ولے زہ بہ نہ مرم
مفتی محمود رحمہ اللہ کی وفات اور سفرحج
محمد زاہد شاہ
٨ اکتوبر١٩٨٠ء کو عصرکے قریب ڈیرہ اسماعیل خان سے آنے والی آخری بس پنیالہ میں آکر رکی ، تو دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ اس میں سے مولانا علم الدین شیرانی بھی اترے ، زیادہ تر سواریاں پنیالہ ہی کی تھیں، مولاناعلم الدین شیرانی کو ابھی سات میل آگے عبدالخیل جانا تھا ، مفتی محمود حج پر جانے والے تھے،وہ انہیں الوداع کہنا چاہتے تھے ۔کسی سواری کا انتظار فضول تھا ، چنانچہ پیدل ہی عبدالخیل کی طرف چل پڑے پنیالہ کے گرد پھیلی چھوٹی چھوٹی ندیوں او نالوں کا جال عبور کر کے ایک ٹیلے پر پہنچے ، جس کے قریب پولیس اسٹیشن کی نئی عمارت زیر تعمیر ہے ، تو ایک آدمی نے بتایا کہ مفتی صاحب خانقاہ یٰسین زئی گئے ہیں، آج وہاں ان کی دعوت تھی ، ابھی تھوڑی دیر میں ادھر سے واپسی ہوگی۔ یہ سن کر وہیں راستے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے ، انہیں انتظا کرتے ہوئے آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ دور سے مفتی صاحب کی موڑ آتی نظر آئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جب سڑک کے قریب آئے تو موٹر آگے نکل گئی لیکن مولوی عبدالحلیم نے انہیں دیکھ لیا ، چنانچہ ڈرائیور نے موٹر پیچھے موڑی اور وہ بھی گاڑی میں بیٹھ گئے ۔
عبدالخیل پہنچ کر مولاناعلم الدین شیرانی نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا: سنا تھا آپ حج پر جار ہے ہیں ، الوداع کہنے آگیا ۔ مفتی صاحب نے کہا :اللہ کے بندے! میں حج پر نہیں جارہا۔ مولانا شیرانی چپ ہو گئے، شام کے وقت جب قاضی عطاء اللہ اور مولوی فتح خان بھی مفتی صاحب سے ملنے آئے تو ان کے ساتھ دو ڈاکٹر بھی تھے، انہوںنے کہا مفتی صاحب ہم نے بھی چند دنوں تک جاناہے ، آپ مدینہ منورہ میں جہاں ٹھہریں گے، وہاں کا پتہ لکھوا دیجئے تاکہ ملاقات کیلئے حاضر ہو سکیں۔مفتی صاحب نے پتہ لکھوا دیا ۔ اس پر مولانا علم الدین شیرانی نے اعتراض کیا:آپ عجیب آدمی ہیں ، مجھ سے کہتے ہیں میں حج پر نہیں جارہا لیکن دوسری طرف لوگوں کو وہاں کاپتہ بھی دیا جارہا ہے ۔مفتی صاحب مسکرائے اور بولے: اللہ کے بندے !کیا پتہ تیاری ہو جائے ۔ تھوڑی دیر بعد مولانا ایوب جان بنوری اوردو افغان مہاجر بھی وہاں پہنچ گئے ، خوب محفل جمی، رات ایک بجے تک باتیں ہوتی رہیں۔ بالآخر جب محفل برخاست ہوئی اور مفتی صاحب اٹھ کر جانے لگے تو مولانا علم الدین شیرانی بھی ساتھ ساتھ چلنے لگے ، انہوںنے کمرے سے نکل کا مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا:'' میں صبح سویرے پہلی گاڑی سے واپس جائوں گا ، اس وقت آپ زنان خانے میں ہوں گے ، شاید ملاقات نہ ہو، اس لئے ابھی سے خدا حافظ،الوداع'' مولانامفتی محمود نے ان کا ہاتھ چھوڑ کر دایاں شانہ آہستہ سے دباتے ہوئے کہا: اللہ کے بندے ابھی دوبارہ ملاقات ہوگی، یہ الوادع اور خدا حافظ کیا پھر ہنس کر پشتو میں کہنے لگے: خیال مکوہ زہ بہ نہ مرم (دل میں اندیشہ مت لاؤں میں نہیں مروں گا) مفتی صاحب نے دوبارہ یہ فقرہ کہا اور اندر جانے کے لئے مڑ گئے۔ مولانا علم الدین شیرانی چند لمحے وہیں کھڑے انہیں جاتے ہوئے دیکھتے رہے ، پھر واپس آکر اپنی چارپائی پر لیٹ گئے۔
چند دن بعد… مفتی صاحب کی حج کیلئے ملتان اور پھر کراچی روانگی کی اطلاع آئی ، پھر ایک دن ان کی موت کی خبر آئی۔مولانا شیرانی بھاگم بھاگ عبدالخیل پہنچے، وہاں سوگواروں کا ہجوم تھا ،مفتی صاحب کی بیٹھک میں قدم رکھا ، تو بے اختیار ان سے ٨ اکتوبر کی اپنی ملاقات کا منظر نظروں میں گھوم گیا، اور کانوں میں ان کے آخری الفاظ گونجنے لگے : ولے زہ بہ نہ مرم، ولے زہ بہ نہ مرم، جذبات میں ہلچل سی مچ گئی اورپلکوں پر ننھے ننھے ستارے جھلملانے لگے۔ دماغ نے کہا :
موت سے کسے رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
دل سے آواز آئی مفتی صاحب کو تو نہ مرنے کا زعم تھا زہ بہ نہ مرم ۔ پھر آج یہ کیا ہو گیا؟ اسی لمحے ذہن میں ایک کوندہ سا لپکا اور وہ آہستہ سے زیر لب بڑبڑائے ، مفتی صاحب نے ٹھیک ہی تو کہا تھا زہ بہ نہ مرم (میں نہیں مروں گا؟) وہ مر بھی نہیں سکتے ، جب تک یہ ملک باقی ہے یہاں کے لوگ زندہ ہیں ، تاریخ زندہ ہے ، مفتی صاحب بھی زندہ رہیں گے ، تاریخ بن کر لوگوں کے دلوں میں۔
ایک تبصرہ شائع کریں