جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے ساتھ خصوصی انٹرویو 07 جنوری 2024


جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے ساتھ خصوصی انٹرویو

 07 جنوری 2024

سلیم صافی: بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
گزشتہ بیس بائیس سالوں کے دوران پاکستانیوں کے ایک بڑے طبقے اور اسٹیبلشمنٹ نے یہ مفروضہ اپنا لیا تھا اپنے ذہنوں میں بٹھا لیا تھا کہ افغانستان سے جب ہاسٹائل حکومتوں کا خاتمہ ہوگا اور جو وہاں پہ طالبان کو برتری حاصل ہوگی تو اس کے نتیجے میں پاکستان کا مغربی سرحد بھی محفوظ ہو جائے گا لیکن اس کے الٹ ہو رہا ہے اور ہو گیا ہے افغانستان میں طالبان کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے اور اس نے پاکستان کے اندر اپنی کاروائیاں بڑھا دی ہیں جس پہ پاکستان کے تمام اہل نظر اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ وہ حیرت زدہ بھی ہے اور پریشان بھی ہے اور اس وقت افغانستان کے سرحدیں جڑے ہوئے علاقوں میں بدامنی کی یہ صورتحال ہے کہ بعض لوگ اس کی اڑ لے کر انتخابات کے التوا کا بھی مطالعہ کر رہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان بھی تعلقات نہ صرف کشیدہ ہو گئے ہیں بلکہ رابطے بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں ان سب موضوعات پہ بات کرنے کے لیے آج ہم نے اپنے پروگرام میں زحمت دی ہے جناب مولانا فضل الرحمن صاحب کو جو کہ قائد جمیعت علماء اسلام ہے اور ان سے ہم جانیں گے کیونکہ ان کو اب طالبان کی حکومت کی طرف سے افغانستان کے دورے کی دعوت بھی ملی ہے تو ان سے ہم جانیں گے کہ ان کے اس دورے کے مقاصد کیا ہیں کیا اس سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین تناو میں کوئی کمی آسکے گی یا نہیں آسکے گی اور ساتھ اس سے جڑا ہوا جو موضوع ہے وہ ائندہ انتخابات کا ہے تو اس سے متعلق مولانا صاحب کی رائے جانیں گے کہ ان کی جماعت کا کیا نقطہ نظر ہے کہ انتخابات بروقت ہونے چاہیے یا نہیں ہونے چاہیے اور یہ جو لیول پلینگ فیلڈ کی ہر طرف سے دھائی دی جا رہی ہے تو مولانا صاحب اور ان کی جماعت اس سے متعلق کیا سمجھتے ہیں بہت شکریہ مولانا صاحب اور پہلے تو یہ بتائیے کہ امارت اسلامی افغانستان کی طرف سے دعوت تو آپ کو مل گئی ہے لیکن کیا آپ جا رہے ہیں اس کو قبول کیا ہے یا کہ نہیں الیکشن کے بعد جائیں گے ؟

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم بہت شکریہ سلیم صافی صاحب، خواہش تو میری بھی تھی جب امارت اسلامیہ دوبارہ بحال ہوئی تو ظاہر ہے یہ کہ شاید دنیا میں ایک واحد تنظیم تھی جمعیت علماء اسلام جس نے ہمیشہ فارملی، رسمی طور پر امارت اسلامیہ کی حمایت بھی کی تھی اور ہم نے بیرونی مداخلت کو جارحیت بھی کہا تھا ان کی دفاع کو جائز بھی کہا، تو ان کو فتح ملنے کے بعد ہمارے لیے یہاں پر خوشی کا احساس ایک فطری عمل تھا اور افغانستان جا کر ان کو مبارکباد دینا بھی ایک طویل خواہش تھی لیکن ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو سنبھالنا تھا، نظام کو سنبھالنا تھا، معاملات کو ٹھیک کرنا تھا تو ہم نے ایسے حالات پیدا نہیں کیے کہ ہم وہاں جاکر ان کی مصروفیت میں مدخل ہو اور ان کے جو کام کا تسلسل ہے اسے ہم متاثر کرے یا یہ تاثر ملے کہ طالبان کی حکومت کیا آگئی وہاں پر کہ اب سارے لوگ وہاں ان کی رہنمائی کرنے لگ گئے ہیں، مداخلت کرنے لگ گئے ہیں تو یہ تاثر بھی ہم بالکل نہیں دینا چاہتے تھے اور ہماری یہ بھی خواہش تھی کہ پاکستان اور افغانستان تو ہمیشہ کے لیے پڑوسی ہیں اور دنیا میں کبھی پڑوسی تبدیل نہیں کیے جاتے تو اس حوالے سے دونوں ملکوں کو بھی ایک آزادانہ انداز کے ساتھ موقع ملنا چاہیے اور کسی قسم کا کوئی سیاسی دباؤ یا سیاسی اثر رسوخ کے مداخلت کا تاثر نہیں جانا چاہیے۔
تو اس حوالے سے کچھ حالات ایسے بن گئے کہ جس کے تحت اچھا ہوا کہ امارت اسلامیہ نے ہی مجھے دعوت دی اور وہاں پر میں پھر اپنی جماعت کا ایک وفد لے کر جا رہا ہوں اور ظاہر ہے یہ کہ ہمارا یہ سفر دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان برادرانہ ممالک کے درمیان تعلقات میں صرف بہتری ہی نہیں اس کے اندر استحکام لانا بھی، تا ہم یہ ضرور ہے کہ جو کچھ ماضی میں شکوے شکایتیں ہوئی ہیں کچھ تلخیاں سامنے ائی اور ان کو دور کرنا ان چند دنوں میں تو فوری طور پر شاید ممکن نہ ہوں لیکن اس طرف پیش رفت ہو سکے گی اس طرح اس کو ہم آگے بڑھائیں گے اور پھر دونوں ملک جو ہے اپنی ذمہ داری کے احساس کرتے ہوئے اس پروسس کو آگے بڑھائیں گے۔

سلیم صافی: بنیادی وجہ تنازعہ دونوں حکومتوں کے مابین وہ ٹی ٹی پی کا ہے پاکستانی حکومت اور بالخصوص پاکستانی اسٹیبلشمنٹ انہوں نے یہ لیکر کھینچ دی ہے کہ ٹی ٹی پی ڈیلیور کریں گے تب امپرومنٹ ہوگی دوسری طرف امارت اسلامی کی طرف سے اپنا ایک عذر پیش کیا جا رہا ہے تو کیا آپ اس موضوع پہ بات کرنے جا رہے ہیں اور کچھ ڈلیور کروا سکیں گے ان سے ؟
مولانا صاحب: بات جو آپ نے کی ہے وہ اس میں تو ٹھیک ہے اس حد تک ضرور ہے کہ پاکستان میں جو کچھ واقعات کا تسلسل چل رہا ہے اور جگہ جگہ پر حملے ہو رہے ہیں فوج پر، پولیس پر، پولیس چوکیوں پر، تھانوں پر تو اس سے شکایتیں ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن یہ کہ تعلقات یا مذاکرات یا گفتگو کا محور صرف اس کو بنایا جائے یہ میرے خیال میں سٹریٹیجکلی بہتر نہیں ہوگا ہمیں دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے مختلف جو پہلو ہے ہمارے سامنے، معاشی پہلو ہیں تجارتی پہلو ہیں بہت سے پروجیکٹس ہیں جس پر ہم مل کر کام کر سکتے ہیں اور جب ہم ہمہ جہت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گے تو یہ چیز ساتھ ساتھ خود بخود حل ہوتی جائے گی بجائے اس کے کہ ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اور مسائل کو حل کریں اور یہ کہیں کہ تم اس کے ذمہ دار ہو اور دوسرا کہے میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں اور اس بحث پہ ہم الجھے رہیں تو ہم اس کو ایک وسیع تر ماحول دیں اور وسیع تر ماحول میں ہم اس کو بھی اس حالات کی بہتری کے لیے راہ ہموار کرسکے۔

سلیم صافی: اچھا آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے تو یہ مینڈیٹ ملا ہے یا حکومت پاکستان سے آپ نے کوئی مشورہ کیا ہے حکومتی لوگوں نے آپ کو اس حوالے سے کوئی این او سی دیا ہے ؟
مولانا صاحب: اس حوالے سے میں اپ کو واضح کر دوں کہ ہم نے پاکستان کی حکومت کو آگاہ کیا کہ ہمیں ایک دعوت ملی ہے اور ہم نے اس تعلق کو پاکستان کی بہتری اور افغانستان کی بہتری کے لیے اور دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات کے لیے اور استحکام اور استقلال کے لیے اس تعلق کو استعمال کرنا چاہیں گے تو ہم آپ کو اعتماد بھی رہنا چاہتے ہیں اور آپ کی اس سلسلے میں اگر ہمیں کوئی مشورہ دینا چاہیں یا ہماری کوئی رہنمائی کرنا چاہیں تو ہمارے دل کھلے ہوئے ہیں اس کے لیے، چنانچہ وزارت خارجہ میں ہمیں باقاعدہ بریفنگ دی گئی اور جو مسئلے مسائل آپس میں ہیں تو اس حوالے سے پاکستان کے جو صورتحال ہے یا پاکستان کا جو موقف ہے وہ ہمیں بتائی ہوئی ہے ظاہر ہے وہ ہمارے ذہن نشین ہوگی۔

سلیم صافی: وہاں پہ عموما ہم نے ابھی تک دیکھا ہے کہ جتنے بھی پاکستانی حکام گئے ہیں یا باقی غیر ملکی وفود وہاں پہ آتے ہیں تو ان کی صرف کابل میں ہی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور جو طالبان کے امیر المومنین ہیں وہ اج تک کسی بھی غیر ملکی سے ظاہرا نہیں ملے ہیں تو آپ کی ملاقات کیا امیر المومنین سے بھی ہوگی یا کہ نہیں ؟
مولانا صاحب: دیکھیے دعوت تو مجھے ملی ہے امارت اسلامیہ کی طرف سے، اب ہیڈ تو وہ ہیں لیکن ہمارا جانا بہرحال کابل ہوگا کابل میں جو ان کی وزیراعظم ہیں ان کی کیبنٹ ہے ان کی شوریٰ کے اہم شخصیات ہیں ان سے گفتگو ہوگی اور پھر اس کو آگے بڑھائیں گے اور اب ان کی وہاں پر کیا سٹریٹجی ہوگی اس کو ہم وہاں پر دیکھیں گے۔

سلیم صافی: ایک تو ظاہری بات ہے کہ ابھی ان کی طرف سے کچھ مطالبات یا جو ان کی خواہشات ہیں وہ اپ کے ذریعے وہ چاہیں گے کہ پاکستانی حکومت تک کانوے کرے تو پاکستانی حکومت یہ جو بریفنگ اپ کو ملی ہے تو اپ یعنی کیا پیغام پاکستانی حکومت کی طرف سے لے کر جائیں گے کوئی لچک اپ کو کسی سائڈ سے نظر آئی ہے ؟
مولانا صاحب: جی اصل میں لچک بھی پیدا کرنی ہے یعنی ہم یہ چیز تو ضرور لوگوں کو باور کرائیں گے کہ حالات ایک دوسرے کے باہمی تعاون کے متقاضی ہے ایک دوسرے سے باہمی تصادم کے متقاضی نہیں ہے اور بیس سال بھی جو گزرے ہیں وہ ایک بہتر مستقبل کے امید میں گزرے ہیں نہ یہ کہ ہم پہلے سے بھی برے حالات کی طرف چلے جائیں تو اگر کرزئی صاحب یا اس کے بعد اشرف غنی صاحب وہاں پر حکمران رہے تو ظاہر ہے کہ ہمارا ان سے اختلاف رائے رہا اور یہ دورہ جو ہے یہ جمیعت علماء اسلام کا ہے یہ سٹیٹ کا دور نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم اس دورے کو دونوں ملکوں کے مصلحتوں کے لیے اور خصوصا پاکستان کے بہتری کے لیے استعمال میں لانا چاہیں گے۔

سلیم صافی: مولانا صاحب ایک تو یہ بتائیے کہ یہ آپ کو سب سے زیادہ تھریٹ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے جو رپورٹس اتی ہیں یا جو انٹیریئر منسٹری کی الرٹس آتی ہیں تو افغان طالبان کے ساتھ اپ کا اتنا بہترین تعلق ہے اور وہ آپ شاید پہلے سیاسی رہنما ہیں جن کو وہ اپنے ہاں مدعو کر رہے ہیں تو پھر یہ آپ پہ حملے کون کر رہا ہے اور کس کی طرف سے آپ کو تھریٹس ہے ؟
مولانا صاحب: دیکھیے نہ مجھے یہ علم ہے کہ مجھے کس کی طرف سے تھریٹس ہے لیکن اب یہ ذرا اندازہ لگائیں کہ وزیرستان میں ہمارے کتنے ساتھ شہید ہوئے، ٹانک میں ہمارے کتنے ساتھی شہید ہوئے، میرانشاہ میں ہمارے کتنے ساتھی شہید ہوئے، باجوڑ کا واقعہ تو اب ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہو گیا ہے کہ ایک حادثے میں میرے ستر سے زیادہ ساتھی شہید ہو گئے ہیں اور اس کے بعد جو واقعات ہوئے ہیں ہمارے شہداء کی تعداد 80 سے بھی متجاوز ہو گئی ہے باقاعدہ بازاروں میں اشتہار لگائے جا رہے ہیں کہ ان کی جلسوں میں نہ جائیں ورنہ پھر اپ خود ذمہ دار ہوں گے تو اس قسم کی صورتحال میں نہیں سمجھتا کہ امارت اسلامیہ خدا نہ کرے ان کے ذہن میں کیسی یہ بات آئے گی تو ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ یہاں پر اگر کوئی مسلح تنظیمیں ہیں تو اس حوالے سے بھی ہماری معلومات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے لیکن جو واقعات ہوئے ہیں ان کے جو ذمہ داری ہے قبول کی ہے وہ ابھی تک تو ٹی ٹی پی کے حوالے سامنے نہیں آئی لیکن یہ ہے کہ مجموعی طور پر جس کو بد امنی کہا جاتا یہ نہیں کہ میں خطرے میں ہوں پاکستان خطرے میں ہے پاکستان کی ادارے خطرے میں ہے فوج پہ حملے ہوئے ہیں، پولیس پر حملے ہوئے ہیں، تھانوں پہ حملے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں کہ شاید اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہوئے گے۔

سلیم صافی: یہ پمفلٹ وغیرہ کس نے تقسیم کی ہے ؟ 
مولانا صاحب: بظاہر تو جو وہاں ہمیں ساتھی رپورٹ کر رہے ہیں کہ داعش کے لوگ ہیں۔

سلیم صافی: اچھا اور یہ جو باقی اپ نے حملے ہوٸے تو اس میں ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی ہے۔
مولانا صاحب: ہمارے حوالے سے نہیں ملک کے حوالے سے بات کر رہا ہوں اداروں کے حوالے سے

سلیم صافی: لیکن ماضی میں جو آپ پہ خود کش حملے ہوئے تھے اس میں کچھ ٹی ٹی پی کی طرف سے نہیں تھے ؟
مولانا صاحب: مجھے نہیں معلوم اس کے بارے میں پتہ کیا ہے نہ میں نے پیچھا کیا ہے میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں آگے بڑھتا ہوں۔

سلیم صافی: نہیں ہم بھی حیران ہیں نا کہ ایک طرف افغان طالبان اپ کی جماعت واحد جماعت تھی جنہوں نے اعلانیہ ان کو سپورٹ کیا تھا تو اس کے باوجود تو اپ کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے تھا تو یہ کون لوگ ہیں جو اپ کے پیچھے پڑے ہیں ؟
مولانا صاحب: حضرت میں جو باتیں کر رہا ہوں خدا کے لیے اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے میں کبھی اپنی ذات کی بات نہیں کر رہا ہوں میں کبھی اپنی پارٹی کی بات نہیں کر رہا ہوں وہ اگر ہے بھی تو اس حوالے سے وہ جہت معلوم ہے اس کا، لیکن ملک کی بات کر رہا ہوں میں پبلک کی بات کر رہا ہوں اور اس میں یہ جو ایک لفظ آج کل استعمال ہو رہا ہے لیول پلینگ فیلڈ والا جی جس کو ہمیں ابھی تک یہ لفظ پک بھی نہیں رہا ہے پہلی مرتبہ ہم یہ بات سن رہے ہیں یہ دو صوبوں کے لیے کیوں نہیں ہے، دو صوبوں کے عوام کے لیے کیوں نہیں ہے، دو صوبوں کے پارٹیوں کے لیے کیوں نہیں ہے تو اس حوالے سے بھی سوچا جائے صرف یہ کیا مطلب کہ پوری میڈیا میں صرف ایک پارٹی کے لیے یہ لفظ استعمال ہو رہا ہے جبکہ خود جب ان کی حکومت تھی تو اس وقت پھر الیکشن میں کس کو 

سلیم صافی: اچھا سیاست پہ ہم بعد میں اتے ہیں پہلے اس موضوع کو سمیٹ لیتے ہیں حکومت پاکستان نے تو اس وقت یہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے کہ نو ٹاکس ود ٹی ٹی پی جو کچھ کرنا ہے امارت اسلامی کو کرنا ہے بطور جماعت جمیعت علماء اسلام کی کیا پالیسی ہے کیا حکومت پاکستان کو براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے چاہیے یا کہ نہیں جو پالیسی پاکستان کی حکومت نے اپنائی ہوئی ہے یہی درست ہے ؟
مولانا صاحب: میں اس حوالے سے ابھی کوئی وضاحت کے ساتھ بات نہیں کر سکتا اور نہیں میں پاکستان گورنمنٹ کو فورس کر سکتا ہوں کسی حوالے سے، ذرا میں صورتحال معلوم کروں گا اس کے بعد یہ اندازہ لگے گا کہ کیا زمینی صورتحال تبدیل ہوتی ہے، زمینی صورتحال میں تو میں ایک سیاسی ادمی ہوں جی بطور ایک سیاسی ادمی کا ہے مذاکرات میں بھی یقین رکھتا ہوں میں مصالحت میں بھی یقین رکھتا ہوں میں کوئی جنگجو تو نہیں ہوں جی تو ایسے معاملات ایک جامع قسم کی ایک حکمت عملی کے ساتھ اور سٹریٹجی کے ساتھ ہی طے ہوا کرتی ہیں اس وقت ظاہر میں اس حوالے سے کسی تبصرے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ 

سلیم صافی: اچھا ایک اس موضوع سے متعلق آخری سوال پھر سیاست کی طرف اتے ہیں کہ جو پہلی مرتبہ طالبان میدان میں ائے تو اس وقت امریکہ وغیرہ نہیں تھا بلکہ خود افغانی گلبدین حکمتیار تھے، برہان الدین ربانی تھے باقی لوگ تھے تو انہوں نے بندوق کی زور پہ وہاں پہ اپنی خلافت قائم کر دی اور دوسری مرتبہ تو چلو ٹھیک ہے امریکی ان کے ریزسٹنس بھی تھی آپ نے پہلی مرتبہ بھی ان کی حمایت کی دوسری مرتبہ بھی ان کی حمایت کی اب اس تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ افغانستان میں بندوق کے ذریعے خلافت کا قیام اس کی حمایت کرتے ہیں تو پاکستان میں ٹی ٹی پی جو ان کے امیر المومنین کو اپنا امیر المومنین بھی مانتی ہے وہ اگر پاکستان میں وہی کام کرنا چاہتے جو افغانستان میں طالبان نے کیا تو ادھر آپ ان کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟
مولانا صاحب: میں اسلامی دنیا کی جغرافیائی تقسیم کا قائل ہو اور زمینی حقیقت میں یہی ہے پوری دنیا میں اسلامی دنیا کے کتنے ممالک ہیں اور ان کے اپنی جغرافیائی حیثیت ہے اور ان کے اپنے داخلی صورتحال ہے ہر ایک کو اپنے ملک کے اندر سٹریٹجی بنانا وہاں کے حکمت عملی بنانا، پالیسی بنانا یہ ان کا داخلی معاملہ ہوتا ہے اج اگر فلسطینی اپنے آزادی کے لیے القدس کی ازادی کے لیے اپنے حریت کے لیے کوئی حکمت عملی بناتے ہیں تو یہ ان کا کام ہے ہمارا کنسیپٹ کاز کی حمایت کرنا ہے افغانستان میں اگر لوگوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس طرح کسی کے 1980 کی پوری دہائی جو ہے وہ وہاں پر روس کے خلاف جنگ ہو رہی تھی تو جس کاز کے تحت ہو رہی تھی ہم نے اس کاز کی حمایت کی ہے اور کسی بھی بیرونی مداخلت کا ساتھ نہیں دیا ہے، اب جو دوبارہ یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ امریکی مداخلت پیدا ہوئی ہوئی تو یہ نہیں ہے کہ روس کی مداخلت ہو تو ناجائز ہو اور امریکہ کی مداخلت جائز ہو جائے ہم نے اسی تسلسل میں کہ وہ مقاصد جو ہیں جہاد کے جو مقاصد تھے ایک اسلامی حکومت کا قیام تو اگر وہ مقصد برقرار رہتا ہے اور پھر یہ کہ بیرونی مداخلت ہے اور وہ امریکہ کی صورت میں ہے تو ہمیں اپنے برادر اسلامی بھائیوں کو سپورٹ کرنا یہ شرعی طور پر ہمارے اوپر لازم تھا ہم نے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور ان غلطیوں کی بھی کچھ سزائیں آج ہمیں مل رہی ہیں ہمیں بڑا سٹریٹ جانا چاہیے تھا واضح طور پہ جانا چاہیے تھا اور پھر جس خطرے کے سبب ہم یہ سارا کچھ کیا کہ شاید ہم معاشی لحاظ سے تباہ ہو جائیں گے ہم یہ ہو جائیں گے تو ہم وہ ہو جائیں گے تو وہ بھی تو ہو گیا نا اس میں تو ہم نہیں بچ سکے نا جی، تو یہ ساری چیزیں کیوں ایسے ہم غلط فیصلے کرتے ہیں ۔

سلیم صافی: لیکن جو لائحہ عمل آپ نے خود فرمایا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے طالبان یہ سب کچھ کر رہے تھے تو اگر افغانستان میں بندوق کی زور پہ اسلامی نظام کا نفاذ جائز ہے تو ٹی ٹی پی بھی تو یہ کہتی ہے کہ ہم پاکستان میں اسلامی نظام
مولانا صاحب: پاکستان ہمارا ہیں اور یہاں پر علماء کرام ہیں پاکستان کے طول و عرض میں مدارس ہیں اساتذہ کرام ہیں خود جمعیت علماء اسلام کہ جس کے پلیٹ فارم پر چار سے پانچ لاکھ تک علمائے کرام موجود ہیں پورے طول و عرض میں اجماع ہے اس بات پر کہ پاکستان میں مسلح جنگ کی ضرورت نہیں ہے لہذا ہم علماء کرام کے اس رائے کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بندوق کا راستہ اگر افغانستان میں ضرورت ہوتی تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ خود بخود وہ پاکستان میں بھی، کیونکہ یہ جہاد جو ہے یہ احکام اسلام میں سے ہے اور اس کے ہر ایک کی اپنی اپنی سٹریٹجی جو ہوتی ہے جو سٹریٹجی اگر بدر میں تھی تو وہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اُحد میں بھی وہی ہو حنین میں بھی وہی ہو تو ہر ماحول کے حوالے سے ہمیں ایک حکمت عملی بنانی پڑتی ہے آج کے اس دور میں جب علماء کرام کی واضح رائے یہ ہے اور متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے اندر اصلاح کے لیے ایک سیاسی راستہ اختیار کرنا یہ موزون ہے اور اس سے زیادہ نقصانات ہو جائیں گے جو کچھ ہوا ہے جو حاصل ہو چکا ہے اب تک وہ بھی گنوا دیں گے ہم، لہذا ہمارے اگر ادارے موجود ہیں مدارس موجود ہیں مختلف مکاتب فکر کے وفاق موجود ہیں نظام چل رہے ہیں مساجد محفوظ ہیں علماء کام کر رہے ہیں، درس و تدریس کا نظام ہے سیاسی کام ہو رہا ہے جمعیت علماء میدان میں ہے اپنے ایک خاص منشور کے ساتھ جو اسلامی منشور ہے تو اس سارے کام میں جب ایک دفعہ ملک مصروف ہے اور لوگ کام کر رہے ہیں تو ایک نئی جہت اپنی طرف سے فورا پیدا کرنا یہ اگر افغانستان کے لیے مصلحت ہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ خود وہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہو گیا یہ سمجھانے کی بات ہے۔

سلیم صافی: چلیں اب ایک اور نقطہ سمجھا دیجیے کہ یہ جو اگر پی ٹی ائی والے رونا رو رہے ہیں لیول پلینگ فیلڈ کا تو اس کے تو کچھ وجوہات بھی ہیں ان کے لوگ گرفتار ہو رہے ہیں ان پہ کیسز بن رہے ہیں جے یو آئی پہ تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور بلکہ اس وقت جو لاڈلی جماعتوں کی ایک فہرست بنائی گئی ہے تو اس میں تو جے یو ائی بھی شامل تصور کی جاتی ہے پھر اپ لوگ جب کہتے ہیں کہ ہمیں لیول پلینگ فیلڈ میسر نہیں ہے تو اس کا کیا مطلب ہے ؟
مولانا صاحب: ایک ایک اصطلاح جو اج میڈیا میں اچھالی جا رہی ہے صرف ایک پارٹی کے لیے اچھالی جا رہی ہے تو میں اس کے بارے میں کہتا ہوں کہ بھی ہم سب کا یہ حال ہے پورے دو صوبوں کا یہ حال ہے تو اس پہلو کو بھی مد نظر رکھا جائے کل بھی لاڈلہ ایک ہی تھا اور اج بھی لاڈلا ایک ہی ہے اور اس وقت مختلف جہتوں سے ان کو سپورٹ کیا جا رہا ہے کچھ لوگ اس کو بھی ایک راستہ سمجھتے ہیں۔
سلیم صافی: کہاں سے سپورٹ کیا جا رہا ہے وہ تو جیل میں پڑا ہوا ہے ۔
مولانا صاحب: یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ کہاں سپورٹ ہو رہا ہے میں بھی کہہ چکا ہوں اپ لوگ بھی کہہ چکے ہیں وکلا بھی کہہ چکے ہیں کہ کہاں سے ان کو سپورٹ مل رہی ہے اور مصیبت یہ ہے کہ پانی کھیت تک نہیں لے جایا جا رہا کھیت کو اٹھا کر پانی کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو یہ صورتحال ہمارے ملک کے اندر

سلیم صافی: تو مجھے یہ سمجھنا ہے کہ کس کا لاڈلا ہے ؟
مولانا صاحب: عدلیہ کا لاڈلہ ہے۔

سلیم صافی: عمران خان عدلیہ کا لاڈلہ ہے ؟
مولانا صاحب: عدلیہ کا لاڈلہ ہے عدلیہ غلط طریقے سے ان کو سپورٹ کر رہے ہیں ان کی سہولت کار بنی ہوئی ہے جی اور جو فیصلے سامنے ائے ہیں اس کا تاثر ہم نے یہی لیا ہے۔

سلیم صافی: لیکن اب اسٹیبلشمنٹ کا تو مزید لاڈلا نہیں ہے نا ؟
مولانا صاحب: نہیں حضرت انہوں نے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا ہے اور اس طرح مسلح ہو کر انہوں نے جو ہمارے ریاستی اداروں پر، قلعوں پر، ایئرپورٹوں پر، ایئر بیسز پر جو حملے کیے ہیں اس کے بعد ظاہر ہے کہ ان کا بھی ایک موقف ہے اور ان کے بھی ایک رائے بنتی ہے۔

سلیم صافی: اچھا کل سینٹ سے ایک قرارداد بہت پراسرار طور پر اور بڑے عجیب طریقے سے پاس کی گئی ہے کہ انتخابات ملتوی کی جائے اور اس میں بھی ان دو صوبوں میں امن و امان کی بدحالی کا ذکر کیا گیا ہے اپ کا کیا موقف ہے کہ انتخابات ملتوی کرنے چاہیے یا اٹھ فروری کو ہی انتخابات ہونے چاہیے ؟
مولانا صاحب: دیکھیے بات بنیادی یہ ہے کہ ہمیں الیکشن چاہیے ایک بات بڑی واضح ہے کہ ہمیں الیکشن چاہیے لیکن الیکشن کے لیے الیکشن کا ماحول بھی چاہیے الیکشن کے ماحول کے بغیر اگر اپ الیکشن مسلط کریں گے تو پھر میں کیسے الیکشن لڑوں گا تو یہ ایک چیز ہے اس حقیقت کو اگر تسلیم نہیں کیا جاتا اور لوگوں کو پرانے کوئی واقعے ہوتے تھے وہ وقوعے ہوتے تھےجی بڑے واقع ہوتے تھے لیکن ایک حادثہ دوسرا حادثہ ایسے عمومی طور پر صورتحال ایسے نہیں تھی کہ لوگ پولنگ سٹیشن میں نہیں جا سکتے تھے ان کو دھمکے دی جاتی تھیں اگر تمہارے جلسے میں اب ہم دھمکی دی جا رہی ہیں کہ ہمارے جلسے میں کوئی ایا تو وہ اپنے اپنی جان کا خود ذمہ دار ہوگا جی تو یہ حالات تو نہیں کسی زمانے میں، واقع تو ہوا بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ہوا بڑا واقعہ تھا پاکستان کی تاریخ کا اور اس کی وجہ سے ملتوی بھی ہو گئے پھر جی، اسی طریقے سے مجموعی طور پر مجھے بھی دھمکیاں دی گئی مجھے بھی اس وقت لیٹر دیے گئے کہ اپ اگر فلاں جلسے میں فلاں جلسے میں نام لکھا ہے کہ اس فلاں جلسے میں اگر اپ گئے تو اپ کے لیے خطرہ ہے یہ نہیں کہ عمومی طور پر اپ کمپین نہیں چلا سکتے تو وہ بھی ہم نے وہ حالات دیکھے ہیں ہمارے اوپر گزرے ہیں یہ نہیں کہ آپ آج کی صورتحال کو کہ جہاں پر چار سے پانچ گنا زیادہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے اس کو آپ یہاں اب سو واقعات ہوتے ہیں اور اپ گزشتہ کوئی پانچ یا چھ واقعات کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ اس وقت بھی تو ایسا ہوتا تھا تو اس وقت بھی تو ایسا ہوتا تھا، یہ چیزیں جو ہیں یہ اس کے لیے جواز نہیں ۔

سلیم صافی: نہیں تو 2008 میں اور 2013 میں صورتحال اس سے زیادہ بدتر نہیں تھی ؟
مولانا صاحب: نہیں میں بالکل بھی نہیں، اس وقت ہم کمپین چلا رہے تھے نا اس وقت میں جلسوں میں جا رہا تھا نا، آج میں نہیں جا سکتا جی۔

سلیم صافی: جلسے میں آپ نہیں جا سکتے ؟
مولانا صاحب: نہیں ایک جگہ بھی نہیں جا سکتا میں

سلیم صافی: کس سے خطرہ ہے ؟
مولانا صاحب: اب یہ پتہ ہوتا تو میں مسئلے کا حل بھی نکال لیتا یہ پتہ نہیں ہے کہ مجھے کس سے خطرہ ہے جی، بدامنی اسے کہتے ہیں کہ جس میں قاتل اور مقتول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک زمانہ آئے گا نہ قاتل کو پتہ ہوگا کہ میں کیوں قتل کر رہا ہوں اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا مجھے کیوں قتل کیا جاتا ہے۔

سلیم صافی: تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ الیکشن کے لیے ماحول اب مناسب نہیں ہیں ؟
مولانا صاحب: نہیں ماحول نہیں دیکھ رہا، اپنے صوبے میں نہیں دیکھ رہا، بلوچستان کے حد تک بھی نہیں دیکھ رہا ہوں جی لیکن پنجاب اور سندھ نے شاید ہے وہ ٹھیک ہے وہاں کے لوگ کہتے ہیں ۔

سلیم صافی: تو پھر آپ سینٹ سے پاس ہونے والے قرارداد کی حمایت کرتے ہیں ؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں ہمارے موقف کے مطابق آیا ہے وہ حالات کی حقیقت ہے اور ایک ادارے نے پاس کیا ہے کوئی میرے جبر تو نہیں تھا مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا ایک ممبر نے وہاں پیش کیا وہ قبول ہو گیا ۔

سلیم صافی: تو کتنے مہینوں کا التوا چاہتے ہیں ؟
مولانا صاحب: ابھی مجھے اس کا تعین نہیں ہے پہلے اس پر تو آئے ہوئے ہیں کہ بھئی ہاں حالات یہ ہیں حالات کو تو قبول کیا جائے ہمارے چیف الیکشن کمشنر صاحب بیان دیتے ہیں کہ جی ہم دو صوبوں کے حالات امن و امان کے حوالے سے تشویشناک ہے لیکن میں دعا گو رہوں گا جی، اب ہم ان کی دعاؤں کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں خدا کرے ان کی دعائیں قبول ہو جائے۔

سلیم صافی: لیکن آپ لوگوں کی بات بھی تو واضح نہیں ہے نا کہ اگر آپ التوا چاہتے ہیں تو کتنے مہینے چاہتے ہیں ؟
مولانا صاحب: میں تعین نہیں کرنا چاہتا میں کہتا ہوں حالات ٹھیک کیا جائے لیکن مجھے اس قابل بنایا جائے کہ میں ووٹر کے پاس جا کر ان سے ووٹ مانگ سکوں۔

سلیم صافی: لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پندرہ بیس دن، مہینہ دو مہینے بعد اگر آپ التوا کرتے ہیں تو اس وقت جاکے پھر حالات اس سے بھی زیادہ برے ہو ؟
مولانا صاحب: میں افغانستان جا رہا ہوں اور وہاں پر میں گفتگو کا ایک ایسی جہت مجھے مل جاتی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کے حالات بہتر ہو جاتے ہیں تو بڑے تھوڑے مدت میں بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں تھوڑا سا بھی مانگ سکتے ہیں لیکن میں الیکشن سے نہیں بھاگ رہا ہوں الیکشن میں آج بھی کرنے کو تیار ہوں کل بھی کرنے کو تیار ہوں اور کسی کو میں ذاتی طور پر الیکشن سے باہر رکھنے کا حقدار بھی نہیں ہوں لیکن قانون ہے ادارے ہیں ملک ہے میں اتنا بڑا تو نہیں ہوں۔

سلیم صافی: الیکشن التوا کے سلسلے میں آپ نے مسلم لیگ نون سے پیپلز پارٹی سے یا باقی کسی اتحادی وغیرہ سے بات کی ہے ؟
مولانا صاحب: الیکشن کی التوا کے حوالے سے میں نے کسی سے بات نہیں کی ہے لیکن اپ کے صوبے میں جو پارٹیاں ہیں وہ یہی بات کہہ رہی ہیں جو میں کہہ رہا ہوں بلوچستان میں جو پارٹیاں ہیں سب یہی کہہ رہی ہیں جو میں کہہ رہا ہوں سندھ میں وہی پارٹی ہوگی پنجاب میں وہی پارٹی ہوگی جو کہے گی الیکشن کراؤ کیونکہ وہاں وہ حالات نہیں ہیں تو یہ مسئلہ پارٹیوں کا نہیں رہا ہے، میرے پاس تشریف لائے تھے ہمارے پیپلز پارٹی کے دوست ہیں میرے مقابلے میں بھی اتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ الیکشن میں نکل سکتے ہیں ادھر، تو کہہ رہے تھے نہیں، میرے ایک دوسرے وہاں پر امیدوار ہیں میرے گھر میں ائے تھے سب دوستوں کے ساتھ میں نے ان سے پوچھا آپ الیکشن میں نکل سکتے ہے کہا نہیں، تو آپ اندازہ لگائیں جہاں پر اس قسم کی صورتحال کیوں ادراک نہیں کیا جاتا اس سارے صورتحال کا، یہ جو کچھ لوگ آپ کے اینکرز وغیرہ اور میرے لیے قابل احترام بھی ہیں لیکن چونکہ وہ ایک بڑے محفوظ ماحول میں زندگی گزارتے ہیں ان کو کوئی ایسی مشکل درپیش نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہر طرف جنت ہی جنت ہے جی، ان کو یہ پتہ نہیں ہے کہ لوگوں پر دنیا جو ہے جہنم میں بنی ہوئی ہیں۔

سلیم صاحب: ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ الیکشن کے لیے ماحول کو سازگار نہیں سمجھتے اور آپ اس کا التوا چاہتے ہیں ؟
مولانا صاحب: اگر ماحول کی بہتری کے لیے کوئی التوا ہوتا ہے تو آسمان نہیں گرے گا، چل جاتا ہے معاملہ، ملک کو بچانا ہے تو پھر چل جائے گا معاملہ اور ہوتے ہیں اور ہر قیمت پر ہوتے ہیں تو ہم اس طرح حصہ لیں گے یہ نہیں کہ ہم بھاگیں گے وہاں سے

سلیم صافی: اچھا ماحول کی بہتری کے لیے کیا کرنا چاہیے کس کو کیا کرنا چاہیے ؟
مولانا صاحب: یہ ریاست کے ذمہ داری ہے یہ میری ذمہ داری نہیں ہے ریاست کے لوگ بیٹھیں، حقائق کو سمجھیں اگر ہمیں بٹھانا چاہتے ہیں تو ہم بیٹھیں گے ہم ان کو سارے صورتحال بتائیں گے یہ نہیں کہ ہم ان کو نہیں بتا سکتے ہم ان کے ساتھ ہم بات نہیں کر سکتے جی یہ سارے جو ہیں اس وقت جو ملک کے نظام کو چلا رہے ہیں کم از کم سیاسی میدان میں ہم سے جونیئر ہے سینیئر نہیں ہے۔

سلیم صافی: اس کا مطلب یہ ہے کہ سینٹ کی قرارداد میں آپ کی خواہش شامل تھی ؟
مولانا صاحب: نہیں مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا ممبران نے خود کیا وہاں پر مجھے تو بعد میں جب پاس ہوا ہے تو پتہ چلا ہے لیکن یہ ہے کہ ممبران کا اختیار ہے وہ کر سکتے ہیں اگر انہوں نے کیا ہے تو ہمارے موقف کے مطابق کیا ہے۔

سلیم صافی: آپ اس کو اپنے موقف سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں؟
مولانا صاحب: ظاہر ہے ہم اس کو ہم آہنگ سمجھتے ہیں۔

سلیم صافی: اچھا ناظرین اس معاملے میں تو مولانا صاحب سینٹ کی قرارداد سے اپنے موقف کو ہم آہنگ سمجھتے ہیں لیکن اگے جا کے انتخابات میں کون سی جماعتوں کی ایک دوسرے سے ہم آہنگی بن سکتی ہے یہ جانیں گے مولانا صاحب سے ایک مختصر سے وقفے کے بعد
سلیم صافی: مولانا صاحب الیکشن اپ کی تو خواہش یہ ہے کہ پہلے ماحول بنایا جائے پھر الیکشن منعقد کیے جائے لیکن الیکشن لگتا یہی ہے کہ ہونے جا رہے ہیں سپریم کورٹ کے واضح احکامات ہیں اس حوالے سے، تو جب الیکشن ہوں گے تو آپ لوگ تنہا پرواز کریں گے یا کسی جماعت کے ساتھ آپ کا اتحاد ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے ؟
مولانا صاحب: اس سلسلے میں اب تک جو کچھ مجھے نظر آیا ہے کوئی قابل ذکر اتحاد بظاہر نظر نہیں آرہا، مسلم لیگ کے کچھ ایک صوبے میں چھوٹے گروپ کے ساتھ اگر رابطہ ہوا ہو، پیپلز پارٹی کا سندھ میں ہوا ہو کچھ پارٹیوں سے صبح خیبر پختونخواہ میں ہماری بھی بات چل رہی ہے کسی کچھ پاکٹس میں بلوچستان میں ہمارے کچھ جماعتوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے اصولی طور پر ہم نے ہر ضلعے کو یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ ہماری تنظیم ہر ضلعے میں جماعت کے مفاد میں ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے تو اس حوالے سے میرے سامنے کوئی بڑی قابل ذکر کوئی ایڈجسٹمنٹ اب تک سامنے نہیں ائی ہے ہاں جزوی طور پر جگہ جگہ پر ہوئے ہیں۔

سلیم صافی: یہ ایڈجسٹمنٹ جو ضلعوں کا آپ لوگوں نے اختیار دیا ہے تو وہ کسی بھی پارٹی سے کر سکتی ہے۔
مولانا صاحب: جی وہاں وہ کسی بھی پارٹی سے کر سکتی ہیں۔

سلیم صافی: پی ٹی ائی سے بھی کر سکتی ہے ؟
مولانا صاحب: شاید کریں گے نہیں لیکن اصولا تو منع نہیں ہے لیکن وہ کریں گے نہیں۔

سلیم صافی: تو یہ اپ لوگوں کی اور مسلم لیگ نون کا اتحاد کیوں نہیں بن سکا کیونکہ پی ڈی ایم کی صورت میں اپ لوگ اکٹھے تھے ؟
مولانا صاحب: اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہم نے تو خون جگر دیا ہے ان کے مشکلات میں ہم ان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں اور اپنی پوری تحریک اور جدوجہد اور ہمارا کارکن تین چار سال تک دھوپ پہ بھی کھڑا رہا، ٹھنڈ میں بھی کھڑا رہا، گرمی بھی برداشت کرتا رہا، صحراؤں میں بھی پھرتا رہا اور جنگلات میں بھی گھومتا رہا، غرض ہر سطح کے حالات برداشت کیے اور اس کے بہت سے انہوں نے مفادات اس کے ان کو ملے ہیں اور ملنے بھی چاہیے تھی کیونکہ ہم اسی آزادی کے جو جنگ لڑ رہے تھے لیکن ان سے زیادہ تر ہمارے جو گفتگو ہے وہ پنجاب کے لیول کی ہے لیکن پنجاب میں ابھی ان کا دامن تنگ ہے خدا کرے ذرا ان کے دامن میں گنجائش پیدا ہو جائے ۔

سلیم صافی: اچھا آپ نہیں سمجھتے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پہ اب کے بار اسی طرح عنایتیں کی جا رہی ہیں جس طرح 2018 میں پی ٹی آئی پہ کی گئی تھی؟
مولانا صاحب: کون کر رہا ہے کون کر رہا ہے ؟

سلیم صافی: اسٹیبلشمنٹ اور عدالتیں
مولانا صاحب: تو وہ بھی پاکستانی ہیں باہر کے تو نہیں ہیں یہ کہنا کہ میں غیر سیاسی ہوں یہ توجہ میں ہوتا ہی نہیں ہے اپ بیوروکریسی میں جائیں گے وہ کہیں گے میں سرکاری ملازم ہوں لیکن کبھی ذہن ہوتا ہے کہیں نہ کہیں کوئی ترجیحات اس کی بھی ہوتی ہیں فوج میں ہے ہزار کہیں گے کہ ہم غیر جانبدار ہیں ہم تو ان کی دفاع کے لیے ہیں لیکن دماغ تو ہے کھوپڑی تو ہے مطالعہ ہے پڑھے لکھے لوگ تو ہیں جانتے تو ہیں عدلیہ بھی وہی ہے کہ ہم عدلیہ کی صلاحیتوں کا تو انکار نہیں کرتے ہیں تو صرف لیکن پھر بھی ترجیحات ہوتے ہیں تو یہ سامنے آرہی ہیں جگہ جگہ پر اپ دیکھ رہے ہیں تو اس حوالے سے ملک کے لیے فکر مند ہونا سب کا مل کر فکر مند ہونا اور پھر میں تو یہاں تک بھی جاتا ہوں کہ مل کر سوچنا اس کی بھی گنجائش موجود ہے ۔

سلیم صافی: نہیں جس طرح پے در پے میاں نواز شریف صاحب کی کیسز ختم ہو رہے ہیں تو اپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انصاف ہو رہا ہے ؟
مولانا صاحب: حضرت میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں مجھے ان کی طرف سے سیٹ ملتی ہے نہیں ملتی میرا ان کے ساتھ مقابلہ آتا ہے نہیں آتا قطع نظر اس کے جی میں آج بھی کہتا ہوں کہ ان کے خلاف جو کیسز تھے وہ ظالمانہ تھے جانبدارانہ تھے اور سیاسی انتقام کی نتیجے میں تھے اور کچھ نہیں تھا اس وقت، میں پانامہ کو کیس کہہ دوں میں پانامہ کی بنیاد پر کہہ دوں کہ ہاں یہ واقعی ٹھیک ہے کہ بڑا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ان کو نااہل کیا گیا اس طریقے سے باہر سے امپورٹ کرنا کیسز کو اور یہاں پر اور پھر اقامہ وہ بھی امپورٹ کیا گیا تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں واضح طور پر نظر اتی ہیں کہ اگر ایک پارٹی کو اپ نے بے دخل کرنا ہے تو اس کا اس طرح حرکت کی جاتی ہے ۔

سلیم صافی: لیکن اپ نہیں سمجھتے کہ 2018 میں جو کچھ نون لیگ اور اپ لوگوں کے ساتھ ہوا تھا اب کے بعد وہی کچھ پی ٹی ائی کے ساتھ ہو رہا ہے ۔
مولانا صاحب: ہاں اگر تو ایسا ہے کہ میں دھاندلی سے ایا ہوں تو مجھے سزا ملنی چاہیے اگر 2018 میں یہ دھاندلی سے ایا ہے تو مجھے عدلیہ کہے جواب دے کہ اس وقت انہوں نے سو موٹو کیوں نہیں لیا یہ جو پورے ہمارے شاہراہ دستور پر دنیا جمع تھی اٹھ اگست 2018 کو، جو پورے ملک میں ہم نے 14 ملین مارچ کیے، ازادی مارچ کیا، پی ڈی ایم بنا ایک لمحے کے لیے ان کے دل دماغ میں یہ بات ائی کہ کم از کم ان کو سنا جائے یہ جو چیخ رہے ہیں یا الیکشن غلط ہوا ہے اور پھر اس کے بعد کہا گیا کہ ہاں غلط ہوا ہے جب ملک کی معشیت تباہ کر دی گئی سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم استحکام، جب دفاع پر اس نے ہاتھ ڈالا اور ان کی دفاع کو توڑنے کی کوشش کی تب ادراک ہوا کہ وہ یہ تو ملک کو لے جا رہا ہے لہذا جب ریاست کی خلاف بغاوت ہوگی اور ایسے اقدامات کیے جائیں گے تو پھر ان کے سارے گناہیں معاف کر دی جائے اس وقت گرفتار کیا گیا ہے میرے خلاف کیس، میرے خلاف اگر ہے تو اس نے کوئی کمی چھوڑی ہے جن کے خلاف کچھ ملا ان کو بخشا نہیں انہوں نے، تو یہ ساری چیزیں یہاں پر میرے پاس ڈپلومیٹس بھی ائے تھے بڑے بیرونی دنیا کے کہ ہمیں بڑا تشویش ہے تو میں نے کہا خدا کرے کہ اپ کو بھی تشویش ہوتی جب ملک کے تین دفعہ پرائم منسٹر رہنے والا جو ہے وہ جیل میں پڑا رہا اس کی بیٹی جیل میں اس کے بھائی جیل میں اس کی پارٹی جیل میں ہے اور الیکشن انہوں نے جیلوں میں گزارے۔
تو یہ ساری چیزیں اس وقت میرے ایک نقطہ نظر میں اس وقت کوئی ایسے کیسز نہیں تھے لیکن اج تو باقاعدہ ان میں سے جرائم کیے ہیں کہ کم از کم عام ادمی ان کے جرائم کو بھی مطالعہ کریں نا

سلیم صافی: لیکن جس طریقے سے ان کے لوگوں کے کاغذات چھینے گئے، ان کے امیدوار بننے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں سینکڑوں لوگ ان کے گرفتار ہیں ہزاروں ان کے مفرور ہیں تو اپ یہ نہیں سمجھتے کہ ہ 2018 سے بڑھ کے ہیں؟
مولانا صاحب: جی میری رائے اس حوالے سے بالکل مختلف ہے بڑی سٹریٹجی کے ساتھ یہ واقعات ہو رہے ہیں ان کے اپنے لوگ بھی سوشل میڈیا والے کیمرے لے کے وہاں موجود ہوتے ہیں اور ان سے کاغذ چھیننے کے لیے تیار ہوتے ہیں وہ پولیس کے ساتھ الجھتے ہیں تصویر بنا کر کہتے ہیں ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو یہ الٹی گنگا ہے کہ بظاہر ان کو مظلوم بنا کر اور پھر ان کو پروجیکٹ کرنا اور ان کو بھی مقبولیت کے راستے تلاش کرنا یہ سارے اس کا حصہ ہے اسٹریٹیجی کا حصہ ہے۔

سلیم صافی: لیکن گرفتاریاں تو حقیقت ہے نا دیکھیں شاہ محمود قریشی اندر ہے ۔
مولانا صاحب: گرفتار ہم بھی رہے ہیں ہم بھی جیلوں میں رہے ہیں لیکن ایسی صورتحال تو کہی نہیں ہوئی خدانخواستہ کہ کھینچا تانی ہو اور ہمیں گھسیٹ رہے ہو اور ہم جا رہے ہوں ٹھیک ہے حکومت کا حق ہے اگر اس کو کسی قانون کے تحت میں خطرناک نظر ا رہا ہوں یا میرے کوئی جرم ان کو نظر ارہا ہے اور تو ٹھیک ہے بسم اللہ میں فیس کروں گا عدالت میں، یہی ہوتا ہے نا، نہیں جھگڑا ڈالنا، کھینچا تانی کرنا یہ دکھانا دنیا کو کہ میں تو بڑا مظلوم ہوں میرے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے اور اب جو میرے گھر میں غصہ ہے نہ کوئی غصہ نہ کچھ، تو اس طریقے سے مناظر بنانا یہ مناظر بنانا جو ہے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوتا جی، یہ تو آپ بھی بنا سکتے اور میں بھی بنا سکتا ہوں۔

سلیم صافی: اپ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی ائی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی ؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں تو عدالت جو ہے موجود ہے اگر عدالت ان کو بھی کہتی ہے کہ اپ بے گناہ ہیں تو میں اعتراض نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور ہے کہ تاثر جو ہے وہ مجھے ملے گا میں تاثر کا اظہار ضرور کروں گا لیکن یہ ہے کہ میں ان کے سامنے رکاوٹ نہیں بنوں گا ۔

سلیم صافی: نہیں اپ رکاوٹ تو نہیں بنیں گے لیکن اپ ایک سیاسی ادمی ہیں ہمیشہ اپ نے جمہوریت کی بات کی ہے بنیادی حقوق کی بات کی ہے تو اپ نہیں سمجھتے کہ نواز شریف اور ماضی میں بے نظیر بھٹو کی طرح اب عمران خان کو بھی غیر سیاسی طریقے سے اؤٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ؟

مولانا صاحب: عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا حصہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا یہ ملک دشمن ہے یہ ریاست کے دشمن ہے یہ یہودی ایجنٹ ہیں یہ بیرونی ایجنٹ ہیں یہ ملک کو توڑنے کے نتیجے پہ ائے تھے اسر ا ئیل کو منوانے کے ایجنڈے پہ ائے تھے کشمیر کو بیچنے کے ایجنڈے پہ اٸے تھے اس ساروں کے لیے ان کا ٹرمپ کے ساتھ رابطہ تھا ان کے ساتھ عہد و پیمان ہو رہے تھے ان کے، یہ ساری چیزیں کیوں نظر نہیں آرہی لوگوں کو

سلیم صافی: نہیں تو یہ ظاہری بات ہے عمران خان خود تو نہیں ا سکتے تھے تو ان کو یہ سارے عمل میں ان کو اقتدار میں لانے میں جنرل باجوا اور جنرل فیض کا بھی بنیادی کردار تھا، نہیں تو کیا جنرل باجوا اور جنرل فیض بھی اس ایجنڈے میں شامل تھے ؟

مولانا صاحب: بالکل شامل تھے، دونوں شامل تھے دونوں مجرم ہیں دھاندلی کی بھی وہ مجرم ہیں یہ سارے ایجنڈے کے بھی وہ مجرم ہیں اور ہمارے سامنے ساری صورتحال ہے بلاوجہ تھوڑے بول رہا ہوں میں تو بہت لحاظ رکھتا ہوں فوج کے ادارے کا میں نے کبھی بھی دیکھو میں نے کبھی بھی کوشش کرتا ہوں کہ میں فوج کو بطور ادارے کے نہ لوں لیکن ایک فرد اگر اس سے اس قسم کی حرکتیں کی اور انہوں نے نوٹس میں ائی ہیں تو ہم کیوں نہیں کہیں گے یہ بات ، کیوں قوم سے چھپائیں گے ہم یہ باتیں

سلیم صافی: لیکن اگر ایک بندے کی یہ ایجنڈے ہوتے کہ خدانخواستہ پاکستان توڑنے کا، یہودی ایجنڈے کی تکمیل کا تو اس کو پاکستانی فوج کی قیادت اس طرح قبول کرتی ہے؟
مولانا صاحب: یہ تو میرے سامنے کہا ہے کہ ہمیں ابھی ادراک ہوا ہے اب کیوں ہوا ہے یعنی پہلے یہ ادارے کیوں اتنے بے خبر رہتے ہیں مجھے پتہ ہے میں 2012 سے ایک بات کہہ رہا ہوں ان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اخر میں کہتے ہیں ہمیں پتہ چل گیا ہاں یہ تو بڑا فتنہ تھا یہ تو بڑا خطرناک تھا ۔

سلیم صافی: یہ کس نے کہا ؟
مولانا صاحب: یہی لوگ 

سلیم صافی: نہیں لیکن اب حساب کتاب تو صرف عمران خان کے ساتھ کیا جا رہا ہے نا تو پھر اپ نہیں سمجھتے کہ

مولانا صاحب: دیکھیں اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اگر ان کے ساتھ نہیں ہو رہا تو وہ جرم ہے، بذات خود وہ اگر نہیں ہو رہا تو یہ بھی جرم ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ پھر ان کے ساتھ رعایت کر لی جائے

سلیم صافی: بہت شکریہ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب ہماری دعا ہے کہ اپ کے افغانستا ن کے دورے کے نتیجے میں پاکستان اور افغان ستا ن کے درمیان مسائل کے حل کی کوئی راہ نکلے۔
ناظرین اس امید کے ساتھ کے پروگرام سے متعلق اپنی رائے سے اپ ہمیں اگاہ کرتے رہیں گے مولانا فضل الرحمن صاحب کی ایک بار پھر شکریہ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں
اللہ حافظ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات 
#teamjuiswat 




جرگہ - 7 جنوری 2024

جرگہ - 7 جنوری 2024 #GeoNews #Jirga

Posted by Jirga on Sunday, January 7, 2024






0/Post a Comment/Comments