قائدملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ
مرکزی
امیرجمعیت علماءاسلام پاکستان
ولادت و تعلیم
مولانا فضل الرحمن 10 ذی الحجہ یوم عیدالاضحی1372ھ مطابق
21اگست 1953ء بروز جمعہ حضرت مفتی محمود کے گھر پیدا ہئے ۔ ابتدائی تعلیم چچا
حلیفہ محمد سے حاصل کی اور پرائمری تک عبدلخیل میں ہی پڑھتے رہے ۔ ۱۹۷۰ء میں پنجاب ایجوکیشن
بورڈ کے تحت امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے ۔ تجوید حضرت مولانا قاری
محمد طاہر رحیمی سے پڑھی علم صرف کی تعلیم حضرت مولانا محمدعیسی ٰ گورمانی سابق
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے ڈیڑہ غازی خان میں حاصل کی ۔19 فروری1972ء
کو آپ نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا اور شعبان 1399 مطابق
جولائی1979ء کو وفاق المدرس کے تحت دورہ حدیث کا امتحا ن دیکر سند فراغت حاصل کی ۔
درس و تدریس
1979ء میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فراغت
حاصل کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے جامعہ قاسم العلوم ملتان سے درس و تدریس کا
آغاز کیا ۔ ایک سال درس و تدریس کے بعد14 اکتوبر1980 کو سفر حج کے دران اچانک
مفتی محمود کا انتقال ہوا جسکی وجہ سے درس و تدریس کا سلسلہ ختم ہو کر رہ گیا اور
مولانا فضل الرحمن کو اپنے عظیم باپ کے عظیم مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے
میدان عمل میں کودنا پڑا۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی طرف سے دستار فضلیت
اللہ تعالیٰ نے مولانا فضل الرحمن کو اس سعادت سے
سرفرازفرمایا کہ ان کے اپنے ہی شیخ نے اپنے زیر استعمال دستار سے ان کی دستاربندی
فرمائی ۔
دستار بندی بطور جانشین مفتی محمود
عبدالخیل میں حضرت مفتی محمود صاحب کی نماز جنازہ سے قبل
لاکھوں کے مجمع میں وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق گورنر سرحد فضل حق اکابرین
علماء اور حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں حضرت سید احمد صاحب سجادہ نشین خانقاہ
یسین زئی نے مولانا فضل الرحمن صاحب کی دستار بندی فرمائی۔
سیاسی زندگی کا آغاز اور پہلا خطاب
دوران طالبعلمی آپ جمعیت طلباء اسلام کے صوبائی صد بھی
رہ چکے ہے، مولانا فضل الرحمان صاحب نے جمعیت طلباء اسلام کے صدر حیثیت سے فعال
کردار ادا کرکے کالجز، یونیورسٹیز اور مدارس میں جمعیت طلباء اسلام کو فعال کیا۔
9 نومبر1980ء کو کراچی کے خالق دنیا ہال میں مولانا مفتی
محمود کی یاد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مولانا فضل الرحمن نے نواب زادہ
نصراللہ خان کی موجودگی میں مارشل لاء کے خلاف واضع موقف اپناتے ہوئے ایک دلنشین
خطاب کیا جس سے آپ کو سیاسی اور جماعتی حلقوں میں اپنے وجود اور شخصیت کے منوانے
میں بڑی حد تک کامیابی ملی۔
سیاست کے وادی پر خار کی ابتداء پہلا سیاسی دورہ
جمعیت علماء اسلام کے صوبائی ناظم مولانا سید
عبدالمالک شاہ کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے عملی سیاست میں آنے کے بعد بار
ایسوسی ایشن شکرگڑھ سے پہلا خطاب کیا جبکہ عوامی رابطہ مہم کے سلسلہ میںپنجاب کا
پہلا دورہ خوشاب سے شروع کیا جس میں سرگودھا اورگوجرانوالہ میں جے یو آئی کے
کارکنوں سے خطاب کیا آپ نے گوجرانوالہ میں اہلسنت والجماعت کے زیر اہتمام ڈویژنل
کانفرنس سے خطاب کیا ۔ (مولانا فضل الرحمن کا سیاسی سفر1/43)
گرفتاریاںاورقیدوبند
کی صعوبتیں
پہلی گرفتاری
مولانافضل الرحمن1974کی تحریک ختم نبوت میں اسو قت
گرفتارہوے جب آپ ملتان میں اپنے سا تھیوں اوراساتذ ہ کو چھڑانے کیلئے پولیس چوکی
پرپہنچے پولیس نے آپ کوگرفتارکرکے رات کوتھانے میں رکھااورپھرجیل بھیج دیا
۔مولانا فضل الرحمن اس وقت اکیس سالہ پر جوش نوجوان اور دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک
کے طالب علم تھے۔ ملتان میں تحریک ختم نبوت کے دوران انہیں سات روز جیل میں رکھنے
کے بعد ضمانت پر رہا کرایا گیا۔ جس کے بعد وہ اکوڑہ خٹک روانہ ہوگئے ۔ لیکن تحریک
میں ان سرگرمیاں جاری رہیں ۔ ساتھ ہی والدمحترم کی جدوجہدمیںشریک ہونے کے باعث
انہیں بے پناہ اعتماد حاصل ہوا۔
ایم آر ڈی کی تحریک
ایم آر ڈی کاقیام اور جمعیت کی شرکت
ملک میں جمہوریت کی بحالی اور مارشل لا کے خلاف4فروری
1981ایک نیا اتحاد وجود میں آیا جس کانام ایم آرڈی رکھاگیا جس میں جمہوری پارٹی
،تحریک استقلال،عوامی نیشنل پارٹی،پاکستان پیپلز پارٹی ،قومی محاذآزادی،مسلم لیگ
قاسم گروپ مزدور کسان پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام شامل تھے ایم آرڈی کے قیام کی
تجویز پر جمعیت علمائے اسلام نے مذکورہ بالا کمیٹی تشکیل دی جس کے بعدجماعت میں
اختلافات ابھر کر سامنے آئے مارچ1981کوجمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کا
اجلاس ہوا جس میں سردار عبدالقیوم خان کا مولانا عبداللہ درخواستی کے نا م ایک
طویل خط آیا اس خط میں یہ احساس دلایاگیاکہ مارشل لا کے خلاف ایم آرڈی کے نام سے
جس اتحاد کی باتیں ہورہی ہیں یہ وہی تسلسل ہے جومفتی صاحب کے زمانے سے چلا آرہاہے
اس لئے آپ لوگ ایم آرڈی کے حق میں ضرور فیصلہ کریںاس خط سے درخواستی صاحب نے
اتفاق نہیں کیا۔سردارصاحب اتحاد کے محرکین میں شمار کئے جاتے تھے لیکن جب اتحاد
ہوا تو اس اتحاد کے چند ہی روز بعد سردارعبدالقیوم خان نے ایم آرڈی کو تحلیل
کردیاکیونکہ ایم آرڈی کے پہلے کنونیئر وہی تھے انہوں نے پی آئی اے طیارے کے اغوا
کوجواز بناکر ایم آرڈی کو تحلیل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایم آرڈی خطرناک عزائم
رکھتی ہے اس لئے اس کو ختم کیا جارہاہے بعد میں ایم آرڈی کو دوبارہ بحال کردیاگیا
جون1982کومولانا فضل الرحمن کی نظر بندی کے دوران جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی
مجلس عمومی کااجلاس ہوا اس میں مولانا عبداللہ د رخواستی کی عدم شرکت کے باوجود
مجلس عاملہ کا اعلان کردیاگیا جس سے ایم آرڈی میں جمعیت کی شمولیت کے متعلق تعطل
ختم ہوگیااور اس کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے یک سوئی کے ساتھ ایم آرڈی کا ساتھ
نبھایا ۔(مولانا فضل الرحمن کا سیاسی سفر1/50)
دوسری گرفتاری
مارچ1977ء کے وسط میں سرحد اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر
قومی اتحاد نے پشاور میں سرحد اسمبلی کا گھیرائو کا اعلان کرتے ہوئے تمام راستے
بند کردیئے مولانا فضل الرحمن اس وقت اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم تھے اور موقوف علیہ
پڑھ ڑہے تھے جس روز اسمبلی کا گھیرائو تھا۔ وہ مردان میں تھے اور وہاں سے پشاور
پہنچے۔ پولیس نے اسمبلی ہال جانے والے راستے بلاک کررکھے تھے تاکہ عوام نہ پہنچ
سکیں لیکن لوگ مختلف راستوں سے ہوتے ہوے یونیورسٹی چوک پہنچ گئے جہاں بہت بڑا جلسہ
ہوا۔ جس کے بعد احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس یونیورسٹی ٹائون سے لے کر
پشاورشہر تک کئی میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ پولیس عوام کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ
کرسہمی ہوئی تھی اور سامنے کھڑی تھی۔ مولانا ایوب جان اور مولانا عبدالباری جان جے
یو آئی سرحد کے رہنما تھے ۔ جو بڑھاپے کے باعث پیدل چلنے سے قاصر تھے اس لئے جلوس
کی قیادت خود بخود مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ آگئی ۔ صدر میں ڈین ہوٹل کے قریب
پولیس اور مظاہرین میں ٹکرائو ہوگیا۔پولیس نے مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں
کو گھیرے میں لیا۔ لیکن ان کے ساتھی پولیس کے سامنے ڈھال بن گئے ۔ تاہم سخت مقابلے
کے بعد مولانا فضل الرحمن اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کرکے شرقی تھانہ
پشاور پہنچادیا۔ گرفتاری کے وقت اور پولیس کی بس میں ڈالتے وقت کسی کو پتہ نہ تھا
کہ یہ مولانا فضل الرحمن اور سابق وزیراعلی سرحد مفتی محمودکے صاحبزادے ہیں ۔ تاہم
رات کو متعدد پولیس افسران نے انہیں پہچان لیا۔ رات بھر مولانا فضل الرحمن اور ان
کے ساتھیوں کو تھانہ شرقی پشاور کی لاک اپ میں رکھاگیا اور اگلے روز ہری پور جیل
بھیج دیاگیا۔ جہاں پہلے انکے والدمحترم مولانا مفتی محمود اور قومی اتحاد کے دیگر
سینکڑوں رہنما وکارکن قید تھے۔ جن کی موجودگی کے باعث انہیں اجنبیت محسوس نہیں
ہوئی ۔ اس اسیری کے دوران انہیں دینی کتب کے مطالعے کا بے حد موقعہ ملا۔ جیل میں
کچھ کتب مولانا مفتی محمود صاحب خود پڑھایا کرتے تھے۔ جبکہ باقی کتب مولانا قاضی
عبدالسلام صاحب پڑھاتے تھے یہ سلسلہ ایک ماہ تو چلا لیکن بعدازاں حکمران مولانا
مفتی محمود صاحب کو مذاکرات کی غرض سے سہالہ ریسٹ ہائوس لے گئے ۔ اسی جیل میں
مولانا فضل الرحمن نے چلہ بھی کاٹا۔ اس اسیری کے دوران جیل میں مقید کمیونزم کے
حاموں کے ان کے مباحثے بھی ہوئے ۔ اور سوشلزم کمیونزم کے مابین فرق۔ مارکس۔ لینن
کے قلسفے کو سمجھنے کو موقعہ ملا۔ اس اثنا میں بحث کے دوران ان لوگوں کی جانب سے
اسلام پر اعتراضات ان کے لئے حیران کن تھے۔ کیوں اس قسم کے اعتراضات ان کے سامنے
پہلی مرتبہ آئے تھے لیکن ان کے اعتراضات سننے کے بعد وہ مطالعہ کرتے اور اگلی
نشست میں ان کو لاجواب کردیتے بہرحال چند ہفتوں بعد پشاور کے جلوس سے گرفتار کئے
جانے والے افراد کو رہا کردیئے گئے ۔ جن کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی رہائی
ملی اور رہا ہو کر گھر چلے گئے ۔ اس وقت تک مولانا فضل الرحمن عملی طور پر سیاست
میں نہیں تھے بلکہ طالب علم تھے تاہم تحریک کی آندھی چلی تو وہ بھی اس میں شامل
ہوگئے۔
( مولانا فضل الرحمن کاسیا سی سفر35/1)
تیسری گرفتاری
14فروری1981ء کو لاہور میں جمعیت علمائے
اسلام کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیاگیا۔ مولانا فضل الرحمن اس اجلاس میں
شرکت کیلئے لاہور پہنچے تو معلوم ہوا کہ اجلاس ملتوی کردیاگیا ہے ۔ جس وہ ملتان
واپس روانہ ہوئے لیکن راستے میں سید امیر حسین گیلانی کے ہاں اوکاڑہ میں رکے اور
رات کا کھانا وہاں کھایا پشین میں گرفتاری 8جون صبح کو جیک آباد۔9جون جیک آباد
سے ڈیرہ غازی خان 16 ستمبر کو عبدالخیل سے ڈیرہ جیل منتقل کیا۔ اپریل کیا آخر میں
جیل سے رہائی ۔
چوتھی گرفتاری
جون 1982ء میں مولانا فضل الرحمن کو دوبارہ نظر بند
کردیا گیا۔ تقریباً تین ماہ سے زیادہ عرصہ تک انہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ پھر
جیل بھج دیا گیا۔ جیل میں قید تنہائی دی گئی ۔ جبکہ سات ماہ تک سی کلاس میں
رکھاگیا ۔ پھر بی کلا س دے دی گئی۔ اس طرح مجموعی طور پر انہوں نے گیارہ ماہ جیل
میں گزارے اور طویل قید تنہائی کاٹی ۔ بعد ازاں جیلوں
میں قید اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا اور مولانا فضل
الرحمن نے مجمو عی طور پر پانچ سال اسیری کی زندگی گزاری۔ 7جون پشین میں گرفتاری
8جون صبح کو جیک آباد۔9جون جیک آباد سے ڈیرہ غازی خان 16 ستمبر کو عبدالخیل سے
ڈیرہ جیل منتقل کیا۔ اپریل کیا آخر میں جیل سے رہائی ۔
پانچویں گرفتاری
جب ایم آر ڈی نے14 اگست 1983سے باقاعدہ تحریک چلاتے
ہوئے گرفتاریاں دینے کا اعلان کیا تو حکومت نے 10اگست کو مولانا فضل الرحمن کو
پشاور سے گرفتار کرلیا اور ہری پور جیل میں رکھا ۔ جہاں آپ فروری 1984ء تک قید
رہے پھر گھر پر عبدالخیل میں نظر بند کیااور مارچ 1984میں رہا ہوئے۔
چھٹی گرفتاری
دسمبر 1984ء میں ریفرنڈم کا اعلان کیاگیا۔ تو اسی روز
پشاور میں ناصر خان چوک میں جلسہ ہوا۔ جس میں مولانا فضل الرحمن نے ریفرنڈم کو
مسترد کیا۔ ان دنوں جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا اسد مدنی پاکستان کے دورے پر
آئے تھے۔ اور مولانا مفتی محمود کی تعزیت کیلئے عبدالخیل تشریف لائے ۔ انہیں رخصت
کرنے ڈیرہ جاتے ہوئے راستے میں مولانا فضل الرحمن کو گرفتار کرلیاگیا۔ اس طرح فوجی
حکمرانوں نے نے ایک معزز ترین غیر ملکی مہمان کی موجودگی میں یہ گرفتاری کرکے ملکی
و قار کو بے حد نقصان پہنچایا۔ ( مولانا فضل الرحمن کاسیا سی سفر 52تا54)
ساتویں گرفتاری
امریکہ مردہ باد ریلیوں کے سلسلے میں ایک ریلی 4ستمبر1999کو
جنوبی وزیرستان میں منعقد کی گئی حکومت امریکی دبائو کے تحت پہلے سے بوکھلاہٹ کا
شکار تھی لیکن اس کے پاس گرفتاری کا کوئی جواز نہیں تھاوزیرستان میں ایف سی آر کا
سہارا لے کر ۳
،اور ۴ستمبر
کی درمیانی شب حکومت نے مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی رہائش گاہ
سے گرفتار کرکے چشمہ کینا ل ریسٹ ہائوس میں نظر بند کردیا جس سے کارکنان جمعیت اور
عوام میں امریکہ کے خلاف مزید نفرت اور حکمرانوں کے خلاف اشتعال پیدا ہوا4ستمبر
کووزیرستان میں ریلی میں مولانا دیندار مرحوم ،مولانا نور محمد شہید،اور مولانا امان
اللہ خان امیر جے یو آئی سرحد نے شرکت کرکے قائد جمعیت کی گرفتاری کی شدید مذمت
کی ۔پورے ملک میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے بھی اس پر شدیدرد عمل کا
اظہار کیا۵ستمبر
کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور 24گھنٹے کا الٹی میٹم دیدیا گیاکہ اگر 24
گھنٹے میں مولانا فضل الرحمن رہا نہ ہوئے تو شاہرہ ریشم بند کردی جائے گی مولانا
عبدالغفورحیدری نے صوبائی جماعتوں کو ہدایات جاری کردیں کہ اگر چھ ستمبر تک قائد
جمعیت کو رہا نہ کیاگیا تو7ستمبر سے پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع کردئے جائیں
کئی مقامات پر شدید مظاہرے ہوئے اور وزیر اعظم نواز شریف کے پتلے بھی جلائے گئے جس
پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور چھ ستمبر سے پہلے ہی مولانا فضل الرحمن کو رہا
کردیاگیا (مشرف دورحکومت)
آٹھویں گرفتاری
6۔اکتوبر2001 کوجمعیت علماء اسلام کے امیر
مولانا فضل الرحمن کو تین ماہ کے عرصے کے لئے ان کی رہائش گاہ میں نظر بند کردیا
گیا اس ضمن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی ناظم میجر ریٹائرڈ لطیف اللہ خان علی زئی
نے نظر بندی کے احکامات جاری کردیئے انکے دستخط سے جاری ہونے والے حکم نامہ میں
کہا گیا ہے مولانا فضل الرحمن کو مفاد عامہ اور امن وامان کے حصول کے لئے نظر
بندکیاگیا ہے۔ نظر بندی کے یہ احکامات گزشتہ روز جاری کئے گئے جس کے تحت ان کو ان
کی رہائش گاہ ڈیرہ اسماعیل میں جہاں پہلے ہی دو روز سے بند تھے نظر بند کردیا گیا
ہے اور ان کی رہائش گاہ پر پولیس اور سیکورٹی فورس کی بھاری نفری تعینات کرد گی
گئی ان کے گھر کو آنے والے تمام راستوں پر پولیس نے اپنی چوکیاں قائم کریںد۔ جہاں
وہ بروقت کسی بھی ایسے واقعہ سے نمنٹے کے لئے چوکس ہیں ۔
نویں گرفتاری
8اکتوبر2001
۔۔۔۔۔مولانا فضل الرحمن نے پیر کو ہنگو میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرنا تھا مگر
انہیں دوبارہ ان کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں نظر بند کردیا گیا۔ مولانا فضل
الرحمن کا افغان قیادت کے ساتھ قریبی رابطہ ہے اور لمحہ بہ لمحہ صورت حال پر نظر
رکھے ہوئے ہیں ان کی قندھار کے کور کمانڈر سے فون پر امریکی بمباری پر تبادلہ خیال
ہوا انہوں نے بتایا کہ اب تک کی اطلاع کے مطابق شہری علاقوں میں کوئی پچاس کے قریب
بے گناہ شہری ہلاک ہوچکے ہیں اس کے باوجود امریکہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا۔
دریں اثناء افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لئے حکومت
نے مذہبی رہنمائوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔
دسویں گرفتاری
14اکتوبر2001ء۔۔۔۔۔مولانا فضل الرحمن کو
گزشتہ رات دس بجے سہ پہر ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیاگیا ۔ یاد رہے کہ مولانا
فضل الرحمن سے گزشتہ روز ضلعی ناظم میجر لطیف اللہ علی زئی نے ملاقات کرکے حکومتی
فیصلے کے مطابق رہائی کا حکم سنایا تھا جس کے بعد مولانا فضل الرحمن کو رہا
کردیاگیا ان کے گھر کے باہر سے پولیس کا پہرہ بھی اٹھا لیاگیا جس کے بعد مولانا
فضل الرحمن نے مفتی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں خطاب کیا جب مولانا فضل الرحمن
گھر آئے تو انہیں رات د س بجے دو بارہ نظر بند کرکے پولیس کا پہر ہ لگادیاگیا۔
قائد جمعیت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ
15اکتوبر2001ء فوج اور حکومت کے قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے پر ڈیرہ پولیس نے جمعیت علماء
اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت ان کی جماعت کی دیگر تین رہنمائوں کے خلاف
بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا ۔
مولانا فضل الرحمن مولا نا عطاء الرحمن اور مولانا
عبدالقیوم کے خلاف فوجداری دفعات153.153 A/124A-505اور سولہ ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کرلیا ۔ یہ ایف آئی آر
ایس ایچ او تھانہ چھائونی محمد اسلم خان کی طرف سے درج کی گئی 124A کے علاوہ دیگر دفعات میں ملزمان کو تین سے سات سال قید جبکہ124Aجو کہ بغاوت پر لگائی جاتی ہے ، میں عمر قید بھی دی جاسکتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق تمام دفعات ناقابل ضمانت ہیں ، کسی کو گرفتار نہیں کیا
جاسکا البتہ مولانا فضل الرحمن ڈیرہ کے علاقہ شور کوٹ میں اپنی جس رہائش میں نظر
بند ہیں اسے سب جیل قراردے دیاگیاہے۔
1985کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ
جنرل ضیاء الحق نے1985میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات
کے انعقاد کا اعلان کیامولانا فضل الرحمن اس وقت جیل میں تھے ان انتخابات میں حصہ
لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کر نے کیلئے ایبٹ آباد میں ایم آرڈی کا اجلاس اصغرخان
کے گھر میں منعقدہوا اس اجلاس میں شرکت کیلئے مولانا کو جیل سے لایا گیا اس وہ اس
پوزیشن میں نہ تھے کہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرسکیں تاہم مولانا کی رائے یہ تھی کہ
ان انتخابات میں حصہ لینا چاہئے کیونکہ مارشل لاء کی پیداوار لوگ ہاتھوں کاغذات
نامزدگی تھامے کھڑے ہیں ایم آرڈی کا انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں یہ لوگ
اسی طرح کاغذات تھامے رہ جائیں گے لیکن اراکین کی اکثریتی فیصلے کے مطابق ان
انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیاگیا جس کے نتیجے مین غیرسیاسی جوگ اسمبلیوں میں
پہنچ گئے جس کی سزا آج تک قوم بھگت رہی ہے ۔(مولانا فضل الرحمن کا سیاسی سفر ۱؍۵۵)
1988کا انتخابی معرکہ
مولانا فضل الر حمن کی قیادت میںجمعیت علمائے اسلام نے ۱۶نومبر ۱۹۸۸کے قومی انتخابات اور ۱۹ نومبر کے صوبائی انتخابات
میںبھر پورحصہ لیا قومی اسمبلی کے کل ۲۰۷میں سے ۳۸نشستوں پر جے یو آئی نے اپنے
امیدوار کھڑے کئے جن میں سے سات امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جمعیت علمائے اسلام
نے کل تین لاکھ ساٹھ ہزارایک سو چھبیس ووٹ حاصل کئے ۔حاصل کردہ ووٹوں کاتناسب ایک
اعشاریہ چوراسی فیصد رہارجسٹرڈ ووٹوں کی تعدادایک کروڑ۹۵لاکھ۹۱ہزاردوسوپینسٹھ رہی ان انتخابات
میں کل ایک ہزار ایک سو۶۷امیدواروںنے
حصہ لیاجے یو آئی نے پنجاب میں ۶۷۵۳۴ووٹ
حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کااعشاریہ۵۳ فیصدتھے سندھ میں ۳۱۵۸۸ووٹ حاصل کئے جو کل ڈالے
گئے ووٹوںکا اعشاریہ۷۶فیصد
تھے سرحدمیں ۱۶۸۵۶۷ووٹ
حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹوں ۸۴۔۷فیصد تھے بلوچستان میں ۸۶۸۳۲ووٹ حاصل کئے جو کل ڈالے
گئے ووٹوں کا۲۳۔۱۳فیصد تھے اس طرح چاروں صوبوں
میں مجموعی طورپر جمعیت علمائے اسلام کو ۳لاکھ۵۴ ہزار۵۲ ووٹ ملے جو کل ڈالے گئے ووٹوں
کا۷۹۔۱فیصدتھے۔(مولانا فضل الرحمن کا
سیاسی سفر1/35)
1990کے انتخابات
24کتوبر1990کے قومی انتخابات میں جمعیت علماء
اسلام نے مولانا فضل الر حمن کی قیادت بھر پور حصہ لیتے ہوئے چاروں صوبوں سے قومی
اسمبلی کی207نشستوں میں سے 51پر امیدوارکھڑے کئے جن میں سے چھ امیدواروںنے کامیابی
حاصل کی 27اکتوبر 1990کوچاروںصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام
نے پنجاب سے صوبائی اسمبلی کے 33سندھ سے32 سرحد ے 63 اور بلوچستان سے38نشستوں اپنے
امیدوار کھڑے کئے قومی اسمبلی میں صوبہ سرحد سے جمعیت کے چار،اور بلوچستان سے دو
امیدوار کامیاب ہوئے جمعیت نے 1990کے انتخابات میں6لاکھ 22ہزار 214 ووٹ حاصل کئے
جو گذشتہ انتخابات کے مقابلہ میں چالیس فیصد زیادہ تھے لیکن اس کی نشستیں پہلے سے
کم ہوکر چھ رہ گئیں 1990 کے انتخابات میں جمعیت نے قومی اسمبلی کے کل پول شدہ
ووٹوں کا 93۔2فیصد ووٹ حاصل کئے
اسلامی جمہوری محاذ
