اسلام آباد کنونشن سنٹر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس سے خطاب 06 دسمبر 2023


اسلام آباد کنونشن سنٹر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس سے خطاب

06 دسمبر 2023


نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔

اکابر علمائے امت، زعمائے قوم، میرے جوانو، دین اسلام کے فدائین (عربی زبان)

میرے محترم دوستو! آپ نے اکابر علماء کی تقاریر سنی جو اپنا ایک علمی رسوخ بھی رکھتے ہیں، حالات حاضرہ کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اپنا بھرپور تجزیہ پیش کرنے کی صلاحيت سے مالامال ہیں اور پھر اس پورے اجتماع کا جو مقصد متفقہ اعلامیہ کی صورت میں مرتب کیا گیا وہ بھی اپ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ ہم سب اُس اعلامیہ کی تائید کرتے ہیں۔
میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم کیوں اپنی تاریخ کو بھول جاتے ہیں سن 1940 میں لاہور میں قرارداد پاکستان پاس ہوئی اور اُس قرارداد کا حصہ تھا کہ سرزمین فلس طین پر یہو د ی بستیاں قائم ہو رہی تھی جن کے مستقبل کی ارادے بھانپ لیے گئے تھے اور اُس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہم اسر ا ئیل کا اور صہیو نی قوت کا فلس طینی سرزمین پر قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے ہم فلس طینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اِس واضح اعلان کے بعد اگر قرارداد پاکستان پاکستان کی اساس ہے تو فلس طین کی سرزمین کی ازادی اور صہیو نی حکومت کو ناقابل قبول قرار دینا بھی تاسیںس پاکستان کا حصہ ہے۔ سن 1947 میں پاکستان بنا سن 1948 میں اسر ا ئیل بنا، تو بانی پاکستان نے اسر ا ئیل کو ناجائز بچہ کہا، ہم جب پاکستان کی بات کرتے ہیں تاسیس پاکستان کی بات کرتے ہیں مقاصد پاکستان کی بات کرتے ہیں تو ہم پاکستان کے اساس میں اسر ا ئیل کے حوالے سے اِس نظریے کو کیوں بھول جاتے ہیں اور جو فلس طین کی سرزمین پر یہ ناجائز حکومت قائم ہوئی تو اُس ناجائز حکومت کے پہلے سربراہ نے اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا اور اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادی نکات میں یہ بات کہی کہ اسر ا ئیل کا بنیادی مقصد دنیا میں ایک نو زائد اسلامی ملک کا خاتمہ ہوگا سو ہمارے بھی عزائم سن 47 اور اس سے پہلے ان کے بارے میں واضح ہیں اور سن 48 میں ان کی ناجائز وجود نے پاکستان کے بارے میں بھی اپنا مقصد واضح کر دیا تھا، پھر اس سرزمین پر اس سرزمین پر اس اسر ا ئیل کے بارے میں بات چیت کی جائے کہ اسے تسلیم کرنا چاہیے تو میں اج بڑی صراحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے دس بارہ سال یا پندرہ سال عمران خان کا مقابلہ نہیں کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کوئی صلاحيت نہیں ہے ہم نے یہ لمبی جنگ اس مقصد کے لیے لڑی کہ ہم بین الاقوامی ایجنڈے کو ناکام بنانا چاہتے تھے ہم نے پاکستان کی سرزمین پر اس ایجنڈے کو شکست دی ہے اور حماس کے ساتھ اکتوبر کے حملے نے اس پر اخری کیل ٹونک دی ہے کہ اپ دنیا میں جو اسر ا ئیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی تھی اج فلس طین کی ازادی کی بات دوبارہ ہونے لگ گئی۔ اخر کیوں کر مسئلے کی نوعیت کیوں تبدیل کر دی گئی مسئلہ تو یہ تھا کہ فلس طین کی ازادی لیکن حالات کے تغیرات نے اسے اسر ا ئیل کو تسلیم کرنے کے موضوع سے تبدیل کر دیا کیوں ؟ یہ جبر کیوں ؟ کس کو یہ حاصل ہے اور کیا ہم اپنی تاریخ بھول جائیں ہم اف غ ا نستان کی بات کرتے ہیں ہم عراق کی بات کرتے ہیں ہم دنیا کو بتائیں کہ ہم جس سرزمین پر رہ رہے ہیں یہاں ہم نے برطانوی استعمار کے خلاف ڈیڑھ سو سال کی ازادی کی جنگ لڑی ہے ہم نے فرنگی کو شکست دی ہے اور اج اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ سپر طاقت ہے اگر سوویت یونین سپر طاقت نہیں رہا تو اف غا نستان میں شکست کے بعد اب امریکہ کا بھی سپر پاور کا ٹائٹل ختم ہو چکا ہے جہاں بارود برسا رہا ہے جہاں وہ اگ برسانے جاتا ہے اس کا نام رکھتا ہے قیام امن کے لیے جا رہا ہوں، جہاں ظلم برپا کرتا ہے اس کا عنوان انصاف رکھ لیتا ہے ہم قوموں کو انصاف دینا چاہتے ہیں اف غ ا نستان میں ائے د ہشت گردی کو ہم ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ خود ایک عالمی د ہشت گرد کی صورت میں رونما ہوا، عراق میں تسلیم کرنے کے باوجود کہ ہمارا جو الزام تھا وہ ثابت نہیں ہوا کیا اتنے بڑے پیمانے پر عراق میں قتل عام کے بعد وہ جنگی مجرم نہیں رہا ؟ دنیا کم از کم اس کا بھی تو نوٹس لے۔ میں صرف یہو د ی دنیا کو مخاطب نہیں کر رہا ہوں میں یہو د ی دنیا کو بھی خطاب کر رہا ہوں مسیحی دنیا کو بھی کہہ رہا ہوں انتہائے پیروی ہے ابن مریم اور تو جس کی کہنی سے ٹپکتا ہے مسلمانوں کا خون، تم نے انسانیت کو قتل کیا ہے تم نے ناگا ساکی کے اوپر ایٹم بم ماریں ہیں، تم کس بنیاد پر انصاف کی بات کر سکتے ہو اور یہاں ہم سب کا ایمان ہے کہ یہو د و نصا ری کے عزائم کو اللہ رب العزت نے خود واضح کیا
وَلَنۡ تَرۡضٰى عَنۡكَ الۡيَهُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡ‌ؕ
اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اج کے زمانے کے بارے میں اج کے زمانے کے بارے میں ہمارے اور آپ کے اس دور کے بارے میں فرمایا ایک زمانہ ائے گا جب تم پچھلی قوموں کے طور اطوار کی اس طرح پیروی کرتے نظر آؤ گے کہ اگر وہ گوہ کے غار میں گھسیں گے تو اپ بھی وہاں ان کے پیچھے چلتے رہیں گے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم یہو د و نصا ری کے مطابق چلیں گے فرمایا اور کون ہو سکتا ہے۔ اس لیے آج کے اس دور میں ہم حکمرانوں کی شکایتیں کر رہے ہیں کوئی حکمرانوں کی شکایت کی ضرورت نہیں ہے ساری حکومتوں میں فلس طین کی حکومت بھی تو ہے، وہ بھی تو خاموش ہے لیکن کیا اس کی خاموشی اس کے کام آرہی ہے کیا حماس سے اس خاموش کو توڑا ہے یا نہیں توڑا، اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو بتانا چاہتا ہوں پاکستان کے حکمرانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ تمہاری مصلحتیں تمہیں مبارک تمہاری خاموشی تمہیں مبارک ان شاءاللہ یہ نوجوان اور یہ قوم کی نئی نسل اس ازادی کی جنگ کو زندہ رکھے گی ۔
نظریے نئی نسلوں کو منتقل ہوتے ہیں اگر مغرب کی فحاشی عمران خان کے ذریعے پاکستان کی نئی نسل کو منتقل ہو سکتی ہے تو پھر ہمارا جذبہ جہ ا د، ہمارا جذبہ، ہماری حریت، ہماری تہذیب ہمارا تمدن ہماری بھی نئی نسل کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں مضبوط رہو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اپ کا عزم ان شاءاللہ اس نظریے کو اس سوچ کو اور اس فکر کو شکست دینے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ گھبرائیے مت،ہمیں تجربہ ہے ہم نے کس طرح ان کو شکست دی ہے۔ المقدس ہمارا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر تشریف لیے گئے تو پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصی پہ اترے اور تمام انبیاء کرام کی امامت کی یہ اعلان تھا کہ یہ حرم بھی اپ کا ہے وہ حرم بھی اپ کا ہے۔ اس پر دعوی کرتے ہو اگر اس پر اسر ائ یل کا حق ہے یہو د ی کا حق ہے تو عمر بن خطاب کو کیا پڑی تھی واہ جو تو فتح کرنے کے لیے جا رہے تھے واہ اگر ان کا حق اسرائیلیوں کا ہے تو پھر صلاح الدین ایوبی کو کہا پڑی تھی ہم نے اس کو آزاد کرانا ہے ان شاءاللہ لیکن یہ رویے جو ہم نے پچھلے ادوار میں دیکھے کہ سوچ رہے ہیں اسر ا ئیل کو تسلیم کیا جائے اسر ا ئیل کو تسلیم کیا جائے یہ تو ایسے ایک جھک ہے جو ماری جا رہی ہے اور اج ہم بتا دینا چاہتے ہیں اپنے ملک کو بھی بتا دینا چاہتے ہیں اپنی حکومت کو بھی بتا دینا چاہتے ہیں اسلامی دنیا کے حکمرانوں پر بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اسر ا ئیل کو تسلیم کرنے کی اجازت اپ کو نہیں دی جائے گی ان شاءاللہ،امت مسلمہ اپ کو اجازت نہیں دے گی ان شاءاللہ، امت مسلمہ اپ کے خلاف بغاوت کر جائے گی ان شاءاللہ، لہذا اگر جمہوریت ہے تو پھر امریکہ کے عوام نے اپنی رائے دے دی، برطانیہ کے عوام نے تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کیا ہے اس قتل عام کے خلاف، یورپ کے ممالک نے بڑے بڑے مظاہرے کیے ہیں کیا جمہوریت ہے جمہوریت کے علمبردار اور اپنے ملک کے عوام کی رائے کا احترام نہ کریں انسانیت کی رائے کا احترام نہ کریں صرف اپنے ایجنڈے اور اپنے مخصوص مقاصد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے پھر عوام کا نام کیوں لیتے ہو، پھر عوام کی مرضی کی کیا حیثیت، لہذا اگر جمہوریت ہے عوام کی رائے ہے تو پوری دنیا میں عوام کی رائے انسانی رائے کی صورت میں سامنے آچکی ہے عالمی ادارے اس کا احترام کریں ۔ میرے محترم دوستو! یہاں بات کی جا رہی ہے کہ امریکہ کا وزیر خارجہ ایا اور اس نے کہا کہ میں یہاں وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں ایا میں تو صرف یہو د ی کی حیثیت سے ایا ہوں تو ہم نے بھی فورا اس کا جواب دیا اور میں بھی قطر گیا اور میں نے ان کی قیادت سے فورا رابطہ کیا اور ملاقات کر کے ان کو بتایا کہ میں ایک مسلمان مجا ہد کی حیثیت سے ایا ہوں (نعرہ تکبیر اللہ اکبر) اور میں سمجھتا ہوں حماس کی یہ بات قابل غور بھی ہے قابل قبول بھی ہے جو پاکستان کو اہمیت دینا چاہتے ہیں میری ملاقاتوں میں بھی انہوں نے پاکستان کو ایک قائدانہ مقام دیا اپنا پیغام بھی مجھے دیا پاکستان کے یہاں کے اہل الحق کے نام پہ اور ہم نے وہ پہنچایا بھی ہے لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کردار ادا کر سکتا ہے اور کرے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کو اعتماد میں لے، ترکیہ مصر کو