مولانا فضل الرحمٰن اور "کرپٹ پارٹیوں" سے اتحاد کا جائزہ ڈاکٹر شیخ محمد شاہ


مولانا فضل الرحمٰن اور "کرپٹ پارٹیوں" سے اتحاد کا جائزہ
ڈاکٹر شیخ محمد شاہ

عموماً وہ احباب جو مولانا کو زاتی اعتبار سے کرپٹ ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، بالخصوص وہ دوست جو مولانا کے بارے میں اکابر علماء کی زاتی آراء کو دیکھ کر مولانا پر کرپشن اور بددیانتی کا مزید کوئی الزام نہیں دھر پاتے، تو ان کا آخری سوال یہی رہ جاتا ہے کہ مولانا اگرچہ خود کرپٹ نہیں، لیکن کرپٹ لوگوں کا ساتھ دینا بھی کرپشن ہے۔ آج جہاں دیگر جماعتوں کے عمائدین کے آگے انکی کمزوریاں آڑے آرہی ہیں جس بناء پر وہ مولانا کا اپفرنٹ ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں، ان حالات میں مولانا کا ببانگ دہل شیر کی مانند میدان میں ہر ایک کو للکارتے پھرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا نے اپنے پلڑے میں کوئی دھاندھلی کا شائبہ تک نہیں پال کے رکھا، ورنہ دل کا چور کبھی اتنا جری نہیں بننے دیتا، جبکہ مولانا کہ پاس کسی غیر مرئی قوت کی سپورٹ بھی نہیں جو ایک مخصوص جماعت کو سر تا پا حاصل ہے۔

پہلا سوال یہ کہ کیا نواز و زرداری یا ماضی کے کوئی بھی سیاستدان جن سے مولانا نے کبھی بھی اتحاد کیا، کیا وہ کرپٹ ہیں؟ مولانا کا ایک اصولی سا موقف ہے کہ کسی کو کرپٹ ثابت کرنا ان کے لئے فی الحال نان اشو ہے۔ اور کیوں نا ہو کہ مولانا کا تعلق نا تو نیب سے ہے، نا ایف آئی اے سے۔ نا مولانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیوروکریٹ ہیں نا کسی کو عدالت میں کھڑا کر کے سزا دلوانے والوں کے۔ مولانا ہمارے پولیٹیکل فریم ورک کا اسی طرح سے ایک فرد ہیں جس طرح سے کوئی بھی دوسرا سیاستدان۔ مولانا کے پاس ایک وژن ہے اور ایک مشن۔ وژن ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے کہ "اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام"، جبکہ مشن حالات کے اعتبار سے تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مولانا کو ہر دور میں اپنے وژن کی بقاء، حفاظت اور تکمیل کے لئے اسی میدان میں کھیلنا ہوتا ہے جس میں نواز، زرداری، خان، وغیرہم شامل ہیں۔ مولانا اس نظام کو بائی پاس نہیں کر سکتے۔ اس میدان میں جتنے کھلاڑی ہیں مولانا کے لئے وہ سب زات اور شخصیت کے اعتبار سے برابر ہیں، اور ہماری آئین و قوانین کے نزدیک وہ سارے لائق اعتبار ہیں جب تک کہ وہ اس میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ اب جب بات چنّے اور اختیار کرنے کی آئے گی تو مولانا کو انہی میں سے کچھ لوگوں کا اختیار کرنا پڑے گا اور یقیناََ یہ وہی ہوں گے جو مولانا کی مشن میں ان کے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوں۔ فلہذا مولانا کی انتہائی محدود سیٹوں اور اس نظام کا حصہ ہونے کے سبب ان کی حد بندی ہے کہ اسی ماحاصل میں سے رفقاء کا انتخاب کریں۔ رہی بات کہ سیاستدان ایک دوسرے کو کرپٹ ثابت کریں اور کیس فائل کریں تو یہ سارے کام محض پوانٹ اسکورنگ کے ہیں، جو کہ ان لوگوں نے کیا جن کہ پاس عوام کو چمک دھمک دکھانے کو سوا کچھ نہیں تھا، اور یہ بات گزشتہ چودہ ماہ کی ڈوبتی معیشت نے اظہر من الشمس کر دی ہے۔ اگرچہ مولانا خواہش بھی رکھیں کہ نظام کی صفائی ہو، تو موجودہ صورت میں یہ ممکن نہیں کہ برائی کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور جب تک جڑ سے صفایا نہ ہوا مرض کا، لاکھ آپ اوپر سے صفائی کر لیں، گند دوبارہ سے امڈ آئے گی اور محض وقت اور توانائی کی بربادی کے سواء کچھ حاصل نہیں ہونے کا۔ اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ان میں کوئی چور ہے، تو اسے مثال سے یوں سمجھئیے کہ علاقے میں ایک کنواں کھدوانا ہے، ایک لاکھ روپے کا خرچہ ہے۔ ایک چور کہتا ہے کہ میں پچاس ہزار روپے دوں گا، کوئی ہے جو میرے ساتھ تعاون کرے! وہاں ایک ڈاکٹر صاحب کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں بقیہ پچاس ہزار ملانے کو تیار ہوں اور اس طرح دونوں کے باہمی اتحاد سے کنواں کھودنے کی کاروائی انجام پاتی ہے۔ اب اس موقعے پر اگر کوئی تیسرا شخص، جس کی اپنی جیب میں پھوٹی کوڑی ہو نا نکاسی آب کی ککھ بھی سجھ، وہ اٹھ کر کہے کہ ڈاکٹر صاحب! تُسی چنگا نئی کیتا! چور کے ساتھ اتحاد کر لیا! تو علاقے کے دانا لوگ اسے یہی کہیں گے کہ اے نادان! کیا ڈاکٹر نے اس چور کی مدد اس کے چوری کے فعل میں کی ہے؟ یا کسی دوسرے ایسے فعل میں جو کہ نا صرف جائز ہے، بلکہ عوام کے لئے نافع بھی۔ فلہذا معاملہ سادہ سا ہے، یہ محض ایک گپ ہے کہ مولانا نے چوروں سے اتحاد کیا، کیونکہ دیانتدار آدمی یہ دیکھے گا کہ اتحاد کس معاملے میں کیا؟ کیا چور کے ساتھ ہر معاملے میں تعاون حرام ہے؟ کیا اس کو کھانا کھلانا پانی پلانا جائز نہی؟ یا کوئی ایماندار آدمی تب بھی یہ طعنہ دے گا کہ چور کو کھانا کھلا کر اس کو سپورٹ کر دیا! اور اسی طرح اگر حکومت نے کبھی کوئی ایسی بات کی جو مولانا کے منشور اور موقف سے ہٹ کر تھی تو مولانا اتنے کھرے نکلے کہ حکومت کا اتحادی ہونے کے باوجود مولانا نے حکومت کے خلاف سخت ایکشن لیا، اپنی ناگواری بھرپور ریکارڈ کرائی اور حکومت کو ایکشن واپس لینے پر مجبور کیا، جس کی سب سے بڑی مثال ۲۰۱۶ میں پنجاب اسمبلی کا پاس کردہ خواتین پروٹکشن بل ہے۔ اگر مولانا حکومت کے ہر ہر مسئلے میں چمچہ اتحادی ہوتے تو کبھی حکومت کے خلافت اتنی بیباکی سے نہیں جاتے جس سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
اور اگر کسی غیر صالح سے اتحاد کرنا اتنا ہی بڑا عیب ہے تو یقیناََ نا ہی کبھی میثاقِ مدینہ وجود پاتی اور نہ ہی بنو قریضہ جیسے اسلام دشمن یہودی قبائل سے مسلمانوں کا اتحاد ہوا ہوتا۔ ان دو اتحادوں سے ایک اصولی بات سامنے آئی کہ اتحاد کے لئے دو جماعتوں کا نا تو ہر ہر مسئلے پر متفق ہونا ضروری، نا ہی اگلے کا عادل اور ثقہ ہونا، بس اتحاد کے لئے صرف اتحاد والے ایجنڈے پر متفق ہونا ضروری ہے جو اگر جائز ہے تو اتحاد بھی جائز اور مباح ہے۔
اسی ضمن میں وہ احباب بھی آتے ہیں جو مولانا سے اس بات پر نالاں ہیں کہ مولانا شیعوں سے اتحاد کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دارالعلوم دیوبند نے انتہائی مختصر اور جامع انداز میں یوں دیا کہ "ملکی و سیاسی معاملات میں اتحاد و اتفاق کی صورتیں ممکن ہیں، حالاتِ حاضرہ سے باخبر سیاست میں ماہر حضرات مل بیٹھ کر غور کرکے کچھ صورتیں تجویز کرلیں تو اس میں کچھ مانع نہیں۔" (حوالہ فتوی: 1274=931/ ھ) اور یہی فتوی دیگر دوسرے اکابرین نے بھی دیا ہے جو مجموعی طور پر قوم کے نزدیک محترم اور محبوب ہیں۔ فلہذا، علماء واکابرین تو ہر دور میں اس بات کے قائل رہے ہیں کہ اتحاد کسی سے بھی کیا جا سکتا ہے اگر اس سے کسی بھی حوالے سے اسلامی یا سیاسی مفاد وابستہ ہے جس سے منشورِ اسلامی کو تقویت حاصل ہو۔ 




0/Post a Comment/Comments