ووٹ (8 فروری 2024) مولانا رشید احمد سواتی


 ووٹ (8 فروری 2024)

مولانا رشید احمد سواتی 

🌹بعض لوگ کہتے ہیں بلکہ کچھ ایسے علماء حضرات کوسیاسی شعور سے عاری اور حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں سے ناواقف ہیں یا ضِد اور عناد کے مرض میں مبتلا ہیں وہ بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ووٹ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے یہ ایک سیاسی معاملہ ہے، اس میں کوئی ثواب گناہ نہیں ہے آپ چاہے ووٹ دیں یانہ دیں یا جِسے چاہیے دیدے

یہ باتیں احکام شریعت سے ناواقفیت پر مبنی ہیں، دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہر قول و فعل کا حکم موجود ہے قیامت کے دن ایک ذرہ کے برابر عمل کا حساب ہوگا نیکی ہو تو اجر ملے گا. گناہ کا کام ہو تو سزا ملے گی

توکیا ووٹ کی حیثیت ذرہ برابر بھی نہیں ہے؟

موجودہ جمہوری نظام میں تویہ پرچی بڑی طاقت وَر ہے اِسی پر تو حکومتیں قائم ہوتی ہیں اور گرجاتی ہیں، اس کاتو بڑا وزن ہے تب تو بڑے بڑے لوگ الیکشن کے دنوں میں غریبوں کے دروازوں، اور گاؤں دیہات کے طواف کرتے نظر آتے ہیں، لاکھوں کروڑوں خرچ کرتے ہیں اور جیتنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں

لہذا اپنا ووٹ ضرور استعمال کریں لیکن سوچ سمجھ کر اپنے ملک اور اسلام کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں

🌷ووٹ ایک قسم کی گواہی اور شہادت ہے کسی کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں یہ.شخص وطن اور اسلام کا وفادار اور عوام کو ان کے حقوق دلانے کا اھل ہے

غلط شخص کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی کے حکم میں ہے جس پر قرآن حدیث میں بڑی سخت وعید وارد ہے 

🌷بعض دیندار قسم کے لوگ ووٹ استعمال نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کیا لینا دینا ہے 

تو ایسے لوگ ووٹ نہ دے کر گویا گواہی کو چھپا رہے ہیں جبکہ کِتْمانِ شھادت (گواہی چھپانے) سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منع فرمایا ہے بالخصوص جب کسی کی گواہی کی ضرورت بھی ہو،

ایسے حضرات اپنے ووٹ کے ذریعے نسبةً کسی مناسب شخص کی جیت کاسبب بن سکتے ہیں تو ووٹ نہ دے کر گویا یہ کسی نالائق اور خائن شخص کیلئے راستہ کھلا چھوڑ رہے ہیں اور اُسے قوم پر مسلط ہونے کا موقعہ فراہم کررہے ہیں یہ انفرادی معاملہ نہیں ہے بلکہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے

کسی غلط شخص کو ووٹ دینا یا اپنا ووٹ استعمال نہ کرکے اُسے مسلط ہونے کا موقعہ دینا یہ درحقیقت اپنے اھل علاقہ، ملک ومِلّت کے ساتھ ظلم ہے ایسے لوگ منتخب ہونے والا شخص کے ہر جرم، عوامی حق تلفی اور خیانت میں برابر کے شریک ہونگے

🌹دوسری بات، ووٹ دیتے وقت متعلقہ امیدوار کی دیانت و شرافت کو دیکھنا بھی ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ وہ کس نظریہ کا پیروکار ہے؟ اس کی پارٹی کا منشور اور وِژن کیاہے؟ وطن عزیز کی ترقی اور اسلامی تہذیب و اقدار کے تحفظ کے حوالے سے اس کی کیا خدمات ہیں؟

اور مستقبل کے حوالے سے کیا عزائم ہیں؟

🌷ایک امیدوار اگرچہ خود ذاتی طور پر مناسب اور قابل ہو، حاجی صاحب یا مولوی صاحب ہو

لیکن اس کی پارٹی اور قائد کے نظریات اور عزائم ملک وملّت کے مفاد کے منافی ہوں تو کل آپ کے ووٹ کی طاقت غلط مصرف میں خرچ ہوگی کیونکہ پارٹی اراکین آزاد نہیں ہوتے وہ اپنے لیڈر کے تابع مہمل ہوتے ہیں

🌷اور اگر ایک کنڈیڈیٹ خودتو زیادہ نیک صالح اور مثالی انسان نہیں ہے لیکن ایک نظریاتی اور مُحِبِّ وطن پارٹی سے وابستہ ہے،تو ان شاءاللہ تعالیٰ کل آپ کا ووٹ وطن کے دفاع وترقی، اسلامی قوانین، ناموس رسالت، ختم نبوت حیا،پردہ، عصمت اور شرافت کے تحفظ کیلئے استعمال ہوگا

جس کا فائدہ آپ کو دنیاکے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی حاصل ہوگا

🌹لھذا خدارا

چند ٹکوں کے عوض یا پانی کی ٹنکی، پائپ اور سیمنٹ کے بدلے اپنے ضمیر کا سودا مت کیجئے، آپ کے بڑے آپ کو بہت سستے دام امیدوار کے ہاتھوں فروخت کرکے ٹھیک ٹھاک قیمت وصول کررہے ہیں ان کے ہاتھ بِکنے سے بچئیں

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایسے حکمران نصیب فرمائے جو ملک و مِلّت کے حق میں بہتر ہو

#رشید_احمد_سواتی 




0/Post a Comment/Comments