نمائندہ مشال ریڈیو طاہر خان کی قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ خصوصی انٹرویو 05 جنوری 2024


نمائندہ مشال ریڈیو طاہر خان کی قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ خصوصی انٹرویو
 05 جنوری 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس وقت ہم جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ بیٹھے ہیں، اور ان کا افغانستان کے سفر جو ارادہ ہے اس حوالے سے بات کریں گے، وقت دینے کا بہت بہت شکریہ

نمائندہ: پہلے تو آسان لفظوں میں یہ پوچھوں گا کہ سفر آپ کی خواہش پر ہو رہی ہے یا امارت اسلامی کی طرف س آپ کو دعوت دی گئی ہے ؟
مولانا صاحب: دیکھیے جی میرا وہاں جانا فطری اور طبعی چیز ہے اور امارت اسلامی کی کامیابی، بیس سال کی قربانیوں کے بعد ان کی فتوحات ہمارے لیے بھی بڑی خوشی کا باعث تھی ان کا مجھ پر حق تھا کہ میں وہاں جاتا اور ان کے فتوحات پر ان کو مبارک باد دیتا، لیکن پھر بھی بہرحال ممالک کے اپنی ضروتیں اور مصلحتیں ہوتی ہے اور ہم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس میں ہم اپنی خواہش تو پوری کرسکے لیکن کسی دوسرے ملک کے معاملات میں ایسا تاثر دینا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہیں، تو ہماری تو خواہش تھی کہ وہ آزادی کے ساتھ جس آزادی کے لیے وہ جنگ لڑ رہے تھے مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ملک کے استحکام اور استقلال کے لیے راستے ہموار کرسکے تو اس حوالے سے ہم نے یقیناً اس سفر میں احتیاط سے کام لیا تھا، لیکن پھر بعد میں جو کچھ صورتحال ایسی بن گئی جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بن گئی تو ایسی صورتحال میں یقیناً ہم نے بھی یہ ضرورت محسوس کی اور میں امارت اسلامی کا انتہائی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے پہل کی اور مجھے باقاعدہ دعوت دی تو وہ اردو میں کہتے ہیں ناں کہ دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہے، تو اس قسم کے حوالے سے ہم اپنے تعلق کی وجہ سے یکساں احساسات رکھتے ہیں۔

نمائندہ: اچھا مولانا صاحب آپ نے بات کی کہ یہ صورتحال یہ کشیدگی پیدا ہوگئی تو اس جواب سے تو میرے ذہن میں ایک سوچ پیدا ہوگئی جس کے ساتھ آپ اختلاف بھی رکھ سکتے ہیں کہ آپ حکومتی سطح پر بحث کریں گے جس پر طالبان حکومت اور حکومت پاکستان کے تعلقات خراب ہوئے ہیں تو آپ اپنی جماعت کی طرف سے جا رہے ہیں یا حکومت کی طرف سے ؟
مولانا صاحب: بظاہر تو جمعیت علماء اسلام کی وفد جا رہی ہے لیکن جمعیت علماء اسلام کا سفر جمعیت کے حوالے سے کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک ہم دونوں ممالک کے مفاد اگے لے کر نہیں جائیں گے۔ تو اس حوالے سے میں نے پاکستان کے سٹیک ہولڈرز سے رابطہ کیا، ان کو اعتماد میں لیا۔

نمائندہ: مطلب کس کے ساتھ رابطہ کیا ؟
مولانا صاحب: وزارت خارجہ، ملک کے حکمران، تو ساری حکومت اس حوالے سے میرے ساتھ رابطے میں ہے اور کل ان کی مشاورت جو وزارت خارجہ میں ہوئی تو انہوں نے مجھے وہ ساری مشاورت، دلیل، پاکستان کیا چاہتا ہے وہ سارے تفصیلات واضح کر دیے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ہمارے اس سفر کو اہمیت دیتا ہے۔

نمائندہ: تو آپ ان کا پیغام اگے لے کر جائیں گے یا آپ کا اپنا کوئی بیان 
مولانا صاحب: ہمارا جو ان کے ساتھ تعلق ہے ہم کوشش کریں گے کہ وہ دونوں ممالک کی اچھائی کے لیے استعمال کریں اور اس میں ہماری حکومت کی جو موقف ہے، ان کے مجالس سے جو ہم نے اخذ کیا ہے یقیناً ہم وہ آگے پیش کرسکتے ہیں۔

نمائندہ: مولانا صاحب ایک موضوع جس نے تعلقات کے حوالے سے ایک منفی اثر ڈالا ہے وہ پاکستانی طالبان کا موضوع ہے جس کا آپ بھی ذکر کرتے ہیں کیوں کہ کچھ دن پہلے آپ کے قافلے پر فائرنگ ہوئی، ستر اسی کے درمیان آپ کے ساتھی شہید ہوئے، کچھ دن قبل باجوڑ میں پھر حملہ ہوا، آپ کے ترجمان پر بلوچستان میں حملہ ہوا تو حالات ٹھیک نہیں ہے تو آپ اس موضوع پر بھی یعنی ٹی ٹی پی پر افغان طالبان ک ے ساتھ بات کریں گے ؟
مولانا صاحب: امکان تو یہی ہے کہ یہ موضوع سامنے آئے گی، بہرحال جس طرح ہم ایک تعلق خیر کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ان کا بھی لوگوں کے ساتھ ایک تعلق تو ہے تو ہم ان تعلق کو بھی خیر کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔

نمائندہ: ٹھیک ہے قندہار جائیں گے کیوں کہ یہ افغانستان میں ایک سوچ ہے کہ اصل فیصلوں کا مرکز اور بڑے جو ہے وہ سب وہاں ہے تو وہاں جانے کا کوئی ارادہ ہے ؟
مولانا صاحب: جی جی بالکل انہوں نے جو باضابطہ دعوت نامہ بھیجا ہے تو وہ ان کی اجازت سے بھیجا ہے تو ان شاء اللہ ان کے امیر سے ملاقات کریں گے۔

نمائندہ: اگر آخری سوال پوچھوں تو پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان اس وقت حالات پیچیدہ ہے تو آپ مطمئن ہے کہ آپ کا سفر نتیجہ خیز ہوگا ؟
مولانا صاحب: دیکھیے جی آپ پختون معاشرے اور روایات سے باخبر ہے یہ تو فریقین پر منحصر ہے اگر ان کا ارادہ، خواہشات یہ ہو کہ ہم اپنا بھائی چارہ اور محبت بحال کریں تو پھر پہاڑ بھی مٹی میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اگر ہماری نیتوں میں فرق آگیا تو پھر معمولی مٹی بھی پہاڑ بن سکتی ہے، یہ دونوں ممالک کے ارادوں اور عزائم پر منحصر ہے، جو ظاہری اشارات ہمیں یہاں پاکستان سے ملے ہیں وہ بھی یہی ہے کہ ہمارا یہ اہم دورہ مقاصد اور اصولوں پر ختم ہو اور انہوں نے جو مجھے براہ راست دعوت دی ہے ان کی نظر میں بھی اس دورے کی اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہے۔

نمائندہ: بالکل آخری سوال بس چند سیکنڈ میں اس کا جواب دے کیوں کہ بعض لوگ طالبان کے چند فیصلوں کے خلاف ہے جو ہمارے یہاں سے دینی علماء گئے تھے انہوں نے بھی یہ بات کہی ہے، اسلامی تنظیموں نے بھی کی ہے ایا کوئی ایسی بات ممکن ہے کہ آپ وہاں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بات کریں گے کیوں کہ طالب کے حوالے سے تو آپ کا نقطہ نظر تو یہاں کچھ اور ہے تو آپ اپنی سوچ ان کے ساتھ شئیر کریں گے ؟
مولانا صاحب: دیکھیے جی میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شریعت کا کوئی سوال نہیں ہے لیکن ہر ملک اپنے داخلی معاملات، امن و امان کے حوالے سے، معشیت، تہذیب، معاشرتی اصلاحات کے حوالے سے ہر ملک حق رکھتا ہے ایران میں جب انقلاب ایا تھا تو انہوں نے کتنے عرصے تک تعلیم کا سلسلہ موخر کیا تھا، کتنا پروپیگنڈہ ان کے خلاف ہوا کہ تعلیم بند کر دی تو یہ افغانستان میں بھی ایسا نہیں ہے کہ جمہوری عمل کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے بلکہ جنگ کے نتیجے میں یہ تبدیلی آئی ہے لہذا دنیا کو کیوں تکلیف ہے کہ ہر بات کو یکدم اٹھاتی ہے اور اسے منوانے کی کوشش کرتے ہیں، پہلے ان کو ماحول برابر کرنے دے یقینا امارت اسلامی کا ایک لمبے عرصے سے ا فغانستان میں ایک کلیدی رول رہا ہے تو وہ بھی اس بات سے واقف ہیں کہ ہم دنیا کے ساتھ چلیں گے، دنیا کے ساتھ سفر کریں گے تو ان ضروتوں کو تو وہ جانتے ہیں نا، ہمیں کیا فکر ہے کہ فلس طین غزہ پر بمباری ہوگی اور اس میں بائیس ہزار بے گناہ شہری جس میں ستر فیصد معصوم بچے، خواتین مائیں اور بہنیں ہوگی اس بمباری میں جو انسان کشی ہے، نسل کشی ہے اور جنگی جرم ہے اس ماحول میں بھی لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان میں لڑکیاں سبق کیوں نہیں پڑھیں گے۔ تو ان لوگوں کو کم از کم تھوڑا سوچنا چاہیے، یہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو شبرغان میں قیدیوں کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا، گوانتاناموبے، بگرام کے تہہ خانوں میں لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، بحری بیڑوں میں لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہے، ابوغریب جیل میں کیا کیا ہے تو کیا یہ سارے مظالم انسانی حقوق نہیں تھے اب جب افغانستان میں جب وہ ایک نظام ٹھیک کر رہے ہیں اور ایک مرحلے تک ابھی نہیں پہنچے اور ایک وقت آئے گا کہ یہ پہنچ جائیں گے تو انہوں نے اس سے پہلے چیخ و پکار شروع کر دی ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق انسانی حقوق، تو میرے خیال میں ایک ملک کو اپنی حالت پہ چھوڑنا چاہیے کہ وہ فطری اور طبعی سفر کرسکے اور اسے جاری رکھ سکے تو یہ سارے معاملات ایسے ہے کہ وہ جانتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ نہیں جانتے۔

نمائندہ: بڑی مہربانی، یہ تھے جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان صاحب جن کے ساتھ ہم بات کر رہے تھے، ہماری خواہش تھی اور پوچھنے کے باوجود کہ مولانا صاحب کب افغانستان جائیں گے تو انہوں نے جواب نہیں دیا لیکن بہرحال مولانا صاحب نے کہا تھا کہ ممکن ہے کہ اگلے ہفتے وہ سفر کرے، طاہر خان اجازت چاہتے ہیں اللہ حافظ
#سہیل_سہراب
ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز/رائٹرز
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat 



.


0/Post a Comment/Comments