ایک لیڈر اور عام آدمی میں بنیادی فرق مولانا فضل الرحمن صاحب بمقابلہ سراج الحق صاحب


ایک لیڈر اور عام آدمی میں بنیادی فرق 
مولانا فضل الرحمن صاحب بمقابلہ سراج الحق صاحب 

تحریر مفتی محمد اسماعیل بٹگرامی
صدر جمعیت علماء اسلام القصیم
مرکزی رکن عاملہ جمعیت علماء سعودی عرب 

آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے اتقوا من فراسة المؤمن ۔ یہاں محدثین کے ہاں مومن معرفہ ہے یعنی ہر ایک مراد نہیں بلکہ خواص یعنی اہل علم وصلاح مراد ہے اور فراست سے مراد نور علم اور نور ایمان مراد ہیکہ اللہ رب العزت کے بخشے گئے علم سے حصہ لینے والے متقی علماء کرام کچھ چیزوں کو وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں عام آدمی کی نظر نہیں جاتی اور کبھی وہ ایک لمحے میں دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ سامنے والے کیا عزائم ہے جہاں عام آدمی کی نظر پہنچتے پہنچتے طویل زمانہ بیت جاتا ہے اور یہی فرق ہے عامی اور عالم میں قائد اور کارکن میں۔
قیادت کے لئے جو چیز بنیاد اور اساس کا درجہ رکھتی ہے وہ ہے فراست وبصیرت اور دور اندیشی کہ جس چیز یا جس نعرے پر کارکن یا عام آدمی پھسل سکتا ہے،ان خوشنما نعروں سے متاثر ہوکر مخالف کیمپ کا حصہ بن سکتا ہے یا کسی بہروپئے کے متاثر کن الفاظ سے دھوکے میں پڑ کر اپنے اور قوم کے نقصان کا باعث بن سکتا ہےتو ایسے مواقع پر قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان بہروپیوں اور ملک دشمن عناصر کے عزائم سے قبل ازوقت اپنی عوام اور کارکنوں کو خبردار کرکے متنبہ رکھیں اور دشمن کے عزائم کی تکمیل کا حصہ نہ بننے دیں۔
ورنہ تو وہ لیڈر اور قیادت کا حقدار نہیں ایسی صورت حال میں عام کارکن اور اسمیں کیا فرق بچا کیونکہ فتنہ جب عام ہوجائے اور سطح ارض پر کھل کر سامنے آکر اپنی عزائم کا اظہار کرنے لگے پھر عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اوہو یہ تو فتنہ ہے اور ہم اسکے شکار ہوگئے تھے اسی لئے تو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ فتنہ جب ابھرنے لگتا ہے تو اللہ تعالٰی علماء کے دل میں اسکی خطرناکی کا عنصر پیدا کردیتے ہیں اور علماء کرام اپنی للہیت و تقوی اور علمی فراست سے اس فتنے کو بھانپ لیتے ہیں اور عوام کو خبردار کرنا شروع کردیتے ہیں اور جب وہ فتنہ کھل کر سطح ارض پر سامنے آجاتا ہے تو پھر عام آدمی بھی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو فتنہ ہے مگر پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کا ایک تقریر سن رہا تھا جس میں وہ شیخ الاسلام حضرت علامہ حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی دور اندیشی کو ذکر کررہے ہیں فرمانے لگے جب مودودی فتنہ شروع شروع میں عوام کو متاثر کرنے لگا تو حضرت مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے اس شخص یعنی مودودی سے بغض صحابہ کرام اور اسلاف سے نفرت کی بو آرہی ہے حالانکہ اسوقت مودودی کی ایسی کوئی تصنیف بھی سامنے نہیں آئی تھی مگر اس زیرک اور اللہ کے نیک بندے نے پہلی ہی فرصت میں اسکو بھانپ لیا تھا جس وقت باقی علماء کرام مودودی کی صفائیاں دے رہے تھے اور مختلف رسائل میں انکے مضامین دیکھ کر متاثر ہورہے تھے مگر جب بعد میں آہستہ آہستہ اسکی تصانیف میں بعینہ وہی کچھ آنے لگا جو حضرت مدنی صاحب نے انکی تصانیف سے برسوں پہلے کہا تھا تو پھر ہر ایک کہنے لگا کہ یہ تو بڑا فتنہ ہے اور اپنے راستے اس سے جدا کرنے لگے مگر وقت گزر چکا تھا پانی سر سے بہہ چکا تھا۔
آج تاریخ دوبارہ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے کہ حضرت مدنی کے جانشین نے جس وقت عمرانی فتنے کو بھانپ لیا تھا اور کہا کہ یہ غیر ملکی آشیر باد اور بیرونی ایجنڈے کے تحت ملک کی جڑیں کھوکھلے کرنے کے لیے لایا جارہا ہے اپنے عوام کو قبل ازوقت متنبہ کیا جو کہ ایک زیرک اور دور اندیش قیادت کی علامت ہے تو ٹھیک اسی موقع پر مودودی کے جانشین نے اسکو سیاسی مخاصمت سمجھ عمران خانی فتنے کے نہ صرف ہمنوا بنے بلکہ لاہور میں انکے پہلے سیاسی تھیٹر کی کامیابی پر زمان پارک جاکر عمران خان کو مبارک دینے گئے اور صرف اسی پر بس کرتے تو بھی کافی تھا مگر ٹھیک اسکے فورا بعد خیبر پختون میں انکے مضبوط اتحادی بنے اور اپنے کارکنوں کو انکے افرادی قوت میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے اور اسکے بعد پانامہ ڈرامے میں جب حضرت مدنی کے جانشین قائد جمعیت نے خبردار کیا کہ یہ ملک کے خلاف ایک عظیم گھناؤنا سازش ہے تو یہی مودودی کے جانشین انکا علمبردار بن کر عدالت میں انکی ترجمانی کرنے لگے اور انکے دئے ہوے نعرے گنگنانے لگے کہ پہلے بڑے مگرمچھوں کو پھنسنے دیں چھوٹے مگر مچھوں کو پکڑنا آسان ہے اور مخالفین پر اسٹیبلشمنٹ کے سکھائے ہوے بول کے مطابق چور اور چور کا ساتھی کہنے لگے۔ مگر آج وہ بڑے مگر مچھ کہاں ہے اور وہ چھوٹے مگر مچھ کہاں ہے؟ بڑے مگر مچھ تو بزعم انکے نااہل بھی ہوگئے مگر ملک اس سے بھی زیادہ ابتر حالات کی طرف جارہا ہے۔ بہر حال جب قائد جمعیت نے خان کو یہودی ایجنٹ اور بیرونی آلہ کار کہا تو یہی صاحب انکے اتحادی بنے اور انکے ہاں میں ہاں ملایا مولانا فضل الرحمن صاحب کو چوروں کا ساتھی کہنے لگا مگر آج کئ سال بعد انکے زبان حال سے مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ العالی کے موقف کی تائید ہورہی ہے۔کہ اگر عمران کو حکمرانی کا موقع نہ ملتا تو سمجھتا کہ جنید بغدادی کو موقع نہ ملتا حالانکہ اب تو بچہ بچہ جان چکا ہے کہ یہ نااہل اور بیرونی ایجنڈے پر ہے کمال تو تب ہوتا جب آپ اسوقت عوام کو خبردار کرتے جب یہ عمرانی فتنہ پرداز عوام میں جڑیں بنارہے تھے اسوقت تو آپ ہی نے افرادی قوت مہیا کی تھی اب عام آدمی بھی کہہ رہا ہے کہ یہ فتنہ اور آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ فتنہ ہے تو قارئین آپ خود سوچیں کہ لیڈر اور کارکن میں کیا فرق بچا۔







0/Post a Comment/Comments