گھریلو تشدد بل، چند سفارشات محمد عمران اسلام آباد


گھریلو تشدد بل، چند سفارشات

 محمد عمران اسلام آباد

حالیہ گھریلو تشدد بل علمی حلقوں میں زیر بحث ہے، اس بل پر رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا، آیا واقعی ہمارے معاشرے میں گھریلو تشدد کے واقعات موجود ہیں کہ نہیں؟ گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے ہم دار الافتاء میں بیٹھتے آرہے ہیں لوگ ہمارے پاس اپنے مسائل لیکر آتے ہیں، اپنے احوال سے آگاہ کرتے ہیں اس کا حل طلب کرتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا سے بھی ہمیں اپنے سماج کی خبریں موصول ہوتی ہیں جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس حد تک ہماری اجتماعی زندگی میں یہ مسائل موجود ہیں۔ 
ان تلخ حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال اہمیت حاصل کرلیتا ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں گھریلو تشدد کے واقعات موجود ہیں تو اس کے سد باب کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں؟ ظلم کہیں بھی ہو رہا ہو اس کے خلاف ہمیں اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ، اور مظلوم کی داد رسی کرنی چاہیے، چاہے یہ آواز مغرب بلند کرے یا مشرق، کوئی لبرل اٹھائے یا کوئی مولوی اس پر لبیک کہنا ہم سب کا بحیثیت انسان ومسلمان فریضہ بنتا ہے۔ 
لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ خاندان جو انسانی نسل کے وجود تحفظ نشو ونما اور بقا کا بہترین ادارہ ہے اس میں ریاستی عمل داری سے یقینا بڑی خرابیاں وپیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، پولیس کے وسیع اختیارات سے یہ نظم تدریجا ابتری کی طرف جاسکتا ہے، یہ ادارہ شکست وریخت سے دوچار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بچے اور خواتین جو اکثر جذباتی رجحانات کی حامل ہوتی ہیں وہ والدین یا شوہر کی جانب سے انتظامی روک تھام یا معمولی معمولی غلطیوں کی وجہ سے شکایت کریں گی اور خاندان کے سربراہ جیل جائیں گے تو اس معاشرہ میں پیچھے خاندان کو کون تحفظ فراہم کرے گا؟ ان کے مالی مسائل کا کیا بنے گا؟ ان کے اخرجات، غمی خوشی کے احوال میں کون دیکھ بھال کرے گا؟ یہ تو کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں کہ ریاست پھر اس گھرانے کی کفالت کا انتظام کرسکے، اس بے ربط وضبط اپنی مدد آپ معاشرے میں وہ بچے اپنے امور وحقوق کے لیے کیونکر دوڑ دھوپ کرسکیں گے۔ 
اس لیے اس باب میں مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی یا ان کے پریشر میں آکر یا مالی مفاد کے حصول اور روشن خیالی کے ایوارڈز حاصل کرنے کی خاطر بغیر کسی غور وفکر کے ایسا بل پیش کرنا اور پاس کروانا نہ قرین عقل ہے اور نہ قرین انصاف، یہ اپنے ملک ومعاشرے کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ 
لہذا اس حوالے سے ماہرین قانون، ماہرین علوم شریعت اور سماجی مسائل پر فلسفیانہ نگاہ رکھنے والے ارباب علم ودانش کے وسیع مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ ان مسائل کے حل کی صورتیں سامنے آئیں۔   
ان مسائل کے حل کے لیے ان خطوط پر کام ہونا چاہیے، پہلے اخلاقی تعلیم وتربیت، ترغیب وترہیب کے دعوتی سلسلے کو بڑھانا چاہیے، کیونکہ ہر جگہ قانون مؤثر نہیں رہتا، بہت سارے مواقع پر اخلاقی ترغیبات سے ہی کسی حد تک مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دوسرا مرحلہ نصوص کے مطالعہ سے یہی سامنے آتا ہے کہ میاں بیوی یعنی خاندان کے اس نوع کے مسائل کے حل کے لیے خاندان کے دیگر افراد کردار ادا کریں اور جو ظلم کررہا ہے اس کو ظلم سے باز رکھیں، جس کو ہم خاندانی پنچائیت سے تعبیر کرسکتے ہیں، لیکن جب ظلم ہورہا ہو، اخلاقی ترغیبات مؤثر نہ رہیں، خاندانی پنچائیت سے مسئلہ حل نہ ہو تو پھر قاضی کے پاس جاکر انصاف طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ہے۔ 
اب قاضی کس قانون کے تحت ان مسائل کو حل کرے؟ اس کے دو جواب دیے جاسکتے ہیں اول کہ نئی قانون سازی کی جائے، دوم سابقہ قوانین میں قدرے ترمیم کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا خیال ہے کہ نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سابقہ قوانین قصاص ودیت میں مناسب ترامیم سے مسائل حل ہوسکتے ہیں چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے 172 ویں اجلاس میں گھریلو تشدد سے متعلق تمام ممکنہ جسمانی ، نفسیاتی جرائم کے سد باب کے لیے قانون کے دفعہ 332 میں "ضرر" کی تعریف میں مختصر ترامیم بطور سفارش پیش کی تھی۔   
البتہ میرا ذاتی رجحان ہے کہ نئی قانون سازی ہونی چاہیے اور اس بابت کونسل نے 20 مارچ 2008 میں جو ورکشاپ منعقد کی تھی، 171 ویں اجلاس میں جو سفارشات پیش کی تھی، 172 ویں اجلاس میں جو ترامیم پیش کی تھی، 2009 میں چیئرمین سینٹ کو جو خط بھیجا گیا تھا، پھر کونسل کے 190 ویں اجلاس میں اس مراسلے کی توثیق کی گئی تھی، کے پی کے مسودہ بل پر اجلاس نمبر 202 میں جو آراء دی گئی تھی، 13 جولائی 2020 کو مولانا عبد الحکیم اکبری صاحب کے مراسلے پر کونسل کا 222 واں اجلاس ہوا تھا اور اس میں جو فیصلہ کیا گیا تھا یہ سب قابل اعتناء ہیں۔ 
تاہم ان تمام سفارشات کے ساتھ اس میں اقتصادی اذیت ومحرومی کو بھی شامل کیا جائے جس پر فقہاء نے نان نفقہ وسکنی کے ابواب میں تفصیلی کلام کیا ہیں۔
اگر ہم ان مسائل کو سنجیدہ نہیں لینگے تو پھر نئے دور کے تقاضے ایسے ہیں کہ بیرونی دباو ہم سے وہ کچھ منظور کروائے گا جو ہماری روایات، اقدار، قومی رسوم اور شریعت سے متصادم ہوگا اس لیے ہمیں بیرونی دباؤ سے ہٹ کر خود ان مسائل کا ادراک ہونا چاہیے اور اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ 
مملکت پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے حوالے سے علمائے کرام کا بڑا کردار رہا ہے ہمیشہ انہوں نے اس حوالے سے آواز بلند کی ہیں، اور اس کے لیے تحریکیں چلائی ہیں، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب یہ بل پیش ہورہا تھا تو اس وقت علماء نے اس پر صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کی، اس سوال کے جواب کے لیے میں نے متحدہ مجلس عمل کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا یہ بل اس دن پیش کیا گیا تھا جب لاہور میں ایک تنظم کے خلاف کریک ڈاون تھا یعنی جب سب کی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں تب بل پیش کرنے والوں نے اس کا فائدہ اٹھا کر دیگر بلوں کے ساتھ یہ بھی پیش کیا تھا اور میں خود اس دن سفر پر تھا اجلاس میں نہیں پہنچ سکا تھا، البتہ سینٹ میں جب یہ بل پیش ہوا تو متحدہ مجلس عمل کے رکن سنیٹر مشتاق صاحب نے اس پر تنقید ضرور کی تھی۔ 
اسلامی نظریاتی کونسل سے استفسار کیا تو ڈی جی ریسرچ ڈاکٹر انعام اللہ صاحب نے بتایا کہ ہم نے تحفظات وزرات قانون کو ارسال کیے تھے انہوں نے وزرات انسانی حقوق کو ارسال کی تھی وزرات انسانی حقوق نے بلا وجہ اس کو مسترد کردیے تھے۔ 
خیر اب وہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش ہوگا اس کے پیش ہونے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اوپر ذکر کردہ تجاویز اور سفارشات پر توجہ دی جائے، ہم امید کرتے ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ اس مسئلہ میں قرآن وسنت کے تقاضوں اور قومی روایات کو نظر انداز نہیں کرینگے۔ بلکہ اس اہم سماجی مسائل پر اسلامی نظریاتی کونسل اور علمائے کرام کو بھی اعتماد میں لیں گے۔





0/Post a Comment/Comments