صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں متحدہ مجلس عمل کے حکومت کی مثالی کارکردگی


صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں متحدہ مجلس عمل کے حکومت کی مثالی کارکردگی
مطبوعہ ماہنامہ الجمعیۃ شمارہ نومبر2017

قیام پاکستان کے روز اول سے علماء کرام کی قیادت میں پاکستان کے راسخ العقیدہ مسلمان ''جمعیةعلماء اسلام '' کے پلیٹ فارم پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں اور اسلام دشمن قوتوں سے برسرپیکارہے ۔جمعیة علماء اسلام کے قیام کا مقصد ''اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام'' اور پاکستان کو اس کی نظریاتی منزل تک پہنچانا ہے ۔اگرچہ جمعیة اپنی منزل تک تاحال نہیں پہنچ سکی اور اس کا سفر جاری ہے لیکن اس جماعت کے کارکنوں اور قائدین نے دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان کو استعماری طاقتوں اور اسلام دشمن قوتوں کیلئے ترنوالہ بھی نہیں بننے دیا ، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسرے مسلمان ملک سے زیادہ پاکستان میں اسلامی تحریکیں مضبوط ہیں ، شعائر اسلام اور دینی اقدار محفوظ ہیں ، مسلمانوں میں دینی حمیت اور غیر ت کا جذبہ باقی ہے ، سیاسی میدان میں رہ کر جمعیة نے تمام دینی تحریکات اور اداروں کو تحفظ فراہم کیا ہے ، اس میدان میں کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ ''قرارداد مقاصد'' کی منظوری سے 1973ء کے آئین کے نفاذ تک اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ سے لیکر ناموس ِ رسالت کے تحفظ اور مدارس کی آزادی برقرار رکھنے تک کے اقدامات جمعیة کی روشن تاریخ کا حصہ ہیں۔
گزشتہ چند سالوں سے جب استعماری طاقتوں نے نئے سرے سے عالم اسلام پر حملے شروع کئے اور امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان اور پھر عراق پر حملہ آور ہوا عالمی حالات نے کروٹ بدلی اور عالم کفر نے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ذریعے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ، مسلمانوں کو ''دہشت گرد'' قراردے کر عالمی دہشت گردوں نے ظلم وبربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ عالم اسلام اور خصوصًا افغانستان کے حالات سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ، امریکہ پاکستان کے مقتدر طبقے کے ذریعے یہاں کے دینی طبقے کو ختم کرنے اور پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس سے ہٹانے کی کوشش کی ، حالت دن بدن ابتر ہوتے گئے اور دینی قوتیں مدافعانہ پوزیشن پر آگئیں ، مگر ہمیشہ کی طرح یہاں بھی جمعیہ علماء اسلام نے تاریخی کردار ادا کیا ۔
امام انقلاب، امیر جمعیة علماء اسلام مولانافضل الرحمن نے عالمی اتحاد ( World Coalition) کے مقابلہ میں دینی قوتوں کے اتحاد کیلئے کام شروع کیا ، پاکستان کی تمام دینی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ، تمام جماعتوں کے قائدین علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم ، قاضی حسین احمد مرحوم ، مولانا سمیع الحق، پروفیسر ساجد میر اور علامہ ساجد نقوی نے اس آواز پر لبیک کہا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام دینی جماعتوں کا اتحاد ''متحدہ مجلس عمل '' کے نام سے وجود میں آیا۔ متحدہ مجلس عمل کو عوام کو توقع سے زیادہ پذیرائی ملی اور 2002ء کے انتخابات میں اس نے تاریخی کامیابی حاصل کی ، صوبہ خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل نے بلا شرکت غیرے حکومت بنائی ، بلوچستان میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے حکومت کی تشکیل میں حصہ لیا ، سندھ و پنجاب اور مرکزمیں ماضی کی نسبت زیادہ مؤثر طور اپوزیشن کا حصہ بنی اورقائد جمعیة مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں ''قائد حزب اختلاف''بنے ۔
چونکہ خیبرپختونخوا میں عوام نے دیگر سیاسی جماعتوں ، وڈیروں ، نوابوں اور خوانین کو مسترد کر کے ایک بڑی تبدیلی کیلئے متحدہ مجلس عمل پر اعتماد کا اظہار کیا تھا ، اس لئے مجلس عمل کی حکومت نے انقلابی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کیا، محدود وسائل او ر بے شمار رکاوٹوں کے باوجود اللہ کے فضل و کرم سے ایسے اقدامات کئے جسکے مثبت اثرات براہ راست معاشرے پر پڑے اور عام آدمی کو فائدہوا۔اگرچہ وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے صوبائی حکومت کو پریشان کئے رکھا اور رکاوٹیں پیدا کی گئیں مگر مشکل حالات میں وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی اور ان کی کابینہ کی کارکردگی مخالفین سے بھی دادِ تحسین وصول کرچکی ہے ۔ ذیل میں مختلف محکمہ جات میں ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کے چیدہ چیدہ اقدامات ملاحظہ فرمائیں :
نفاذشریعت کے حوالے سے پیش رفت:
متحدہ مجلس عمل کی حکومت جس پر وجود میں آئی وہ یک نکاتی منشور یعنی نفاذ شریعت ہے، اسی نکتے پر پر حکومت کی کامیابی و ناکامی کا انحصار ہے ۔ اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر نفاذ شریعت کونسل تشکیل دی گئی ۔کونسل کے چیئرمین مفتی غلام الرحمن مدظلہ نے اپنی ٹیم کیساتھ انتھک محنت کر کے صرف باون دنوں کی مدت میں نفاذ شریعت کا مسودہ تیار کیا ، جسے مجلس عمل کے اکابرین کے سامنے پیش کیا گیا ، بعد ازاں وزیراعلیٰ ، کابینہ اور محکمہ قانون کی منظوری کے بعد اسے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا ، جہاں یہ اتفاق رائے سے منظو رہوا۔
موجودہ سسٹم سے بے خبر افراد کا خیال یہ تھا کہ یہ مسودہ منظور ہوتے ہی پورے صوبے میں ہر طرف شریعت نافذ ہوجائے گی ، جب اس مسودے کے اثرات بظاہر محسوس نہیں ہوئے تو مخالفین نے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پرو پیگنڈہ کیا کہ یہ محض ایک ڈھونگ ہے ''شریعت بل '' کی منظوری سے ایک بنیادی مقصد یہ حاصل ہوا کہ قانونًا یہ بات طے ہوچکی کہ صوبے میں''شریعت ''بالاتر قانون ہے اور شریعت کیخلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکے گی ۔صوبائی طور پر اسلامی نظام قائم کرنے کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ اسلامی اقدار کے احیاء کی ابتداء کی جائے ، اسلامی شریعت کے اندر موجود مخفی صلاحیتوں کا آشکارا کیا جائے اور دنیا کو دکھایا جائے کہ دوسرے رائج نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں اسلامی قوانین زیادہ انصاف پر مبنی اور فلاح ِ انسانیت کے ضامن ہیں ۔ قابل غور ہے کہ جو اختیار جمہوری اندازمیں ہمیں ملا ، اگر یہ اختیار ہمیں50فیصد ملا اور ہم نے اسے استعمال کرتے ہوئے 40فیصد کام کیا ہو تو یہ یقینا ہماری کمزور ہو گی اور اگر اختیار وہی 50فیصد ہے اورتوقعات 100فیصد ہوں تو یقینا نا انصافی ہو گی ،ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ محدود اختیارات میں ہماری کارکردگی شانداررہی ۔
قانون، پارلیمانی امور و انسانی حقوق:
ایم ایم اے حکومت نے عوام کے ساتھ کئے گئے انتخابی وعدے کی تکمیل کے لئے قانون سازی میں نمایاں پیش رفت کی ، نفاذ اسلام اور اسلامی اقدار کے فروغ کے لے موثر عملی اقدامات کئے گئے ، اسلامی قوانین کی تدوین اور ان کے نفاذ کے لئے کئے گئے اقدامات میں شرعی بل کی تدوین او رمفتنہ سے اس کی منظوری ، حسبہ بل کی تدوین و تشکیل اور صوبائی اسمبلی سے منظوری ، سپریم کورٹ میں حسبہ بل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی پیروی، وفاقی حکومت کو حسبہ بل کی بابت تفصیلی معلومات مہیا کرنا اور اعتراضات کے جوابات دینا ، حسبہ بل کی بابت رائے عامہ کی ہمواری کے لئے تگ ودو ، بینک آف خیبر میں بلا سود بینکاری کیلئے مسودہ قانون کی تیاری ، پاٹاعدالتی اصلاحی کمیشن کی تشکیل و کارگزاری میں فعال کرادار، نظام صلوٰة کے نفاذ کیلئے احکامات کا اجراء اور نفاذ کی نگرانی شامل ہے ۔
حسبہ ایکٹ کی منظوری:
حسبہ ایکٹ کی غرض و غایت دو اجزاء پر مشتمل ہے ، پہلی اسلامی معاشرہ کا قیام اور دوسری رشوت، خیانت اور بددیانتی یعنی کرپشن کا خاتمہ ۔کرپشن کے خاتمے کیلئے پہلے سے قوانین موجود ہیں مگر موثر اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکا ۔ اس کی بڑی وجہ مطلوبہ رجال کار کا میسر نہ ہونا ہے ، قانون در قانون بنانے سے متعلقہ افراد مالی فوائد در فوائد حاصل کرتے ہیں اور کرپشن میں اضافہ ہوتاہے ۔
چونکہ موجودہ حکومت علماء کرام کی جدو جہد کا نتیجہ ہے لہٰذا علماء کرام ہی اس لعنت کا تدارک کر سکتے ہیں ، چنانچہ حسبہ ایکٹ کے ذریعے ایک محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو دینی علوم کا فاضل او رمطلوبہ و مقررہ اوصاف کا حامل ہو گا۔ اس کی معاونت کیلئے دو دیانت دار وکلاء اور ایک ڈائریکٹر ، دو علماء او ر دو صحافی ہوں گے ، ان کا کام ہر محکمے کا احتساب ہو گا، اور پبلک مقامات پر اسلامی معاشرت کی حفاظت ہوگی ۔ مثلا نماز جمعہ، عیدین، عوامی میلوں ، بازاروں اور جہاں جہاں بھی انسانوں کا اجتماع ہو گا، وہاں حسبہ فورس اسلامی معاشرہ کی حفاظت پر مامور ہو گی ، اسی طرح علماء کرام شریعت کی روشنی میں معاشرے میں اسلامی اقدا رکا تحفظ کر سکیں گے۔
حسبہ ایکٹ کو وزیر اعلیٰ ، کابینہ اور لاء ڈیپارٹمنٹ کی ضروری کاروائی کے بعد گورنر کے پاس بھجوایا گیا جنہوں نے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سپر دکردیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کی کمی کی بناء پر کونسل کے اکثر معاملات التوا ء کا شکار تھے ،اسلئے صوبائی حکومت نے اسے براہ راست صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ، اس کیلئے اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا مگر لاء ڈیپارٹمنٹ نے ایک قانونی تجویز دی کہ اس ایکٹ کو رولز آف بزنس کے ذریعے پیش کیا جائے تاکہ کوئی قانونی سقم باقی نہ رہے اور کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہ ہو سکے حسبہ ایکٹ کی صوبائی اسمبلی سے منظوری کے بعد وفاقی حکومت نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اس پر علمدرآمد رکوا دیااور اس میں ترامیم تجویز کی گئیں۔صوبائی حکومت نے ان کی تجویز کردہ ترامیم کرکے اسے دوبارہ اسمبلی سے منظورکرایا اور منظور ی کیلئے مرکز بھجوا دیا جو کہ حکومت کے خاتمے تک دستخط کا منتظررہا۔اگراس پر پورے صوبے میں عملدرآمد ہوتاتواسلامی نظام کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنا شروع ہو جاتے مگروفاقی حکومت آڑے آئی۔
اس ایکٹ میں تجویز کیاتھا کہ صوبائی محتسب اورمعاونین کے تقرر کے بعد ضلعی سطح پر تقرریاں ہوں گی جن میں ایک محتسب ، ایک عالم ، ایک سرکاری افسر ، ایک وکیل اور ایک صحافی ہوگا، تحصیل سطح پر معاونین ہوں گے ، ہر تھانے کی سطح پر مصالحتی کمیٹی ہو گی جس کا سربراہ ایک عالم دین ہوگا۔متعلقہ تھانے کا SHO کمیٹی کا سیکرٹری ہو گا، تمام تنازعات شریعت کی روشنی میں باہمی رضا مندی اور صلح سے طے کئے جائیں گے ، یہ کمیٹی تھانے پر نظر رکھے گی تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو سکے ۔
تعلیمی اصلاحات:
متحدہ مجلس عمل نے اقتدار سنبھالتے ہی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لئے ماہرین کے سیمینار اور ورکشاپ کروائیں ، شریعت ایکٹ کے تحت 12 رکنی ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ، جس نے پورے نظام کے لئے اصلاحی تجاویز مرتب کیں جن میں تعلیم ،تربیت ِ اساتذہ،طلباء کی کردار سازی ، نصابی تعلیم کی اصلاح ، شرح خواندگی میں اضافہ کی ضرورت، و تعلیم نسواں کی اہمیت اور سرکاری اداروں پر اعتماد کی بحالی کے لئے انتظامی ڈھانچے کی اصلاح شامل تھے ، کمیشن نے اپنی مشاورتی مجالس میں انقلابی انداز کی بجائے عملی اور سہل اندازاپنانے فیصلہ کیا ، کمیشن کی سفارشات میں طلباء کی تعداد کو بڑھانا، تعلیم نسواں، سرکاری سکولوں پر اعتماد کی بحالی، اساتذہ کی تربیت، طلباء کی کردار کی تعمیر، تعلیمی مواد کی بہتری اور موثر ذریعہ تعلیم شامل تھے ، صوبائی حکومت نے کمیشن کی جماعت سوئم کے طالب علم کا باجماعت نماز کے قابل بنانے اور جماعت ششم سے دہم تک اسلام بطور ضابطہ حٰات ، اسلامی معاشرت ، نظام اخلاق و عادات، نظام معیشت اور عدالتی وقانونی نظام پر مبنی اسلامیات کا نصاب مرتب کرنے سے متعلق سفارشات کو فوری طور پر منظو ر کرتے ہوئے ایک جامع لائحہ عمل تیار کیا ۔ تعلیمی میدان میںایم ایم اے حکومت نے زبردست انقلابی اقدامات کئے، جن کی مثال ماضی میں نہیں۔
تعلیمی فیسوں کی معافی
ایم ایم اے کی حکومت نے پہلے ہی سال سرکار ی سکولوں میں دسویں تک فیس معاف کر دی ، دوسرے سال پرائمری سکولوں کے طلباء و طالبات کو 29کروڑ40لاکھ روپے کی نصابی کتب مفت فراہم کیں ، تیسرے سال سیکنڈری طالبات کو بھی اس میں شامل کیا گیا جبکہ چوتھے سال سیکنڈری کی سطح تک تمام طلباء و طالبات کو نصابی کتب مفت فراہم کی گئیں ، جس کے نتیجے میں طلباء و طالبات کے داخلوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، اس طرح چار سال کے دوران1ارب 29کروڑ87 لاکھ 12روپے مالیت کی 1کروڑ30لاکھ 4ہزاور 407 کتابیں تقسیم کی گئیں۔ اور پانچویں سال انٹر تک کتابیں مفت دینے کا فیصلہ کیا گیا، جس کی مثال کسی اورصوبے میںنہیں۔
مفت کتابوں کی تقسیم :
فیسوں کی معافی کے بعد مڈل تک کے طلباء و میٹرک تک طالبات کیلئے مفت کتابیں مہیاکرنے کا اعلان کیااس کیلئے حکومت نے سالانہ بجٹ میں 26کروڑ روپے مختص کئے ۔ حکومت خیبرپختونخوا کی دیکھا دیکھیدیگر صوبوں نے بھی ایسے اعلانات کئے اور اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ اس کی تشہیرپر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے ۔
مفت یونیفارم کی فراہمی:
حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ فیسوں کی معافی اور مفت کتابون کی تقسیم کے بعد پرائمری تک کے طلبہ و طالبات کیلئے یونیفارم بھی حکومت مہیا کرے گی تاکہ وہ والدین جو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھا سکتے اور ان کے بچے کم عمری ہی میں محنت مزدوری اور ( Child Labour) کا شکار ہو جاتے ہیں ،وہ بچے بھی تعلیم سے محروم نہ رہ سکیں ۔
ایم ایم اے کے برسراقتدار آنے کے وقت پرائمری سکول جانے والے بچوں کی تعداد محض 14لاکھ تھی ، خواندگی کی شرح 41فیصدتھی ، خواتین میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی ، جبکہ پرائمری سکولوں میں 50طلباء کیلئے ایک استاد تھا ان مشکل حالات اور مالی وسائل کی شدید کمی کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کو ایک اچھی ابتداء کیلئے راستہ بنانا تھا ، اس کیلئے موجودہ تعلیمی حالات میں بہتری لانا اور مسائل کی نشاندہی کیلئے نئی بنیادی استوار کرنے پر کام کیا گیا ، تعلیم ہی حقیقی ترقی کا زینہ ہے، اسی سوچ کو اپناتے ہوئے حکومت نے افرادی قوت کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے تعلیمی سہولتوں کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا۔ آغاز میں سکولوں میں کمروں کی کمی ، اساتذہ کی عدم دلچسپی او رمستند مقامی اساتذہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بعد میں موثراصلاحات کے ذریعے اس مشکل پر قابو پالیا گیا۔ حکومتی اصلاحات میں تعلیم سب کے لئے ، کمیونٹی کی شرکت ، نجی شعبہ تعلیم کا فروغ، انتظامی اور تدریسی کیڈرکی علیحدگی، موجودہ انتظامی عملے کیلئے دوران ملازمت ، تربیت کا اہتمام، پرائمری سکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی اور تربیت، پرائمری اور ہائی سکولوں کے اساتذہ کے تعیناتی کے نئے قواعد ، اساتذ کی تربیت ، کمپیوٹر کی تعلیم ، نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت کے تحت سکولوں میں ایوننگ شفٹ کا اجراء ، سکول میں والدین اور اساتذہ کی ایسوسی ایشنوں کا قیام، مستقبل کی منصوبہ بندی،رسمی تعلیمی اداروں میں کارن بچوں کیلئے بعد از دوپہر سکول، بنیادی تعلیم کی بہتری ، پسماندہ اضلاع میں لڑکیوں کی پرائمری تعلیم کا فروغ قابل ذکر ہیں ۔
اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے اقدامات
متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے سال 2002 کے آخر میں عنان حکومت سنبھالنے کے بعد تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا اور ترقیاتی بجٹ کاایک چوتھائی اس مد میں خرچ کرنے کے بے شمار منصوبے شروع کئے ، محکمہ تعلیم جس کا گزشتہ کئی برسوں سے ترقیاتی بجٹ ڈھائی تین کروڑ سے زیادہ نہیں ہوتا تھا، پہلے سال 26 کروڑ روپے کردیا گیا، بعد ازاں سال بہ سال اس رقم میں اضافہ کیا جاتارہا ، اور 2006-7 تک یہ رقم بڑھ کر 91کروڑ 80لاکھ روپے کر دی گئی ، جبکہ آخری سال اس کا بجٹ ایک ارب 22کروڑ 10لاکھ روپے تک پہنچ گیا ۔ ان خطیر رقومات کو نئے کالجوں کے لئے عمارات کی تعمیر ، پرانے کالجوں کی خصوصی مرمت، پوسٹ گریجویٹ، سائنس، آئی ٹی کی تعلیم کیلئے اضافی سہولتوں کی فراہمی، کالجوں اور کتب خانوں کیلئے فرنیچر ، دفتری و لیبارٹری آلات کی خریداری، پانی کی بہم رسانی، چار دیواریوں اور اضافی کمروں کی تعمیر کیلئے خرچ کیا گیا
نئے کالجوں میں طلباء کے 21، طالبات کے 13، زیر غور کالجوں میں طلباء کیلئے 8 ، طالبات کیلئے 7کالج شامل ہیں اسکے علاوہ ایف ای ایف کے زیرانتظام کالج برائے طالبات، ایف ایف کے زیر انتظام سکول ، کالج ، گیارہ آئی ٹی بلاکس کی تعمیر ، تیرہ سائنس بلاکس کی تعمیر، گیارہ پوسٹ گریجویٹ بلاکس کی تعمیر، گیارہ ہاسٹلز برائے طلباء و اساتذہ ، اٹھارہ چار دیواریوں 84اضافی کمروں ، 18 فراہمی آب کے منصوبوں ، 2انتظامی و لائبریری بلاک ، کیفے ٹیریا، سٹاف روم و19 گروپ لیٹرین شامل ہیں ۔ قیام پاکستان سے سال 2002 تک قائم ہونیوالے کالجز کی تعداد 69 برائے طلبائ29+ طالبات 98=
ایم ایم اے حکومت کے تحت بننے والے کالجوں کی تعداد۔ 43برائے طلباء 33+ برائے طالبات 76=
سال 2004-05 میں فرنٹیئر ویمن یونیورسٹی کا قیام سال 2005 میں یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی بنوں کا قیام ، ماموں خٹلی ضلع پشاور او رجلو زئی ضلع نو شہرہ میں مجوزہ ورلڈ کلاس انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام اور مجوزہ یونیورسٹی لاء یونیورسٹی کے قیام کیلئے قطعات اراضی مختص کر دیئے گئے۔
تجرباتی بنیادوں پرگورنمنٹ کالج پشاور اور گورنمنٹ گرلز کالج کوہاٹ میں سیکنڈ (اضافی) شفٹ کے اجراء کے ساتھ ساتھ داخلے کے خواہشمند طلباء و طالبات کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے سال 13مزید کالجوں میں اضافی شفٹ کا آغاز کردیا گیا جس سے 175بے روزگار نوجوانوں کو بطور لیکچرار ، روزگار میسر آئے ہیں ۔ انٹر میڈیٹ کی سطح پر ایک پروجیکٹ کے ذریعے صوبے کے 25 کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کا بطور مضمون اجراء کیا گیا ، شادی شدہ ملازمت پیشہ خواتین کے کم سن بچوں کیلئے صوبے کے چند کالجوں میں مراکز برائے نگہداشت اطفال قائم کئے گئے، جن کو ایک مربوط منصوبے کے ذریعے خواتین کے تمام کالجوں تک پھیلانے کی تجویز ہے دیگر منصوبوں میں صوبے کے پانچ کالجوں میں انگلش لینگوئج لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں ، اس منصوبے کو آئندہ سال پانچ مزید کالجوں تک بڑھا دیا جائے گا۔ گورنمنٹ کالجوں میں عرصہ دارز سے ایک ہی سکیل (BPS-16) میں کام کرنے والے لائبریرینز کے لئے ترقیاتی فارمولے کا اجراء ، 4درجاتی فارمولے پر نظر ثانی کے بعد گریڈ 19,18 اور 20 کی 309 آسامیاں پیدا کی گئیں جن میں173 مردوں اور 136 خواتین کی ہیں ، کنٹریکٹ کی بنیاد پر 844 آسامیاں عارضی طور پر کی گئیں جن میں 271 خواتین شامل ہیں ۔
تعلیم کے میدا ن میں مندرجہ بالا اقدامات کے نتیجے میں خواندگی کی اوسط میں اضافہ ہوا ، صرف پہلے سال میں یہ نتیجہ نکلا کہ وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال کی سربراہی میں جب اجلاس ہوا اور تمام صوبوں کی تعلیم حالت کا جائزہ لیا گیا تو وفاقی حکومت نے اقرار کیا کہ پہلے صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا) میں50 فیصد بچے زیر تعلیم تھے اور ایک سال میں یہ تعداد79 فیصد تک پہنچ گئی ، ایک سال میں خواندگی میں 29% اضافہ ہوا ۔
لڑکیوں کیلئے علیحدہ کالجز:
مخلوط نظام تعلیم کی خرابیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اسی بناء پر بچیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے کہ والدین اپن بچیوں کو مخلوط ادارون میں نہیں بھیج سکتے۔ ایم ایم اے حکومت نے طالبات کیلئے علیحدہ کالجز قائم کرنے کا فیصلہ کیا،چنانچہ پورے صوبے کے مختلف اضلاع میں لڑکیوں کیلئے 24 علیحدہ کالجز کی منظوری دی۔ لڑکیوں کے لئے علیحدہ کالجز یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کے قیام سے والدین نے اپنی بچیوں کو اداروں میں بھیجنا شروع کردیا اور بچیوں کی تعداد میں بھی ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو ا ۔
پہلی خواتین یونیورسٹی:
یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم میں بھی خواتین کیلئے مخلوط نظام تعلیم رکاوٹ ہے ، لہٰذا صوبہ میں پہلی خواتین یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، اسی منصوبے کے لئے ایک ارب50 کروڑ روپے مختص کر کے اس پر کام شروع کر دیا گیا ۔
پہلا خواتین میڈیکل کالج:
ہر مقام اور ہر سطح پر خواتین کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بنیادی طور پرضروری ہے کہ وہاںلیڈی ڈاکٹرز مہیا کی جائیں ، اس ضرورت کے پیش نظرصوبائی حکومت نے خواتین کیلئے پہلا میڈیکل کالج بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے لیڈی ڈاکٹر تیار ہو کر خواتین کی ضرورت کو پورا کر سکیں ۔
نئے اساتذہ کی تقرری: صوبے میں گزشتہ پانچ سال سے اساتذہ کی تقرری پر پابندی تھی ، نئے اساتذہ کی ضرورت میں آئے دن اضافہ ہوتارہا ، چنانچہ پہلے ہی سال 14000 اساتذہ کی تقرری اور محکمہ جاتی تقرری عمل میں لائی گئی ہے ۔
دینی مدارس اور فرموں کی رجسٹریشن
صوبائی حکومت کے پرزور اصرار پروفاقی حکومت نے دینی مدارس کی رجسٹریشن پر دس سالہ پابندی کا خاتمہ کیا اور مدارس کی رجسٹریشن کے طریقہ کار کو فیس ختم کر کے سہل بنایا گیا جس کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار 357 نئے مدارس رجسٹرڈ ہو چکے ہیں ، چا رہزار 520فرموں کی رجسٹرین کی گئی ۔
شعبہ صحت کی کارکردگی: علاج معالجہ کی سہولیات کیلئے متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے مثالی قدم اٹھائے ، چند چیدہ چیدہ اقدامات درج ذیل ہیں:
ہر ضلع میں اے گریڈہسپتال:
صوبائی حکومت کے فیصلے کے مطابق ہر ضلع میں ایک A Grade 1ہسپتال بنایاگیا ، صوبہ خیبرپختونخوامیں 24 اضلاع ہیں ، جہاں پہلے ہسپتال نہیں تھے وہاںہسپتال تعمیر کئے گئے اور جہاں پہلے سے ہسپتال موجود ہیں ان کی (Upgradation) کی گئی۔ پہلے مرحلے میں 19ہسپتالوں پر کام شروع کردیا گیا ۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال: ہر تحصیل کی سطح پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو لازمی قراردیا گیا اور اس سلسلے میں جہاں جہاں کمی ہے اس کو پورا کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئیں، جہاں پہلے سے ہسپتال قائم ہیں انہیں بنیادی سہولتیں اور فنڈز فراہم کر کے کارکردگی بہتر بنائی گئی ۔
ایمر جنسی علاج مفت:
صوبے کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمر جنسی ( شعبہ حادثات) کے مریضوں کا تمام علاج بالکل مفت کرنے کے حوالے سے فیصلہ کیا گیاکہ اسکے تمام اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی ، تاکہ کوئی غریب آدمی روپے پیسے کی کمی کی بناء پر علاج کے بنیادی حق سے محروم نہ رہ سکے ۔
دو شفٹوں میں سروس:
ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسز کی ایک مکمل شفت ہوا کرتی تھی ، ایم ایم اے حکومت نے فیصلہ کیا کہ دن اور رات کیلئے دومکمل شفٹوں کااہتمام کیا جائے تاکہ24گھنٹے ہسپتال کی تمام سروسز بحال رہیں اور اس سلسلہ میں مطلوبہ عملہ کا تقرر بھی کیا گیا
مردانہ و زنانہ نرسنگ:
نرسنگ کے شعبہ کو مردانہ و زنانہ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیاتاکہ مردوں کے مرد اور عورتوں کیلئے زنانہ نرسیں مہیاہو سکیں اس حوالے سے پہلے مرحلے میں700 لیڈی ہیلتھ ورکرز اور171 نرسوں کی بھرتی مکمل کی گئی ۔
بڑے ہسپتالوں میں سرکاری سرائیوں کی تعمیر:
موجودہ حکومت کا ایک او رانقلابی قدم نادارمریضوں کے ساتھ آئے ہوئے غریب لواحقین کی شب بسری کیلئے صوبے کے بڑے ہسپتالوں کے نزدیک سرکاری سرائیوں کا قیام ہے ، اس سلسلے میں پہلی سرائے خیبر ہسپتال کے سامنے بنائی گئی ، جس میں تقریبًا 150لوگ شب بسر کرتے ہیں مزید سات سرائیوں کی منظوری دی ، بعد میں تمام اضلاع تک وسعت دیجائے گی
جیل خانہ جات میں اصطلاحات:
جیلوں میں انسانی حقوق کی پامالی روز مرہ کا معمول ہے ، عمومًا کچے مجرم جیلوں میں جا کر پکے مجرم بن جاتے ہیں ۔ جیلوں میں نظام میں بہتری لانے کے لئے متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے درج ذیل قدم اٹھائے ہیں ۔
جیلوں میں تعلیم کاانتظام :
جیلوں میں ان تمام افراد کیلئے جو تعلیم سے آراستہ نہیں ہیں ، ان کے لئے تعلیم کو لازمی قراردیا گیااور اس سلسلہ میں اساتذہ اور عملہ بھی فراہم کیا گیا۔ تمام جیلوں میں حفظ قرآن کی سہولت بھی دی گئی اور فیصلہ کیا جوحافظ قرآن قیدی کسی ایک شخص کو حافظ بنائے گا یاکوئی قیدی حفظ قرآن مکمل کرے گا اس کے لئے معافی یا کم از کم قید میں معقول تخفیف کی جائے گی ۔نیز قیدیوں کو مختلف ہنر سکھانے کا بندو بست کیا گیا ، جو قیدی کوئی ہنر سیکھ لے گا اس کے لئے بھی قیدمیں تخفیف کی جائے گی ۔
ایم ایم اے حکومت کا اس سلسلہ میں ایک اہم قدم یہ ہے کہ ٥ سال تا ٢٥ سال قیدو الوں کو اپنے اہل خانہ سمیت کچھ دن جیل میں رہنے کی سہولت دی گئی ،تاکہ لمبے عرصے کے قیدی اپنے اہل خانہ کیساتھ تین یا چار ماہ بعد تین دن گزار سکیں گے ، اس کیلئے جیلوں میں علیحدہ کمرے تعمیر کئے گئے ۔ انسانی حقوق پر نظر رکھنے کیلئے مختلف تنظیموں کو جیلوں کے دورے کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ جیلوں کے فرسودہ نظام میں بھی انسانوں کے بنیادی حقوق پامال نہ کئے جا سکیں ۔
(جاری ہے)






1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں