتی ہی اس کو ہیں کہ عوام کی اکثریت کی رائے اور ہوتی ہے لیکن اس سے اختلاف رہا ہے کبھی آپ کو حق دیا جاتا ہے اس کے اس طرح اختلاف رائے کا حق مجھے بھی حاصل ہے

ڈاکٹر دانش: وقت بالکل ختم ہوا چاہتا ہے تشنگی رہی سر بہت سارے سوالات بھی ان شاءاللہ پھر کسی سٹیج پہ مولانا فضل الرحمٰن: ضرور ان شاءاللہ 

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments