ڈیرہ اسماعیل خان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صحافی سعید اللہ مروت سے گفتگو 3 جنوری 2024


ڈیرہ اسماعیل خان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صحافی سعید اللہ مروت سے گفتگو 
3 جنوری 2024

سوال: مولانا صاحب آپ چند دنوں میں افغانستان جارہے ہیں، کس ایجنڈے کے تحت جارہے ہیں؟

جواب: تعلقات ہیں ہمارے ان سے جی، اگر آج ملک وہ چلا رہے ہیں اور وہاں پر ان کی حکومت ہے تو میرا جو ان سے تعلق رہا ہے میں کیوں اس تعلق کو اپنے پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال نہ کرو، میرا اگر ان کے اوپر کوئی اثر ہے یا میری وہ بات کو سنیں گے یا توجہ دیں گے تو یہ دونوں ملکوں کے مفاد کے لیے ہے، امارت اسلامیہ کی تحریک کی حمایت میں نے اس لیے نہیں کی تھی کہ افغانستان تباہ ہو، ہم نے اس لیے کی تھی کہ افغانستان مستحکم ہو آزاد ہو وہاں حریت ہو وہاں کی معیشت بہتر ہو، جب میں ان کے لیے بہتر سمجھتا ہوں اور وہ میرے لیے بہتر سمجھتے ہیں تو جو غلط فہمیاں پیدا ہوئے ہیں تو کوئی تو دور کرے گا نا جی، تو اس جذبے کے ساتھ میں وہاں جا رہا ہوں اور میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے باقاعدہ مجھے دعوت دی ہے اور ان کی دعوت میں جا رہا ہوں اور میں اپنے ملک کی وزارت خارجہ کو اپنے حکومت کو اس مسئلے پہ اعتماد میں لے کے جا رہا ہوں اور اس سے ملک ایک دوسرے کے دوست ملک وہ ایک دوسرے کے لیے بہتری کا سبب بنے، ان کا فائدہ ہم اٹھائیں ہمارا فائدہ وہ اٹھائیں لیکن جس انداز سے غلط فہمیاں پیدا کئیں گئیں ہیں اور پاکستان میں جس طریقے سے ایک بدامنی آئی اور اس بدامنی نے۔ افغانستان کے حوالے سے کچھ سوالات پیدا کئیں، ان ساری چیزوں کو حل کرنا یہ ہمارے ایجنڈے میں ہوگا۔ 

سوال: اس طرح کی صورتحال ہے ابھی انتخابی نشان کا ایشو بنا ایک عدالتی فیصلے جج کے فیصلے کی بنیاد پہ ایک ایشو بنا اور اسی طرح سے عدلیہ کے کردار پہ بھی بہت ساری باتیں اس جماعت کی طرف سے ہو رہی ہے ایون مسلم لیگ نون کی طرف سے بھی ہو رہی ہیں تو یہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اداروں کا بھی ٹکراؤ اس وقت جاری ہے اور وہ پورے عروج پر ہے اداروں کے درمیان؟

جوسب: میں اداروں کے ٹکراؤ کا قائل نہیں ہوں، ادارے ایک سمت میں جائینگے تو ملک چلے گا، اداروں کے درمیان تصادم ہوگا تو ملک پہ ان کے منفی اثرات ہونگے، میں ایک بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ کیا اور وہ عمران خان کے حق میں تھا ایک ریلیف مل گیا اس۔ کو جی، اس ایک فیصلے کے نتیجے میں اگلے روز آپ کے ملک کی اسٹاک ایکسچینج ہوتا ہے جی وہ منفی 500 گر گیا جی منفی پانچ سو پوائنٹ گر گیا اور اگلے روز جب پھر دوبارہ کہا کہ نہیں ان کی رہائی نہیں ہو سکتی تو اس کے فوراً بعد اگلے روز 1500 پلس جو ہے وہ پوائنٹ اوپر چلے گئے تھے، اب آپ اندازہ لگائیں کہ ملک کا تجارتی طبقہ کاروباری طبقہ وہ جب اس کو تھوڑا ریلیف ملتا ہے تو ملکی معیشت گر جاتی ہے اور جب اس کے بارے میں دوبارہ ایسی خبر آتی ہے کہ وہ قانون کے شکنجے میں ہے اور اس کو ملک کے قانون کا جواب ملنا چاہیے اس کو ریلیف نہیں ہونے چاہیے تو پھر آپ کی معیشت بہتر ہو جاتی ہے، یہ چیزیں بھی ذرا ہمیں دیکھنی چاہیے جی اور باہر کی دنیا وہ صاف پاکستان کو کہہ چکی ہیں کہ اگر دوبارہ وہی صورتحال آتی ہے تو ہم پاکستان میں اپنے سرمایہ کاری نہیں کریں گے یہ ضائع کرنے والی بات ہوگی۔

سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون پنجاب میں وہ کامیابی حاصل کر پائے گی جس کے وہ دعوے کر پا رہی ہے؟

جواب: ان کو کامیابی حاصل کر لینی چاہیے کیونکہ انہوں نے ترقی دی ہے ملک کو، انہوں نے پاکستان کو ترقی کے راستوں پہ لے جایا گیا اور دنیا میں جن حوالوں سے قومیں ترقی کرتی ہیں اس حوالے سے ان کے کارکردگی ہے تو اس میں ہم تعاؤن کرنے کو بھی تیار ہیں آنے والے مستقبل میں بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی بہتری کے لیے سے ۔۔۔۔


سوال؛ اس حوالے سے بھی میں بات کرنا چاہ رہا ہوں کہ کیا مسلم لیگ نون کے ساتھ آپ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کوئی سیاسی اتحاد کوئی ایسی سیٹوں پر۔۔۔

جواب: ممکن ہے کہ اس میں اگر مشکلات آئیں تو نہ ہو سکے، یعنی یہ کوئی سوال نہیں ہے، پہلے بھی ہم الیکشن میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے ہیں لیکن الیکشن ہو جانے کے بعد مینڈیٹ سامنے آجاتا ہے پھر وہ لوگ اسمبلی میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرتے ہیں اگلی حکومت کیسے چلائیں گے تو جو بھی مینڈیٹ ہو وہ تسلیم کیا جاتا ہے یہ واحد ایک مینڈیٹ ہے جو عمران خان کو ملا اور اس کو قوم نے تسلیم نہیں کیا جی

سوال: تو ایسی ان حالات میں الیکشن کے نتائج آپ تسلیم کریں گے یا وہ تسلیم نہیں کئیں جائیں گے 

جواب: دیکھئے میں ابھی یہ سوالات نہیں اٹھانا چاہتا میں نہ کسی کو مورد الزام ٹھہراؤ، میں امن و امان کی بات کر رہا ہوں، میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر لوگوں کا ٹرن آؤٹ کم رہا، آپ کے پولینگ اسٹیشن جو ہے وہ خالی رہے یا ٹھنڈ کی وجہ سے آپ پولینگ سٹیشن بنا ہی نہ سکے یہ تو دھاندلی کے لیے راستہ کھولنے والی ہے، پھر وہاں وہ لوگ جو لوگ دھاندلیاں کرتے ہیں ان کی مرضی ہوگی پھر تو، ایسی بات کیوں ہو کہ 2018 کا۔الیکشن بھی مسترد ہو گیا اور ایک دوسرا الیکشن بھی مسترد ہو جائے، میں سوچتا ہوں کہ الیکشن ہوں اور جو عوام کا مینڈیٹ ہے جس پارٹی کے بارے میں جتنا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہو اور صرف اپنی سیاست اور نمبرنگ کے لیے کوئی شور شرابہ نہ کرے، الیکشن میں کسی کے شکست پر اتنی پبلک اکٹھی نہیں ہوتی اتنی دنیا نہیں نکلتی جتنا کہ اس تین ساڑھے تین سالوں میں پبلک نکلی اور پھر آزادی مارچ میں جہاں پر کوئی ڈھائی کلومیٹر سے زیادہ تک عوام تھے اور اتنے پھیلے ہوئے عوام جس کی تعداد لوگ 15 لاکھ سے بھی زیادہ بتا رہے ہیں، تو یہ عوام بیوقوف تو نہیں تھے جی جنہوں نے ہماری آواز پر لبیک کہا جو نکلے وہاں سے، تو یہ سارے وہ صورتحال ہے کہ نہ تو لوگوں کو معاش دے سکے، نہ ملک کا اقتصاد بہتر ہو سکا، نہ پاکستان کے دوستوں کا اعتماد برقرار رکھ سکے، ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا باقاعدہ، تمام ادارے جو ہے جو مالیاتی ادارے ہیں اسٹیٹ بینک سب آئی ایم ایف کے حوالے ہو گیا، ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کے ساتھ قانون سازیاں کی گئیں اور ان کے اپنے لوگوں نے یعنی ان کے اپنے گورنرز نے کہا کہ ہم تو سب کچھ لکھوا آئے ہیں کہ ملک جو ہے وہ آئی ایم ایف کا ہے ہمارا نہیں ہے، آئی ایم ایف پردے کے پیچھے تو اثرانداز ہوتا تھا ہمارے بجٹ پر لیکن ان تین سال ساڑھے تین سالوں میں وہ کھل کر آگے آیا اور اس نے اپنے شرائط منوائے اور باقاعدہ قانون سازی میں لکھا گیا کہ ہم یہ ایف اے ٹی ایف کی مطالبے پر یہ کر رہے ہیں یا آئی ایم ایف کے مطالبے پر یہ قانون سازی کر رہے ہیں تو اس حد تک ملک کو۔۔۔ پھر آپ نے دیکھا کہ پاکستان پہلی مرتبہ تاریخ میں اس کا جے ڈی پی جو ہے وہ منفی میں چلا گیا جی، زیرو سے بھی نیچے چلا گیا، اس طریقے سے جو ملک کو چلاتے ہیں تو آپ مجھے بتائیں معیشت تباہ ، تہذیب و اخلاق تباہ، باہر کی دنیا کے ساتھ تعلقات ہمارے تباہ، دیوالیہ پن کے قریب ملک کو جا کے کھڑا کر دیا، معاشی ابتری میں حضرت یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں ملک کے ملک کچھ علاقوں میں بغاوتیں نہ شروع ہو جائیں گی ہم ان چیزوں کو بھانپتے ہوئے تھے جی

سوال: مولانا صاحب الیکشن آٹھ فروری کو ہو جاتے ہیں آپ اور جو اس وقت اتحادی حکومت بنی ہوئی ہے یا سولہ مہینوں میں آپ نے کارکردگی دکھائی آپ لوگ جیت جاتے ہیں اور اس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف ہے وہ آزاد ہوتے ہیں کیا یہ انریسٹ کیا یہ عدم استحکام ملک میں یہ اگلی چار سال بھی پانچ سال بھی جاری رہی گی؟

جواب: ان میں وہ دم نہیں ہیں، انہوں نے لانگ مارچ کیے پبلک نے رپورٹ نہیں کیا، انہوں نے بھی جیل بھرو کی تحریک کی دھمکی دی کوئی نہیں گیا، تو ایسا نہیں ہے اس میں دم خم ہے ہی نہیں وہ اس مزاج کے لوگ ہی نہیں ہے، عیاشیاں کرنے والے، اچھل کھودنے والے، ڈانس کرنے والے، ٹھنڈی زمین پر پاؤں رکھنے والے اور یہ تتلیاں اور یہ جو ان کے ہوتے ہیں نا چھوٹے چھوٹے بچے تو وہ ان کا یہ مزاج ہے نہیں، وہ اتنے سخت جان نہیں ہے کہ ملک میں تحریک اٹھا سکیں گے

سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت بہت سموتھلی ہے

جواب: ان شاءاللہ ان شاءاللہ اور جمہوریت میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے یہ بھی تو نہیں ہوتا کہ بالکل تنقید نہ ہو تنقید بھی ہوتی ہے سارا کچھ چلتا رہتا ہے لیکن ایسی کوئی پریشانی والی بات بالکل بھی نہیں

ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat

ڈیرہ اسماعیل خان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی صحافی سعید اللہ مروت سے گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, January 3, 2024



0/Post a Comment/Comments