حضرت مفتی محمودؒ نے سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی بحث اٹھنے کے زمانے میں اسلام کے معاشی نظام کا صحیح رخ دنیا کو دکھایا تھا جس کی پاداش میں سرمایہ دار طبقے کی طرف سے آپ کو سوشلسٹ، گمراہ و کافر اور جانے کیا کیا کہا گیا مگر آپ نے اس کے جواب میں کوئی فتویٰ لگانے کی بجائے اپنے مؤقف کو دلائل سے مبرہن کرتے ہوئے فتوے لگانے والوں کو دعوتِ غور و فکر دی۔ اسی طرح جمہوریت کے نظام پر انگلیاں اٹھانے والوں کو جواب دیتے ہوئے ایک جگہ تقریر میں فرمایا کہ چاروں خلفائے راشدین کا انتخاب عوامی رائے دہی سے ہوا اور جمہوری نظام بھی عوام کے حقِ انتخاب کو ترجیح دیتا ہے، اسلام نے ہمیں کوئی ایک نظام نہیں دیا کہ جس کی مخالفت ممنوع ہو بلکہ اسلام نے نظام حکومت کے وہ اصول بیان کر دیے ہیں جس پر ہم نے اپنے ملک میں جمہوریت کی بنیاد رکھی ہے، پہلے بیعت کے لیے ہاتھ پر ہاتھ رکھا جاتا ہے، ووٹ کی پرچی اسی کی جدید شکل ہے، مغربی ممالک میں رائج جمہوریت اور ہماری جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ وہاں عوام کی حکومت عوام پر عوام کے لیے ہوتی 5 جب کہ ہمارے ہاں حاکم زمین پر خدا کا نائب اور عوام کا خادم ہوتا ہے اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتا۔
حضرت مفتی محمودؒ کے فتاویٰ مفتی محمود (13 جلدیں)، تفسیر مفتی محمود (3 جلدیں)، دروس حدیث یا سیاسی تقریروں کا مطالعہ کیا جائے تو محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بَنوری قدس سرہ کا آپ کے بارہ میں ارشاد فرمودہ قول یاد آجاتا ہے کہ ”فتاویٰ شامی کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے والا ایسا مفتی میں نے نہیں دیکھا اور کسی بھی معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے اس سے متعلق کوئی فقہی جزیہ ہر وقت آپ کی نظروں میں ہوتا ہے۔“
حضرت مفتی محمودؒ جمعیت علمائے اسلام کے ممتاز رہنما تھے، اس جماعت نے پاکستان میں وہ علما تیار کیے ہیں جو واقعی علمائے ربانی کہلانے کے مستحق ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک طبقہ تکفیری مزاج کا خواہاں ہے اور جذباتی تقریروں کو پسند کرتا ہے، اس لیے اسے سیاست و اسمبلی میں بھی وہی کردار پسند آتے ہیں جو فرقہ واریت کے عناصر کو فروغ دیتے ہوں بھلے اس میں قوم کے جوانوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اپنی جان کا بھی خطرہ ہو۔ حالاں کہ جمعیت علمائے اسلام کے ایسے قیمتی علماء مثلاً ماضی قریب میں فوت ہونے والے حضرت مولانا محمد عبداللہ بھکر، حضرت مولانا محمد اجمل خان، حضرت مولانا عبدالرشید لدھیانوی، حضرت مولانا حسن جان شہید رحمہم اللہ وغیرہ کی اجلی سیاست و نکھرا کردار آئندہ نسلوں کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ امام الاؤلیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، جو جمعیت کی بحالی کے بعد اس کے پہلے امیر رہے، حضرت مفتی محمودؒ ایسا عبقری انسان اور خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ جو ساری زندگی جمعیت علمائے اسلام کے باقاعدہ سرپرست رہے اور پیر طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت بھی رکھتے تھے، کی زندگیوں کو مشعلِ راہ بنانے کی ضرورت ہے۔
خورشید حسین قاسمی
ایک تبصرہ شائع کریں