دستور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان 2023

ابتدائیہ

جمعیۃ علماء اسلام کا قیام جن مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں لایا گیا وہ اتنے کامل اور مکمل ہیں کہ ان میں کسی دور میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، البتہ بعض انتظامی امور میں نئے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔خصوصاً  مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ کی رحلت کے بعد حالات تیزی سے تغیر پذیر ہو ئے ۔ ان احوال کی وجہ سے وقتافوقتاترامیم کایہ سلسلہ ضروری سمجھا گیا ۔

 8نومبر 1982ء حضرت مولانا عبدالکریم قریشی صاحب ؒ بیر شریف اور حضرت خواجہ خان محمد صاحب ؒ کی صدارت میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں ترامیم منظور کی گئیں۔ 9/10/11 نومبر 1992ء کو مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں دستوری ترامیم کی ضرورت محسوس کی گئی ، البتہ دستور میں ترامیم واضافے کاکام مرکزی  مجلس شوریٰ کے سپرد کر دیاگیا ۔
22/23 مارچ 1994ء کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب ؒ کی صدارت میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی تجویز پر حضرت مولانا عبداللہ صاحبؒ  مہتمم مدرسہ دارالہدی بکھر کی صدارت میں ایک دستوری کمیٹی تشکیل دی گئی ۔
یہ ترامیم 23/24 اپریل 1994ء کو جامعہ مدنیہ لاہور میں قائم مقام امیر حضرت مولانا اجمل خان صاحب کی صدارت میں ہونےوالے مدرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں منظورکی گئیں۔
25/26 مئی 1997ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مرکزی  مجلس شوریٰ کے اجلاس میں دستور کاازسرنو جائزہ لینے کے لئے مرکزی ناظم عمومی مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کمیٹی نے محنت شاقہ کے بعد یکم تا 4 نومبر 1997ء کو جامعہ مطلع العلوم کوئٹہ میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ان ترامیم کی منظوری دی ۔ 9/10/11 جون 2001ء کو جامعہ اسلامیہ شاہ ولی اللہ قلات میں ہونے والے مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں دستوری ترامیم کاازسرنو جائزہ لیا گیا اور شوریٰ میں مسلسل 2 دن دستور کی ایک ایک شق پر تفضیلی بحث و تمحیص کے بعد ترامیم کی منظوری دی گئی ۔
12/13 جون 2001 ء کو قلات بلوچستان میں ہونے والے مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس میں شوریٰ کی منظورکردہ ان ترامیم کو توثیق کے لئے پیش کیا گیا ۔ معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دی گئی ۔ تاہم بعد کے پیش آمدہ حالات کے پیش نظر دستور میں چند ترامیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے 22/23/24 مئی 2004ء کو نتھیاگلی ضلع ایبٹ آباد میں مرکزی مجلس شوریٰ اور چاروں صوبائی عاملہ جات کے مشترکہ اجلاس میں مرکزی ناظم عمومی مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں چاروں صوبائی نظمائے عمومی کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کا اجلاس 2 اگست 2004ء کو اسلام آباد میں زیر صدارت مولانا عبد الغفور حیدری منعقد ہوا۔ اس میں ڈاکٹر خالد محمود سومرو ؒ (شہید)، مفتی عبد الستارؒ   ، مولانا تاج محمد خانؒ ، اور خواجہ محمد زاہدؒ   (شہید) نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔
کمیٹی نے چند دستوری ترامیم مرتب کیں ۔ بعد میں ان تجاویز کو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس 20/21 دسمبر 2004ء میں پیش کیا گیا ۔ حتمی منظوری کےلئے ان ترمیم کو مجلس عمومی کےاجلاس منعقدہ 10فروری 2005ء میں پیش کیا گیا ۔ معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دی گئی ۔
مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس جو 23/24 جمادی الثانی 1430ھ بمطابق 18/19 اپریل 2009 کو جامعہ مدنیہ لاہور میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں ایک بار پھر دستور میں ترامیم کےحوالے سے فاضل ارکین نے زبانی اور تحریری اراء پیش فرمائیں طویل بحث کے بعد مرکزی مجلس عمومی نے دستور میں ترامیم کا اختیار مرکزی مجلس شوریٰ کو دے دیا ۔ 6 شعبان المعظم 1430ھ بمطابق 26 جولائی 2009 ء کو اسلام آباد میں مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں آٹھ رکنی دستوری کمیٹی تشکیل دی کمیٹی کا اجلاس 12/13 ذیقعدہ 1430ھ بمطابق 1/2 نومبر 2009 ء کو اسلام آباد میں مولانا عبد الغفور حیدری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے اراکین مرکزی ناظم ملک سکندر خان ایڈووکیٹ، مرکزی ناظم اطلاعات مولانا محمد امجد خان ، مرکزی ناظم مالیات الحاج شمس الرحمٰن شمسیؒ  ، بلوچستان کے ناظم عمومی مولانا مفتی عبدالستارؒ  ،  سندھ کے ناظم عمومی مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو (شہید)  ؒ پنجاب کے ناظم عمومی مولانا افتخار حقانی نے شرکت کی جبکہ خواجہ محمد زاہد ؒ   (شہید) نےخصوصی طور پر شرکت کی۔  ملک بھر سے آنے والی قیمتی اراء کی روشنی میں ایک مسودو مرتب کیا گیا جو مجلس شوریٰ کے اجلاس جو اسلام آباد میں 14/15 ذیقعدہ 1430ھ بمطابق 3/4 نومبر 2009 ء کو امیر مرکزیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا میں پیش کیا گیا ۔

مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس  25/26 ربیع الاول 1436 بمطابق  17/18جنوری2015 کو جامعہ حمادیہ سکھر میں ہوا،  صدارت امیر مرکز یہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت بَرَكَاتُهُمُ الْعَالیہ نے فرمائی ،  حالات کے تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے دستوری ترامیم اجلاس میں پیش کی گئیں، بحث و مباحثہ کے بعد دستور میں ایک ترمیم منظور کر لی گئی اور دیگر دستوری ترامیم کے لئے مرکزی مجلس شوری کو اختیار دے دیا گیا،  مرکزی مجلس شوری کا اجلاس 12ربیع الثانی 1436ھ بمطابق 2فروری 2015ء کو اسلام آباد میں امیر مرکز یہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت بَرَكَاتُهُمُ الْعَالیہ کی صدارت میں منعقد ہوا،  دو دن تک مجلس شوری میں بحث و مباحثہ کے بعد معمولی ردو بدل کے ساتھ دستوری ترامیم کو منظور کر لیا گیا۔ مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس 21/22 محرم الحرام 1444ھ بمطابق 20/21 اگست 2022ء حضرت مولانا مفتی محمود مرکز ( صوبائی سیکرٹریٹ) پشاور میں ہوا،  مرکزی مجلس عمومی نے دستور کا از سر نو جائزہ لینے اور اس میں ترامیم کیلئے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری (راقم الحروف) مرکزی جنرل سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی،  جس کے ممبران مولا نا فضل علی حقانی، مولانا محمد امجد خان، محمد اسلم غوری، سینیٹر مولانا عطاء الرحمن، مولانا راشد محمود سومرو، مولاناسید آغا محمود شاہ اور مولانا محمد صفی اللہ تھے اور دستوری ترامیم کی حتمی منظوری کیلئے مرکزی مجلس عمومی نے مرکزی مجلس شوری کو اختیار دے دیا۔

اس کمیٹی کا پہلا اجلاس مورخہ 23ربیع الاول 1444ھ بمطابق 20 اکتوبر 2022 ء کو سب آفس اسلام آباد میں ہوا، بعد ازاں اسی کمیٹی کا اگلا اجلاس 23 ذی الحج 1444ھ بمطابق 12جولائی 2023ء کو سب آفس اسلام آباد میں ہوا، جو کہ تین دن تک جاری رہا، جس میں تمام دستور کا از سر نو جائزہ لے کر حتمی ترامیم کے لئے سفارشات تیار کی گئیں، جن کو بعد ازاں مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس مورخہ 30ذی الحج 1444ھ بمطابق 14جولائی 2023ء میں پیش کر دیا گیا ان سفارشات کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لے کر مرکزی مجلس عاملہ کی تائید کے بعد مرکزی مجلس شوری کے اجلاس 17محرم الحرام 1445ھ بمطابق 5 اگست 2023ء ( جو سب آفس اسلام آباد میں ہوا اور دو دن جاری رہا) میں پیش کر دیا گیا، جس میں ان سفارشات پر بحث و مباحثہ کے بعد ان ترامیم کو دستور میں شامل کر کے اس کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جو آپ حضرات کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالی اس اہم کام کیلئے سعی کرنے والے حضرات کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور دستور کو جماعت کی ترقی کا باعث بنائے ۔ آمین


(مولانا )          عبدالغفور حیدری
ناظم عمومی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

دستور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان

دفعہ نمبر  1         ( جمعیۃ کانام )

(الف)       اس جمعیۃ کانام جمعیۃ علماء اسلام پاکستان ہوگا ۔
اس کا مرکزی دفتر لاہور ، سب آفس اسلام آباد میں اور صوبائی دفاتر صوبوں کےصدر مقامات پر ہوں گے یا جہاں صوبائی مجالس طے کریں گے ۔

(ب)               اس جمعیۃ کا دائرہ عمل پورا پاکستان ہوگا ۔

(ج)                بلحاظ تبلیغ واتحاد امت مسلمہ بیرون پاکستان تک وسیع ہو سکے گا ۔

 

دفعہ نمبر   2              ( جمعیۃ علماءاسلام پاکستان کے اغراض و مقاصد )

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہوں گے ۔

    1.          علماء اسلام کی رہنمائی میں مسلمانوں کی منتشر قوتوں کو جمع کرکےاقامت دین اور اشاعت اسلام کے لئےمنظّم جدوجہد کرنا ۔ نیز اسلام اور مرکز اسلام یعنی جزیرۃ العرب اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا ۔

     2.          قرآن مجید واحادیث نبویہ علی صاحبہاالتحیتہ والسلام کی روشنی میں نظام حیات کے تمام شعبوں ، سیاسی ، مذہبی ، اقتصادی ، معاشی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی راہنمائی اور اس کے موافق عملی جدوجہد کرنا ۔

    3.           پاکستان میں صحیح حکومت اسلامیہ برپا کرنا اور اسلامی عادلانہ نظام کے لئے ایسی کوشش کرنا جس سے باشندگان پاکستان ایک طرف انسانیت کش سرمایہ داری اور دوسری طرف الحاد آفریں ،اشتراکیت کے مضر  اثرات سے محفوظ رہ کر فطری معاشرتی نظام کی برکتوں سے مستفید ہوسکیں ۔

     4.          مملکت پاکستان میں ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لئے سعی کرنا جس سے مسلمانوں میں خشیت الٰہی ، خوف آخرت ، پابندی ارکان اسلام اور فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہو سکے ۔

    5.          مسلمانان پاکستان کے دلوں میں جہاد فی سبیل اللہ ، ملکی دفاع اور استحکا م اور سالمیت کے لئے جذبہ ایثار قربانی پیدا کرنا ۔

     6.          مسلمانوں میں مقصد حیات کی وحدت فکر وعمل کی یگانگت اور اخوت اسلامیہ کو اس طرح ترقی دینا کہ ان سے صوبائی ، علاقائی، لسانی اور نسلی تعصبات دور ہوں۔

     7.               مسلمانان عالم سے اقامت دین ، اعلاء کلمتہ اللہ کے سلسلے میں مستحکم روابط کا قیام۔

    8.               تمام محکوم مسلم ممالک کی حریت و استقلال اور غیر مسلم ممالک کی مسلم اقلیتوں کی باعزت اسلامی زندگی کے لئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔

     9.          مختلف اسلامی اداروں مثلاً مساجد، مدارس، کتب خانوں اور دالالیتامیٰ کی حفاظت، اصلاح اور ترقی کی کوشش کرنا۔

 10.               تحریر وتقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتنہ انگیزی مخرب اخلاق اور مخالف اسلام کاروائیوں کی روک تھام کرنا۔

 

دفعہ نمبر3          ( شرائط رکنیت )

ہر بالغ پاکستانی شہری جمعیۃ علماء اسلام کا رکن بن سکتا ہے بشرطیکہ:

     1.           وہ جمعیۃ کے اغرض ومقاصد سے متفق ہو ۔

     2.          پانچ سالہ مدت کے لئے 50روپے فیس رکنیت ادا کرے ۔

     3.               جماعتی نظم و نسق کی پابندی اور پروگرام کو کامیاب بنانے کا عہد کرے ۔

     4.               فارم رکنیت پر کرے۔

     5.               وہ کسی دوسری  سیاسی  یا مذہبی جماعت کا رکن نہ ہو ۔

     6.          قادیانی اور لاہوری جماعت کے افراد (جوخود کو احمدی کہتے ہیں) وہ جمعیۃ کے رکن نہیں بن سکتے۔

 

دفعہ نمبر 4          ( تشکیل )

    1.          جمعیۃ علماء اسلام کی ایک مرکزی تنظیم ہو گی جس کے تحت تمام صوبائی جمعیتیں ہوں گی۔

     2.          صوبائی جمعیتوں کی تنظیم حسب ذیل صورت میں ہوگی ۔

                                           ×          ابتدائی ،  تحصیل /ٹاؤن ، ضلعی اور صوبائی

(الف)                       جمعیۃ کی ہرسطح کی تنظیم کے لئے اسی سطح پر رضاکار وں کا ایک شعبہ انصار الاسلام  ہوگا۔

    3.          مرکزی ،صوبائی ، ضلعی، تحصیل اور ابتدائی جمعیتوں کے عہدیدار درج ذیل ہوں گے۔
امیر                               1                                  نائب امیر                                     4                          

ناظم عمومی                       1                                  ناظم                                          4                        

 ناظم نشرواشاعت               1                                    ناظم مالیات                                  1                       

سالار                              1                                           کوآرڈینیٹر ڈیجیٹل میڈیا سیل             1

     4.              ہر جمعیۃ کے لئے تین مجلسیں ہوں گی ۔

(1)       مجلس عمومی          (2)      مجلس شوریٰ          (3)       مجلس عاملہ

    5.          وفاقی دارالحکومت کی جمعیۃ براہ راست مرکزی جمعیۃ کے ماتحت ہوگی اور مرکزی مجلس عمومی میں اس کا نمائندگی تین ہزار ابتدائی ارکان پر ایک رکن کے حساب سے ہو گی ۔

 

دفعہ نمبر 5          ( مجالس عمومی  جمعیۃ علماء اسلام پاکستان)

     1.          جمعیۃ علماء اسلام کا فارم رکنیت پر کرنے والے تمام ارکان ، ابتدائی جمعیۃ علماء اسلام کی مجلس عمومی کے ارکان ہوں گے اورہر ماتحت جمعیۃ سے بالائی جمعیۃ کے لئے نامزد نمائندوں پر مشتمل اس جمعیۃ کی مجلس عمومی ہوگی ۔

     2.          ابتدائی جمعیۃ کے ہر تیس (30)  ارکان پر ایک رکن تحصیل کی جمعیۃ کے لیے ، تحصیل کے ہر دو ارکان پر ایک رکن ضلعی جمعیۃ کے لئے ، اور ضلع کے ہر دس ارکان پر ایک رکن صوبائی جمعیۃ کے لئے اور صوبائی جمعیۃ کے ہر پانچ ارکان پر ایک رکن مرکزی جمعیۃ کے لئے بطور رکن مجلس عمومی نامزد ہوگا۔

نوٹ:      رکن سازی کی مدت ختم ہونے کے بعد رکن بننے والا کوئی شخص انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گا ۔

     3.          مقامی جمعیۃ کے عہدے اور ضلعی مجلس عمومی کی رکنیت کےلئے کم از کم دو سال ابتدائی رکن ہونا ضروری ہوگا ۔ جس مقام پر ابتدائی جمعیۃ پہلی بار تشکیل ہوگی وہ اس شرط سے مستثنیٰ ہوگی ۔ صوبائی اور مرکزی مجلس عمومی کی رکنیت کے لئے پانچ (5) سال سے ابتدائی رکن ہونا ضروری ہوگا۔

 

دفعہ نمبر 6          ( ناظم انتخابات )

     1.          مرکزی مجلس عاملہ کے انتخاب کی تاریخ سے پانچ سال کی مدت پوری ہونے پر آئندہ پانچ سالہ مدت کے لئے ناظم انتخابات مرکزی مجلس عاملہ مقرر کرے گی۔

(دو جماعتی انتخابات کی درمیانی مدت پانچ سال ہوگی)

     2.          مرکزی ناظم انتخابات صوبوں کے لئے ، صوبائی ناظم انتخابات ضلعوں کے لئے  اور ضلعی ناظم انتخابات تحصیل/ٹاؤن کے لئے ناظم انتخابات مقرر کریں گے ۔

     3.          اسی سطح کا ناظم جماعتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا البتہ انتخابات کے بعد ہر سطح کے ناظم انتخابات کو اس سطح کی مجلس عاملہ میں بمنشا دفعہ 9 ضلعی دفعہ  5 مناسب عہدے پر نامزد کیا جا سکتاہے ۔

     4.          ماتحت جمعیۃ کی مجلس عمومی سے بالائی مجلس عمومی کے لئے دستور کے مطابق ارکان کا چناؤ اسی سطح کے ناظم انتخابات کی ذمہ داری ہوگی ۔ بوقت ضرورت اگر ناظم انتخابات کو ناموں کے چناؤ میں دقت در پیش ہو تونو منتخب  امیر اور ناظم عمومی سے مشورہ لے سکتا ہے ۔

     5.               محرم ، صفر ، ربیع الاول اور ربیع الثانی میں رکن سازی ہو گی ۔

     6.          جمادی الاولیٰ ، جمادی الاخریٰ  اور رجب میں ابتدائی تحصیل/ٹاؤن اور ضلعی جبکہ شعبان میں صوبائی اور شوال میں مرکزی عہدیداروں کے انتخابات ہوں گے۔

     7.          امیر مرکزیہ حسب ضرورت اس شیڈول میں ایک سال کی توسیع کر سکتے ہیں۔

     8.               نظمائے انتخابات حسب ضرورت اپنے لئے معاونین مقرر کر سکتے ہیں ۔

     9.          ہر سطح کا ناظم انتخابات اس سطح کے انتخابات سے قبل بالائی ناظم انتخاب کو 15 دن قبل مکمل حساب اور ریکارڈ حوالہ کرنے کا پابند ہوگا۔

 

دفعہ نمبر 7          ( انتخابات کے لئے ضروری قواعد )

     1.          مرکزی ناظم انتخابات مرکزی امیر کے مشاورت سے رکن سازی و انتخابات کا طریقہ کار طے کرے گا اور اس کے لیے اصول و ضوابط وضع کرے گا۔  

     2.          فارم رکنیت کا ایک پرت ، جس پر مختصراً  اغراض و مقاصد درج ہوں گے پُرکر کے رکن کو دیا جائے گا ۔ دوسر ا پرت ضلعی اور صوبائی جمعیۃ کی وساطت سے مرکز کو بھیجاجائے گا۔مرکزی دفتر میں پرت محفوظ رکھے جائیں گے۔

     3.               ہر سطح کی تنظیم کے لئے لازم ہوگا کہ وہ اپنے ارکان اور ماتحت جمعیتوں کے ارکان کا رجسٹر میں اندراج کرے ۔ارکان کی فہرست کی نقل بالائی جمعیۃ کو بھیجنالازم ہوگا۔

     4.               ضلع اور صوبہ کی سطح پر انتخابات کے لئے انتخابات سے کم از کم پندرہ دن پہلے تاریخ کا تعین ضروری ہے ۔جس کی اطلاع بذریعہ خطوط کرنی ہوگی۔

     5.          امیر خواہ مرکزی ہو یا ماتحت اس کے انتخاب کے لئے درج ذیل اوصاف کو مد نظر رکھنا ضروری ہوگا۔

(الف)                  اپنے حلقہ میں ممتاز شخصیت کا مالک ہو ، ملکی حالات سے واقف ہو ۔

(ب)            علمی ، عملی اور اخلاقی اوصاف اور امانت، دیانت ، ایثار اور استقامت کی وجہ سے اپنے فرائض باحسن وجوہ سر انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہو ۔

(ج)             نیز ارکان مجلس شوری ٰ میں بھی اوصاف بالا کا اسی طرح لحاظ رکھا جائے گا کہ یہ ارکان ان اوصاف میں دوسرے رفقاء سے ممتاز ہوں  اور جماعتی ارکان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صوم و صلوۃ کے پابند ہوں۔

     6.          ہر سطح کا ناظم انتخابات رکن سازی اور انتخابات کا ریکارڈ رجسٹرڈ میں درج کریگا۔

     7.               رکن سازی اور انتخابی عمل کے دوران انتخابی امور کے بارے میں بالائی ناظم انتخابات کو شکایات کی جاسکے گی ۔ جو شکایت موصول ہونے کے بعد پندرہ روز کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا اور انتخابی عمل مکمل ہونے کےبعد کسی بھی سطح کے انتخابات کے خلاف بالائی جمعیۃ کے امیر کو پندرہ روز کے اندر اپیل کی جاسکے گی اور بالائی جمعیۃ کاامیر ایک مہینہ کے اندر سماعت شروع کرنے کا پابند ہوگا۔

     8.                کوئی سرکاری ملازم جمعیۃ علماء اسلام کاعہدیدار نہیں بن سکتا۔

     9.               مجلس عمومی کے انتخابی اجلاس کے کورم کے لئے 3/2 ارکان کی اکثریت لازمی ہوگی۔

 10.          تمام تشکیلات میں جدید انتخاب کے وقت مجلس عمومی کا اجلاس موجودہ امیر یا اس کی عدم موجودگی میں نائب امیر کی صدارت میں شروع ہوگا۔ نئے امیر کے انتخاب کے بعد تمام کاروائی ان کی صدارت میں ہوگی۔

 

دفعہ نمبر 8          ( مجالس شوریٰ )

    1.          ہر سطح کا امیر اپنی مجلس عمومی ہی سے چند صائب الرائے حضرات کو اپنے مشورہ کےلئے نامزد کرے گا۔ جن کی تعداد بشمول عہدیداران زیادہ سے زیادہ ساٹھ (60) ہوگی۔

     2.               امیر مجلس شوریٰ نامزد کرتے وقت خیال رکھیں گے کہ ان کی مجلس شوریٰ ضلع میں 4/1علماء دین ،صوبہ اور مرکز میں 2/1حصہ علماء کا ہونا ضروری ہوگا۔ اگر کسی ضلع میں علماء کی تعداد میں کمی ہو تو اس کے لئے مرکز سے خصوصی اجازت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

تشریح:                          عالم دین سے مراد وہ مسلمان ہے جس نے کسی باقاعدہ مدرسہ عربیہ میں یا کسی مستند عالم دین سے علوم عربیہ اسلامیہ کی تکمیل کی ہو۔ اگر ضرورت پڑے تو ثبوت کے لئے سند فراغت یاکسی ایسے عالم کی تصدیق کافی ہو گی جو جمعیۃ کا کاکن ہو ۔ اس کے بغیر بھی شہرت اور عام مقبولیت کی بنا پر امیر بطور خود تصدیق کرسکے گا۔

دفعہ نمبر 9          ( مجالس عاملہ )

     1.          ہر جمعیۃ کی مجلس عاملہ اس کے عہدیداروں پر مشتمل ہوگی ۔

     2.               ابتدائی جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل کے لیے کم از کم بیس ارکان ضروری ہوں گے خواہ چند حلقے ملاکر تشکیل دی جائے ۔

     3.          تحصیل کی سطح پر جمعیۃ کے قیام کے لئے ضروری ہوگا کہ اس تحصیل میں کم از کم پانچ ابتدائی جمعیتیں موجود ہوں ۔ ورنہ ابتدائی جمعیتوں کا الحاق براہ راست ضلع سے ہوگا۔

     4.               کوئی جمعیۃ اگر ضروری سمجھے تو ملک یا علاقہ کے سربرآوردہ علماء یاصلحاء میں ایک یا اس سے زائد ، حسب ضرورت سرپرست مقرر کر سکتے ہے جن سے غیر معمولی امور میں مشورہ کیاجاسکے اور یہ سرپرست اس سطح کی جمعیۃ کی مجلس شوریٰ کے رکن متصور ہوں گے ۔

     5.          مجلس عمومی ، خفیہ پرچی (بیلٹ پیپر) کے ذریعہ آزادانہ رائے سے امیر و ناظم عمومی منتخب کرے گی ۔ باقی عاملہ امیر و ناظم عمومی ، باہمی مشورہ سے نامزد کریں گے ۔ مرکز وصوبہ میں نصف تعداد علماء کرام  کا ہونا ضروری ہے ۔

     6.          ہر سطح پر جمعیۃ کی مجلس عمومی کا کوئی رکن کسی بھی عہدیدار کے خلاف ایک تہائی ارکان کے دستخطوں کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتا ہے ، البتہ اس کی منظوری دو تہائی ارکان کی اکثریت سے ہوگی ۔

     7.          ماتحت جمعیۃ کے کالعدم ہونے کی صورت میں کالعدم عاملہ کا امیر بالائی جمعیۃ کو آگاہ کرے گا۔ بالائی جمعیۃ دو ماہ کے اندر ماتحت جمعیۃ کی مجلس عمومی کا اجلاس بلائی گی اور اپنی نگرانی میں ماتحت جمعیۃ کے امیر اور ناظم عمومی کاانتخاب کرائے گی ۔ مرکزی جمعیۃ کالعدم ہونے کی صورت میں مرکزی ناظم انتخاب دو ماہ کے اندر مجلس عمومی بلا کر نئے انتخابات کرائے گا ۔

     8.          نچلی سطح کا امیر یا ناظم عمومی اگر بالائی سطح کا امیر و ناظم عمومی منتخب ہوجائے تو اس کا نچلی سطح کا عہدہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔

 

دفعہ نمبر 10        ( نصاب )

    1.          تمام مجالس عمومی ، مجالس شوریٰ  اورمجالس عاملہ کے لئے کم از کم 3/1 ارکان کی حاضری ضروری ہے ، کورم پورا نہ ہونے کی صورت میں اجلاس ملتوی ہوگا اور ملتوی اجلاس 24 گھنٹے کے بعد 15 دن کے اندر بلانا ضروری ہوگا۔

     2.                تمام مجالس عمومی، مجالس شوری اور مجالس عاملہ کی تنظیمی مدت سن ہجری کے مطابق ہوگی۔


دفعہ نمبر11        (شعبہ جات)

مرکزی اور صوبائی جمعیۃ اپنی ضرورت کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ پاکستانیوں کےلئے درج ذیل شعبہ جات ترتیب دے سکیں گے۔

                         1.          شعبہ بین الاقوامی تعلقات                   

                         2.          جمعیۃ لائرز فورم

                         3.          جمعیۃ بزنس فورم

                         4.                   جمعیۃ اساتذہ فورم

                         5.               جمعیۃ خواتین فورم                 

                         6.          جمعیۃ ڈاکٹرز فورم

                         7.          جمعیۃ اقلیت فورم

                         8.               جمعیۃ نوجوانان فورم

 

دفعہ نمبر 12        (مجلس عمومی کے فرائض و اختیارات )

    1.            ہر سطح کی جمعیۃ کی مجلس عمومی اس جمعیۃ کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہوگا۔

     2.            مجلس عمومی کے سامنے عاملہ و مجلس شوریٰ جواب دہ ہوں گی اور اس کے فیصلے سب پر حاوی ہوں گے ۔

     3.           مرکزی مجلس عمومی جمعیۃ کے اغراض ومقاصد کی انجام دہی کے لئے موقف ، پالیسی اور طریق کار متعین کرے گی ۔

     4.                 مرکزی مجلس عمومی ہی دستور اور منشور کی دفعات کے وضع کرنے اور اس میں ترمیم و تنسیخ کی مجاز ہو گی ، البتہ دستوراور منشور کی دفعات کی ترمیم و تنسیخ کے لئے مرکزی مجلس عمومی کے 3/2 ارکان اکثریت لازم ہوگی ۔

     5.                ہر سطح کی مجلس عمومی کے فیصلے سادہ اکثریت سے ہوں گے ۔

     6.             ہر سطح کی مجلس عمومی جمعیۃ کے بجٹ کااجراء کرے گی اور سال گزشتہ کے گوشوارے کی منظوری دے گی ۔

     7.             مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس سال میں کم از کم ایک بار، صوبائی مجلس عمومی کا چھ ماہ میں ایک بار اور ضلعی مجلس عمومی کا چار ماہ میں ایک بار تحصیل مجلس عمومی کاتین ماہ میں ایک بار اور ابتدائی جمعیۃ کی مجلس عمومی کا مہینے میں ایک بار ہونا لازمی ہوگا ۔

     8.                مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس ڈیڑھ سال تک ، صوبائی مجلس عمومی کا ایک سال تک اور ضلعی مجلس عمومی کا چھ ماہ تک، تحصیل مجلس عمومی کا اجلاس چار ماہ تک اور ابتدائی جمعیۃ کی مجلس عمومی کا اجلاس دو ماہ تک طلب نہ کرنے کی صورت میں اس سطح کی مجلس عاملہ کالعدم ہوجائے گی۔ کسی بھی سطح کی عاملہ کے کالعدم ہونے کی صورت میں بالائی جمعیۃ ناظم انتخاب مقرر کرے گی جو دو ماہ کے اندر انتخابات کرائے گا۔

     9.           مرکزی و صوبائی مجلس عمومی کے معمول کے اجلاسوں کی تاریخ انعقاد سے کم از کم ایک ماہ قبل، ضلعی مجلس عمومی کے اجلاسوں کی تاریخ انعقاد سے 15 یوم قبل، تحصیل مجلس عمومی کے اجلاس کے انعقاد سے10 یوم قبل جبکہ ابتدائی جمعیۃ کے مجلس عمومی کے اجلاسوں کے انعقاد سے 5یوم قبل ناظم عمومی ہر رکن کو دعوت دےگا۔ جس میں وقت،  مقام اجلاس اور پیش نامہ (ایجنڈا) سے مطلع کرے گا ۔

 10.                  اگر ایک تہائی ارکان کے دستخطوں سے انعقاد اجلاس کا تحریری مطالبہ ناظم عمومی کے پاس بھیجا جائے تو مجلس عمومی کا خصوصی اجلاس انہی ارکان کے پیش کردہ ایجنڈے کے مطابق طلب کر لیا جا ئے گا ۔ اس اجلاس کاپیش نامہ تاریخ اجلاس سے کم از کم پندرہ دن قبل جاری ہو جائے گا ، البتہ ہنگامی اجلاس میں اگر امیر جمعیۃ چاہے تو کم مدت میں بھی اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے ، لیکن وقت اگر اس کی گنجائش نہیں رکھتا تو مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاکر فیصلہ کیا جائے گا۔اگر کوئی رکن تجویزپیش کرنا چاہے تو اسے ناظم عمومی کے پاس دس دن قبل مع عبارت تجویز بھیج دینا ضرور ی ہو گا ۔ امیر فوری طور پر ضرورتاً کوئی تجویز پیش کرنے کی اجازت بھی دے سکتا ہے ۔

11.           مجلس عمومی کے ارکان پر لازم ہوگا کہ وہ مجلس عمومی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوں اگر کوئی رکن مجلس عمومی کے مسلسل دو (2) اجلاسوں میں شریک نہیں ہوگا تو اس سطح کا امیر اس کو معطل کرسکے گا، اپنی رکنیت کی بحالی کے لئے اسی سطح کے امیر سے تحریری طور پر رجوع کرے گا۔

 

 

دفعہ نمبر 13        ( فرائض و اختیارات مجلس شوریٰ )

     1.           مجلس شوریٰ پیش آمدہ معاملات میں اپنے امیر کی مشیر ہوگی ۔

     2.            مجلس شوریٰ کا اجلاس امیر جب چاہے بلاسکے گا، البتہ چھ ماہ میں ایک بار ہونا ضروری ہوگا ۔

     3.           امیر مجلس شوری کے ارکان کی نامزدگی یوم انتخاب سے ایک مہینے کے اندر کریں گے، اور یہ نامزدگی پانچ سال کے لئے ہو گی۔

     4.           مجلس شوریٰ کے سامنے مجلس عاملہ جوابدہ ہوگی اور اس کے فیصلے مجلس عاملہ پر حاوی ہوں گے ۔

     5.                مجلس شوریٰ کےارکان پر لازم ہو گا کہ وہ مجلس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوں ۔ اگر کوئی رکن مجلس شوریٰ کےمسلسل دو اجلاسوں میں شریک نہ ہوگا تو اس کو امیر عذر پیش کرنے کاموقع دے گا اور معقول عذر پیش نہ کرنے اور تیسرے اجلاس میں شریک نہ ہونے کی صورت میں اس کا نا م خود بخود رکنیت سے خارج ہوجائے گا اگر وہ رکن عہدیدار ہو گا تو اس کا عہدہ بھی ختم ہو جائے گا۔

 

دفعہ نمبر 14        ( فرائض و اختیارات مجلس عاملہ / ماتحت مجالس و عہدیداران)

    1.           جمعیۃ کے پروگرام کی تکمیل اور اس کی پالیسی وماتحت جمعیتوں کی کارکردگی کی نگرانی ۔

     2.           مجلس عاملہ کا کوئی رکن مجلس عاملہ کے مسلسل تین اجلاسوں میں شریک نہیں ہوگا تو امیر اس سے جواب طلبی کر ے گا اور اگر وہ  رکن معقول عذر پیش نہ کر سکا تو اس کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔

    3.           اسی سطح کی جمعیۃ کی مجالس کو اپنے مصارف کیلئے ماہانہ، ہنگامی، سالانہ اور یکمشت چندہ جمع کرنے کا حق حاصل ہوگا، مگر یہ چندہ ان رسید بکوں پر وصول کیا جائے گا جو مرکزی دفتر کی طرف سے جاری ہوں گی۔ ہر سطح کی جمعیۃ کے پاس اندراج حسابات و دیگر ضروریات کے لیے درج ذیل رجسٹروں اور فائلوں کا ہونا ضروری ہے۔

1)   رجسٹر آمد و خرچ                                                 

2)              رجسٹر اندراج ممبران

3)       رجسٹر اندراج ماہانہ چندہ                                        

4)           رجسٹر اندراج خط و کتابت

5)       رجسٹر کار روائی مجالس                                           

6)     فائل برائے نقول وریکارڈ خط و کتابت

7)    رجسٹر برائے کٹنگ اخبارات                                   

8)           رجسٹر برائے اندراج اشیاء مملوک

9)           رجسٹر چارج جس میں سابق ناظم سے چارج لے کر اشیاء کا اندراج کیا جائے۔

10)           فائل برائے ریکار ڈ اخباری بیانات                                  

11)                 فائل برائے رسیدات اخراجات

12)         (الف)        رجسٹر برائے معائنہ جس میں بالائی جمعیۃ کے عہدیدار معائنہ کے بعد تاثرات کا اندراج کریں گے۔

(ب)      جدید ناظم چارج لیتے وقت جو اشیاء وصول کرے، اس کی ایک ایک نقل بالائی جمعیتوں کو بھیج دے گا۔ ہر جمعیۃ اپنے سے بالائی دفتر کو ماہانہ کارگزاری کی رپورٹ ارسال کرے گی اور اسی طرح ہر جمعیۃ اختتام سال پر ایک روائیداد مرتب کر کے صوبائی دفتر کو روانہ کرے گی جس میں سال بھر کی کارگزاری، کل آمد و خرچ اور دوران سال تبلیغی کاموں کی کیفیت اور اس کے نتائج درج ہوں گے، ہر مقامی محاسب جمعیۃ کے حسابات کی پڑتال کر کے ہر تین ماہ کے بعد رپورٹ مرتب کر کے اپنے بالائی دفتر میں روانہ کرے گا۔ حسابات کا آغاز یکم محرم سے ہوگا۔

(ج)     کوئی ناظم مالیات دستور کے خلاف نہ خود رقم خرچ کر سکتا ہے نہ ہی کسی کو رقم خرچ کرنے کی اجازت دے سکتا ہے جب تک اس کے مجاز ہونے کی قانونا تصدیق نہ ہو جائے۔

(د)               ماتحت مجالس اپنی ہی مجلس عمومی میں ایسے ذیلی قوانین وضع کر سکتی ہیں جن سے جمعیۃ کے کام کو خوش اسلوبی سے چلایا جا سکے، بشرطیکہ دستور جمعیۃ کی کسی دفعہ پر اثر انداز نہ ہو۔

 

دفعہ نمبر 15        ( امیر کے فرائض و اختیارات )

    1.           جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا امیر پورے جماعتی  نظام کا نگران ہو گا ۔

     2.           امیر مجلس عمومی ، مجلس شوریٰ  اور مجلس عاملہ کے اجلاسوں کی صدارت کرے گا اور ان کی عدم موجودگی میں کوئی نائب امیریہ فرائض سر انجام دے گا اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے امیر اور نائب امیر موجود نہ ہوں اور اجلاس باظابطہ بلایا گیا ہو تو ایسی صورت میں مجلس حاضرین میں سے کسی کو اجلاس کی صدارت کے لئے منتخب کر کے اجلاس جاری رہے گا۔

    3.                امیر کی علالت یاغیر موجودگی میں عارضی طور پر نائب امیراول قائم مقام امیر ہوگا ۔

     4.           اگرکسی وقت امیر استعفاء یا کسی دوسری وجہ سے عہد ہ امارت خالی ہو تو نائب امیراول تا انتخاب امیر قائم مقام امیر شمار ہو گااس صورت میں امیر کا انتخاب چھ ماہ کے اندر ضروری ہوگا ۔

    5.           امیر اپنی مجلس شوری ٰ کے مشورے سے کام کرے گا اور تمام اہم معاملات جو مختلف فیہا ہوسکتے ہیں جن سے جمعیۃ کی پالیسی پر اثر پڑسکتا ہے مجلس شوری ٰ میں طے ہوں گے اور فیصلہ کثرت رائے سے ہوگا۔

     6.           جن معاملات میں ارکان مجلس شوری ٰ کی رائے برابر ہو گی ۔ ان میں آخری فیصلے کا اختیار امیر کو ہو گا ۔

     7.           کسی ماتحت جمعیۃ کو توڑنا یا الحاق کرنا جمعیۃ کی تمام املاک کی حفاظت اور جمعیۃ کے مفاد کے لئے تصرف کرنا ۔

    8.                جمعیۃ کے بیت المال کو جمعیۃ کے مفاد کے لئے مجلس عاملہ کے مشورہ سے صرف کرنا ۔

     9.           مجلس شوریٰ کے ارکان کو حسب دستور نامزد کرنا ۔

 10.           بعض اہم مسائل میں مجلس شوری ٰ کی بحثوں میں بعض غیر رکن حضرات کو شرکت کی دعوت دینا جو متعلقہ مسائل میں خاص بصیرت رکھتے ہوں ۔

11.           کسی ماتحت امیر ، عہدیدار ، رکن مجلس شوریٰ یا رکن جمعیۃ کو معزول کرنا جو جمعیۃ کے اغراض و مقاصد میں وفادار ثابت نہ ہو ۔

 12.                امیر اپنی مجلس عاملہ کے نامزد ارکان یا کسی رکن شوریٰ سے منظوری لینے کے بعد اپنے عہدے سے سکبدوش کر سکتا ہے ۔

13.              اہم امور میں اپنی صوابدید کے مطابق کسی سے خط و کتابت یا گفت و شیند کرنا اور ان کے بارے میں مجلس عاملہ کے مشورہ سے کوئی اعلان جاری کرنا ۔

 14.           نظماء وعمال دفتر کے کام کی نگرانی کرنا اور شکایتوں کی سماعت کرنا ۔

15.           نائب امراء میں حسب صوابدید فرائض کو تقسیم کرنا اور ان میں درجات قائم کرنا ۔

16.           ماتحت تنظیموں کے تنازعات نمٹانا ۔

17.                اگر کسی سطح کے عہدیدار جمعیۃ کے امور میں سستی اور کاہلی سےکام لیں بالائی جمعیۃ کی ہدایت کی پروانہ کریں تو ایسی صورت میں امیر بالا کام چلانے کی غرض سے دوسرے قائم مقام عہدیدار کی نامزدگی کر سکتا ہے ۔

18.                نائب امر اءسپرد شدہ امور کو سر انجام دیں گے، جن کی ترتیب امیر اور ناظم عمومی مشورے سے کریں گے۔ 

19.                اگر کوئی جمعیۃ مقررہ وقت کے اندر بالائی جمعیۃ کے لئے نمائندوں کے چناؤ سے قاصر رہے تو امیر بالا کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی طرف سے اس جمعیۃ کے نمائندے نامزد کرے ۔

 20.           ہر جمعیۃ کا امیر ماتحت جمعیۃ کے عہدیداروں اور ارکان کے خلاف حسب ضرورت کاروائی کرسکتا ہے اور فیصلے کے خلاف اپیل ایک ماہ کے اندر بالا امیر کے پاس کی جاسکتی ہے۔

 

دفعہ نمبر 16        ( ناظم عمومی کے فرائض و اختیارات )

    1.           جمعیۃ کی طرف سے طے شدہ امور پر عمل درآمد کرنا اور ماتحت جمعیتوں کی کارکردگی کی دیکھ بھال کرنا ۔

     2.                ماتحت جمعیتوں کو مجلس عاملہ کے فیصلوں کی اطلاع دینا ۔

    3.               دفتر اور اس سے متعلق تمام کاغذات کو باقاعدگی سے رکھنا ۔ تمام فیصلوں کا ریکارڈ رکھنا اور امیر سے ان کی توثیق کرانا ۔

     4.           مجالس کے اجلاس کےلئے امیر کی ہدایت کےمطابق حسب ضابطہ پیش نامہ جاری کرنا ۔

    5.            دفتر کا عملہ اور ملازمین کی نگرانی کرنا ۔

     6.           ناظم عمومی کی تنخواہ دار ملازمین کے تقرر ، تنزل ، تعطل ، برخاستگی اور رخصت وغیرہ کا اختیار ہوگا اور اس کی توثیق امیر سے کرائی جائے گی ۔

     7.                مختلف شعبہ جات بمشورہ امیر تحریراً  ناظموں میں تقسیم کرنا ، سپردشدہ شعبہ جات کی نگرانی کرنا  اور نظماء کی درجہ بندی کرنا۔

    8.             حسب ضرورت مختلف شعبہ جات کے انچارج مقرر کرنا اور ان کے تحریراً ان کے فرائض متعین کرنا ۔

     9.               تمام ماتحت مجالس کی نگرانی کرنا اور ان کی کارگزاری سے امیر کو مطلع کرنا۔

 10.           ناظم سپرد شدہ ذمہ داریوں کو سرانجام دے گا اور ناظم عمومی کی عدم موجودگی میں نظماء و بالترتیب قائم مقام ناظم عمومی کے فراض سرانجام دیں گے۔

11.          ہر سطح کا نامظم عمومی اسی سطح کی جمعیۃ کے حسابات کو چیک کرنے کے لئے محاسب مقرر کرسکتا ہے۔  

 

دفعہ نمبر 17        ( نظم مبلغین )

چونکہ جمعیۃ کا اہم مقصد ترویج واشاعت دین اسلام ہے جو کہ جمعیۃ کے اغراض و مقاصد میں درج ہے ۔ اس لئے ہر سطح کی جمعیۃ  مبلغ مقرر کرے گی جو اس سطح کی عاملہ میں سے ہوگا،  وہی ان کے اخراجات اور نگران ذمہ دار ہوگی۔
فرائض مبلغین:
مبلغین جماعت کے اغراض ومقاصد کی اشاعت اور دینی احکام کی ترویج و اشاعت کے لئے طے شدہ علاقہ کا دورہ کریں گے ۔ ان کا پروگرام متعلقہ جمعیۃ مشورہ سے طے کرے گی ۔

 

دفعہ نمبر 18        ( شعبہ مالیات )

جمعیۃ علماء اسلام مرکزیہ کی آمدنی کی مدات حسب ذیل ہوں گے ۔

     1.          ابتدائی فیس رکنیت کی رقم پچاس فیصد مرکز کی ، پچیس فیصد صوبہ کی ، پندرہ فیصد ضلع کی اور تحصیل کی دس فیصد ہو گی ۔

     2.            مرکزی مجلس عمومی کا ہر رکن ماہوار چندہ پانچ سو (500) روپے ، صوبائی مجلس عمومی کا ہر رکن ماہوار چندہ تین سو(300) روپےضلع مجلس عمومی کاہر رکن ماہوار دو سو (200)روپے ،تحصیل مجلس عمومی کا ہر رکن ماہوار ایک سو  (100)روپے اور ابتدائی رکن ماہوار پچاس(50) روپے جماعت کو ادا کرے گا ۔

     3.          کوئی رکن کسی بالائی سطح کی جماعت کو ماہوار چندہ ادا کرنے کی صورت میں ماتحت جماعت کو چندہ دینے کا پابند نہیں ہوگا ۔

     4.          خصوصی عطیات

     5.          وہ آمدنی جو کسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد یا کسی سامان کی فروخت یا اس کے کرایہ سے وصول ہو  یہ جائیداد مرکزی جماعت کی ملکیت ہوگی۔

     6.          وہ آمدنی جو جمعیۃ کے کسی اجلاس کے سلسہ میں وصول ہو ۔

     7.          زکوٰۃ ، عشر و دیگر صدقات واجبات وقیمت چرمہائے قربانی۔

     8.          ہنگامی چندہ

 

دفعہ نمبر 19         ( ناظم مالیات کے فرائض و اختیارات )

    1.           ناظم مالیات شعبہ مالیات کا نگران ہو گا ۔چندہ جمع کرنا، آمد و خرچ کا مکمل ریکارڈ رکھنا ، اس کی سالانہ جانچ پڑ تال کرانا اس کے ذمہ داری ہو گی اور مالیات کے جملہ امور کے بارے میں مجلس عاملہ کے سامنے جوابدہ ہو گا ۔

     2.           رقوم کی وصولی بینک میں جمع کرانا ۔ امیر،  ناظم عمومی اور ناظم مالیات میں سے کسی دوکے دستخطوںسے بینک سے رقم نکلوانا۔

    3.                مرکزی ناظم مالیات ایک لاکھ روپے، صوبائی ناظم مالیات پچاس ہزارروپے  اور ضلعی ناظم مالیات پچیس ہزار روپے  اور تحصیل ناظم مالیات دس ہزار روپے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔

     4.            بینک کا حساب کتاب باظم مالیات کے پاس ہو گا ۔

    5.           ہر ابتدائی رکن پچاس /50روپے سالانہ دینے کا پابند ہو گا، جس میں سے پچاس فیصد مرکز، پچیس فیصد صوبہ، پندرہ فیصد ضلع اور دس فی صد تحصیل کو ملے گا اور اس فنڈ کی وصولی کا انتظام ہر سطح كے امیر، ناظم عمومی اور ناظم مالیات کی ذمہ داری ہو گی۔

     6.                مذکورہ  بالا سالانہ فنڈز/رقم کی عدم آدائیگی کی صور ت میں اس سطح کی مجلس عاملہ آئندہ پانچ سال کے لئے نااہل تصور ہوگی ۔

 

دفعہ نمبر 20        ( مالیات کی وصولی اور اس کی حفاظت کا انتظام )

     1.           ہر سطح کی جمعیۃ آمدنی کے ذرائع پر غور کرے گی ۔

     2.           آمدنی کی وصولی کے لئے مناسب انتظام کرے گی اور اس کے لئے محصل بھی مقرر کرسکے گی ۔

     3.           ہر بالائی جمعیۃ اپنی ماتحت جمعیۃ کی مالی حثیت کے لحاظ سے بالائی جمعیۃ کے لئے کوئی رقم ماہوار یا سالانہ مقرر کرے گی اور اس سلسلہ میں بالائی امیر کی بات قطعی تصور کی جائے گی۔

     4.          امداد کی رقوم مرکزی جمعیۃ کی رسیدات پر وصول کی جائیں گی اور یہ رسیدات ہر بالائی جمعیۃ کی وساطت سے ماتحت جمعیتوں کو ملیں گی ۔ بالائی جمعیتوں پر ان کی نگرانی اور واپسی کی ذمہ دار ہو گی ۔

     5.               اکر کوئی جمعیۃ کسی اجلاس یا ہنگامی ضرورت کے لئے چندہ جمع کر کے صرف کرے تو اس کا حساب آمد و خرچ کے رجسٹر میں باضاطہ درج کرے گی ۔

 

دفعہ نمبر 21        ( مدات مصارف )

    1.          ابتدائی جمعیتیں اپنے پاس جمع شدہ رقوم کو اغراض و مقاصد میں صرف کریں گی جس کاباضابطہ حساب آمد و خرچ کے رجسٹر میں درج کرنا ہوگا اور اخراجات کی باقاعدہ رسیدوں کاایک الگ فائل میں ریکارڈ رکھنا ہو گا ۔ آمد و خرچ کا حساب ہر تین ماہ بعد پانچ تاریخ تک ضلعی دفتر کو بھیجنا ضروری ہوگا ۔ ضلعی آمد و خرچ کا سہ ماہی گوشوارہ ہر تیسرے ماہ کی دس تاریخ تک صوبائی دفتر کو اور صوبائی جمعیۃ 18 تاریخ تک مرکز ی دفتر کوارسال کرے گی۔

     2.              ہر سطح کی جمعیۃ کا کو ئی عہدیدار جماعتی مقاصد کےلئے سفر کرے یادورہ کرے تو اس کے اخراجات سفر اسی جمعیۃ کے خزانہ سے اداہوں گے ۔

    3.          مرکزی ناظم عمومی مبلغ دو لاکھ روپے ماہانہ ، صوبائی ناظم عمومی ایک لاکھ روپے ماہانہ ، ضلعی ناظم عمومی مبلغ پچاس ہزارروپے ماہانہ ، تحصیل ناظم عمومی پچیس ہزار روپے ماہانہ اپنے دستخطوں سے صرف کر سکتے ہیں ۔ اس سے زائدرقم کے لئے امیر سے اجازت لینا ضروری ہو گا ۔

 

دفعہ نمبر 22         ( شعبہ نشرو اشاعت )

جمعیۃ کے لٹریچر ، اغراض ومقاصد ، طریق کا ر ، احکام و ہدایات اور خبروں کی تشہیر کے لئے شعبہ نشرواشاعت قائم ہو گا جس کے لئے گوشوارہ (بجٹ) میں رقم مخصوص کی جائے گی ۔

ناظم اطلاعات و نشریات (سیکرٹری انفارمشن) اس شعبے کا نگران ہوگا، جو ہر سطح کی مجلس عاملہ کا حصہ ہوگا۔

٭             ناظم اطلاعات میں درج ذیل خوبیاں ہونی چاہئیں۔

    1.          صحافت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہو۔

     2.          تعلقات عامہ میں مہارت رکھتا ہو۔

    3.          اردو زبان اور علا قارئی زبانوں پر عبور حاصل ہو۔

     4.          انگریزی زبان سے واقف ہو۔

٭             اس شعبے کی درج ذیل ذمہ داریاں ہوں گی۔

     1.          عوام اور کارکنان کو اخبارات ورسائل، پریس کانفرنسز اور سیمینارز کے ذریعےجماعتی پالیسی سے آگاہ کرنا۔

     2.               ناظم عمومی کی مشاورت سے مجالس کے اجلاسات کیلئے دعوت نامے جاری کرنا اور جماعتی فیصلوں سے ذیلی تنظیموں کو آگاہ کرنے کیلئے سرکولر ز جاری کرنا۔

     3.               جمعیۃ کے زیر انتظام شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل کی نگرانی کرنا۔

     4.          جمعیۃ کا لٹریچر شائع کرنا اور ملکی اخبارات اور جرائد کو جمعیۃ کے اغراض و مقاصد کیلئے ہمنوا بنانا۔

     5.          شعائر اسلام کے خلاف ملک میں ہونے والی سازشوں کی نشاندہی کرنا اور رائے عامہ کو ہموار کرنا۔

     6.               ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں نمائندگی کیلئے زیر بحث موضوع کے متعلق پارٹی کے اسی شعبے کے ماہر کو ذمہ داری تفویض کرنا۔

     7.          پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کو پارٹی موقف سے آگاہ کرنے کیلئے ملاقاتیں کرنا اور پارٹی قیادت سے بھی ملاقاتیں کرانا۔

 

دفعہ نمبر23         ( ڈیجیٹل میڈیا سیل )

اس وقت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا دن بدن ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، جس سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا آہستہ آہستہ تنزلی کی طرف جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر ویب سائٹ، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک وغیرہ کیلئےڈیجیٹل میڈیا تشکیل دیا جا رہا ہے۔

اغراض و مقاصد

     1.          ہر سطح کا ڈیجیٹل میڈیا سیل اس سطح پر سوشل میڈیا کا ایک جامع نیٹ ورک تشکیل دے گا۔

      2.          اس نیٹ ورک کو ہر شہر اور گاؤں تک پھیلایا جائے گا۔

      3.            اس   سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے جمعیۃ علماء اسلام کا پیغام پاکستان کے کونے کونے میں پہنچایا جائے گا۔

قواعد و ضوابط

     1.          مرکزی جمعیۃ کے ماتحت ایک ڈیجیٹل میڈیا سیل ہوگا۔

     2.          یہ ڈیجیٹل میڈیا سیل براہ راست مرکزی امیر کی نگرانی میں کام کریگا۔

     3.                اس ڈیجیٹل میڈیا سیل کا ایک کو آرڈینیٹر (نگران) ہو گا اور اس کے ساتھ آٹھ (۸) رکنی کمیٹی ہوگی جس میں چار (۴) ممبران کا تقرر مرکزی امیر خود اور چار (۴) کا تقرر صوبائی امیر/ ناظم عمومی کی مشاورت سے ہر صوبے سے ہوگا۔

     4.          مرکزی ڈیجیٹل میڈیا سیل کی زیر نگرانی صوبائی ڈیجیٹل میڈیا سیل قائم کئے جائینگے۔

     5.                صوبائی ڈیجیٹل میڈیا سیل کا بھی کو آرڈینیٹر ہوگا اور اس کے ممبران کی تعداد پانچ (۵) سے زائد ہوگی۔

     6.          صوبائی ڈیجیٹل میڈیا سیل کے کوآرڈینیٹر اور ممبران کا تقرر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا سیل صوبائی امیر /ناظم عمومی کی مشاورت سے کرے گا۔

     7.          صوبائی ڈیجیٹل میڈیا سیل تمام اضلاع میں مرکزی میڈیا سیل کی مشاورت سے کوآرڈینیٹر کا تقرر کرے گا اور وہی ضلعی کوآرڈینیٹر، صوبائی ڈیجیٹل میڈیا سیل کی مشاورت سے تحصیل کوآرڈینیٹر کا تقرر کرے گا۔

     8.            تحصیل کوآرڈینیٹر ہی اس ضلع کی ڈیجیٹل میڈیا سیل کے ممبران ہونگے۔

     9.           ہر سطح کا سیکرٹری اطلاعات اس سطح کی ڈیجیٹل میڈیا سیل کا بلحاظ عہدہ رکن ہوگا۔

 10.             ہر سطح کا کوآرڈینیٹر اس سطح کی جماعت سے مربوط رہنے کیلئے اس سطح کی جماعت کے عاملہ کا رکن ہوگا۔

 11.          کسی بھی سطح کے ڈیجیٹل میڈیا سیل کے قیام کے بعد اس میں تغیر و تبدیلی کا اختیار بالائی نظم کو ہوگا اور دوبارہ تشکیل میں وہی اصول لاگو ہوں گے جو ابتدائی تقرری میں درج ہیں۔

 12.               مرکزی اور صوبائی ڈیجیٹل میڈیا سیل کا کوآرڈینیٹر یا رکن بننے کیلئے سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم سے مکمل آگاہی/ فعالیت اور اس میں مہارت لازمی ہوگی۔

 13.               تحصیل اور ضلع کے کوآرڈینیٹر کی یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک سمیت اس طرح کے تمام اکاؤنٹس پر فعالیت اور جماعتی کام کو دیکھا جائے گا جو ان تمام اکاؤنٹس کو چلانے میں ماہر ہو اور ان تمام اکاؤنٹس پر موجودگی کے ساتھ تنظیمی کام کی تشہیر میں باقی ساتھیوں سے آگے ہوگا اس کو تحصیل اور ضلع میں کو آرڈینیٹر لیا جائے گا، تحصیل و ضلع کے کوآرڈینیٹر کے لیے دو (۲) سال جماعتی وابستگی شرط ہوگی۔

 

دفعہ نمبر24         ( نظم و دفتر )

دفتر کے لئے ایک مستقل ناظم ہو گا جس کی تحویل میں دفتر کا تمام اثاثہ ہوگا اور اس کے ذمہ مندرجہ ذیل امور ہوں گے ۔
آمدہ خطوط و کاغذات کا وصول کرنا ،مشورہ طلب امور کا مشورہ کے بعد جواب لکھنا ، ضروریا ت دفتر کی خرید ، مطبوعات کی تقسیم ، مہمانوں کی خدمت اور ان کی مطلوبہ معلومات بہم پہچانا، ماتحت مجالس اور عہدیداروں سے رابطہ قائم رکھنا ،دفتر کے عملہ کی نگرانی اور مشاہرات کا تقسیم کرنا ، ہدایات اور احکام کو اپنی نگرانی میں تحریر کرواکے متعلقہ اشخاص تک پہنچانا۔

 

دفعہ نمبر 25        (شعبہ انصار الاسلام )

رضاکارانہ شعبہ، جماعتوں کی روح تصور کیاجاتاہے ۔ اس لئے جماعتی نظم کو بروئے کا لانے کے لئے انصار الاسلام کا شعبہ ہوگا، جس کے لئے درج ذیل ضوابط طے کیے گئے ہیں ۔

    1.          ہر مسلمان پابندصوم و صلوٰۃ ، مستعد اور باہمت نوجوان جو جمعیۃ علماءاسلام کا رکن ہو انصار الاسلام کا رکن بن سکے گا ۔

     2.               شعبہ انصار الاسلام نظم جماعت کے ماتحت ہو گا ، البتہ مرکزی سالار اپنا خاص نظام ترتیب دےسکے گا جس کی منظوری مرکزی امیر مجلس عاملہ سے مشاورت کے بعد دے گا ۔

الف)                      انصار الاسلام کے عہد یدار حسب ذیل ہوں گے
مرکزی سالار / صوبائی سالار / ضلعی سالار / مقامی سالار / تحصیل سالار

          ب)                       مرکزی، صوبائی اور ضلعی سالار اپنی سہولت کے لئے اپنی صوابدید پر معاونین کا تقرر کر سکیں گے ، لیکن یہ معانین متعلقہ مجلس عاملہ کے رکن نہیں ہوں گے ۔

    3.               انصار الاسلام کی وردی حسب ذیل ہوگی ۔
خاکی رنگ کی دو پاکٹوں والی قمیض اور شلوار ۔ گرم کپڑے کی گول خاکی ٹوپی جس پر دھاری دار بیج ہو گا اور سیا ہ رنگ کا جوتا ۔

     4.              تربیت یافتہ رضاکاروں کے لئےپٹی دہری ہوگی ۔

    5.               انصار الاسلام کے بیج پر خواہ کپڑے کا ہو یا کسی اور چیز کا عہدہ اور حلقہ بھی درج ہو گا ۔

     6.          کسی سطح پر انصار الاسلام اپنی فوری ضرورت کے لئے رقم جمع کرنا چاہیں تو متعلقہ امیر کی اجازت سے کر سکتے ہیں ۔بشرطیکہ جمعیۃ علماء اسلام  پاکستان کی رسیدبکوں پر وصول کر کے اسی سطح کی جمعیۃ کے خازن کوآمد و خرچ کا باضابطہ  حساب دینے کا پابند ہوں گے۔

     7.               ہر سطح کا سالار ہر ماہ کی دس تاریخ تک اپنی کارکردگی کی رپورٹ اپنی سطح کے امیر کو پیش کرے گا۔

    8.               ہر اجتماع اور کانفرنس کے موقع پر اس کی نوعیت کےمطابق ابتدائی تحصیل ، ضلعی  یا  صوبائی رضاکار اجتماع میں اجتماع کے ذمہ دار حضرات کےمشورہ سے شریک ہوسکیں گے ۔

     9.               انصار الاسلام کے ہفتہ وار ،ماہوار، سہ ماہی ، ششماہی اجتماعات اور باہمی تبادلہ خیالات و ترتیب کے لئے بالائی سالار ہدایا ت جاری کر سکیں گے ۔

 10.            اجتماعات یا خاص مواقع پر فرائض کی انجام دہی کے وقت کوئی ماتحت سالار یا رضاکار فرائض سے غفلت برتتےہوئے پایا جائے گا تو اس موقع کا نگران یا بالائی سالار اس سالار یا رضاکار کو معطل کرسکے گا ۔ اور اس کی جگہ ذمہ دار کسی بھی دوسرے سالار یا رضاکار کو سونپ سکے گا اور اس کی اطلاع اس سطح کی جمعیۃ کے امیر کو دے گا جو واقعہ کی تحقیق کے بعد اسے بحال یاسبکدوش کرسکے گا۔

11.               انصارالاسلام کے سالار، رضاکارکسی بھی سطح کی سرگرمی کے لئےاسی سطح کے امیر اور ناظم عمومی کی اجازت کے پابند ہوں گے۔

 

 

دفعہ نمبر26         ( پرچم )

جمعیۃ علماء اسلام کا پرچم سفید اور سیاہ دھاریوں والا ہوگا جس کی تفصیل حسب ذیل ہوگی۔

   ×          پرچم ساڑھے چار فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا ہوگا جس میں کل نو دھاریاں ہوں گی پانچ پانچ انچ کی پانچ سیاہ دھاریاں اور اڑھائی انچ کی چار سفید دھاریاں ہوں گی ۔ اوپر اور نیچے کی دھاریاں سیاہ اور درمیان والی  دھاریاںسفید ہوں گی ۔

 

دفعہ نمبر 27        ( مونوگرام)

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا مونوگرام کروی ( گول دائرے کی )شکل کا ہوگا، جس کے درمیان میں سیاہ لکیروں پر مشتمل گلوب (زمین کا نقشہ)  ہوگا۔ گلوب کے درمیان میں پرچم جمعیۃ اور دونوں طرف عمودی شکل میں سنہری تلواریں ہوں گی، تلواروں کی نوکوں کے درمیان ایک ستارہ ہوگا جس میں عربی رسم الخط میں ”اللہ اکبر“ لکھا ہوگا۔ تلواروں اور گلوب کے درمیان دونوں جانب گولائی میں گندم کے سبز رنگ کے خوشے ہوں گے، دونوں خوشوں کے دو درمیان بالائی حصے میں ستارے کے نیچے عربی رسم الخط میں ”ید الله على الجماعة“ اور نچلے حصے میں انگلش  میں JUI   لکھا ہوگا جبکہ گلوب کے نیچے تلواروں کے دستوں کے در میان لیبل نما خالی پٹی ( نیم گول) میں سیاہ رنگ میں (عربی رسم الخط میں) جمعية علماء اسلام پاکستان لکھا ہوگا۔

 

دفعہ نمبر 28        ( مجلس فقہی )

     1.          جیدعلماء کرام پر مشتمل مجلس فقہی ہوگی جس کے کم ازکم پانچ ارکان ہوں گے یہ مجلس براہ ر است امیر کے ماتحت ہوگی ۔

      2.          اس کے دو(2) درجات ہوں گے ۔ مرکزی و صوبائی  اور صوبائی کی حیثیت مرکز کے معاون کی ہوگی اور حتمی فیصلہ مرکز کا ہوگا۔

      3.          مجلس فقہی کی ذمہ دار ہوگی وہ شرعی امور میں مرکزی جمعیۃ کو مشورہ دیں گے، مجلس فقہی کا ایک مسؤل ہوگاجو ممبران میں سے ہوگا اور اسے مرکزی امیر نامزد کرے گا۔  

      4.             مجلس فقہی کا اجلاس بلانا اوران کے سامنے مسائل پیش کرنا مسؤل کی ذمہ داری ہو گی ۔

      5.               مجالس فقہی کے کام کی رپورٹ مسؤل  مجالس شوریٰ کے معمول کے اجلاسوں میں پیش کریں گے ۔

      6.              مجالس فقہی کی تشکیل اور اس میں تبدیلی کا اختیار متعلقہ امیر کو ہوگا۔

 

دفعہ نمبر 29        ( انتخابی بورڈ )

    1.          مرکزی مجلس عاملہ مرکزی انتخابی بورڈ ، صوبائی مجلس عاملہ صوبائی انتخابی بورڈ اور ضلعی مجلس عاملہ ضلعی انتخابی پورڈ ہوگا ۔

     2.          سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی حتمی نامزدگی مرکزی انتخابی بورڈ (مرکزی مجلس عاملہ) کرے گا، مرکزی انتخابی بورڈ امیدواروں کی نامزدگی کے لئے صوبوں سے سفارشات طلب کرے گا ، اگر صوبائی انتخابی بورڈ (صوبائی مجلس عاملہ) کی سفارشات پر کسی کو اعتراض ہو گا تو براہ راست مرکزی بورڈ سے رجوع کر سکتا ہے۔

    3.              بلدیاتی انتخابات کے لئے میئر کارپوریشن ، چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل، تحصیل کونسل ، میونسپل کمیٹی ، ٹاؤن کمیٹی کے امیدواروں کی نامزدگی کا حتمی فیصلہ صوبائی انتخابی بورڈ (صوبائی مجلس عاملہ) کرے گا، اور ضلعی انتخابی بورڈ (ضلعی مجلس عاملہ) امیدواروں کی تجاویز اور ترتیب صوبائی انتخابی بورڈ کو بجھوائے گا، یونین کونسل کے لئے امیدواروں کا حتمی فیصلہ ضلعی انتخابی بورڈ (ضلعی مجلس عاملہ) کرے گا، جبکہ یونٹ / یونین کونسل کی مجالس عاملہ امیدواروں کی ترتیب اور تجاویز ضلعی انتخابی بورڈ کو بجھوائیں گی، ضلعی انتخابی بورڈ کے فیصلے کے خلاف صوبائی انتخابی بورڈ کو اور صوبائی انتخابی بورڈ کے فیصلے کے خلاف مرکزی انتخابی بورڈ کو نظر ثانی کی اپیل کی جاسکے گی۔

     4.              مجلس عاملہ کا کوئی رکن اگرکسی سطح کا امید وار ہو گا تو اپنے حلقہ انتخابات کے فیصلہ کے وقت بورڈ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوگا ۔


پی ڈی ایف میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں



 

0/Post a Comment/Comments