جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کا سالانہ ختمِ نبوت کانفرنس چناب نگر میں خطاب 26 اکتوبر 2023

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کا سالانہ ختمِ نبوت کانفرنس چناب نگر میں خطاب

26 اکتوبر 2023

الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی خاتم النبیین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ صدق اللہ العظیم

قابل صد احترام، صدر کانفرنس، اکابر علماء کرام، بالخصوص عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین، شرکاء کرام، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 سب سے پہلے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اکابرین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کر کے پوری قوم پر ایک احسان عظیم کیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کانفرنس میں ملک بھر سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ہر طرح ایک نمائندگی دکھائی دے رہی ہے اور ایک طرح سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ پورے ملک کا ایک نمائندہ اجتماع ہے۔ اس حوالے سے یہاں سے کوئی قرارداد یا کوئی بیان جو جاری ہو رہا ہے یا چل رہا ہے یہ پورے ملک کا آواز ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع کو ملک بھر کا ایک نمائندہ اجتماع تسلیم کیا جائے اور اس کے جو فیصلے ہیں وہ ایک طرح سے ملک بھر کے عوام کی رائے اور ان کا فیصلہ ہے، تو ان فیصلوں کو اسی طرح دیکھا جائے۔ 
میرے عزیز دوستو! اس کے بعد بات دراصل یہ ہے میں اکثر ایسے اجتماعات میں یہ بات کہا کرتا ہوں کہ پاکستان بنا اسلام کے نام پہ، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ اور اس نعرے کی بنیاد پر پاکستان بنا۔ تو یہ صرف نعرہ نہیں تھا بلکہ یہ پورا ایک نظام کا تصور تھا کہ اس نعرے کی بنیاد پر جو ملک بنے گا اس ملک میں ہمارے عقائد ہمارے نظریات ہمارے اعتقادات محفوظ ہوں گے، وہ ایک عظیم ریاست ہوگی جس میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوگا اور اسی سوچ اور اسی بنیاد پر برصغیر کے لوگوں نے جو مثالی قربانیاں دیئے اس کی مثال آپ کہی نہیں دیکھ سکتے، آپ دیکھیے کہ جب ملک تقسیم ہو رہا تھا، جب برصغیر تقسیم ہو رہا تھا اور یہاں پاکستان بن رہا تھا ادھر ہندوستان بن رہا تھا اور جو لوگ جو مسلمان اس تصور کے ساتھ پاکستان کے حامی تھے کہ یہاں اسلام کا عادلہ نظام ہوگا، ہمارے عقائد اور نظریات نافذ ہونگے، انہوں نے کیا کیا قربانیاں دیں، انہوں نے اپنے بھائی کو چھوڑا یعنی ایک فیملی بھی تقسیم ہوئی، کچھ لوگ اُدھر رہ گئے اور کچھ اِدھر آگئے، اور اپنی قبرستان چھوڑیں جو جہاں ان کے آباء واجداد مدفون تھیں، انہوں نے اپنے کاروبار چھوڑیں، مکانات چھوڑے، دکان چھوڑے، قبرستان چھوڑے، درگاہیں چھوڑیں اور دہلی میں جامع مسجد بھی چھوڑا۔ اور پھر یہ سفر اس طرح انہوں نے طے کیا آگ و خون سے گزر کر یہاں پہنچے، خون کی ندیاں بہہ گئے، مسلمانوں کے سامنے ان کی بچیوں کی عصمت دری ہوئی، ظلم و جبر کی انتہا تھی یہ لیکن اس کے باوجود مسلمان ان تمام تکالیف کو برداشت کر رہا تھا کہ میں جہاں جا رہا ہوں وہاں مجھے امن ملے گا، وہاں مجھے سکون ملے گا، وہاں خلافت راشدہ کا نظام نافذ ہوگا، میرا عقیدہ محفوظ ہوگا، ختم نبوت جو میرا ایمان ہے وہ محفوظ ہوگا، صحابہ کرام کی عزتیں محفوظ ہونگے۔ مگر اج 75 ، 76 سال گزر گئے ہیں، اب بھی ہم جلسے کررہے ہیں، اب بھی ہم مطالبے کر رہے ہیں، اب بھی ہم عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں کہ پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ناموس یہاں محفوظ نہیں، صحابہ کرام کا عزت و ناموس یہاں محفوظ نہیں، ازواج مطہرات کا عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے۔ 
میرے عزیز دوستو! یہ ملک اس لیے تو نہیں بنا تھا؟ ہندوستان میں نماز پر کوئی پابندی نہیں تھی، حج پر کوئی پابندی نہیں تھی، زکوۃ پر کوئی پابندی نہیں تھی، مدرسہ نکالنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، قران کریم کی تلاوت پر کوئی پابندی نہیں تھی، اگر ہندوستان جو خطہ ہندوستان بن رہا تھا ہم اس کو چھوڑ کے اور کتنی قربانیاں دی، تاریخ کی بے مثال اور لازوال قربانیاں دی، تو ایک مقصد کے لیے دی اور وہ مقصد یہاں اسلام کا عادلانہ نظام تھا، خلافت راشدہ کا نظام تھا جو آج تک ہم نہیں ڈیکھ سکیں اور بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب پاکستان بنا تو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ قادیانی کو بنایا اور جس ریاست میں قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کرنی ہے، اس ریاست کا وزیر قانون ایک ہندو کو بنایا گیا، تو یہ کیا مسلمانوں سے مذاق نہیں تھا! اس نعرے کے ساتھ مذاق نہیں تھا؟ اور پھر آگے آپ دیکھیے کہ 26 سال تک ہمارا ملک بے آئین رہا، کوئی آئین نہیں تھا، عبوری بنتے گئے اور بکھرتے گئے، اور ہر حکمران نے، بے شرم حکمران کی بنائی ہوئی آئین کو دستور کو پاؤں تلے روندا، مارشل لاء لگایا، تاآنکہ 1970 کے انتخابات میں ہمارے اکابر منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں گئے اور ان کی کوششوں سے پاکستان کو ایک مستقل آئین ملا، اور پھر آگے چل کر 1973 میں آئین میں ترمیم لائی، اتفاق رائے سے ترمیم لائی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، اتفاق رائے سے۔ لیکن اس میں کردار ہمارے اکابر کا ہے، علماء کرام کا ہے، جب پہلی مرتبہ پاکستان کے آئین ساز ادارے میں علماء پہنچے تو انہوں نے پاکستان کو اسلامی آئین دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس وقت تقریبا 90 سال ہو گئے تھے ختم نبوت کے اس مسئلے کو، غلام قادیانی کی اس تحریک کے خلاف، اس دعوے کے خلاف جو مسلمانوں نے تحریکیں چلائی، تقریبا 90 سال ہو چکے تھے مسئلہ حل نہیں ہوا، جب ہمارے اکابر پارلیمنٹ میں پہنچے ان کی کوششوں سے ختم نبوت کا مسئلہ حل ہو گیا یعنی آئینی طور پر قادیانی کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور یہ لکھ دیا گیا کہ آج کے بعد کوئی بھی قادیانی کسی بھی کلیدی عہدے پر نہیں آسکے گا۔ 
میرے عزیز دوستو! اس لیے اس مجمع سے میں کہتا ہوں، پنجاب کے مسلمانوں سے کہتا ہوں، پنجاب کے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اگر ایسے فتنوں کا سد باب کرنا ہے تو پھر علماء کے ساتھ مل جائے، علماء کے ساتھ تعاون کریں، علماء کو پارلیمنٹ میں پہنچائیں تاکہ اس قسم کے فتنوں کا ہمیشہ کے لیے سد باب ہو جائے۔ آج جب ناموس رسالت کا بل۔پاس ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، نہ کسی فرقے کو چھیڑا گیا ہے، نہ کسی مسلک کو چھیڑا کیا ہے، سزا میں اضافہ ہوا ہے، مگر ان کو تکلیف ہوئی۔ اسی طرح اس پارلیمنٹ میں کئی دفعہ ناموس رسالت کے حوالے سے جو قوانین ہے ان میں ترمیم کی کوششیں کی گئیں، ختم نبوت کا جو حلف نامہ ہے اس میں ترمیم کی کوشش کی گئی، اللہ کے فضل و کرم سے تھوڑے ہونے کے باوجود جمیعت علماء اسلام کے ممبران سدسکندری بن کے ان کا مقابلہ کیا، ان کو منہ توڑ جواب دیا اور ان کو ناکام بھی کریں گے لیکن اگر ہماری اکثریت ہوتی تو ہم اس آئین کو سامنے رکھ کر اس ریاست کو اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں، اور ہمیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے اسی پاکستان کے آئین کو جو متفقہ آئین ہے، جس کی ہم مسلسل جنگ بھی لڑ رہے ہیں، اس کی تحفظ کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں، اگر ہماری اکثریت ہو جائے، اسی آئین کو سامنے رکھ کر اس ریاست کو ہم اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے، مگر بدقسمتی سے جب الیکشن آتا ہے تو لوگ ایسے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو سامنے لاتے ہیں کہ جن کو قل ھو اللہ پڑھنا نہیں آتا، جن کو سورہ کوثر پڑھنا نہیں آتا، ایسے لوگ آ کے ہمارے وزیر ہوتے ہیں، وکیل بنتے ہیں، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، اب ان کا اسلام سے شریعت سے دین سے فلاحی ریاست سے کیا تعلق! اس لیے میرے عزیز دوستو! جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے مسئلے کو محفوظ بنائے اس پر آنچ آنے نہ دے، وہاں جلسوں سے ہمیں آگے بڑھ کر پارلیمنٹ میں بھی پہنچنا ہوگا اور پارلیمنٹ کے ذریعے یہ سب کچھ آپ کر سکتے ہیں لیکن جب پارلیمنٹ یہاں کی اکثریت نہیں ہے، آپ کی اقلیت ہے تو پھر اقلیت میں آپ دفاع کر رہے ہیں، ہم اقدامی پوزیشن میں کبھی نہیں آئے، ہم دفاعی جہاد کر رہے ہیں، اقدامی جہاد کی پوزیشن میں پارلیمنٹ میں نہیں آئے، اگر آپ اکثریت کے ساتھ آئیں گے تو پھر اقدامی پوزیشن میں بھی آئیں گے، پھر آپ اصلاح احوال کریں گے، تو ہمیں آج یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہمیں ذرا آگے بڑھنا ہوگا اور ایک ایسی قوت بننا ہوگا کہ ہم پارلیمنٹ میں پہنچے اور جہاں جہاں کوئی خلاف شرع قانون ہے اس کو جو ہے وہ ڈیلیٹ کریں اس کو ختم کریں اور ایک فلاحی ریاست کی کوشش کریں۔ 
دوسری بات جو فلسطین کی بات ہے، غزہ کی جو اس وقت صورتحال ہے، واقعی دلخراش ہے، آپ سن رہے ہوتے ہیں، افسوسناک ہے لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ جو ایک ادارہ ہے تمام قوموں کا تمام ممالک کا ایک ادارہ ہے، اس ادارے کا کام کیا ہے؟ وہ ادارہ صرف امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کر رہی ہے اس سے آگے اس کا کردار کیا ہے! پانچ ممالک ہیں جن کو ویٹو پاور ہیں ان میں ایک امریکہ بھی ہے، اب چار ممالک اگر ایک فیصلہ کرے تو ہم نے ویٹو کرنا ہے، نہیں مانتے، اپنی مرضی کرتا ہے، فلسطین کے مسئلے پر بھی چار ممالک ایک طرف ایک ملک ایک طرف، ایسا بھی نہیں ہے کہ سادہ اکثریت ہو، یہ اقوام متحدہ کا کردار آپ جب سے بناہے اس وقت سے لے کر اب تک کسی مسلم ملک کی مدد کے لیے یا کوئی کردار ادا کیا، فلسطین کے مسلمان 70 ، 75 سال مار کھا رہے ہیں اپنی آزادی کے لیے، آخر کا قراردادیں بھی پاس ہوئیں کچھ نہیں ہوا۔ انڈیا نے بھی اپنے آئین میں ترمیم کیا کشمیر کی مقبوضہ کشمیر کی اسٹیٹس ختم کیا، آئین میں یہ لکھا ہوا تھا کہ کشمیری کے علاوہ کوئی انڈین یہاں آ کے آباد نہیں ہوسکتا، کشمیر میں جتنی بھی آسامیاں ہیں وہ کشمیریوں کا حق ہے، آج کدھر ہے وہ باتیں، کدھر ہے اقوام متحدہ کی باتیں، جوتے کی نوک پر رکھ دیا انڈیا نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو، آج کہاں ہے او آئی سی؟ 57 اسلامی ممالک، کیا کردار ہے ان کا؟ ان کو حیا نہیں آتی شرم نہیں آتی ان کے سامنے فلسطین کا قتل عام ہو رہا ہے، بچے ذبح ہو رہے ہیں، خواتین ذبح ہو رہی ہیں، بوڑھے قتل ہو رہے ہیں، کیا کردار ہے او آئی سی کا۔ عرب لیگ کا کیا کردار ہے؟ 22 ممالک عرب لیگ میں کیا کردار ہے ان کا، تماشا بنے ہوئے ہیں۔
 میرے عزیز دوستو! اسرائیل یہودی ایک ظالم ہے، ماضی میں بھی جس طرح انہوں نے فلسطین کے ساتھ ظلم و جبر روا رکھا اس کی تاریخ میں اسرائیل کے علاوہ کئی مثال نہیں ملتی، کیمپوں میں جو کچھ ہوا یہاں تک کہ فتوی طلب کیا گیا کہ انسان انسان کا گوشت کھا سکتا ہے؟ اور پھر فلسطینی ان کیمپوں میں اپنا گوشت کھانے لگے، ایک بچہ روتے ہوئے آتا ہے اور اپنے والدہ سے کہتا ہے کہ امی میرے والد کو بچے نوچ رہے ہیں، اس کے گوشت کھا رہے ہیں، جب میں آگے بڑھا تو مجھے منع کیا گیا، مجھے نہیں چھوڑا، کیا میرا حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنے والد کے گوشت سے کھاؤں؟ پھر بھی عزرائیل کو رحم نہیں آیا، عزرائیل دشمن، عزرائیل کافر، عزرائیل ظلم و جبر کرتا رہتا ہے اور کر رہا ہے، اے مسلم تمہاری غیرت کہاں گئی، مسلم حکمرانوں تمہاری غیرت کہاں گئی، تمہاری یہ میزائل تمہارے یہ ایٹم بم کس کام کے ہیں!!! تو میرے عزیز دوستو! ایسے حالات میں ہم اپنے مظلوم بھائی کے ساتھ کیا کرسکتے ہیں، جمیعت علماء اسلام نے پہلے مرحلے پر 20 کروڑ کا اعلان کیا ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں تک یہ پیسے پہنچائیں گے، کہیں دوائی کی ضرورت ہے کہی خوراک کی ضرورت ہے بہت سارے ان کے مسائل ہیں، ہم یہ کر سکتے ہیں لیکن جیسے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب نے فرمایا کہ اگر یہ سرحدوں کی پابندیاں نہ ہوتی تو قبلہ اول سے آزادی کے لیے ہم سب سے پہلے ہوتے اور ہمارا عزم بھی یہی ہے کہ ان شاءاللہ اگر ایسا موقع ملتا ہے تو پاکستان کے مسلمان، ہمارے کارکن، ہمارے رضاکار بیت المقدس کی آزادی کے لیے چان نچاور کرنے کے لیے تیار ہے وہاں۔ آج کے اس نمائندہ اجتماع کے توسط سے میں او آئی سی سے لہنا چاہتا ہوں کہ یہ غفلت کی چادر پھینک دو، عرب لیگ سے کہنا چاہتا ہوں کہ بزدلی کی چادر اٹھا کہ پھینک دو اپنے فلسطینی بھائی کے لیے کوئی اقدام کرو، حماس کی ایک چھوٹی سی تنظیم ہے اور ایک طرح سے وہ نہتے ہیں لیکن 15 دن سے زیادہ بلکہ 20 دن ہونے کو جانے کو جارہے ہیں، اب تک انہوں نے جنگ برقرار رکھی ہے، لڑ رہے ہیں، مر رہے ہیں، بڑھ رہے ہیں، میدان نہیں چھوڑ رہے، اگر مسلم دنیا ہمت کریں پڑوسی ممالک تھوڑا سا جرات دکھائے اگے بڑھے، تو میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینی اس وظالم سے بچ سکتے ہیں اب بھی وقت ہے۔ میں زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا، میں دعا گو ہوں عالم مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین کے حوالے سے اللہ تعالی ہم کو ہمت دے اور اس تحریک کو جس طرح چلا رہے ہیں آگے بڑھائیں اور ختم نبوت کے منکرین، ختم نبوت کے دشمنوں کا تعاقب جاری رکھے ہم ان کی پشت پر ہے پارلیمنٹ میں اور میدان میں جہاں کہیں بھی ہمیں پکارا جائے گا ہم حاضر ہونگے ان شاءاللہ 
 والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments