خیبرپختونخوا کے سوشل میڈیا کنونشن سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ایکسپرٹ محمد فہیم صاحب کا خطاب تحریری صورت میں 7 اکتوبر 2023


خیبرپختونخوا کے سوشل میڈیا کنونشن سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ایکسپرٹ محمد فہیم صاحب کا خطاب

7 اکتوبر 2023
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میرے پاس وقت تو بہت کم ہے لہذا میں ٹیکنکل بندہ ہوں تو صرف ٹیکنکل باتیں کرونگا۔ جدھر بھی ہم سے کوئی غلطی ہو کیونکہ کوئی بھی ہم میں پرفیکٹ نہیں ہے، کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس میں غلطی نہیں ہے۔ لیکن کوئی بھی غلطی ایک نا انجانی کیفیت میں کرنا یا کوئی بھی غلطی جان بوجھ کے کرنا ان دونوں میں فرق ہے اور جب مجھے بتایا گیا کہ آج ہم نے آپ لوگوں سے بات کرنی ہے تو مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ آپ سب کے سب یہاں پہ جمیعت کے ذمہ دار لوگ ہیں عام ورکر نہیں ہے۔ آپ سب کے پاس کوئی نہ کوئی ذمہ داری ہے تو آپ کے ساتھ ایک بہت بڑا نام جڑا ہوا ہے، جو کچھ غلطیاں میں نے دیکھی ہیں یا ہم پولیٹیکل پارٹیز کو دیکھتے ہیں باقی پارٹیوں پارٹی کو بھی ان میں جہاں جہاں پہ نشاندہی ہوئی ہے میں آج اس پہ بات کرنا چاہوں گا۔ اور آپ لوگ جہاں پہ اپنی بات کرنا چاہیں تو مجھے روک کے خیر ہے آپ کوئی سوال کرنا چاہیں کچھ کہنا چاہیں تو میں یہاں پہ حاضر ہوں۔ 
سب سے پہلی چیز سوشل میڈیا عمومی طور پہ ہم لوگ اس کے مطلب کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے اور ہم اس کو مکس کرتے ہیں ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ، یہ دونوں الگ الگ اصطلاحیں ہیں ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا۔ ڈیجیٹل میڈیا عمومی طور پہ ایک عام روایتی میڈیا کا ہی ایک شکل ہے جس میں آپ کو ون وے کمیونیکیشن ہوتی ہے، لیکن پلیٹ فارم ڈیجیٹل ہوتا ہے یعنی اگر آپ کو موبائل فون پہ آپ کوئی چینل لائیو دیکھ رہے ہیں کوئی اخبار پڑھ رہے ہیں یا کوئی ویب سائٹ دیکھ رہے ہیں تو وہ صرف ون وے کمیونیکیشن ہے، وہ آپ کو معلومات دے رہی ہے اس میں کوئی کام نہیں ہے آپ کا۔ آپ کو صرف ریسیونگ اینڈ پہ کھڑا ہونا ہے تو یہ ڈیجیٹل میڈیا ہے لیکن آپ لوگ سارے یہاں پہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں سوشل میڈیا کارکن ہیں، جب آپ کسی سوسائٹی میں بیٹھتے ہیں تو آپ کا اٹھنا بیٹھنا اور سوشل سرکل میں ہوتا ہے اور سوشل میڈیا اسی کا حصہ ہے کہ یہاں پہ سوسائٹی بنے گی، یہاں پہ کچھ لوگ آپ کے ہم خیال بھی ہوں گے اور آپ کے خلاف بھی ہوں گے۔ کچھ لوگ آپ کی بات سے اتفاق کریں گے اور کچھ لوگ آپ کی بات سے اختلاف کریں گے۔ جو اتفاق کرنے والے ہیں ان کو ساتھ رکھنا اور جو اختلاف کرنے والے ہیں ان کو نا دھونا، یہ انتہائی ضروری ہے ہمیں معاشرے کو یونی ڈائمنشن نہیں بنانا کہ بس سب کے سب ایک ہی طرح سوچیں گے جہاں پہ کوئی آپ کی بات سے اختلاف کرتا ہے یا آپ کسی کی بات سے اختلاف کرتے ہیں، وہاں پہ اصل میں آپ کا امتحان شروع ہوتا ہے آپ کوئی اچھی بات کرتے ہیں اگلا بندہ اچھی بات کو شیئر کرتا ہے لائک کرتا ہے ریٹویٹ کرتا ہے کچھ بھی کرتا ہے ری پوسٹ کرتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ وہاں پہ ہے جب آپ کو کسی ایسی بندے کی بات سامنے آئے کہ وہ آپ کے نظریے سے اختلاف کر رہا ہو آپ کی سیاسی وابستگی سے خلاف اختلاف کر رہا ہو آپ کے علاقائی اطوار سے خلاف کا اہتمام کر رہا ہو آپ کا اصل ٹیسٹ وہاں پہ آتا ہے کہ آپ اس اختلاف کا جواب کس طرح دیں گے۔ میں نے دیکھا ہے عمومی طور پہ مختلف پولیٹیکل پارٹیز ایون جمعیت کے اندر ایسے بہت سے انفلوئنسز موجود ہیں جن کی ریچھ لاکھوں تک جاتی ہے، وہ کچھ ہی لمحوں کے اندر جب ٹویٹ کرتے ہیں یوٹیوب ویڈیو شیئر کرتے ہیں فیس بک پوسٹ کرتے ہیں تو لاکھوں لوگوں تک جاتی ہے لیکن جہاں پہ یہ لوگ تھوڑی سی غلطی کرتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ غیر ضروری بحث کے اندر ایک ایسے بندے کو اہمیت دے دیتے ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، اگر آپ کے پاس 10 لاکھ 20 لاکھ 15 لاکھ فالوورز ہیں اور اگر آپ کی بات سے ایک بندہ اختلاف کر رہا ہے اور اس کے 1500 دو ہزار تین ہزار فالور ہیں تو کوئی ضرورت نہیں ہے اس کو جواب دینے کی، سب سے بڑی غلطی آپ یہاں پہ یہ کرتے ہیں، کہ جس طرح آپ کچھ دیر پہلے ایک ساتھی نے کہا کہ ایک جماعت کے ساتھی نے ایک تصویر کو لائک کر دیا تھا ہمیں یہ نہیں لگتا کہ جب ہم اس سے بات کرتے ہیں تو جو مجھے فالو کرنے والے بیس لاکھ لوگ ہیں اس کے فالور تو 1500 ہیں میرے فالور تو 20 لاکھ ہیں ایک ملین ہے دو ملین ہیں تو جب میں اس کو ریپلائی کرتا ہوں تو اس کی اس ایک عام سی ٹویٹ کو یہ 20 لاکھ لوگ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور میں ان ڈائریکٹلی وہاں پہ اپنی تمام اڈینس کو اس طرف لے کے جا رہا ہوں، چاہے وہ اس کو پھر برا بھلا کہتی ہے اچھا کہتی ہے وہ بعد کی بات ہے، اس کا مقصد پورا ہو گیا۔ اس نے جو ایک جماعت کے متعلق ایک علاقے سے متعلق ایک صنف سے متعلق منفی بات کہی آپ کے جواب دینے کی وجہ سے۔ اگر آپ اس کو ریپلائی نہ کرتے تو شاید 200 لوگ دیکھتے، تین سو دیکھتے ہزار دیکھتا لیکن جب آپ نے اس کو ریپلائی کیا تو اس کو پھر لاکھوں لوگوں نے دیکھا تو آپ پھر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جی میں نے تو اس کو جواب دیا ہے آپ نے اس کی اس غلط بات کی تشہیر میں حصہ لیا ہے۔ یہ ایک بہت بنیادی غلطی ہم لوگ کرتے ہیں کہ ہم اس بندے کو ریپلائی دینا شروع کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے اوپر کوشش کریں کہ جو بات اچھی لگے اس کو بالکل شیئر کریں جو بری لگے اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس بندے نے میری جماعت سے متعلق، میرے کسی قائد سے متعلق، میرے عقیدے سے متعلق کوئی بات لکھی ہے، ہرگز ریپلائی نہ کریں اس کو آپ رپورٹ کریں اس کو آپ رپورٹ کرتے ہیں تو اس کے پیج کے اوپر سٹرائک آتا ہے اس کا پیج بند ہوگا اب اگر ریپلائی کریں گے یا آپ اس کو گالم گلوچ کریں گے تو دو تین مسئلے سامنے آتے ہیں ایک مسئلہ ہمارے ہاں یہ آتا ہے کہ ہم ہر وقت دو تین قسم کے انسان ہوتے ہیں ایک ہی شخص ایک وقت میں بیٹا بھی ہوتا ہے بھائی بھی ہوتا ہے باپ بھی ہوتا ہے، اس کے مختلف جو ہیں وہ کردار ہیں، وہی سب کچھ آپ کا سوشل میڈیا پہ بھی ہے۔ ہم بہت بار جب گھر میں کوئی بات اپنے والد کی بری لگتی ہے تو ہم خاموش ہوتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے میرا والد ہے سوشل میڈیا میں ہم اس کا لحاظ نہیں کرتے اور ہم وہاں پہ کوئی ایسی بات لکھ دیتے ہیں جو کہ شاید اس وقت ہمیں تو کوئی فرق نہ کرے، بطور ذاتی حیثیت فہیم کو کوئی مسئلہ نہ کرتا ہو لیکن جب اس غلط بات کو کوئی دیکھتا رہتا ہے تو بولے گا جمعیت کے کارکن نے یہ بات لکھی ہے، تو وہ آپ ایک بندے کی وجہ سے وہ پوری کی پوری جماعت کے اوپر ایک سوالیہ نشان لگاتا ہے کہ نہیں یہ ایک بندہ جو ہے نا یہ اس جماعت کے ساتھ ہے اور پوری جماعت ہی ایسی ہو گی۔ جو سچ ہے اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ابھی منہ ہی دھو رہا تھا یا چپلے پہن رہا تھا کہ جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کے آگیا۔ جب آپ کی ایک چھوٹی سی غلطی سے جب جماعت کو نقصان پہنچتا ہے آپ کے علاقے کو نقصان پہنچتا ہے آپ کی صنف کو نقصان پہنچتا ہے بطور مرد نقصان پہنچتا ہے بطور نوجوان نقصان پہنچتا ہے اس کے بعد چاہے آپ لاکھوں بار اس جگہ کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں پھر وہ ٹھیک نہیں ہوتی۔ ہر بندہ آپ کا پرانا سکرین شاٹ شیئر کرتا ہے کہ نہیں اس بندے نے تو یہ بات کی تھی یا اس جماعت کے بندے نے یہ بات کی تھی۔ جمیعت کو پتہ بھی نہیں ہوگا اور کسی ایک عام کارکن نے وہاں پہ جھنڈا جمیعت کا لگایا ہوگا اور وہ کسی خاتون سے کسی مرد سے بحث میں الجھ جائے گا اور وہاں پہ اس کا صبر کا جو دامن ہے وہ ہاتھ سے چھوڑ دے گا اور غلط بات کر دے گا، پوری کی پوری جماعت کو نقصان پہنچے گا۔ تو جو الفاظ کا استعمال آپ کرتے ہیں کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے اوپر یہ بات یاد رکھیے کہ آپ اس کو نرم سے نرم کیجیے۔ کوئی بھی ٹویٹ لکھتے ہیں کوئی بھی فیس بک پوسٹ لکھتے ہیں جتنا آپ اس کو نرم کر سکیں اتنا نرم کریں۔ کچھ چیزیں آپ کے دائر اختیار میں نہیں ہیں نہ کسی کو فتوی دینا آپ کے دائر اختیار میں ہے نہ کسی کو مسلمان کہنا نہ کسی کو پٹھان کہنا نہ کسی کو مرد کہنا نہ کسی کو حیادار کہنا نہ کسی کو ناپاک کہنا یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہمیں ججمنٹل نہیں ہونا کیونکہ آپ کے ساتھ ایک جماعت کا نام لگا ہوا ہے جماعت کی وہ پالیسی نہیں ہوگی، جس طرح شروع میں بات ہوئی کہ پالیسی اوپر سے آرہی ہے وہ جماعت کی پالیسی ہی نہیں ہے ایک قانون آرہا ہے ایک ایکٹ آرہا ہے، ایک ڈسکشن ہو رہی ہے جماعت کی اپنی پالیسی ہے۔ نیچے سے ایک کارکن اٹھ کے اس پالیسی کے خلاف بات کر دیتا ہے تو اگلا بندہ اس کارکن کو نہیں جانتا وہ کہتا ہے یہ فضل الرحمان کی جماعت کا بندہ ہے، ڈائریکٹ آپ کے قائد کے اوپر انگلی اٹھتی ہے، تو جب بھی آپ کوئی پوسٹ کریں سب سے پہلے یہ سوچیں کہ میرے ساتھ کس کا نام جڑا ہوا ہے، کیا میری اس پوسٹ کرنے سے میری پارٹی کو فائدہ ہوگا یا نقصان ہوگا، چاہے آپ بہت ہی ڈیڈیکیٹڈ ہوں بہت ہی مخلص ہوں لیکن وہ کچھ دیر کا غصہ آپ کی جماعت کے لیے ایک بہت بڑا نقصان کرتا ہے۔ آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں کہ وہ واحد جمعیت علماء اسلام تھی جو کراچی سے نکلی اسلام آباد تک آئی لیکن ایک گملہ نہیں ٹوٹا۔ جب آپ کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو وہ خود جگہ پکڑتی ہے لیکن جب آپ برا کرتے ہیں تو وہاں پر بھی آپ کے کارکن کی وجہ سے پھر ہاتھ اٹھتا ہے۔ تو آپ نے اچھا بھی کرنا ہے تو اپنی پارٹی کے لیے اپنے قائد کے لیے کرنا ہے، لیکن جب برا ہوتا ہے تو آپ کی انڈویجول کیپیسٹی ہوگی۔ اس سے پہلے بھی ایک جماعت کی بات ہوئی اس میں بہت سے لوگ میں جانتا ہوں ہمارے ساتھی ہیں وہ کہتے ہیں اس بندے سے ہمارا تعلق نہیں ہے، ٹھیک ہے ہمارے ساتھ ہوگا لیکن کیونکہ اس نے جھنڈا اس پارٹی کا لگایا ہوا ہے اس نے اس قائد کی تصویر لگائی ہے تو وہ پوری کی پوری پارٹی اس کا حصہ بنتی ہے پھر کہ آپ سب اس میں حصہ دار ہیں۔ تو سب سے پہلی چیز اگر آپ کی فیس بک یوٹیوب یا ٹوٹر اکاؤنٹ کے اندر لکھا ہوا ہے کہ میں جمیعت علماء اسلام ضلع تورغر کا، کوہستان کا، پشاور کا، چارسدہ کا ایک سوشل میڈیا ٹیم ممبر ہوں بہت ادنی کارکن ہو تو وہاں پہ جمیعت علماء اسلام کا نام آگیا، اب آپ وہاں پہ ایک عام شخص نہیں رہے، چاہے کسی پارٹی کا بندہ ہو جب آپ کی شخصیت عام نہیں رہی تو پھر آپ کی باتیں بھی عام نہیں ہو سکتی، آپ کو اس کے بعد کا کوئی حق نہیں ہے کہ آپ ایک راہ چلتے کی گفتگو کرنا شروع کر دیں، جب آپ اتنے بڑے نام سے جڑیں گے تو پھر آپ کا کردار بھی ویسا ہونا چاہیے، جب آپ کا کردار ویسا ہوگا تو آپ کی گفتار اور آپ کی ٹویٹ بھی ویسی ہی ہونی چاہیے آپ کا فیس بک کمنٹ بھی ایسا ہونا چاہیے۔ ہمارے کچھ ساتھی ہیں وہ اکثر اختلاف کرتے ہیں اور بڑے اچھے الفاظ میں کرتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا الفاظ کا چناؤ تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اور چیز جو کہ ہم عمومی طور پہ مِس کرتے ہیں اور میں اس میں سپیسیفکلی جمیعت علماء اسلام کا ذکر کروں گا۔ وہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو جب ذمہ داری دی گئی ہے کہ آپ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں تو اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ سوشل میڈیا پہ صرف ٹویٹس کرتے رہیں یا فیس بک پوسٹ کرتے رہیں قائد کی تصویر شیئر کرتے رہیں یہ مقصد نہیں ہے اس کا، آپ کی جماعت کی امیج بلڈنگ جہاں جہاں پہ ہو سکتی ہے وہ کنٹینٹ ڈھونڈنا بھی آپ کی ذمہ داری ہوگی، آپ یہاں پہ سات اٹھ سو لوگ بیٹھے ہیں جو آپ کی تنظیم ہے صوبائی شاید وہ 10 ، 12 لوگ ہوں 12 دماغ جو کام کر سکتے ہیں اٹھ سو دماغ اس سے کئی گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ اونرشپ لینی ہو گی ایک بندہ جو کوہستان میں بیٹھا ہے جو ترغر میں چترال میں بیٹھا ہے اگر کسی بھی ٹی وی چینل پہ آپ کی پارٹی کا کوئی بھی بندہ، آپ کی پارٹی سے متعلق ایک ایسی بات کرتا ہے کہ وہ مدلل ہے اس میں دلیل ہے اور ضرورت ہے اس بات کی، تو آپ ویٹ نہ کریں کہ مرکز میں بیٹھا ایک بندہ مجھے کلپ کاٹ کے دے گا اور میں اس کو اپلوڈ کروں گا۔ آپ اس کلپ کو کاٹیں اور آپ کہیں اپنے مرکز کے بندے کو بھی دیکھیں اہم بات ہوئی ہے ہمارا سابق ایم پی اے سابق ایم این اے تھا اس نے یہ بات کی ہے اس کو ہمیں وائرل کرنا چاہیے۔ آپ خود کو اس ٹیم کا حصہ بنائیں نہ کہ آپ اپنے آپ کو ایک پیسیفک سچویشن میں لے جائیں کہ جب وہاں سے ہدایت آئے گی تو میں کام کروں گا۔ آپ خود کیا کر رہے ہیں جب آپ یہ دیکھیں گے کہ کوئی بندہ کسی بھی ٹی وی چینل پہ بیٹھ کے جمیعت سے متعلق کیونکہ آپ جمعیت کے لوگ ہیں اگر وہ اچھی بات کرتا ہے چاہے وہ میرا انتہائی ناقد کیوں نہ ہو میرے خلاف کیوں نہ ہو لیکن وہ بات اس نے میرے حق میں کی ہے پھر تو انتہائی ضروری ہے کہ دیکھو یہ بندہ میرے خلاف ہے لیکن آج ہم نے اس کو مجبور کیا ہے کہ وہ ہمارے حق میں بات کر رہا ہے۔ وہ کلپ کاٹنا یہ ذمہ داری آپ کی ہونی چاہیے، آپ کو انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ میرے مرکز کا بندہ بیٹھے گا میری ٹیم بیٹھے گی یہ بھی سارے والنٹیرز بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس ایک حد ہوگی کوئی اور کام کر رہے تھے اور مصروف ہوں گے۔ آپ کی طرف سے ان کے پاس ڈیٹا آنا چاہیے اور ان کو لگے کہ ہاں ایک بندہ ہمارے پاس ہے وہ بونیر میں بیٹھا ہے بہت دور بیٹھا ہے لیکن وہ ایکٹو ہے، اس کو نظر آرہا ہے کہ اس وقت پارٹی کے اندر کیا چل رہا ہے اس چھوٹے چھوٹے کلپس اس کے کاٹنا اس کو ٹوٹر پہ ڈالنا اس کو ٹک ٹاک پہ ڈالنا اس کو یوٹیوب پہ، ریلز پہ ڈالنا یہ وہ جگہ ہے جہاں پہ آپ 25 سے 30 سیکنڈ کام کی بات کاٹ کے ڈالتے ہیں اور آپ کی اس بات کا اثر ہوتا ہے۔ آپ کی جماعت کے ساتھ آپ کا ایک لائیزان ہونا چاہیے اگر کوئی پالیسی سٹیٹمنٹ ہے تو اگر آپ اس کے حق میں نہیں بول سکتے تو کوئی ایسی حرکت نہ ہو کہ اس کے خلاف نہ ہو۔ چاہے آپ اس بات کا اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن اپنے الفاظ کا چناؤ کا آپ نے خیال کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو سوشل میڈیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے وہ یہ آتا ہے کہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم لوگوں کو دیکھ رہے ہیں ایسا نہیں ہوتا، لوگ ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جب آپ کے نام کے ساتھ جمیعت لگ جائے گا یا آپ نے وہاں پہ جھنڈا جمیعت کا لگا لیا ہے تو آپ کو تو یہ لگ رہا ہے کہ جی میں لوگوں کو دیکھ رہا ہوں لیکن اور لوگ اٹومیٹکلی آپ کو فالو کرنا شروع کر دیں جی کب یہ غلطی کرے اور میں اس کی جماعت کو ذمہ دار ٹھہرا ہوں اور لوگ ٹھہراتے ہیں۔ یہاں پہ 800 لوگ بیٹھے ہیں سب کے سب پرفیکٹ نہیں ہوں گے کسی ایک کی غلطی ہوگی اور سارے 800 کے 800 جو ہے وہ بدنام ہو جائیں گے کہ نہیں یہ سوشل میڈیا ٹیم کے بندے نہیں حرکت کر دی ہے۔ تو اس لیے ہمیشہ اپنے عام کان اور ناک کھلے رکھیں ٹوئٹر پہ فیس بک پہ ٹک ٹاک پہ سب کچھ دیکھیں لیکن اس کو لائک کرنے سے پہلے ہزار بار سونے سوچیں کیونکہ آپ غلطی سے اس کو لائک کر دیتے ہیں اور آپ کے لائک کی پروفائل پوری کی پوری کسی اور کو نظر آتی ہے۔ میں ایک چھوٹا سا واقعہ شیئر کروں گا ابھی وہ حضرت یہاں پہ نہیں ہے پشاور میں ایک بہت اہم پوزیشن پہ ایک آفیسر تھے میں نے ان کو میسجز کیے وہ مجھ سے رابطہ نہیں کرتے تھے فون نہیں اٹھاتے تھے میسج پہ ریپلائی بھی نہیں کرتے تھے پھر کچھ عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی کووڈ کا ٹائم تھا ڈپٹی کمشنر آفس میں تھے وہ تو بات چیت میں نے کہا سر میں نے کہا آپ کال کہتے ہیں میں فارغ تو نہیں کہ میں تمہاری کالز اٹھاؤں گا میرے پاس بڑا کام ہوتا ہے، سی ایس ایس افیسر تھے ظاہری بات ان کا اپنا ایک نخرہ ہوتا ہے میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے سر آپ بڑے مصروف ہیں لیکن آپ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ آپ میرے کال اٹھائیں میرے محسن پر اپلائی کریں اتنا وقت ہے کہ فلاں خاتون کی ہر ایک ٹویٹ آپ لائک کرتے ہیں۔ وہ کچھ دیر خاموش ہو گیا یہ سی ایس ایس آفیسر تھا کچھ دن کہتا ہے کیا مطلب آپ کا، میں نے کہا ایک منٹ سر اس کی میں نے آئی ڈی کھولی اس کی لائکس میں کیا ہے، میں نے کہا یہ دیکھیں، اس نے وہاں مجھے سوری کہا میرا نمبر سیو کیا بس آپ مجھے کال کریں میں نے کہا بہت شکریہ سر، میں نے کہا سی ایس ایس کر کے اس لیول پہ ایک بندہ آیا ہے اس کو یہ نہیں پتا کہ اس کے ٹویٹر کے لائکس جو ہیں وہ پوری دنیا کو نظر آرہے ہیں، میں کسی اور سے کیا گلہ کروں گا۔ تو آپ لوگ وہ ایک بندہ جو خود کو کچھ سمجھتا ہے اس کی گردن میں سریا ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ملک تو وہی چلا رہے ہیں ان کا یہ حال ہے تو اوروں کا کیا حال ہوگا۔ اچھا ایک اور چیز عمومی طور پر ہمیں یہ مسئلہ آتا ہے ایک اور چیز چھوٹی سی بات اس میں کروں گا پھر ختم کروں گا۔ جو دو منٹ پہلے میں نے بات کی تو جس طرح مولانا صاحب کے آتے ہوئے آپ لوگوں نے یہ جوش اور محبت دکھائی، کوئی بھی فیس بک اور ٹوٹر پہ کوئی بھی بات لکھنے سے پہلے بھی یہ سوچیں کہ آپ کے نام سے ان کا نام جوڑا ہوا ہے کوئی بھی ایسی بات نہ ہو کہ پھر وہ خرابی آئے ہمیشہ اخلاق کا خیال رکھنا ہے ٹوئٹر پہ پوسٹ کرنا ہے فیس بک پوسٹ کرنی ہے یا جو بھی کرنا ہے پوری جماعت کا خیال رکھنا ہے۔ آخری ایک منٹ لوں گا یہاں بات کنکلوڈ کروں گا۔ اچھا ایک چیز بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آج کا جو یہ ساری محفل سجی ہے ظاہری بات ہے مفتی محمود رحمہ اللہ کانفرنس آنے والی ہے، اس کے ساتھ ہی پھر آگے آپ عام انتخابات کی طرف جا رہے ہیں، آپ کے جو یہاں پہ صوبائی ترجمان ہے جلیل جان صاحب، تقریبا 30 ، 35 سال سے وہ یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ابھی تک جو میڈیا تھا وہ آپ کے ہاتھ میں نہیں تھا جلیل جان صاحب کو ریکویسٹ کرنی پڑتی تھی کہ یہ خبر لگا دیں، یہ ٹِکر چلا دیں، کہیں پہ ہمارے نمائندگی کر دیں، یہ خبر پیج ٹو پہ نہ لگے، بیک پہ لگے، فرنٹ پہ لگے، اب میڈیا آپ کے ہاتھ میں ہے، مین سٹریم میڈیا بھی آپ پہ ڈیپینڈ کرتا ہے، اگر کوہستان میں کچھ ہوتا ہے، میں مثال دوں گا تورغر کی جب وہاں پہ چیئرلفٹ کا واقعہ ہوا یہاں پہ آیاز صاحب موجود ہیں کوئی نہیں تھا وہاں پہ صرف جمیعت کے لوگ تھے اور وہ چیئر لفٹ کا مسئلہ اٹھانے والے جمعیت کے سوشل میڈیا ٹیم تھی، مین سٹریم میڈیا بھی آپ کا محتاج تھا، اس کے بعد جا کے وہاں پہ ڈیسینچز موو ہوئیں اور پھر لوگوں نے وہاں پہ رپورٹرز کو بھیجا، آخر وقت تک وہاں سے یہ ویڈیو شیئر کرتے رہیں تو یہ آپ نے یقینی بنانا ہے کہ آپ کے علاقے میں جو شخص بھی ٹکٹ ہولڈر ہوگا، الیکشن کمپین کرے گا اس کا کوئی بھی جلسہ نہ رہے اس کی ویڈیوز اس کی تصاویر آپ اپنے پیجز پر ڈالیں ٹویٹر اکاؤنٹس پہ ڈالیں اور اگر آپ یہ دیکھیں آپ چاہے کوہستان کے ہوں آپ کے اچھے فالوورز ہیں اور اگلا بندہ لکی مروت کا ہے تو آپ اس کی پوسٹ کو بھی ریٹویٹ کریں یہ نہ کریں کہ اس نے میرا کام نہیں ہے وہ الگ ضلع کا ہے میں الگ ضلع کا ہوں، یہاں پہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا انتہائی ضروری ہے، ہر ایک پارٹی کے اندر یہ چیز اختلاف، مقابلہ بہتر ہوتا ہے لیکن یہ مقابلہ ایسا ہو کہ وہ فائدہ دے دوسرے بندے کو، آپ کی پوسٹ آگے سے آگے بڑھے، جہاں پہ پہلے ریکویسٹ ہوتی تھی یہ پریس ریلیز چلانے کی آج اگر آپ اس بات کو اٹھائیں گے تو وہ خود میڈیا آپ سے اپروچ کرتا ہے کہ مجھ سے یہ ویڈیو شیئر کرو، میں اس کو چلاؤں گا، اس میں اور کیا بات ہوئی تھی، اور آخری بات میں اس پہ ختم کروں گا کہ وقت بہت قیمتی ہے، آپ کی کوئی بھی ویڈیو بہت ڈیٹیل نہ ہو ٹو دا پوائنٹ ہو پانچ سے سات منٹ میکسیمم 10 منٹ وہ کبھی کراس ہی نہیں کرنا اور دوسرا شام 7 سے لے کے رات 12 بجے تک یہ وہ وقت ہے پاکستان کے اندر کہ آپ کو ہائیسٹ ریچ ملتی ہے سب سے زیادہ لوگ اس وقت ایکٹو ہوتے ہیں یہ بالکل پیک ہاؤر ہوتے ہیں، تو اگر آپ نے کوئی اچھی بات شیئر کرنی ہے جس کو آپ اور ہائی لائٹ کرنا چاہتے ہیں وہ وقت کی قید سے آزاد ہو تو آپ اس کو اس وقت تک رکھیں اس ٹائم شیئر کریں۔ تھینک یو

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments