مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ ایک علمی بیٹھک
گزشتہ سے پیوستہ شب مولانا فضل الرحمن صاحب ہمارے ادارے تشریف لائے، رات دیر تک مجلس لگی رہی، کئی علمی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا، اپنے زمانہ طالب علمی کے چند واقعات سنائے، کہنے لگے کہ جس وقت میں مفتی عیسی صاحب کے ہاں صرف پڑھتا تھا اس وقت روشنیوں کا اس طرح نظام نہیں تھا، بسا اوقات رات کے وقت سبق یاد کرنے کے لیے میں سڑک کنارے کھڑا ہوجاتا تھا اور جب کوئی ٹرک وغیرہ گزرتا تھا تو اس کی روشنی میں کتاب دیکھ کر یاد کرنا شروع کرتا تھا۔ یہ حال تھا اب تو ماشاء اللہ کافی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔
فرمایا اسی زمانے میں میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید رومال سر مبارک پر ڈالا ہوا ہے، اور تین آدمی ہیں کہ حضور صلی اللہ وسلم پر قاتلانہ حملے کر رہے ہیں مجھے فکر لاحق ہوئی فورا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کی کوشش کی ، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوگئے، مجھ پر حملے کر رہے تھے ان لوگوں نے ایک تلوار میری طرف پھینکی جس سے میں نے اپنے آپ کو بچایا وہ تلوار دور جاکر میری پشت کی جانب ریت میں گری اور ریت ہوا میں اڑنے لگی۔
یہ خواب میں نے اپنے استاد مفتی عیسی صاحب کو سنایا، حضرت نے اس کی تعبیر بتلائی پھر جب میں نے والد صاحب (مفتی محمود رحمہ اللہ) کو یہ خواب سنایا تو والد صاحب نے پوچھا یہ خواب کسی سے بیان کیا ہے؟ میں نے کہا جی استاد محترم کو سنایا ہے، تو انہوں نے فورا پوچھا پھر کیا تعبیر بتلائی؟ میں نے وہ تعبیر عرض کی، مفتی صاحب نے فرمایا بالکل درست تعبیر ہے۔
پھر جب میں حقانیہ میں پڑھ رہا تھا اس وقت ایک اور خواب دیکھا کہ میں ایک کمرے ہوں اور فرشتوں نے اس کمرے کے دروازوں کو کھولے رکھا ہیں، اور وہ فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ میں نے اس وقت علامہ نابلسی کی کتاب تعطیر الانام فی تفسیر الاحلام اٹھائی اس میں تعبیر دیکھی تو وهاں لکھا تھا: تدل في المنام على الوقوع في الشدائد، والخلاص منها
میں نے کہا مولانا صاحب ! دونوں خوابوں کی تعبیریں آچکی ہیں، پاکستان مذہب کے لیے آپ کی کوششیں اور دشمنوں کا حملہ کرنا، عقب میں ریت کا اڑ جانا، اور شدائد میں واقع ہونا اور اس سے خلاصی ہر دو تعبیریں بار بار پیش آئی ہیں۔
اس کے بعد ایک مناظر کا ذکر ہوا، اس کے ضمن میں باتوں کا رخ سماع موتی، حیات برزخیہ، حیات خضر علیہ السلام وغیرہ موضوعات کی طرف ہوا، تو میں نے ان سے ان موضوعات پر ان کے ذاتی رجحانات معلوم کرنا چاہے۔ سماع موتی میں انہوں نے جو موقف پیش کیا وہ قریبا وہی تھا جو حضرت استاد مکرم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بیان کیا ہیں، اور مفتی محمود رحمہ اللہ سے جو تفسیر محمود کی جلد سوم صفحہ 30 پر منقول ہے۔ حیات برزخیہ کے حوالے بھی وہی موقف تھا جو حضرت شیخ الاسلام صاحب نے تکملة فتح الملہم میں بیان کیا ہیں۔ اور وفات خضر کے بارے میں بھی رجحان ابن حجر کے قول کی طرف تھا۔
آخر میں ان کی خدمت میں گھریلو تشدد بل کے حوالے سے جو سفارش وتجویز بندہ نے کل تحریر کی ہے وہ رکھی اس کو انہوں نے پسند فرمایا۔ مجلس میں قاری ابراہیم صاحب کے ظریفانہ کلام سے بھی وقتا فوقتا حاضرین محظوظ ہوتے رہیں۔ اسی ضمن میں بندہ نے اپنے اساتذہ حضرت ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمہ اللہ، مولانا حسن جان رحمہ اللہ اور مولانا محمود اشرف حفظہ اللہ کا ایک لطیفہ سنایا جب وہ حضرات طریق ہجرت پر پیدل سفر کر رہے تھے اور ایک بدوی کا ان سے سامنا ہوا تھا۔ اس پر حاضرین دل کھول کر ہنسے تھے۔
یہ مختصر روئیداد تھی اس معطر مجلس کی جو مورخہ 10 جولائی 2021 کو مفتی محمد شریف ہزاروی صاحب کے گھر پر منعقد ہوئی تھی مذکورہ بالا موضوعات کی تفصیلات دوستوں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتوں میں بیان ہوسکتی ہیں ۔
محمد عمران اسلام آباد
ایک تبصرہ شائع کریں