جانشین شیخ الہند مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

جانشین شیخ الہند مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

حیات وخدمات
سرزمینِ ہند پر جتنی اہم اور تاریخ ساز شخصیات رونما ہوئیں ، ان میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں، انھیں میں ساداتِ عظام اور خانوادۂ مدنی میں بھی بہت سی قابلِ ذکر ہستیاں ظہور پذیر ہوئیں ، جو سب کے سب علم و تقویٰ کے حامل تھے، لیکن خالقِ کائنات نے اس خاندان پر مزید احسان یہ فرمایا کہ آخری دور میں ایک ایسی عہد ساز، رجال کار شخصیت کو وجود بخشا ، جسے آگے چل کر ایک مجاہدِ جلیل، محدثِ کبیر ، جانشینِ شیخ الہند، خلیفۂ گنگوہی، اور مدرسِ مسجدِ نبوی متعارف ہونا تھا ، یعنی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بابرکت ۔
آپ اگر ایک طرف تقویٰ و طہارت میں شانِ قطبیت رکھتے تھے تو دوسری جانب ارشاد و طریقت میں شانِ مجددیت کے حامل تھے ۔ ایک طرف دریائے علم و عمل کے شناور تھے تو دوسری جانب میدانِ سیاست کے شہسوار بھی تھے۔ نیز ایک طرف اتباعِ سنت، اخلاقِ نبوت، سیرتِ صحابہؓ اور اُسوۂ مشائخ کا سرچشمہ تھے ، تو دوسری جانب جذباتِ حریت، ترقیِ ملت، حبِ وطن ،ہمدردیِ خلقِ خدا ، غمخواریِ نوعِ انسانیت، اور ایثار و قربانی جیسے عمدہ شمائل و خصائل سے سرشار تھے ، اس لیے کہ آپ کا قلب حاملِ شریعت اور عمل تفسیرِ شریعت تھا ، ذکراللہ آپ کی روح ، اتباعِ شریعت آپ کی جان، ایثار آپ کی فطرت، حلم و بردباری آپ کی جبلت ،اور جُود و عطا آپ کی خصلت تھی، مختصر یہ کہ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔

ولادت و تسمیہ 

آپ کی ولادت باسعادت 19 شوال1294 مطابق1878 کو قصبہ بانگرا ناؤ میں ہوئی، آپ کا نامِ نامی اسم گرامی’’حسین احمد‘‘ اور تاریخی نام ’’چراغ محمد‘‘ رکھا گیا۔ 

آغازِ تعلیم

آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار کی زیرِ نگرانی ہوئی، جب پانچ برس کے قریب ہوئے توآپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو قاعدہ بغدادی اور عم پارہ پڑھایا، اور قرآن مجید کے پانچ پارے ان ہی سے پڑھے، گھریلو تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکول کی تعلیم بھی حاصل کی، اس طرح سے کہ اس میں امتیازی پوزیشن حاصل کی، اور جب آپ ۱۳ سال کے ہوئے،تو آپ ۱۳۰۹ھ میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور اپنے بڑے بھائی مولانا صدیق احمد صاحب اور مشفق استاذ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں رہ کر حصولِ علم اور کسبِ فیوض میں منہمک رہے۔ آپ اپنے زمانۂ طالب علمی میں اپنے تمام زملاءِ درس و رفقاءِ زمن میں سب سے لائق و فائق اور ممتاز رہے، اور ہمیشہ امتحانات میں اعلیٰ نمبرات سے فوزیاب اور کامیاب رہے، یہاں تک کہ ساڑھے چھ سال تک تعلیم پاکر علوم و فنون میں بامِ عروج حاصل کرکے ۱۳۱۶ھ میں دارالعلوم سے فارغ ہوئے، اس قلیل عرصہ میں آپ نے ۱۷فنون پر مشتمل درسِ نظامی کی ۶۷کتابیں پڑھیں، علمِ نبوت کے نیرِ اعظم بن کر دارالعلوم کے درودیوار کو منور کیا۔

اتالیق و اساتذہ 

زمانۂ طالب علمی میں ہر ایک استاذ کی نظرِ شفقت آپ پر پڑتی تھی، تمام اساتذہ کی دل و جان سے خدمت کرتے تھے، آپ کے اساتذہ میں بطور خاص استاذ الاساتذہ مرجع العلماء شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، حضرت مولانا عبد العلی محدث دہلویؒ ، شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن ؒ، مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی  شامل ہیں ۔

درس وتدریس 

دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوگئے، رخصتی کے وقت شیخ الہندؒ نے ایک ایسی نصیحت کی تھی کہ جس کا آپ نے تادمِ زیست اہتمام کیا، وہ یہ کہ ’’پڑھانا ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے، ایک دو ہی طالب علم ہوں۔‘‘ مدینہ منورہ پہنچ کر آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا اور کم و بیش چودہ برس مسجدِ نبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں خدمتِ درس انجام دیتے رہے، اور اس دوران تین دفعہ ہندوستان کا سفر ہوا، جس میں چار سال صرف ہوئے، پھر شیخ الہندؒ کے ہمراہ مالٹا کی جیل میں اسیر ہوگئے۔ اسارتِ مالٹا سے واپسی کے بعد امروہہ کے مدرسہ جامع مسجد میں تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے، پھر حضرت شیخ الہندؒ کے ایماء پر کلکتہ کے لیے روانہ ہوگئے ، کراچی کے مشہور مقدمہ تک تدریس میں مشغول رہے، پھر گرفتاری کی وجہ سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، اور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک تقریباً چھ سال بنگال میں اور سلہٹ کے جامعہ اسلامیہ میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے پڑھاتے رہے، اس ۳۱ سالہ زمانۂ تدریس میں ہزاروں افراد ( تلامذہ اور مسترشدین) آپ کے فیضِ علمی سے مستفید ہوئے۔

تصوف و طریقت 

جب علومِ ظاہری سے آراستہ ہونے کے بعد علومِ باطنی کی فکر دامن گیر ہوگئی، تو حضرت شیخ الہندؒ سے اظہارِ خیال کیا، تو انہوں نے سید العارفین حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب رہنمائی فرمائی، تو تعمیلِ حکم میں اُن سے بیعت ہو گئے ، اور روحانی کمالات کا اکتساب کیا، بالآخر ان کے خلیفہ مجاز ہوئے، پھر اس کے بعد آپ کے وعظ و ارشاد ، بیعت و تلقین کے ذریعے لاکھوں افراد کی اصلاح ہوئی، اور ہزاروں طالبینِ حق اور رہ نوردانِ سلوک و طریقت آپ کے روحانی و باطنی کمالات و ملکات سے فیض یاب و سیراب ہوئے، ۱۶۷ حضرات آپ کی طرف سے اجازت و بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں
 

تحریکِ آزادی میں خدمات 

آپ نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں تحریکِ ریشمی رومال، تحریکِ خلافت اور جمعیۃ علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے قائدانہ کردار ادا کیا، حضرت شیخ الہندؒ کے وصال کے بعد ملّی قیادت کا فریضہ انجام دیا اور ان کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اور حصولِ آزادی کی خاطر چار بار قید و بند کی آزمائش سے ہمکنار ہوئے اور تقریباً ساڑھے سات سال اسیرِ فرنگ رہے۔ آپ نے آزادی کے لیے جہاں بےشمار قربانیاں دیں اور کوششیں کیں، ان سب میں آپ کی بنیادی فکر یہ رہی کہ آپس میں اختلاف نہ ہو، ملک کے اس وفادار اور جانباز سپاہی نے جب سے حصولِ آزادی کے لیے جد وجہد کی زمام کو تھاما، تب ہی سے ملک میں بسنے والے تمام طبقات اور جماعتوں کے مابین تشدد واختلاف اور تفریق وامتیاز کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ،اور ہر اعتبار سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمہوریت، اور اتحاد ویکجہتی کا وہ سنہرا درس دیا، جو ناقابلِ فراموش ہے اور کسی دیدہ ور سے مخفی بھی نہیں، نیز تمام برادرانِ وطن کے سامنے اپنی اس فکر کا اظہار بےدریغ الفاظ میں کرتے ہوئے کہا
’’ ہندوستان کبھی بھی سیاسی اور ملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں ہوا ہے، اس کی حکومتیں مسلم حکمرانوں کے زیرِ اثر رہی ہوں یا ہندو فرمانرواؤں کے زیرِ نگیں، کبھی بھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوسکیں۔‘‘ (شیخ الاسلام ایک سیاسی مطالعہ، ص:
۴۲۱، مؤلفہ: ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری)

آپ کی یہ جمہوری فکر یہیں پر تام نہیں ہوتی، بلکہ تحریکِ آزادی کی شبانہ روز جدوجہد کوجمہوری رنگ وروغن سے آشنا کرنے کے لیے 

1925 میں سہارنپور کی سرزمین سے تمام طبقات کو اُخوت وبھائی چارگی اور جمہوریت کا درس ان الفاظ میں دیتے ہوئے کہا

’’میرے محترم! وطن اور ابنائے وطن کی بربادی اور اس کے اسباب کسی خاص مذہب، کسی خاص برادری، کسی خاص شخص تک محدود نہیں ہوسکتے، وطن اور ملک کی بربادی جملہ ساکنینِ ملک کو برباد کرے گی اور کررہی ہے، ناؤ ڈوبتی ہے تو اس کے تمام سوار ڈوبتے ہیں، گاؤں میں آگ لگتی ہے تو سبھی گھر جلتے ہیں، اسی طرح یہ غلامی ومحکومیت جملہ اہلِ وطن کو موت کے گھاٹ اُتار رہی ہے، کیا اس میں فقط ہندو مرے، یا فقط مسلمان مرے؟ نہیں، سبھوں کی بربادی ہوئی، ایسے وقت میں ہر ادنیٰ سمجھ والا بھی اپنے داخلی وخارجی جھگڑوں کو چھوڑکر ضروری سمجھتا ہے کہ مصیبتِ عامہ کو سب سے پہلے زائل کردینا چاہیے، اس وقت تک چین نہ لینا چاہیے اور نہ اپنے داخلی وخارجی جزئی جھگڑوں کو چھیڑنا چاہیے، جب تک یہ مصیبت نہ ٹل جائے۔
حضرت شیخ الاسلامؒ کے سوانحی اوراق میں موجود یکجہتی اور جمہوری فکر کی بابت آپ کا یہ لطیف استدلال آج بھی ہمارے لیے خضرِ طریق کی حیثیت رکھتا ہے کہ 
’’وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ‘‘ یہ آیت صاف صاف بتلارہی ہے کہ مسلمانانِ ہند کے لیے اتحاد ضروری ہے، کیونکہ وہ فوج جس کے ذریعہ ہم دشمن کو لڑاسکتے ہیں اور اس کے پتھریلے دماغ کو پگھلاسکتے ہیں، وہ اہلِ ہند کے لیے ظاہری حیثیت سے اتحادِ ہند ومسلم اور صرف اتحادِ ہند ومسلم ہے، اس لیے یہ اتحاد اور قومی یکجہتی مذہبی حیثیت سے جائز ہی نہیں، بلکہ ضروری بھی ہوگا۔(حیاتِ شیخ الاسلام، ص:۱۱۷، مؤلفہ :حضرت مولانا محمد میاں ؒ )

حلیہ اور وضع قطع 

’’آپ جسمانی صفتوں کے اعتبار سے اچھے درمیانہ قد کے تھے، پیشانی چوڑی اور کشادہ اور آنکھیں بڑی بڑی اور سیاہ ، ناک نہ زیادہ اُٹھی ہوئی اور نہ زیادہ لمبی ، بلکہ متوسط ، اور گندمی رنگ اور ہنس مکھ چہرے کے مالک تھے، نیز جسم مضبوط اور سینہ نہایت چوڑا تھا ، فطرۃً قوی، باوقار، با ہیبت، لیکن بگڑے یا سخت چہرہ والے نہ تھے ۔‘‘ ( ایک ہفتہ شیخ الہند کے دیش میں )

ازواج و اولاد 

حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے معاصرین میں جہاں بےشمار امتیازات و خصوصیات حاصل ہیں، تو وہیں یہ بھی کہ آپ نے اپنی زندگی میں کل چار نکاح کیے: چنانچہ آپ کا پہلا نکاح موضع قتال پور ضلع اعظم گڑھ میں ہوا ،جن سے دو لڑکیاں ہوئیں، ایک کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا، اور جب آپ مالٹا میں اسیر ہوئے،تو آپ کے اہلِ وعیال ملکِ شام منتقل ہوگئے، وہیں پر دوسری بیٹی آسودۂ خاک ہوگئی ۔آپ کا دوسرا نکاح قصبہ بچھرایوں ضلع مرادآباد میں ہوا، ان سے دو صاحبزادے ہوئے : اخلاق احمد اور اشفاق احمد ، لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پہلا آٹھ سال اور دوسرا ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا، اور اہلیہ محترمہ کا بھی مدینہ منورہ میں ہی وصال ہوگیا۔پھر آپ نے دوسری اہلیہ کے انتقال کے بعد انہی کی چھوٹی بہن سے نکاح کیا، جن سے حضرت مولانا سید اسعد مدنی اور ایک صاحبزادی ہوئی، پھر قیامِ سلہٹ کے زمانہ میں صاحبزادی بھی جاں بحق ہوگئی ، حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی والدہ ماجدہ بھی ۱۳۵۵ھ میں دیوبند میں مالکِ حقیقی سے جا ملیں ۔ پھر اس کے بعد آپ کی چوتھی شادی اپنے چچازاد بھائی کی منجھلی صاحبزادی سے ہوئی، جن سے حضرت مولانا محمد ارشد مدنی دامت برکاتہم ، اور مولانا اسجد مدنی اور پانچ صاحبزادیاں ہوئیں۔

آپ کی چند مشہور اور اہم تصانیف

۱:-نقشِ حیات ۲جلدیں (خود نوشت سوانح)، ۲:-سفرنامۂ شیخ الہند، ۳:-الشہاب الثاقب، ۴:-مکتوباتِ شیخ الاسلام، ۵:-متحدہ قومیت، ۶:-الخلیفۃ المہدي في الأحادیث الصحیحۃ، وغیرہ۔

وفاتِ حسرتِ آیات

حضرت مدنی رحمۃ الله علیہ1325 مطابق1917 سے1377 مطابق1957 تک کی اس چالیس سالہ مدت میں اُمت کی بےلوث اور بےنظیر خدمات سرانجام دیں۔

بالآخر 13جمادی الاولیٰ1377 5 دسمبر1957

  کو دستورِ خداوندی کے مطابق علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا یہ آفتاب عالم تاب دیوبند کے اُفق پر غروب ہوگیا، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔ہزاروں عقیدت مندوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی امامت میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی، اور قبرستانِ قاسمی دیوبند میں تدفین عمل میں آئی ۔
پروردگارِ عالم ہمیں بھی حضرت کے علوم ومعارف کا کچھ حصہ نصیب فرمائیں اور اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین

  

 

  

  

0/Post a Comment/Comments