سانحہ لال مسجد اور مولانا پر اعتراضات حالات حاظرہ کے تناظر میں تفہیم


سانحہ لال مسجد اور مولانا پر اعتراضات
حالات حاظرہ کے تناظر میں تفہیم
پہلا حصہ بطور تمہید
 بنیادی سوال: "مولانا لال مسجد واقعے پر کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے لندن کیوں چلے گئے تھے؟" 
اس کے جواب سے پہلے ہم آپ کو ایک حقیقت سے روشناس کروانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ جب بھی مولانا بد مست ہاتھی کی سونڈ پر پاؤں رکھتے ہیں یہ اعتراض سر اٹھانے لگ جاتا ہے، سیاسی و جمہوری روایات اور قومی ضروریات سے ناواقف دوست اخلاص کی بنیاد پر اس پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ دوست کسی بھی معاملے پر شکوہ کرنے سے پہلے اس بات پر غور و فکر کریں کہ چالیس سالہ سیاست میں کیا یہی سیاسی پالیسیاں ہی رہ گئی ہیں جنہیں گھما گھما کر مولانا کی ذات پر اعتراض کی وجہ بنایا جاتا رہے؟
سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ "جذباتیت" عقل کی دشمن ہے، اور یہاں تو اس سے بھی بڑھ کر پوری قوم کی دشمن کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔ 
 یہ ہم ایسے ہی نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ 2007 کے وہ حالات جن میں لال مسجد معاملے نے سر اٹھایا تھا، ہم نے کبھی ان حالات کی نزاکت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نقصان کی جانب توجہ دینے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت کوئی بھی جذباتی ردعمل کتنا نقصان دہ ہو سکتا تھا؟ کیا کبھی ہم نے اس بات کو جاننے کی کوشش کی کہ مولانا کیوں لندن گئے تھے اور جانے سے پہلے کس حد تک لال مسجد معاملے میں اپنا کردار ادا کر گئے تھے، پھر یہ کہ مولانا کے لندن جانے کا ملک و ملت کو کیا فائدہ ہوا تھا؟ یقینا بہت سے دوستوں نے نہیں کی، ایسے ہی ایک دوست کے مطالبے پر بتوفیق اللہ ہم ان سوالوں کے جواب دینے کی اپنی حد تک کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ کریم اس کو ملک و ملت کے محسن مولانا فضل الرحمن صاحب کے حق میں بدگمانی کی فضا کو دور کرنے کا ذریعہ اور ہمارے لیے آخرت میں بھی ان کی معیت کا ایک سبب بنا دے!
 اس بات سے قطع نظر کہ لال مسجد معاملے کے پس پردہ قوت کون تھی، کس نے یہ آپریشن کیا اور کون اصل مجرم تھا، ہم اس حوالے سے مولانا کے کردار اور پھر اس قومی ضرورت کو ذکر کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے مولانا لندن تشریف لے گئے تھے۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد اگر اس پورے معاملے کا ہم خلاصہ پیش کرنا چاہیں تو اس طور پر بھی کر سکتے ہیں کہ ہماری جذباتیت کو ہتھیار بنا کر ہر اہم معاملے پر مولانا فضل الرحمن صاحب کو روکنے اور بلیک میل کرنے کی جو کوشش کی جاتی ہے، ہماری دانست میں یہ آپریشن ابتدائی طور پر محاصرے کی صورت ایسی ہی ایک کوشش تھا، جس کی انتہا میں مدارس اور اسلام پسندوں کو جکڑنے کے دیگر کئی مقاصد بھی شامل تھے، جبکہ سادگی اور اخلاص کی ملی جلی کیفیت میں کچھ اپنے بھی استعمال ہو گئے تھے۔
 سلام ہے مولانا کی بصیرت، جرات اور استقامت کو کہ اس معاملے میں جہاں انہوں نے اس کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، وہاں دینی تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ قومی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا۔
مولانا درست فرماتے ہیں: "جذباتیت کے ماحول میں معقول بات کرنا جرم بن جاتا ہے۔" 
لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی معقول بات کو جرم سمجھا جا رہا ہے۔ لہذا جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے اس سوال کا تعاقب کرتے ہیں کہ مولانا نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا؟ 
 مولانا کے کردار سے متعلق اگر آپ کی توقعات یہ ہیں کہ مولانا بھی ڈنڈا اٹھا کر ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو معذرت خواہانہ انداز میں یہ عرض کریں گے کہ شیخ الہند رحمہ اللہ کی تحریکی زندگی کا مطالعہ کیجیے، جن کی فکر کے مولانا فضل الرحمن صاحب علم بردار بھی ہیں اور ان کے قافلے کے موجودہ سرخیل بھی۔ ہاں اگر آپ کا سوال مولانا کے بطور ثالث کردار کے حوالے سے ہے تو ہم آئندہ سطور میں اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے ان شاء اللہ!

دوسرا حصہ"
جس عظیم سانحے پر گھر میں بیٹھے رہنے والے عام افراد کے جذبات یہ ہیں کہ وہ چالیس برسوں سے میدان سیاست میں اندرونی و بیرونی قوتوں سے نبرد آزما اپنے ہی نمائندے مولانا فضل الرحمن حفظہ اللہ پر اعتراض کر رہے ہیں، اس پر خود اس شخصیت کے کیا جذبات و احساسات تھے ہم بعینہ انہی کے الفاظ میں ذکر کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں: "اس بات کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ مسئلہ کیوں اور کیسے کھڑا ہوا اور دوسرا پہلو یہ کہ اس مسئلے کو کس طرح انجام تک پہنچایا گیا۔ اب یہ کہ آغاز کیسے ہوا اس سے تو ہم قطعا لاتعلق رہے۔ اب چونکہ اس کے آغاز یا اس حوالے سے جو طرز عمل اختیار کیا گیا اور پھر ان سے جو اختلاف کیا گیا، میں ان حالات میں اس پہلو سے بحث کرنا یا ان کو مطعون کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی اس کا یہ مطلب لے کہ پھر حکومت نے جو کیا تھا وہ جائز تھا۔ میں اس حوالے سے کہنا چاہتا ہوں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کے ساتھ تو ہمارا محض طریقہ کار کا اختلاف تھا، لیکن اکبر بگٹی مرحوم کے ساتھ تو ہمارا نظریاتی اختلاف بھی تھا، لیکن ان کے خلاف بھی جب فوجی آپریشن ہوا تو ہم نے اس پر بھی احتجاج کیا، تو غازی برادران کا طرز عمل جس سے ہمیں اختلاف بھی ہو، تب بھی یہ اس کا جواز فراہم نہیں کرتا کے اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف، ایک دینی ادارے کے طلبہ و طالبات کے خلاف اس طرح کی ریاستی قوت کا استعمال کیا جائے۔"
یہاں ایک اشکال پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ مولانا نے احتجاج کا راستہ کیوں نہ اختیار کیا؟ اس سوال کے جواب میں دو سوال بنتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو سانحہ ابھی ہوا نہیں، اس پر احتجاج بنتا ہے یا ثالثی، جبکہ وہ معاملہ ایسا ہو جس کے طریقہ کار سے آپ کو اختلاف ہو؟
دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ احتجاج کی صورت معاملہ حل کی طرف جائے گا یا مزید بگاڑ کی طرف، جبکہ وہ دور بھی آمریت کا ہو اور اس کا حاکم ایسا ہو جو دین داروں پر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھا ہو؟ ان دو سوالوں کا جواب آپ دے دیجیے اشکال دور کرنا ہمارے ذمے ہے۔ ہمیں معلوم ہے اس کا جواب آپ کے دل و دماغ نے کیا دیا ہوگا، اس لیے دوبارہ بنیادی اعتراض کی جانب آتے ہیں۔ اس کو ختم کرنے کے لیے اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ مولانا نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا؟
 اپنے الفاظ کی بجائے ہم اس کردار کو مولانا ہی کی زبانی سمجھنے کی کوشش کریں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ کیونکہ مولانا کے یہ الفاظ ریکارڈ پر ہیں، اور ریکارڈ پر موجود کسی بھی چیز کی تصدیق و تردید ہر ایک کی دسترس میں ہوتی ہے۔ تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی اس حقیقت کی تردید کوئی پیش نہیں کر سکا، پھر وہ تردید اس دور کے وزراء کے ذریعے ہو، لال مسجد انتظامیہ کے ذریعے ہو یا اکابر وفاق المدارس العربیہ کے ذریعے، کوئی ایک بھی پروپیگنڈہ کرنے والوں کی تائید میں مولانا کی تردید کرتا دکھائی نہیں دیتا، حالانکہ مولانا کے علاوہ اس معاملے سے براہ راست وابستہ یہی تین فریق تھے۔ لہذا مولانا کے کردار کو مولانا ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں!
مولانا سے سوال کیا گیا: بعض حلقوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ آپ نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو کر سکتے تھے؟ 
مولانا جواب دیتے ہیں: "جب 3 جولائی کو محاصرہ ہوا اور تصادم شروع ہوا تو میں ڈیرہ غازی خان میں ایم ایم اے کے روڈ کارواں کے بعد بائی روڈ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا۔ 4 تاریخ کو اے پی سی کے لیے لندن کی فلائٹ بھی تھی۔ میں نے ساری رات سفر کیا، پورے راستے میں وزیر اعظم شوکت عزیز، وزیراعلی اکرم درانی، غازی عبدالرشید شہید، مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر علماء سے رابطے میں رہا، ساری رات ان رابطوں میں گزار دی، پھر صبح اسلام آباد پہنچتے ہی رابطے شروع کر دیے، دن بھر کے رابطوں اور مذاکرات کے بعد عصر میں اس بات میں کامیاب ہوا کہ مولانا عبدالعزیز اور غازی عبدالرشید اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیں۔ اس طرح ازخود قانون کو حوالگی سے نقصان کم ہوگا، جبکہ اس کے برعکس بڑے نقصان کا خطرہ ہے۔ اس لیے آپ زیادہ نقصان کے مقابلے میں کم نقصان والی صورت کو قبول کریں، اور حقیقت بھی یہی تھی کہ اس صورت میں نقصان کم ہوتا، بعد میں مقدمہ چلتا جو اس نقصان کی بنسبت اتنا بڑا مشکل کام نہیں تھا۔ چنانچہ غازی برادران نے کہا ہمیں سوچنے کا موقع دیا جائے، ہم باہمی مشاورت سے کوئی جواب دیں گے۔ میں نے ان کے موقف سے وزیر اعظم کو بھی آگاہ کیا۔ ایک اطمینان کی فضا بن گئی۔ اسی اثنا میں جب مغرب کے بعد دوبارہ رابطہ ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ مولانا عبدالعزیز تو گرفتار کر لیے گئے۔۔۔ اب اس سے سارا منظر نامہ تبدیل ہوگیا اور دن بھر کی کاوشیں ضائع ہوگئیں۔ اگلے روز 6 تاریخ کو میں لندن روانہ ہوا اور جب کراچی ایئرپورٹ پہنچا تو جہاز کی روانگی میں ایک گھنٹہ تھا۔ اس ایک گھنٹے کو بھی میں نے انہی کوششوں میں صرف کیا۔ وزیراعظم کو فون کیا اور انہیں طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کی اپیل کی اور انہوں نے مجھے اطمینان بھی دلایا کہ طاقت استعمال نہیں ہو گی.... تو اس حد تک تو میں مطمئن ہو کر ملک سے روانہ ہوا۔ اس صورت حال میں میرا رابطہ وفاق المدارس کے اکابر سے ہوا اور میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے فورا آ کر مذاکرات کے اس تسلسل کو جاری رکھا اور ان کی کاوشیں 10 تاریخ اور 11 تاریخ کی درمیانی رات، تین ساڑھے تین بجے تک کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔۔۔۔۔۔ تو اب اس پس منظر میں کون یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ لوگوں نے کردار ادا نہیں کیا؟"
مولانا سے اگلا سوال ہوتا ہے: اس نہج پر پہنچنے سے قبل، آغاز میں آپ نے انہیں ( لال مسجد انتظامیہ کو) کیوں نہیں روکا؟
وسعت ظرفی سے لبریز مولانا کا جواب ملاحظہ فرمائیں! فرماتے ہیں: اصل بات یہ ہے کہ وہاں سے صحیح رسپانس نہیں مل رہا تھا۔ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا میں ان دنوں جواب نہیں دینا چاہتا، بڑا تلخ جواب ہے اس کا، اور اچھا نہیں ہوگا اس وقت اس کا جواب دیا جائے۔ یہی وہ جواب ہے جس کا میں نے پہلے بھی کہا کہ کچھ باتیں آغاز سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ باتیں انجام سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر میں آغاز کے بارے میں بات کروں گا تو پھر اس کا یہ معنی لیا جائے گا کہ انجام جو کچھ ہوا صحیح ہوا، اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم حکومت کو اس کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔

تیسرا حصہ"
مولانا کے کردار کے حوالے سے جواب دینے کے بعد ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ اس معاملے میں ثالث کی بجائے فریق بننے کے کیا نقصانات ہو سکتے تھے۔ فریق بننے سے مراد وہ رویہ اور طرز عمل اختیار کرنا ہے جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کا تھا۔
مولانا سے سوال کیا گیا: سانحہ لال مسجد کے بعد اگلا لائحہ عمل کیا ہے، اور جامعہ حفصہ کے بعد اب جامعہ فریدیہ کے حوالے سے بھی کوئی اسٹینڈ لیں گے، کیونکہ حکومتی عزائم تو کچھ اور ہیں؟
مولانا جواب دیتے ہیں: اس حوالے سے ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں، میں تھا، مولانا عبدالغفور حیدری صاحب تھے، مجلس عمل اور وفاق المدارس کے حضرات مولانا سلیم اللہ خان صاحب، مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا عبدالرزاق اسکندر صاحب اور مولانا حنیف جالندھری صاحب تھے۔ یہ ایک میٹنگ ہماری اسی حوالے سے ہوئی ہے، جس میں مستقبل کے حالات کی پیش بندی پر بھی تفصیلی غوروخوض ہوا۔ ایک تو اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ لال مسجد کو بحال کرنا، جامعہ فریدیہ کو بحال کرنا، اور جامعہ حفصہ کو بحال کرنا۔۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ اس صورت حال میں ایسا احتجاج اور اس احتجاج کو ایسا تسلسل دینا کہ جس میں ہم مدارس کے خلاف اور مساجد کے خلاف حکومت کے مستقبل کے عزائم کا راستہ روک سکیں، اور یہ بھی کہ ہمارا جو نوجوان طبقہ ہے وہ انتہائی مشتعل ہے، اس کو اعتدال میں بھی رکھنا ہے کہ جب ہم زیادہ اشتعال میں آتے ہیں تو اس سے ملک بھر میں مدارس کے خلاف زیادہ کارروائی کرنے کے مواقع ملتے ہیں، اور مدارس کے ساتھ اس ٹکراؤ کے تسلسل سے تعلیم کے سلسلے کو ختم نہ بھی کریں تو متاثر تو کریں گے، یا معطل ہوجائے گا، تو یہ طرز عمل شاید مدارس کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب کرے! اس لیے ہمیں اس وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہے کے مدارس کی بقاء، تعلیمی سلسلے کی بقاء ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔اور اس کے بارے میں جو حکمت عملی ہو وہ بڑی سنجیدہ ہو، اور اس کے مقاصد بھی واضح ہوں، اور اس میں بجائے اشتعال کے ہمیں حکمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ کیونکہ اصل چیز جذبات کی تسکین نہیں ہے، بلکہ اصل چیز مقاصد کا تحفظ، مدارس کی بقاء، اور اس کے کردار کو باقی رکھنا ہے۔ جذباتی پن کی وجہ سے قیادت عدم توازن کا شکار ہوگی، جبکہ اچھے نتائج کے لیے متوازن حکمت عملی بہت ضروری ہے، لہذا احتجاج کیا جائے، لیکن احتجاج کو اشتعال سے محفوظ رکھا جائے۔" 
مولانا کے ان الفاظ کو بہتر طور پر وہی احباب سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے مشرف کا آمرانہ، ظالمانہ اور متعصبانہ دور شعوری طور پر دیکھا ہو، اور جنہوں نے نہیں دیکھا وہ اس بابت اپنے بڑوں سے رہنمائی لے کر ان الفاظ کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔
 اب آتے ہیں لال مسجد کے مقابل اس قومی معاملے یا ضرورت کی طرف جس کے لیے مولانا لندن تشریف لے گئے تھے۔ ملک میں فوجی حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور ایک غیر جانبدار حکومت کے تحت نئے انتخابات کروانے کے مطالبے کے لیے لندن میں میاں نواز شریف صاحب کی جانب سے ایک اے پی سی کا انعقاد کیا گیا تھا۔ آمریت زدہ ملکی حالات کے پیش نظر یہ اے پی سی لندن میں رکھی گئی تھی، جبکہ میاں صاحب ان دنوں جلا وطنی کی زندگی بھی گزار رہے تھے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر یعنی مولانا فضل الرحمن صاحب کا آمریت سے نجات کے لیے اس اے پی سی میں شرکت کرنا کس قدر ضروری، بلکہ قومی ضرورت تھا اس کا ادراک موجودہ حالات کے تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات کا حوالہ اس لیے دیا کہ حالیہ اے پی سی کے ملکی سیاست پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کو سامنے رکھ کر اس دور کے حالات کو سمجھنا انتہائی آسان ہو گیا ہے الحمد للہ! حالیہ اے پی سی کے بعد ملک کے سیاسی حالات یکسر کیسے تبدیل ہوئے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح غداری اور ملک دشمنی کے کارڈ تک نکالے جا رہے ہیں اور خدا جانے آگے اور کیا کیا ہونا باقی ہے۔ لندن اے پی سی اور حالیہ اے پی سی میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آمریت بے پردہ تھی اور آج پردوں کے پیچھے ہے۔
یہاں سیاسی شعور نہ رکھنے والے احباب کے لیے اے پی سی کا مفہوم بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس کو سادہ سے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مختلف قومیتوں، مختلف نظریوں اور مختلف صوبوں کے عوام کی نمائندگی کرنے والی تمام سیاسی پارٹیاں کسی خاص نکتے پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ٹیبل پر آ بیٹھی ہیں۔ یعنی پورا پاکستان یا کم از کم نصف پاکستانی قوم کسی چیز کا یک زبان مطالبہ کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ اے پی سی نے اقتدار کے ایوانوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ 
ممکن ہے کسی دوست کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ مولانا اے پی سی میں شرکت نہ کرتے تو کیا ہو جاتا! اس سوال کے جواب کے لیے ہم پھر مولانا کی طرف چلتے ہیں۔
سوال کیا گیا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ لندن کی اے پی سی میں شرکت کی بجائے یہیں رک جاتے تو شاید لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا معاملہ پرامن طور پر حل ہو جاتا۔
مولانا وضاحت یوں فرماتے ہیں: "کچھ تو ہیں جذباتی خواہشات، اب دیکھیے اگر میں یہاں رہتا اور لندن اے پی سی میں شرکت نہ کرتا تو پھر یہ الزام عائد ہوتا کہ پرویز مشرف کو مضبوط کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کو قائد حزب اختلاف نے ناکام بنا دیا، اور فضل الرحمن آمر کی آمریت کی تقویت کا سبب بنا......"
اسی سوال کے جواب میں مولانا آگے جا کر فرماتے ہیں:
"اور ہوا بھی اس طرح، کہ جب میری لندن روانگی میں دو دن کی تاخیر ہوئی توپانچ اور چھ جولائی کے اخبارات میں کالم آنا شروع ہو گئےکہ فضل الرحمن اے پی سی کو ناکام بنانے کے لیے لال مسجد کا بہانہ بنا رہا ہے۔"
مولانا اپنی اس وقت کی سیاسی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ " ایک بات میں عرض کر دوں کہ میری حیثیت ایسی ہے کہ ان حالات میں ڈائریکٹ وزیراعظم سے نہ مل سکتا، شاید میں براہ راست پرویز مشرف سے نہ مل سکتا، لیکن میرے بعد جو لوگ آئے ان کی سیاسی پوزیشن ایسی نہیں تھی، وہ براہ راست وزیراعظم سے ملے ہیں، وہ پرویز مشرف سے براہ راست بات کرنے کی پوزیشن میں تھے، وہ لال مسجد کے اندر جا کر بھی مجھ سے زیادہ بہتر رول ادا کر سکتے تھے۔ لہذا ایک آدمی کو نشانہ بنا لینا کہ جی آپ ہوتے......! تو میرے خیال میں اس طرح کی گفتگو شاید اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہوں!" اس کے بعد دلیل کے طور پر مولانا حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نقصان جب ہو جاتا ہے تو اس کے بعد یہ کہنا کہ اگر آپ ایسا کرتے، اور اگر آپ ایسا کرتے تو یہ تقدیر کے فیصلوں کے ساتھ لڑنے والی بات ہے....
تو میرے خیال میں تدبیر کی حد تک جو ہم نے کیا وہ کافی تھا۔"
مولانا مزید فرماتے ہیں: لیکن میں چلا گیا تب بھی بات طے ہوگئی، ہاں یہ بات الگ ہے کہ کامیاب مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا۔ لہذا اس کا معنی یہ ہے کہ حکومت نے طے کیا تھا کہ ہم نے یہ سب کچھ کرنا ہے.... تو میں ہوتا تب بھی وہ کرتے، میں نہیں تھا تب بھی انہوں نے کیا۔"
مولانا کی اس بات کو مولانا زاہد الراشدی صاحب اور ممتاز سینئر صحافی محترم حامد میر صاحب کے کالم کے ایک ایک اقتباس کے ذریعے سمجھنا انتہائی آسان ہوگا، لہذا پیش خدمت ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کا سبب بننے والے تحریری مسودے میں ہونے والی تبدیلی، جس میں حکومت کی جانب سے لچک نہ دینے پر غازی عبدالرشید شہید نے شہادت کو ترجیح دی، اس کے حوالے سے مصالحتی کمیٹی کے اہم رکن مولانا زاہد الراشدی صاحب لکھتے ہیں: "رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ چودھری شجاعت حسین صاحب وفاقی وزراء کے ہمراہ واپس آئے تو ان کے پاس ہماری طے شدہ تحریر کی بجائے ایک اور تحریر تھی، جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ صرف اسے قانونی شکل دینے کے لیے نئے سرے سے لکھا گیا ہے، مگر جب اسے پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں پہلی تحریر کے تینوں نکات غائب تھے۔
1: غازی عبد الرشید کے لیے لکھا گیا تھا کہ انہیں ان کے خاندان سمیت گھر میں رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
2: لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود طلبہ اور دیگر مرد حضرات کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع کے حوالہ سے گرفتار نہ کرنے کی بات حذف کر دی گئی تھی اور لکھا گیا تھا کہ ان میں سے جو شخص (تنازعہ سے قبل یا بعد کے فرق کے بغیر) کسی بھی مقدمہ میں مطلوب ہوگا، اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔
3: جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کی تحویل میں دینے کی بات بھی حذف کر دی گئی تھی۔"
حامد میر صاحب کے کالم کا اقتباس بھی ملاحظہ ہو!
میر صاحب لکھتے ہیں: "ایک موقع ایسا بھی آیا جب عبدالرشید غازی نے مجھے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر یہ مسئلہ زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ دینی مدارس کو بدنام کرسکے!" 
میر صاحب آخری احوال ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ "آخری رابطوں کے دوران میں نے غازی صاحب سے کہا کہ دونوں طرف مسلمان ہیں، کوئی راستہ نکالیں کہ مسلمان ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔ غازی صاحب نے کہا کہ میں نے بہت کوشش کی لیکن حکومت ہمیں رسوا کرنا چاہتی ہے، یہ سارا معاملہ حکومت کا کھڑا کیا ہوا ہے، حکومت نے اس معاملے میں بہت سے سیاسی مقاصد حاصل کیے اور آخر میں ہمیں رسوا کرکے مزید کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔"
یہ دونوں اقتباس جہاں مولانا کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں، وہیں غازی شہید کا یہ کہنا کہ " یہ سارا معاملہ حکومت کا کھڑا کیا ہوا ہے، حکومت نے اس معاملے میں بہت سے سیاسی مقاصد حاصل کیے" یہ بھی ہمارے لیے بہت سے دریچے کھول دیتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آج بھی مشرف حکومت کی باقیات اس واقعے کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہیں، اور ہم بے خبری میں ان کے معاون بن رہے ہیں۔

چوتھا اور آخری حصہ"
پچھلی اقساط میں اس معاملے کی تفصیل گزر چکی، اب ہم ذاتی طور پر کچھ سوالات آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، جن میں غور و فکر کرنا اس معاملے کو پوری طرح سمجھنے میں معاون ہوگا ان شاء اللہ! 
1: یہ معاملہ کوئی ایک دو دن کا نہیں تھا، کئی مہینے سے جاری تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنوری 2007 کے اوائل میں جس معاملے نے جنم لیا وہ تین جولائی 2007 کو کیوں اس قدر گرم ہو گیا، شاید اس لیے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب اے پی سی میں شرکت کے لیے لندن جا رہے تھے!
2: مولانا کا وفاق المدارس کو معاملات سونپ کر جانا اور پھر لال مسجد انتظامیہ کا وفاق المدارس قیادت سے رابطے میں رہنا کیا اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ مولانا ان حضرات، بالخصوص غازی عبد الرشید شہید کو اعتماد میں لے کر لندن گئے؟
3: کیا مولانا کا اے پی سی میں شرکت نہ کرنا ان کے جمہوریت پسندانہ تشخص کو ہمیشہ کے لیے داغ دار نہ کر جاتا؟ اگرچہ اس وقت کے حالات کو نہ سمجھنے والے یہ الزام اب بھی لگاتے ہیں، لیکن تاریخی حقائق چونکہ بالکل اس سے مختلف ہیں، اس لیے واقفان حال سنجیدہ اور دیانت دار صحافتی، سیاسی اور جمہوری حلقوں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
4: اگر کوئی شخص ریاست میں بندوق کے زور پر اپنے مطالبات منوانا چاہے تو ریاست کو اس حوالے سے کیا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کے تحفظات دور کرنے چاہئیں یا اس کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جو جواب آپ کے پاس ہے، کیا وہی یقین اس وقت مولانا کا نہیں ہوگا؟ 
اس حوالے سے مولانا کا موقف ہمارے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں، جو ریاست کے فطری رویے اور مولانا کی ریاست سے وابستہ توقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے: "ریاست کا کام لوگوں کو باغی بنانا نہیں، بلکہ اپنے دامن میں لے کر ان کے تحفظات کو دور کرنا ہوتا ہے۔" 
اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک ذیلی سوال کی گنجائش بنتی ہے، وہ یہ کہ دار الحکومت اسلام آباد میں ایک بندوق بردار زمرد خان اپنے عیال سمیت جب روڈ پر نکل آیا تھا، ریاست نے جو کردار اس وقت ادا کیا وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملے میں کیوں ادا نہیں کیا؟
مندرجہ بالا سطور کو سامنے رکھ کر مولانا کے اخلاص پر شک اور کردار پر اعتراض کی گنجائش کو ختم کرتے ہوئے اس سانحے کا خلاصہ ہم ان الفاظ کے ساتھ کر رہے ہیں کہ ریاست کے فطری رویے کو ملحوظ رکھ کر اکابر کو اعتماد میں لینے کے بعد مولانا جس قومی ضرورت کو پورا کرنے لندن گئے تھے، ایک آمر نے اپنے غیر انسانی رویے کے ذریعے اسے مجروح کرنے کی کوشش کی، جس کا جرم اسی کے گلے کا طوق ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ!
شاید ایک اشکال آپ کے ذہن میں باقی ہو کہ چلیں مان لیا مولانا ایک قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لندن تشریف لے گئے تھے، لیکن اس کا فائدہ کیا ہوا!
واضح رہے کہ یہ لندن اے پی سی مورخہ 7 اور 8 جولائی 2007 کو منعقد ہوئی، جبکہ 28 نومبر 2007 یعنی صرف پانچ مہینے بعد پرویز مشرف نے اپنی "طاقت" یعنی وردی اتار دی تھی!
اپنی ناواقفیت کی بنا پر ہم کانٹوں کے درمیان چھپے ایک پھول یعنی لال مسجد سانحے کو آج تک لیے بیٹھے ہیں، جبکہ مولانا کا یہ اقدام راہ میں حائل پوری جھاڑ اکھاڑنے کا سبب بن گیا تھا، بعون اللہ!
گزارش: یہ گزارش ان محب وطن دوستوں سے ہے جو باوجود دین دار ہونے کے حضرت مولانا فضل الرحمن حفظہ اللہ تعالیٰ سے شاکی ہیں، خواہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، وہ صرف تین کام کریں! ایک یہ کہ مولانا کو سنا کریں، دوسرا یہ کہ مولانا کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، تیسرا یہ کہ مولانا پر اعتماد کریں! بسا اوقات مولانا کی کوئی بات یا پالیسی وقتی طور پر سمجھ نہیں بھی آتی، پھر وہاں اعتماد کام آتا ہے، اور وقت آنے پر بخدا اسی اعتماد کی جیت ہوتی ہے۔
ختم شد 





0/Post a Comment/Comments