1993ء کے قومی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء پاکستان مولانا نورانی سے ملک کر
اسلامی جمہوری محاذ قائم کیا ۔ جبکہ جماعت اسلامی نے مولانا سمیع الحق کو ساتھ ملا
کر اسلامک فرنٹ کے نام سے اتحاد قائم کیا ۔ اس الیکشن میں جمعیت علما اسلام نے
قومی اسمبلی میں چار ،صوبہ سرحد سے ایک اور بلوچستان سے تین نشستیں حاصل کی تھیں
سینٹ کے انتخابات
20مارچ1994ء کو سینٹ آف پاکستان کے ۴۱ نشستوں پر انتخابات ہوئے ۔
جمعیت علماء اسلام نے اس الیکشن میں ۲ نشستں حاصل کیں ۔
خارجہ کمیٹی کی سربراہی
1993کے انتخابات کے نتیجہ میںوجود میں آنے
والی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برئے امور خارجہ دس باقاعدہ ممبران پرمشتمل تھی
وزیر خارجہ بلحاظ عہدہ اس کے ممبر تھے یکم مارچ 1994کو قائمہ کمیٹی کا پہلا اجلاس
ہوا جس میں مولانا فضل الرحمن کومتفقہ طور پر کمیٹی کا چیئر مین منتخب کیاگیا قائد
جمعیت کی قیادت میں قائمہ کمیٹی نے امور خارجہ پر وزارت خارجہ کوقابل قدر تجاویز
دیں چیئرمین کمیٹی اوردیگر ممبران کمیٹی نے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور
قومی مسائل خاص کر مسئلہ کشمیر پر عالمی رائے عامہ کو ملکی مفاد میںہموار کیاقومی
اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ چیئر
مین اور ممبروں نے کمیٹی کی سرگر میوں کادائرہ کار عالمی سطح پر استوار کیا اور
چیئرمین کمیٹی کی خدمات کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بیرون ملک بھی سراہا گیا
جرمنی اور امریکہ کا دورہ
12نومبر 1994ء کو قائمہ کمیٹی برائے خارجہ
امور کے چیئر مین مولانا فضل ارلرحمن کراچی سے جرمنی کیلئے روانہ ہوئے دو دن جرمنی
میں گزارے 15 نومبر کو امریکہ پہنچے مختلف وفود سے ملاقاتیں کیں اجتماعات سے خطاب
کیا۔20 نومبر کو اقوام متحڈہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے فلسطین کے مسئلہ پر
معرکۃالآراء خطاب کیا ۔3دسمبر کو امریکہ سے واپس روانہ ہوئے ۔
واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقاتیں
1994ء میںجب قائدجمعیت امور خارجہ کمیٹی کے
چیئرمین کی حیثیت امریکہ کے دورے پر تشریف لے گئے تھے اس دورہ میںقائد جمعیت
مولانا فضل الرحمن واشنگٹن کے تین روزہ دورہ پر تشریف لائے ۔مولانا نے دورہ کا
آغاز نیویارک سے کیا اور اقوام متحدہ کی امن کمیٹی سے خطاب کیا ۔ اقوام متحدہ کے
اجلاس میں مولانا کی موجودگی اور ان کا خطاب کئی لحاظ سے دلچسپی کا باعث تھا۔
کیونکہ مولانا خالص پاکستانی ثقافت کو پیش کررہے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی
روایتی پوشاک اور ترکی ٹوپی اور الیکٹرانک حقے نے جہاں اقوام متحدہ میں لوگوں کو
متوجہ کیا اور امریکی اپنے مخصوص انداز میں یہ کہتے پائے گئے کہ بزرگوار اس حقے
میں بڑے کول دکھائی دیتے ہیں ۔ تو مولا نا فضل الرحمن کی پوشاک اور قومی زبان میں
تقریر پاکستان کی خوداری اور انفرادیت کی عکاس تھی۔ واشنگٹن میں مولانا فضل الرحمن
نے دفتر خارجہ کے اعلی ٰ حکام جن میں معاون سیکرٹری گارلی اور کرس و بیسٹر شامل
تھے۔ سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں مولانا نے ان حکام کو کشمیر کی صورتحال کشمیر
میں انسانی حقوق کی پامالی کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی خلاف ورزیاں ، پاک امریکی
تعلقات جن میں پرسیلرترمیم پاکستان کو ایف 16کی فراہمی کا مسئلہ وغیرہ شامل تھے ،
ان پر بات چیت کی ۔ اگلے روز انہوں نے ممبر کانگریس ٹام ڈیوس سے ملاقات کی اور ان
سے بھی کم و بیش انہی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
29نومبر 1994کو مولانا فضل الرحمن نے یو این
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے فلسطین کے مسئلہ پر خطاب کرنا تھا۔ یہ تقریر پاکستان مشن
نے تیار کی تھی ۔ مولانا صاحب نے اس تقریر کا مطالعہ کیا اور تقریر میں فلسطین
اسرائیل ، اسرائیل اردن اور اسرائیل مصر کے تعلقات کو تصدیق شدہ پایا۔ مولانا صاحب
نے اس تقریر کو رد کردیا اور کہاچونکہ وہ جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل ہیں
اور جماعت نے ان تعلقات کو مسترد کردیا تھا۔ اس لئے وہ اپنی جماعت کی پالیسی کے
تصادم میں امت مسلمہ کے مفاد کے خلاف الفاظ نہیں بول سکتے ۔ اس لئے مولانا صاحب نے
اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر جمشید مار کر کو ہدایت کی کہ ان الفاظ کو ہذف کردیا
جائے اور اسے کہا کہ ان کے سیکرٹری محمدجلال الدین ایڈووکیٹ جو کہ ان سطور کا منصف
ہے کے مشورے سے تقریر کو دوبارہ لکھا جائے ۔ مولانا صاحب نے تقریر کے بارے ان سطور
کے منصف کو پہلے ہی ہدایات دے چکے تھے اس لئے ان ہدایات کی روشنی میں نئی تقریر
تیار کی گئی اور قابل اعتراض سطور کو تقریر سے ہذف کردیا گیا۔ تقریر مولانا صاحب
کو دوبارہ دکھائی گئی اور انہوں نے اسے منظور کیا۔ مولاناصاحب نے انگریزی کی بجائے
عربی میں تقریر پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا لہذ ا تقریر عربی میں تیار کی گئی آپ
نے عربی زبان میں فصیح بیانی کے ساتھ تقریر کی تقریر کے اختتام پر مسلمان نمائندوں
نے عام طور پر اور عرب نمائندوں نے خاص طور پر مولانا صاحب سے ملاقات کی اور مختلف
معاملات پر بحث کی ۔ انڈین مندوب عربی میں مولانا صاحب کی تقریر سے بہت زیادہ
پریشان تھا اور اسے دہرایاگیا کہ پاکستان نے نئے فن لشکر کشی کے مطابق عرب ممالک
کی مدد کو یقینی بنانے کے لئے عربی زبان میں ماہرین مقرر بھجنے شروع کردیئے ہیں۔ (
مولانا فضل الرحمن کاسیاسی سفر1/164 )
مرکزی امارت
28مارچ 1995ء کو جامعہ مدینہ کریم پارک لاہور
میں جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جنرل کونسل کے کل 325 اراکین میں سے نوے فیصد حاضر
ممبران کی اکثریت نے پہلی دفعہ حضرت مولانا فضل الرحمن کو امیر مرکزیہ منتخب کیا
اور مولانا عبدالغفور حیدری مرکزی ناظم عمومی منتخب ہوئے۔
1997کے انتخابات
3فروری 1997ء کے انتخابات میں جمعیت علماء
اسلام نے بھر پور حصہ لیا اس الیکشن میں جمعیت نے قومی اسمبلی میں دو سرحد اسمبلی
میں ایک اور بلوچستان اسمبلی میں6نشستیں حاصل کئیں۔
ووٹر فارم میں ختم نبوت کے حلف نامہ کی بحالی
12،اکتوبر1999کو جنرل مشرف نے اقتدار پرقبضہ
کرکے آئین معطل کیا جس کے نتیجہ میں آئین میں درج اسلامی دفعات بھی معطل
ہوگئیںدینی جماعتوں نے اسے عملا قوم کے نصب العین اور تشخص کی معطلی قراردیتے ہوئے
مطالبہ کیا کہ نئے عبوری آئینی حکم کے اندر اسلامی دفعات کوبھی شامل کیا جائے اس
سلسلہ میں ۸مئی
۲۰۰۲کو
دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی حکومت کے اس طرز عمل کے خلاف ملک
بھر میںمکمل شٹر ڈائون ہڑتال بھی ہوئی اس دوران ۱۵جولائی ۲۰۰۲کو قائد جمعیت مولانا
فضل الرحمن صاحب نے چیف ایگزیکٹو جنرل مشرف کی دعوت پر ان سے ہونے والی ملاقات کے
موقع پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے بھر پور انداز میں پیش کیا چنانچہ جنرل مشرف نے
قائد جمعیت سے اس ملاقات میں اسلامی دفعات عبوری آئینی حکم میں شامل کر نے کی
یقین دہانی کرائی اور پی سی او میں ترمیم کرکے ۱۹۷۳ کے آئین کی جملہ
اسلامی دفعات کوموثراور نافذالعمل قراردیاگیا۔
جمہوریہ چاڈ میں کانفرنس سے خطاب
امریکہ کے عالمی استعماری نظریہ کے خلاف امت مسلمہ میں
بیداری پیدا کرنے کی غرض سے کر نل قذافی نے ورلڈ اسلامک پیپلز لیڈر شپ القیادۃ
الشعبیہ الاسلامیہ العالمیہ قائم کی ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس تنظیم کے
نمائندے ہیں اور ہرسال القیادۃ الشعبیہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس
منعقد کی جاتی ہے جس میں عالم اسلام کے مسلمان زعماء جمع ہو کر دوسرے ممالک
میںبسنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کے سامنے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں اور عالمی
استعمار کی سازشوں کو مسلمانوں کے اس اجتماعی پلیٹ فارم پر زیر بحث لاتے ہیں۔
4تا6فروری 2000میں اس کانفرنس کا انعقاد وسطی افریقہ کے
ملک جمہوریہ چاڈ کے صدر مقام انجامینا میں ہوا ستر سے زائد ممالک کے مسلمان زعماء
مختلف تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں نے اس میں شرکت کی ۔ جمعیت علماء اسلام
پاکستان کے قائد مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی وفد کی قیادت کی ۔ پہلے
اجلاس میں لیبیا کے صدر کرنل معمر القذافی نے افتتاحی اجلاس میںکلیدی خطبہ دیا۔
پہلے اجلاس کے دوسرے سیشن میں مختلف ممالک کے اہم مندوبین نے خطاب کیا ۔ باطل کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرات مندانہ موقف اختیار کرنے اور ایک سامراج دشمن
رہنما کی حیثیت سے اس اہم اتبدائی اجلاس کے دوسرے سیشن میں سب سے پہلے مولانا کو
خطاب کو موقعہ دیا گیا۔ مولانا کے خطاب سے قبل تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد
احمد شریف نے گذشتہ چار سالہ کارگزاری کی رپورٹ پیش کی ۔ مولانا نے اپنے خطاب میں
اس بین الاقوامی فورم پر استعماری قوتوں ، امریکہ اور اس کی حلیف عالمی دہشت گرد
قوتوں کے بارے میں جمعیت علماء اسلام کے روایتی موقف کو واضح کیا۔ جب مولانا نے
افغانستان اور دوسرے ممالک پر امریکہ کے دہشت گردی کا تذکرہ کیا اور اپنے موقف کے
حوالے سے گفتگو کی تو ہال میں موجود تمام افراد نے پر جوش انداز مین تالیاں بجا کر
اور نعرہ تکبیر لگا کر مولانا کے موقف کی حمایت کی جبکہ خطاب کے بعد اکثر زعما
مولانا کو داد تحسین دیتے رہے ۔
خدمات دارالعلوم دیوبندکانفرنس
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیت علمائے
اسلام نے 9؍10؍11،اپریل 2001کو پشاور میں ڈیڑھ سالہ خدمات دارالعلوم دیوبند
کانفرنس کا انعقاد کیا جو ملکی تاریخ میں علماء کا سب سے بڑا اجتماع تھا 20لاکھ
انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے دنیا بھر کے علمائے کرام اور زعمائے ملت
مخاطب ہوئے جن میںپاکستان کے تقریباًتمام اکابر علمائے کرام کے علاوہ جمعیت علمائے
ہند کے امیر حضرت مولانا اسعد مدنی،دارلعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانامر غوب
الرحمن رحمہم اللہ افغانستان کے مولانا محمدنبی محمدی ،کرنل قذافی کے نمائندے
عبداللہ جبران سمیت افریقہ،مشرق وسطی،برطانیہ اور دیگر ممالک کے علمائے کرام شامل
تھے امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد کا ریکارڈ شدہ بیان سنایا گیا کانفرنس کے
آخری دن مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا مرغوب الرحمن صاحب اور امام الہند حضرت
مولانا اسعد مدنی کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمن کی دستار بندی کی گئی۱۱اپریل بروز بدھ2بجے یہ عظیم
الشان اجتماع دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم حضرت مولانا قاری محمد عثمان کی رقت
آمیز دعا پراختتام پذیر ہوا اس عظیم الشان اجتماع نے ملکی
سیاست خصوصاًصوبہ سرحد کی سیاست کا رخ تبدیل کردیا۔
افغانستان پر امریکی حملہ ،قائد جمعیت کی گرفتاری اور
احتجاج
11ستمبر2001کو امریکہ میں محکمہ دفاع
پینٹاگون کی عمارت اور نیو یارک میںتجا رتی مرکز ورلڈٹریڈ سنٹر سے ہائی جیک کئے
جانے والے ۳طیارے
ٹکرادئے گئے جس میں ہزاروں آدمی قتل ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا امریکہ نے
ان حملوں کا الزام اسامہ بن لادن پر لگاکر افغانستان پر حملہ کر نے کا اعلان کیا
اس جارحیت پر جمعیت علمائے اسلام نے پورے ملک میں احتجاج شروع کیا مولانا فضل
الرحمن نے راولپنڈی میں ایک عظیم الشان احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اس
امریکی اعلان کو ظلم وبربریت اور دنیا میں واحد اسلامی حکومت امارت اسلامیہ
افغانستان کو ختم کرنے کی سازش قراردیا پورے ملک میں احتجاج شروع ہوا
متحدہ مجلس عمل کا قیام
11ستمبر 2001کو امریکہ میں دہشت گردی کے
واقعات کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلام پسند سچے مسلمانوں اور دین
اسلام کے خلاف اپنی دشمنی کااظہار کر تے ہوئے افغانستان پر حملہ آور ہوکر
مسلمانان عالم کے دلوں سے دین اسلام نکالنے کی کوششیں شروع کیں مسلمانوں کے وسائل
پر قبضہ جمانے ،پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے اور دنیا ئے اسلام کے واحد
ایٹمی قوت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تک رسائی حاصل کرنے اوردیگر مکروہ منصوبوں پر
عمل پیرا ہونے کیلئے ملک کی سیکولر پارٹیوں کو اپنا ہمنوا بنالیا ۔جہاد،مجاہدین
مدارس ومساجد اور کے کردار کو ختم کرنے کیلئے پرویز مشرف نے عملی اقدامات شروع کئے
تو ان خطرناک حالات مین دینی جماعتوں کا اتحاد انتہائی ضروری قرار پایا چنانچہ۱۰،اکتوبر ۲۰۰۲کے الیکشن سے قبل قائد
جمعیت مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابر علمائے کرام کی کوششوں سے چھ دینی سیاسی
جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل وجود میںآیاعلامہ شاہ احمد نورانی سربراہ جے یو
پی صدر اور قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن اس کے جنرل سیکرٹری قرار پائے جمعیت
علمائے اسلام (ف)جمعیت علمائے اسلام (س)جماعت اسلامی ،جمعیت اہلحدیث،(ساجدمیر
گروپ)جمعیت علما ئے پاکستان ،اور تحریک اسلامی (ملت جعفریہ)پرمشتمل اتحادنے الیکشن
میں نمایاں کامیابی حاصل کی صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت بنی جمعیت علما ئے
اسلام کے اکرم خان درانی وزیر اعلی کے منصب پر فا ئز ہوئے۔مرکز میں ایم ایم اے حزب
اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پرسامنے آئی اور قائد جمعیت مولانا فضل الر حمن
صاحب قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز ہوئے بلوچستان میں ایم ایم اے صوبائی حکومت
کا حصہ بنی سندھ اور پنجاب میں بھی ایم ایم اے نے کئی سیٹیں حاصل کیں 31دسمبر2003کو
ایم ایم اے کے صدر علامہ شاہ احمد نورانی کا اسلام آباد میں اچانک انتقال ہوگیا
جس کے بعد جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد ایم ایم اے کے صدر منتخب ہوئے
۔بعض امور میں اختلافات کے باعث 2008کے الیکشن سے قبل جماعت اسلامی کی ہٹ دھرمی کی
وجہ سے ایم ایم اے کا اتحاد بکھر گیا۔
ایم ایم اے حکومت کی کارکردگی
قائد جمعیت مولانا فضل الر حمن صاحب کی قیادت میں
10اکتوبر 2002کے الیکشن کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والی صوبہ خیبر پختون
خواہ(صوبہ سر حد)نے چند ایسے اصلاحات کئے جو5/5سال تک قائم ہونے والی حکو متیں نہ
کرسکیں
1)
میٹرک تک تعلیم کو مفت کیاگیاطلبہ کو مفت کتا بیں دیگئیں۔
2)
شراب کی خریدوفروخت پر پابندی لگادی گئی ۔
3)
ہسپتالوںکی بہتری کیلئے جا مع منصوبہ بندی کی گئی ۔
4)
زراعت کی ترقی کیلئے ٹاسک فورس کی تشکیل دیدی گئی
5)
اردو کو سرکا ری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیاگیا۔
6)
محکمہ مال میں اصلاحات کی گئی
7)
وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیاگیا۔
8)
کواپریٹوبنک کے قرضوں پر سود کو معاف کردیاگیا۔
9)
قیام امن کیلئے موثر اقدامات کئے گئے
10)
فحاشی وعریانی کوختم کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے گئے ۔
نفازشریعت کے لئے شریعت کونسل کا قیام عمل میں لایا
گیا۔کرپشن ،بدعنوانیوں اور دیگر برائیو ں کے خاتمے اور نفاذ شریعت کیلئے شریعت نے
حسبہ بل تیار کیا گیا اور صوبائی حکومت نے اسے پاس کیا مگر جنرل مشرف نے دودفعہ
سپریم کورٹ کے ذریعے اسے مستردکیا اس وقت چیف جسٹس چوہدری افتخار ہی تھے ۔
من موہن سنگھ سے ملاقات
19مئی 2006بروز جمعہ ہندوستان کے وزیراعظم
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے وفد کو اپنے رہائش گاہ پر
ناشتہ کی دعوت دی ناشتے کے موقع پر وزیراعظم منموہن سنگھ سے تفصیلی مذاکرات ہوئے۔
اس موقع پر ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ شیام سرن نیشنل سیکورٹی ایڈوائز ایم کے
نارائن اوروزیراعظم کے معاون خصوصی ٹی کے نایر بھی وزیراعظم کی معاونت کیلئے موجود
تھے۔ وفد تقریبا پونے دو گھنٹے وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ رہا۔ حضرت مولانا فضل
الرحمن صاحب اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک دوسرے کے خیالات کو تفصیل سے سنا۔
ہندوستانی وزیراعظم نے قیام امن اور پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے حوالے سے مولانا
فضل الرحمن صاحب کی گفتگو کی تعریف کی اور کہا کہ ہم مضبوط اور مستحکم پاکستان کے
خلاف نہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے ، ہندوستان سے پاکستان کے بہتر
تعلقات ہوں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی شروع ہونی چاہیے ۔ اس موقع پر
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے کہا یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب ہم تہہ دل کے ساتھ
زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلے کریں گے اپنے آپ کو امریکی دبائو سے
باہر نکالیں گے اور خطے کے امن کے لئے ہمت کا مظاہرہ کریں گے ۔ مولانا نے کہا کہ
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی وقت آگیا ہے ہندوستانی حکومت پاکستان کی جانب سے پیش
کردہ تجاویز کا مثبت جواب د ے اور کشمیر اور پاکستان کے سرحدی علاقہ جات میں مکمل
امن کے قیام کیلئے دونوں ممالک صحیح فیصلے کریں ۔ اس کے جواب میں وزیراعظم من
منموہن سنگھ نے کہا کہ وہ جولائی یا اگست میں پاکستان کا دورہ کریں گے اور پاکستان
کے حکام سے مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کریں گے ۔ انہوں نے وفد کا پرپتاک استقبال کیا
اور حضرت مولانا فضل الرحمن کا شکریہ ادا کیا کہ وہ یہاں تشریف لائے اور قیام امن
کے لئے انہوں نے بیش بہا تجاویز دیں ۔ ملاقات کے بعد وفد نے جمعہ کی نماز جمعیت
علماء ہند کے مرکزی دفتر سے ملحقہ تاریخی مسجد عبدالنبی میں اد ا کی ۔
ایڈوانی سے ملاقات
20مئی ہفتہ کی صبح کو وفد نے ہندوستانی قومی
اسمبلی لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف وزیر داخلہ ایڈوانی سے ملاقات کی اور امن کی
تجاویز سے ان کو آگاہ کیا ۔ اسی روز ظہرکے بعد وفد دیوبند کیلئے روانہ ہوا۔
اترپردیش کی حکومت کی جانب سے دہلی سے دیوبند تک وفد کو سرکاری پر ٹوکول دیا
گیا۔عشاکے وقت وفددیوبند پہنچا اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اور طلباء
نے وفد کا تاریخی استقبال کیا۔ نماز عشاء کے بعد جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا
ارشد مدنی نے اپنی قیام گاہ پر وفد کو عشائیہ دیا۔ واضح رہے کہ وفد کو کھانا اس
کمرے میں کھلایا گیا جہاں پر شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی مہمانوں کو
کھانا کھلایا کرتے تھے ۔ر ات کو دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں قیام ہوا
لال مسجد کے قضئے میں قائدجمعیت کاکردار:
3جولائی 2007کولال مسجد کے سانحے کاآغاز ہوا
جس پر غازی عبدالرشید کا قائدجمعیت سے رابطہ ہواغازی عبدالرشید کے ساتھ گفتگو کے
بعد مولانا نے مفتی ابرارکو کسی کا نام لے کر ہدایت کی کہ اس سے بات کر کے معلوم
کریں کہ آپریشن میں کتناوقت باقی ہے۔ اس وقت ایک بج کر کچھ منٹ ہوئے تھے۔ جواب
ملا کہ آپ کے پاس45منٹ ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ابرار کو حکم دیا کہ ’’فوری
طور پر اکرم درانی کو تلاش کر کے کہو کہ وہ وزیر اعظم سے رابطہ کرے۔ ایک ایک منٹ
قیمتی تھا اکرم درانی رابطے میں نہیں آ رہے تھے بالآخر معلوم ہوا کہ وہ فرنٹئیر ہائوس
اسلام آباد میںقیام پذیر ہیں،ان سے رابطہ کر کے مولانا کا پیغام دیا گیا تو انہوں
نے بتایا کہ خودان سے وفاقی حکومت نے رابطہ کرکے کہا ہے کہ خون خرابے سے بچنے کی
خاطر سرحد حکومت اور ایم ایم اے اپنا کردار ادا کریں۔
جب انہیں مولانا فضل الرحمٰن کا پیغام دیا گیا تو وہ
فوراً متحرک ہو گئے۔ ڈیڑھ بج چکا تھا ،2 بجے تک مولانا فضل الرحمٰن کو وزیر اعظم
شوکت عزیز کا فون آیا۔ مولانانے سوال اٹھایا کہ حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔ وزیر
اعظم نے کہا کہ ہم نے معاملہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔ مولانا کا استفسار تھا
کہ حتمی فیصلہ5 ماہ تک لٹکایا کیوں گیا؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس سے قبل
آپریشن نہ کرناکونسی وجہ تھی جو آج ختم ہو چکی۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس دوران بات
چیت کی کئی بار کوشش کی گئی مگر بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی لہٰذا اب آپریشن لازم
ہے۔ لہٰذا آپ فرمائیںکیاچاہتے ہیں؟مولانا نے کہا کہ میں بغیر خون خرابے کے مسئلے
کا حل چاہتا ہوں۔ وزیر اعظم نے پوچھا کیا آپ کو یقین ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ مولانا
نے کہا
کہ لال مسجد والوں نے مجھے فیصلے کا اختیار دے دیا ہے
آپ بات چیت پر آمادہ ہوں تو بات آگے بڑھے گی۔وزیر اعظم کاسوال تھا کہ آپ کیا
صورت تجویز کرتے ہیں؟مولانا نے کہا کہ آپ پہلے حکم جاری کریں کہ آپریشن نہیں
ہوگا۔ دونوں بھائی خود کو حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کے سپرد کر دیں گے اور وہ
کمیٹی جو فیصلہ کرے حکومت اور علماء اس کے پابند ہوں گے۔ وزیر اعظم نے اپنی حد تک
اتفاق کرتے ہوئے دوبارہ فون کرنے کاکہا۔ 2:45بجے تک ایوان صدر سے بات کر کے مولانا
فضل الرحمٰن کو بتا دیا کہ ان کی تجویز حکومت کو منظور ہے۔ وہ خود علما کمیٹی کو
اس فیصلے سے آگاہ کریں جس کے بعد مولانا فضل الرحمنٰ نے خود فون کر کے علما کمیٹی
سے کہا کہ وہ تیار رہیں۔ حکومت کی طرف سے اجازت ملتےہی لال مسجد جائیں اور وہاں
جاکرغازی برادران کو تحویل میں لے لیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن
کووزیراعظم آپریشن نہ ہونے کی یقین دہانی کروا رہے تھے تو دوسری طرف تین حکومتی
وزاراء3 بجے پریس کانفرنس کر کے دھمکیاں دے رہے تھے۔وزیر اطلاعات محمد علی درانی
اپنے مخصوص صحافیوں کو یقین دہانی کروارہے تھے کہ آپریشن ہوا ہی چاہتا ہے آج رات
یہ معاملہ ختم کر دیا جائیگا۔اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم یقین
دہانیاں کروا رہے تھے اور معاملہ طے پا گیا تھا جس کے بعد خود غازی عبدالرشید نے
فون پر مولاناشریف ہزاروی سے کہاہم تیار ہیں آپ آ جائیں۔ ساڑھے تین بجے جب
مولانا شریف ہزاروی سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہم سب لوگ نماز فجر کے منتظر
ہیں جیسے ہی اذان ہو گی ہم جامعہ محمدیہ میں اکٹھے نماز ادا کریں گے اورپھرتین چار
کلو میٹر دور لال مسجد جا کر سب کچھ تحویل میں لے لیں گے۔ جس کی غاز ی عبدالرشید
نے بھی تصدیق کی مگر افسوس کہ یہ موقع نہ آ سکا۔غازی برادران لال مسجد میںاور
علما ءجامعہ محمدیہ میںانتظارکرتے رہ گئے اورنامعلوم غیر مرئی طاقت اپنا کھیل کھیل
گئی۔ہوا یوں کہ عین نماز فجر کی جماعت کے دوران رینجرز کے اسنائپرز نے سامنے اسکول
کی چھت سے فائرنگ کی اور اطلاع کے مطابق اس واقعہ میں 8افراد جاں بحق اور50کے قریب
زخمی ہو گئے۔جاں بحق ہونے والوں میں کالم نگار مقصود احمدبھی شامل تھے۔ اور یوں
رات بھر کے روابط کے بعد طے پانے والا معاہدہ نادیدہ قوتوں کی نذرہو گیا وہ نادیدہ
قوتیں جنہوں نے چوہدری شجاعت کو کامیاب نہ ہونے دیا وربالآخر چوہدری شجاعت کو ٹی
وی پر آ کر کہنا پڑا کہ ’’میں مسئلہ حل کرواسکتا ہوں لیکن حکومت کے لوگ ایسا نہیں
چاہتے‘‘۔یہ وہی نادیدہ قوت ہے جس نے معاہدے کے تحت7 مساجد کی دوبارہ تعمیر میںرخنہ
اندازی کی اور لال مسجد والوں کواس حد تک آگے بڑھنے کا جواز فراہم کیا۔ اگر
دراندازی نہ ہوتی توبدھ کی صبح کا روبارزندگی شروع ہونے تک لال مسجد کا قضیہ ختم
ہو چکا ہو تا۔بہر حال بدھ کی صبح ایک نئے بحران کو لے کرطلوع ہوئی اس وقت تک
مولانا فضل الرحمٰن بھی اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے لال مسجد کا دورہ
کیا۔اور علما کمیٹی کا اجلاس بلایا اور معاملات کو پھرسے جوڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
جس پر حکومت نے کہا کہ غازی برادران علما کو نہیں حکومت کو گرفتاری دیں تا کہ
حکومت کی رٹ قائم رہ سکے۔اس پر غازی برادران کو آگاہ کردیا گیا۔اس دوران صدر
پاکستان کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میںطے پایا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلبا
و طالبات جو خود کو حوالے کردیں انہیں موقع پر ۵ ہزارروپے انعام دے کر گھر بھیج
دیا جائیگااورطالبات کے حوالے سے صدر مملکت نے اعلان کیا کہ وہ آج کے بعد جہاں
بھی جس طرح اور جس ادارہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہیں ان کے تمام اخراجات حکومت ادا
کرے گی۔ایک طرف یہ معاملات تھے اوردوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن کے زیر قیادت
مصالحتی کوششیں جاری تھیں۔ ایک طرف یہ گرفتاریاں جاری تھیںتو دوسری طرف حکومت
اورعلما کمیٹی ٰکے درمیان اس بات پر مذاکرات جاری تھے کہ اس بحران کے بعد لال مسجد
اور جامعہ حفصہ کا کیا ہو گا؟جو طلبا پہلے پکڑے جا چکے یا اب بے دخل ہو چکے ان کا
مستقبل کیاہو گا؟ دریں اثنا سب سے اہم سوال یہ بھی در پیش تھا کہ مولانا عبدالعزیز
اور غازی عبدالرشید اگر خود کو قانون کے حوالے کرتے ہیں تو اس کی صورت کیا ہو
گی۔کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ عین ممکن ہے دونوں بھائی گرفتاری دینے
نکلیں اور کوئی حادثہ ہو جائے۔ اس پر بات چیت جاری تھی اوراس بات چیت کے سبب حکومت
ڈیڈ لائن میںاضافہ کرتی چلی جا رہی تھی۔مگروائے ناکامی کہ ایک بار پھر خفیہ قوت بروئیکارآئی
اور5بجے کے بعد اچانک رینجرزنے لال مسجد پرفائرنگ اور آنسو گیس سے حملہ کر دیا۔(
روزنامہ امت کراچی5 جولائی2007 )
حکومت میں شرکت
2008کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے زیادہ
نشستیں حاصل کیں اور مسٹر زرداری نے قومی حکومت بنانے کی بات کر تے ہوئے تمام
جماعتوں کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جس پر جمعیت علمائے اسلام بھی اپنی شرائط
پر حکومت میں شامل ہوگئی جمعیت کو تین وزارتیں ملیں وزارت سیاحت، وزارت سائنس اینڈ
ٹیکنا لوجی اعظم سواتیاور وزارت ہائوسنگ،رحمت اللہ کاکڑکے حوالے کردی گئی2011میں
وفاقی وزیر مذہبی امورحمدسعید کاظمی بریلوی کو حج سکینڈل میں کرپشن کے الزامات
لگانے پر اعظم سواتی کوبرطرف کردیاگیا جس پر احتجاجاًجمعیت حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔
کشمیر کمیٹی کی سربراہی
2008کے انتخابات میں وجود پانے والی اسمبلی
میں قائد جمعیت مولانا فضل الر حمن کو کشمیر کمیٹی کاچیئر مین بنایاگیا مولانا نے
کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے کئی ممالک کے دورے کئے اور مسئلہ کشمیر کی
اہمیت کو اجاگر کیا مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے بین الاقوامی
سطح پر کشمیریوں کو حق خودارادیت د لا نے کا مطالبہ کیا ۔
دورہ چین
اپریل میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب نے 5رکنی
وفد کے ساتھ چین کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین کا دورہ کیا ۔6اپریل 2010 کو جے یو
آئی کا وفد امیر محترم کی قیادت میں چائنااسلامک ایسوسی ایشن کے دفترپہنچا
توایسوسی ایشن کے عہدیداروںنے بڑی گرم جوشی سے وفد کا استقبال کیا۔ میٹنگ روم میں
اسلامک مشن کے وفد کے سربراہ نے قائد جمعیت کو بتایا کہ چین میں مسلمانوں کی تعداد
تقریباً کروڑ بیس لاکھ ہے۔ یہاںمذہبی آزادی ہے،تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسر کا بے
حد احترام کرتے ہیں ۔ یہاں بڑی تعداد میں مساجد موجود میں جہاں ائمہ و خطباء دین
کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ چینی حکومت ہمار ساتھ مذہبی معاملات
میں بھرپور تعاون کرتی ہے حج کے موقع پر حجاج کو خصوصی رعایت دیتی ہے چینی مسلمان
طلباء سعودی عرب مصر پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چین کے اسلامی
مرکز میں میرا اور میرے وفد کا آنا ہمارے لئے اعزاز ہے چین میں مسلمانوں کو حکومت
نے جوآزادی دی ہے ہم اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چین میں مسلمان ایک اچھی
زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لئے قلبی سکون کا باعث ہے ۔ آپ نے مزید کہا کہ
پاک چین تعلقات کی مضبوطی پر دونوں ملکوں کے مسلمانوں کو فخر ہے اور تعلقات کی
مضبوطی کیلئے دعاگو ہیں۔
چینی اسلامی ایسوسی ایشن کے سربراہ نے بتایا کہ حلال فوڈ
کا باقاعدہ ایک ادارہ ہے ۔ ذبح کرنے کے لئے اعلیٰ انتظام ہے مرنے والے مسلمانوں کی
تدفین شرعی احکامات کے مطابق ہوتی ہے، قبرستان کے لئے مسلمان کیمونٹی نے جگہ حاصل
کی اور حکومت نے بھی اس میں بھرپور تعاون کیا ہے
جے یو آئی کے وفد کی H.E WANG GANGجو کہ پولیٹیکل بیورو ممبر وائس چیئرمین نیشنل کمیٹی آف
چائنیز پیپلز کا ادارہ ہے شام 5بجے ان کے وفد سے ملاقات ہوئی۔ وفد کے سربراہ نے
قائد جمعیت اور پارٹی عہدیداروں کو چین آنے پر خوش آمدید کا اور اس توقع کا
اظہار کیا کہ اس دورے سے پاک چین تعلقات میں مزید مضبوطی آئے گی ۔ پاکستان
ہمارااچھا ہمسایہ اور دوست ملک ہے ۔ چین نے ہمیشہ مختلف معاملات پر پاکستان سے
مکمل تعاون کیا اور پاکستان نے بھی کئی مواقع پر چین کی کھلی حمایت کی جس پر چین
پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہے انہوں نے کہ چین کو پاکستان اور وہاں کی مختلف
جماعتوں خصوصاً جے یو آئی سے تعلقات پر بے حد خوشی ہے ۔ انہوںنے کہا چین بہت سے
مذاہب کے لوگوں کا ملک ہے چین کے آئین میں یہاں کے بسنے والوں کو مکمل آزادی ہے
تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ملک کررہ رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ
معمول کے مذہبی پرواگراموں جو آئین کے دائرے میں ہوں ان کی بھی مکمل اجازت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ چین نے صنعتی اور معاشی ترقی کے لئے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ
کامیابیوں کی منزل طے کررہا ہے۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مد ظلہ نے جوابی گفتگو میں
کہا کہ جے یو آئی اور سی پی سی کے درمیان رابطوں سے پاک چین دیرینہ تعلقات اور
مضبوط ہوںگے۔ آپ نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک چین دوستی دقت گزرنے کے ساتھ مزید
مضبوط تر ہوتی جارہی ہے ۔ آپ نے کہا کہ چینی کیمونسٹ پارٹی اور جے یو آئی کے
تعلقات سے یہ دوستی مزید مضبوط ہوگی ۔ آپ نے کہا اس وقت دنیا کے وسائل پر قبضہ کی
جنگ ہورہی ہے اس وجہ سے آپ کا اور ہمارا خطہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ خطے کے مفادات
کا تحفظ وقت کا اہم سوال ہے اس حوالے سے پاکستان اور خطے کی عوام کی نظریں چین پر
لگی ہوئی ہیں۔ امیر جمعیت نے کہا ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ چین میں مختلف مذاہب
کے لوگ محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ اورچین کے آئین میں تمام مذاہب کو برابر کے
حقوق دیئے ہیں مولانا نے کہا پاکستان میں بھی مختلف قومتیں اور مذاہب موجود ہیں ۔
غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن تمام اقلیتوں کو مکمل حقوق دیئے گئے ہیں ۔ آپ نے
کہا مجھے یہ بات بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ پاک چین دوستی پر حکومت عوام
یا کسی جماعت کی سطح پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ پاک چین دوستی پر قومی اتفاق موجود
ہے۔ (ماہنامہ الجمعیت راولپنڈی اگست2010)
دراندازی اور جدوجہد آزادی
واجپائی سے ملاقات میں دراندازی کے حوالے سے دو ٹوک
انداز میں بات ہوئی۔۔۔۔ اور مولانا فضل الرحمن نے واجپائی کو واضح الفاظ میں بتایا
کہ آپ جسے دراندازی کہتے ہیں ہم اسے جدوجہد آزای کہتے ہیں اور یہی بنیادی اور
اہم تنازع ہے اب ان کو مذاکرات کے ذریعے ہمیشہ کے لئے طے کریں اور یہی حالات کا
تقاضا ہے۔
کشمیر پر پاکستان کا جو سرکاری و مملکتی موقف ہے وہی
ہمارا موقف ہے کشمیریوں کو ا ستصواب رائے کا حق ملنا چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ میں نے
اس دورے میں بھارتی انتہا پسندوں کے رویہ بھی تبدیلی محسوس کی ہے ۔ مولانا فضل
الرحمن نے پاکستان کا موقف جس جاندار اور مدلل انداز میں بھارتی وزیراعظم کے آگے
پیش کیا اس کا فوری یہ اثر ہوا کہ مسٹر واجپائی کو کہنا پڑا کہ۔
میں پاکستان کو حقیقت تسلیم کرتا ہوں۔ میں مینار پاکستان
پر پاکستانی قوم کو یہ پیغام دینے کے لئے گیا تھا کہ پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم
کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہ بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے امن مشن
اور دورہ بھارت سے سازگار فضا پیدا کرنے میں میںمددملے گی ۔
سونیا گاندھی کا خط
بھارتی حکمران جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے
قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن کو خط لکھ کر پاک بھارت مذاکرات کو مزید آگے
بڑھانے اور دونوں ملکوں کے تعلقات استوار کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو بروئے کار
لانیکی کی پیشکش کی ہے ۔ سونیا گاندھی نے اپنے خط میں مولانا کی تعریف کرتے ہو ئے
کہ لکھا ہے جمعیت علمائے اسلام کے وفد نے دورہ بھارت کے موقع پر دونوں ملکوں کی
دیرینہ غلط فہمیاں دور کرکے انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے کا جو موقع فراہم کیا ہے
اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس جدوجہد کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے مزید فروغ
ملنا چاہیے ۔ خط میںلکھا کہ اس وقت بھی مولانا فضل الرحمن اور انکی جماعت دونوں
ملکوں کے مابین دوستی کے بندھن جوڑ سکتے ہیں اس کے لئے انہیں دقیقہ فروگذاشت کئے
بغیر ایسے عملی اقدامات کرنے چاہیں کہ جس سے پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے دور
ہونیکی بجائے قریب آجائیں۔ سونیا گاندھی نے مولانا فضل الرحمن اور ان کے رفقاء سے
جن توقعات کا اظہار کیا ہے اگر ایم ایم اے کے لیڈران عملی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے
ان امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں تو پاک بھارت اختلافات کو ختم ہونے سے کوئی
بھی قوت نہیں روک سکتی۔ (ماہنامہ الجمعیت راولپنڈی اگست2004)
عالمی سطح پرقائد جمعیت کے موقف کی پذیرائی
دنیا بھر میں قائد جمعیت کے اس موقف کو پذپرائی ملی مصر
کے اخوان المسلمون اور جماعت الاسلامیہ الجز ائز کی اسلامک فرنٹ سوڈان کی مسلم
فرنٹ اتحاد فسلطین کی حماس اور حرکتہ الجہاد سمیت کئی مسلم ممالک کے سربراہان اور
دنیا بھر کے عوام نے مولانافضل الرحمن کے اس اعلان کی تائید کی مگر پاکستان کے
اندر چند قادریوں پادریوں نے امریکیوں کو اپنا معزز مہمان قرار دیکر ڈالروں کو خوب
سمیٹا جنھیں معروف صحافی حامد میر نے بھی اپنے ایک مضمون میں فتوی باز شر یفی علماء
قرار دیا تھا۔
قابل ترین سیاستدان
برطانیہ کی معروف و مشہور اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اسوقت پاکستان کا سب سے قابل
سیاستدان قرار دیا ہے جبکہ مولانا ہی کو اایشیاء کا پانچواں او انٹرنیشنل سطح کا
انیسوںقابل سیاستدان قرار دیا ہے یہ اعزاز پاکستان کی کسی بھی شخصیت کو پہلی بار
ملا ہے ۔
بی بی سی کی گواہی
3جنوری 2007کی شب آٹھ بجے کے خبرنامے میںبی
بی سی کے تجزیہ نگارنے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا کہ پاکستان کے میڈیا پر سال 2006میں جو شخصیت چھائی رہی وہ مولانا فضل
الرحمن ہیں
بلجیم کا دورہ
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم
العالیہ17اپریل 2011ء کو نمائندہ پارلیمانی وفد کے ہمراہ یورپی یونین کے
دارالحکومت برسلز(بلجیم) تشریف لے گئے ، برسلز جہاں یورپی یونین کی پارلیمنٹ واقع
ہے وہاں پر نٹیو کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ یورپ میں پاکستانی تارکین وطن کی بہت بڑی
تعداد آباد ہے ، ان میں کشمیر ی کمیونٹی کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ۔اس دورے
کے دوران یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز میں یورپی پارلیمان کے صدر، نائب صدر
اور ارکان پارلیمان سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں ہوئی۔ پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات
اور کشمیر سنیٹر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کا سلسلہ ہوا۔ برسلز
میںپاکستانی سفیر عباس جیلانی (سفیر پاکستان ) بھی قائد جمعیت کی سربراہی میں
پارلیمانی وفد کے ہمراہ ہے۔ برسلز میں ایسٹ اینڈ ویسٹ انسٹیٹیوٹ کے ہیڈ کوارٹر میں
بھی پروگرام ہوا۔ اس انسٹیٹیوٹ کی ایک برانچ امریکہ میں ہے ، اس انسٹیٹیوٹ میں
حضرت قائد جمعیتہ کا خطاب یورپی یونین کی پارلیمان کے ارکان نے بھی سنا۔ اس موقع
پر کشمیر کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے قائدجمعیتہ نے فرمایا کہ انڈیا سے مطالبہ
کیا جاتا ہے اور یہ بین الاقوامی مطالبہ بھی ہے کہ کشمیر سے فوج نکالی جائے تاکہ
وہاں امن قائم ہو۔ یہ مطالبہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن ہم یہی مطالبہ افغانستان کے لئے
کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے تاکہ وہاں امن قائم
ہوسکے ۔ اسی طرح کے مسائل کے حل کے لئے طاقت کی بجائے سیاسی مذاکرات کا راستہ
اختیار کرنے کے والے سے انڈیا اور پاکستان کو ہر فورم پر تاکید کیجاتی ہے، تو یہی
فارمولا افغانستان کیلئے بھی اپنا یا جائے ۔ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے
حوالے سے قائدجمعیتہ دامت برکاتہم نے برملا کہا کہ افغان حکومت مذاکرات کرناچاہتی
ہے ، تو آپ کیوں لوگوں کو دہشت گردی قرار دے کر جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ۔
(ماہنا مہ الجمعیتہ مئی2011)
دورہ سعودی عرب اور شاہ عبداللہ سے ملاقات
حرمین شریفین کی زیارت اور حج وعمرہ کیلئے تو قائد جمعیت
مدظلہ اکثر وبیشتر تشریف لے جاتے ہیں مئی 2011کو قائد جمعیت مولانا فضل الر حمن
عمرہ کی ادئیگی کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے روضہ نبویﷺپر
حاضری درودوسلام پیش کرنے کے بعد20مئی2011کو قائد جمعیت مدظلہ نے نماز جمعہ مسجد نبوی
ﷺ میں ادافرمائی
اس کے بعد3بجے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب کے دارالخلافہ
ریاض کیلئے روانہ ہوئے 21مئی کو قصریمامہ ریاض کے شاہی ایوان میں قائد جمعیت مدظلہ
نے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزسے ملاقات کرکے عالم اسلام کے
مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
قائد جمعیت کی بلند اخلاقی
مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہید لکھتے ہیں ۔ ہم مولانا
کو نہ تو معصوم سمجھتے ہیں اور انہیں مشیخیت کے بلند ترین منصب پر فائز کرتے ہیں ،
اس کے باوجود ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی میدان میں دستیاب
شخصیات میں ان کا وجود غنیمت ہے ۔ اہل حق کو ان کی قدر کرنی چاہیے ۔ یہ حقیقت بھی
روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہم مسلک ساتھیوں میں سے جس پر بھی کوئی افتاد آئی کسی
مددگار کی تلاش میں اس کی بھٹکتی نظریں بالاآخر مولانا پرہی جاٹکیں اور مولانا نے
اسے مایوس نہ کیا ۔ آفت زدہ دوست کو مصیبت سے نجات دلانے کے لئے بسا اوقات انہوں
نے سیاسی مصلحتوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ پھر کمال یہ کہ اپنے اس احسان کا سر
عام کبھی ذکر ہی نہ کیا۔ (ماہنامہ الجمعیتہ راولپنڈی فروری،مارچ2012)
سیاست کا ساتواں بحری بیڑہ
ایک مشہور سیاستدان نے مولانافضل الرحمن کو سیاست کا ساتواں
بحری بیڑہ قرار دیا تھا، ان کی بات میں نجانے کتنی صداقت تھی مگر اس میں تو کوئی
شک نہیں کہ سر بکف سربلند دیوبند دیوبند کے فلک شگاف نعرے لگانے والے اگر مخلص
زیرک اور اعتدال پسند قیادت کے زیر سایہ جمع ہوجائیں تو وہ ساتویں نہیں تیسری اور
چوتھی طاقت ثابت ہوسکتے ہیں ۔ (ماہنامہ الجمعیتہ راولپنڈی فروری،مارچ2012)
اکابر کی شرکت
کانفرنس کی کئی جید علماء نے نہ صرف حمایت کی بلکہ علالت
کے باجود شریک ہوئے جن میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث
مولانا سلیم اللہ خان سجاول سے ممتاز عالم دین مولانا عبدالغفور قاسمی ، عالمی
مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر قابل ذکر
ہیں۔
ایسا جلسہ کہ لوگ گنگ ہو کر رہ گئے
معروف صحافی عرفان صدیقی لکھتے ہیں ۔ مولانا فضل
الرحمن نے جلسہ کیا اور کس دھڑ لے کا کیا ایسا جلسہ کہ لوگ گنگ ہو کر رہ گئے۔ جلسہ
کے دوران اور بعد میں بھی میرے فون درجنوں ایس ایم ایس آئے کہ تم لوگ منافقت کیوں
کرتے ہو؟ اسی جگہ اسی باغ قائد میں کچھ ہی دن پہلے ایک سیاسی جماعت کا جلسہ ہوا
تھاتو تم میڈیا والوں کا انگ انگ رقص کررہا تھا ، تم لوگ گھنٹوں پہلے خالی کرسیوں
پر ہی کیمرے گاڑ کر بیٹھ گئے تھے تم نے سات سات گھنٹے کی بے تکان نشریات دیں ۔
گانے ترانے انٹرویوز تقریریں تبصرے، جائز ے اور نہ جانے کیا، کچھ ایک نوجوان کے
فون میں خاصی تلخی تھی ، بولا خدا کو حاضرناظر جان کر بتائیں یہ جلسہ عمران خان کے
جلسے سے دو گنا نہیں ؟ اگر ہے تو تم لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے ؟ اس وقت تو
کئی گھنٹوں کے لئے آپ لوگ ان کی تقرریں مزے لے لے کر سناتے رہے جنہیں کوئی جانتا
بھی نہیں اور آج تم نے مولانا فضل الرحمن کی تقریر بھی ٹوٹے ٹوٹے کرکے سنائی ، یہ
کون سا انصاف ہے ؟دعوے کرتے ہو کہ میڈیا آزاد ہے ، میڈیا غیر جانبدار ہے کیا یہی
تمہاری آزادی اور غیر جانبداری ؟
جب سے تحریک انصاف کے طفلان انقلاب گستاخ کالم نگاروں کو
راہ راست پر لانے کی اصلاحی مہم پر ہیں ، میں ٹیلی فون سننے میں خاصی احتیاط کرتا
ہوں ۔ اکثر تو کسی اور کو تھمائے رکھتا ہوں ۔ بے شناخت کالیں تو نظر اندازکردیتا
ہوں لیکن پھر بھی کسی نہ کسی کی گرفت میں آ ہی جاتا ہوں ، ایس ایم ایس کا پھاٹک
بہرحال کھلا رہتا ہے۔ سو میں مولانا کے پرستار کی جلی کٹی سنتا رہا۔ اب میں اسے
کیسے سمجھاتا کہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں کیا فرق ہے؟اسے کس طرح باور
کراتا کہ موسیقی رنگ و نیرنگ نسل نو کی پرکاری و طرح داری رنگین پرچموں کی بہار
عزم انقلاب سے تمتماتے چہروں کے حسن جہاں تاب اور نعمہ و نور کی حاشیہ آرائی میں
سجی تقریروں کا جادو کس طرح سر چڑھ کے بولتا ہے اور اگر چار سو سفید پوشاکوں والی
ایک مخلوق حدنظر پھیلی ہو، اس مخلوق کے سر پر پگڑیاں اور چہروں پر داڑھیاں ہوں
تھرتھراتے بدن ہوں نہ موسیقی کی تانوں پہ جھومتے نوجوان۔ جھنڈے بھی محض سفید کالی
پیٹوں سے آراستہ ہوں اور جلسہ گاہ میں بے ہنگم اچھل پھاند کا مظاہرہ ہو نہ دلوں
میں ہلچل پیدا کرینے والے نعروں کا خروش تو پھر کئی کئی گھنٹے کے لئے کیمرے کن
منظروں پر مرکوز ہیں ؟مولانا نے تقریر سے پہلے بہت خوبصورت تلاوت کی جو دل کے
تارہلا رہی تھی ۔ ان کی تقریر بھی بے حد جامع اور مربوط تھی لیکن ہم میڈیا والوں
کی ترجیحات ذرادوسری ہوتی ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کی تقریر پر پھر کسی وقت بات
ہوگی لیکن آج انہیں ہدیہ تبریک پیش کرنے کو جی چا ہتا ہے ۔ کچھ دن قبل کسی رپورٹر
نے پوچھا تھا، مولانا کراچی میں کیا آپ عمران خان جتنا جلسہ کرلیں گے ؟مولانا نے
اپنے چہرے پر روایتی معصوم مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے فرمایا تھاپتا نہیں اس جتنا یا اس
سے بڑا انہوں نے یقینا اس سے کہیں بڑا جلسہ کر دکھایا ہے اور وہ بھی ان معاون
عوامل کے بغیر جو خان صاحب کو حاصل تھے ۔ چوہدری شجاعت حسین نے انہیں بڑی فراح
قلبی سے مبارک باد دی ہے ۔ کاش سید منور حسن اور برادرم لیاقت بلوچ بھی اسی طرح
مولانا کو مبارک باد دینے پہنچ جاتے ، جس طرح وہ جلسہ لاہور کے بعد آدھی رات کو
زمان پارک عمران خان کے پاس پہنچ گئے تھے ۔
(روزنامہ جنگ31جنوری 2012ء)
اعتراف حقیقت
الطاف حسن قریشی۔۔۔۔ چیف ایڈیٹرا اردولکھتے ہیں ۔ ہمارے
سیاستدانوںاور مذہبی راہنمائون کو زبان کے استعمال کا قرینہ مولانا فضل الرحمن سے
سیکھنا ہوگا جو اپنا مدعا نہایت سلیقے سے اور عظیم حقیقتیں نہایت سادہ الفاظ میں
بیان کرجاتے ہیں۔ انہوں نے کراچی اور گوجرانوالہ میں دو بہت بڑے جلسے منعقد کرکے
پاکستان کے لادینی عناصر اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کو چیلنج کردیا اور اسلام کے
عادلانہ سیاسی اور اقتصادی نظام کے خدوخال بڑے خوبصورت انداز میں پیش کئے ہیں ۔ وہ
ایک زیرک سیاستدان ہیں ، ان میں غیر معتدل رویوں میں توازن پیدا کرنے غیر معمولی
صلاحیت پائی جاتی ہے۔ (روزنامہ جنگ2جنوری2012)
خوشنودعلی خان ۔۔۔۔۔لکھتے ہیں۔کل مولانا فضل الرحمن ،
مولانا عبدالغفور حیدری اور ان کے ساتھیوں سے بھی ملاقات رہی ۔ مولانا فضل الرحمن
نے کراچی میں جمعہ کے جلسے سے پہلے پریس سے ایک ملاقات رکھی تھی ۔ مہران ہوٹل کا
ایک ہال اخبار نویسوں، کیمرہ مینوں اور فوٹوگرافروں سے کچھا کھچ برا تھا۔ مولانا
جب کراچی آئیں تو عامر محمود کے گھر کے بالکل سامنے ٹھہرتے ہیں لہذا عامر محمود
اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے پڑوسی بھی ٹھہرے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن نے
کراچی میں زبردست جلسہ کیا ہے ، اگرچہ اس وقت سکھر میں ایم کیوایم کا جلسہ بھی
ہورہا تھالہذا بہت سے چینلز نے مولانا فضل الرحمن کا جلسہ دکھاتے ہوئے فئیر پلے نہیں
کھیلا۔لیکن اس سے تو کسی کو اختلاف نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا جلسہ ایک بڑا
جلسہ تھا۔ پختون اور پنجابی تو یہاں پنجاب اور سرحد کے لیڈرشپ کو ترستے ہیں ،لیکن
اسلام آباد کی طرح کراچی میں بھی مساجد کی ایک بڑی تعداد دیوبندی علماء کے پاس ہے
اور مولانا فضل الرحمن ان کے وارث ہیں ۔ لہذا شہر کراچی میں مولانا فضل الرحمن کے
جلسے کے ایسے فلکس ہوڈنگز لگائی گئیں کہ پچھلے جمعہ کو جب میں یہاں پہنچا تو ہر
طرف یا تو جناب الطاف حسین تھے ۔۔۔۔ یا پھر مولانا فضل الرحمن
پاکستان کے ذہین ترین سیاست دان
معروف صحافی حامدمیرلکھتے ہیں نوجوان اکثرمجھ سے پوچھتے
ہیں کہ پاکستان کا سب سے زیادہ ذہین سیاست دان کون ہے عام طورپرمیں اس سوال کاجواب
دینے سے گریز کرتا ہوں لیکن جب بہت اصرار کیا جائے تومیں مولانا فضل الرحمن کا نام
لیتا ہوںان کانا سن کر کوئی خوش گوار حیرت میں دوب جاتا ہے اور جناب عطاء الحق
قاسمی بھی میری اس رائے سے انکارنہیں کرسکتے کہ مولانا فضل الرحمن پاکستان کے ذہین
ترین سیاست دانوںمیں سے ایک ہیں
بی بی سی کا اعتراف
جیو نیوز کے پروگرام،جواب دہ میں مشہور سیاسی تجزیہ نگار
افتخاراحمد نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ بی بی سی کے مطابق مولانا ایک ہی وقت
میں فضا میں پانچ گیندیںاچھالنے کے ماہر ہیں
جماعتی انتخابات اورتجدیدِ امارت:
11اگست 2014ء جمعیت علماء اسلام کے مرکزی
انتخابات میں مرکزی مجلس عمومی نے ایک بار پھر قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن کو
متفقہ طور پربلامقابلہ امیر مرکزیہ اور مولانا عبدالغفور حیدری کو جنرل سیکرٹر ی
منتخب کیا ۔
پاک چائنہ اکنامک کوریڈور قائد جمعیت کا لازوال
کارنامہ
1995ء میں جب قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن
خارجہ امورکی کمیٹی چیئر مین تھے اس وقت آپ چائنہ کی دعوت پر ایک وفد لے کر تشریف
لے گئے تھے اس وقت سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا اور کمیونسٹ نظام کو شکست ہوچکی
تھی۔چائنہ میں بھی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی اس نے بین الاقوامی صورت حال کو
بھانپتے ہوئے اپنے ملک کے اندر کچھ انقلابی قسم کی تبدیلیاں لائیں اور لوگوں کو
شخصی ملکیتیں دیں چنانچہ انہوں نے مختلف شہروں میں فری اکانومی زون بنائے اور
لوگوں کی دعوت دی کہ آپ شخصی ملکیت کی بنیادپر آزادانہ طریقے سے دنیا کے ساتھ
تجارت کرسکتے ہیں ۔مختلف شہروں میں بنائے گئے ان مقامات پر قائدجمعیت مولانا فضل
الرحمن کے وفد کو لے جاکردورہ کرایا گیا جس پر قائدجمعیت نے ان کو مشرق بعید میں
ان کی تجارتی سرگرمیوں کی رکاوٹوں کے بارے اپنے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے تجویز دی
کہ آپ ارومچی میں کوبھی فری اکانومی زون بنائیں اور شاہراہ ریشم کو دوبارہ فعال
اور متحریک کریں اس پر آپ کو وسط ایشیا بھی ملے گا اور مشرق وسطیٰ بھی پاکستان
آپ کا کاریڈور بنے گا پاکستان آپ کا دوست ہے،پاکستان کو اس کا اقتصادی فائدہ
ہوگا ہم محصولات لیں گے ہمارے ملک کی پیدواری صلاحیت بڑھے گی اس کے ساتھ ساتھ یہ
چائنہ کا دنیا کے ساتھ تجارتی راستہ بنے گا ۔
قائد جمعیت کا دورۂ چین
16مارچ 2015ء کو قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن
مدظلہ نے اپنے وفدکے ہمراہ چین کے دورے پر روانہ ہوئے چینی صوبہ سنکیانگ کے
دارالحکومت ارمچی کے ائیر پورٹ پر چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور سنکیانگ
خودمختار ریجن ،ترقی واصلاحات کمیشن کی اعلیٰ قیادت نے قائدجمعیت اور ان کے وفدکا
والہانہ استقبال کیا۔ہوٹل میں مغرب کے بعد سنکیانگ خودمختار ریجن کے لئے ترقی
واصلاحات کمیشن کے سربراہ ژکیتی یامنگ اور
ان کے رفقاء کے ساتھ ملاقات طے تھی اس ملاقات میں انہون نے قائدجمعیت اور ان کے
وفد کو سنکیانگ کے لئے ترقیافتہ پیکج کے متعلق بریف کیا انہوں کہا کہ کچھ دہشت گرد
قوتیں سنکیانگ کی ترقی نہیں چاہتیں جو ہماری قومی وحدت اور ہم آہنگی کے لئے نقصان
دہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت طرف سے دہشت گردی کی
مخالفت اور سنکیانگ صوبہ کی ترقی کی حمایت چین اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے لئے
تقویت کا باعث ہے ۔انہوں نے جمعیت کے نامزدکردہ پانچ طلباء کے لئے وظائف دینے کا
بھی اعلان کیا جو یہاں آکر تعلیم حاصل کریں جس سے ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے
۔دوسرے روز وفد کو سنکیانگ دس سالہ ترقیاتی منصوبہ کا مشاہدہ کرایاگیا 18 مارچ2015
کو سنکیانگ یوغور خودمختار ریجن ‘‘کے اکنامک کونسل برائے اقتصادی ترقی واصلاحات
کمیشن کے ہیڈکواٹر میں اہم میٹنگ ہوئی جس کا مرکزی نقطہ پاک چائنہ اکنامک
کوریڈورتھا اس کی تفصیلات سے وفد کو آگاہ کرتے ہوئے چینی وفدنے چند تجاویز پیش
کیں
1۔۔۔آمدورفت کے ذرائع کو مضبوط بنایاجائے
۔اس وقت چین کے اندرونی خنجراب تک 468کلومیٹر تحقیقات مکمل ہیں
2۔۔۔۔پاکستان ریلوئے کے بارے میں ابھی تک
تحقیقات کاکام شروع نہیں ہوا۔ہمیں یقین ہے کہ اس کو تیز تر کیا جائے گا تاکہ اس
منصوبہ پر جلد کام شروع کیا جاسکے ۔
3۔۔۔۔پاک چین شاہراہ کی بہتری کا عمل تیز
کیاجائے ۔
4۔۔۔۔۔پاک چین توانائی تعاون کو مضبوط
کیاجائے ۔سنکیانگ کوئلے کی دولت سے مالامال ہے جس کو پاک چین بجلی کے منصوبے میں
عمل میں لایاجائے ۔
5۔۔۔۔سنکیانگ کے صنعتی ادارے بجلی گھرکی
تعمیر کے بارے میںپاکستان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند ہیں پاکستان کی سرمایہ
کارکپنیوں کا سنکیانگ میں سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا جائے گا
.
6۔۔۔۔۔افرادی قوت کے تبادلوں میں اضافہ
کیاجائے اور ویزہ کے حصول میں اسانی پیداکی جائے
7۔۔۔۔سنکیانگ میں پاکستانی کی تعلیم وتربیت
اور سائنس وٹیکنالوجی کے شعبوں میں بہتری لائی جائے ۔اس موقع پر قائدجمعیت مولانا
فضل الرحمن نے اصلاحات وترقی کمیشن کے سربراہ اور ان کے وفد کا شکریہ اداکیا کہ
انہوں نے یہاں دعوت دے کر پاک چائنہ اکنامک کوریڈور پر بات کرنے کا موقع فراہم کیا
انہوں نے کہا کہ میری جماعت چین کے ساتھ دوستی کی زبردست حمایت کرتی ہے ہم چین کے
ساتھ ہر شعبے میں تعاون کے حامی ہیں انہوں کہا کہ چین ایک بڑی اقتصادی قوت ہے اس کو
اپنی اقتصادی ترقی کے لئے مختلف تجارتی راستوں اور رابطے کی ضرورت ہے 1995,94میں
جب میں نے بطورچیئرمین امورخارجہ کمیٹی )چین کا سفر کیا توتب شنگائی اور شنگین
فراکنامک زون تھے اس وقت ہم نے ارمچی کو فری اکنامک زون بنانے کی تجویز دی جس کو
چین نے قبول کیا اور یہیں سے کاشغر گوادر کوریڈور منصوبے کا آغازہوا۔ہماری رائے
تھی کہ مشرقی یاجنوبی چین میں آپ کے لئے جاپان ،کوریا اور مالاکو کی جانب سے اگر
مشکلات پیداکی جاتی ہیں تو کاشغر سے پاکستان کی جانب آپ کا راستہ محفوظ ہے آپ
ماسکو کے راستے فن لینڈ تہران کے راستے پیرس اور پاکستان کے راستے گوادر جارہے ہیں
اور ان راستوں میں آپ کے لئے سب سے محفوظ رور اہمیت کا حامل پاک چائنہ کوریڈور ہے
ہم چین کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ گوادر پورٹ کو جلد فعال بنایا جائے۔گوادر کے
لئے ایسے روڈ کی ضرورت ہے کہ کاروباری لوگوں کو واپس کراچی نہ جانا پڑے کراچی
لاہور موٹر وے کے لئے فنڈ جاری ہوگئے ہیں حکومت پاکستان کی ترجیح ہے کہ کہ گوادر
کو رتوڈیروسے ملایا جائے تاکہ تیجارت کا عمل شروع کیا جاسکے ہم ان ضروتوں کو تسلیم
کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم کوریڈور کے پہلے اور بنیادی راستے پر زور دینا
چاہتے ہیں جس کو پہلے ہی دیزمیں شروع کیا جائے ۔یہ راستہ برہان سے میانوالی ڈیرہ
اسماعیل خان ،ژوب اور کوئٹہ سے ہوکر گوادر پہنچتا ہے یہ سڑک دوسروں کی نسبت
800کلومیٹر کے کم فاڈصلے پر پڑتا ہے اور پسماندہ علاقوں سے ہوکر گزرتی ہے جس طرح
چین کی حکومت نے سنکیانگ کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دے کر لوگوں کو خوشحالی دی اس
طرح پاکستان کے اس پسماندہ علاقے میں سڑک گزارنے سے یہ غریب لوگ خوشحال ہوں گے ۔جس
سے یہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے میں بھی مددملے گی اس راستے سے سنٹرل
ایشیا کے لئے چھ گیٹ مل سکتے ہیں
1)
برہان سے براستہ طورخم ۔
2) فتح جنگ سے براستہ کوہاٹ ،پارہ چنار
3)
میانوالی سے براستہ بنوں ،غلام خان ۔
4)
ڈی آئی خان سے براستہ وانا (جنوبی وزیرستان )
5)
ژوب سے براستہ بادینی
6)
کوہاٹ سے براستہ چمن ۔جبکہ ایران کے لئے بھی یہ راستہ ریلوئے لائن اور سڑک
دونوںکے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے
اس راستے میں واقع اضلاع کوہاٹ ،کرک ، بنوں لکی مروت اور
ڈیرہ اسماعیل خان میں وافرمقدار میں گیس اورتیل کے ذخائرملے ہیں جو چین کے لئے
سرمایہ کاری کا ایک بہترین موواقع فراہم کرسکتے ہیں قائدجمعیت نے کہا کہ ہمارے اس
تجویزکردہ راستے کی تعمیر میں تاخیر سے وہاں کے لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے
خیبرپختوا اسمبلی نے اس منصوبہ کے حق میں متفقہ قرارداد بھی منظور کی ہے لہذااگر
اس منصوبے کے میانوالی اور ژوب سیکشن کے 100کلومیٹر فاصلے پر ترجیحی بنیادوں پر
کام شروع کیا جائے تو متعلقہ اضلاع کے عوام مطمئن ہوجائیں گے ۔چینی وفد نے یقین
دلایا کہ آپ جب بیجنگ میں ملاقات کریں گے تو ہم اس بارے میں اپنی سفارشات دے چکے
ہوں گے مولانا صاحب نے اس موقع پر اپنے ہاتھ سے بنایاہوانقشہ بھی چینی وفد کے
حوالے کیا ۔ (ماہنامہ الجمعیۃ راولپنڈی اپریل 2015 مضمون جلال الدین ایڈوکیٹ )
اقتصادی راہ داری کو متنازعہ بنانے کی سازش اور قائد
جمعیۃ کاکردار
7جنوری 2016ء مرکزی حکومت کی طرف سے پاک
چائنہ اکنامک کوریڈور کے روٹ کوتبدیل کرنے کے خلاف پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے
زیراہتمام قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن کی زیرصدارت آل پارٹیزکانفرنس منعقدہوئی
اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیارکیاگیا ۔اس کانفرنس میں مولانا عبدالغفور حیدری ،جناب
اکرم خان درانی،وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک،سپیکر کے پی کے اسمبلی
اسدقیصر،محمودخان اچکزئی ،اقبال ظفر جھگڑا،میاں افتخار حسین ،آفتاب شیرپائو،طارق
اللہ جماعت اسلامی ،مولانا گل نصیب خان اور اپوزیشن لیڈر کے پی کے اسمبلی مولانا
لطف الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں کو رہنمائوں نے شرکت کی ۔10جنوری 2016ء بی این
پی کے زیر اہتمام اسلام آبادمیں آل پارٹیزکانفرنس منعقد ہوئی جس میں قائد جمعیت
مولانا فضل الرحمن نے شرکائے کانفرنس کی رہنمائی فرمائی ۔15جنوری 2016پاک چائنہ
اکنامک کوریڈور کے سلسلہ میں آل پارٹیز کمیٹی کے ارکان نے قائد جمعیت مولانا فضل
الرحمن کی قیادت میں وزیر اعظم نوزشریف سے ملاقات کرکے انہیں عوامی خدشات سے آگاہ
کیا اس موقع پر وزیر اعظم نے تمام خدشات دورکرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے ایک
کمیٹی قائم کی جو ہر ماہ اس منصوبے کا جائزہ لے کر رورٹ پیش کرے گی ۔
ممتاز قادری کی شہادت اور تحفظ نسواں بل
29فروری 2016ء کو غازی ممتازقادری کی اڈیالہ
جیل میں پھانسی دی گئی5 مارچ کو تمام مذہبی جماعتوں کی قیادت کو اپنی رہائش گاہ پر
بلا کر متفقہ طور پر لائحہ عمل تیار کیا اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے
ہوئے قائد جمعیت مدظلہ نے فرمایاکہ تمام مذہبی جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ
ممتازقادری کے کیس انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے اور یہ ایک عدالتی قتل ہے اسی
طرح پنجاب اسمبلی سے پاس شدہ بل غیر شرعی اور خاندانی نظام اور اخلاقیات کو تباہ
کرنے کی مغربی سازش ہے جس کے لئے 15؍مارچ کو لاہور میں بڑااجلاس منعقد ہوگا اور اس
میں اگلا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا ۔
تحفظ نسواں بل پرحکومت کی پسپائی
فروری 2016ء میں پنجاب اسمبلی نے تحفظ نسواںبل کے نام سے
ایک بے ہودہ اور غیراسلامی بل پاس کرواکر مغربی قوتوں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش
کی جس کے خلاف قائدجمعیت نے آوازبلندکرتے ہوئے اس بل کو مستردکیا جس پر وزیر اعظم
میاں نوازشریف نے قائدجمعیت سے ملاقات کرکے اس بل کے نوٹیفیکیشن کو روک دیا اور اس
کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جو علماء کرام سے رجوع کرکے اس بل کی
غیراسلامی شقوں کو ختم کرکے اسلامی تعلیمات کے مطابق بل لائے گی 15مارچ2016ء کو
لاہور میں تمام دینی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا ۔اس میں حکومت کو ڈیڈلائن
دی گئی کہ 27مارچ تک اس بل کو واپس لے کر اس کی اصلاح کی جائے ورنہ حکومت کے خلاف
زبردست تحریک چلائی جائے گی ۔
قائدجمعیت کوعالمی امن ایوارڈ
17مارچ2016ء کو قائدجمعیت حضرت مولانا فضل
الرحمن مدظلہ بحرین حکومت کی دعوت پر بحرین تشریف لے گئے جہاں آپ نے امن اور
معیشت کے موضوع پر ایک سمینار سے خطاب کیا اس کے بعد آپ کی امن کی بحالی کے لئے
کو ششوںکے اعتراف میں امن ایوارڈ دیا گیا ا اس دورے میں آپ نے بحرین کے اعلیٰ
عہدیداروں سے ملاقاتیں کرکے مسئلہ کشمیر اور دیگر عالم اسلام کو درپیش مسائل پر
گفتگوکی اسی دورے میں ۱۵؍غیرمسلموں
نے آپ کے ہاتھ پر کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کیا ۔
ایک تبصرہ شائع کریں