خیبرپختونخوا کے سوشل میڈیا کنونشن سے معروف سینئیر صحافی حامد میر صاحب کا خطاب تحریری صورت میں 7 اکتوبر 2023


خیبرپختونخوا کے سوشل میڈیا کنونشن سے معروف سینئیر صحافی حامد میر صاحب کا خطاب
7 اکتوبر 2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم صاحب 
جناب عطاء الحق درویش صاحب، جلیل جان صاحب اور یہاں پہ بہت سے معزز علماء کرام، سیاسی کارکن موجود ہے، تو یہاں پہ جو عطاء الحق درویش صاحب نے جو بہت ہی مختصر بات کی اور اس کے بعد اپنا وقت بھی مجھے دے دیا تو میں سوچ رہا تھا کہ انہوں نے بڑے شوق سے، بڑے اہتمام سے، بڑے چاؤ سے مجھے یہ کہا پہلے مولانا عطاء الرحمن صاحب نے، پھر مولانا فضل الرحمان صاحب نے کہ آپ نے ہمارے سوشل میڈیا کنونشن میں ضرور آنا ہے تو شاید آپ کو یاد ہو کہ دو تین سال پہلے بھی آپ نے ایک کنونشن کیا تھا، ابھی ہمارے بھائی مجھے اس کا ذکر کر رہے تھے، تو اس وقت میرے سامنے جو اجتماع تھا وہ شاید اس سے آدھا تھا اور اب جو میرے سامنے اجتماع ہے وہ دوگنا ہو چکا ہے، تو اس پہ مولانا عطاء الحق درویش صاحب، مولانا عطاء الرحمن صاحب، جلیل جان صاحب آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے بارے میں میری ذرا رائے تھوڑی سی مختلف ہے کیونکہ ہمارے کچھ معزز دوست جو ہیں، ساتھی وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی آج کل، آج کے دور میں جو دور جدید کی جو نفسیاتی جنگ ہے، اس کا ایک بڑا اہم ہتھیار ہے، تو ہر چیز کے مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں منفی پہلو بھی ہوتے ہیں، اسی طرح یہ سوشل میڈیا بھی ہے۔ میری ناچیز رائے میں اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں کیونکہ یہ نفسیاتی جنگ کا ہتھیار جو ہے یہ بہت سے سوشل میڈیا یوزرز کو خود نفسیاتی مریض بھی بنا دیتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ اچھا بھلا جو ایک معزز آدمی شکل سے بڑا معزز نظر آتا ہے تو وہ کسی محفل میں بیٹھا ہوگا تو وہ اچانک بیٹھے بیٹھے مسکرانا شروع کر دے گا اور پھر اچانک مسکراتے مسکراتے رونا شروع کر دے گا، آپ سوچتے ہیں یہ اس بندے کو کیا ہوا ہے پھر وہ کبھی ہاتھ ہلائے گا پھر چپ ہو جائے گا پھر بولنا شروع کر دے گا حالانکہ وہ آپ کے ساتھ مخاطب نہیں ہوتا، پھر آپ اس پہ غور کرتے ہیں جب بہت غور کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے اس نے کان میں وہ لِسنر لگایا ہوا ہے اور اس کا موبائل فون کنیکٹڈ ہے اس لسنر کے ساتھ، اور وہ جناب تو کسی سے بات کر رہا ہوتا ہے اور اس کو اپنے جو آس پاس کے جو حالات ہیں اس کی فکر بھی نہیں رہتی، اس کو یہ بھی نہیں لگتا کہ میرے ارد گرد جو لوگ بیٹھے ہیں میرے بارے میں کیا سوچیں گے، پاگل آدمی ہے کبھی روتا ہے کبھی ہنستا ہے، تو یہ میں نے ایک مثال آپ کو اس لیے دیا ہے کہ پھر اور بھی میں اسے اپنے ساتھیوں کو جانتا ہوں دوستوں کو کہ وہ ہمارے سے تو ایک موبائل فون یا ایک آئی فون بڑی مشکل سے سنبھالا جاتا ہے، وہ دو دو تین تین لے کے پھر رہے ہوتے ہیں تو اگر دو دو تین تین لے کے پھر رہے ہیں اس کا مطلب ہے تین تین نمبر ہیں ان کے پاس، سوشل میڈیا پہ تین ٹویٹر اکاؤنٹ ہوں گے تین فیس بک اکاؤنٹ ہوں گے، ایک اصلی ہوگا باقی جعلی ہوں گے اور اس کے علاوہ جو ان کا جو حلقہ احباب ہے اس میں بھی ایسے احباب کی تعداد زیادہ ہوگی جن کو وہ اپنے گھر والوں سے چھپاتے ہیں سمجھ گئے نا آپ؟ تو اس طرح کے جو نفسیاتی مسائل ہیں وہ بڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور میں ذاتی طور پہ کچھ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، وہ ایک مچھر تھا نا مچھر اور نمرود کی ناک میں گھس گیا تو اس نے اس کو پاگل کر دیا تو یہ چھوٹا سا موبائل فون ہوتا ہے چھوٹا سا آئی فون ہوتا ہے یہ اچھے بھلے کھاتے پیتے سمجھدار انسان کو یہ پاگل کر دیتا ہے نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے، اس لیے اگر آپ اس سوشل میڈیا کے دور میں اپنے جیب میں موجود اس چھوٹے سے آلے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو بڑی احتیاط کی ضرورت ہے ہتھیار کو دشمن کے خلاف استعمال کرنا ہے اپنے آپ کے خلاف استعمال نہیں کرنا کیونکہ وہ ایک مثال ہے نا کہ بندر کے ہاتھ میں اُسترا آجائے تو کبھی کبھی وہ اپنی گردن پہ چلا دیتا ہے، تو یہ جو آئی فون ہے یا موبائل فون ہے اس کو دشمن کے خلاف استعمال کرنا ہے اپنے خلاف استعمال نہیں کرنا، یہ میں نے بات ابتدا میں اس لیے کر دی کہ یہ نہ ہو کہ اس سوشل میڈیا کنونشن سے آپ گھر کو واپس جائیں اور دن میں اگر آپ کو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے یہ چیز استعمال کرنی چاہیے، تو آپ 6 گھنٹے اٹھ گھنٹے 10 گھنٹے 12 گھنٹے اس کو استعمال کریں آنکھیں بھی خراب کریں، دماغ بھی خراب کریں، نماز، روزہ بھی بھول جائیں، تو اس کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ اس کو جتنا زیادہ استعمال کریں گے تو یوٹیوب کو بہت فائدہ ہوگا، وہ پیسے کمائے گا، فیس بک کو بھی بہت فائدہ ہوگا وہ بھی بڑے پیسے کمائے گا، ٹویٹر والے بھی بڑے پیسے کمائیں گے، لیکن آپ کو یہ سوچنا ہے کہ آپ نے کیا کمایا تو اگر آپ نے کچھ پیسے کما لیے اور اپنے دوستوں کو اور گھر والوں کو ناراض کر دیا تو اس میں آپ کا فائدہ نہیں آپ کا نقصان ہے، اس لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے کچھ ایتھکس ہیں، کچھ اس کے اخلاقی تقاضے ہیں اور ان اخلاقی تقاضوں کے اندر رہنے کی ضرورت ہے۔ 
تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مولانا عطاء الحق درویش صاحب جو ہیں ان کی گفتگو سن کے مجھے ایک کتاب یاد آگئی، کچھ سال پہلے ایک کتاب شائع ہوئی تھی پتہ نہیں جو یہاں پہ ہمارے علماء کرام بیٹھے ہیں ان کو تو یقینا اس کتاب کا پتہ ہے لیکن جو سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں شاید ان کو اس کا پتہ نہ ہو، وہ کتاب کا نام تھا ضرب درویش، وہ ایک نوجوان کو یاد ا گئی ہے چلو ایک تو ہے نوجوان جس نے پڑھی ہوئی ہے چار پانچ اور بھی ہیں، تو وہ جو کتاب ہے ضرب درویش، وہ دراصل آپ کے بزرگ اور آپ کے ہیرو، ان سب کی جو سیاسی جدوجہد ہے اس کے بارے میں ہے، تو یہ میں نے ذکر اس لیے کیا ضرب درویش کا کہ درویش خواہ آج کے دور کا درویش ہو یا سو سال پہلے کا درویش ہو یا ایک ہزار سال پہلے کا درویش ہو، درویش کی خصوصیات وہی رہتی ہیں جو اس میں ہونی چاہیے، وہ اللہ تعالی کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور دنیاوی فائدے جو ہیں وہ اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتے، وہ جو بھی کام کرتا ہے وہ صرف اللہ تعالی کو خوش کرنے کے لیے کرتا ہے، تو یہ جو سوشل میڈیا کنونشن ہے اس میں جو میرے سامنے بہت سے خوبصورت، باصلاحیت، بہادر نوجوان بیٹھے ہیں میں یہ توقع کرتا ہوں کہ یہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے یہ وہ کام نہ کریں جو کہ ان کے جو درویش صفت بزرگ تھے ان کی ان کے نظریات کی نفی کریں، تو آپ کا جو کلک ہے، کلک سمجھتے ہیں نا آپ سارے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں تو آپ نے فیس بک پہ یا ٹویٹر پہ یا یوٹیوب پہ یا انسٹاگرام پہ کوئی بھی کلک مارنا ہے تو آپ کے کلپ میں ضرب درویش کی جھلک نظر آنی چاہیے، کوئی شیطانی کام نہیں کرنا چاہیے آپ کو، اب وہ ضرب درویش کیا ہے، ضرب درویش جو ہوتی ہے وہ بہت زور دار نہیں ہوتی وہ ہلکی سی ضرب ہوتی ہے لیکن اس کا اثر جو ہوتا ہے وہ کئی گھنٹوں نہیں، کئی دنوں نہیں، کئی مہینوں نہیں، کئی سالوں تک دشمن برداشت کرتا ہے اور یہ میں بار بار یہ اس لیے بات کر رہا ہوں مولانا عطاء الرحمن صاحب کہ یہ بہت زیادہ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر ہم نے سوشل میڈیا کو کنٹرول میں لے لیا اگر ہم سوشل میڈیا پہ حاوی ہو گئے تو شاید ہم سیاست کا میدان بھی جیت جائیں گے، او بھائی بات ٹھیک ہے سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ پہ ہے، لیکن ابھی پرانی بات نہیں ہوئی، کچھ لوگ جو ہیں پاکستان میں وہ اپنے آپ کو سمجھتے تھے کہ وہ سوشل میڈیا کے کنگ ہیں اور ان کے لوگوں کے، لیڈروں کے فالوورز کی تعداد جو ہے وہ لاکھوں میں تھی اور سوشل میڈیا پہ جس کو غدار بنانا ہے، پانچ دس منٹ میں وہ غدار ہو جاتا تھا، بڑے بڑے ٹرینڈ چلاتے تھے گالی گلوچ کرتے تھے سب کچھ کرتے تھے، اور انہوں نے سوشل میڈیا پہ جو ان کا غلبہ تھا اس کو اچھائی کے لیے استعمال نہیں کیا برائی کے لیے استعمال کیا تو اس کا نتیجہ جو ہے وہ آپ کے سامنے ہے، میں کیا بات کروں سیاست میں الجھنا نہیں چاہتا آپ سارے سمجھدار لوگ ہیں تو ان کے انجام سے عبرت پکڑے، سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہیں کرنا آپ نے، وہ کام نہیں کرنا جو انہوں نے کیا، یہ نہ ہو کہ آپ نے سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ لگائی اور اس کے بعد گھر میں پولیس آئی اور آپ مُکر گئے اور شام کو آپ کا بیان چل رہا ہے اللہ کی قسم خدا کی قسم آئندہ سے ایسی بات نہیں کروں گا۔ تو اگر کوئی بات آپ صحیح کر رہے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ بات جو ہے یہ حق گوئی ہے اور اس کو کہنا بڑا ضروری ہے اور دوسرے لوگ یہ بات نہیں کر سکتے تو وہ سچ آپ ضرور بولیں حق گوئی ضرور کریں پھر شام کو گھر میں پولیس چھوڑے کوئی اور بھی آجائے، تو وہ آپ سے آپ کے بیان کی نفی نہیں کروا سکیں گے، رات کو آپ شام کو رونی صورت بنا کے آپ اپنے بیان کی تردید نہیں کریں گے کھڑے رہیں گے آپ ایسے بہت سے لوگ آپ کی صفوں میں موجود ہیں کیونکہ آپ کا بھی تو مشکل وقت تھا نا کچھ عرصہ پہلے تک، تو اس لیے بات سوشل میڈیا پہ وہ کریں جو کہ آپ اخبار میں بھی لکھ سکتے ہیں، اور آپ ٹی وی کے پروگرام میں بھی بول سکتے ہیں۔ یہ بڑا آسان ہے کہ آپ نے ایک جعلی ٹویٹر اکاؤنٹ بنایا یا ایک جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور وہاں پہ جھوٹ بولنا، لکھنا شروع کر دیا، جھوٹی پوسٹیں لگانی شروع کر دیں اور دو نمبر قسم کی زبان استعمال کر کے آپ اور وہاں پہ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہمارے وہ مہربان جو ہیں جب یہ کام کیا کرتے تھے تو ان کو ہم کہتے تھے کہ یار یہ جو تم زبان استعمال کرتے ہو کیا یہ زبان تم اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے سامنے استعمال کر سکتے ہو، تو اگر تم یہ زبان وہاں استعمال نہیں کر سکتے اور یہ تم ایک پبلک فورم پہ زبان استعمال کر رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تربیت میں کوئی خرابی ہے، تو جو آپ نے سوشل میڈیا پہ جو آپ نے گفتگو کرنی ہے جو پیغام آپ نے وہاں پہ دنیا تک پہنچانا ہے اس پیغام سے آپ کی جو تربیت ہے اس تربیت کا بھی پتہ چلتا ہے تو آپ کی اور دوسروں کی جو تربیت ہے اس کا فرق نظر آنا چاہیے۔ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت کا کاروبار کرنا، جھوٹ کا کاروبار کرنا، الزام تراشی، بہتان تراشی، یہ تو دنیا کا آسان ترین کام ہے اور یہ ہو رہا ہے، لیکن فرق اس وقت نظر آئے گا آپ میں اور دوسروں میں جب آپ نفرت اور گالی کا جواب جو ہے وہ نفرت اور گالی کی بجائے بہتان تراشی کی بجائے لاجک کے ساتھ دلیل کے ساتھ آپ اس کا جواب دیں اور ایسی زبان میں آپ اس کا جواب دیں کہ جو تیسرا آدمی جب اس کا تقابلی جائزہ لے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو یہ جو ادمی ہے اس نے گالی دی وہ جو دوسرا آدمی ہے اس نے گالی نہیں دی اس نے دلیل سے جواب دیا ہے، تو وہاں پہ جو آپ کی ضرب درویش ہے وہ کام کر جائے گی اور جو تیسرا آدمی ہے جو ابھی تک نیوٹرل ہے وہ گالی گلوچ کرنے والے کے ساتھ نہیں جائے گا وہ دلیل کے ساتھ بات کرنے والے کے ساتھ جائے گا، یہ ہے ذرا کام مشکل لیکن یہ مشکل کام آپ لوگ زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کی جو تربیت ہے اس میں دلیل اور حق گوئی یہ تو آپ کو سکھایا جاتا ہے نا کہ آپ نے سچ بولنا ہے حق گوئی کا مظاہرہ کرنا ہے تو اس لیے وہ جن کی تربیت نہیں ہوئی صحیح، جن کو سکھایا یہ گیا کہ آپ نے گالی دینی ہے تو ان کو بہت عرصہ لگے گا ابھی، ابھی تو انہوں نے سیاست شروع ہی نہیں کی ابھی تو طفل مکتب ہیں، تو یہ آپ کا ایک پلس پوائنٹ ہے، کہ آپ کے پاس ضرب درویش ہے ان کے پاس ضرب شیطان ہے، تو اس لیے یہ جو ایک پلس پوائنٹ ہے اس کو آپ کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہیے، اب آپ شاید یہ سن کے حیران ہوں اور آپ کو یقین نہ آئے لیکن میں اپ کو بالکل سچی بات بتا رہا ہوں کہ میرا فیس بک پہ کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے، میں فیس بک پہ کوئی اکاؤنٹ اپریٹ نہیں کرتا لیکن جب آپ فیس بک پہ جائیں گے تو آپ کو میرے نام سے کوئی 25 ، 30 اکاؤنٹ مل جائیں گے وہ سارے کے سارے جعلی ہیں، تو ہمارے ایک دوست ہیں جو یہ سوشل میڈیا ایکسپرٹ کہلواتے ہیں اپنے آپ کو اور انہوں نے اس پہ پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور پی ایچ ڈی بھی انہوں نے ایک باہر کے یونیورسٹی سے کی ہے، تو انہوں نے مجھے ایک دن کہا کہ یار آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے نام پہ بہت سے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنے ہوئے ہیں میں نے کہا ہاں بنے ہوئے ہیں تو اس نے کہا کہ کبھی آپ نے اس پہ فیس بک کو کمپلینٹ نہیں کی میں نے کہا کی ہے کئی دفعہ کی ہے تو اس نے کہا اچھا تو انہوں نے کوئی کاروائی نہیں کی میں نے کہا جی انہوں نے کوئی کاروائی نہیں کی میں نے کہا اب تم بتاؤ انہوں نے کیوں کاروائی نہیں کی، انہوں نے کہا اس لیے کاروائی نہیں کی کہ اگر وہ سارے اکاؤنٹ بند کر دیں تو ہر اکاؤنٹ پہ ہزاروں لوگ جو ہیں وہ ایکٹو ہیں اور پوسٹ لگا رہا ہے کوئی ویڈیو لگا رہا ہے تو وہ جو ایک اکاؤنٹ جب ایکٹو ہوتا ہے تو اس کی ایکٹیوٹی سے فیس بک پیسے کماتی ہے، تو وہ اگر اکاؤنٹ سارے بند کر دیں گے تو ان کو تو بڑا نقصان ہو جائے گا، تو میں نے کہا اس کا مطلب ہے یہ جھوٹ کا کاروبار ہے، انہوں نے کہا ہاں بات تو ایسی ہی ہے، تو اب یہ ایک جھوٹ کا سمندر ہے سوشل میڈیا، سمندر ہے جھوٹ کا سمندر ہے، اس میں جھوٹ کے سمندر میں آپ نے ایک کشتی ڈالنی ہے اپنی اور دلیل اور حق گوئی کے چپو سے آپ نے وہ کشتی چلانی ہے، کام بڑا مشکل ہے کیونکہ سمندر ہے جھوٹ کا لیکن اس میں اگر اپ کی کشتی کے جو بادبان ہیں وہ اگر مضبوط ہوں گے تو کشتی کے بادبان کیا ہے، آپ کی اخلاقی اقدار، تو اگر آپ کی اخلاقی اقدار کے بادبان مضبوط ہیں اور چپو جو ہے چلانے والا جو ہے وہ ثابت قدمی کے ساتھ کشتی چلاتی رہے تو یہ جو جھوٹ کا سمندر ہے نا اس میں آپ سچائی کا ایک علم بلند کر سکتے ہیں، اور یہاں پہ تو سینکڑوں لوگ ہیں تو سینکڑوں لوگ اگر یہ کام شروع کر دیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جھوٹ کے اندھیرے میں سچائی کی شمع روشن کی ہے، اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تو ہے لیکن یہ جو آپ نے ذمہ داری اٹھائی ہے اس کا مقصد صرف ایک سیاسی جماعت کو ڈیفینڈ کرنا یا ایک سیاسی جماعت کا ترجمان بننا یا ایک سیاسی جماعت کا دفاع کرنا نہیں ہے، آپ کریں ضرور کریں، اپنی سیاسی جماعت کا پیغام بھی آپ عام کریں لیکن آپ کے سیاسی جماعت کا پیغام ہے کیا، وہ پیغام جو ہے اس کا تعلق تو آپ کے دین کے ساتھ ہے تو دراصل آپ اپنی سیاسی جماعت کا پیغام نہیں پھیلا رہے آپ اپنے دین کو بھی پھیلا رہے ہیں تو اس چیز کا آپ کو خیال رکھنا چاہیے اور سوشل میڈیا پہ جو آج کل اسلام کے دشمن آپ کے دین کے دشمن جس طریقے سے اس کو استعمال کر رہے ہیں، آپ کے دین کے خلاف، آپ کی تہذیب کے خلاف، آپ کی ثقافت کے خلاف تو اس کا مقابلہ کرنا بھی آپ کا فرض ہے، صرف جے یو آئی کے سیاسی مخالفین کے دانت توڑنا آپ کا کام نہیں ہے، آپ ان کے دانت توڑنے کی بجائے ان کو مسواک یا برش فراہم کریں اور بتائیں کہ اس پہ یہ والی ٹوتھ پیسٹ لگاؤ گے تو تمہارے دانت ٹھیک ہو جائیں گے منہ سے بو بھی نہیں آئے گی۔ اور جب یہ کام آپ کر دیں تو اس کے بعد جو آپ کے دین کے دشمن ہیں ان کو بھی جواب دیں۔ اب میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں یہ واشنگٹن پوسٹ ایک امریکہ کا بہت بڑا اخبار ہے، ابھی کچھ دن پہلے حال ہی میں کچھ دن پہلے انہوں نے ایک بہت بڑی انویسٹیگیٹیو رپورٹ چھاپی ہے واشنگٹن پوسٹ نے چھاپی ہے کسی پاکستانی کے اخبار نے نہیں چھاپی اور اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ جو ہندوستان میں نریندر مودی کی حکومت ہے وہ فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کس طرح جھوٹ پھیلا رہی ہے، اور اس میں انہوں نے جو تفصیلات دی ہیں میں تو گنہگار آدمی ہوں، میں تو وہ تفصیلات پڑھ کے لرز گیا کہ اتنا جھوٹ قرآن پاک کی اتنی توہین اور پکڑا کس نے ہے خود فیس بک نے پکڑا ہے، اب فیس بک نے وہ پکڑ کے تو رپورٹ لکھ کے اپنے ہیڈ کوارٹر کو دے دی اور ہیڈ کوارٹر نے کچھ نہیں کیا، تو پھر ان کو واشنگٹن پوسٹ نے پکڑ لیا، اب واشنگٹن پوسٹ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ فیس بک نے انویسٹیگیشن کی کہ انڈیا کی جو حکومت ہے وہ قرآن کے بارے میں یہ یہ خرافات پھیلا رہی ہے یہ یہ جھوٹ پھیلا رہی ہے مسلمانوں کے بارے میں یہ یہ خرافات اور جھوٹ پھیلا رہی ہے اور جو فیس بک کے اپنے جو ایس او پیز ہیں ان کے مطابق اس کو کاروائی کرنی چاہیے تھی لیکن اس نے کاروائی نہیں کی، اور اس کے بعد انہوں نے یہ کہا ہے کہ جب فیس بک کی انتظامیہ نے اپنے لوگ انڈین حکومت کے پاس بھیجے ثبوت کے ساتھ کہ بھئی آپ قرآن پاک کے بارے میں یہ جھوٹ بول رہے ہیں آپ مسلمانوں کے بارے میں یہ جھوٹ بول رہے ہیں تو یہ جو آپ نفرت پھیلا رہے ہیں آپ خون ریزی کر رہے ہیں یہ تو ٹھیک کام نہیں ہے، تو آپ کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے تو وہ جو لوگ تھے جو فیس بک کے دفتر میں انڈیا کے دفتر میں کام کرتے ہیں وہ انڈین تھے، تو انڈین گورنمنٹ نے ان کو پتہ ہے کیا کہا انہوں نے کہا آج تو تم لوگ آگئے ہو اور تم نے یہ شکایت کر دی ہے آئیندہ سے ادھر نہ آنا ورنہ ہم تم پہ غداری کا مقدمہ بنا دیں گے۔ اب آپ سویڈن میں کوئی قرآن پاک کی توہین ہو جائے تو پوری دنیا میں مسلمان جو ہیں وہ ڈسٹرب ہو جاتے ہیں، پریشان ہو جاتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں کسی اور ملک میں ایسا کام ہو جائے تو، لیکن یہاں پر تو خود فیس بک یہ کہہ رہا ہے کہ جناب سوشل میڈیا پہ جو جعلی اکاؤنٹس ایکٹو ہیں جن کا تعلق بی جے پی سے اور ار ایس ایس کے ساتھ ہے تو وہ اسلام کی اور مسلمانوں کی توہین کر رہے ہیں بلکہ ایک واشنگٹن پوسٹ نے بڑی ایک تشویش ناک بات لکھی ہے، اس نے لکھا ہے کہ ایک یوٹیوب پہ جو اکاؤنٹ ہولڈر تھا وہ مسلمانوں پہ جو حملے ہوتے ہیں ہندوستان میں، وہ ان حملوں کو لائیو دکھا رہا تھا لائیو سٹریمنگ کر رہا تھا جو کہ عالمی قوانین کے بھی خلاف ہے، تو اب مسلمانوں پہ کوئی یہ بندہ حملہ کر رہا ہے اور وہ آپ لائیو سٹریم کر دیں یوٹیوب پہ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ تشدد کو فروغ دے رہے ہیں اس بندے کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے تھی اس کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی بلکہ اس کو اتنے زیادہ فالوور ملے اس کے اتنے زیادہ ویوز آئے کہ اس کو یوٹیوب نے انعام دے دیا اور واشنگٹن پوسٹ نے اس خبیث آدمی کی تصویر چھاپی ہے اور ساتھ میں ایکسپوز کیا ہے کہ یہ آدمی تھا یہ مسلمانوں پر حملوں کو فروغ دے رہا تھا لیکن بجائے کہ اس کے خلاف کاروائی ہوتی اس کو انعام دیا گیا ہے، تو اس طرح کے جو لوگ ہیں اب ان کا مقابلہ آپ کو کیسے کرنا ہے، اب میرے میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں وہ آپ کو بتاؤں کہ واشنگٹن پوسٹ نے جو تفصیل بیان کی ہے کہ قرآن پاک کے بارے میں کیا کیا جھوٹ پھیلایا گیا ہے، وہ میں اپنی زبان گندی نہیں کرنا چاہتا نہ ہی میں آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتا ہوں، اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو خود ہی پڑھ لیں واشنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹ پہ چلے جائیں اس نے لکھا ہوا ہے۔ تو یہ بھی تو ہمارا ایک فریضہ ہے کہ اگر کوئی قرآن کے پیغام کو غلط طریقے سے پیش کر رہا ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتا ہے تو اب اس کو اس کی زبان میں تو جواب دینا مناسب نہیں ہے لیکن جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جو اقدار ہے روایات ہیں تعلیمات ہیں ان کے مطابق آپ قرآن کا جو اصل پیغام ہے جو امن کا اور سلامتی کا اور محبت کا پیغام ہے اس کو تو آپ پھیلا سکتے ہیں نا سوشل میڈیا پہ، آپ کسی کی نفرت اور جھوٹ کا مقابلہ جو ہے وہ سچائی کے ساتھ کر سکتے ہیں، قرآن کی آیت کے ذریعے کر سکتے ہیں، حدیث کے ذریعے کر سکتے ہیں، میں آپ کو ایک اپنی مثال دیتا ہوں میں کوئی عالم دین نہیں ہوں، امریکہ کا ایک شہر ہے لاس ویگس وہاں پہ ایک ایک کانفرنس ہو رہی تھی تو کانفرنس میں ایک امریکن رائٹر ہے رابرٹ سپینسر، رابرٹ سپینسر جو ہے اس نے قرآن اور مسلمانوں کے بارے میں بہت شدید نفرت انگیز گفتگو کی اور اس نے جھوٹ اتنا جھوٹ بولا کہ میں سوچ رہا تھا کہ یار میں کاش کہ یہاں کوئی عالم دین ہوتا ہوا اس کا جواب دیتا تو میں اب اس کا جواب کیسے دوں تو اور وہ پوری کانفرنس لائیو جارہی تھی ٹی وی چینلز پہ، تو اس نے انگریزی میں کہا کہ قرآن جو ہے وہ کہتا ہے کہ جہاں پہ آپ کو یہودی عیسائی نظر آئے اس کو قتل کر دو حالانکہ یہ نہیں لکھا ہوا تو میں نے وہاں پہ اس کو اس کی وہ بات پکڑ لی میں نے کہا چلو میں اس کا ایک سادہ سا جواب تو دے ہی سکتا ہوں تو جو بات میرے ذہن میں آئی جتنا میرا علم تھا میری باری آئی اس کے بعد تو میں نے کہا جی ویل مسٹر رابرٹس سپینسر جسٹ کلیمڈ دیٹ قرآن ٹیچز ٹو کِل جیوز اینڈ کرسچنز کہ اسلام قرآن کہتا ہے کہ جہاں پہ بھی یہودی اور عیسائی نظر آئے اس کو قتل کر دو وہاں پہ پھر میں نے مکہ لہرایا ہے میں نے کہا یہ جھوٹ بولتا ہے تو سارا مجمع جو ہے وہ گورے تھے وہاں پہ میں نے کہا یہ جھوٹ بولتا ہے اس لیے کہ قرآن نے یہ بالکل نہیں کہا اتنی نفرت نہیں پھیلائی، تو اس کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے میں یہاں پہ ایک بہت بڑا اعلان کرنے لگا ہوں انہوں نے کہا کیا اعلان کرنے لگے ہیں آپ، میں نے کہا یہاں پہ جتنی بھی یہودی اور کرسچن خواتین موجود ہیں ان میں سے اگر کوئی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے تو میں اس سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں اور اسلام نے مجھے اس کی اجازت دی ہے، وہ تالیاں بجنی شروع ہو گئی تو جو میرے ذہن میں آیا میں نے کہہ دیا میں نے کہا یہ طریقہ ہے اس رابرٹ سپینسر کو جھوٹا ثابت کرنے کا۔ میں تقریر ختم کی تو وہاں پہ جناب لائن لگ گئی اور صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی وہ جناب مجھے پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں آپ کو یہ بتائیں کوئی کتاب کا نام بتائیں ہم وہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں یہ جو آپ نے بات کی ہے یہ تو ہمیں پتہ ہی نہیں تھی میں نے کہا ہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے ہمارے تو جو نبی کریم ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہوں نے تو یہودیوں کے ساتھ ایگریمنٹ کیا معاہدہ کیا اس میں دستخط کیے، تو میں نے تو بہت ہی چھوٹی سی ایک بنیادی بات کی جس سے کہ وہ حیران و پریشان ہو گئے اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ اگر اسلام کا پیغام آپ سادہ طریقے سے صرف بیان کر دیں تو وہ جو غیر مسلم ہیں ان کے لیے کسی بہت بڑے سرپرائز سے کم نہیں ہوتا کیونکہ ان کو تو پتہ ہی نہیں ہے تو اس طریقے سے اگر آپ سوشل میڈیا پہ قرآن کا پیغام اور قرآن کا دفاع، اس کو اگر آپ اپنی ترجیح بنا لیں تو اس کا فائدہ جو ہے وہ صرف آپ کی جماعت کو نہیں ہے بلکہ آپ کو بھی ہے اور آپ کے دین کو بھی ہے اور اس سے اللہ تعالی بھی خوش ہوگا۔ تو اس لیے جو میں نے ابتدا سے گفتگو شروع کی کہ یہ جو سوشل میڈیا ہے اس کو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دور جدید میں نفسیاتی جنگ میں فتح پانے کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے لیکن اس ہتھیار کو بڑی احتیاط سے استعمال کرے ایسا نہ ہو کہ نفسیاتی جنگ جیتنے کے چکر میں آپ خود ایک بہت بڑے نفسیاتی مریض بن جائیں اور نفسیاتی مریض بننے سے بچانا اپنے آپ کو اس کا کیا طریقہ ہے کہ آپ سوشل میڈیا پہ جھوٹ اور تشدد کو فروغ دینے کی بجائے وہ پیغام پھیلائیں جو آپ کے دین کا پیغام ہے اور اس سے آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کے ارد گرد جو لوگ ہیں سب سے پہلے وہ آپ کی تحسین کریں گے، آپ کو ایپریشیٹ کریں گے یار بڑی زبردست آپ کام کر رہے ہیں پھر آپ کے ساتھی بھی وہ بھی آپ کی تحسین کریں گے پھر آپ کو دیکھ دیکھ کے باقی لوگ بھی یہی کام کریں گے اور جب آپ سب کا طریقہ کار یہی بن جائے گا کہ آپ نے نفرت اور جھوٹ کا جواب جو ہے وہ دلیل سے اور سچائی سے دینا ہے تو اس کے بعد بہت جلد وہ سیاسی جماعتیں جن کے سوشل میڈیا سیل صرف جھوٹ نفرت بہتان تراشی کی بنیاد پر اپنا غلبہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی آپ کے راستے کی طرف آجائیں گے اور یہ آپ کی اصل فتح ہوگی، الیکشن میں مخالف فریق کو شکست دینا بھی آپ کی جماعت کا ایک مطمع نظر ہے وہ بالکل آپ کو وہ بھی کرنا چاہیے لیکن اخلاقی اقدار کے میدان میں اپنے سیاسی مخالفین پہ اگر آپ نے غلبہ پا لیا تو اس کے بعد پھر آپ صرف اپنے ملک میں سیاسی مخالفین پر غلبہ نہیں پائیں گے بلکہ آپ عالمی سطح پہ جو آپ کے دین کے دشمن ہیں آپ ان پہ بھی غلبہ پا سکتے ہیں تو یہ ایک موقع ہے ایک اپرچونٹی ہے کہ اگر آپ کی جماعت جو ہے اس نے آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھا ہے تو بڑی اچھی بات ہے اور آپ کو یہاں پہ اکٹھا کیا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن آپ نے صرف اپنی جماعت کے مفادات کا خیال نہیں رکھنا بلکہ آپ نے اپنے ملک اور اپنے دین کے مفادات کا خیال بھی رکھنا ہے جب آپ ایک بڑی جنگ شروع کر دیں گے نا جب آپ اپنے دین کا بھی دفاع کریں گے اور اپنے ملک کا بھی دفاع کریں گے تو یہ جو سیاسی جنگ ہے یہ بہت چھوٹی جنگ ہو جائے گی، آپ بڑے میدان میں جو کامیابیاں حاصل کریں گے، اس کا اس کے اثرات یہ جو چھوٹا میدان ہے اس پہ بھی پڑھیں گے اور پھر اس کا فائدہ مولانا فضل الرحمن کو بھی ہوگا مولانا عطاء الرحمن کو بھی ہوگا مولانا عطاء الحق درویش صاحب کو بھی ہوگا اور یہ جو جلیل جان صاحب ہیں ان کو تو بہت ہی فائدہ ہوگا آپ سمجھتے ہیں نا کہ کریڈٹ سارا یہ لے جائیں گے اور پھر جلیل جان صاحب جو ہیں وہ سینہ پھلا کے جو سیاسی مخالفین ہیں ان کو یہ کہہ سکیں گے کہ دیکھا تم گالی دیتے ہو، نفرت پھیلاتے ہو، بہتان تراشی کرتے ہو اور ہمارے لڑکے جو ہیں وہ جھوٹ اور بہتان تراشی کا مقابلہ حق گوئی اور سچائی سے کر رہے ہیں، تو ان کا بھی سینہ فخر سے بلند ہوگا اور مولانا عطا الرحمان کا بھی سینہ فخر سے بلند ہوگا، مولانا فضل الرحمن کا سینہ بھی فخر سے بلند ہوگا اور حضرت مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ کی روح بھی خوش ہوگی، اور پھر جو ضرب درویش ہے، اس ضرب درویش کے جو نتائج ہیں وہ آپ کو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں اور پوری دنیا میں نظر آئیں گے کیونکہ اگر آپ نے یہ کام پاکستان میں کر دیا تو ایک ایسی زبردست مثال قائم ہو جائے گی کہ دنیا بھر کی جو اسلامی تحریکیں ہیں وہ آپ کو اپنا امام بنا لیں گے اور جب آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کے امام بن جائیں گے تو پھر اس سے صرف اللہ خوش نہیں ہوگا بلکہ دنیا میں آپ کے دین کا غلبہ بھی قائم ہوگا۔ مولانا عطاء الرحمن صاحب آپ نے مجھے بلایا، سب سے پہلے مولانا عطاء الرحمن صاحب نے دعوت دی اور جب انہوں نے بلایا تو میں نے سوچا کہ یہ کس طرف چل پڑے ہیں پھر میں نے کہا اگر یہ چلے ہیں تو کسی اچھے راستے کی طرف ہی چلے ہوں گے مولانا مفتی محمود صاحب کا خاندان ہے تو میں ان کے پیچھے پیچھے ایثا پشاور اور یہاں آکے آپ سے ملاقات ہوئی اور یہاں پہ بہت سے اور دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی اور یہاں پہ کچھ ایسے دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی جو کچھ عرصہ پہلے تک کسی اور طرف تھے اب آپ کی طرف ہیں، تو یہ میرے لیے ایک خوشگوار حیرت ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ نے سوشل میڈیا پہ وہ کام کر دکھایا کہ جس سے کہ حضرت مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ کی روح خوش ہو تو پھر ابھی تو اس محفل میں کچھ مجھے پانچ چھ ہی نظر آئے ہیں ایسے جو ادھر سے ادھر آگئے تو اگر آپ نے یہ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کیا تو پھر وہ سارے کے سارے ادھر ائیں گے اور آپ کے پاس جگہ بڑی تنگ پڑ جائے گی لیکن دل میں جگہ ہونی چاہیے آپ کو چاہیے کہ سب کو اپنے دل میں سمائے اور اس ملک میں اور اس دنیا میں اپنے دین کا غلبہ قائم کریں بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments