مولانا فضل الرحمن صاحب کا ہر حکومت کا حصہ ہونے کی حقیقت / رائے محمد حسین کھرل


مولانا فضل الرحمن صاحب کا ہر حکومت کا حصہ ہونے کی حقیقت
 رائے محمد حسین کھرل 

اعتدال مولانا فضل الرحمن کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور شاید یہی اعتدال قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے کہ ہر معاملہ میں شدت پسندی اور تشدد ہمارا وتیرہ ٹھہرا ۔ مولانا فضل الرحمن کی معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا تاثر دیتی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جو مد مقابل کی ایسی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے۔ مولانا فضل الرحمن پر ہر حکومت میں شامل ہونے کا الزام زبانِ زد عام ہے. آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کون کون سی حکومتوں میں مولانا شامل رہے۔ مولانا پہلی دفعہ 1988 کے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب قرار پاتے ہیں. اور اپنی پارلیمانی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔

1988 کے عام انتخابات اور بینظیر حکومت کا قیام
88کے انتخابات میں 207 کے ایوان میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی۔ پی پی پی 94، آئی جے آئی 56، جے یو آئی 7، پاکستان عوامی اتحاد 3، آزاد 40، اے این پی 2، بی این پی 2، اور ایک ایک نشست مزید تین چھوٹی جماعتوں کے حصے میں آئی. پی پی پی فاتح قرار پائی. بینظیر وزیراعظم منتخب ہوئیں اور جے یو آئی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی۔ 1988 کے صدارتی انتخابات مولانا فضل الرحمن نے نوابزادہ نصراللہ خان کا نام بطور صدارتی امیدوار کے پیش کیا تو مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی. مولانا فضل الرحمن کی جی ایچ کیو میں طلبی ہوئی اور جنرل اسلم بیگ نے اپنے امیدوار غلام اسحاق خان کے مد مقابل نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کا نام پیش کرنے پر مولانا سے نہ صرف خفگی کا اظہار کیا بلکہ نام واپس لینے پر زور دیا، لیکن مولانا نہ مانے. بلکہ مولانا نے بینظیر کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن بینظیر نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا اور کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے بھی میرے باپ کی طرح لٹکا دیں؟ یوں بے نظیر نے تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، لیکن مولانا فضل الرحمن اپنی سیاست کے آغاز ہی سے مقتدر حلقوں کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوئے۔ بے نظیر کی حکومت کے چند ماہ بعد ہی اپوزیشن نے غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں 'سی او پی' کے نام سے اتحاد قائم کیا جس نے حکومت کی ناقص پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ اس اتحاد میں مولانا بھی پیش پیش رہے۔ یہاں تک کہ جب بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس پر بحث کے دوران مولانا نے اسمبلی میں شاہکار خطاب کیا اور تحریک کے حق میں بھرپور دلائل دئیے۔ صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے محض 20 ماہ بعد بے نظیر حکومت کو چلتا کیا تو عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ٹھرا۔

1990 کے عام انتخابات 90کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن تو کامیاب نہ ہوئے لیکن جے یو آئی 6 نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔ باقی پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی آئی جے آئی 106، پیپلز ڈیموکرٹیک الائنس 44، حق پرست گروپ 15، اے این پی 6، جے یو پی (نورانی) 3، آزاد 33، پاکستان نیشنل پارٹی 2، جمہوری وطن پارٹی 2،اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) فاتح ٹھہرا۔ نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے اور جے یو آئی اپوزیشن میں بیٹھی۔ آئی جے آئی کا پس منظر یہ تھا کہ جنرل حمید گل کی درپردہ اور غلام مصطفی جتوئی کی بظاہر قیادت میں نو جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا اور قومی خزانے سے اس کی پرورش کی گئی۔ بعدازاں جنرل اسد درانی اور دیگر نے مختلف مواقع پر اس کا اعتراف کیا۔ مہران بنک اسکینڈل کے نام سے جس کی بازگشت آج تک سنی جاتی ہے۔ بظاہر آئی جے آئی کا مقصد پی پی پی کی مخالفت اور حقیقتاً اس وقت کی مقتدر قوتوں کے چہتے اور جنرل ضیاءالحق کے منہ بولے بیٹے نواز شریف کو بطور قومی قائد متعارف کرانا تھا۔ اور یہ خدمت جماعت اسلامی نے محاورتاً نہیں حقیقتاً میاں صاحب کو کندھوں پر اٹھا کر بخوبی سرانجام دی۔ آج کل کپتان کی خدمت اور آو¿ بھگت تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ جبھی تو اس دور میں سیاسی آنکھ کھولنے والے لیگی کارکن کے ہاں جماعت اسلامی کے حوالے سے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور مولانا فضل الرحمن معتوب ٹھہرتے ہیں۔ جی ہاں جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پانے والے اس اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس جرمِ انکار کی سزا مولانا کو 1990ءکے الیکشن میں شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑی اور آئی جے آئی کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف نے جے یو آئی کے خلاف ریشہ دوانیوں کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ایک موقع پر جب جے یو آئی کے دونوں دھڑوں میں اتحاد ہوا تو شیخ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی پر اتحاد ختم کرنے کیلئے دباو¿ ڈالنے کو مولانا سمیع الحق کی قیادت میں پچیس علما کا وفد سرکاری طیارے سی 130 میں اسلام آباد سے رحیم یار خان پہنچا مگر سوائے رسوائی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بہرحال ریشہ دوانیوں کی یہ کہانی اپنے اندر ایک طوالت رکھتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن حکومتوں کا حصہ تو نہیں رہے، لیکن جب بھی مشکل حالات میں حکمرانوں کو کوئی در نہ سوجھا، تابکے صائب مشوروں کیلئے مولانا کا وجود انہیں رحمت ایزدی نظر آیا۔ کیونکہ مولانا خواہ اپوزیشن میں ہی کیوں نہ ہوں، صائب مشورہ انہوں نے ہمیشہ امانت جانا اور اس پر مستزاد وہ قائدانہ صلاحیتیں جو ان پر ان کے والد بزرگوار کی طرح ودیعت خداوندی ہیں۔ 90 میں آئی جے آئی نے جے یو آئی سے وزارت عظمٰی کا ووٹ تو لیا، لیکن جے یو آئی کی ترجیحات کو عددی اکثریت کے گھمنڈ میں نہ صرف درخورِاعتنا نہ سمجھا بلکہ میاں صاحب کا رویہ مخاصمانہ رہا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جے یو آئی کے حصے میں حکومتی اوچھے ہتھکنڈے آئے۔ 1993 کے انتخابات اور بینظیر حکومت کا قیام 93کے انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام نے جے یو پی (نورانی) کے ساتھ مل کر "اسلامی جمہوری محاذ" کے نام سے اتحاد قائم کیا اور اسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا. جے یو پی تو کسی نشست پر کامیابی حاصل نہ کر سکی، مگر جے یو آئی کے حصے میں 4 نشستیں آئیں، مولانا فضل الرحمن اپنے آبائی حلقہ سے کامیاب ہوئے . 207 کے ایوان میں پی پی پی 89 نشستوں کے ساتھ فاتح قرار پائی، جونیجو لیگ نے 6 نشستوں کے ساتھ، آزاد 16 اراکین میں سے بیشتر، اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے پی پی پی کی حمایت کی اور یوں بینظیر کی اتحادی حکومت وجود میں آئی۔ جمعیت علمائے اسلام نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھی بلکہ مسلم لیگ (ن) کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ بھی دیا۔ نواز شریف کے سابقہ رویوں کی وجہ سے، اسے وزارت عظمٰی کا ووٹ دینے سے انکار کر کے پی پی پی کو ووٹ دینے کی بجائے وزارتِ عظمٰی کے الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور یہی وہ جرم عظیم ہے جس پر اس دور کا مسلم لیگی آج تک جمعیت علمائے اسلام پر چیں بہ جبیں ہے۔ اسی حوالے سے جمعیت علمائے اسلام پر عورت کی حکمرانی کی حمایت کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ حالانکہ کوئی ایک موقع ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جمعیت علمائے اسلام نے عورت کو حکمرانی کے لئے ووٹ دیا ہو۔پارلیمانی نظام میں ووٹ دینے ہی کو حمایت کہتے ہیں ناں؟ جب ووٹ ہی نہیں دیا تو حمایت کیسی؟ ہاں الرجال قوامون علی النساء جن کے ورد زباں تھا ان کی تاریخ میں جھانکیے وہ صالحین ضرور آپ کو محترمہ فاطمہ جناح کو 65 کے صدارتی الیکشن میں ووٹ دیتے نظر آئیں گے۔ یہ تاریخ کے ساتھ کیسا ظلم اور کھلا تضاد ہے،کہ جو1965میں عورت کو حکمرانی کے لئے ووٹ دیں او ر1990ءمیں قوم کو عورت کی حکمرانی کے خلاف وعیدیں سناتے پھریں وہ تو ٹھہریں پارسا اور جو عورت کو بطور منتظم صرف برداشت کریں (کہ آئین عورت کی حکمرانی پر پابندی نہیں لگتا) وہ معتوب۔ 1993 کے صدارتی انتخابات وفاقی شرعی عدالت کا استحکام، اسلامی نظریاتی کونسل کی فعالیت، کونسل میں جمعیت کی نمائندگی، آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات کو بدستور برقرار رکھنا۔ آئندہ سینٹ الیکشن میں بلوچستان سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کی حمایت، سود کے متبادل اسلامی نظام معیشت کو رائج کرنا۔ منکر ختم نبوت ذکری فرقہ مسئلہ کے حل کیلئے ارکانِ پارلیمنٹ کے وفد کو مکران بھیجنا۔ جیسے دس نکاتی تحریری معاہدہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے فاروق لغاری کی حمایت کی۔ اسی موقع پر پی پی پی کی طرف سے دو وزارتوں کی پیشکش کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام کو حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی، جسے جمعیت علمائے اسلام نے قبول نہ کیا اور بدستور اپوزیشن میں رہی۔ اسی دور میں مولانا فضل الرحمن قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین رہے. جسے بعض معترضین حکومتی حصہ اور بعض نوازش خاصہ قرار دیتے ہیں. درحقیقت یا تو یہ پارلیمانی کمیٹی سسٹم سے نابلدیت کا نتیجہ ہے اور یا پھر بغض۔ آئیے پارلیمانی کمیٹی سسٹم کا تھوڑا جائزہ لیتے ہیں۔ قائمہ کمیٹیاں متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، پارلیمانی جمہوریتوں میں کمیٹیوں کو پارلیمان کی آنکھ، کان، ہاتھ اور حتی کہ دماغ تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ کمیٹیاں حکومت کا نہیں بلکہ پارلیمانی بندوبست کا حصہ ہوتی ہیں جو متعلقہ محکموں کے حوالے سے سفارشات اور نگرانی کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ 1993 میں 32 اور اب قومی اسمبلی کی (ورکنگ) قائمہ کمیٹیوں کی تعداد 37 ہے جن میں ہر متعلقہ وزارت کی 30 کمیٹیوں کے علاوہ 5 غیر وزارتی اور اسمبلی رول 244 کی روشنی میں قائم دو اسپیشل کمیٹیاں شامل ہیں۔ جن میں شمولیت کے لئے تمام جماعتوں اور اراکین کو موقع دیا جاتا ہے کہ آپ کس کمیٹی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اسپیکر فیصلہ کرتا ہے اور اراکینِ کمیٹی چئیرمین کا چناو¿ کرتے ہیں۔ ان کمیٹیوں میں ”احزابِ اقتدار و اختلاف“ دونوں کو کام کا موقع دیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ناقدین کو خبر ہو کہ نواز شریف کے دور حکومت میں قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر اسی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن تھی اور بینظیر کے دور حکومت میں عین انہیں دنوں جب مولانا فضل الرحمن قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین تھے، مسلم لیگ (ن) کے سرتاج عزیز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین تھے۔ حال ہی میں ملاحظہ کیجئے ۔موجودہ اپوزیشن میں متشدد ترین جماعت پی ٹی آئی کے اسد عمر چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار، گلزار خاں چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ، ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور بطور چیئرمین کمیٹی دستیاب سہولیات سے بھی مستفید ہو رہے ہیں مگر نہ تو انہیں مراعات سے استفادے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی حکومت کی حمایت کا الزام. آخر یہ دو پیمانے کیوں؟ 1997 کے عام انتخابات 1997 میں ن لیگ کے لئے بھاری مینڈیٹ کے حصول کا وہ طوفان اٹھا یا گیا، جس کے سامنے پی پی پی جیسی تناور جماعت اور بڑے بڑے مضبوط سیاست دان نہ ٹھہر سکے۔ 
نوابزادہ نصر اللہ خان، اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن بھی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہوئے۔ جے یو آئی کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں آئیں۔ جبکہ ن لیگ کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ نواز شریف کسی دوسری جماعت سے اتحاد کے احتیاج کے بغیر بلاشرکت غیرے حکمران بنے۔ 2002 کے قومی انتخابات 1999 میں پرویز مشرف کے ہاتھوں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2001 میں بلدیاتی اور 2002 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جے یو آئی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا۔ صوبہ سرحد میں واضح اکثریت کی بنیاد پر ایم ایم اے کی حکومت بنی جب کہ قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کی جانب سے مولانا فضل الرحمن نے وزارت عظمٰی کے انتخاب میں حصہ لیا۔ 342 کے ایوان سے ظفر اللہ جمالی کو 172 ووٹ پڑے اور یوں وہ صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم منتخب ہوئے، مولانا کو 86 اور امین فہیم کو 70 ووٹ ملے. مولانا اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔ یہی وہ دور تھا جب نوابزادہ نصر اللہ خان، آصف زرداری، جاوید ہاشمی اور نواب اکبر خان بگٹی نے مولانا کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی لوگ اتحادی حکومتیں بنائیں گے۔ لیکن جب تمام معاملات طے پا گئے تو یہ خبر کسی طرح امریکی سفیر نینسی پاول تک پہنچ گئی۔ امریکہ نے پی پی پی کی جلاوطن سربراہ بے نظیر بھٹو پر دباؤ ڈالا کہ ان کی جماعت اس اقدام سے باز رہے۔ اسی دور میں میں ایم ایم اے قیادت نے بھرپور مہم چلا کر پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر آمادہ کیا اور سترہویں ترمیم کی مشروط حمایت کی، جس پر بعد ازاں وہ مطعون ٹھہری کہ پرویز مشرف نے وعدہ کی پاسداری نہیں کی۔ حالانکہ اک مخصوص ڈگر پر رواں نظام زندگی کا دھارا موڑنا مقصود ہو تو مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مدنظر رکھتے ہوے قیادت غیر مقبول فیصلوں سے قطعاً خائف نہیں ہوتی۔ ویسے تو تاریخ عالم سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں. لیکن ہمارے لیے صلح حدیبیہ کا معاہدہ اِس حوالے سے مشعل راہ ہے۔ مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مدنظر رکھ کر حالات کے جبر کے تحت اٹھایا گیا بابائے قوم کا ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ سترہویں ترمیم یعنی ایل ایف او کی حمایت بھی ایم ایم اے کا ایک ایسا ہی فیصلہ تھا۔ جس کا پسِ منظر پرویز مشرف کا وردی اتارنے کا وہ وعدہ تھا جس کا اظہار اس نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پوری قوم سے کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایم ایم اے قیادت کو اِس کا کریڈٹ دیا جاتا اور آمر پر پریشر بڑھایا جاتا لیکن میڈیا نے بوجوہ ایسی الٹی گنگا بہائی کہ ایم ایم اے کی قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا اور آمر کو وعدہ فراموشی کا ماحول میسر آیا جس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا اور یوں اس کے جرم پر پردہ ڈالا گیا۔ 2008 کے عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں قومی حکومت تشکیل پائی جس میں ق لیگ کے علاوہ تمام قومی جماعتیں شریک ہوئیں. بعد ازاں پہلے ن لیگ اور عرصہ ڈیڑھ سال بعد جے یو آئی جس سے الگ ہو گئیں۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں جے یو آئی اپنے حصے کی 13 نشستوں کے ساتھ ن لیگ کی حکومت کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی زندگی میں 1988 سے 2013 تک سات انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجے میں حکومتوں نے وجود پایا۔ جمعیت علمائے اسلام ان سات میں سے صرف دو حکومتوں، سابقہ اور موجودہ میں شامل ہوئی جن میں سے ایک (سابقہ) کے ساتھ شراکت برقرار نہ رہ سکی۔ یوں ہر حکومت کا حصہ ہونے کا طعنہ سراسر بہتان ہے۔ باوجود یہ کہ حکومت بنانا یا شریک حکومت ہونا قطعاً معیوب نہیں کیونکہ میدان سیاست کے کارِزار کی نبرد آزمائی سراسر لاحاصل ٹھہرے، اگر ایوان اقتدار تک رسائی مقصود نہ ہو۔ اعتدال مولانا فضل الرحمن کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور شاید یہی اعتدال قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے، کہ ہر معاملہ میں تشدد ہمارا وتیرہ ٹھہرا۔ مولانا فضل الرحمن کی معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا تاثر دیتی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جو مد مقابل کی ایسی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے۔
 مضمون ہذا کی تیاری کے لئے قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ سے استفادہ کیا گیا ہے۔




 

1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں