شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا اسلام آباد کنونشن سنٹر میں حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس سے خطاب
06 دسمبر 2023
خطبہ مسنونہ کے بعد
حضرات علماء کرام، زعمائے ملت اور معزز حاضرین السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ ! اس وقت الحمدللہ ہم سب ایک ایسے موضوع پر گفتگو کرنے اور سننے کے لیے جمع ہیں جو اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام میں سے ایک ایک کے دل کی دھڑکن ہے اور وہ قضیہ فلس طین، مجھ سے پہلے الحمدللہ بڑی ولولہ انگیز تقریریں ہو چکی ہیں بہت سے معاملات پر اظہار خیال بھی کیا جا چکا، تجاویز بھی پیش کی گئی، میں ان کو دہرانے کے بجائے چند مختصر نکات پر اپ حضرات کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ الحمدللہ سب اس بات پر یک زبان ہیں کہ اسر ا ئیل نے جو وحشت اور بربریت کا مظاہرہ غزہ کے شہریوں کے ساتھ کیا ہوا ہے وہ انسانیت کی تمام قدروں کو پامال کر رہا ہے اور اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ناپاک دشمن کے دل سے انسانیت کی ایک ادنی قدر بھی تباہ ہو چکی ہے ۔ سب نے اس پر مذمت کا اظہار کیا لیکن چند باتیں ہیں جو غلط فہمیاں کچھ پیدا ہو رہی ہیں ان کو میں مختصرا دور کرنا چاہتا ہوں ۔ ایک بات یہ ہے کہ تمام دنیا کی طرف سے مختلف عالمی تنظیموں کی طرف سے یہاں تک کہ ہماری مسلم دنیا کی او ائی سی کی طرف سے بھی جو قرارداد ائی ہے وہ جنگ بندی کی قرارداد ہے جنگ بندی کے معنی یہ ہیں کہ اسر ا ئیل کو بھی جنگ سے روکا جائے اور ح م ا س کو بھی جنگ سے روکا جائے، جنگ بندی کا عام مفہوم یہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں مطالبہ صرف غزہ پر بمباری کرنے سے روکنے کا ہونا چاہیے جنگ بندی کا نہیں ح م اس کے جانباز اور سرفروش مجا ہد ین وہ اپنے پیدائشی حق کے تحت اور اسلام کے نام پر فلس طین کے پورے خطے کو اسر ا ئیل کے تسلط سے ازاد کرانے کے لیے نکلے ہیں یہ جنگ بند ہونے والی جنگ نہیں ہے یہ جنگ ختم ہونے والی جنگ نہیں ہے یہ اس وقت تک جاری رہے گی اور رہنی چاہیے جب تک کہ اسر ا ئیل کا قبضہ پورے فلس طین سے ختم نہیں ہو جاتا۔لہذا ہمارا مطالبہ جنگ بندی کا نہیں اگر اسر ا ئیل شہریوں پر بمباری کرنے کے بجائے کھلے میدان جنگ میں اکر ح م ا س کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے مقابلہ کرے جنگ بندی جنگ جاری رہے گی اور جب تک اس کے تمام ٹینک تباہ نہیں ہو جاتے جب تک اس کی تمام عالیات ختم نہیں ہو جاتی اس وقت تک ان شاءاللہ ح م اس مقابلت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ لہذا کسی باشعور مسلمان یا انسان کی زبان پر جنگ بندی کے مطالبے کے بجائے اس بمباری کے بند کرنے کا مطالبہ ہونا چاہیے، ا س ر ا ٸیل اپنی شکست کو چھپانے کے لیے اور اپنے نقصانات کا بدلہ بے گناہ شہریوں بچوں عورتوں سے لے رہا ہے اس کا مقابلہ اس کے خلاف جو کہ جنگی جرائم میں شامل ہے اس کا مطالبہ ہونا چاہیے جنگ بندی ہمارا مطالبہ نہیں ہے جنگ ان شاءاللہ جاری رہے گی اور فتح تک جاری رہے گی دوسرا نقطہ جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ بار بار حکمرانوں کی زبانوں سے بھی اور بعض مرتبہ غلط فہمی کی بنیاد پر امن پسند لوگوں کی طرف سے بھی فلس طین کے دو ریاستی حل کی بات ہوتی ہے یعنی جس کا مطلب یہ ہے کہ فلس طین میں دو ریاستیں قائم ہوں ایک اسر ا ئیل کی ریاست اور ایک فلس طین کی ریاست، یہ بالکل مغالطہ انگیز مطالبہ ہے ہم اس کی کھل کر تردید کرتے ہیں ہم روز اول سے اسر ا ئیل کے قیام کے خلاف ہیں ہمارے بانی پاکستان نے روز اول سے اسر ا ئیل کے وجود کو مغربی طاقتوں کا ناپاک بچہ قرار دیا تھا اور اج تک ہم اس عقیدے پر قائم ہیں لہذا یہ فیصلہ کہ اسر ا ئیل نے جس نے علاقوں کو فتح کر لیا ہے وہ اس کے رہے اور غزہ اور جنوبی غربیہ کے اندر فلس طین کی ریاست قائم ہو جائے یہ ہرگز ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ لہذا دو ریاستی حل کہ جو بات کی جاتی ہے اس سے ہمیشہ پرہیز کیا جائے۔
تیسری بات ساری دنیا میں یہاں تک کہ مغربی پروپیگنڈے کے زیر اثر مسلمان حکومتوں میں بھی ایک انتہائی زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے وہ غلط فہمی مغربی ممالک کے ایک پروپیگنڈے کے تحت ہے یہ مغربی ممالک کا اور خاص طور پر امریکہ کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب کوئی قوم کسی غاصب کے قبضے کے خلاف جدوجہد کے لیے کھڑی ہوتی ہے تو وہ اس کو د ہشت گرد، اس کو ارہاوی، اس کو ٹیررسٹ قرار دے کر دنیا میں بدنام کرتا ہے یہی معاملہ ہمارے کشمیر کے مج ا ہد ین کے ساتھ ہوا ہے ہمارے کشمیر کے حرمت پسندوں کو ٹیررسٹ قرار دیا گیا اور دیا جا رہا ہے اور افغانستا ن کے اندر افغا نستا ن کے طالبا ن کو ایک متعدد دراز تک ٹیررسٹ کہا گیا یہاں تک کہ اخر میں گھٹنے ٹیک کر ان کو اپنا مقابل سمجھ کر ان کے ساتھ میز پر بیٹھ کر ان کے لیے فتح کا راستہ الحمدللہ اللہ نے استوار کیا یہی صورتحال فلس طین میں ہو رہی ہے کہ حماس الحمدللہ ایک سیاسی طاقت ہے وہ صرف کوئی لڑنے والے جنگجوؤں کا گروپ نہیں ہے مجھے افسوس ہے کہ بعض مرتبہ اطلاعات کے ذرائع میں ان کے مجا ہد ین کو جنگجوؤں کا نام دیا جاتا ہے وہ درحقیقت مجا ہد ین ہیں، ج ہ ا د کر رہے ہیں، جہاد فی سبیل اللہ اور ابھی جناب ہانیہ صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ یہ ان میں سے بیشتر افراد حفاظ قران ہیں، قران کریم کے حافظ ہیں اور انہوں نے بتایا کہ ان میں سے بہت سے احسن جن کو بہت سی صورتیں الحمدللہ حفظ ہیں اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی بعض خاص طور پر دینی تربیت کی جاتی ہے ح م ا س میں شامل ہونے سے پہلے ان کو دینی اور اصلاحی تربیت سے گزارا جاتا ہے ۔ یہ درحقیقت مجا ہد ین ہیں جو دفاعی ج ہ ا د لڑ رہے ہیں اور چونکہ دفاعی ج ہ ا د لڑ رہے ہیں اس لیے انہوں نے اس کا نام ارہاوی ٹیررسٹ اور د ہشت گرد نام رکھ دیا گیا ہے۔ حقیقت میں دہشت گرد اسرائیل ہے، حقیقی د ہشت گرد اسر ا ئیل ہے جس نے پچھتر سال سے فلسطین کی سرزمين پر قتل عام کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
لہذا خوب سمجھ لیجیے کہ یہ کہنا کہ ح م اس ایک انفرادی جماعت ہے ایک گروہ ہے اور وہ کسی حکومت کے نمائندگی نہیں کرتی وہ پورے فلس طین کے باشندوں کی نمائندگی کرتی ہے لہذا اس غلط فہمی سے بھی اپنے اپ کو ہمیشہ محفوظ رہنا چاہیے۔ تیسری بات کہ اس موقع پر یہ بات ہمارے سے پہلے بہت سے علماء کرام نے کہی ہے کہ اس بار پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں پر اتنا زبردست ظلم ہو رہا ہے بچوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی، عورتوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور ہم اور ہمارے حکومتیں اس کے اوپر صرف زبانی اور ساتھ ساتھ کچھ امدادی کاروائیاں کر رہی ہیں اللہ تعالی ان کو اس کی توفیق دے ہم اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن اس موقع پر افسوس ہے کہ جو فیصلہ کن معاملہ کرنا چاہیے تھا ابھی تک ہماری حکومتیں ہمارے حکام وہ فیصلہ نہیں کر سکے جس کی طرف اسماعیل ہانیہ صاحب نے بھی اشارہ کیا، وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے کہ آپ ہمارے اوپر حملہ کریں ہمارے علاقے پر اکر حملہ کرے انہوں نے صاف صاف ابھی تقریر میں یہ بات کہی لیکن وہ چاہتے ہیں کہ جتنی امداد اپ پہنچا سکتے ہوں غزہ کے مسلمانوں کو اور غزہ کے مجا ہد ین کو ہم اپ سے اس کی درخواست کرتے ہیں کہ اس میں کمی نہ کریں۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ میں شریعت کا حکم اپ حضرات کے سامنے عرض کرتا ہوں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے کسی خطے پر کوئی قابض ہو جائے یا حکمران ہو جائے تو اس خطے کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہے اور وہ ج ہا د پہلے ان خطے کے مسلمانوں پر فرض ہے اس کے بعد اس سے پاس رہنے والے مسلمانوں پر فرض ہے اور اس طرح درجہ بدرجہ جتنے مسلمان ہیں ان سب پر جہاد اپنی استطاعت کے مطابق فرض ہو جاتا ہے۔ میں اس کا اس بات کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے اپ حضرات کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ حسب استطاعت تمام مسلمانوں پر جو جہاں بھی رہتا ہو اس کو اس معنی پر اس معنی میں اس پر ج ہ ا د فرض ہے کہ وہ جو مدد ان کو پہنچا سکتا ہو وہ مدد پہنچائے۔
میں اپ حضرات کے سامنے قران کریم کی دو آیتیں پڑھتا ہوں اور وہ میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع کا پیغام ہونا چاہیے سارے مسلمانوں کے لیے، قران کریم سورہ نساء میں فرماتا ہے
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَاۚ-وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ﳐ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًا
قران کا ترجمہ یہ ہے وہ مسلمانوں کو خطاب کر کے کہہ رہا ہے سارے مسلمانوں کو مالکم تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اللہ کے راستے میں ج ہ ا د نہیں کرتے اور ان مردوں عورتوں بچوں کی خاطر ج ہ ا د نہیں کرتے جن کو دشمن نے دبایا ہوا ہے اور وہ دعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے ہمیں اس بستی سے نجات عطا فرما دیجیے اور وہ یہ دعائیں کر رہے ہیں یا اللہ ہمارا کوئی مددگار پیدا کر دیجیے ہمارا کوئی حامی پیدا کر دیجئے قران یہ ان بچوں کا عورتوں کا اور مردوں کا حوالہ دے کر سارے مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم ان کے راستے میں ج ہ ا د نہیں کرتے، اور دوسری ایت سورہ توبہ کی اس میں نبی اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا
قُلۡ اِنۡ كَانَ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ وَاِخۡوَانُكُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ وَعَشِيۡرَتُكُمۡ وَ اَمۡوَالُ ۨاقۡتَرَفۡتُمُوۡهَا وَتِجَارَةٌ تَخۡشَوۡنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرۡضَوۡنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَ جِهَادٍ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ فَتَرَ بَّصُوۡا حَتّٰى يَاۡتِىَ اللّٰهُ بِاَمۡرِهٖ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ۔
کہ اے نبی کریم صلی اللہ یہ کہہ دو سب سے کہ اگر تم محبت رکھتے ہو تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہاری بیویاں تمہارا خاندان تم نے جو مال کمایا وہ اور تم نے جو شاندار گھر رہتے ہوئے ہیں جن میں تم رہتے ہو جنہیں تم پسند کرتے ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں زیادہ پسند ہے تو انتظار کرو ہمارے امر کا، اللہ تعالی فرماتا ہے میرے انے کے امر کا انتظار کرو، یہ اللہ تعالی نے ہمیں اپ کو ایک تازیانہ دیا ہے ان ایات کے سلسلے میں جو اس موقع پر صادق آتا ہے۔
اخری بات جو میں اپ حضرات سے انتہائی انکساری کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں ہمارا ابھی اس اجتماع میں مسلمانوں حکمرانوں کے اوپر تنقید ہوئی اور بڑی حد تک بجا ہوئی تنقید بے شک ہمارا حق ہے اور ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اپنے حکمرانوں تک وہ بات پہنچائیں جسے ہم حق سمجھتے ہیں لہذا اس موقع پر ہم ان سے مخاصمت کی فضا میں نہیں بلکہ مفاہمت کی فضا میں اور نصیحت کی فضا میں کیونکہ ہمارے دین نے ہمیں کہا ہے کہ اولی الأمر کو نصیحت کرنا بھی اہل علم کا کام ہے میں اس نصیحت کے تحت یاد کرتا ہوں کہ میرا دل یہ کہہ رہا ہے اور میں اپنے دل کو ٹٹول کر اور اللہ تبارک و تعالی سے رجوع کر کے اللہ تعالی سے دعا کر کے اللہ تبارک و تعالی سے استخارہ کر کے میں یہ سمجھتا ہوں کہ تاریخ میں بعض اوقات کچھ لمحات ایسے اتے ہیں کہ ان لمحات میں اگر صحیح فیصلہ نہ کیا جائے تو صدیوں تک اس کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔ مشہور کسی نے کہا تھا کہ ”لمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی“ تو تاریخ میں ایسے لمحات اتے ہیں جہاں ہمت اور جرات سے کام لے کر جفاکشی کو اپنا شعار بنا کر کوئی صحیح فیصلہ کرنا پڑتا ہے اگر وہ صحیح فیصلہ اس وقت نہ کیا جائے تو صدیوں تک اس کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اج ایسا یہ تاریخ کا ایسا ہی لمحہ ہے اپ جانتے ہیں اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہم پورے عالم اسلام مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پورا عالم اسلام اس وقت مغرب کی غلامی کا شکار ہے، کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہر اعتبار سے اقتصادی اعتبار سے، فوجی اعتبار سے، سیاسی اعتبار سے ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اخر یہ غلامی کب تک چلے گی یہ غلامی، اج یہ سمجھو کہ امارات سے انڈونیشیا تک عالم اسلام کا حال یہ ہے کہ جو اللہ نے ان کو قدرتی وسائل عطا فرمائے ہیں کسی اور قوم کو نہیں دیے گئے یہ دنیا کے بیچوں بیچ واقع ہیں ان کے پاس وہ شاہراہیں ہیں جن کے ذریعے یہ دوسروں ناس قبن کر سکتے ہیں، نائب فاسفورس ان کے پاس ہے، نہر سویز اس کے پاس ہے، خلید عدن ان کے پاس ہے، حرم الزم ان کے پاس ہے اور دنیا کا سب سے زیادہ زر سیال تیل ان کے پاس ہے، گیس ان کے پاس ہے، دولتیں ان کے پاس ہیں اس کے باوجود کیوں غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اس لیے کر رہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ جب یہ زمانہ ائے گا کہ مسلمان سیلاب میں بن کے بہتے ہوئے تنکوں کی طرح ہوں گے تو کیا وجہ ہوگی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ ان کے موت سے ڈرنا اور زندگی سے محبت کرنا اور ج ہ ا د فی سبیل اللہ کو چھوڑ دینا۔
آج ہم اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ اج حماس کے جانبازوں نے ہمارے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے ازادی کا، حریت کا اور مغربی جوئے کو اپنے کندھوں سے اتار دینے کا، یہ موقع انہوں نے فراہم کیا ہے اگر سارا عالم اسلام متحد ہو کر ان کا ساتھ دے اور اس کے لیے دفاعی مشترک پالیسی بنائے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ مغربی طاقتیں کچھ نہیں کر سکتی کیوں خدائی امریکہ کی نہیں ہے خدائی امریکہ کے پاس نہیں گئی، خدائی اللہ کے پاس ہے، سپر پاور نہیں ہے سپریم پاور اللہ ہے لہذا اگر ہم ایک مرتبہ اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے تو مانگیں گے ان شاءاللہ اگر ہمیں جفا کشی کے اقدامات کرنے پڑے تو کریں گے، ہم گولیوں کا سامنا کریں گے، بموں کے سامنا کریں گے ان شاءاللہ، تو نہ امریکہ نہ دنیا سے کوئی طاقت ہمیشہ گر دے سکتی ہے اللہ تبارک و تعالی ہمیں یہ حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالی اس حقیقت کو سمجھ کر اپنی غلامی کے دور کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں