علمائے امت اور میدان سیاست / مفتی سفیان بلند


علمائے امت اور میدان سیاست
مفتی سفیان بلند

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بھی امت کی دینی سیادت اور دنیاوی قیادت کرتے رہے ہیں، اسی کو قرآن کریم میں "يهدون بأمرنا" اور حدیث میں "تسوسهم الأنبیاء" سے تعبیر کیا گیا ہے، ارشاد نبوی "العلماء ورثة الأنبیاء" سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ بھی یہ ذمہ داری وارثان انبیاء کے سپرد کی گئی ہے، یہ ایک غلط فہمی ہے کہ علمائے دین کا سیاست سے کیا کام؟ یہ طبقہ مسجد تک محدود رہے، عجیب نہیں ہے کہ جن افراد کو ہم نے مساجد میں امامت صغری کے لئے چنا ہے، وہ اس امت میں امامت کبری کے لئے چنیدہ نہیں بن سکتے؟ نماز جیسے عظیم فریضہ میں امامت اور حج جیسی مقدس عبادت میں امارت جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی تو اس سے یہ اشارہ تھا کہ آگے دنیاوی معاملات میں صدیقین و علماء ہی قیادت کے لئے موزوں ہوں گے، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ماضی میں گورنر ان کو بنایا جاتا تھا جو دینی علم کے حامل ہوتے تھے، جو فقہ حنفی کا مایہ ناز متن "ہدایہ" پڑھ لیتا، اس کو گورنر اور عامل مقرر کیا جاتا، وجہ یہی تھی خاتم النبیین ﷺ کے بعد چونکہ نبوت کے دروازہ بند ہوگیا تو اب امت کی سیادت و قیادت وارثان نبوت کا ہی فریضہ ہے، چنانچہ متفق علیہ روایت ہے 
کَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَکُونُ خُلَفَاءُ تَکْثُرُ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ (أی الوفاءِ ببَيعةِ الخليفةِ الأوَّلِ فالأوَّلِ) وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ (بخاری : 3455 و مسلم : 4773 عَنْ أَبِي حَازِمٍ سَلْمانَ الأشجعيِّ عَنْ أَبَی هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنه)

بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پاتا تو اس کا خلیفہ و نائب دوسرا نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت کرلو اسے پورا کرو اور احکام کا حق ان کو ادا کرو، بیشک اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔

برصغیر میں جب انگریز کا راج ہوا اور اس نے یہاں مسلمانوں کے دینی تشخص کو بدلنے کے لئے کوشش کی تو اس وقت اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی صورت میں یہ علماء ہی کھڑے ہوئے، جیسے ایک طبقہ امامت صغری و امارت صغری سنبھالنے والا ہے، بعینہ امامت کبری کی بھی ذمہ داری بھی انجام دینے والا ایک طبقہ ہو، اس کا مقصد یہی ہو کہ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے امت کی دینی سیادت و دنیاوی قیادت کا فریضہ انجام دے، ان کو دین کے صحیح فہم اور شریعت کے درست تفقہ سے آراستہ کرے، چنانچہ عہد ماضی میں دینی علوم کے حامل طبقات میں قد آور شخصیات مختلف سرکاری مناصب پر رہے ہیں جن میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کا نام نامی سب سے لائق و فائق ہے، یہ وارثان انبیاء کی مسئولیت ہے، اور کیوں نہ ہو کہ طبقہ انبیاء کرام علیہم السلام میں بھی تین حضرات (سیدنا یوسف، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان علیہ و علیہم السلام) کی بادشاہت و حکمرانی پر قرآن گواہ ہے، ذوالقرنین کی بادشاہت پر سورہ کہف کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، الائمة من قریش (أحمد : 12329 والنسائي في السنن الكبرى : 5942) اور الخلافةُ بعدِي في أمتي ثلاثونَ سنةً (الجامع الصغیر للسیوطی : 4131) جیسے ارشادات بتاتے ہیں کہ زمام قیادت صالح و پارسا طبقہ کے ہاتھ میں ہو، کم از کم اہل علم تو ہوں تاکہ وہ امت مسلمہ کے دینی معاملات میں سمجھوتہ نہ کریں، دین کو اسی کی حقیقی تصویر اور عقیدہ ختم نبوت کو اس کی اساسی حیثیت سے نافذ کریں !
ہاں ! مروجہ سیاست جس میں کذب و افترا کی بہتات ہے، پروپیگنڈہ کا بیانیہ ہے، کذب کو صدق، خیانت کو دیانت، نفاق کو امانت بنانے کی روش ہے، اس سے علماء کا طبقہ کوسوں دور ہے، مولانا گیلانی رحمہ اللہ نے اسی پر یہ بات لکھی ہے کہ "مولویوں کا عام طبقہ انتظامی سلیقوں سے محروم ہوتا ہے، ابنِ خلدون کا مشہور فقرہ ہے : العلماء أبعد الناس عن السياسة یعنی سیاسی کاروبار سے عموما مولویوں کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی یعنی اگر سیاست کے معنی جوڑ توڑ، مار ڈھار، اکھاڑ پچھاڑ کہیں تو خیر یہ تو بات ہی دوسری ہوئی" .... یعنی سیاست کا یہ طرز مولویوں کو نہیں آتا، اور اس طرز سے اجتناب بھی ضروری ہے لیکن .... اگر سیاست سے امت کی دینی قیادت مراد ہو، جس میں چھوٹے انتظامی امور سے لیکر بڑے نظام تک کے معاملات شامل ہیں تو اس میں علماء کی شان ہی الگ ہے، موجودہ سیلابی صورتحال میں دینی طبقات و رفاہی اداروں کی طرف سے جس بے لوث و بے غرض خدمت انسانیت کا منظر سامنے آیا ہے، سارے میڈیا کی طوطا چشمی و چشم پوشی کے باوجود وہ اظہر من الشمس ہے، موم بتی مافیا اور دسترخانیوں کے لئے اس میں بڑا درس عبرت ہے کہ کیسے بے سروسامانی میں کام کیا جاتا ہے، عوام الناس کو بھی احساس ہوگیا کہ ان کے حقیقی خیر خواہ کون ہیں؟

کام میں برکت اور اخلاص
سیاست جو دراصل حقیقی "خدمت انسانیت" سے عبارت ہے، اس کے حقدار کون ہیں؟ پھر اہل دین کے کام میں برکت کیسی ہوتی ہے ؟ مولانا گیلانی رحمہ اللہ نے اس پر اکابر دیوبند کے کام میں برکت کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جس کو پڑھ کر ہی طبیعت باغ و بہار ہوجاتی ہے، لکھتے ہیں کہ اگر اس جہاں بانی و حکمرانی (دینی سیاست و قیادت) کا سلیقہ مراد ہے، تو کوئی شبہ نہیں کہ دارالعلوم کے احاطے میں نظم و ضبط اور اس کی ہمہ گیریوں کا ایک دلچسپ نمونہ میرے سامنے آگیا تھا، گوناگوں کاموں کے یہ سارے شعبے چل رہے تھے اور اتنی ہمواری کے ساتھ کسی خرچے کے بغیر چل رہے تھے کہ نہ کسی قسم کا ہنگامہ برپا تھا، نہ داروگیر اور رست خیز کی کیفیت معلوم ہوتی تھی، سنجیدگی و متانت کے ساتھ سبک رفتار ندی کی چال کی طرح یہ نظم جاری تھا، طرفہ تماشا یہ تھا کہ نظم کو چلانے والوں کی تعداد بمشکل انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی، شاید میں مبالغہ نہیں کررہا ہوں کہ ¹ مطبخ (کھانا پکانے کی جگہ اور ² مطعم یعنی کھانا کھانے کی جگہ) ³ مکتب (کتب خانہ) ⁴ مطبع (طباعت خانہ) میں کام کرنے والوں کو اس زمانے میں جب میں نے گنا تھا تو مجموعی طور پر ان کی میزان دس (10) کے اندر ہی اندر غالباً تھی، ان ہی میں تقریباً ایک ہزار کھانے والوں کے روزانہ دونوں وقت کھانے پکانے والے بھی تھے، اور پکوانے والے بھی، ان ہی میں کتابوں کو تقسیم کرنے والے اور ہر ہر کتاب کو اپنی اپنی جگہ سے نکال کر لانے والے اور پہنچانے والے بھی تھے، ان ہی میں ٹوٹی پھوٹی جلدوں کو دوبارہ درست کرنے والے بھی تھے، الغرض سب کام ہورہا تھا لیکن جتنا بڑا کام تھا، سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کام کرنے والوں کی مختصر سی یہ ٹولی اس کو انتہائی حسن و خوبی کے ساتھ بسہولت تمام کیسے انجام دے رہی ہے۔ (انتہی) .... اگر مولانا گیلانی رحمہ اللہ کے الفاظ کو کسی قدر ترمیم کے ساتھ موجودہ سیلاب میں امدادی سرگرمیوں پر منطبق کیا جائے تو علماء، اہل مدارس، دینی طبقات اور رفاہی اداروں کے کارہائے خیر نظر آجاتے ہیں، یہ ہے اخلاص کی برکت، کام میں وسعت، معاملات کی ہمہ گیری، حقوق کی منظم ادائیگی !
"احاطہ دارالعلوم دیوبند" کتاب کے کئی گوشے راقم کو عہد ماضی کے طالبعلمی کے زمانے کی مختلف ذِکْرَیات (یادیں) یاد دلاتے ہیں، وہاں سادگی تھی مگر نظم تھا، جدید آلات کی قلت تھی مگر ضبط تھا، کام کی وسعت تھی مگر امن تھا، سبک رفتاری تھی مگر اطمینان تھا، مستقل آمد و رفت تھی مگر ہنگامہ خیزی سے مُبَرّا تھا، لوگ جوق در جوق تھے مگر ہر ایک کو اپنے پر یکساں توجہ کا احساس تھا، مادی دنیا کے کیمرے نہ تھے مگر ایمان تھا، مال کی فراوانی تھی مگر خوف آخرت تھا .... کیا کیا لکھوں ؟ ایک ادارہ نہ تھا بلکہ ایک جہاں تھا جس میں سب کچھ گویا خود کار (آٹو سسٹم) چل رہا تھا، محبتیں، مودتیں، مسرتیں، ملاقاتیں، عنایات، نوازشات، تمنیات اور تشکرات تھے، باہر سے آنے والے یہاں داخل ہوکر سکون محسوس کرتے ہوئے یہ کہنے پر بزبان حال مجبور ہوجاتے کہ کأنی دخلت الحرم !
آہ ! کاش وہ لمحات پھر مل جائیں !! ہاں ! وہ ساعات پھر مل جائیں۔






0/Post a Comment/Comments