حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ اکابر کی روایات کے امین
برصغیر پاک و ہند میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے علم و تحقیق، درس و تدریس، تصنیف و تالیف، مناظرہ و مباحثہ، علم کلام و فن ادب، عقائد و تاریخ، شریعت و طریقت اور جدوجہد و جہاد فی سبیل اللہ سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں قائدانہ کردار ادا کیا، خصوصاً انگریز کے خلاف شاملی کے محاذ پر اپنے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کی امارت میں اور اپنے رفقاء گرامی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ محمد ضامن شہید رحمہما اللہ تعالیٰ کی معیت میں باقاعدہ جہاد میں حصہ لیا۔ پھر آپ نے اسی غرض سے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تاکہ اس مرکز سے ایسی تربیت یافتہ جماعت نکلے جو دین کے ان تمام شعبوں کی جامعیت کے ساتھ امت کی رہنمائی کر سکے، انگریز کا مقابلہ کرے اور جذبۂ حریت سے سرشار ہو۔ آپ کے تلمیذ رشید و علمی و عملی جانشین حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ نے انہی روایات کو آگے بڑھایا اور مسندِ دارالعلوم کو آباد رکھنے کے ساتھ وطن کی آزادی کے لیے انگریز کے خلاف تحریک ریشمی رومال و تحریک خلافت بپا کی اور حضرت نانوتوی کی جدوجہدِ آزادی کو زندہ رکھا۔
آپ کی کاوشوں سے وہ طبقۂ علماء پیدا ہوا جس میں امام انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ سندھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سيّد حسین احمد مدنی، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی، سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت حضرت مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مؤرخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے نابغۂ روزگار اکابر نے مساجد و مدارس میں، خانقاہ و سیاسی مراکز میں اور خدمت خلق سے آئین سازی تک ہر مرحلے میں قوم و ملت کی درست رہنمائی فرمائی۔ جمعیت علمائے ہند جیسی جماعت کی بنیاد حضرت شیخ الہند نے رکھ کر ملکی و ملی سیاست میں علماء کا کردار شامل کیا، ملکی سیاست میں حصہ لینا دراصل حضرت نانوتوی کے جذبۂ جہاد ہی کی جدید شکل تھی۔ اس جماعت نے برصغیر کی تقسیم کے وقت بھی اہل وطن کو درست سمت دکھلائی تھی اور تقدیر ایزدی کے تحت دو الگ ملک بن جانے کے بعد پاکستان میں موجود جمعیت علمائے ہند سے وابستہ علمائے کرام کو حضرت مدنیؒ ہی نے حکم دیا کہ وہ اب اس ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، چناں چہ امام الاؤلیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے اتحاد و اتفاق کی غرض سے الگ جماعت بنانے کی بجائے پہلے سے موجود مگر غیر فعال جماعت جمعیت علمائے اسلام کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا، آپ کے ساتھ اس جدوجہد میں مفکر اسلام، مفتئ اعظم، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ تعالیٰ بھی شریک تھے۔
ان حضرات کی ان تھک محنتوں سے ملک بھر میں اس جماعت کا فعال نیٹ ورک قائم ہوا پھر آئین پاکستان کی تشکیل، اس میں قرآن و سنت کی رہنمائی، ختم نبوت و ناموس رسالت کا تحفظ (جس میں ناموس صحابہ و اہل بیت کا قانون بھی شامل ہے) وغیرہ امور میں آپ نے مثالی قائدانہ کردار ادا کیا، اس کے علاوہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان جیسا عظیم ادارہ مدارس کو دیا۔
حضرت مفتی محمودؒ فقہی بصیرت کے جس مقام پر فائز تھے اس کی بنا پر وہ فرقہ واریت کے ناسور کے سخت خلاف تھے، آپ سے بسا اوقات کسی گمراہ جماعت کو کافر قرار دینے کا مطالبہ کیا جاتا کہ آپ فلاں کو کافر کیوں نہیں کہتے جب کہ آپ تو مفتی ہیں تو آپ جواب میں ارشاد فرماتے: ”اس لیے کہ میں مفتی ہوں۔“ گویا افتا اتنا نازک منصب اور کسی کو کافر کہنا اتنا بڑی ذمہ داری ہے جو ایک واقعی مفتی ہی سمجھ سکتا ہے۔ آپ ساری عمر اتحاد امت کے قائل رہے، 1974ء کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر اسمبلی میں قادیانی سربراہ مرزا ناصر نے جب اسلامی مکاتبِ فکر کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ سارے ایک دوسرے کو بھی کافر کہتے ہیں اور آج ہمیں کافر قرار دلوانے جمع ہو گئے ہیں تو حضرت مفتی محمودؒ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اول تو یہ کام کسی بھی مکتبِ فکر کے سنجیدہ علما کا نہیں بلکہ چند جذباتی طبیعتوں کا ہوا کرتا ہے جس کی ذمہ دار اس پورے مکتب فکر پر عائد نہیں کی جا سکتی اور پھر آپ نے الزام و التزام کا فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ کوئی فرقہ دوسرے فرقے پر کوئی کفریہ الزام لگائے اور سامنے والا اسے تسلیم کرنے کی بجائے جھٹلا دے تو کفر ثابت نہیں ہو سکتا لیکن جب دوسرا اس الزام کا خود پر التزام کر لے تو کفر ثابت ہوتا ہے جیسے یہاں اسمبلی میں ہم نے قادیانیوں پر انکار ختم نبوت کا الزام لگایا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا، پس یہ اپنے معاملے کو دوسرے اختلافی امور پر قیاس نہیں کر سکتے۔ یوں آپ کی بروقت حاضر جوابی نے ختم نبوت کے اعتقادی مسئلے کو فروعی مسئلہ بننے سے بچاتے ہوئے گیند قادیانیوں کے کورٹ میں واپس پھینک دی اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
ایک تبصرہ شائع کریں