قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا اسلام آباد میں احتجاجی اجلاس سے خطاب 22 فروری 2024

 

قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا اسلام آباد میں احتجاجی اجلاس سے خطاب

22 فروری 2024

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

جناب صدر، حضرات علمائے کرام، دانشورانِ قوم، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیوں! فیصلے کے مطابق تو اسلام آباد جمیعت علمائے اسلام کی مجلس عمومی کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تھا لیکن معاملہ تو مجلس عمومی سے آگے بڑھ گیا ہے اور آپ نے تو جلسہ عام بنا دیا ہے۔

الیکشن کے حوالے سے باتیں ہوئیں، 2018 کے الیکشن کے بعد ہمارا یہ خیال تھا کہ 2024 کا الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوگا لیکن ایک بار پھر ہماری خواہش کو اور ہماری آرزو کو اور اس ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے فروغ کو جس طرح کُچل دیا گیا ہے مجھے اب فکر اس بات کی ہے کہ اگر ایک الیکشن کے بعد مسلسل دوسرا الیکشن بھی متنازعہ ہو تو پھر پارلیمان کی اہمیت کیا ہوگی، وہ پارلیمان جس کو ہم سپریم ادارہ کہتے ہیں، جس میں عوام کے براہ راست نمائندے بیٹھتے ہیں اگر اسٹیبلشمنٹ براہ راست مداخلت کر کے ایک ایک حلقے سے اپنی مرضی سے نمائندوں کو چُنے گی تو پھر ظاہر ہے کہ وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوگا، ایسی پارلیمنٹ کے کیا اہمیت ہوگی جسے عوام اپنا نمائندہ نہیں تصور کریں گے جو بھی وہاں بیٹھا ہوگا کہیں نہ کہیں سے کوئی انگلی اس کی طرف اٹھے گی کہ اس کو بھی تو ایجنسی نے پاس کیا ہے اس کو بھی تو اداروں نے پاس کیا ہے یہ بھی تو اداروں کا بندہ ہے، ابھی بات ہوئی کہ جس کو مخالف دیکھا اس کے خلاف کرپشن کے کیس کر دیے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے، شرم آنی چاہیے اسے! وردیاں عزت نہیں دیا کرتی وردیوں کے اندر کردار عزت دیتا ہے، کم از کم جمعیت علماء اسلام اس کردار سے اپنی لا تعلقی کا اعلان کرتا ہے۔

اس حوالے سے ہم اپنا تفصیلی فیصلہ مرکزی مجلس عاملہ میں دے چکے ہیں اور اس کو عوام تک پہنچا بھی دیا ہے۔ ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں، ہمارے بزرگوں نے اس آئین پہ دستخط کیے ہیں، اس آئین کے بانی ہیں، اس لیے اس آئین کے تحفظ کو ہم اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں، لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں! آئین کاغذ کے چند ورقوں کے مجموعے کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں! جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے، وہ جمہوریت کہ جو ہمارے آئین کے تحت وہ قرآن و سنت کے تابع ہے اور اکثریت کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے منافی فیصلہ دے سکے، ہم کیا جواب دیں گے دنیا کو، حاکمیت اعلیٰ تو اللہ رب العالمین کی ہے لیکن یہاں تو حاکمیت اعلیٰ ہمارے پارلیمنٹ کی بھی نہیں ہے، ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے، تو پھر کس طرح ہم اس نظام کے ساتھ چلیں گے، ہمارے دوست ہیں ہم ان کا احترام بھی کرتے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی ہم نے مل کر تحریک چلائی ہے اگرچہ جمعیت علماء کے کارکن سڑکوں پہ ہوتے تھے اور ان پارٹیوں کے قائدین صرف کنٹینر پہ ہوتے تھے تب بھی ہمیں قبول تھے، تب بھی ہمیں قبول تھے، میں آج ان سے ایک مؤدبانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ 2018 میں بھی آپ کا یہی مینڈیٹ تھا اور 2024 میں بھی آپ کو وہی مینڈیٹ ملا ہے کچھ سیٹیں اوپر نیچے ہو سکتی ہے لیکن اسی مینڈیٹ کے ساتھ آپ نے اس وقت کہا تھا دھاندلی ہوئی ہے اور آج کہتے ہیں الیکشن ٹھیک ہوا، میں پاکستان تحریک انصاف سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ تقریباً تقریباً وہی مینڈیٹ ہے جو 2018 کا تھا آپ کا اس وقت آپ حکومت بنا رہے تھے تو الیکشن شفاف تھے آج آپ حکومت نہیں بنا سکتے تو پھر کہتے ہیں دھاندلی ہوئی ہے اس وقت کا موقف اور تھا اس دفعہ کا موقف کچھ اور، اور جمعیت علماء ہیں کہ اگر دھاندلی اس وقت ہوئی تھی تو اس وقت بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اگر آج بھی ہے تو آج بھی ڈنکے کی چوٹ پہ کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہم اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے، آگے چلنا ہے ہم نے، یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں ہے، ہاں جب پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور بظاہر ایک بنی بنائی پارلیمنٹ جو عوام کی منتخب نظر نہ آئے تحفظات ہوں، پھر سوچنا تو جائز ہے نا ہمارے لیے کہ پھر ہم آئندہ کے لیے اس پارلیمنٹ کی سیاست کا حصہ بنے یا نہ بنے، نرم پارلیمانی سیاست کرے یا نہ کرے، پارلیمنٹ میں جو میری قوت ہے جو میرا سٹرینتھ ہے وہ کسی اور کے رحم و کرم پر ہے لیکن جب میں پارلیمنٹ میں نہیں ہوں اور سڑکوں پہ آؤں گا تو ان شاءاللہ اپنے مکمل سٹرینتھ کے ساتھ آؤں گا اس کے ساتھ مجھے کسی اور کی تائید کی ضرورت نہیں ہوگی ان شاءاللہ العزیز۔ ہمیں اللہ کا سہارا لے کے چلنا ہے اور اسی جانب ہم نے چلنا ہے، حکومتیں بن جائیں گی لیکن صرف کرسی کے لیے کرسی بانٹ یہ کرسی تیری یہ کرسی میری یہ کرسی تیری یہ میری تو کرسی بانٹ حکومت جو ہے اس کی کوئی افادیت نہیں ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت ہو اور مسلم لیگ شامل ہو یا مسلم لیگ کی حکومت ہو پیپلز پارٹی شامل ہو روز ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے رہیں گے، حکمران ہر وقت اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھے گا کہ کہی صورت تو نہیں گئے، آئے روز اس کے اپنے ہی حلیف اور شریکِ حکومت کے مطالبات آتے رہیں گے جی اور وہ پورے کر سکیں گے یا نہیں کر سکیں گے کچھ معلوم نہیں، تو پھر ظاہر ہے کہ پیچھے خفیہ دیوار کے پیچھے قوت ہوگی اسی کے ہاتھ میں اس کے بھانگے ہوں گی وہی ان کو چلائیں گے، تو اس حوالے سے ہم پھونک پھونک کے آگے جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری فوج ملک کی دفاع کی صلاحیت رکھے، بیرونی دشمن تو دور کی بات ہم تو 20 سال سے ملک کے اندر کی دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کو دیکھ رہے ہیں دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور ان کی جنگ ختم نہیں ہو رہی ہے، عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے اور پتہ نہیں یہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں جی اور تنقید سے بالاتر، تنقید پہ ناراض ہوتے ہیں کہتے ہیں ہم دفاعی قوت ہیں ملک کی اور دفاعی قوت پر تنقید اچھی بات نہیں ہے، میں واضح اعلان کرتا ہوں کہ میں دفاعی قوت پہ تنقید نہیں کر رہا ہوں جب میری دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو پھر سیاسی قوت پر تنقید کرنا میرا حق بنتا ہے، وہ دفاعی قوت رہیں گے سر کا تاج، آنکھوں کے پلکیں، آنکھوں کے پلکیں کبھی آنکھوں پہ بوجھ نہیں ہوا کرتی لیکن اگر پلکوں کا ایک بال بھی اپنے حدود سے آنکھ کے اندر گرتا ہے پلکیں باہر سے دفاع کرتی ہے باہر کا کوئی چیز مصیبت جو ہے آنکھ کی طرف نہ آئے لیکن اگر پلکوں کا ایک بال آنکھ کے اندر خود چلا جائے تو پھر وہ گلا کرتی ہے آنسو بہاتی ہے اگر آنسو بہا کے بھی وہ نہ نکلے تو پھر اس کو نکالنا پڑتا ہے، اس کشمکش سے ہم دو چار ہو گئے ہیں یہاں کسی پارٹی کا ہم کوئی کمپین دیکھ ہی نہیں رہے اور اگر ہمارے خلاف کوئی کمپین چلا رہا ہے تو ان کی سکیورٹی فورسز ان کے ساتھ ہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ اور ہم ہیں جلسے میں مت جاؤ تمہارے پیچھے خودکش لگے ہوئے ہیں، جلسے میں مت جاؤ تمہارے پیچھے خودکش لگے ہوئے ہیں، جلسے میں مت جاؤ تمہارے پیچھے خودکش لگے ہوئے ہیں تاکہ ہم عوام سے رابطہ نہ کر سکیں اور آپ جانتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے میں چیختا رہا ہوں کہ ہم الیکشن کی مہم نہیں چلا سکتے، ہم اپنے حلقے کی عوام سے ملنے کے قابل نہیں ہیں وہاں کی صورتحال میں تو پھر یہ دن تو دیکھنا پڑھے گا لیکن یہ دن دیکھ کر کیا ہم ہتھیار ڈال دیں اور پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری ہماری بن جائے کہ اس کے ممبر شپ کے لیے ہم بوٹ چاٹتے رہیں، تو اتنی بھی ہماری ضرورت نہیں ہے وہ، بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں ہم سمجھتے تھے کہ ہم ملک کو آگے لے جائیں گے ہم ملک کے لیے بہت اچھا سوچ رہے تھے اور ملک کے اب بھی اچھا سوچیں گے لیکن ملک کی بہتری کے لیے سوچ کے سامنے رکاوٹیں کیوں کھڑی کی گئی ہے اور میں ان شاءاللہ دوسری صوبوں میں بھی جاؤں گا وہاں کے جنرل کونسل کے ساتھ بھی میں ملوں گا ان کو اعتماد میں لوں گا پھر پاکستان کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس بلائیں گے ان شاءاللہ اور پھر اس بات پر غور کریں گے کہ کیا پارلیمنٹ اتنا ضروری ہے کہ ہم رسوا ہو کر بھی اس میں بیٹھے، ہیں ہم رشوت دے کر بھی اس میں بیٹھے، ہم دھاندلیوں کے ذریعے جیت کر بھی اس میں بیٹھے، اتنی ضروری ہو! جو پارلیمنٹ ایک چھوٹی سی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، قانون بھی بھیج کر کہا جاتا ہے یہ قانون پاس کرنا ہے اور پھر ہم پاس کردیتے ہیں، تو پھر وہی ملک کو چلائے لیکن ساتھ ساتھ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ ملک ہمارا ہے، اس ملک کا نظام اس کو چلانا اس کی حفاظت کرنا اس کو نظریاتی حوالے سے قرآن و سنت کے ہم آہنگ بنانا یہ ہماری ذمہ داری ہے، اس وقت جب میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں تو حال ہی میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ جو 1919 میں ایک جرم اور پھر اس کے بعد اس کے خلاف ایک ایف آئی آر درج ہونے کے بعد آج سنایا ہے انہوں نے، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ جرم 1919 میں ہوا اور قانون 2021 میں بنایا 22 میں بنا تو پھر اس وقت تو یہ قانون نہیں تھا، مسئلہ یہ نہیں ہے جس طرح پروپیگیٹ کیا جا رہا ہے میڈیا کے ذریعے پروپگیٹ کیا جا رہا ہے، اس کے جو مندرجات ہیں ان کو ذرا پڑھیں کہ اس میں کس طریقے سے قرآن کی تحریف کا راستہ بنایا گیا ہے، اور قرآن سے جو حوالے دیے گئے ہیں تمام علماء کرام بیٹھے ہوئے ہیں میں سب کو چیلنج کرتا ہوں پڑھو ذرا قرآن کی آیت کو تفاسیر کی روشنی میں پڑھو احادیث کی روشنی میں پڑھو کیا اس کی تطبیق یہ ہے جو ہمارے جج صاحب نے کیا ہے؟ (نہیں نہیں مجمع سے جواب) یہ تطبیق ہے ہی نہیں اس کی، اور بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن نے یہ کہا قرآن نے یہ کہا قرآن نے یہ کہا اس کا بھی ایک میسج جاتا ہے اس کا بھی ایک میسج جاتا ہے، کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ صرف قرآن ہی دلیل ہے حدیث اور سنت کوئی دلیل نہیں کچھ میسج اس طرف بھی جا رہا ہے، یہ فتنے بھی تو ہمارے ہاں ہیں نا، اور اس پر ہم نے اپنے وکلاء سے بات کی دانشور حضرات بیٹھے ہیں ہم ان شاءاللہ ریویو میں جائیں گے اور جمعیت علمائے اسلام فریق بن کر جائے گی، وکلاء حضرات ہماری رہنمائی کریں گے، اجازت ہے بھائی اجازت کس بات کی ہے؟ بھئی اگر عیسائی ہے اور عیسائی اپنے گِرجوں میں اپنے سکولوں میں اپنے ہی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے تو کس نے پابندی لگائی ہے اس کے اوپر جی؟ اگر ہندو ہے ہندو اپنے ہی سکول میں ہندوؤں کو پڑھاتا ہے تو پڑھائے، لیکن ایک شخص کہتا ہے کہ قرآن میری کتاب ہے جبکہ وہ غیر مسلم ہے اور ایک تحریف شدہ قرآن کو تقسیم کر رہا ہے اور یہ کہتے ہیں نا کہ یہ دفعہ بھی کاٹ دو یہ دفعہ بھی کاٹ دو یہ بھی اس پر لاگو نہیں ہوتا یہ بھی اس پہ لاگو نہیں ہوتا تو پھر تو آپ نے اجازت دے دی ہے کہ جو شخص قرآن کی جس طرح تشریح کرے تحریف قرآن کے اندر اور پھر وہ نسخہ چھاپتا رہے اور تقسیم کرتا رہے تو اس کی اجازت ہوگی، تو وہ کون ہے وہ ہے کون جو قرآن کی تحریف بھی کرتا ہے اور تحریف شدہ قرآن کو کہ پھر تشریح بھی کرتا ہے اور پھر اس کو پھیلاتا بھی ہے وہ ہے کون ہمارے اندر؟ وہ ہمارے اندر سوائے قادیانیوں کا اور کوئی نہیں ہے، یہ قرآن کی توہین نہیں ہے، قرآن میں تحریف قرآن کی توہین نہیں ہے، لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کا یہ مطلب ہے کہ قرآن میں تحریف کرو تو لَا اِکْرَاہَ! اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ

تو میرے محترم دوستو! ہمارے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بظاہر ہمیں کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے، قوم نے خود اٹھنا ہے

غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے

اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

اور اس کے علامات بھی نہیں ہیں، مارتے بھی ہے اور کہتے ہیں ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

یہ وہ حالات تھے جو ہمارے ملک کے اندر پیدا کر دیے گئے لیکن سب کچھ سمجھ آتا ہے، 42 سال اس دشت میں میں نے گزارے ہیں۔

تو ہم نے اپنے اکابر کی تاریخ کو بھی پڑھا ہے اور اگر اکابر کی تاریخ گزر گئی ہے اور آپ کو بھول گئی ہے تو ابھی گزشتہ 20 سالوں کا بھی مطالعہ کر لیں جو آپ کے سامنے گزرے ہیں آپ کی زندگی میں گزری ہیں، گوانتا نامو کی تاریخ، شبرغان جیل کی تاریخ، بگرام کے عقوبت خانوں کی تاریخ یہاں بھی تو استقامت دکھائی گئی ہے اور آج وہ فاتح ہے یا نہیں؟ تو پھر اپنی تاریخ کو بھی اپنے حال کو بھی سامنے رکھیں اور جرات اور شوق شہادت کے ساتھ میدان میں اتریں گے، یہ ملک ہم نے غلامی کے لیے نہیں حاصل کیا یہ آزاد قوم بننے کے لیے حاصل کیا ہے، اور ان شاءاللہ غلام بن کر نہیں جئیں گے بلکہ اگر ہمیں غلامی کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو جائے بھاڑ میں میری 300 سال کی عمر اور اگر آزادی کا ایک لمحہ مجھے ملتا ہے تو 300 سال سے بھی زیادہ بھاری ہے اور قیمتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ہماری مدد فرمائے۔ واٰخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


لائیو اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں ۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, February 22, 2024


0/Post a Comment/Comments