انڈونیشیا اور ملائشیا کو اور اسی طرح اس وقت چین اور روس کا کردار بڑا اساسی ہے ہم اس اجتماع سے بھی ان تمام ممالک کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اپ اس وقت مظلوم فلس طینی بھائیوں کی مدد کے لیے کردار ادا کریں ہر سطح پر کردار ہونا چاہیے اگر امریکہ طاقت کا استعمال کرتا ہے تو پھر خطے میں طاقت کا توازن بھی ہونا چاہیے اور طاقت کے توازن کے لیے ضروری ہے کہ روس اور چین بھی اپنی قوت کے ساتھ وہاں پہنچ جائے، اسلامی دنیا، دنیا میں طاقت کے توازن کے لیے مربوط نظام قائم کریں، غذا اور دوائیں یقینا وہاں کی ضرورت مالی تعاون بھی بہت بڑی بات ہے اور پاکستان کی طرف سے ہو رہی ہے افراد بھی جماعتیں بھی تنظیمیں بھی اپنے اپنے طور پر جو کچھ کر رہی ہیں قابل تحسین ہے لیکن اس کا ایک پیغام بھی ہے کہ اسلامی دنیا ایک جسم ہے اور ہمارے اوپر حق ہے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں مہربان ہونے میں مدد دینے میں ایمان والے لوگ ایک جسم کی طرح ہیں اگر انکھ میں درد تو پورا جسم بے قرار اگر سر میں درد تو پورا جسم بے قرار اگر جسم کے کسی حصے میں درد مچل رہا ہے پوری رات جاگتے اور بخار سے گزرتی ہے کیا ہمارے وہ احساسات ہیں ایک مظلوم مسلمان بھائی کے لیے، برما میں مظالم ہو رہے ہیں افغانستان میں ہو رہے ہیں عراق میں ہو رہے ہیں لیبیا میں ہو رہے ہیں اور اج فلس طین میں ہو رہے ہیں کیا امت مسلمہ کو اس سے کوئی تکلیف اور احساس ہے اور اگر نہیں تو پھر ایمانی رشتہ کمزور ہے۔ عوام میں یہ احساس موجود ہے عام مسلمان کے اندر یہ احساس موجود ہے لیکن ہمارے حکمران مصلحتوں کا شکار ہو گئے اور ان کا ایمان رشتہ کمزور ہو گیا اس لیے وہاں احساس بھی ختم ہو گیا ہے۔ ہم نے اپنے حکمرانوں کو بھی جگانا ہے ان کو بھی بتانا ہے کہ خاموش نہیں رہنے دینا ہم نے اپ کو، اگر ہم میدان میں ہوں گے تو اپ کو بھی میدان میں ہونا ہوگا ان شاءاللہ العزیز اور میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ جو یہاں تجاویز ائی ہیں میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ سے خاص طور پر گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ ان تمام تنظیموں اور جماعتوں کا پھر اجلاس بلائیں تاکہ اج کی اس کانفرنس کے مقاصد کو مزید تسلسل دینے کے لیے ہم حکمت عملی بنا سکیں اور پورے ملک کے عوام کو اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ آٹھ دسمبر کو پورے ملک میں یوم اقصی کے طور پر منایا جائے ان شاءاللہ فلس طینی مجا ہد وں کے ساتھ یکجہتی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور اس کے لیے تاکہ تسلسل برقرار رہے اور کبھی ہماری اواز خاموش نہ ہو یہ چلتی رہے ان شاءاللہ جب یہ اواز زندہ رہے گی یا عمل زندہ رہے گا چاہے تھوڑا ہو لیکن اللہ کی مدد کی توقع ہوگی اللہ ہمیں اپنی مدد سے سرفراز فرمائے
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat


اسلام آباد کنونشن سنٹر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں ۔

اسلام آباد کنونشن سنٹر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں ۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, December 6, 2023



0/Post a Comment/Comments