جے یو آئی اور نیپ کی مخلوط حکومت اور مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی درویشی / محمد زاہد شاہ


جے یو آئی اور نیپ کی مخلوط حکومت
 اور مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی درویشی
محمد زاہد شاہ 

مولانا مفتی محمود وزیر اعلی منتخب ہوئے تو ان کی رہائش کا مسئلہ پیدا ہوگیا ، کیونکہ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ صوبوں میں وزارتیں بن رہی تھیں اور چیف منسٹر ہائوس ابھی خالی نہیں ہوا تھا ، وہاں کوئی انتظامی دفتر قائم تھا ،چنانچہ مفتی صاحب کی رہائش کیلئے کسی مناسب اور موزوں عمارت کی تلاش شروع ہوئی تو نظر انتخاب گیسٹ ہائوس پر پڑی ۔ یہ انگریزوں کے دور کی بنی ہوئی بڑی وسیع اور کشادہ عمارت تھی یہاں کا فرنیچر خاص پرانا تھا اور زیادہ تر اس زمانے میں خریدا گیا تھا جب یہ عمارت شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔ چیف سیکرٹری نے سوچا نیا وزیر اعلیٰ ہے ،اس کے پاس غیر ملکی مہمان بھی آئیں گے ، پرانی میز کرسیاں اور بد رنگ صوفے یہاں برے لگیں گے ، چنانچہ انہوںنے سارا پرانا فرنیچر اٹھوا کر یہاں نیا فرنیچر سجانے کا پروگرام بنایا ۔ مولانا مفتی محمود سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا اور دوسری باتوں میں مصروف رہے۔ اس نے دو تین مرتبہ اپنی بات دہرائی تو مفتی صاحب اس کی طرف پلٹے اور عینک کے شیشوں سے گھورتے ہوئے متبسم لہجے میں کہا:''اللہ کے بندے ! کس چکر میں پڑ گئے ہو ؟ یہ فرنیچر ٹھیک ہے، اسے بدلنے کی ضرورت نہیں ، میرے اپنے گھر عبدالخیل میں تو کوئی ٹوٹا پھوٹا صوفہ بھی نہیں ہے'' چیف سیکرٹری حیرت سے ان کامنہ دیکھنے لگا، اسے دوبارہ اس سلسلے میں کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی ، تھوڑی دیر بعد خاموشی سے نکل کر باہر چلا گیا ۔
 چند دن بعد مولانا مفتی محمود نے مختلف محکموں کے سیکرٹریوں اور اعلیٰ افسروں کی ایک میٹنگ بلوائی ، وہ افسروں نے خطاب کرنے کے علاوہ ان سے بات چیت کر کے ان کے فرائض کی نوعیت، طریق کار اور مشکلات کا اندازہ لگانا چاہتے تھے۔ بہترین تراش کے عمدہ سوٹوں اور قیمتی کپڑوں میں ملبوس سیکرٹری اور افسر کانفرنس روم میں داخل ہوتے تو مفتی محمود کو دیکھ کر لمحے بھر میں ٹھٹھک سے جاتے۔ مفتی محمود نے عام دنوں کی طرح موٹے کپڑے کا ڈھیلا ڈھالا لباس زیب تن کر رکھا تھا، ایک ریشمی رومال سر سے لپٹا ہوا تھا ، دوسرا ان کے کندھوں پر پڑا تھا ، یہ سادگی اور حلیہ دیکھ کر ان افسروں نے سوچا یہ تو واقعی نرا مولوی ہے ، اسے بھلا کیا معلوم کہ نظم و نسق کس چڑیا کانام ہے ، اور کاروبار حکومت کیسے چلایا جاتاہے ، یہ تو قدم قدم پر ہمار ا محتاج ہوگا ، اسے اپنے ڈھب پر لانا کیا مشکل ہوگا، لیکن جب میٹنگ کی کاروائی شروع ہوئی اور جوں جوں وقت گزرتا جارہاتھا ، انہیں اپنے سارے اندازے اور قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوتی نظر آنے لگیں ۔
ایک صاحب نے اپنے محکمے کی کار گزاری کی رپورٹ پیش کرنی شروع کی تو مولانا مفتی محمود کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور غور سے اس کی باتیں سننے لگے ، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ صاحب جوش خطابت میں موضوع سے ہٹ گئے ، مفتی صاحب نے آنکھیں بند کر کے اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا ، چند منٹ اسی طرح گزر گئے جب گفتگو زیر بحث معاملے سے کچھ زیادہ ہی ہٹ گئی تو مفتی صاحب نے اچانک آنکھیں کھولیں اور اپنے قریب بیٹھے چیف سیکرٹری سے مخاطب ہو کر کہا ، میرا خیال ہے ہم زیر بحث موضوع سے کچھ زیادہ ہی دور چلے گئے ہیں ۔یہ اس بے مقصد اور غیر ضروری گفتگو پر بڑی لطیف چوٹ تھی ۔ افسر مذکورہ نے فورًا پینترا بدلا اور اصل موضوع پر باتیں چھڑ گئیں۔ اس چھوٹے سے واقعے سے میٹنگ میں موجود تمام افسران کو بخوبی احساس ہو گیا کہ اس شخص کی بظاہر آنکھیں بند ہوتی ہیں لیکن یہ ذہن کے دریچے کھلے رکھتا ہے اورا س کی ہر معاملے پر بڑی گہر ی نظر ہے ۔
 مولانا مفتی محمود نے وزارت علیا کا حلف اٹھانے کے بعد صوبے میں امتناع شراب کا حکم جاری کردیا تھا ، اس حکم کی رو سے صوبہ سرحد میں شراب بنانے، پینے ، رکھنے اور بیچنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ میٹنگ کے دوران یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا ، ایکسائز کے محکمے سے متعلق افسروں نے اعداد و شمار کا ایک گوشوارہ بنا کر پیش کر دیا اور مفتی صاحب کو بتایا کہ شراب کی فروخت پر عائد ڈیوٹی سے ہر سال ایک کثیر رقم حاصل ہوتی ہے ، اس بندش کے نتیجے میں صوبے کو سالانہ کئی لاکھ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا (تب لاکھ کی قدر موجودہ دورکے لحاظ سے کروڑوں کے برابر تھی) مولانا مفتی محمود نے جواب دیا : خسارہ ہونے دیجئے ، میں اپنا حکم واپس لینے سے تو رہا ، میرے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یہاں جتنی شراب بھی پی جائے گی ، اس سب کا حساب کتاب روز آکر مجھ سے لیا جائے گا اور مجھ میں اس کاسامنا کرنے کی ہمت نہیں ۔ خسارہ لاکھوں نہیں کروڑوں کا بھی کیوں نہ ہو، امتناع شراب کا حکم ضرور نافذ ہوگا۔ مرکزی حکومت نے اعتراض کیا کہ غیر ملکی مہمانوں او ر مریضوں کے لئے گنجائش ہونی چاہئے ۔ مفتی صاحب نے لکھ بھیجا کہ جو شے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دی ہو، وہ انسان کے لئے شفا اور صحت کیونکر بخش سکتی ہے؟






0/Post a Comment/Comments