مفتی
اعظم قائد ملت اسلامیہ مفکراسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ
قائد حزب اختلاف، صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ قومی اتحاد کے
صدر، تحریک ختم نبوت کے فاتح
مغربی ایجنڈوں کو للکارنے والے مجاہدقاسم العلوم ملتان
کے شیخ الحدیث ناظم عمومی جمعیت علماء اسلام
پیدائش1919 وفات1980
ولادت اور تعلیم
مولانا مفتی محمود6 ربیع الثانی 1337ھ مطابق9جون 1919ء
کو پنیالہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے ۔
آپ کے والد حضرت مولانا خلیفہ محمد صدیق عالم دین ہونے
کے ساتھ ساتھ طریقت کے سلاسل اربعہ میں خلیفہ مجاز تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور
مولوی محمد صاحب سے حاصل کی چھ سال کی عمر میں مڈل سکول پنیالہ میں داخل کئے گئے
۔1933 میں آپ نے مڈل کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا ۔1936 ء میں مفتی صاحب
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے لیکن بعض وجوہات کی
بنا پر وہاں سے مدرسہ شاہی مراد آباد چلے گئے اور چھ سال وہاں رہ کر تعلیم حاصل
کی ۔
درس و تدریس
1942ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد چند سال آپ
نے مدرسہ معین الاسلام عیسی خیل ضلع میانوالی میں تدریس کے فرائص انجام دئیے ۔ اس
کے بعد دو سال تک سید عبدالعزیز شاہ کے قائم کردہ مدرسہ میں پڑھاتے رہے ۔ 1946میں
مفتی صاحب کی شادی عبدالخیل میں صوفی نیاز محمد کی صاحبزادی سے ہوئی کچھ عرصہ آپ
عبدالخیل میں امامت کے ساتھ درس تدریس کرتے رہے ۔ 1951 میں مدرسہ قاسم العلوم
ملتان تشریف لے گئے اور مسند تدریس و افتاء کو رونق بخشی ۔1955میں آپ مدرسہ قاسم العلوم
میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے ۔ 1975ء میں آپ کو جامعہ کا مہتمم منتخب کیا
گیا۔
جمعیت علمائے ہندمیں مفتی صاحب کاکردار
1937ء میں آپ نے ہندوستان کے الیکشن میں
جمعیت علماء ہند کی رکنیت سازی کی۔
1942ء میں انگریز کے خلاف اٹھنے والی
ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک میںنمایاں حصہ لیا۔ اس وقت حضرت مفتی صاحب نے اپنی
تعلیم مکمل کر لی تھی اور جمعیت علماء ہند کی آل انڈیا کونسل کے رکن اور سرحد
جمعیت علماء ہند کے کونسلر مقرر ہوئے۔ اس وقت آپ سرحد جمعیت کی ورکنگ کمیٹی کے
صدر بھی بنے۔
جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل نو
1953ء میں جب تحریک ختم نبوت چلی، تو دوسرے
علماء کے ساتھ جیل چلے گئے۔ جیل سے رہا ہوئے تو ایک سال پہلے جس دینی جمعیت کو
تھوڑا بہت منظم کیا تھا، اب اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ 1954ء میں حضرت مولانا
مفتی محمد حسن صاحب کو اس کا امیر بنا کر اس کے مردہ جسم میں روح ڈالنے کی کوشش کی
گئی۔ لیکن وہ اپنی معذوری کی وجہ سے جماعتی اور تنظیمی دورے نہیں کر سکتے تھے، اس
لئے جماعت زندہ نہ ہو سکی۔ قائم مقام صدر مفتی محمد شفیع صاحب تھے، لیکن وہ بھی
اپنے وسیع علمی کام کے باعث ملکی دورے نہیں کر سکتے تھے۔ 1954ء سے 1957ء مفتی
محمود صاحب نے جمعیت کی تنظیم کے لئے ملک گیر دورے کر کے اس کے تن مردہ میں جان
ڈال دی۔ پھر 1958ء کے مارشل لاء کے ذریعے تمام جماعتیں کالعدم قرار پائیں تو ان
میں جمعیت بھی شامل تھی۔ میرے نزدیک مفتی صاحب کا یہ پہلا کارنامہ جمعیت کی تنظیم
نو تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ کارنامہ تنہا ان کا نہیں تھا، دوسرے اکابر
علماء کی خدمات بھی اس میں شامل تھیں لیکن مفتی صاحب کی خدمات مجموعی طور پر زیادہ
تھیں۔ (شیخ المشائخ مولانا خواجہ خان محمد کندیاں شریف ؍مفتی محمودزعمائے ملت کی
نظرمیں261)
مفتی محمود قائم مقام امیر نظام العلماء مقرر ہوئے
نظام العلماء کے امیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری نے
ایک اعلان کے ذریعہ جو15ستمبر1961کے ترجمان اسلام میں شائع ہوا۔ حکومت کی طرف سے
پابندی کی بنا پر حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کو اپنا قائم مقام مقرر کیا۔ مولانا
عبدالوحد گوجرانوالہ مولانا غلام غوث ہزاروی کی جگہ قائم مقام ناظم اعلیٰ مقرر
ہوئے ۔ اس لئے کہ مولانا غلام غوث ہزاروی پر بھی پابندی عائد تھی قائم مقام امیر
حضرت مفتی محمود نے 24اکتوبر1961ء کو نظام العلماء کی مجلس عاملہ کا اجلاس لاہور
میں طلب کیا۔ مقررہ تاریخ پر مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا اور مختلف امور پر قراردادیں
منظور کی گئیں جن میں سے دو قراردادوں میں عائلی قوانین پر اپنی ناراضی کا اظہار
اور دستور کے اسلامی ہونے کے مطالبہ کا اعادہ کیاگیا۔(عہدسازقیادت77) مفتی
محموداورمولانا ہزاروی کی کامیابی
مئی1962کے اوائل میں انتخابات ہوئے اور نظام العلماء کے
دونوں رہنما حضرت مولانا مفتی محمود صاحب اورحضرت مولانا غلام غوث ہزاروی علی
الترتیب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوگئے ۔ انتخابات میں ان دونوں حضرات
کی کامیابی دراصل پاکستان کی تاریخ کا ایک موڑ ثابت ہوئی۔
ظاہر ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں خالص کتاب وسنت کی آواز
بلند ہونے کے مواقع پیدا ہوگئے ۔ اور تاریخ کا ایک نیاباب لکھا جانا ممکن ہوگیا۔
ملک کے دینی حلقوں کے لئے یہ کامیابی زبردست خوشی کا موجب بنی ۔
جمعیت علماء اسلام کا احیاء
14جولائی 1962کو قومی اسمبلی میں سیاسی
جماعتوں کی تشکیل کا مسودہ قانون پاس ہوا اس کے فوراًبعد مفتی محمود نے قائم مقام
امیر جمعیت علماء اسلام کی حیثیت سے جمعیت علماء اسلام کی تمام شاخوں کو ہدایت
جاری فرمادی کہ ہر جگہ جمعیتوں کو بحال کردیا جائے اور مارشل لاء کے وقت جو عہدہ
دار تھے وہ اپنے عہدوں پر کام شروع کردیں ۔ اس کے ساتھ ہی14،اگست 1962کو لاہور میں
جمعیت کی شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیاگیا۔ حسب اعلان ۴ اگست 1962کو لاہور میں شوریٰ
کا اجلاس منعقد ہوا حضرت درخواستی نے صدارت فرمائی ۔ جمعیت کے نئے امیر مولانا
محمد عبداللہ صاحب درخواستی منتخب ہوئے ۔ (عہدسازقیادت86)
عائلی قوانین کے خلاف احتجاج کی مہم
مفتی محمود صاحب نے8 مارچ کو ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے
قومی اسمبلی کے اجلاس میں عائلی قوانین کو منسوخ کرانے کی تجویز کا نوٹس دیا اور
اس مقصد کے لئے ملک بھر میں احتجاجی مہم جاری کی گئی۔ چنانچہ سارے ملک میں بڑے بڑے
جلسے جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہوئے ۔ صدر اسپیکر اور ارکان اسمبلی
کو محضر نامے بھیجے گئے ۔8 مارچ 1962میںہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لئے
مفتی محمود صاحب نے متعدد سوالات کے نوٹس دیئے ۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کی ترقیاتی
اسکیموں کے متعلق عیسائی مشنریوں کے اسکولوں کے بارہ میں، ریلوے ملازمین کی چھٹیوں
کے بارے میں، چشمہ براج کے منصوبہ کے متعلق ،حج کی سہولتوں کے متعلق، نوٹ پر تصویر
چھاپنے کے متعلق، مدارس عربیہ کی حیثیت کے متعلق وغیرہ وغیرہ۔ ڈھاکہ میں ہوانے
والےمارچ 1963کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے دستور میں ترمیم کا ایک بل
پیش ہوا۔ یہ بل بنیادی حقوق کے نام سے پیش کیاگیا تھا۔ اس میں مفتی محمود صاحب نے
مندرجہ ذیل ترمیمات کا نوٹس دیا۔ مذہبی آزادی کی دفعہ میں یہ بھی اضافہ کیا جائے
کہ کسی مسلمان کو مرتد ہونے کی اور ملک میں ارتداد کی اشاعت کی اجازت نہیں ہوگی۔
تعلیمی اداروں کی دفعہ میں یہ اضافہ کیا جائے ۔ کسی تعلیمی ادارہ میں خلاف اسلام
تعلیم و تبلیغ کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور اسی طرح کی متعددترمیمیں اس نوٹس میں شامل
تھیں۔ بنیادی حقوق کا بل جب دستور میں ترمیم کی صورت میں آیا تو جمعیت علماء
اسلام کے لئے ایک مشکل سوال یہ سامنے آیا کہ اس بل کی حمایت کی جائے یا نہیں ۔
اسلامی تعلیمات کا دفاع
جنوری1964ء کو جامعہ الازہر مصر کے ہزار سالہ جشن کے
موقع پر حکومت مصر نے دنیا بھر کے جید علماء کو مصر آکر اس جشن میں شمولیت کی
دعوت دی۔ پاکستان سے جو وفد مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی زیر قیادت اس تقریب میں شرکت
کے لئے مصر گیا، مولانا مفتی محمود بھی ایک معزز رکن کی حیثیت سے اس میں شامل تھے۔
اس اجتماع میں مختلف موضوعات و مباحث پر تحقیقی مقالے پڑھے گئے اور ان مقالوں پر
پوری آزادی سے جرح و تنقید اور بحث و تشریح کا سب ارکان کو موقع دیا گیا۔ اس
سلسلہ میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’’موجودہ دور میں کن وجوہ کے باعث اسلام کی
اشاعت کمزور پڑ گئی ہے؟‘‘ ایک مغرب زدہ سوڈانی عالم نے اس کا جواب دیتے ہوئے اپنے
مقالے میں یہ دو وجہیں بیان کیں:
1 اسلام نے غلامی کو جائز رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیائے
کفر کو اسلام سے عداوت اور نفرت پیدا ہو چکی ہے۔
2 اسلام تعدد ازواج کی اجازت دیتاہے، اس کے باعث بھی
یورپ اسلام سے بد ظن ہو گیا ہے۔
سوڈانی عالم کی بیان کردہ نام نہاد وجوہ کے رد کا شرف
پاکستانی علماء کو نصیب ہوا۔ مولانا مفتی محمود نے تعدد ازواج اور مولانا غلام غوث
ہزاروی نے غلامی والے حصہ پر بحث کی۔ ان دونوں علماء نے جس طرح وہاں اسلام کا حق
نمائندگی ادا کیا، علماء اسلام آج تک اس کو یاد کرتے ہیں۔ (مولانا مفتی محمود
حیات و خدمات 74)
آمریت کے خلاف منظم جدجہد
1968ء میں مفتی محمود نے ایوب خان کے خلاف
اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے لاہور میں ایک ملک گیر
کانفرنس منعقد کی اور بیس ہزار علماء سے لانگ مارچ کروایا، جس نے آمریت کو لرزہ
بر اندام کر دیا۔ ان کی یہ جدوجہد اس تحریک کا حرف آغاز بنی۔
یہی وہ جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں 1969ء میں مجلس عمل
کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مفتی محمود نے اس موقع پر بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس
دوران وہ دوسرے سیاسی زعماء کے ہمراہ ایوب خان کی بلائی ہوئی گول میز کانفرنس میں
بھی شریک ہوئے اور یہی وہ تاریخی مرحلہ ہے جب ملک کے دوسرے قائدین ان کی سیاسی
بصیرت اور عملی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
(اختر کاشمیری)
متحدہ دینی محاذ کا قیام
مئی 1970میں جمعیت علماء اسلام کی دعوت پر لاہور میں ۱۹ دینی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل
ایک دینی محاذ قائم ہوا۔ مولانا مفتی محمود ۔ اس محاذ کے صدر اور مولانا سید محمود
شاہ گجراتی ناظم منتخب ہوئے ۔ (عہدسازقیادت۱۳۰)
۱۹۷۰کے
انتخابات اور جمعیت علمائے اسلام
جنرل ایوب خان نے25مارچ 1969کواستعفیٰ دیا دوسرے دن ہی
جنرل یحییٰ خان نے صدرپاکستان کے طورپر حلف اٹھایا ۔چنانچہ انہوں نے دسمبر1970کو
عام انتخابات کا اعلان کیا۔معاشی اصطلاحات کی بناپر ملکی سیاست دوگرپوں سرمایہ
دارانہ نظام (کیپٹل ازم )اوراشتراکیت(سوشلزم) میں تقسیم ہوگئی پہلے گروپ میں مودود
ی صاحب اور ان کے زیراثر مختلف مذہبی گروہ تھے انہوں نے مل کر’’ اسلامک فرنٹ
‘‘بنایادوسرے گروپ میں جمہوریت اور اسلامی سوشلزم کے نعرے کے ساتھ بھٹوکی
پیپلزپارٹی اور بھاشانی کی نیپ سرگرم عمل ہوئیں جمعیت علمائے اسلام نے ان دونوں سے
الگ اپنا اسلامی منشور پیش کیا ۔جمعیت نے اس سیاسی لڑائی کوکفرواسلام کی جنگ قرار
دینے سے گریزکیا ۔اس موقع پر مولانا مفتی محمود نے ایک انٹریو میں فرمایا!اگر کوئی
شخص مارکس اور لینن کے نظریہ کواسلامی سوشلزم سے تعبیر کرتا ہے تو وہ اسلامی
تعلیمات کی تکذیب کرتا ہے۔اور اگر وہ اسلامی مساوات کے معاشی نظام کواسلامی سوشلزم
کا نام دیتا ہے تو یہ شخص کافر توقرار نہیں دیاجاسکتا۔البتہ تعبیر کی غلطی شکار
ضرور ہے۔کیونکہ اسلام ،تعبیرات اور اصطلاحات میں بھی خود کفیل ہے ۔اوروہ کسی
غیرملکی اصطلاح کا مختاج نہیں ۔(مولانا غلام غوث ہزاروی مذہبی وسیاسی
خدمات157،ازسہیل اعوان)
مفتی صاحب کا تاریخی رول
مفتی صاحب نے ۱۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو لاہور میں تمام
چھوٹے پارلیمانی گروپوں کا ایک اجلاس بلایا جس میں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء
پاکستان، جماعت اسلامی ،کونسل اور کنونشن مسلم لیگ کے رہنما اور آزاد ارکان کے
نمائندے سر جوڑ کر بیٹھے۔ مولانا مفتی محمود نے اجلاس کی صدارت کی۔ ان رہنمائوں نے
نہایت جرأت مندی و حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی قرارداد منظور کی جس
کے ایک ایک لفظ سے حب الوطنی کی مہک پھوٹتی ہے۔ اس اجلاس میں مولانا مفتی محمود، مولانا
شاہ احمد نورانی، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، پروفیسر عبدالغفور، مولانا
عبدالحکیم، سردار شوکت حیات، خواجہ جمال محمد گوریجہ، سردار مولانا بخش سومرو اور
مولانا ظفر احمد انصاری شریک ہوئے۔ اس قرارداد کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ یحییٰ خان جو
اپنے مارشل لاء حکام کے بار بار اصرار کے باوجود ڈھاکہ نہیں جا رہا تھا، اسے بادل
نخواستہ ڈھاکا جانا پڑا۔ (مولانا مفتی محمود حیات و خدمات 132)
مفتی محمود وزارت اعلی کے منصب پر
حضرت مولانا مفتی محمود نے یکم مئی 1972ء کو صوبہ (سرحد
)خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا پاکستانی تاریخ میں اس
اعتبار سے پہلا خوشگوار تجربہ تھاکہ ایک صوبے کی حد تک سہی اقتدار ایک عالم کوملا
اور اس عالم دین نے قوم کو مایوس نہیں کیا انہوں نے ساڑھے نو ماہ کی مختصر مدت میں
جو کارہا ئے نمایاں انجام دئے وہ اپنی مثال آپ ہیں(ترجمان اسلام مفتی محمود
نمبر219)
وزیر اعلی کی حیثیت سے مفتی محمود کاکردار
یکم مئی 1972کو حضرت مولانا مفتی محمود نے صوبہ سرحد کی
وزارت علیا کا حلف اٹھایا حلف اٹھانے کے بعد آپ نے شراب پر مکمل پابندی کا اعلان
کیا شراب کی فروخت کی تمام لائنسنس منسوخ کردئے شراب کی تیاری اور خریدوفروخت
کوممنوع قراردیاگیا۔5مئی کو امتناع شراب کاقانون صوبہ بھر میں نافذ کردیا گیا ۔یکم
اگست 1972کوجوئے پر پابندی کا آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت ہرقسم کی قمار بازی
ممنوع قرار دے دی گئی۔ 14مارچ کو حضرت مفتی صاحب ؒ نے صوبہ سرحد میں سودی لین دین
پر پابندی عائد کردی۔جہیز کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کر نے کیلئے مفتی صاحب ؒنے صوبہ
میں ایک مقررہ حد سے زیادہ جہیز پر پابندی لگادی ۔24جون 1972کو سرحداسمبلی نے جہیز
پر پابندی لگانے کاقانون منظور کیا ۔احترام رمضان کو برقرار رکھنے کیلئے مفتی صاحب
نے ماہ رمضان میں تمام ہوٹلوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ 13شعبان22ستمبر 1972کو احتر
ام رمضان کا آرڈیننس جاری کیاگیا ۔فحاشی و عریانی اور بے حجابی کو ختم کرنے کیلئے
مفتی صاحب نے صوبہ میں خواتین کیلئے پردہ لازمی قرار دیا ۔بر صغیر میں انگریز وں
کی آمد سے پہلے جمعہ کو تعطیل ہوا کرتی تھی ۔لیکن انگریزوں نے جمعہ کی تعطیل کی
جگہ اتوار کا دن چھٹی کیلئے مقررکیا تھا ۔قیام پاکستان کے بعد بھی یہی سلسلہ چلا
آرہاتھا مفتی صاحب نے اس سلسلہ میں صوبہ سرحد حکومت کی کابینہ سے جمعہ کی تعطیل
کیلئے بل پاس کرایا ۔حضرت مفتی صاحب نے صوبہ سرحد کی سرکاری اور دفتری زبان اردو
کوقرار دیا10مئی کو آپ نے اعلان کیا کہ صوبہ سرحد کی سرکاری زبان اردو ہوگی اسی
طرح آپ نے شلوار قمیص کو سرکاری لباس قرار دیا ۔جس سے مفتی صاحب ؒ نے ملک میں
غلامانہ ذہنیت پر کاری ضرب لگادی ۔تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے حضرت مفتی صاحب نے
درج ذیل اصلاحات نافذ کیں (1)یونیورسٹی اور کالجزمیں میں داخلہ کیلئے قرآن کریم
کا ناظرہ اورنمازباترجمہ کوشرط قراردیا(2)ایک سال میں ایک سو اٹھارہ پرائمری سکول
قائم کرنے کا اعلان کیا (3)ایک سو سے زائد پرائمری کو مڈل اورمڈل سے ہائی کا درجہ
دیا(4)کلاچی اور کرک میں نیا انٹر میڈیٹ کالج ہریپور اور لکی مروت میں ڈگری کالج
قائم کئے(5)کوہاٹ میں گرلزانٹرکالج منظورکیا(6)ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈگری کالج میں
پوسٹ گریجویٹ کی کلاسز کا اجرا،اوریونیورسٹی کی قیام کی جدجہد (7)پشاور میں
جیالوجی کے مضمون پر ریسرچ کیلئے ایک تخصیص کامرکز(8)ایکسال میں ناداراور غریب
طلبا کیلئے 23لاکھ کے وظائف کا اعلان (9)صوبہ کے191مڈل ،ہائی سکولز میں عربی
ٹیچر،دینیات ٹیچراور قاری ٹیچر کی پوسٹوں پر علما کی تقرری ۔۲۰جولائی کوجیدعلما اور ماہرین
قانون پر مشتمل ایک بورڈبنایا گیا جس کے ذمے صوبائی قوانین کو قرآن وسنت سے ہم
آہنگ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اس بورڈکے سربراہ مولاما مفتی محمود صاحب خود
تھے۔دیگر ارکان میں شیخ التفسیر حضرت مولانا شمس الحق افغانی محدث العصرحضرت
مولانا محمدیوسف بنوری،مسٹر عبدالغنی خٹک صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ،قانون
اور پارلیمانی امور کے صوبائی وزیر امیر زاد ہ خان شامل تھے صوبائی محکمہ قانون کے
سیکرٹری بورڈکے سیکرٹری مقرر کئے گئے15فروری 1973کووزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی
طرف سے بلوچستان حکومت کی برطرفی پر احتجاجااستعفا دیدیاجس کی وجہ سے یہ کام مکمل
نہ ہوسکا۔ (مولانا مفتی محمودکی علمی،دینی اورسیاسی خدمات351تلخیص)
وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا
مسٹر بھٹو نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میںنیپ اور جمعیت
کی مخلوط وزارتوں کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیاتھا، چنانچہ وہ شروع دن ہی سے ان کے
خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ مرکز کی طرف سے قدم قدم پر کام میں رکاوٹ ڈالی جاتی۔
اس کے باوجود مفتی صاحب مرکز سے تعاون کی پالیسی پر گامزن رہے اور جیسے تیسے کر کے
کام چلاتے رہے۔ جلد ہی مسٹر بھٹو نے بلوچستان میں نیپ او رجمعیت کی مخلوط وزارت
توڑ دی اور صوبہ سرحد کے گورنر ارباب سکندر خان خلیل کو برطرف کر دیا۔
یہ اقدام اس معاہدے کے سراسر خلاف تھا جس پر 27،اپریل
1972ء کو پنڈی ریزیڈنسی میںنیپ، جمعیت اور بھٹو صاحب نے دستخط کیے تھے۔ مولانا
مفتی محمود نے اس غیر جمہوری اقدام پر احتجاج کیا اور وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے
دے۔ مسٹر بھٹو نے انہیں منانے کی بہت کوشش کی۔ طرح طرح کے لالچ بھی دئیے کہ آپ تو
امام ہیں، آپ سے کوئی لڑائی نہیں، جیسا جی چاہے حکومت کیجئے، کوئی بازپرس نہیں ہو
گی۔ لیکن مفتی صاحب نہ مانے۔ ان کا جواب تھا کہ پہلے ہماری اس شکایت کا ازالہ
کیجئے جو استعفیٰ کا باعث بنی ہے۔ اگر اس کے لئے آپ تیار نہیں ہیں تو میں ابھی
ااپنا استعفیٰ واپس لینے کے لئے تیار نہیں۔
وزارت چھوڑنے کی خبر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچی تو خواجہ
زاہد نے فون کیا، ’’ہیلو مفتی صاحب! مبارک ہو۔‘‘ جواب میں مفتی صاحب نے ہلکا سا
قہقہہ لگایا اور بولے، ’’آپ کو بھی مبارک ہو۔‘‘ وزیر اعلیٰ بننے پر انہیں
مبارکباد کے اتنے پیغامات اور تار موصول نہیں ہوئے تھے جتنے مفتی صاحب کو وزارت
چھوڑنے کے بعد موصول ہوئے۔
(محمد شریف کیانی؍مفتی محمود زعمائے ملت کی نظرمیں113)
وزیر اعلیٰ کی تنخواہ وصول نہیں کی
مفتی صاحب نے وزارت کے دور میں سرکاری خزانے سے وزیر
اعلیٰ کی تنخواہ کبھی وصول نہیںکی۔ وہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے اور وہاں سے
پندرہ سو روپے ماہانہ وصول کرتے تھے۔ ہم نے آرڈیننس جاری کر رکھا تھا، اس کی رو
سے ایک آدمی کے لئے ایک وقت میں سرکار سے دو الائونس یا تنخواہ وصول کرنے کی
ممانعت تھی۔ (ارباب سکندر خان سابق گورنر صوبہ سرحد)
قومی اسمبلی میں مرزا ناصر پر مفتی صاحب کی جرح
عوامی تحریک کے نتیجے میں جب یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
پہنچا تو اسمبلی میں علماء کی طرف سے قادیانی کیس میں مکمل اور کامیاب نمائندگی
حضرت مفتی صاحب مرحوم نے فرمائی اور مرزا ناصر پر ایسی جرح فرمائی کہ اس کے اوسان
خطا ہو گئے۔ اسمبلی میں حضرت مفتی صاحب نے جو عالمانہ اور فاضلانہ بحث کی اس کی
ایک جھلک ملاحظہ ہو۔
جواب: وہ امتی نبی تھے۔ امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کافرد جو آپ ﷺ کی کامل اتباع سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال: اس پر وحی بھی آتی تھی؟
جواب: آتی تھی۔
سوال: خطا کا کوئی احتمال؟
جواب: بالکل نہیں۔
سوال: مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ جو دشمن مجھ پر ایمان نہیں لاتا خواہ اس کو میرا نام نہیں پہنچا ہو، کافر ہے، پکا کافر ہے، دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر بنتے ہیں؟
جواب: کافر تو ہیں لیکن چھوٹے کافر ہیں جیسا کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کفردون کفر کی روایت درج کی ہے۔
سوال: آگے مرزا نے لکھا ہے، ’’پکا کافر۔‘‘
جواب: اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال: آگے لکھا ہے، ’’دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ حالانکہ چھوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا۔
جواب: دارصل دائرہ اسلام کے کئی دوائر ہیں اور مختلف کیٹٹیگریاں (درجات ) ہیں۔ اگر بعض سے نکل گیا تو بعض سے نہیں نکلا۔
سوال: ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ جہنمی بھی ہے؟
حضرت مفتی صاحب بیان کرتے تھے کہ جب ممبروں نے یہ سنا تو سب کے کان کھڑے ہو گئے کہ اچھا ہم جہنمی ہیں۔ اس سے ممبروں کو دھچکا لگا، وہ سمجھ گئے کہ ہم تو انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اوریہ ہمیں کافر قرار دیتے ہیں۔
ادھر نیا سوال آیا: کیا مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نیا نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبرؓ یا حضرت عمر فاروقؓ امتی نبی تھے؟
جواب: نہیں۔
سوال: قیامت تک کوئی اور امتی نبی آئے گا؟
جواب: نہیں۔
اس پر مفتی صاحب نے کہا، پھر تو اس کے مرنے کے بعد آپ کا اور ہمارا عقیدہ ایک ہو گیا۔ جو ہمارا تصور ہے خاتم النبیین کے بارے میں وہی آپ کا بھی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم حضور اقدس ﷺ کے بعد نبوت ختم سمجھتے ہیں، تم مرزا قادیانی کے بعد ایسا سمجھتے ہو۔ تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام احمد ہے اور ہمارے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔
مفتی صاحب نے کہا کہ مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں کے بارے میں لکھا ہے:
کتب ینتظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفھا و یقبلنی و یصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذی ختم اللہ علی قلوبھم فھم لا یقبلون۔
(ان کتابوں کو ہر مسلم محبت اور مودت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے نفع اٹھاتا ہے، مجھے قبول کرتا اور میرے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے مگر بدکار عورتوں کی اولاد، وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے)
مرزا ناصر: بغایا کے معنی سرکٹوں کے ہیں۔
مفتی صاحب: بغایا کا لفظ قرآن میں آیا ہے وما کانت امک بغیا ’’اور تیری ماں بدکارہ نہ تھی‘‘۔
مرزا ناصر: قرآن میں بغیا ً ہے بغایا نہیں۔
مفتی صاحب: صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔ نیز جامع ترمذی میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بھی مذکور ہے۔ البغایا الاتی ینکحن انفسھن بغیر نبیہ۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں دکھا سکتے۔
یہ جرح تیرہ روز جاری رہی۔ گیارہ دن ربوہ گروپ پر جو مرزائی قادیانی کو نبی تسلیم کرتا ہے اور دو دن لاہوری پارٹی پر جو مرزا قادیانی کو مجدد مانتی ہے۔ ہر روز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔ اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرہ کو بے نقاب کر دیا۔ حزب اختلاف نے ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ کے نام سے دو سو صفحات پر مشتمل ایک مطبوعہ دستاویز ارکان اسمبلی میں تقسیم کی جس کی تدوین و ترتیب کی سعادت حضرت مولانا سمیع الحق صاحب اور حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کو حاصل ہوئی۔
حق تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت کے ساتھ ایسی کایا پلٹی کہ ممبران اسمبلی قادیانت کا کما حقہ احتساب کرنے پر تل گئے اور انہوں نے مسٹر بھٹو کو صاف کہہ دیا کہ آپ ہمارے سیاسی لیڈر ہیں اور یہ دین و مذہب کا معاملہ ہے۔
سب کمیٹی
22 ،اگست 1974کو حزب اختلاف کے چھ راہنمائوں مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، چوہدری ظہور الہی، مسٹر غلام فاروق اور سردار مولا بخش سومرو اور حزب اقتدار کے مسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ پر مشتمل ایک سب کمیٹی کی تشکیل ہوئی۔ سب کمیٹی کے ذمہ یہ کام لگا کہ وہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعہ قادیانی مسئلے کا متفقہ حل تلاش کریں۔
مرزائیوں کا نام اقلیتوں میں
22اگست سے پانچ ستمبر 1974کی شام تک اس کے بہت سے اجلاس ہوئے مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہو سکی۔ سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ 106میں ترمیم کے مسئلہ پر ہوا۔ اس دفعہ کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے جو بلوچستان میں ایک، سرحد میں ایک، سندھ میں دو اور پنجاب میں تین سیٹیں اور چھ اقلیتوں کے نام یہ ہیں: عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔
حزب اختلاف کے نمائندگان چاہتے تھے کہ ان چھ کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس کے لئے حکومت تیار نہ تھی اور ویسے بھی قادیانیوں کا نام اچھوتوں کے ساتھ پیوست پڑتا تھا۔
مفتی صاحب نے کہا، جب اور اقلیتی فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کے نام بھی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا، یہ اقلیتی فرقوں کا ڈیمانڈ تھا اور مرزائیوں کا ڈیمانڈ نہیں۔
مفتی صاحب نے کہا یہ تو تمہاری تنگ نظری ہے اور ہماری فراخدلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان کے ڈیمانڈ کے بغیر انہیں ان کا حق دے رہے ہیں۔
تاریخی فیصلہ
7ستمبر1974ء ہماری تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب 1953 اور1974 کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس روز دستور کی دفعہ 260میں اس تاریخی شق کا اضافہ ہوا
جو شخص خاتم النبیین محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا اس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو، وہ آئینی یا قانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہے۔
دستور 106 کی شکل یوں بنی
بلوچستان، پنجاب، سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لئے مخصوص فاضل نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ او رپارسی فرقوں اور قادیانی گروہ یا لاہوری افراد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں، بلوچستان ایک، سرحد ایک، پنجاب تین، سندھ دو۔
پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا
قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمود جب اسمبلی ہائوس سے باہر نکلے تو سیدھے دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت آگئے۔ وہاں حضرت مفتی صاحب کا بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا۔ حضرت مفتی صاحب پہنچے تو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ مصلے پر سجدہ ریز تھے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے، آنسوئوں سے ان کی داڑھی تر ہو گئی تھی۔ مفتی صاحب تشریف لائے اور انہوں نے آواز دی۔ ’’حضرت! اللہ پاک کا شکر ہے، ہمارا مطالبہ مان لیا گیا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے۔ (تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت 289)
قومی اتحادکاقیام
7جنوری کو بھٹو نے قومی اسمبلی توڑنے اور عام انتخابات کا اعلان کیا۔ اس وقت لاہور میں ایئر مارشل اصغر خان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ ہم پیپلز پارٹی کو شکست دیں گے۔ مولانا مفتی محمود اسلام آباد سے جہلم روانہ ہو چکے تھے جہاں جمعیت کے کارکنوں کے ایک استقبالیہ سے خطاب کرنا تھا۔ پیر صاحب پگاڑو کراچی میں تھے، نوابزادہ نصراللہ خان نے ان سے رابطہ کیا۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ شیر باز مزاری، سب سے بات ہوئی اور اپوزیش کی نو بڑی چھوٹی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کا فیصلہ کیا۔ ۱۰ جنوری ۱۹۷۷کو شمالی لاہور کے علاقہ شاد باغ میںجمعیت علماء پاکستان کے جنرل سیکرٹری جناب رفیق باجوہ کی اقامت گاہ پر شام کو اپوزیشن پارٹیوں کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جو رات گئے تک جاری رہا اور ایک بجے رات ملک کی نو جماعتوںنے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک نشان ایک جھنڈے تلے متحد ہونے کافیصلہ کیا۔ جس کا باضابطہ اعلان گیارہ جنوری کومسلم لیگ ہائوس میں کیا گیا۔ مشترکہ پریس کانفرنس مولانا مفتی محمود ، ایئر مارشل اصغر خان، نوابزادہ نصر اللہ، پروفیسر عبدالغفور، رفیق باجوہ نے کی۔ (درویش سیاستدان ص 55)
مفتی صاحب کی گرفتاریاں
مفتی صاحب ؒ پہلی مرتبہ تحریک آزادی ہند کے دوران تحریک سول نافرمانی میں گرفتار ہوئے تھے دوسری دفعہ 1953کی تحریک ختم نبوت کے دوران1953میں گرفتار ہوئے اور سات ماہ کی قید کاٹی تیسری دفعہ1956میں ون یونٹ کے منصوبے پر تنقید کے سلسلے میں گرفتار ہوئے ۔ چوتھی دفعہ 1967 کوملتان میں حکومتی تعاون سے جشن ملتان کے نام سے رقص وسرود اور ناچ گانے کے پروگرام کے خلاف آواز اٹھانے پر مفتی صاحب کو گرفتار کیاگیا ۔پانچویں دفعہ18مارچ 1977کو بھٹو دور حکومت میں پشاورسے مفتی صاحب ؒکو گرفتار کیاگیا۔چھٹی دفعہ 25مارچ 1977کو لاہور سے مفتی صاحب ؒ کوگرفتارکیاگیااور لاہور سے ہری پور جیل بھیج دیاگیاساتویں دفعہ5جولائی 1977جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاکی آمد پر مفتی صاحب کوگرفتار کیاگیا ۔ (مولانا مفتی محمودکی علمی،دینی اورسیاسی خدما ت106تلخیص)
15ستمبر1980کو شیرانوالہ گیٹ لاہورمیں جمعیت علمائے اسلام کی مجلس عمومی کا اجلاس ہوا جس میں حضرت مولانا مفتی محمود نے باوجود علالت کے شرکت فرمائی اور اجلاس کو بتایا کہ جنرل ضیاء الحق کی وعدہ خلافیوں اور ناانصافیوں کے باعث حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز ناگزیر ہوگیا ہے اس موقع پر مولانامحمد رمضان میانوالیؒ،قاضی عبدالطیفؒ،مفتی محمد عبداللہ ملتانیؒ،مولانا مفتی عبدالواحدؒ گوجرانوالہ،قاری سعیدالرحمنؒ راولپنڈی، مولانا منظوراحمدؒ چنیوٹی،اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہدالراشدی گوجرانوالہ،نے حضرت مفتی صاحب کو ضیاء الحق کی مخالفت سے باز رہنے کی درخواست کی جبکہ دوسری طرف مولانا سید امیر حسین گیلانیؒ ،محمد خان اچکزئی، اور مولانامحمد خان شیرانی اور دیگر بہت سے اکابرین نے حضرت مفتی صاحب کے موقف کی بھر پور تائید کی اور اس طرح اجلاس کی بھاری اکثریت نے حضرت مفتی صاحب ؒ کا ساتھ دیا ۔آخر میں مرکزی امیر حضرت مولانا عبداللہ درخواستی صاحب نے فیصلہ دیا کہ دیگرجماعتوں کے بعدکے بعد اتحاد میں شمولیت کافیصلہ کیا جائے گا۔اور حضرت مفتی صاحب کو دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ۔حضرت مفتی صاحب نے بحالی جمہوریت کے لئے نئے اتحادایم آر ڈی کے قیام کے سلسلہ میںمختلف جماعتوں سے مزاکرات کئے ۔مگر سفر حج کے دوران کراچی میں ااچانک حضرت مفتی صاحب ؒ کاوصال ہوگیا۔(علمائے دیوبند کی سیاسی خدمات80)
مفتی صاحب کا سانحہ وفات
مفتی صاحب حج کے لئے روانہ ہوئے کراچی پہنچ کرایک علمی موضوع پرحضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی،حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی،حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید،حضرت مولانا مفتی احمدالرحمنؒ،مفتی محمد جمیل خان شہید،حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالرزاق سکندرکی موجودگی میں ایک خالص فقہی مسئلے پر گفتگو کر تے ہوئے 14اکتوبر1980کواچانک سفرآخرت پرروانہ ہوئے۔
ایک تبصرہ شائع کریں