خیبرپختونخوا سوشل میڈیا کنونشن سے معروف صحافی کاشف الدین سید صاحب کا خطاب تحریری صورت میں 7 اکتوبر 2023


خیبرپختونخوا سوشل میڈیا کنونشن سے معروف صحافی کاشف الدین سید صاحب کا خطاب

7 اکتوبر 2023

الحمدللہ رب العالمین الصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی الہ واصحابہ اجمعین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي۔ صدق اللہ العظیم
قابل احترام علماء کرام اور جمعیت علماء اسلام اور جمیعت طلبہ اسلام اور سوشل میڈیا کے دوستوں! میرے انتہائی قابل احترام دوست اور سینیئر صحافی محمد فہیم صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرے اور میری کوشش یہی ہوگی کہ ان کو زیادہ وقت دیا جائے کیونکہ فہیم صاحب اس شعبے کے ایکسپرٹ بھی ہے اور استاد بھی ہے، اقراء یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں صحافیوں کو، خود سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک رہتے ہیں، بہرحال میں مختصراً عرض کروں گا۔ مشکور ہوں حاجی عبدالجلیل جان صاحب کا اور دیگر ساتھیوں کا کہ انہوں نے موقع دیا یہاں گفتگو کا۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہمارے جو جمعیت کے ساتھی ہیں ہم اکثر انہی سے سیکھتے ہیں، کیونکہ جب بھی ہم نے دیکھا اور جب بھی کوئی ٹرینڈ چلاتے ہیں کوئی ایشو اٹھاتے ہیں تو میرے خیال میں اس وقت پاکستان میں جو سب سے زیادہ متحرک لوگ ہیں یا جماعت ہیں تو ان کا اگر مقابلہ کرتے ہیں تو یہیں سے ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے، تو میرے خیال میں ساتھی جو ہے جمعیت کے سوشل میڈیا کے وہ خاصے متحرک ہیں، البتہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر بات ضروری ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی کے قائدین نے اس بات کا احساس کیا ہے، اس سے پہلے بھی کئی نشستیں ہوئی ہیں ان میں بھی ہمارے پشاور کے صحافیوں کو دعوت دی گئی، سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ آئے اور بات کی اور آج بھی اس محفل کا اور اس نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بہرحال میں یہ عرض کروں گا کہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا اس جدید دور کا ایک ایسا ٹول ہے، ایک ایسا آلہ ہے، ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے دیگر پلیٹ فارمز اور دیگر شعبوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور میں آپ کو ایک اور بات بھی بتا دوں کہ اس وقت جو دوسرے شعبے ہیں زندگی کے بالخصوص کاروبار کے شعبے میں بھی اسی پلیٹ فارم سے کام لیا جا رہا ہے، وہاں سیاست میں پوری دنیا میں اسی سے کام لیا جا رہا ہے اور میں نے پہلے بھی ایک موقع پر عرض کیا تھا کہ جو عرب سپرنگ کا واقعہ ہوا تھا یا جو سرگرمی ہوئی تھی اس کی بنیاد بھی سوشل میڈیا پہ ہوئی، وہ بھی سوشل میڈیا سے اٹھا اور انہوں نے وہاں پر ایک لہر پیدا کیے اور ایک ایسی سرگرمی پیدا کی جس نے پوری عرب دنیا بلکہ پوری دنیا کو لہرا کر رہ گیا، اس وقت ہماری سیاست پر اگر غلبہ ہے تو وہ سوشل میڈیا کی ہے اور سوشل میڈیا کے حوالے سے میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے دینی طبقے کو یا مذہبی طبقے کو بھی اس کا احساس ہے اور وہ کر رہے ہیں۔ سیاست سے ہٹ کر بھی ہمارے علماء کرام اس ٹول کو، اس آلے کو، اس ذریعے کو اس میڈیم کو استعمال کر رہے ہیں، بہت سارے علمائے کرام اس پر لوگوں کی رہنمائی کر رہے ہیں، اور یہ بات انتہائی میں سمجھتا ہوں کہ اہم بھی ہے اور خوش آئند بھی ہے کہ ہمارے علماء کرام کو اس چیز کا احساس ہے اور یوٹیوب اور یہ کیمرہ اور یہ تصویر اور یہ ویڈیو جو ہے یہ اب حرام نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اس دور کا ایک ذریعہ ہے اور ماضی میں اگر ہم اپنی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو وقتاً فوقتاً اس قسم کے ذرائع، اس قسم کے میڈیم استعمال ہوتے رہے، ہم اگر اسلام کے ابتدائی دور پر نظر دوڑائے اور دیکھ لیں تو اس وقت بھی ایک میڈیم تھا اسی حوالے سے اور وہ میڈیم کیا تھا وہ شاعروں کا تھا، شعر و شاعری کا تھا اور اس وقت لوگوں کے جذبات کو ابھارنا، یا لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانا خوبصورت انداز میں یا مخالفین کا جواب دینا یا مخالفین پر اسی انداز میں حملہ اور ہونا اور آسان الفاظ میں میں بتا دوں کہ اپنا پروپیگنڈا پہنچانا اس کے لیے شعر و شاعری کا سہارا لیا جاتا رہا اور یہ اس وقت کی میڈیا تھی۔ پھر اس کے بعد وقتاً فوقتاً جب لکھائی اور تحریر اور تقریر کی بات آئی تو مبلغین ہمارے ہاں رہے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ سیاسی جماعتوں کی بھی، دینی جماعتوں کی بھی، مذہبی اداروں کے باقاعدہ مبلغین ہوا کرتے ہیں اور اب بھی آپ دیکھ لیں ختم نبوت کے مبلغین ہوتے ہیں اور ان کی باقاعدہ ڈیوٹیاں لگتی ہیں اور وہ جاتے ہیں علاقوں میں اور وہ تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ جو ہماری تبلیغی جماعت ہے یہ بھی اسی قسم کی ایک ابلاغ کا ذریعہ ہے کہ وہ جماعتیں تشکیل دیتے ہیں وہ مساجد میں جاتے ہیں وہ لوگوں کے گھروں پہ جا کر ان کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں کہ بھئی باہر نکلو، یہ بھی ایک ابلاغ کا ذریعہ ہے اور آج کے دور کا جو جدید ذریعہ ہے وہ سوشل میڈیا ہے اور ایک وقت تھا کہ ہمارے سیاسی کارکن یہ ہمارے محترم حاجی عبدالجلیل جان صاحب ہمارے بزرگ بھی ہیں اور ہمارے استاد بھی ہیں یہ پریس ریلیز لکھ کر لاتے تھے ہمارے افسز میں ہمارے جو سینئر صحافی ہوتے تھے ان کے ساتھ حاجی صاحب کا ایک تعلق ہوتا تھا اور یہ آج کے نہ صرف اپنا پریس ریلیز ان تک پہنچاتے تھے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر آمادہ بھی کرتے تھے کہ اس پریس ریلیز کو آپ نے کہاں پہ لگانا ہے، نمایاں لگانا ہے یہ ایک ذریعہ تھا اور اس وقت کے بعد پھر ایک وقت آیا کہ ٹیلی فیکٹس کے ذریعے، فیکٹس مشین کے ذریعے، پھر ای میل کے ذریعے اور اب وقت آگیا ہے کہ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے یا سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا جاتا ہے اور اب ایک اور نقطہ جو سوشل میڈیا نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ نہ کوئی پریس ریلیز کا محتاج ہے اور نہ کوئی میڈیا ارگنائزیشن کا محتاج رہ گیا ہے۔ میڈیا ارگنائزیشن کا چاہے وہ ٹی وی ہے، چاہے وہ اخبار ہے، وہ دور ختم ہوتا جا رہا ہے وجہ یہ ہے کہ اخبار میں خبر چھاپنے کے لیے آپ کو انتظار کرنا پڑتا تھا کہ آج میں نے پریس ریلیز بھیجا ہوا ہے، یا ہمارے مشر نے ہمارے قائد نے ہمارے پارٹی کے سربراہ نے تقریر کی ہے جلسہ کی ہے کل صبح ہم دیکھیں گے صبح کا انتظار کیا جاتا تھا کہ اخبار ائے گا اور اس میں ہم دیکھیں گے کہ ہماری کوریج کیا ہے، پھر اس کے بعد ایک وقت آیا کہ ٹی وی چینلز پہ، ٹی وی چینل کے خبروں کا انتظار کیا جاتا تھا کہ جی کہاں پہ ہماری تھی لیکن اب ہر شخص کی جیب میں یہ جو آلہ پڑا ہوا ہے موبائل فون کے ذریعے اینڈرائڈ ٹیلی فون کے ذریعے ہر لمحے آپ خود کو اپڈیٹ کر سکتے ہیں اور لوگوں کو آگاہ بھی کر سکتے ہیں اور خود بھی آگہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی سے آپ اندازہ لگائیں کہ ہم کبھی کبھی دیکھتے ہیں تو جو کسی پبلک ٹرانسپورٹ کا ڈرائیور ہے اس کے ہاتھ میں بھی موبائل ہے، آپ کسی ریڑی بان کے پاس جائیں جو فروٹ فروخت کر رہا ہے اس کے پاس بھی یہی موبائل ہے اور ایک وقت تک حجروں میں لوگ بیٹھ کر اخبار اور میڈیا یا ٹی وی کو ڈسکس کرتے تھے اب وہ فیس بک اور ٹویٹر کو ٹویٹر بلکہ فیس بک کو اور یوٹیوب کو ڈسکس کرتے ہیں کہ جی آج تو فلانا نے یہ کہا ہے اور آج یوٹیوب پر یہ آیا ہے اور اس سے بڑھ کر جو آج کل زیادہ متحرک ہے زیادہ موثر ہے وہ ہے ٹک ٹاک اور ٹک ٹاک کو ہمارے لوگ سنجیدہ نہیں رہ رہے لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ اس وقت ہمارے اس پورے ریجن میں یعنی پورے ممالک کی ریجن میں جو میں بات کر رہا ہوں پاکستان ٹاپ پر ہے ٹک ٹاک میں، اور ٹک ٹاک پر ضروری نہیں ہے کہ اس پر گانے بجانے یا اس پر کسی ڈرامے جیسے یا ایکٹنگ کے کلپس ہوں اس پر سنجیدہ بات بھی مختصر ہو سکتی ہے اور وہ بہت زیادہ موثر ہے۔ تو میں یہی عرض کروں گا کہ اگر آپ نے اپنا پروگرام پہنچانا ہے اپنا پیغام پہنچانا ہے تو آپ اسی سوشل میڈیا پر توجہ دیں اور اس کو ذرا ارگنائز کریں اور اس میں جو یہاں پر یہاں مشران بیٹھے ہوئے ہیں عبدالجلیل جان صاحب بھی ہیں، آصف بھائی بھی ہیں اور مفتی فضل غفور صاحب بھی ہیں میں ان سے ایک اور بات عرض کروں گا ویب سائٹ اس دور کی بہت بڑی ضرورت ہے، ویب سائٹ اگر نہیں ہے تو میرے خیال میں یہ بہت بڑی کمی ہوگی، یہ ہونا چاہیے ویب سائٹ پر بھی توجہ دینی چاہیے لیکن جو سوشل میڈیا ہے سوشل میڈیا کے جو مختلف ٹولز ہیں ٹک ٹاک کا میں نے عرض کیا ٹوٹر میں نے بتا دیا فیس بک کے حوالے سے میں نے بات کی یوٹیوب کے حوالے سے میں نے بات کی اور بھی بہت سارے ہیں لیکن جو زیادہ موثر ہیں آج کے دور میں وہ یہی تین چار ہے اور اس پر متحرک ہونا بھی ہے اور اس سے کام بھی لینا ہے۔ تو میرے خیال میں میری اتنی ہی گفتگو کافی ہے فہیم صاحب بات کریں گے تفصیل سے بات کریں گے ٹیکنیکلی بات کریں گے اور میں منتظمین سے صرف ایک یہ بھی عرض کروں گا کہ اگر کوئی مائک دوسرا ہے اور وہاں سے سوال اٹھایا جا سکے تو یہ اچھا رہے گا اگر مائیک کے ذریعے سوال ہوگا تو ایک تو ارگنائز بھی ہوگا زیادہ لوگ بولیں گے نہیں اگر اس کا انتظام ہو سکتا ہے تو یہ بہت اچھا رہے گا
وما علینا الاالبلاغ 
ضبط تحریر: #محمدریاض  
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments