اعتراض :-ٹرانس جینڈر بل اگر 2018 میں پاس ہوا ہے تو مولانا صاحب اب تک کہاں تھے؟
جواب :- یہ بل پہلے بابر اعوان نے 2017 میں پیش کیا تھا، پھر شیریں مزاری نے 2018 میں پیش کیا، اس بل کی جمعیت علمائے اسلام نے بھرپور مخالفت کی پارلیمنٹ میں نعیمہ کشور صاحبہ اور جلسوں میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی اس کے خلاف احتجاج کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے
یہ وہ ایام تھے کہ ایک طرف ختم نبوت بل میں ترمیم پر جمعیت علمائے اسلام سراپا احتجاج تھی تو دوسری طرف نواز حکومت کو ختم کرنے کی سازشیں جاری تھی، مولانا ان دو اہم ایشوز میں مسلسل مشغول تھے، اور اسی اثنا میں پارلیمنٹ کا آخری سیشن بلایا گیا، جس میں تعداد انتہائی کم تھی، بل کے حق میں جو ممبران تھے ان کو مطلع کر کے بلایا گیا تھا، نعیمہ کشور کی احتجاج اور بل کو کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے بل منظور کیا گیا، یہ مئی 2018 کے آخری ایام تھے اس کے بعد نگران حکومت آ گئی، اور پھر تحریک انصاف کو مسلط کیا گیا
تحریک انصاف جس دن سے قوم پر مسلط کی گئی اس دن سے لیکر جس دن ختم کر دی گئی اس دن رات 12 بجے تک مولانا فضل الرحمن صاحب اور جمعیت علمائے اسلام مسلسل ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہیں، کیوں کہ صرف اس ایک بل کا مسئلہ نہیں تھا پورے ملک کی معیشت، جغرافیائی اور نظریاتی سرحدات داؤ پر لگی ہوئی تھی، اب جب ان کی حکومت ختم ہو گئی ہے، اتحادی حکومت بن گئی ہے اور یہ بل سامنے آیا تو مولانا صاحب نے پشاور کے ایک پروگرام میں فرمایا کہ ہم نے اس بل کا اول تھا آخر مکمل مطالعہ کیا ہے اور اس کا متبادل بل بھی تیار کر لیا ہے اس پر جید علمائے کرام کی رائے لینے کے بعد پارلیمنٹ سے پاس کیا جائے گا، ان شاء اللہ -
یہ مختصر خاکہ ہے اس بل کو پاس کرنے میں جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں شامل تھی، تحریک انصاف نے پیش کیا اور باقیوں نے حمایت کی، اب قوم کو ضرور یہ سوچنا چاہیے کہ جمعیت کے مقابلے میں ان پارٹیوں کو ووٹ دے کر ہم کونسا نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں
آخر میں ضرور یہ کہوں گا کہ اپنا ووٹ کتاب کے حق میں استعمال کریں ورنہ یہی دین دشمن قوتیں ہم پر مسلط رہے گی اور ان کی سازشیں چلتی رہے گی
ایمل خان سواتی
ایک تبصرہ شائع کریں