جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کا تعارف و مقاصد


جمعیتہ طلباء اسلام پاکستان کا تعارف و مقاصد

جمعیتہ طلباء اسلام پاکستان ایک طلباء تنظیم ہے۔ جو مذہبی سیاسی جماعت جمعیتہ علماء اسلام پاکستان کے زیر سرپرستی کام کر رہی ہے۔ جس کی بنیاد فاتح قادیانیت حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ و دیگر علماء کرام نے شاہینوں کے شہر سرگودھا میں 19 اکتوبر 1969ء کو رکھا۔ ستمبر 1969ء کو جمعیتہ علماء اسلام کے مجلس عمومی کا اجلاس سرگودھا میں منعقد ہوا جس میں جمعیت طلباء اسلام کے قیام اور فعالی کیلئے تین سرپرست مقرر کیے گئے، مولانا شمس الدین ( ہزارہ) مولانا شمس الدین (ڈھاکہ) اور مولانا سعید احمد رائے پوری (سرگودھا) سرپرست مقرر ہوئیں۔ 19 اکتوبر 1969 کو جمعیتہ طلباء اسلام کے ابتدائی اجلاس میں محمد اسلوب قریشی صاحب کو چیف آرگنائزر (منتظم اعلیٰ) مقرر کیا گیا۔ 1970 کو گوجرانولہ میں جمعیتہ طلباء اسلام کے پانچ روزہ اجلاس میں انتخابات کے نتیجے میں محمد اسلوب قریشی صاحب مرکزی صدر جبکہ مطلوب علی زیدی صاحب مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔

جمعیتہ طلباء اسلام وہ واحد جماعت ہے جسکو وقت کے مستند جید علماء کرام کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ جماعت بیک وقت "دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں"۔ عصری تعلیمی اداروں" کے طلباء (جن کو فرنگی سامراج نے ایک گہری سازش کے تحت ان کے جذبات و احساسات، افکار و نظریات اور عقائد سے کھیل کر ایک دوسرے سے الگ کیا تھا) کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ یہ وہ انقلابی، نظریاتی اور دینی تحریک ہے جو کسی بھی قسم کے غیر فطری تقسیمات علاقائی، لسانی، برادر ازم اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہے۔ جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے عدم تشدد کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔ جمعیتہ طلباء اسلام نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس یونینز کے الیکشن لڑے جیتے بھی اور ہارے بھی لیکن یوم تاسیس سے اب تک ڈھونڈنے سے بھی ایسا مثال نہیں ملتا کہ جمعیتہ طلباء اسلام کے کارکنوں نے کسی کو اغوا کیا ہو، کسی پر تشدد کی ہو، یا کسی سے گن پوائنٹ پر اپنی بات منوائی ہو۔ جمعیتہ طلباء اسلام کوئی سطحی تنظیم بلکہ اپنا نظریہ اور پروگرام رکھتی ہے جو یقیناً، اور انکی فکری اصلاح اس دوسری طلبہ انداز میں کرنا چاہتی ہے کہ طلباء سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، انجینئر، قانون دان یا ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن ، اسلام دوست اور ملک کا زمہ دار شہری ہے، اور تعلیم سے فراغت کے بعد بھی اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزارے۔ طلباء تنظیموں سے مختلف ہے۔


جمعیتہ طلباء اسلام کیوں بنی ؟

"کیوں " کا سوال ہر نئے یا ہر اس چیز کے بارے میں پیدا ہوتی ہے جس کے متعلق ہمیں علم نہ ہوں۔ اس سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کیلئے ہم اپنے ہر سوال میں " کیوں " کا لفظ استعمال کرتے ہے۔ اب جمعیتہ طلباء اسلام کیوں بنی؟ یہ سوال ہر اس طالب العلم کے ذہن میں آتا جس کو جمعیت طلباء اسلام میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہونگے کہ کسی جماعت، تنظیم یا پارٹی کے معرض وجود میں آنے کے وجوہات اور اغراض و مقاصد ہوتے ہے بالکل اسی طرح اس فیڈریشن کے بھی اپنے مقاصد ہے اور چونکہ یہ جماعت اپنے نوعیت کا منفرد جماعت ہے اسلئے اسکے وجوہات اور مقاصد بھی منفرد اور ٹھوس ہے۔ اس ضمن میں اسکا مختصر سا پس منظر پیش کیا جا رہا ہے ، ( تفصیلاً اس کے بعد ۔۔۔) 

جب انگریزوں نے بر صغیر پاک وہند میں اپنا اثر و رسوخ مظبوط کر کے مغلیہ سلطنت کا تخت تاراج کیا اور برصغیر کے مستقبل کا کایا پلٹ دی۔ تو انھوں دوسرے شعبوں میں اصلاحات (اصلاحات کے نام پر تخریب کاری اور اپنے نظام و قانون کو نافذ کرنے) کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو بھی تبدیل کرانا اور ان میں اپنا نظام تعلیم رائج کرنا چاہا کیونکہ اس سے پہلے مسلمانوں کے نوجوان دینی اور فنی تعلیم ایک ساتھ حاصل تھے جو بعد میں انگریزوں کیلئے خطرے کا باعث تھا جسکی زمہ داری لارڈ میکالے (کے قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دے کر ان) کو سونپی گئی۔ جس کے حوالے سے لارڈ میکالے نے خود یہ کہا کہ ہمارے نظام تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل اور زبان کے لحاظ سے ہندوستانی ہو جبکہ فکر و سوچ اور عقائد کے لحاظ سے عیسائی ہو۔
جس کے جواب علماء دیو بند نے کہا کہ ہمارے نظام تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل اور زبان کے لحاظ سے ہندوستانی ہو جبکہ عقائد و نظریات اور افکار کے لحاظ سے مسلمان ہو۔ اس مقصد کیلئے جامعہ ملیہ علی گڑھ کا قیام نمایاں قدم تھا۔ تقسیم ہند کے بعد چونکہ ہر چیز ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار ہوا تھا سو یہ نظریہ بھی حالات کے موجوں کا تاب نہ لاتے ہوئے دب گیا تھا۔ وطن عزیز پاکستان کے ادوار اوائل میں یہی مسائل پھر سے دیکھ کر علماء کرام نے وقت کا نزاکت سمجھتے ہوئے اس تحریک کو دوبارہ جماعتی شکل دے کر جمعیت طلباء اسلام پاکستان" کے نام سے زندہ کیا۔ جو تاسیس سے لے کر آج تک اپنا موقف طلباء کے سامنے رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کے تحصیل میں اپنا کردار نمایاں طریقے سے سرانجام دے رہا ہے۔

جمعیتہ طلباء اسلام کیوں بنی؟ ( وجوہات تفصیلاً )

1: یہ فطری امر ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف کے تعلیمات کو بھلا دیتی زمانہ انکو مٹانے میں دیر نہیں کرتی۔ جیسا کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے
بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
شریا نے زمیں پر آسماں سے ہم کو دے مارا
جو قوم اپنے اسلاف کے میراث اچھے طریقے سے اپنے آنے والے نسلوں کو نہیں پہنچاتے وہ قوم مٹ جایا کرتی ہے یا کسی دوسری قوم میں خلط ہو کے اپنا قومی شناخت کھو دیتی ہیں۔ کیونکہ نواجوان اور نیا نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ حیات، دست و بازو اور دل و دماغ ہوتی ہیں اور قوموں کے فلاح و بہبود اور ترقی کا انحصار اسی قوت کے صحیح تعلیم و تربیت پر ہوتی ہے۔ 
مسلمانوں کے ملی وحدت، استحکام اور اقوام عالم میں سر بلندی کا دارو مدار اسی پر ہے کہ ہم اپنا تہذیب و تمدن، اخلاقیات، اسلامی تعلیمات اور قواعد و ضوابط اپنے مستقبل کے ورثا کو اس کمال وراثت سے پہنچائے کہ وہ اس مقام پر فائز ہو کہ انھی تعلیمات کو نسل در نسل منتقل کرتے جائیں۔ اس حقیقت نے چند باہمت نوجوانوں کو یہ احساس دلایا کہ ہم اپنے حقیر سے حقیر تر سرمائے کیلئے آمین و محافظ کے تلاش میں رہتے ہے، تو اسلاف کے سونپی ہوئی وراثت دینی بدرجہ اولی اس قابل ہے کہ اسے نوجوان نسل کے دل و دماغ میں راسخ کیا جائے۔ تاکہ وہ معاشرے کے اصلاح کیلئے کسی دوسرے کے تعلیمات کے محتاج نہ ہو۔ اس مقصد کیلئے انھوں نے جمعیتہ طلباء اسلام کی بیل داغ ڈالی۔

2: جس طرح ایک طالب العلم کو ایڈم سمتھ کے معاشی نظریات پڑھا کر اس سے کمیونزم کی ترویج کا امید رکھنا یا کارل مارکس کے معاشی افکار کا تعلیم دے کر اس کو کپیٹلیسٹ (سرمایہ دارانہ نظام کا حامی گرداننا غلط ہے بالکل اسی طرح لارڈ میکالے کے نظام تعلیم (جس کے متعلق اس نے خود اپنے کمیشن رپورٹ میں بیان دیا تھا کہ "ہمارے نظام تعلیم کا مقصد ایسے نوجوانوں کو تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن فکری اور ذہنی اعتبار سے وہ انگریز ہو گا اور یہ کہ اگر وہ عیسائی نہ بن سکے تو کم از کم مسلمان بھی نہ رہے") میں پلے نوجوان سے یہ آس لگائے رکھنا کہ یہ اسلامی تہذیب کا بول بالا کر یگا بیوقوفی ہی سمجھی جائیگی۔ اسی نظام تعلیم کی کارستانیاں تھی کہ مسلمان نوجوانوں کو بنیادی تربیت سے ہی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک مذہبی طبقہ تھا جو اسلام کے تعلیمات پر عمل پیرا تھے جو انگریزوں کے غاصبانہ تسلط کے مقابلے میں اترائے انکے خلاف پراپیگینڈے کیے، انکو دقیانوسی اور پتھر کے زمانے والے لوگ قرار دیئے، انکے خلاف عوام کے ذہنوں میں نفرت بھر دیا، جعلی ملاؤوں کے ذریعے عوام کے آنکھوں میں انکا کردار مشکوک بنا دیا۔
اور دوسرا طبقہ عصری علوم و فنون کا تھا جو Yes Man بن گیا، جو کچھ فرنگی سامراج نے کہا انہوں نے فوراً سے پہلے آمنا و صدقنا کہا اور انگریزوں سے پہلے وہ اس کیلئے دلائل ڈھونڈنے لگے، یوں اس طبقے کو انگریزوں کی خوشنودی حاصل ہوئی انکو روشن خیال، وسیع النظر ، دنیا کے تقاضوں سے باخبر اور سائنسی لوگوں کے طور پر ابھارا، انکو سرکاری نوکریاں دی اور طرح طرح کے انعامات و القابات سے نوازا۔ اور یوں یہ دونوں ایک دوسرے سے دور تر ہوتے چلے گئے۔ Yes Man نے مذہبی طبقے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مذہبی طبقہ سرے سے انکے ایمان و اسلام سے منکر ہوئے اس نظام تعلیم کا مقابلہ ہمارے اکابرین اپنے وقت میں خوب کیا، اس کے مقابلے میں تعلیمی ادارے بنائے، اسلامی نظام تعلیم کا تصور عام کیا۔ لیکن تقسیم ہند ساتھ جہاں متحدہ بر صغیر کے ساتھ وابستہ ہمارے دوسرے نظریات اور خواب دو لخت ہوئے وہاں یہ جد وجہد بھی سرد مہری کا شکار ہو بلکہ سرے سے ختم ہوا۔ لیکن ایک امید تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے یہاں اسلامی معاشرے کا قیام عملاً دیکھنے کو ملے گا اور دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم میں بھی اسلامی احکامات کے مطابق تبدیلی لائی جائیگی لہذا اس نظریے کے جدوجہد کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی۔ لیکن جس کا ڈر تھا وہی ہو از مام حکومت لارڈ میکالے کے ذہنی غلاموں کو ملی اور جو ہونا تھا وہ کر گئے اور کرتے جا رہے ہے۔ اسلئے اس اہم اور کلیدی شعبے میں اصلاحات کیلئے ایک تنظیم میدان میں اترا جس کو دنیا جمعیتہ طلباء اسلام کے نام سے جانتی ہے۔

3: لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے جہاں ہمارے نوجوان قوت کو دو حصوں میں تقسیم کیا وہی اس کے اپنے نظام تعلیم سے نکلے "پڑھے لکھے جاہلوں" کیلئے تعلیم کو سرکاری نوکریوں تک محدود کیا اور یوں انکے تعلیم کا مقصد بس پیسے کمانا ہی رہ گیا۔ اس کے جو نقصانات نکلنے تھے آپ موجودہ تعلیمی اداروں میں دیکھ سکتے ہو، ڈگریوں کیلئے نمبروں کے دوڑ میں نقل اپنے عروج کو پہنچ گیا ہے۔ تعلیم اپنے مقصد کو فراموش کر چکا ہے، ہمارے طلباء سائنس پڑھ کر سائنسدان بننے کے بجائے ڈاکٹر، انجینئر یا سائنس ٹیچر بن جاتا ہے اور ڈاکٹر بھی کیسا؟ اس کے بارے آپ خوب جانتے ہونگے ، اور انجینئر تو ڈاکٹروں سے بھی آگے۔ یہ سب اسلئے کہ انھوں نے تعلیم خدمت خلق یا شعور پانے کیلئے نہیں بلکہ پیسے کمانے کیلئے حاصل کیا تھا اب پیسے تو کمانا ہونگے چاہے کسی بھی طریقے سے ہو۔
لیٹریچر (ادب) کے طلباء کے قابلیت کا اندازہ ملک کے موجودہ حالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اور ارٹس بھی ایسا ہی۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم میں نہیں یا جن لوگوں نے اس نظام اور ان کو لانے والوں کے خلاف محاذ بنایا انکا کیا کردار رہا ؟ اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بلکہ اس پہلے بر صغیر میں انگریزوں کے چالاکیوں کے وجہ سے اسی مذہبی طبقے سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے، ان بد عنوانیوں کو کنٹرول کرنے کا بس ایک ہی طریقے ہے کہ بڑے سے بڑے پھدے پر فائز ہو کر ریاستی طاقت سے انکو کنٹرول کیا جائے، اور بد قسمتی سے ہمارے ملک میں پھرے کہ اہلیت قابلیت نہیں ڈگری (سند) ہوا کرتی ہے۔ جن لوگوں نے انگریزی سے ٹکر لیا تھا ان کے کردار کشی کے ساتھ ساتھ انکے ڈگریوں (اسناد) کو بھی ناکارہ بنا دیا اور انکو مسجد، مدرسے اور جنازگاہ تک محدود کر دیا۔
انھی طلباء سے یہ امید لگائے رکھنا کہ یہ لوگ معاشرے کے اس ابتر حالات کو بدل دینگے خام خیالی ہی کہلائی جائیگی۔ لہذا ان طلباء کو بہتر طریقے سے تربیت دے کر اور مذہبی طبقے کو مسجد، مدرسے اور جنازگاہ سے نکال کر ملکی انتظامیہ اور سیاست میں لانا، انکے اسناد کو قابل عمل بنانا اور انکو موجودہ معاشرے جدید مسائل اور انکے زمہ داریوں سے باخبر کرنا جمعیتہ طلباء اسلام کے اہداف میں سے ہے۔

4 بر صغیر پاک و ہند کے مختلف النسل، مختلف الزبان، مختلف علاقوں اور مختلف آب و ہوا کے لوگوں نے ایک نظریے اور فلسفے پر متحد ہو کر بر صغیر کی آزادی کیلئے جد و جہد شروع کی جو بعد میں پاکستان کے حصول کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ وہ نظریہ اور رشتہ جس نے ان سب اختلافات کو مٹا کر ان سب کو ایک صف میں کھڑا کیا تھا وہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" تھا۔ یہ پاکستان کا اساسی نظریہ تھا۔ پاکستان کا وجود اور سالمیت اسی نظریے پر منحصر ہے اور یہی اسکا اساس ہے۔ لہذا پاکستان کی بقا اور استحکام اسی میں ہے کہ اس بنیادی فلسفے کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نافذ العمل بنایا جائے کیونکہ کسی عمارت کے وجود کا انحصار اس کے بنیادوں پر ہوتا ہے جب بنیادی مظبوط ہو تو عمارت اپنی جگہ اور حیثیت پر برقرار رہیگی لیکن جیسے ہی بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں تو عمارت کو زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگتی چاہے عمارت کتنا بلند و بالا اور عالیشان کیوں نہ ہو۔ اسی طرح پاکستان جیسی نظریاتی ریاست کے وجود بھی اسی آساس (اسلامی نظام کے نفاذ پر منحصر ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ پاکستان کے بنتے ہی اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو اسلامی نظام حکومت اور معاشرت تو کیا اسلام کے انفرادی زندگی کے الف ب سے بھی بے خبر تھے اور سیدھی سی بات ہے کہ جب کوئی بندہ اپنے چند فٹ بدن اور گھر میں اسلام نافذ نہیں کر سکتا وہ اس وسیع ملک میں اس آساسی نظریے کو کیسے نافذ العمل بنا سکے گا؟ انھی حالات کے پیش نظر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) جو اپنے الگ شناخت مختلف نسل و زبان متفاوت جغرافیہ کے باوجود جس وجہ سے پاکستان کے ساتھ شامل ہوئے تھے وہ و ہی آساسی نظریہ "لا الہ الا الله محمد رسول اللہ" تھا، انھوں نے دیکھا کہ جس آساسی نظریے کے تحت ہم نے اتنے دور ایک خطے کو ریاستی طور پر قبول اور انکی مرکزیت تسلیم کیا عرصہ دراز سے اس کو مسلسل فراموش کیا جا رہا ہے تو الگ ہونا انکا مقدر بنا، چاہیے تو یہ تھا کہ ارباب اقتدار اس واقعے سے سبق لیتے اور اور ملک کو اس کے حقیقی شناخت (اسلامی نظام) سے متعارف کراتے مگر افسوس کے ساتھ انھوں قصداً عمداً ان شناختی اور بنیادی اصول سے انحراف کیا، نتیجتاً لسانی جھگڑوں، علاقائی عصبیت اور صوبائی تعصبات نے جنم لے کر پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لیا۔ ستم بالائے ستم کہ انھی جھگڑوں کو کچھ طلباء نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تعلیمی پر بھی مسلط کر دیا ہے ان فتنوں کے نام پر مختلف طلباء تنظیمیں بنے جنھوں ان تعصبات کو بھڑکا کر تشدد اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار اور اتحاد امت کے علمبردار طلباء نے تعلیمی اداروں بلکہ پورے قوم کو تعصبات کے ان دلدلوں سے نکالنے کیلئے سوچ و بچار شروع کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان لسانی اور علاقائی تفرقات کو مٹانے کا ایک ہی حل کہ اسلامی مواخات قائم کی جائے جس طرح مہاجرین اور انصار نے اسکا بہترین نمونہ پیش کیا۔ لیکن یہ تب ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ طلباء کے ذہنوں میں ان حقیقتوں کو راسخ کیا جائے "الخلق كلهم عيال الله" تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، "الناس كلهم اخواة" تمام لوگ آپس میں بھائی بھائی ہے، "وجعلناكم شعوبا وقبائل لتعارفو" اور ہم نے تم کو قبیلے اور ذاتیں اسلئے بنائیں تاکہ یہ دوسرے کو پہچان سکو۔

5: مستشرقین نے الفاظ کی شعبدہ بازیوں سے کام لے کر اسلامی تعلیمات کی تشریحات اور تعبیرات میں غیر اسلامی نظریات و افکار کو تحقیق اور ریسرچ کے نام سے سمو دیا اور انہیں نصاب تعلیم میں شامل کر دیا تا کہ خالی الذہن مسلمان طلباء وہ اسلام سے متصادم باتوں کو اسلام سمجھ کر قبول کر لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی من مانی تفسیر کرنے کے لیے احادیث کو اسلامی قوانین کا ماخذ ثانی ماننے سے انکار کا بیج بویا گیا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور آپ کی محبت میں پروان چڑھنے والے پاک طینت طبقہ کو معیار حق نہ مان کر طلباء کو اسلام کے ناقابل عمل ہونے کا یقین دلایا گیا۔ اسلام کی ایسی تعبیر پیش کی گئی۔ جس کے ذریعے طلباء کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ دین اسلام دیگر مذاہب کی طرح پرسنل معاملہ ہے اس کا اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلامی طرز معیشت کو ملک میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کے قالب میں ڈال کر طلباء کو یہ تاثر دیا کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی فرق نہیں۔ اس طرح یہ بات طلباء کو ذہن نشین کرائی گئی کہ مفکرین اسلام پادریوں کی طرح سرمایہ داروں کا تحفظ کرتے ہیں اور قسمت کے نام پر غریبوں کے استحصال کو روا رکھتے ہیں۔ 
نوجوانوں کو اس ضلالت و گمراہی کے جھگڑوں کی لپیٹ سے محفوظ رکھنے کیلئے چند طلباء کی رگ حمیت بھڑ کی اور وہ صحابہ کرام اور سلف صالحین کی تعبیر دین کے مطابق اس پروگرام کو لے کر تعلیم گاہوں میں سر گرم عمل ہو گئے کہ حدیث یعنی وحی غیر متلو ( جس کی تلاوت نہ کی جائے) تاریخ نہیں محبت ہے اس کے بغیر نہ قرآن پاک کے معنی و مفہوم کا تعین ہو سکتا ہے اور نہ ہی احکام الہی کی عملی شکل سامنے آسکتی ہے مثال کے طور پر قرآن پاک کی اس آیت مقدسہ ہی کو لیجئے کہ "واتوا حقه يوم حصاده" (اس کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو) اگر حدیث پاک یہ بات نہ بتائی کہ فرمان خداوندی میں لفظ حقہ سے مراد عشر اور نصف عشر ہے تو پھر کیسے معلوم ہوتا کہ حقہ سے کیا مراد ہے۔ یہی سوال "اقيموا الصلوة واتو الزكوة" (نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو) کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ غرضیکہ حدیث پاک کو چھوڑ کر قرآن کی جو تشریح و توضیح بھی کی جائے گی وہ کسی شخص کی اپنی ذہنی اختراج تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا قرآن پاک سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کے آشکارا ہونے پر با اصول طبیعت کے مالک طلباء منکرین حدیث کے مفسدانہ عزائم سے باخبر ہو گئے۔ پھر انہی طلباء نے صحابہ کرام کے معیار حق ہونے سے متعلق قرآن وحدیث کا فیصلہ بھی تعلیم گاہوں میں سنایا "امنوا كما آمن الناس" (القرآن) ایمان لاؤ جس طرح صحابہ ایمان لائے) "اصحابي كالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم" (الحديث) میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔
صحابہ میں سارے نجوم ہدایت
فیض کرم، آفتاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صحابہ کرام کے معیاری ہونے کے بارے میں قرآن وحدیث کے فیصلوں میں کما اور اک دونوں تشبیہ نام کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور ان قرآنی فیصلوں کے بعد تو کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ "رضی الله عنهم ورضوا عنہ" اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ اور یہ "اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى لهم مغفرة واجر عظیم" ( یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے خالص کر دیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے بے مغفرت مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ جہاں قرآن وحدیث کی روش روشنی میں صحابہ کرام کو معیار حق مان کر طلباء کے دلوں میں یہ حقیقت گھر گر گئی کہ اسلام عمل ہے محض نظر نہیں۔ وہاں ان کے دماغ میں یہ بات بھی نقش ہوئی کہ "لا رهبانية في الاسلام" اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے۔ اس لیے کہ لله الامر ، ان الحكم الا اللہ حکومت صرف اللہ کی حاکمیت صرف اللہ کی اسلامی حکومت کا آئین ہے اور اسے چلانے کے لیے "وشاورهم في الامر" "وامرهم شورى بينهم" اور آپ اپنے ساتھیوں سے مشورہ فرماتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا شعار آپس میں مشورہ کرنا ہے۔ یہ اسلام کے سیاسی نظام کے دو بنیادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا معاشی نظام بھی ہے کہ "وان ليس للانسان الا ما سعی" اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کمایا۔ اس آیت قدسیہ سے تو سرمایہ دارانہ نظام اور استحصال کی جڑ کٹ گئی اور "یسئلونك ما ذا ينفقون قل العفو" آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ فرمادیجئے ضرورت سے زیادہ سب کچھ۔ اس سے کمیونزم کے حامیوں کی آنکھیں نیچی ہو گئیں۔ طلباء اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام سے یہ بخوبی سمجھ گئے کہ جو دین عدالت حکومت اور معیشت کے ہر دور کے تقاضوں پر محیط اور جامع و ہمہ گیر نظام رکھتا ہو۔ اسے دیگر مذاہب کی طرح افیون یا پرسنل معاملہ کیسے کہا جا سکتا ہے اور جس دین نے اپنے ماننے والوں پر مشتمل مملکت اسلامیہ کے قومی تشخص اور ملی وجود کو بر قرار رکھنے کے لیے "من تشبه بقوم فهو منهم" جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہو گیا۔ ایسا سنہرا ضابطہ متعین کر دیا ہے اور پھر ملت اسلامیہ کو اخلاقی گراوٹ سے بچانے کے لیے علم دیا گیا ہے کہ "وأمروا بالمعروف وانهوا عن المنکر" یعنی اچھی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو۔ ایسا انقلاب آفرین قانون مرحمت فرما دیا ہے۔ علماء حق کی پاکیزہ صحبت میں بیٹھ کر جن طلباء کے دل و دماغ میں اسلام کے یہ اصول و مبادی اتر گئے۔ انہوں نے نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آنے والی تعبیر دین تعلیم گاہوں میں پروان چڑھنے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے اور مسلمان طلباء کو مستشرقین کے گمراہ کن پروپیگنڈے کی مسموم فضا سے بچانے کے لیے اپنے حسن تدبر سے کام لیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دینی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ان میں اسلام سے اتنا گہرا لگاؤ پیدا کر دیا جائے تاکہ ایسے لوگوں کے لیے راہ ہموار ہوتی چلی جائے جو اس ملک میں خلافت کا مستحکم اور پائیدار نظام حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جمعیتہ طلباء اسلام کا وجود اس گہرے احساس کا نتیجہ ہے۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ طلباء کی بعض تنظیمیں آئمہ کرام اور اسلاف کی تقلید (کسی کی بات ماننا) اور ذہنی غلامی اور کسی کے آگے جھکنا مغربی تصور کے ساتھ خلط ملط کر کے اور اس کے معنی و مفہوم کو گڈ مڈ کر کے نوجوانوں میں علماء اسلام سے بد ظنی اور نفرت پیدا کر رہی ہیں اور اسلام سے فرار کی راہ راہ دکھا دکھا رہی رہی ہیں ہیں۔ اس تکلیف دہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے والے طالب العلموں نے جمعیتہ طلباء اسلام کی بنیاد رکھی اور یہ ہر معاملے میں کسی ایک شخص کے نظریات کے مطابق سوچنے سمجھنے کی تلقین نہیں کرتی بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے علما حق کی رہنمائی میں زندگی بسر کرنے کو عین سعادت سمجھتی ہے، یاد رہے کہ علماء حق وہ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور سلف صالحین کی نقل کرده تعبیر و تشریح دین کے ترجمان ہوں۔

6: زندہ قوم کی نئی نسل تعلیمی دور میں اپنے ملک کے اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاملات کا بھی مطالعہ کرتی ہے اور تمام سیاسی پروگراموں کو نظر سے گزارتی ہے تا کہ عملی زندگی میں داخل ہونے تک صحیح سوچ پیدا ہو سکے اگر تعلیم کے دوران طلباء کو ہنگامہ آرائی توڑ پھوڑ اور اساتذہ کے خلاف سرگرمیاں اختیار کرنے کی راہ پر ڈال دیا جائے تو یہ نہ تو طلباء ہی کے حق میں اچھا ہو گا اور نہ ملک وملت کے لیے خوش آئند اور نہ ہی والدین اس سے خوش ہوتے ہیں۔ پھر سب سے زیادہ تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ اخلاقی اقدار پامال ہوتی ہیں اور بد اخلاقی جنم لیتی ہے۔ طلباء کی مختلف تنظیمیں ایسا کردار ادا کر رہی ہیں۔ جمعیتہ طلباء اسلام ایسی تنظیموں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے اور طلباء میں سیاسیات کا صرف صحیح مطالعہ کرنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔

آپ نے جمعیتہ طلباء اسلام پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی وجوہات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور اب آپ کے لیے جمعیت طلباء اسلام سے متعلق فیصلہ کرنا مشکل نہیں رہا۔ اگر آپ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہے تو آئیے اور ہمار ا ساتھ دیجئے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔





 

0/Post a Comment/Comments