جمعیتہ علماء اسلام پاکستان ایک تاریخی تسلسل


جمعیۃ علماء اسلام ایک تاریخی تسلسل


جمعیۃ علماء اسلام تاریخی حقائق کی روشنی میں علمائے حق کے اس سلسلہ کی کڑی ہے جس کا آغاز حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی مساعی سے ہو ا ، جس نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے افکار و نظریات سے نشونما پائی ۔
جس کی جہادی تنظیم کی سر پرسرتی شاہ عبد العزیز دہلوی ؒ ، حضرت سید احمد شہید ؒ ، حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ ، مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور رشید احمد گنگوئی ؒ جیسے اکابر نے فرمائی ۔
جس کی انقلابی جدوجہد کا وسیع ترین نظام شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒ نے قائم کیا اور جس کی علمی ، تبلیغی ، اصلاحی ، تربیتی ، تحریکی و اخلاقی طاقت کو شیخ الہند ؒ کے عظیم رفقاء اور نامور تلامذہ حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوری ، رئیس الاتقیاء حضرت مولانا تاج محمود امروٹی ؒ ، سراج الاولیاء حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری ؒ ، مخدوم العلماء حضرت مولانا فضل واحد َ المعروف حاجی ترنگزئی ، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ، امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کیفایت اللہ دہلوی ؒ ، امام العصرحضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری ؒ ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ، رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ ، مخدوم الامت حضرت مولانا حماد اللہ ہالجیٰ ؒ وغیرہ اکابرؒ وقت نے برصغیر پاک و ہند اور عرب و ایشیاء میں پھیلادیا


آزادی کاحصول اور پاکستان کا قیام
چنانچہ ان بزرگوں کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت ملک و ملت کو برطانوی استعمار کے جابرانہ غلبہ سے نجات ملی اور خطہ پاکستان میں مسلمانوں کی آزادی مملکت و حکومت کی بنیاد پڑ گئی ۔


پاکستان
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی خاطر نئے سرے سے پاکستان کے تمام علماء حق کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جدوجہد فرمائی ۔
چنانچہ 1953ء میں جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا ، جس کے امیر امام الاولیا حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ منتخب ہوئے اور ناظم مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ منتخب کئے گئے ۔ 1953ء میں پاکستان کی پہلی اور اہم ترین دینی تحریک “تحفظ ختم نبوت ” شروع ہوئی جس میں مسلمانوں نے بیش بہا جانی و مالی قربانیاں دےکر لا دینی ذہنیت کو شکست فاش دی اور ختم نبوت کے عقیدہ کے تحفظ کا مستقل مؤقف قائم کر دیا ۔
1954ء میں دوبارہ انتخاب عمل میں آیا ۔ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب ؒ خلیفہ حضرت تھانوی ؒ امیر منتخب ہوئے ۔حضرت مفتی محمد حسن ؒ بوجہ علالت ومعذوری امارت کے فرائض سرانجام دینے سے قاصر تھے ۔آپ نے عارضی طور پر مولانا محمد شفیع ؒکو قائم مقام امیر مقرر فرمایا 1956ء میں حضرت مفتی محمد حسن صاحب ؒ نے حضرت مولانا خیر محمد ؒ خلیفہ حضرت تھانوی ؒکی معرفت ایک تحریری پیغام کے ذریعہ نئے انتخاب کرانے کی ہدایت فرمائی ۔ اسی دوران غلام محمد (گورنر جنرل )کی قائم کردہ دستور ساز اسمبلی نے ایک دستور وضع کرکے پاس کیا اور سکندر مرزا کو (گورنر جنرل )کے حکم سے وہ ملک میں نافذ کر دیا گیا ۔
اس دستور میں اگرچہ تمہید میں تو پاکستان کو اسلامی مملکت اور قانون سازی کے لئے اسلام کو راہنمائی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا ، لیکن اصل دستور میں ایسی دفعات رکھ دی گئی تھیںجن کی وجہ سے ارتداد اور اسلام سے انحراف کا راستہ کھلا رہتا ہے حئیٰ کہ جس دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا،اس دفعہ کی تصریح نمبر 4میں دستور کی دوسری دفعات کو تحفظ دینے کے لئے یہ کہہ دیا گیا کہ اس سے دستور کی بقیہ دفعات متاثر نہیں ہوں گی ۔ اس سے نفاذ دین میں جو مستقل رکاوٹ کھڑی کر دی گئی اور تحریف دین کا جو راستہ کھول دیا گیا تھا اس کے ازالے کے بغیر دستور کا نفاذ زبردست گمرہی کا موجب ثابت ہو سکتا تھا ۔
چنانچہ اس صور ت حال پر غور کرنے کےلئےحضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ امیر اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ ناظم عمومی منتخب ہوئے ۔ دستور کی مخالف اسلام دفعات کو تبدیل کرانے کے لئے ایک کمیٹی کا تقرر کیا گیا ۔ جس نے 1958ء میں دستور ی ترمیم کی تجاویز پر مشتمل سفارشات مرتب کر کے شائع کیں ۔اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگا دیا گیا ۔اس دوران دینی اقتدار کے تحفظ کے لئے نظام العلماء کے نام سے ایک تنظیم قائم کر دی گئی اور جب ایوب خان نے مارشل لا ء ریگولیشن کے ذریعہ عائلی قوانین نافذ کرکے مداخلت فی الدین کا رسوا کن اقدام کیا تو نظام العلماء کے نام سے منسلک علماء نےمساجد اور جلسہ ہائے عام میں اس کے خلاف آواز بلند کی اور حکومت کی دار و گیر کا ہدف بنتے رہے ۔


نظام ا لعلماء کا نیا انتخاب
اس دوران شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کا وصال ہو گیا اور ان کی جگہ حضرت مولانا عبداللہ درخواستی ؒامیر جماعت منتخب ہوئے ۔


مارشل لاء کا خاتمہ اور سیاسی جماعتوں کا احیاء

1962ء میں مارشل لاء ختم کیا گیا ۔ سیاسی جماعتیں بحال ہونے لگیں ۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے بحثیت قائم مقام امیر جمعیۃ کے احیاء کا اعلان کیا ۔اور پھر جمعیۃ کا انتخاب نو عمل میںآیا ۔ حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒامیر اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ ناظم مقرر ہوئے ۔
مشرقی پاکستان میں جمعیۃ علماء اسلام کا قیام
1962ء کے بعد مشرقی پاکستان میں بھی صوبائی جمعیۃ قائم کر دی گئی اور اپنی اپنی جگہ دونوں صوبوں کی جمعیۃ نے سر گرمی کے ساتھ کام شروع کردیا ۔


کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کا انتخاب
حتیٰ کہ مئی 1967ء میں دونوں صوبوں کے نمائندگان جمعیۃ لاہور جمع ہوئے اور کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کا مرکزی انتخاب عمل میںآیا ۔ مندرجہ ذیل حضرات مرکزی عہدہ دار منتخب ہوئے ۔


مرکزی عہدہ داران
امیر مرکزیہ حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد اللہ درخواستی ؒ نائب امیر مرکزیہ نمبر 1حضرت مولانا شیخ بشیر احمد خلیفہ حضرت مدنی ؒ نائب امیر مرکزیہ نمبر 2 حضرت مولانا عبید اللہ انور ؒ (مغربی پاکستان ) ناظم عمومی امرکزیہ حضرت مولانامفتی محمود ؒ ۔
ناظممرکزی نمبر 1 مولانا عارف ربانی میمن شاہی (مشرقی پاکستان ) ، ناظم مرکزی نمبر 2 حضرت مولانا عبد الواحد ؒ گوجرانوالہ (مغربی پاکستان ) ، خزانچی حافظ نصراللہ خان خاکوانی بہاول نگر


لاہور کی تاریخی کانفرنس
3/4/5مئی 1967ء کو لاہور میں کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان تاریخی کانفرس منعقد ہوئی جس میں لاکھوں علماء و مشائخ نے شرکت کی ۔ روزنامہ جنگ کراچی نے لکھا کہ بر صغیر میں علماء کااتنا بڑا جلوس کبھی نہیں نکلا ۔


علماء کا تاریخی جلوس
کانفرنس کے آخری دن کانفرنس میں شریک ہزاروں علماء کرام نے ایک جلوس بھی نکالا جس میں ایوب حکومت کی مخالف اسلام اور عوام کش اقدامات کے خلاف احتجاج کیا گیا اور کانفرنس کے پلیٹ فارم سے حکومت کو کھلا چیلنج دے دیا گیا ۔


سیاسی جمود کا خاتمہ اور عوامی تحریک کا آغاز
جمعیۃ کی اس کا نفرنس کا انعقاد ملکی سیاست میںزبردست انقلابی موڑ ثابت ہوا ۔ اور پورے ملک میں جلسے جلوس منظم ہونے لگے حتیٰ کہ مختلف مراحل سے گزر کر جلدہی ایوب حکومت کا خاتمہ ہو گیا ۔


یحیی ٰ حکومت کا اعلان
یحییٰ حکومت نے اسلام اور عوامی مسائل پر مسلمان عوام کےمطالبات کے مطابق آئندہ پالیسی بنانے کا اعلان کیا ۔


توقع
چنانچہ ایوبی آمریت کے خاتمہ کے بعد نئی مارشل لاء حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ جلد ہی عومی انتخاب کے ذریعہ اقتدار پاکستان کے مسلمان عوام کو منتقل کر دیا جائے گا اور ملک کی سیاسی جماعتوں کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے نصب العین اور پروگرام کو مسلمان عوام کے سامنے پیش کر کے ملک و ملت کی سیاسی خدمات انجام دے سکیں۔یحییٰ خان نے 7 دسمبر 1970ء میں عام انتخابات منعقد کروائے جس میں جمعیۃ علماء اسلام نے بھی حصہ لیا ۔ جمعیۃ علماء اسلام نے مغربی پاکستان میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ عام انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ۔ اجلاس طلب کرنے کے کچھ ہی دن بعد یحییٰ خان نے اقتدار کی ہوس میں ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے التواء کا اعلان کردیا ۔ قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ نے التوا ء کی شدید مخالفت کی اور جلد اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ۔ اجلاس کے التواء سے مشرقی پاکستان میں اس کا شدید رد عمل ہوا جس کے نتیجہ میں فوج کشی کی گئی ۔ جمعیۃ علماء اسلام نے فوج کشی کی سخت مذمت کی اور یحییٰ خان پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی بقاء کی خاطر عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کرے ۔لیکن یحییٰ خان اور اس کے حواری اقتدار کی ہوس میں منتخب نمائندوں کو انتقال اقتدار نہیں کیا جس کا نتیجہ 16 دسمبر 1971ء میںسقوط ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آیا ۔


سقوط ڈھاکہ کے بعد زمام اقتدار پیپلز پارٹی نے سنبھال لی ۔ مرکز کے علاوہ پنجاب اور سندھ میں بھی ان کی حکومت بنی ۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) اور بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی اکثریت تھی جس کے نتیجہ میں قائدجمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ وزیر اعلیٰ بنے ۔ حضرت مولانا مفتی محمود ؒنے وزیر اعلیٰ بنتے ہی جمعیۃ علماء اسلام کے منشور پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کر دیا ۔ شراب پر پابندی عائد کی ، پختون صوبہ ہونے کے باوجود صوبہ کی سرکاری زبان اردو قرار دی ، ہفتہ وار تعطیل اتوار کی بجائے جمعہ کو قرار دیا ، وفاقی حکومت مسلسل جمعیۃ کی حکومت کے خلاف سازشیںکرتی رہی ۔بالآخر بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ اور صوبہ سرحد کے گورنر کو بر طرف کر دیا گیا ۔حضرت مولانا مفتی محمود ؒ نے بلوچستان کی برطرفی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) کی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا جب کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وفاقی حکومت نے حضرت مولانامفتی محمود ؒکا استعفیٰ ایک ہفتہ تک منظور نہیں کیا اور ان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لیں اور بدستور حکومت کریں لیکن (مولانا مفتی محمود ؒ) نے اصولوں کی خاطر اقتدار کو ٹھکرا دیا ۔
وفاقی حکومت کے غیر جمہوری طرز عمل نے سیاسی جماعتوں کو باہم سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا اور متحدہ جمہوری محاذ معرض وجود میں آیا ۔ 1973ء میں متحدہ جمہوری محاذ نے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس میں جمعیۃ علماء اسلام کے کارکنوں کی قربانیاں سب سے بڑھ کر تھیں ۔
1974ء میں ختم نبوت کی تحریک چلی جس میں جمعیۃ کےراہنماؤں اور کارکنوں نے بھر پور حصہ لیا ۔ قومی اسمبلی کے محاذ پرحضرت مولانا مفتی محمود ؒ قافلئہ سالار تھے تو باہر سب سے موثر اور فعال کردار جمعیۃ علماء اسلام کے کارکنوں کا تھا ۔ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر جمعیۃ کے کارکنوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر مرزائیوں (قادیانیوں ) کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔ الحمداللہ
اسی دوران اپوزیشن جماعتوں نے قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کو متفقہ طور پر پارلیمانی قائد منتخب کرلیا ۔
1977ء میں ملک میں انتخابات کا چرچا تھا جس کے سبب متحدہ جمہوری محاذ کو وسعت دی گئی اور پاکستان قومی اتحاد کے نام سے 9 سیاسی جماعتوں کااتحاد معرض وجود میں آیا جس کی قیادت حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کو سونپی گئی ۔

 
1977ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے رد عمل میں ایک عظیم الشان تحریک نے جنم لیا جس میں امت مسلمہ کے عام افراد بھی شریک تھے اور انہی کےجذبہ نے اس تحریک کے نظام مصطفیٰ ﷺ کی تحریک کا نام دے دیا ۔ اس تحریک کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت سے مذاکرات ہوئے ۔مذاکرات میں قومی اتحاد کے نو رکنی وفد کی قیادت حضرت مولانامفتی محمود ؒ نے کی جب کہ حکومتی وفد کی قیادت مسٹر ذولفقار علی بھٹو مرحوم نے کی ۔
یہ مذاکرات کامیابی کے قریب تھے کہ اقتدار کے بھوکے جرنیلوں اور بعض اہل سیاست کی ملی بھگت نے ایک مرتبہ پھر مارشل لاء کا اہتمام کردیا اور 5 جولائی 1977 ء کو ٓ بری فوج کے چیف آف سٹاف جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر اقتدار سنبھال لیا ۔ جنرل ضیا ء الحق نے اپنے اولین خطاب میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کیا ، لیکن انہوں نے انتخابات کروانے کی بجائے اخبارات پر سنسر شپ عائد کر دی اور سیاسی جماعتوں پر سخت پابندیاں عائد کر دیں ۔


ستمبر 1980ء میں جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس منعقدہ لاہور نے قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کو اختیار دیا کہ وہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سیاسی جماعتوں کو وسیع تر اتحاد (بشمول پیپلز پارٹی ) تشکیل دیں ۔ان مساعدہ حالات میں قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒ نے پاکستان کی وحدت اور سالمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بحالی جمہوریت کی غرض سے ایک نئے اتحاد (تحریک بحالی جمہوریت ) کا اہتمام کیا ۔ اس اتحاد کے ڈیکلریشن پر دستخط ہونے سے قبل 14 اکتوبر 1980ء کو جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک علمی مجلس میں ایک بجے دن حضرت مولانا مفتی محمود ؒ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
جمعیۃ علماء اسلام نے وطن عزیز کو اسلامی فلاحی ریاست بنوانے کےلئے آئینی جدوجہد میں بھی اہم کردار ادا کیاہے ۔ اللہ کریم نے اکابرین ؒ جمعیۃ کو اس محاذ پر بھی بڑی کامیابیوں سے نوازا ہے ۔آئین کے مطالعہ سے اکابرین ؒ کی کاوشیں سامنے آتی ہیں اس حوالے سے بطور نمونہ چند شقیںحسب ذیل ہیں ۔
1)      آئین کی آرٹیکل  2 کے تحت پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا ۔
2)     آئین کےابتدائیہ میں انتہائی وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اللہ ہے اور اللہ کے احکام کے مطابق پاکستان کے عوام اپنے اختیارات کو ایک مقدس امانت کے طور پر استعمال کریں گےاور جمہوریت ، آزادی ، مساوات ، تحمل ، درگزر اور معاشرتی انصاف کے اصولوں پر اسلام میں دئے گئے طریقوں کے مطابق عمل کیا جائے گا اور پاکستان کے مسلمانوںکو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق گذار سکیں ۔
3)     آرٹیکل 3 کے مطابق یہ ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ پاکستان کے باشندوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے عین مطابق ہو ۔
4)     آرٹیکل 2 (الف) کے مطابق قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں اسلامی نظام حیات کے مکمل بفاذ کی ضمانت ہے ۔
5)     آرٹیکل ۔227 میں قرار دیا گیا ہے کہ ملک کے مروجہ تمام قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے گا۔
6)     آرٹیکل ۔228 اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام سے متعلق ہے کہ ائین کے لاگو ہونے سے 90 دن کے اندر یہ کونسل تشکیل دی جائے گی ۔ غرض کہ آج پاکستان کے آئین میں عمل درآمد کیا جائے تو یہ ایک مکمل اسلامی فلاحی ریاست ہو گی اور لوگ آسودہ اور خوشحال ہوں گے اور پوری دنیا میں پاکستان اور پاکستانی عوام باوقار اور باعزت ہوں گے اور دنیا ہماری معاشرتی زندگی کی تقلید کرے گی ۔
جمعیۃ علماء اسلام نے اسلام کے نفاذ اور آمریت کے خاتمے کے لئے چلنے والی تحریکات میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ ملک میں آج تک ہونے والے عام انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام نے حصہ لیا اور پارلیمنٹ میں دینی جماعتوں کی مؤثر نمائندگی کی ۔ 2002ء کے عام انتخابات میں جمعیۃ نے دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (جو اکابرین جمعیۃ کی کاوشوں سے وجود میںآیا ) کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 27 نشستیں حاصل کیں ۔ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے ۔صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ ) میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بنی ۔جمعیۃ کے راہنما محترم محمد اکرم خان درانی ایڈوکیٹ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں حکومت نے امن و امان کے قیام ، تعلیم (ایف اے تک مفت تعلیم خواتین کے لئے وومین یونیورسٹیاں ، میڈیکل کالج ) اور صحت سمیت تمام شعبہ جات میں انقلابی اقدامات کئے جس کی مثال ماضی کے 65 سالوں میں نہیں ملتی ۔بلوچستان میں مختلف ادوار میں مخلوط حکومت میں شامل ہو کر جمعیۃ نے تعلیم صحت اور صوبہ کے ترقیاتی منصوبوں میں عملی اقدامات کئے ۔
2008ء کے عام انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام نے تنہا حصہ لیا اور قومی اسمبلی میں دینی حلقوں کی نمائندگی کا اعزاز ایک بار پھر جمعیۃ کو ملا۔جمعیۃ کی یہ کوشش رہی کہ پاکستان کی ایک آزادانہ خارجہ پالیسی ہو اور داخلہ پالیسیاں بھی ملکی مفاد میں بنائی جائیں ۔ چنانچہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن میں حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ نے کیمروں اور تصاویر کے بغیر دلائل سے مزین ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد خطاب فرمایا اس موقع پر اراکین پارلیمنٹ میں سے اکثریت کی آنکھیں پرنم تھیں اور بالآخر پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور داخلہ پالیسیاں ازسرنو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور آئندہ کسی بھی ملک کے ساتھ معائدے کو پارلیمنٹ سے منظوری سے منظوری کے ساتھ مشروط قرار دیا ۔ چنانچہ اس عمل کے ذریعے ملک کے استحکام اور عوام کی خوشحالی و ترقی کا رخ متعین ہوا جو پورے ملک میں ایک انقلاب کی حثیت رکھتا ہے ۔ قومی اسمبلی میں آئین پر نظر ثانی کے لئے تمام جماعتوں پر مشتمل کمیٹی بنی ۔حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب اس کمیٹی کے اہم رکن تھے ۔ کمیٹی میں شامل بعض جماعتوں نے وطن عزیز کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائےعوامی جمہوریہ پاکستان تجویز کیا اور کہاکہ آئین سے پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام کو بھی حذف کیا جائے اور قرار داد مقاصد کو بھی نکال دیا جائے ناموس رسالت ﷺ کے قانون سمیت آئین میں موجود دیگر اسلامی دفعات کے خاتمے کے لئے بھی ترامیم جمع کروادیں لیکن اللہ تعالی ٰ کے فضل و کرم سے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ نے بہترین حکمت عملی سے ایسی سازشوں کو ناکام بنا دیا اور اس حکمت عملی کے نتیجے میں سیکولر ریاست بنانے کے خواب دھر ےکے دھرے رہ گئے ۔


جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت وسرپرستی مختلف ادوار میں شیخ الاسلام پاکستان حضرت مولاناشبیر احمد عثمانی ؒ ، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ ، حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ ، مفکر اسلام فقیہ ملت مولانا مفتی محمود ؒ، مجاہد ملت حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ ، قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد ؒ ، پیر طریقت حضرت مولانا عبد الکریم قریشی ؒ ، خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ، استاذ العلماء حضرت مولانا سید حامد میاں ؒ ، عارف باللہ حضرت مولانا سراج احمد دین پوری ؒ ، یاد گار اسلاف حضرت مولانا محمد عبد اللہ ؒ کے حصہ میں آئی ۔قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ اور حضرت مولانا عبد الغفور حیدری صاحب مدظلہ کی قیادت میں جمعیۃ خداکی دھرتی پر خداکے نظام کے لئے آج بھی مصروف عمل ہے۔

 

 


0/Post a Comment/Comments