مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ
جمعیۃ
علماء ہند کے ناظم اعلیٰ
تحریک آزادی کے عظیم لیڈر
مسلمانانِ ہند وستان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت
کرنے والے مجاہد رہنما
پیدائش وفات
۱۹۰۱ء
۱۹۶۲ء
ولادت اورتعلیم
مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۱ میں اپنے وطن سیوہارہ
ضلع بجنور کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کے والد شمس الدین صاحب بھوپال
اور پھر بیکانیر کی ریاستوں میں اسسٹنٹ انجنیئرکے عہدے پر فائز تھے زیادہ تر تعلیم
سیوہارہ کے مدرسہ فیض عام ار مدرسہ شاہی مراد آباد میں ہوئی ۱۳۴۱ھ کو دارالعلوم دیوبند
میں داخل ہوئے ۱۳۴۲
میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی درس وتدریس دارالعلوم کی جانب سے آپ کو مدراس کے
ایک مدرسہ میں تدریس کے لئے بھیجا گیا ایک سال تدریس میں گذارا ساتھ ہی تصنیف و
تالیف کا کام بھی شروع کیا اسی زمانہ میں حجاز مقدس حج کے لئے تشریف لے گئے واپسی
پر دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس شروع کی بعدازاں حضرت علامہ انور شاہ کشمیر ی
کے ساتھ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے وابستہ ہوگئے پانچ سال وہاںدرس و تدریس میں مشغول
رہے ۱۳۵۲/۱۹۳۷
میں جب دہلی میں ندوۃ المصفنین کا قیام عمل میں آیا تو آپ اپنے دیرینہ رفیق حضرت
مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے ساتھ دہلی چلے آئے ۔ یہاں آپ نے گراں قدر
خدمات انجام دیں ۔ اسلام کا اقتصادی نظام ، اخلاق اور فلسفہ اخلاق، اور قصص
القرآن جیسی بلندپائی اور محققانہ کتابیں نصنیف فر مائیں اس سے قبل ڈسٹرکٹ جیل
میں سیرۃ نبوی پر بلاغ مبین لکھ چکے تھے ۔ جمعیت علماء ہند کا ادارہ حربیہ۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس موقع پر یہ بات خاص
طور سے نوٹ کرلینی چاہیے کہ جمعیتہ علماء ہند نے جب ۱۹۲۹ء میں جنگ آزادی میں
شرکت طے کی تھی تو ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا تھا کہ اس کا پلیٹ فارم علیحدہ ہوگا۔
اس کے رضا کاروں کا نظام بھی علیحدہ رہے گا۔ گرفتاریوں کا پروگرام بھی جمعیتہ
علماء ہند اپنے ارکان اور کارکنوں کے لئے علیحدہ بنائے گی اور اگر مقدمات وغیرہ کے
سلسلے میں مصارف کی ضرورت ہوگی تو ان کا انتظام بھی جمعیتہ علماء اپنے طور پر کرے
گی ۔ کانگریس یا کسی اور پارٹی کی طرف نظر نہیں اٹھائے گی۔ اب ۱۹۳۲ء میں جب تحریک میں
دوبارہ جان پڑی تو اس کو زندہ رکھنے کے لئے غذا کی ضرورت تھی۔ پروگرام کے مطابق
رسول نافرمانی کرتے ہوئے گرفتار ہو جانا تحریک کی غذا تھی۔
مگر اس مرتبہ اس غذا کا فراہم کرنا کانگریس اور’’ جمعیتہ
علماء‘‘ دونوں کے لئے مشکل ہورہا تھا۔ کیونکہ اول تو مسلسل تین سال گزر جانے کے
بعد کارکنوں کے جوش عمل میں اضمحلال پیدا ہوجانا ایک قدرتی امر تھا اس کے علاوہ
ولنگڈن گورنمنٹ نے اس مرتبہ تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی صف اول کے تمام لیڈروں
کوگرفتار کرلیا تھا۔ مزید برآں ضبطی جائیدا د اور گرفتاریوںکے سلسلے میں بھی
حکومت کی پالیسی پہلے سے زیادہ سخت ہوگئی تھی۔ ان تمام حالات کی بناء پر اگرچہ کام
بہت مشکل ہوگیا تھا مگر ان حالات کاتقاضایہ بھی تھا کہ تحریک کی رگوں اور پھٹوںمیں
تقویت کے انجکشن اس پردہ داری کے ساتھ لگائے جائیں کی سی آئی ڈی کی نظر تفتیش ان
ڈاکٹروں تک نہ پہونچ سکے جو انجکش کی موئیاں ہاتھ میں لئے ہوں ۔
عام طور پر پروگرام یہ ہوا کر تا تھا کہ ہفتے میں ایک یا
دو مرتبہ رضا کاروں کے جتھے بھیجے جاتے تھے جو برسر عام قانون کی خلاف ورزی کرتے
تھے اور گرفتاری کرلئے جاتے تھے ۔ عام طور پر دفعہ ۱۴۴/ ۸۸ کی خلاف وزری بھی ہو
جاتی تھی پولیس کی کوشش یہ رہتی تھی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ رضاکاروں کا جتھا کہاں
سے روانہ ہوگا۔ تاکہ روانگی سے پہلے ہی ان کو گرفتار کر لے اور یہ نہ ہوسکے تو
جیسے ہی جتھا روانہ ہو فوراً گرفتار کرلے تاکہ شہر میں خلاف قانون اقدام کا مظاہرہ
نہ ہوسکے ۔
پورے ملک میں سول نافرنی اور خلاف ورزی قانون کے اس کے
اس نظام کو زندہ رکھنے کے لئے ایک مستقل نظام کی ضرورت تھی چنانچہ کانگریس نے جنگی
کونسل قائم کردی تھی اور جمعیتہ علماء ہند نے اپنے اس نظام کے لئے عربی کا لفظ
ادارہ حربیہ منتخب کیا تھا۔
جمیعتہ علماء ہند کے صدر مفتی اعظم حضرت مولانا محمد
کفایت اللہ صاحب اور ناظم اعلیٰ سبحان الہند حضرت مولانا احمد سعید صاحب تھے مگر
وہ ڈاکٹر جس کو بہت سے انجکشن دے گئے تھے ۔ ابوالمحاسن مولانا سجاد صاحب ( نائب
امیر شریعت صوبہ بہار) تھے ۔ رحمہم اللہ ادارہ حربیہ کے کلید بردار یہی حضرت تھی۔
جمیعتہ علماء ہند کے دفتر سے علیحدہ محلہ بلی ماران کی
ایک تاریک گلی میں ایک مکان لے لیا گیا تھا۔ حضرت مولانا سجا د صاحب رحمتہ اللہ
علیہ کا قیام اسی مکان میں رہتا تھا۔ جس کا علم دفتر کے لوگوں میں سے بھی غالباً
صرف قاضی اکرام الحق صاحب کو تھا۔ جماعت کے جو حضرات اسی ادارہ کی ضرورت سے حضرت
موصوف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے تو قاضی اکرام الحق صاحب ہی ان کے رہبر بنتے تھے ۔
ہمیں یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت مولاناسجاد صاحب کے
دست راست اور نفس ناطقہ یہی رفیق محترم مجاہد ملت رحمتہ اللہ علیہ تھے۔جن کو نظام
رضا کاران کا ناظم اعلیٰ یا کمانڈر بنایاگیا تھا۔اور ان کاکام یہ تھاکہ ملک میں
گھوم پھر کر تحریک کا جائزہ لیں اور اس نظام کو کامیاب بنائیں۔
وہ وقت یاد آتا ہے ۔ احقر مدرسہ شاہی میں ملازم تھا،
اور فاضل وقت اور بسا اوقات رخصت لے کر مدرسہ کا بھی وقت اسی تماشے میں صرف کیا
کرتا تھا۔
مرادآباد میں خفیہ طریقہ سے مجاہد ملت کی تشریف آوری
کا پروگرام پہنچا۔ چند ساتھیوں کے ساتھ احقر استقبال کے لئے اسٹیشن پر حاضر ہوا ۔
آج کل دہلی جنکشن سے ایک پاسنجر دس بن کر دس منٹ پر
مرادآباد جاتا ہے۔ یہی پاسنجر اس زمانے میں بھی تقریباً ساڑھے تین بجے مرادآباد
پہنچا کر تاتھا۔ مجاہد ملت اسی ٹرین سے مرادا ٓباد پہنچنے والے تھے۔ چنانچہ ٹھیک
وقت پر پہو نچے ۔ مگر حسب معمول سادہ لباس میں ملبوس کھدر کی شیروانی بھی کسی قدر
بوسیدہ تھی۔ کچھ ظرافت پسند دوستوں نے عرض بھی کیا کہ کمانڈر صاحب کو تو فوجی لباس
میں ملبوس ہوناچاہیے ۔ مجاہد ملت رحمتہ اللہ علیہ کا خاموش تبسم اس کا جواب تھا۔
مگر اس زمانے میں ایسے عہدوں کی عمر بہت کم ہوتی تھی ۔
اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمی ماند
چنانچہ چند روز بعد ہی مجاہد ملت گرفتار کرلیے گئے۔
مقدمہ چلا۔ لیکن مقدمہ کا میاب نہیں ہوا ۔ یعنی حضرت مجاہد ملت پر جرم ثابت نہ
ہوسکا۔ اس مرتبہ مجاہد ملت رہا ہوگئے ۔ التبہ اس اثنا میں احقر گرفتار ہوگیا۔
(مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ۱۳۹)
مولانا کی سیاسی بصیرت
۱۹۳۰ء
میں جمعیت علماء ہند نے امروہہ میں اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ امروہہ میںاحمد
رضابریلوی کے پروکاروں نے جمعیت کے اجلاس کو ناکام بنانے کے لئے انہی تاریخوں میں
مولانا محمد علی کی بنائی ہوئی اس نئی جمعیت علماء کا نپور کا اجلاس بھی امروہہ
میں ہی رکھ دیا جو کچھ ہی دنوںپہلے جمعیت علماء ہند کی مخالفت میں بنائی گئی تھی
اور جمعیت علماء ہند کے خلاف پرواپیگنڈہ شروع کیا کہ یہ صرف وہابیوں دیوبندیوں کی
اور معاذ اللہ دشمنان رسول کی جماعت ہے مولانا محمد منظور نعمانی تحریر فرماتے ہیں
کہ مولانا حفیظ الرحمان صاحب جو اس وقت جمعیت کے اکابرین یا اس کے ہائی کمانڈ میں
تو نہیں تھے مگر اپنے سیاسی ذہن اور جرات و فعالیت کی وجہ سے اپنے ا قران میں سب
سے زیادہ ممتاز تھے گانگریس کی جنگ آزادی میں شرکت کے متعلق ایک ریزولیوشن اجلاس
کی تاریخ سے کافی دنوں پہلے ہی دفتر کو بھیج دیا اور ساتھ ہی اشاعت کے لئے اخبارات
کو بھی دے دیا اس وقت خود جمعیت کے اندر اس مسئلے پر خاصا اختلاف رائے تھا بلکہ
اجلاس شروع ہونے کے دن تک جمعیت کے جو ارکان مختلف مقامات سے امروہہ پہنچے تھے ان
سب کی نجی گفتگو کا خاص موضوع مولانا حفظ الرحمان صاحب کا یہ ریزولیوشن ہی بنا ہوا
تھا ان کی باتوں سے ہم لوگو ں یہ اندازہ کرلیا تھا کہ یہ ریزولیشن پاس نہ ہوسکے گا
بہرحال اجلاس شروع ہوا سب سے پہلے دستور کے مطابق صدر استقبالیہ ( سید ابوالنظر
رضوی مرحوم) نے اپنا خطبہ استقبالیہ پڑھا اس کے بعد اجلاس کے صدر حضرت مولانا شاہ
معین الدین اجمیری کا خطبہ صدارت پڑھا گیا ان دونوں خطبوں میں شدو مد کے ساتھ اور
خاص کر خطبہ استقبالیہ میں استدال کے پورے زور کے ساتھ مولانا حفظ الرحمان کی اس
تجویز کو چار نہایت اہم اور باوزن شخصیتوں کی حمایت اور تائیدحاصل ہوگئی ایک جمعیت
علماء ہند کے اس وقت کے مستقل صدر حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دوسرے حضرت
مولانا سید سلمان ندوی تیسرے حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی اور چوتھے سید عطاء
اللہ شاہ بخاری مرحوم یہ ناچیز( مولانا منظور نعمانی) سبجیکٹ کمیٹی میں شریک تھا
جب اس ریزرولیوشن پر بحث شروع ہوئی تو ایک دو موافقانہ اور مخالفانہ تقریروں کے
بعد حضرت مفتی صاحب اور سید صاحب نے علی الترتیب بڑی مددلل اور بصیرت افروز
تقریریں ریزولیوشن کی حمایت میں کیں اس کے بعد حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے
ایمانی جذبہ و جوش اور درد سے بھری ہوئی ایک تقریر فرمائی جس میں ہندوستان کی
آزادی کے مسئلے کی اہمیت حاصل کر مسلمانوں کے لئے اس کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے
علاوہ حضرت ممدوح نے ماضی قریب اور ماضی بعید کے تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے
بتایا کہ انگریزوں نے عالم اسلام کے ساتھ کیاکیا ہے؟اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی
تباہی و بربادی میں انگریزوں کا کتنا حصہ ہے ؟ اس لئے مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک
انگریز اور صرف انگریز ہیں لہذا انگریزی اقتدار کے خلاف جو جنگ کسی کی طر ف سے
شروع ہو ہمیں بلا شرط اس میں شریک ہو کر اس کو تقویت پہنچانا چاہیے حضرت مولانا کی
ذاتی عظمت کے ساتھ ان کی اس دردمندانہ اور جذبات سے بھرپور تقریر نے شرکاء اجلاس
میں سے بہت سوں کی رائے بدل دی اس کے بعد جو کمی کسر رہی وہ سید عطاء اللہ شاہ
بخاری کی ساحرانہ خطابت نے پوری کردی نتیجہ یہ ہوا کہ تجویز نہ صرف یہ کہ پاس ہوئی
بلکہ تقریبا باالاتفاق پاس ہوئی جن چند حضرات کو اس سے اتفاق نہیں تھا انہوں نے
بھی خاموشی مناسب سمجھی سوائے ایک دو صاحبوں کے یہ واقعہ ہے کہ مولانا حفظ الرحمان
صاحب نے جس ناموافق ماحول میں اپنی یہ تجویز پیش کرنے کی جرات کی تھی اور اخبارات
میں اعلان کیا تھا اور پھر جس شان کے ساتھ وہ پاس ہوئی اس نے مولانا کو اس نو عمری
ہی میں سیاسی دنیا میں خاص اہمیت دے دی اس کے بعد سے وہ برابر اس میدان میں اپنی
صلاحیتوں اور قربانیوں کی وجہ سے آگے ہی بڑھتے رہے۔ ( مجاہد ملت مولانا حفظ
الرحمان ایک سیاسی مطالعہ ۵۸)
مجلس عاملہ جمعیتہ علماء کا اجلاس
دہلی چند روز کے واسطے آپ کے لئے پناہ گاہ بن سکتی تھی
۔ کیونکہ آپ کا وارنٹ گرفتاری پوپی گورنمنٹ نے جاری کیا تھا۔ جب تک وارنٹ پوپی سے
منتقل ہو کر دہلی پہونچے آپ دہلی میں گرفتاری سے محفوظ تھے ۔ اس فرصت سے آپ نے
فائدہ اٹھا یا اور دہلی پہونچتے ہی مجلس عاملہ ج جمعیتہ علماء ہند کی ہنگامی میٹنگ
طلب کرائی ۔ ۲۷
۔۲۸
اگست ۱۹۴۲ء
۳
شعبان ۱۳۶۱ھ
کو دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ صدر جمعیتہ علماء ہند یعنی شیخ الاسلام حضرت
مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی اس سے تقریبا دو ماہ پہلے ۲۵ جون ۱۹۴۲ ء کو گرفتار ہوچکے تھے۔
آپ کی غیر موجودگی کے باعث اس اجلاس کی صدارت سحبان الہند حضرت مولانا احمد سید
صاحب دہلوی نائب صدر جمعیت علماء ہند نے فرمائی ۔ (مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن
سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ۱۵۶)
وزارتی مشن کی آمد
ابھی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تمام ہندوستان میں
مکمل نہیں ہوئے تھے کہ ۲۳
مارچ ۱۹۴۶ء
کو وزارتی مشن کراچی پہنچ گیا۔ لارڈ پیتھک لارنس وزیر ہند ۔ سر اسٹیفورڈ کرپس اور
جنرل الیگز ینڈ روفد کے ارکان تھے۔ ایک ہفتہ آرام کرنے کے بعد یاتازہ حالات کے
پورے مطالعے کے بعد یکم اپریل سے مشن نے ہندوستانی لیڈروں سے ملاقات شروع کی ۔ کل
ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے صدر کے حیثیت سے شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین
احمد صاحب مدنی رحمتہ اللہ علیہ کو دعوت دی گئی تھی ۔ اور چونکہ مسلم پارلیمنٹری
بورڈ کے ساتھ دوسری جماعتیں بھی اشتراک عمل کئے ہوئے تھیں لہذا جناب صدر کو اجازت
دی گئی تھی کہ وہ مزید تین افراد کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ چنانچہ عبدالمجید صاحب
خواجہ مرحوم صدر آل انڈیا مسلم مجلس شیخ حسام الدین صاحب صدر آل انڈیا مجلس
احرار اسلام، شیخ ظہیر الدین صاحب صدر آل انڈیا مومن کانفرنس ان تینوں جماعتوں کے
سرابرہوں کی حیثیت سے اور جناب حافظ ابراہیم صاحب(مرکزی وزیر برقیات) ترجمان کی
حیثیت سے حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ تشریف لے گئے ۔
اس نمائندہ جماعت کو ایسے صاحب بصیرت سیاسی کھلاڑی کی
بھی ضرورت تھی جو نمائندگان پریس کی شوخیوں کا جواب بھی دے سکے ۔ اس کی حاضر جوابی
دوسری پارٹیوں کے نکتہ چینوں کو خاموش کرسکے ۔ پر مغز و مدلل خطابت ہر ایک دل کو
مٹھی میں لے سکے ۔ ایسی شخصیت جوان اوصاف کی حامل ہو مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب
کی شخصیت تھی۔ لہذآپ کو بھی اس نمائندہ وفد میں شریک کیاگیا۔
۱۲ اپریل ۱۹۴۶ء کو ۴ بجے شام سے سوا پانچ بجے تک
مشن سے ملاقات ہوئی ۔ جمعیتہ علماء ہند کا فارمولا وزارتی مشن کے سامنے پیش کیاگیا
وزارتی مشن نے اس فارمولے سے یہاں تک دلچسپی لی کہ مقررہ وقت یعنی نصف گھنٹہ سے
زائد ۴۵
منٹ فارمولے کے مضمرات اور اس کے مفادات کو سمجھانے پر صرف کردیئے ۔(مجاہدملت
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ۱۷۰)
جمعیتہ علماء ہند اور مسئلہ تقسیم
لیکن تاریخی نوشتوں میں یہ صداقت اور اصول پسندی سنہری
حرفوں سے درخشاں رہنی چاہیے کہ اس بدترین بحرانی دور میں جب کہ مولانا ابوالکلام
آزاد جیسا سنجید ہ اور دانش مند مدیر بھی ہر ایک دماغ کو مجبور پارہا تھا۔ جو
پلیٹ فارم اس مجبوری سے مستثنیٰ رہا وہ جمعیتہ علماء ہند کا پلیٹ فارم تھا۔ اور
ممبران کانگریس میں جو رہنما اس مجبوری سے محفوظ رہا وہ مجاہد ملت حفظ الرحمن تھا۔
ابھی تقسیم ہند کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ صرف ارباب بصیرت
اراکین جمعیتہ علماء ہند نے اس کے آثار سیاسی فضا میں محسوس کیے تھے کہ اسی احساس
کی جمعیتہ علماء ہند نے اپنے اجلاس لکھنو مورخہ ۱۰ مئی ۱۹۴۷ء میں تقسیم کی مضرتیں
ظاہر کرتے ہوئے اس سے بیزاری کا اظہار کیا اور جب ۳ جون کو تقسیم ہند کا باضابط
اعلان کردیا گیا تو ۲۴جون۱۹۴۷ ء کو جمعیتہ علماء ہند
کی مجلس عاملہ نے دوبارہ بیزاری کا اظہار کیا اور سختی سے تقسیم ہند کی مخالفت کی
۔ (مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ۱۷۴)
اکابرین جمعیت پر گاندھی کا اعتماد
تقسیم ہند کے بعد مسلم کش فسادات کو روکنے کیلئے مہاتماگاندھی
نے برت (ہڑتال کر)رکھا تھا انہی دنوںکی بات ہے جب بابوراجندرپرشادصدر کانگریس اور
دوسرے رہنما موجود تھے اور مہاتما گاندھی سے برت کھولنے کا اصرارکر رہے تھے گاندھی
جی نے لیٹے لیٹے رخ پھیر کر کہا جمعیت علماء کے مولانا صاحبان کہاں ہے ؟جب تک وہ
نہ کہیں گے میں برت نہ توڑوںگا ۔تب مولانا احمدسعید دہلوی صاحب ،حافظ نسیم
صاحب،جعفری صاحب (ارکان جمعیت)کی طرف سے تر جمانی کرتے ہوئے حضرت مولانا حفظ
الرحمن صاحب سیوہاروی نے فرمایامہاتماجی گوحالات ابھی پوری طرح درست نہیں ہوئے
تاہم آپ کی عظیم الشان قربانی سے روبہ اصلاح ہوچکے ہیںاور فسادی عنصرکے مقابلہ
میںصلح پسند عنصرابھر آئے ہیں اور غلبہ پارہے ہیں لہذا آپ’’ برت‘‘ کھولدیں
کیونکہ آپ جان عزیز ہم سب کیلئے بہت قیمتی ہے یہ سن کر مہاتما گاندھی نے کہا میں
آپ لوگوں کے بیان پر اعتماد کرتا ہوں لیکن اگر بعد میں ثابت ہوا کہ مجھ کو دھوکہ
دیاگیا تھا توپھر میں ’’مرن برت‘‘ رکھ لوںگا اور پھر کسی کی نہ سنوں گا میں یقین
کرلوںگا کہ میں زمین پر ایک بار ہوں جس کو جلد ختم ہوناچاہئے
(علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے)
بیماری اور وفات
غیر معمولی مصروفیات کی وجہ سے آپ کو کینسر کا مرض لاحق
ہوگیا ہندوستان میں علاج کرایا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی بالآخر آپ
کو علاج کے لئے امریکہ لے جایا گیا ۔ وہاں ڈھائی مہینہ علاج کے بعد واپس تشریف
لائے اور یکم ربیع الاول ۱۲؍
اگست ۱۹۶۲
کو ملت اسلامیہ کا جانباز مجاہد اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا نئی دہلی مشہور شاہ
ولی اللہ کے قبرستان مہندیوں میں ابدی نیند سوگیا آپ بہت سارے دینی مدارس اسکولوں
اور کالجوں کے سرپرست تھے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی ایگزیکٹیوں کونسل اور کورٹ کے
ممبر دارالعلوم دیوبند کی شوری کے رکن اور بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر تھے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں