آج نیوز کے پروگرام 'فیصلہ آپ کا' میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی خصوصی گفتگو 12 دسمبر 2023


آج نیوز کے پروگرام 'فیصلہ آپ کا' میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی خصوصی گفتگو

12 دسمبر 2023

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ناظرین میں ہوں عاصمہ شیرازی پروگرام ہے فیصلہ آپ کا۔
 بہت اہم مقدمات جو ہیں وہ زیر سماعت ہیں اور آج ایک بہت اہم مقدمے میں میاں نواز شریف کی بریت ہوئی ہے العزیزیہ ریفرنس میں جس میں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کو بری کر دیا ہے، اس میں عامر فاروق صاحب جو کہ چیف جسٹس ہیں اور جسٹس میاں گل حسن صاحب دو رکنی بینچ نے فیصلہ کیا اور جو محفوظ فیصلہ تھا وہ سنایا، اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس واپس احتساب عدالت کو بھیجنے کی استدعا مسترد کی ہے اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مختصر سا فیصلہ بھی سنایا جس میں کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل جو ہے اس کو منظور کرتے ہوئے انہیں کیس سے بری کر دیا ہے، واجد ضیا صاحب نے چیف جسٹس صاحب نے اس پہ فرمایا کہ واجد ضیا نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ کن دستاویزات کی بنیاد پر کیا وہ ہمیں دکھا دیں اور یہ بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ 6 جولائی 2018 کو اسلام آباد کے احتساب عدالت نے ایون فیلڈز جو ریفرنس تھا اس پہ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف صاحب کو 11 سال کی سزا سنائی تھی اور پھر بعد میں 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کو العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا بھی سنائی تھی، ابھی اس سال 26 اکتوبر کو دو مہینے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نون لیگی جو یعنی نون لیگ کے جو قائد ہیں میاں نواز شریف ان کی درخواست پر ایون فیلڈز اور عزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں بھی بحال کی تھیں، یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈز ریفرنس جو ہے اس میں سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب کو 11 سال کی جو ان کی قید کی سزا تھی اس کو کلعدم قرار دیا تھا اور انہیں بری کیا تھا تو دیکھا جائے تو نواز شریف صاحب کے خلاف جو بھی کیسز تھے اس میں ان کو وہ تقریباً ختم ہو گئے ہیں اور نااہلیت کی جو معاملہ ہے تاحیات نااہلیت کا اس کو بھی ٹیک اپ کیا گیا ہے کل سپریم کورٹ میں اب نواز شریف صاحب جو ہیں وہ انتخابات کے لیے ایلیجبل ہوں گے وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں اس سے پہلے ان کے خلاف چونکہ یہ سزا تھی لہذا وہ نہیں لڑ سکتے تھے بہت سارے لوگ جو ہے وہ ظاہر ہے کہ ان کے جو ناقد ہیں وہ یہ بات کر رہے ہیں کہ ان کو انصاف بہت ریلیف ان کو بہت جلدی ملا ہے بہت سارے معاملات کے اندر ان کے اوپر تنقید کی جا رہی ہے اور انے والے دنوں میں ظاہر ہے کہ نااہلیت کی سزا اگر ختم ہو گئی تو جو کہ پانچ سال کی سزا کا قانون بھی بن چکا ہے تو پھر ان کے لیے راستے جو ہے وہ ہموار ہوں گے کیا چوتھی بار کے وزیراعظم ہوں گے نواز شریف صاحب یہ بہرحال ایک اہم سوال ہوگا کل آصف علی زرداری صاحب نے ہمیں انٹرویو دیا تھا جس میں کہ انہوں نے انتخابات کے حوالے سے یہ بات کی تھی کہ اگر کچھ دن اگے بھی چلے جائیں انتخابات تو فرق نہیں پڑتا لیکن چند دن اور انہوں نے ایک اشارہ ضرور دیا کہ افغان رجسٹرڈ جو ووٹرز ہیں ان کو انکلوڈ کیا گیا تھا اندراج کیا گیا تھا ان کا پاکستان کے جو انتخابی فہرست ہیں ان کے اندر تاکہ ایک سیاسی جماعت کو جو ہے وہ فائدہ دیا جا سکے اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے واقعات جو ہیں ان کے اوپر بھی بات ہوئی کل انہوں نے بھی اس کی نشاندہی کی اور آج ڈی آئی خان میں بہت افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں کہ تقریبا تقریبا 23 کے قریب جو ہے وہ سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں اس میں 27 دہشت گرد بھی مارے گئے ہیں اور یہ ایک دن کا واقعہ ہے یہ بہت بڑا واقعہ ہے اگر ہم دیکھیں ماضی قریب میں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور واقعات بھی جو ہے وہ آئے دن ہم دیکھتے رہتے ہیں بلوچستان میں بھی اور خاص کر کے خیبر پختون خواہ میں بھی اور کل ایک افسوسناک واقعہ کراچی میں بھی ہوا ہے، تو یہ سارے معاملات جو ہیں یہ کس طرف جا رہے ہیں کیا انتخابات جو کہ ہونے ہیں آٹھ فروری کو ہونے چاہیے آئین کے مطابق کیا وہ شفاف انتخابات ہوں گے لیول پلینگ فیلڈ ملے گی سیاسی جماعتیں کیا شکوہ کر رہی ہیں ان کے تحفظات کیا ہیں کل ہم نے آصف علی زرداری صاحب سے بات کی تھی آج ہمارے ساتھ موجود ہیں مولانا فضل الرحمٰن صاحب جو کہ سربراہ ہیں پی ڈی ایم کے بھی اور سربراہ ہیں جے یو آئی کے بھی ان سے ہم بات کرتے ہیں جی
 مولانا السلام علیکم
 وعلیکم السلام

سوال: سر بہت بہت شکریہ آپ نے وقت دیا اور ڈی آئی خان سے ہی وقت دیا وہاں پہ اس وقت بھی حالات اچھے نہیں ہیں اور جو اطلاعات آرہی ہیں وہ تشویش ناک ہیں تو پہلے تو آپ ہمیں یہ بتائیے کہ کیا وہاں پہ سچویشن ہے کیونکہ آپ سیاسی رہنما ہیں لوگ آپ سے رابطے میں رہتے ہیں آپ کے پاس انفارمیشن ہوتی ہے کیا پاکستان کو اندازہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں معروضی جو حالات ہیں سیکیورٹی کے وہ کیا ہیں؟

جواب: دیکھیے کیسے یہ ممکن ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ریاست کو اس کا ادراک نہیں ہے یا ریاست اس سے آگاہ نہیں ہے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہاں پر بھی ریاست موجود ہے ریاستی ادارے موجود ہیں اور اس وقت ایک لمبے عرصے سے وہ اس صورتحال سے نبردآزما ہیں یہاں ہمارے جو اپنے ڈیرا اسماعیل خان ہیں یا ٹانک ہے یا لکی مروت ہے اور پھر یہ بنوں اور آگے جا کر وزیرستان تک وہاں تو روز منظر کی بنیاد پر شہادتیں ہو رہی ہیں اور عام شہری بھی ریاستی اداروں کے اہلکار بھی سرزمین وطن کے لیے اپنی قربانیاں دے رہے ہیں تو یہ سلسلہ تھما نہیں ہے کبھی، باجوڑ سانحہ ہوا جس میں بیک وقت کوئی اس وقت تک میرے خیال میں جو اطلاعات ہیں ہمیں وہ 80 تک عوام پر شہداء پہنچ گئے ہیں، تو اس تمام تر صورتحال میں ہم تو پہلے سے ہی کہتے رہے ہیں کہ ہمیں الیکشن چاہیے اس میں بھی کہ ہم نے ساڑھے تین سال اگر پچھلی رجیم کے خلاف یعنی آزادی مارچ کیا ہے، پی ڈی ایم بنایا ہے، پی ڈی ایم کے تحت جلسے کئیں ہیں، یہ سب کچھ تو اسی نقطے کے اوپر تھا کہ ہم نے اس الیکشن کو نہیں مانا تھا اور ہم دوبارہ الیکشن مانگ رہے تھے، اب جو صورتحال آگئی ہے کہ جی تحریک کے نتیجے میں تو کوئی تبدیلی کی بجائے ہم نے عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی لانے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے ملک اتنا ڈوب چکا تھا کہ اس کو دوبارہ اٹھانے میں کوئی بڑی کارکردگی بھی ہم نہیں دکھا سکے سوائے اس کے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ پن سے بھی بچایا اور ہم نے ملک کو ٹکڑے ہونے سے بھی بچایا اس رجیم کو ہٹا کر 

سوال: دیکھیے مولانا یہ بہت اہم معاملہ ہے جو جس کی طرف آپ نشاندہی کر رہے ہیں میں اس کے اوپر بھی آتی ہوں مگر پہلے یہ جو سیکیورٹی کی بات آپ نے کی باجوڑ میں آپ کی جی آپ کی جماعت کی جو کارنر میٹنگ تھی اس کے اوپر حملہ ہوا تھا پھر بلوچستان میں ہم نے دیکھا حافظ حمداللہ صاحب کے اوپر حملہ ہوا ۔۔۔

جواب: جی ہاں حافظ حمد اللہ صاحب سے پہلے وہاں مستونگ میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس پر بھی حملہ ہوا تھا جی اور اس میں بھی کوئی 60، 70 لوگ شہید ہو گئے تھے تو یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس کو ہم آج ہی ڈسکس کر سکتے ہیں ہمارے تو اب یہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے میرے گاؤں میں پرسوں جو ہے ملٹری اپریشن ہوا ہے سارا دن جو ہے وہ گولے چلتے رہے فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے اور میں اسی دن شام کو اپنے گاؤں میں پہنچا ہوں اس وقت تو خیر صورتحال تو پھر ٹھیک تھی لیکن دن بھر سارا ایسا ہی گزرا ہے جہاں ہمیں گاؤں سے نکلنے میں دشواری ہو رہی ہے گاؤں میں داخل ہونے میں دشواری ہورہی ہے اور علاقے میں گھومنے پھرنے میں ہمیں دشواری ہو رہی ہے تو یہ چیزیں تو میں پہلے سے کہتا رہا ہوں موسم والی بات ہے اس پر مستزاد تھی اور اب زرداری صاحب نے ایک اور اضافہ کر لیا کہ خیبر پختونخواہ میں بہت سے غلط ووٹ اندراج کیے گئے ہیں بلکہ افغان شہریوں کے ووٹ اندراج کیے گئے ہیں تو یہ تو مزید تحقیق طلب مسئلہ بن گیا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے بھی کہ اس کا تحقیق کی جائے اور اگر ایسی کوئی بیرونی ملک کے شہری یہاں ہمارے ووٹوں میں داخل ہو گئے ہیں تو ان کا تصفیہ ہونا چاہیے کیونکہ وہاں ووٹ تو وہ ڈالتے نہیں ہیں پھر کون ان کا ووٹ کاسٹ کر تا ہے کون پھر اس سے وہ بکسے بھرتا ہے کیا نتیجے برآمد کرتا ہے یہی وہ چیزیں ہیں جو دراصل پچھلے الیکشن میں بھی یہ غالباً یہ دھاندلی کا ذریعہ بنے ہیں دھاندلی کا سبب بنے ہیں اور ہم شفاف الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ہمیں الیکشن ضرور چاہیے لیکن الیکشن اور شفاف الیکشن کا ماحول بھی تو چاہیے 

سوال: دیکھو اچھا یہ جو آپ نے شفاف الیکشن کی بات کی اور پھر افغان ووٹرز کی بات جو زرداری صاحب نے کی آپ ایک بہت بڑی سیاسی جماعت ہیں خیبر پختون خواہ کی بھی اور ویسے بھی لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ واقعی یہ بات درست ہے اور کیا ایسا ہے تو آپ نے پوائنٹ آؤٹ کیا اس معاملے کو کہ افغان ووٹرز رجسٹر کیے گئے تحریک انصاف کو فیسلیٹیٹ کرنے کے لیے ان کی سہولت کاری کے لئے

جواب: اس سے قبل تو ہم نے اپنے طور پر ہمارے علم میں نہیں تھا لیکن جب رات کو ہم نے جناب آصف علی زرداری صاحب کی گفتگو سنی تو ہم تو حساس لوگ ہیں اس حوالے سے اور ہمیں تو یہ چبھی ہے یہ بات لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ پہلے اس کی تحقیق تو کی جائے اس ووٹ کو تو صاف کیا جائے یہ تو نہ ہو کہ پھر اس ووٹ کو کل جو ہے کون بھگتائے گا کس طرح اس کی کاسٹنگ ہوگی اور کس طریقے سے اس سے پھر بکسے بھرے جائیں گے  تو ہمارا ووٹ جو ہے اس کو  بالکل صاف اور شفاف ہونا چاہیے اس قسم کی چیزیں اگر بھیج میں  آچکی ہے تو بالکل اس کو صاف ہونا چاہیے 

سوال: یعنی اب آپ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جیسے زرداری صاحب نے کہا کہ شفاف تحقیقات ہوں کہ افغان ووٹرز جو ہیں وہ رجسٹرڈ کیے گئے تھے منیپلیٹ کرنے کے لیے سچویشن کو فیسلیٹیٹ کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے لیے

جواب: بالکل اگر ایسا ہے جیسے کہ انہوں نے فرمایا ہے تو میں ضرور یہ کہوں گا کہ اس کو صاف ہونا چاہیے اور ایسے تمام ووٹ ختم ہو جانے چاہیے لیکن اس کی تحقیق ہونی چاہیے الیکشن کمیشن اس حوالے سے اطمینان حاصل کرے جی

سوال: لیکن مولانا اگر اس کی تحقیق ہوگی تو پھر تو 8 ، 10 دن میں معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے اور آٹھ دس دن یا 12 دن یا ایک مہینے میں آپ موسم کی بھی بات کریں تو یہ تو بہت لمبا کام ہوگا ووٹر لسٹوں والا بھی اور دیگر پتہ نہیں کہاں کہاں ہم نے منوپلیشن ہوئی ہوگی جس طرح کہ آپ کے بھی شکوک و شبہات ہیں تو اس میں تو وقت لگ جائے گا تو انتخابات تو پھر ڈیلے ہو سکتے ہیں

جواب: دیکھیے  جیسے زرداری صاحب نے بتایا ہے اگر کچھ دن مؤخر ہوتا ہے اور ہم چند دن کی تاخیر کے ساتھ ایک شفاف الیکشن ملتا ہے تو یہ کوئی بڑا سودا نہیں ہے ہم نے اتنا عرصہ انتظار کیا ہے تو چند دن اور انتظار کر سکتے ہیں اگر آئین کے مطابق آپ نے مدت کے اندر الیکشن چاہیے تھے تو ہمارے ضمنی الیکشن کو ستمبر میں ہو جانے چاہیے تھے یا خیبر پختونخواہ کی الیکشن تو کم از کم ستمبر میں ہو جانی چاہیے تھی لیکن ویسے بھی ہم نے اس لکیر کو تو کراس کر ہی لیا ہے تو اگر کراس کر لیا ہے اور اس قسم کے اہم سوالات پیدا ہو رہے ہیں تو ہم نے صرف پولیٹیکل سکورنگ کے لیے تو باتیں نہیں کرنی ہے نا جی ہم نے تو ایک حقائق تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہ ساری چیزیں موسم کا ہونا ابھی میرے خیال میں مسلم لیگ کے لوگوں نے بھی جو ہمارے شانگلہ اور پہاڑی اور برفانی علاقوں کی طرف رہتے ہیں انہوں نے بھی کہا کہ ہمارے ہاں برف ہوگی اور کافی علاقے جو ہیں وہ وہاں ووٹ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے تو جتنے ایسے عوامل ہیں اس کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہماری باتوں کو محض سیاسی بیان قرار نہ دیا جائے بلکہ ہم بالکل زمینی حقائق کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں، ہوگی کسی کا کوئی جلدی یا تاخیر میں کوئی فائدہ لیکن ہم بالکل فائدے نقصان کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے ہیں ازراہ کرم ہم نے جو 12 سال باتیں کی اور لوگ اس کو ایک سیاسی بیان سمجھتے تھے آج اس کو حقیقت تسلیم کر رہے ہیں اور تمام پارٹیاں اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں سب اس قضیے پر پہنچ گئے ہیں جو بات ہم کہتے تھے اگر ہم اس اپنے موقف میں استقامت نہ دکھاتے اور تسلسل نہ دکھاتے تو آج شاید اس پر بھی پردے پڑ جاتے اور قوم کو نظر ہی نہ آتا کہ ہم کس چیز کو قوم کے سامنے آشکارا کر رہے ہیں تو جس طرح وہ حقائق تسلیم کر لی گئی ہیں ہمارے ان باتوں کو بھی دور حقیقت تسلیم کیا جائے 

سوال: لیکن مولانا ایسا نہ ہو کہ آٹھ فروری کو الیکشن نہ ہو تو اس کے بعد پھر آپ الیکشن مانگتے رہیں آپ سڑکوں پہ آجائیں کہ الیکشن دے اور الیکشن نہ ہو یہ بھی تو پاکستان کے اندر ہوتا رہا ہے انفارچونیٹلی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ شفاف انتخابات کے لیے ڈیلے ہو سکتا ہے اگر تو کیوں نہ ہو یعنی آپ کو شفاف الیکشن زیادہ چاہیے بجائے کہ اب وقت پر ہوں تو پھر یہ تو پھر مشکل بات میں ہو سکتی ہے اگر ڈیلے ہوئے تو انتخابات

جواب: اللہ تعالی فضل فرمائے میں یہ نہیں کہتا کہ اگر الیکشن اس سے پہلے بھی ملتوی ہوئے ہیں کچھ حادثات کی وجہ سے بی بی شہید کے شہادت پر بھی تو ملتوی ہوئے تھے ان لوگوں کا ذہن اس بات کے لیے تیار رہتا ہے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر چند دن کے لیے مؤخر ہو رہا ہے اگر ناگزیر وجوہ لوگوں کو سمجھ میں نہ آئیں اور لوگ سمجھیں کہ یہ تو کوئی بہانہ تلاش کیا جا رہا ہے الیکشن سے فرار کا تو پھر لوگ تو اتنے بھی بے حس نہیں ہے ان کو فوری طور پر احساس ہو جاتا ہے اور وہ پھر پبلک روڈوں پہ بھی آتی ہے اپنے احتجاج بھی کرتے ہیں کوئی ایسا گیا گزرا زمانہ نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس ادراک نہیں ہے یا ان کے پاس احساس نہیں ہے اس وقت لوگ یہ ادراک رکھتے ہیں کہ اس قسم کے حالات زمین پر موجود ہیں اور جس طرح آج ہی ایک واقعہ ہماری ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں دراول میں ہوا ہے جس میں میرے خیال میں 20 سے 30 تک کے ہمارے فوجی جوان جو ہے شہید ہو گئے ہیں تو اتنے بڑے واقعات ہو رہے ہیں یہاں پر اور ہم بالکل اس حقیقت کا سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں ہم ٹٹھے اڑاتے ہیں مذاق اڑاتے ہیں کہ بھئی یہ تو کوئی الیکشن سے بھاگ رہا ہے نہیں قطعاً ایسی بات نہیں ہے میں نے میرے ضلعے میں پیپل پارٹی کی بھی میرے لوگ ہیں جو میرے دوست بھی ہیں اور پھر الیکشن میں بھی میرے مقابلے میں ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی اور بڑے سردار اور خوانین یہاں پر موجود ہیں جو الیکشن بھی لڑتے ہیں ہمارے دوستی بھی ہیں تعلقات بھی ہیں ان کے ساتھ اور ان سے بھی پوچھا ہے وہ بھی کہتے ہیں جی ہم کمپین کے لیے باہر نہیں نکل سکتے صرف آپ نہیں کہہ رہے ہمارا بھی یہی حال ہے جی تو اس طرح جو یہ ساری صورتحال میں آپ خود سوچیں کہ الیکشن کمیشن کو بھی تو کوئی بات کرنی چاہیے نا اس حوالے سے کہ اگر اس قسم کی صورتحال ہو تو پھر ۔۔۔

سوال: سر الیکشن کمیشن کے پاس سیاسی جماعتیں جائیں گی نا مطلب جو آپ کے تحفظات ہیں زرداری صاحب کے تحفظات ہیں پی ایم ایل این کے بھی تحفظات ہیں تو وہ الیکشن کم یشن میں آپ لوگ کیوں نہیں جاتے مطلب دیکھیں سپریم کورٹ نے تو منع کر رکھا ہے کہ آپ اس کے اوپر بات بھی نہیں کریں گے سوال بھی نہیں اٹھائیں گے کوئی ڈسکشن بھی نہیں ہوگی کسی ٹاک شو میں بھی بات نہیں ہوگی مگر جب سیاسی سربراہان اس پہ بات کریں گے تو ظاہر ہے کہ عوام کو بتانے کے لیے ہی آپ ایک فارمل طریقہ ہے کیا آپ جائیں گے الیکشن کمیشن میں کہ بھئی یہ معروضی حالات ہیں اس کے اوپر جو ہے وہ آپ سوچیں ذرا

جواب: عاصمہ بی بی ہم اس سے پہلے بھی بڑے ادب و احترام کے ساتھ جی یہ بات کر سکتے ہیں کہ ماضی میں بھی ہماری عدالتیں اپنے ایک لاڈلے کو سہولتیں مہیا کرتی رہی ہے اور بالآخر ہمیں اپنا مقدمہ شاہراہ دستور پر عوام کی عدالت میں بھی لے جانا پڑا اور آج پھر پشاور ہائی کورٹ نے جس طریقے سے اپنے لاڈلے کو نوازا ہے اور اسی فاضل جج صاحب کے استاد نے جس طرح ٹویٹ کیا ہے کہ یہ صاحب میرے شاگرد ہیں آج میرے گھر آئے تھے اور ان کے استاد کون ہیں ان کے استاد پی ٹی آئی کے آدمی ہیں تو اس سارے صورتحال کا آپ خود اندازہ لگائیں ایک طرف اپنے استاد محترم سے ملاقات اس پر استاد محترم کی سیاسی پارٹی سے وابستگی اور اس کی ملاقات کے فوراً بعد ان کو سہولتیں مہیا کرنا اور الیکشن کمشنر پر پابندی لگانا کہ وہ اس کے حوالے سے ابھی کوئی بات نہیں سنیں گے کوئی کیس نہیں سنے گا تو پھر الیکشن کمیشن کس لیے ہے اگر وہ یہ باتیں نہیں سنیں گے 

سوال: لیکن مولانا یہ تو بہت بڑا الزام ہے نا یہ تو بہت بڑا الزام ہے دیکھیں اگر کوئی شاگرد ملتا ہے اپنے ٹیچر سے تو یہ ضروری تو نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا جو ہے وہ پیغام لے گا یا اس کے اوپر عمل درآمد کرے گا 

جواب: یہ تو  وہ فیصلہ دینے میں ا احتیاط برتتے یا فیصلہ دینے میں کچھ تاخیر کرتے ہیں تاکہ فاصلہ آجاتا اور یہ ملاقات اور یہ ٹویٹ اس فیصلے پر اثر انداز ہونے کی بحث نہ چھیڑتا وہ 

سوال: تو اس کا تو مطلب یہ کہ جو کل زرداری صاحب نے کہا کہ عمران خان صاحب کو فیسلیٹیٹ کیا جا رہا ہے آپ بھی یہی بات کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو فیسلیٹیٹ کیا جا رہا ہے 

جواب: کیا جارہا ہے نہیں کل کیا گیا ہے اس کو کل کیا گیا ہے پشاور ہائی کورٹ میں اس کو 

سوال: جو فیصلہ آیا ادھر سے جو حکم آیا ہے اس کے حوالے سے آپ بات کر رہے ہیں لیکن مولانا اب آپ جو دوسری بات کر رہے ہیں سیکیورٹی والی لیول پلینگ فیلڈ کی سب بات کررہے ہیں کیا وہاں پہ آپ کو کیمپین چلانے کی کے لیے لیول پلینگ فیلڈ دستیاب ہے ہم نے دیکھا پی ٹی آئی جو ہے وہ شکوہ کر رہی تھی مگر پی ٹی آئی نے بڑے اچھے جلسے کیے وہاں پہ شیر افضل مروت صاحب جو ہیں وہ روز اچھا جلسہ کر رہے ہیں تو آپ لوگوں کو سیکیورٹی خطرات ہے یا آپ نکل ہی نہیں رہے میدان کے اندر

جواب: جلسے ایک جگہ پر ہوتے ہے جلسے ہم بھی کر لیتے ہیں اور بڑے بڑے جلسے کر لیتے ہیں ہم نے پشاور میں بہت بڑا کیا تاریخ کا عظیم الشان جلسہ کیا ہم نے کوئٹہ میں بہت بڑا جلسہ کیا ہم نے کراچی میں ملین مارچ کیا ہم نے لاڑکانہ میں بہت بڑا جلسہ کیا بہاولپور میں بہت بڑا جلسہ کیا ایک جگہ پر ایک جلسے کے لیے تو انتظامات ہو سکتے ہیں لیکن الیکشن تو گاؤں گاؤں میں ہوتا ہے وہ تو محلے محلے میں ہوتا ہے وہاں تو آپ کو ہر محلے میں پولینگ سٹیشن بنانے پڑتے ہیں ہر آدمی کو گھر سے نکلنا ہوتا ہے کارنر میٹنگیں یا کرنی ہوتی ہیں گاؤں گاؤں میں کینڈیڈیٹس نے جانا ہوتا ہے تو اس جلسے کے اوپر آپ کیوں قیاس کرتے ہیں انتخابی مہم کو اور یہاں پر جو کھیل کا برابر کا میدان جو ہے وہ کسی کو بھی مہیا نہیں ہے صرف یہ نہیں کہ جے یو آئی کو مہیا نہیں ہے یا فضل الرحمٰن کو مہیا نہیں ہے یہاں تو کسی کو بھی مہیا نہیں ہے جی

سوال: پی ٹی آئی کو بھی مہیا نہیں آپ کے خیال میں 

جواب: ابھی تک تو اللہ تعالی ان کو محفوظ رکھے ان کے حوالے سے میرا خیال میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ اسلام کو ہے نہ دین کو ہے نہ وطن عزیز کو ہے تو اللہ تعالی آئندہ بھی ان کو محفوظ رکھے ہم سب لوگوں کو جو ہے شاید اسلام کے لیے بھی خطرہ ہے ملک کے لیے بھی خطرہ ہے کچھ سمجھ میں بات نہیں آرہی ہے کہ دنیا میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے 

سوال: مولانا یہ ظاہر ہے آپ طنزاً بات کر رہے ہیں مطلب ہم وہاں پہ جو سیکیورٹی کی صورتحال ہے میں اس کے پوائنٹ آف ویو میں کہہ رہی ہوں کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف آپ کی جماعت کو یا ایک دو اور جماعتیں جو ہیں ان کو خطرہ ہے باقی تحریک انصاف کو وہاں پہ خطرہ نہیں ہے

جواب: میں خطرہ نہیں ہے کا فتوی نہیں لگا رہا ہوں خطرے میں سب ہیں اب تک جو محفوظ ہیں میں اس کی بات کررہا ہوں 

سوال: اور محفوظ کون ہیں 
جواب: آپ نے ذکر کیا 

سوال: تو پھر مولانا پھر تو اس طرح تو پھر ہم یہ سمجھیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے جو ہے وہ مخصوص گروپس ہیں جن کو کہ جو آپ لوگ الزام لگاتے رہے کہ ان کو یہاں لایا گیا دہشت گردوں کو لایا گیا یہاں پہ بسایا گیا، کیا یہ بہت دیر نہیں ہو گئی

جواب: اس حوالے سے اگر عدالت میں کھلے بندوں کے کیس چلائے جائے اور تحقیقات کی جائے اس میں بڑے بڑے چہرے سامنے آجائیں گے ریٹائرڈ لوگ بھی سامنے آجائیں گے آج کے لوگ بھی سامنے آجائیں گے ملک کے خلاف ساری سازشیں جو ہے وہ سامنے آجائیں گی یہ سب کھیل کون کھیل رہا تھا اور کیوں کر رہا تھا 

سوال: تو یہ کون سازش سامنے لائے گا مولانا یہی تو سب سے بڑا سوال ہے آپ جیسے سینیئر پولیٹیشن ۔۔۔۔۔

جواب: میں بات کروں گا تو اس کو الزام کہا جائے گا اگر ریاستی ادارے بات کرے گی تحقیقات کی بنیاد پر کرے گی گواہی کی بنیاد پر کریں گے تو پھر اس کو کہا جائے گا کہ یہ حقائق ہیں اور یہ واقعات ہیں تو میرے خیال میں اس پہ ہمیں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے نہ ہی ہمیں کسی خوف و خطر یا ملامت کو سامنے رکھنا چاہیے کھل کر ہماری ادارے جو ہیں وہ ملک دشمن عناصر کو سامنے لائے یا انہوں نے شعوری طور پر ملک دشمنی کی ہے یا لاشعوری طور پر کی ہے لیکن سب کچھ سامنے آنا چاہیے، ملک کے خلاف بہت سازشیں ہوئی ہے اور ہورہی ہیں اور کون کون اس میں شامل ہیں یہ ساری چیزیں جو ہیں ان کو چھوٹے موٹے بیانات یا چھوٹے موٹے الزامات کے تہہ میں دفن نہیں کیا جا سکتا 

سوال: مولانا مجھے یاد ہے کہ جو لاسٹ میرا آپ کے ساتھ انٹرویو ہوا تھا پی ڈی ایم گورنمنٹ میں اس میں بھی آپ نے یہ بات کہی تھی اور آپ نے اس وقت کے جو چیف تھے ان کے بارے میں بات کی تھی کہ سہولت کاری ہو رہی ہے سیاسی طور پہ بھی دیگر بھی، آپ لوگ کیا لوگوں کو یہ بتانے میں ناکام ہو رہے ہیں کہ یہ سب چیزیں کیسے ہوئی کیا ہوئی یا آپ یہ بتانا نہیں چاہتے کہ یہ کیونکہ سچ تو کہنا پڑے گا کسی نہ کسی جگہ پہ نا 

جواب: میں نے جتنا سچ بتایا ہے کسی ماں نے ابھی تک کسی کو جنا بھی نہیں ہے لیکن اس سچ کا کیا نتیجہ آج تک نکلا ہے اور سوائے اس کے کہ 10 ، 15 سال تک میرے اوپر لوگ مذاق اڑاتے رہے کہ میں کوئی ذاتی جنگ لڑ رہا ہوں میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے میری کوئی لوکل سیاسی دشمنی ہے کوئی میں کسی کی جنگ لڑ رہا ہوں کیا کیا مذاق اڑایا میرا آپ کے میڈیا نے اڑایا اور آپ کے اینکرز نے اڑایا ہیں میرا مذاق لیکن آج حقائق سامنے آگئے ہیں کچھ آگئے ہیں کچھ ابھی باقی ہیں جس کا آپ اسرار کررہے ہیں  وہ بھی آجائیں گے ان شاءاللہ کوئی ایسی بات نہیں ہے اگر ریاست سنجیدہ ہو جائے اس وقت سب کچھ جو ہے ریاست کے ستون اس میں شامل تھے اور ان کو ذرا بے نقاب کیا جائے سامنے لایا جائے کہ وہ ان چیزوں میں کیوں ملوث تھے ایسے عنصر کو ملک پر مسلط کرنا یہ کس کی سازش تھی کون سی قوت اس کے پیچھے تھی کس ایجنڈے کے ساتھ اس کو ملک کو مسلط کیا گیا اس میں ملک نشانے پر اس میں ملک کا نظریہ نشانے پر اس کی تہذیب نشانے پر اس میں ملک کی معیشت نشانے پر کچھ بھی تو نہیں چھوڑا تھا انہوں نے اور آج ہم اس سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا ہمیں 

سوال: تو بالکل مولانا یہ آپ کی باتیں بہت ساری درست ثابت ہوئی اس میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی ایک حکومت آئی بے شک 16 مہینے کے لیے آئی لیکن آپ نے بھی تو لوگوں کو اعتماد نہیں دیا آپ نے لوگوں کو یا بتایا نہیں آپ نے پرفارمنس کے حوالے سے بھی آپ کے اوپر بہت سارے سوالات ہیں تو پھر کس طرح سے لوگ یقین کریں سر 

جواب: بی بی میں نے الیکشن سے پہلے بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت آنے سے پہلے سال دو سال سے بڑے بڑے جلسوں میں کہنا شروع کر دیا تھا کہ ملک کی معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ کوئی بھی پارٹی معیشت کو اٹھانے کا دعوی نہ کرے ویسا نہیں کر سکیں گے آپ ، ہم دلدل کی طرف چلے گئے ہیں اور دلدل نام اسی چیز کا ہے کہ جس میں آپ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دھنستے چلے جاتے ہیں، اسی کا جو ہے تو سامنا کرنا پڑا پی ڈی ایم کی حکومت کو بھی لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اب ہم نے ملک کو بھی نکالنا تھا ہم نے اس فتنے کے خلاف بھی جنگ لڑنی تھی اور اس میں اتنا ضرور ہوا کہ ملک بھی ٹوٹنے سے بچا ہے اور دیوالیہ ہونے سے بھی بچا ہے اور ملک کی معیشت کو تھوڑا آگے بھی بڑھایا ہے تو اس حوالے سے 16 مہینے میں اتنا ہی ہو سکتا تھا اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 16 مہینے میں ہم نے معیشت کو آسمان پہ کیوں نہیں چڑھایا بحران سے کیوں نہیں نکالا دلدل سے کیوں نہیں نکالا تو میرے خیال میں یہ پھر ایسی ایک بیان بازی والی بات ہوگی اس کا حقائق سے تعلق نہیں ہوگا

سوال: لیکن پرسپشن ایسا بنا دیا گیا ایک تاثر ایسا قائم کر دیا گیا کہ عمران خان صاحب کی حکومت کا سارا ملبہ جو ہے وہ آپ کی اتحادی حکومت کے اوپر گرا تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ تاثر بھی مٹانے میں آپ ناکام ہوئے ہیں 

جواب: یہ تو میں نے بی بی پہلے کہا تھا عدم اعتماد سے پہلے کہ عدم اعتماد کے راستے سے نہ آئیں ورنہ سارا ملبہ آپ کے اوپر آئے گا لیکن پھر اتحاد توڑنا یہ بھی مشکل تھا اس کا بہت نقصان ہو جاتا اگر ہم الگ ہو جاتے تو اس لحاظ سے ہم بالکل تنہا ہو گئے تھے اس  رائے میں اور بڑے لوگ سب اکٹھے ہو گئے کہ چلو عدم اعتماد کے لیے حالات برابر ہیں یہاں تک کہ پھر جب 30 لوگ پی ٹی آئی کے ٹوٹ کر ان سے باغی ہو گئے اور پھر ایم کیو ایم بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گیا باپ پارٹی بھی شامل ہو گئی اب یہ لوگ تو ایک دن یا دو دن کے لیے نہیں آئے تھے نا جی تو اس لیے پھر وہ جو ہماری رائے تھی وہ دب گئی اور ورنہ ہم علی وجہہ البصیرت سمجھ رہے تھے کہ ہم ان کا ملبہ اپنے سر پہ لیں گے ان کا گند اپنے سر پہ لیں گے اور ہم کوئی زیادہ بڑی کامیابی نہیں حاصل کر سکیں گے، سو کامیابی حاصل کیے ہیں ہم نے لیکن وہ اتنی نہیں جو اس کے اثرات پبلک تک پہنچ سکے اور عام آدمی کو بھی ہم باور کرا سکتے ہیں

سوال: جی جیسے آپ کہہ رہے تھے کہ ملک ڈیفالٹ ہو رہا تھا آپ نے اس کو بچایا لیکن کیا یہ اچھا ہوتا کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے آپ کے اور زرداری صاحب کے اور میاں صاحب کے بیچ کوئی انڈرسٹینڈنگ ہے کوئی چیزوں کو آپ کو پتہ ہے کہ کیا ہے، کیا آپ لوگوں کو بتائے گئے عوام کو بتائیں گے کہ آپ تینوں کسی ایک ایسے نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں جس کا علم شاید باقی لوگوں کو نہیں ہے 

جواب: میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو فیصلے ہوتے رہے اور ہم روکتے رہے اور پھر روکنے میں ناکام ہو جاتے تھے اور سب کا ایک اتفاق رائے بن جاتا تھا اور ہم تنہائی کی طرف جاتے تھے اور اگر ہم اس پہ ڈٹ جاتے ہیں تو پھر وہ اتحاد ٹوٹ جاتا اور اتحاد ٹوٹنے کی پھر زیادہ نقصانات تھے تو یقینا ہم نے پھر اس اتفاق رائے کو قبول کیا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زرداری صاحب محترم جو ہیں وہ انیشیٹر لیتے تھے اور اس کے بعد پھر ایک اتفاق رائے بن جاتا تھا اور پھر ہمیں ان کے ساتھ چلنا پڑتا تھا اپنے تحفظات کے ساتھ ساتھ 

سوال: یعنی آپ نے زرداری صاحب کے اور نواز شریف صاحب کے فیصلوں کو پہ اس لیے چلے کہ ظاہر ہے کہ وہ اکثریتی جماعتیں تھی یعنی مجبوراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اتفاق کیا کیونکہ حالات ایسے ہو گئے تھے

جواب: جی تقریبا ایسی بات جو آپ نے تعبیر کیا تقریباً یہی ہے 

سوال: تو پھر مولانا آگے کیسے بڑھا جائے گا، آپ کے خیال میں جس دلدل کی آپ بات کر رہے ہیں، بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کا حل غیر آئینی حل میں چھپا ہے اس دلدل سے نکلنا، خدانخواستہ کیا ہم کسی غیر آئینی چیز کی طرف تو نہیں بڑھ رہے؟

جواب: میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ غیر آئینی کوئی حل ہوتا ہی نہیں! غیر قانونی کوئی حل ہوتا ہی نہیں! ہمیشہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پبلک کی کمٹمنٹ ہوتی ہے، تمام قومیتوں کی کمٹمنٹ ہوتی ہے، تمام صوبوں کی کمٹمنٹ ہوتی ہے، ملک کے ہر آبادی کی اور ہر قومیت کی کمٹمنٹ ایک آئین کی صورت میں میثاق ملی ہے یہ ہمارا، تو ایک تو آئین کے علاوہ میں کوئی حل سمجھتا ہی نہیں ہوں دوسری بات یہ کہ الیکشن ہونے چاہیے طویل المدت حکومت ہونی چاہیے پانچ سال تک اس کے پاس وقت ہونا چاہیے ایک بھاری عوامی مینڈیٹ ہونا چاہیے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ طویل المدت منصوبے بنائے جائیں تاکہ ہم اس دلدل سے نکل سکیں، یہ جو قلیل المدت اور فوراً ہم سوچتے ہیں شاید اب یہ کافی نہ ہو

سوال: تو آپ کو پیش منظر کیسا نظر آرہا ہے مثلاً یہ ہے کہ ظاہر ہے کہ مخلوط حکومت ہوگی واضح اکثریت تو کوئی جماعت نہیں لے پائے گی، بلوچستان میں خیبر پختونخواہ میں آپ کی جماعت بہت مضبوط نظر آتی ہے تو کیا آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ حکومت سازی میں باقی جماعتوں کے ساتھ آئیں یا خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائیں

جواب: دیکھیے اس پوزیشن میں تو ہم آجائیں گے اور ہمارے درمیان اعتماد بھی موجود ہے ہم نے مل کر کام کیے ہیں چاہے پیپلز پارٹی ہو چاہے دوسری جماعتیں ہوں پھر مسلم لیگ نون کے ساتھ تو ہم نے ایک لمبا اتحاد برقرار رکھا ان کے ساتھ حکومت میں رہے پھر جب وہ زیر عتاب آئے تب بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ڈٹ کر ان کے ساتھ رہے پھر یہ جو اس رجیم کا دور تھا اس پہ تو ہم فرنٹ لائن پہ لڑتے رہے اور ہم نے کبھی ایک لمحے کے لیے میاں نواز شریف کی غیر موجودگی جو ہے محسوس نہیں ہونے دی تو یہ سارا ایک باہمی اعتماد کو ہم نے اٹھایا ہے اور وہ برقرار ہے اور ہم اس باہمی اعتماد کا آنے والے مستقبل میں فائدہ ملک کو دینا چاہتے ہیں، ہم اپنے اس طاقت کی اور اس وحدت کی سرمایہ کاری ملک کے لیے کرنا چاہتے ہیں اس کو ہم آگے بڑھانا چاہتے ہیں، تو اس وقت میرے خیال میں کوئی ایسا بول نہیں ہے چاہے ریاستی ادارے ہوں چاہے سیاسی جماعتیں ہوں وہ تقریباً یکساں طور پر ملک کی بہتری کے لیے سوچ رہے ہیں اور یہی یکساں سوچ جو ہے وہ ملک کو آگے بڑھا سکے گی، آئین کی رہنمائی میں بڑھا سکے گی آئین سے ماورا بہت مشکل ہو جائے گا

سوال: لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا مخلوط حکومت کے لیے آپ تیار ہیں تو وہ پی ایم ایل این کے ساتھ آپ کا ایک انتخابی الائنس تو ہمیں نظر آتا ہے لیکن کیا کوئی پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی آپ کی انڈرسٹینڈنگ ہے اس معاملے کے اوپر

جواب: اگر چہ پیپلز پارٹی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ تو نہیں ہے اس وقت تک لیکن ایسا مخطوطہ نہیں ہے آنے والے مستقبل کے لیے لیکن ایسا ہے کہ پیپلز پارٹی سے ہم نے کوئی فاصلے بھی پیدا نہیں کیے ہیں ہم مقامی سطح پر ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش ان کے لیے بھی رکھ رہے ہیں اور میں نے تو یہ بیان پہلے بھی دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے لیے سپیس دینا ہوگا ایک دوسرے کو ہم احترام دیں یہ غیر ضروری جو ہم تنقیدیں کرتے ہیں اور پھر تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر اعتماد مجروح ہوتا ہے، ہم نے آگے جا کرجب پارلیمنٹ بنانی ہے تو حکومت ہو یا حزب اختلاف ہو انہوں نے بھی ایک مفاہمت کے جذبے سے آگے بڑھنا ہوتا ہے اور یہ ماحول ہمیں برقرار رکھنا چاہیے آئندہ کے پارلیمنٹ کے اندر، صرف حکومتی صفوں کے اندر نہیں بلکہ حزب اختلاف اور حکومتی صفوں دونوں کے درمیان ایک باہمی ربط اور اشتراک عمل کا ایک مظاہرہ کرنا ہوگا

سوال: تو مولانا جیسے 2018 کے الیکشن میں آپ نے کہا تھا کہ اسمبلی میں بیٹھنا ہی بیکار ہے اس میں نہیں بیٹھنا چاہیے پھر آپ کو بیٹھنا پڑا لیکن وہ جو انتخابات تھے کہ آپ کو نہیں لگتا کہ 2024 کے انتخابات بھی کم و بیش ویسے ہی ہوں گے پہلے ایک جماعت نہیں تھی آپ لوگوں کے لیے معاملات خراب تھے اب ایک اور جماعت یعنی کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے خاص کر کے پنجاب کے اندر جو ہے وہ بہت زیادہ مشکلات بڑھا دی گئی ہیں تو پھر کس قسم کا الیکشن ہوگا پھر وہی ہوگا پھر لوگ سڑکوں پہ آئیں گے پھر اعتماد سازی کی کوششیں کرنی پڑیں گی ہوگا کیا سر

جواب: میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ غبارے کو کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس میں ایک جعلی ہوا بھری گئی اور زمین پر اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ایسے لوگ ان کے ساتھ وابستہ ہو گئے کہ جو ملک کی تعمیر میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا جی صرف شور شرابہ اور ہاؤ ہوں ہوتا ہے اور اس کا کوئی ملکی تعمیر میں کوئی نہ ان کی ذہنیت ہے نہ ان کے سوچ ہے نہ وہ جانتے ہیں نہ وہ سمجھتے ہیں تو ایسے لوگوں کے حوالے سے ہمیں بالکل صاف لینی چاہیے اور ان کو ایک کیفر کردار تک پہنچ جانا چاہیے ایسی جماعتیں جن کا کوئی نظریہ نہیں سوچ نہیں سوچ کی صلاحیت بھی نہیں منصوبہ بندی بھی نہیں، ساڑھے تین سال میں انہوں نے ملک کی تعمیر میں ایک اینٹ تک نہیں رکھی اور اس کے باوجود ہم تو ملک کے لیے سوچتے ہیں اور ہم تو ملک کی کس کیا سوچا ہے آپ نے! جب کرنے کا وقت تھا انہوں نے کیا کیا ہے اس کے لیے! لہذا جس کی کوئی کارکردگی نہ ہو اور جس کا ایجنڈا یہ ہو کہ کشمیر کو تقسیم کیا جائے جس کا ایجنڈا یہ ہو کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے جس کا ایجنڈا یہ ہو کہ ملک کے اندر آئین میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ ماضی کے جو ترامیم ہیں وہ کلعدم قرار دے دی جائیں اور اس قسم کے نقشے جو ہیں سامنے آرہے تھے کہ ہمارے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا تھا ایسے لوگوں کا صفایا ہو جانا چاہیے، جس کا ایجنڈا ملک سے باہر کا ہے وہ باہر چلے جائیں اس کو ملک کے اندر کوئی سروکار نہیں ہے ان کا کوئی کردار نہیں ہے ملک کے اندر لہٰذا ہم اس حوالے سے بالکل واضح اور شفاف ہیں ہمیں پاکستانیت چاہیے پاکستان کی حب الوطنی چاہیے پاکستان کی ترقی اور اس کا مستقبل اور روشن مستقبل ہمارا مضمون نظر ہونا چاہیے اور اسی کے حوالے سے ہمیں سوچنا چاہیے جو لوگ اس راستے میں رکاوٹ ہیں چاہے وہ سوشل میڈیا کے اندر یا بین الاقوامی میڈیا اس کو آسمان پہ بھی چڑھائے سو پہلے بھی چڑھا چکے تھے اور ہم اس سے متاثر نہیں ہوئے سو اب بھی اگر کوئی چڑھاتا ہے ان کے اوپر اب بھی ان سے متاثر نہیں ہوں گے اور ہم اس ایجنڈے کے خلاف اپنی جنگ جاری رکیں گے۔

سوال: مولانا ظاہر ہے یہ تو بہت سارے الزامات ہیں جو کہ لگتے بھی رہتے ہیں اور آپ لوگوں کے اوپر بھی بہت الزامات لگے غداری کے لگے اور پتہ نہیں کیا کیا کونسے الزامات لگے لیکن بات یہ ہے کہ اب آگے بڑھنا کیسے کیا آپ نہیں سمجھتے پولیٹیکل ریالٹی تو ہے ایک جماعت اس کی ایک سیاسی حیثیت ہے ووٹر ہے سپورٹر ہے وہ اس ملک کے کروڑوں لوگ ہیں ان کا آپ کیا کر سکتے ہیں

جواب: ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں، کوئی کروڑوں لوگ نہیں ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اس غداری کو جس کا الزام ایک پارٹی پر لگایا گیا بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ یہ جو ہم پر الزامات لگے یہ ہمارے خلاف لگے اور ان کی جو ایجنڈا تھا اس کو سپورٹ کیا ہمارے ریاست کے لوگوں نے ریاستی قوتوں نے ریاستی اداروں کے مین شخصیات نے فرق ہے دونوں میں ایک الزام لگتا ہے اور ہم ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور ایک الزام لگتا ہے اور ان کو ریاست سپورٹ کرتی ہے یہ ہے وہ غداری جو ہمارے ملک میں ہوئی ہے اور اس کو ہم نے اب آگے نہیں بڑھنے دینا

سوال: تو اس کے لیے احتساب تو پھر ان کا بھی ہونا چاہیے جنہوں نے یہ سب سسٹم کیا جو لائے ایسے لوگوں کو یا جنہوں نے ایسے لوگوں کی پرورش کی پھر ان کا احتساب تو نہیں ہوتا مولانا

جواب: دیکھیے ہوگا ان کا احتساب کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھے گا تو ہم ان کو اس طرح زندہ رکھیں گے اور میں آپ سے بھی کہنا چاہتا ہوں اور آپ کے وساطت سے پورے ہمارے نیشنل میڈیا کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ حضرات کے تھوڑا ملک کا ساتھ اور صرف اپنے آپ کو بس ہمارے خلاف کوئی بات ہو تو آپ فریق بن جاتے ہیں ان کے خلاف پھر بات ہو تو صحافتی غیر جانبداری آپ کو فوراً پڑ جاتی ہے تو یہاں پر بھی ہمیں ملک کے حق میں جانبدار بننا پڑے گا چاہے ایک پارٹی جو ہے وہ سمجھتی ہو کہ ہمارے پاس لوگ ہیں کوئی ورکر نہیں ہے جی اگر ایک لاکھ ان کے پاس سوشل میڈیا کے ورکر ہیں اور ایک کروڑ سے زیادہ ان کے فیک اکاؤنٹس ہیں اس سے بھی زیادہ تویہ پارٹی ہے؟

سوال: تو آپ کو عمران خان کا مستقبل کیا لگ رہا ہے مولانا

جواب: ان کا نہ ماضی تھا نہ حال تھا اور نہ مستقبل ہے یہ زبردستی قوم پر مسلط کرنے والا ایک طبقہ ہے جس کو ہمیں نیست و نابود کرنا ہوگا

سوال: لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ ان کے ساتھ بات کرے جیسے ماضی میں کرتے رہیں ایسی پالیسیز تو بنتی رہی ہیں 

جواب: تو ہم نے پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور پھر بھی کریں گے ان شاءاللہ، اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی مالک نہیں ہے پاکستان کے مالک ہم ہیں اور اگر ہمیں نظر انداز کر کے وہ پھر ایسے اقدامات کا اعادہ کرے گی تو ہم ببانگ دہل یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اگر باجوا اور جنرل فیض کا مقابلہ میں نے کیا ہے تو میں آئندہ بھی اس قسم کے عناصر کا مقابلہ کر سکتا ہوں اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے۔

سوال: مولانا ایسا بھی سننے میں آرہا ہے کہ آپ امیدوار ہوں گے اگلی دفعہ صدر بننے کے نیکسٹ سیٹ اپ میں

جواب: میں ہوں یا نہ ہوں لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں رہاں ہوں اگر پیپلز پارٹی کنڈیڈیٹ نہ لاتی تو شاید ہم جیت بھی جاتے، میں پرائم منسٹر کا کنڈیڈیٹ رہاں ہوں اگر پیپلز پارٹی کنڈیڈیٹ نہ لاتی تو اس وقت تو شاید ہم جیت بھی جاتے تو اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے ہمیں  کچھ شکوے شکایتیں ہیں لیکن چونکہ مناسب کے لیے ہم نے کوئی ایسی جنگ نہیں لڑنی کہ جس سے ہم سیاست میں تلخیاں لے آئیں تو ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے ہاں اس کا دارومدار ہے آپ کے الیکٹرل کالج اور آپ اس کی پارلیمانی قوت پر کہ کیا آپ کی قوت سامنے آتی ہے لہذا اس کو ہم اگلے پارلیمانی قوت پر ہی چھوڑیں گے پہلے سے ہم فیصلے نہیں کیا کرتے

سوال: مولانا نواز شریف صاحب کی بریت بھی ہو گئی ہے آج العزیزیہ کے اندر بھی تو ان کے بارے میں کیا کہیں گے کیا وہ وزیراعظم ہوں گے چوتھی بار کے اور زرداری صاحب نے کہا ہے کہ وہ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں 

جواب: دیکھیے بات یہ ہے کہ وزیراعظم تو ہر پارٹی کا ممبر بن سکتا ہے اگر آپ پارلیمنٹ کے ممبر بن گئی تو آپ بھی بن سکتے ہیں میں بھی بن سکتا ہوں لیکن یہ اس کے پاس اکثریت ہے کہ وہی بنے گا تو اگر العزیزیہ کیس میں ان کو بریت مل گئی ہے اور فیصلہ آگیا ہے تو میں مجھے مبارکباد پیش کرتا ہوں 

جی بہت بہت شکریہ مولانا فضل الرحمن صاحب پاکستان کی تاریخ میں مولانا کا تجربہ اور ان کی سیاسی جماعت اور ان کے خاندان کی کنٹریبیوشنز بھی ہیں اور آپ نے ان کی جو ایک پولیٹیکل وزڈم ہے اس کے حوالے سے آپ نے گفتگو بھی سنی ہے 
فیصلہ آپ کا

ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
















Maulana Fazl-ur-Rehman Exclusive Interview On AAJ News With Asma Sherazi. Part-1

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, December 12, 2023



Maulana Fazl-ur-Rehman Exclusive Interview On AAJ News With Asma Sherazi. Part-2

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, December 12, 2023








0/Post a Comment/Comments