قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جرگہ پروگرام میں سلیم صافی کے ساتھ خصوصی گفتگو 18 فروری 2024


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جرگہ پروگرام میں سلیم صافی کے ساتھ خصوصی گفتگو

18 فروری 2024


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم

فروری 2024 کے انتخابات سے قبل بھی پاکستان میں 11 مرتبہ انتخابات ہوئی اور تقریبا تمام تر انتخابات متنازع ہوئی جیتنے والا وہ جشن مناتا تھا لیکن ہارنے والا دھاندلی کی شکایت کرتا تھا تا ہم اب کے بار جو انتخابات ہوئی ہیں یہ ایک حوالے سے منفرد اس لیے ہے کہ جیتنے والے بھی پریشان ہیں اور ہارنے والے بھی پریشان ہیں جیتنے والوں کو بھی گلا ہے کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والوں کو بھی گلا ہے کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے کئی جگہوں پہ تو ایسے بھی نظر آرہا ہے کہ جس پارٹی کے امیدوار نے شکست دی ہے دوسری پارٹی کو تو اس دوسری پارٹی کی قیادت اور اس پارٹی کی قیادت ایک ساتھ بیٹھی ہے ان انتخابات کے حوالے سے جو جماعتیں سب سے زیادہ معترض ہیں ان میں ایک جمیعت علماء اسلام پاکستان بھی ہیں تو اج ہم جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور ان سے جانیں گے کہ انتخابات کے حوالے سے ان کی شکایات کیا ہیں مستقبل کے حوالے سے ان کے ارادے کیا ہیں کیا وہ حکومت میں بیٹھ رہے ہیں یا اپوزیشن میں جا رہے ہیں اور عمران خان صاحب کے ساتھ کیا واقعی ان کی مخاصمت وہ رفاقت میں تبدیل ہو رہی ہے یا کہ نہیں کچھ اور ہونے جا رہا ہے بہت شکریہ مولانا صاحب اور سب سے پہلے تو بہت بہت مبارک ہو جی، مبارکباد تو قبول کیجیے۔

مولانا صاحب: بہت شکریہ کس چیز کی مبارک باد پتہ تو چلے۔

سلیم صافی: یہ جو اپ کی عمران خان صاحب کے ساتھ دوستی ہو گئی ہے اور پی ٹی آئی اور جے یو آئی ویسے ناموں میں بھی بڑی اچھی موافقت ہے دونوں ایک ہونے جا رہے ہیں اس کی مبارکباد کی بات کی ہے۔

مولانا صاحب: دونوں آئی آئی ہے، صافی صاحب آپ ہمارے پشتون کلچر سے واقف ہے اگر مہمان گھر آجاتے ہیں تو مہمان کے لیے ہم دروازہ تو نہیں بند کرتے ہیں ان کو عزت بھی دیتے ہیں خوش آمدید بھی کہتے ہی ان کے ساتھ بڑے شائستہ انداز کے ساتھ گفتگو بھی کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کا وفد کوئی اس دفعہ پہلی بار تو نہیں آیا اس سے پہلے بھی کئی دفعہ آچکے ہیں اور ہم نے ہمیشہ ان کے ائے ہوئے وفد کو عزت دی ہے احترام دیا ہے اب یہاں ہمارا ایک عجیب سا ایک کلچر بن گیا ہے کہ اگر دو آپس میں مل کر ایک ملاقات کرتے ہیں تو ملاقات ہی کو وہ فورا ایک اتحاد کے نام سے تعبیر کر لیتے ہیں کہ بس، حالاں کہ آپ تو جانتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کو جہاں پاکستان بھر کے الیکشن کے نتائج پر اعتراض ہے وہاں کے پی میں تو پی ٹی ائی کے حوالے سے


سلیم صافی: آپ کی سیٹیں تو ان کو دلوائی گئی ہے یا جیت چکی ہے؟

مولانا صاحب: تو ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ ہم نے ان کے سامنے بھی رکھا ہے کہ بھئی ہماری پوزیشن تو یہ ہے اور بڑے اچھے انداز کے ساتھ کوئی ایسا تلخی کے ساتھ ہم نے نہیں رکھا لیکن ان کے ذہن میں رکھا کہ بھئی ہماری پوزیشن تو یہ ہے اب رہی بات یہ کہ پی ٹی آئی اور جمعیت کا جو اپس میں 12 سالہ اختلاف رہا ہے اور وہ جن تلخیوں سے بھرا ہوا ہے اور میں یہ اگر لفظ استعمال کروں کہ ہمارے درمیان کو ایک دیوار حائل نہیں ہے پہاڑ حائل ہے تو اس کو اب عبور کرنا سر کرنا یہ کوئی اسان کام تو نہیں ہے لہذا ہم اپنی پوزیشن پر قائم ہیں تو وہ اپنی پوزیشن پر قائم ہیں نہ انہوں نے اپنی پوزیشن تحلیل کی ہے ہم نے اپنی پوزیشن تحلیل یا تبدیل کی ہے ۔


سلیم صافی: تو کوئی اتحاد وغیرہ نہیں ہوا ہے ؟

مولانا صاحب: کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر بالفرض یہ فوری طور پر تو مجھے نظر نہیں آتا کوئی مشترکہ جدوجہد یا کوئی ایسی بات لیکن اگر یہ ان کا یہاں تشریف لانا ان کے ہمارے ساتھ گفتگو کرنا ایک ماحول تشکیل دیتا ہے ایسا ماحول کہ جس میں پھر مذاکرات ہوں ایسا ماحول کہ مذاکرات کے نتیجے میں پھر مسئلے کے حل کی طرف ہم پہنچیں تو ہم سیاسی لوگ ہیں سیاسی آدمی نہ مذاکرات کا انکار کرتا ہے نہ مسئلے کے حل کا انکار کرتا ہے اور اس کا دارومدار آنے والے حالات پر ہے۔


سلیم صافی: مسئلے کا حال آپ کس چیز کو سمجھتے ہیں ری الیکشن یا مخصوص حلقوں پہ ری الیکشن یا ریکاؤنٹنگ کیا ؟

مولانا صاحب: آپ نے جو سوال ابھی کر لیا ہے نا جی کہ

 غیر ممکن ہے کہ حالات کی گھتی اب سلجھے

اہل دانش نے بہت سوچ سمجھ کے الجھائی ہے

تو یہ ساری چیزیں ہیں یعنی جو رگنگ ہوئی ہے جس منصوبہ بندی کے ساتھ ہوئی ہے اور کس پارٹی کو کہاں ہم نے جتوانا ہے اور اسی پارٹی کو کہاں کہاں ہروانا ہے کس کینڈیڈیٹ کو ہروانا ہے کس کو جتوانا ہے اور پھر اس کے لیے جس طرح رشوتیں دی گئی ہے جو میرا تو دماغ خراب ہو گیا اس قسم کی جو دوستوں کی طرف سے شکایتیں آرہی ہیں۔


سلیم صافی: یہ رشوتیں کس نے لیے اور کس نے دی ہے ؟

مولانا صاحب: اف ابھی اس پر میرا خیال میں ہمیں تفصیلی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایک چیز میں پریس کانفرنس میں بہت علی الاعلان کہہ چکا ہوں اور باقی لوگ بھی کہہ چکے ہیں اور مجھ سے کئی زیادہ آگے ہیں اس حوالے سے جو جو میں بات میں کہہ رہا ہوں جی لیکن اگر اس قسم کی شکایتیں اٹھتی ہے ایک الیکشن کے کوکھ سے تو اپ مجھے بتائیں کہ اس الیکشن کو ہم کیسے تسلیم کر لیں کیسے قبول کر لیں کیوں یہ متنازعہ نہیں ہوں گے پھر تو مجھے تو اس بات پر انتہائی سخت تکلیف ہے کہ 2018 کا الیکشن وہ بھی متنازعہ ہو گیا اب کہ پھر یہ بھی متنازعہ ہو گیا اور اس سے قبل جو اگر آپ نے کہا نا کہ اب تک کسی ہر الیکشن تو


سلیم صافی: نہیں 2018 کا تو صرف ایک پارٹی کی تصدیق کیا تھا اور باقی سب نے مسترد کیا تھا اس مرتبہ دو بڑی پارٹیاں جو ہیں وہ کچھ تحفظات کے ساتھ قبول کر رہی ہے۔

مولانا صاحب: میں ان کو یہی کہنا چاہتا ہوں جی کہ تقریبا یہی مینڈیٹ آپ لوگوں کا اس وقت تھا جب 2018 میں الیکشن ہوئے چند سیٹوں کے آگے پیچھے کل کے لیے تو پیپل پارٹی ہو یا مسلم لیگ نون ہو اس وقت اسی مینڈیٹ کے ساتھ کیوں کہہ رہے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور آج اسی مینڈیٹ کے ساتھ کیوں کہہ رہے ہیں کہ الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ اپ کو بھی تقریبا وہی مینڈیٹ ملا ہے کچھ سیٹیں اگے پیچھے کے حساب سے، اپ لوگ اس وقت کیوں کہہ رہے تھے کہ الیکشن ٹھیک ہوئے ہیں اور آج کیوں کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے صرف جمیعت ہے جو کہتی ہے کہ وہ بھی غلط تھا یہ غلط ہے، غلط غلط ہوتا ہے چاہے وہ 18 میں ہو چاہے وہ 24 میں ہو تو اس حوالے سے اب تو اور بھی آوازیں اٹھ گئی ہیں سندھ میں جی ڈی اے نے بھی بالاتفاق وہاں پر بڑے مظاہرے کر دیے ہیں ہمارے جو محمود خان اچکزئی صاحب ہیں یا ہمارے اختر جان مینگل صاحب ہیں انہوں نے بھی واضح کہہ دیا ہے ایمل خان نے بھی پریس کانفرنس کر کے واضح طور پر کہا ہے کہ بھئی یہ سب کچھ غلط ہوا ہے ۔ تو یہ نہیں ہے کہ مختلف علاقوں کے ہمارے بڑے اہم جماعت ہیں جن کے اپنی اپنی ایک حیثیت ہے اور پھر یہ ہے کہ حضرت ایک ہے جماعت اور ایک ہے پارلیمانی جماعت، پارلیمانی جماعت ایک پارٹی نہ سہی مطلب ایک ووٹ سے بھی اپ ہار سکتے ہیں اور پارليمنٹ میں نہیں جا سکتے لیکن جماعتوں کے اپنی حیثیت تو ہے ان کو فالوورز تو ہیں عوام میں تو ہیں ان کی جڑیں ہیں ان کے اندر اس کے اپنے اثر رسوخ ہے ۔


سلیم صافی: مولانا صاحب آپ نے جو دلائل دیے ہیں کہ نون لیگ کو بھی اتنے ووٹ پڑے ہیں جتنے پہلے پڑتے تھے پیپلز پارٹی کو بھی پی ٹی ائی کو بھی تو یہ الٹا اس بات کا ثبوت نہیں ایک الیکشن فیئر ہوا ہے کہ جب سب کو اپنا حصہ بقدر جسہ ملا ہے ؟

مولانا صاحب: یہ سوال اس وقت میں نے کیا ہے آپ کیوں کریں گے اس وقت یہ میں نے کیا ہے اور اسٹبلشمنٹ سے کیا ہے کہ اگر آپ اس بات کے دعویدار ہیں کہ الیکشن صحیح ہوئے ہیں تو پھر نو مئی کا جو اپ کو بیانیہ ہے وہ دفن ہو گیا نا اس کے بعد تو ختم ہو گئی بات اور پھر اس کا معنی ہے قوم نے باغیوں کو ووٹ دیا ہے، ملک کے باغیوں کو ووٹ دیا ہے جی تو یہ چیزیں جو ہیں اگر تضادات ہیں تو صرف ہمارے لیے نہیں ہے کوئی تضاد ہم کو اسی تسلسل کے ساتھ بات کر رہے ہیں لیکن خود ان کے لیے تضادات ہیں سو میں مسلم لیگ سے بھی کہتا ہوں کہ آپ کے ہاں بھی تضاد ہے پی ٹی آئی سے بھی کہتا ہوں اپ کے ہاں بھی تضاد ہیں، پی ٹی آئی سے بھی کہتا ہوں کہ آپ کے ہاں بھی تضاد ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں اپ کے ہاں بھی تضادات ہیں تو تضادات کی نوعیت شاید مختلف مختلف ہو ۔


سلیم صافی: مولانا صاحب بریک سے پہلے جو بات ہو رہی تھی تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کا حق چھین کے کس کو دلوایا گیا ہے اور کس نے چھینا ہے ؟

مولانا صاحب: یہ بڑا دلچسپ سوال ہے جی یعنی میں آپ کو عجیب سی بات بتاؤں کہ اپ بھی الجھ جائیں گے آپ کو بھی سمجھ میں نہیں ہے کہ وہ یعنی ہمارا حق کس کے لیے چھینا گیا ہے کے پی میں پی ٹی آئی کے لیے بلوچستان میں مختلف جماعتوں کے لیے سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے، تو یہ جگہ جگہ پر مختلف مختلف کیفیات ہیں اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ جی آپ یہ سیٹ ہمارے بندے کے لیے چھوڑ دیں اور پھر ہم آپ کے بندے کو کامیاب فلاں جگہ پہ کرا دیں گے جی آپ اس کو چھوڑ دیں تو یا اس کو چھوڑ دیں اس قسم کی جو چیزیں ہمارے پاس پہنچتی رہی ہیں اور یقینا تمام پارٹیوں کے پاس اس قسم کے پیغامات پہنچے ہوں گے کہ آپ یہ سیٹ چھوڑ دیں آپ اس کے لیے سیٹ چھوڑ دیں آپ ان کے لیے تو مجھے بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون کون ان کے لاڈلے تھے کہ جن کے لیے ہمارے سیٹیں چھوڑی گئی ہے لاڈلے پڑ گئے ہیں بہت زیادہ جی اس لیے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔


سلیم صافی: آپ تو ان لاڈلو میں شامل نہیں ہو سکتے آپ کے تو ریاست کے ساتھ کوئی وہ بھی نہیں تھی تازہ ترین آپ نے ریاست کی خاطر کام بھی کیا تھا افغانستان بھی گئے تھے تو آپ کیوں لاڈلے نہیں بنے ؟

مولانا صاحب: میرا خیال میں یہی میرا جرم تھا کہ یہاں پر پاکستان میں جوب الیکشن ہوتا ہے نا تو لوگ اسی چیز کو دیکھتے ہیں ان کے سامنے نظر آرہا ہوتا ہے میرے سامنے اور آپ کے ساتھ ایک بیس پڑا ہوتا ہوں اس بیس پہ وہ ڈسکس کریں گے جی اب یہ کس کی ایماں پر اور کس کی خواہش پر رکھا گیا ہے کون چاہتا ہے کہ یہاں غلط رکھا گیا ہے کون ٹھیک رکھا گیا وہ نظر نہیں آرہا ، صافی صاحب اس میں تو آپ میرے ساتھ خلاف نہیں کریں گے میرے ساتھ کہ جو ورلڈ وائڈ ایک گریٹ گیم ہوتی ہے ہم بھی اس میں نشانے پہ ہوتے ہیں اور اس کے اندر اندر گھومتے رہتے ہیں اور ایک زمانے میں اپ نے اس موضوع پر انٹرویو بھی کیا تھا کافی عرصہ ہو گیا، اب امارت اسلامیہ جو ہے افغانستان کی وہ ایک لمحے کے لیے امریکہ اور مغرب کو بھا نہیں رہی اور ابھی تک مختلف موضوعات پر وہ چھیڑتے رہتے ہیں تو وہ پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس طرح اپ نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے لیے ایک بیس کیمپ کا کردار ادا کیا اور پھر اس کے بعد جب مشرف صاحب کے زمانے میں امریکہ آیا اور پھر پاکستان نے دوبارہ بیس کیمپ کا کردار ادا کیا اڈے بھی دیے فضائیں بھی دی اور پھر اس کے بعد بیس سال لڑائی رہی ہے بیس سال لڑائی میں اگرچہ دوحہ میں مذاکرات ہوئے اگرچہ اس مذاکرات کے کچھ نتائج بھی سامنے ائے لیکن جو تبدیلی ائی وہ اتنے تیزی کے ساتھ یکدم آگئی کہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی معاہدے کی بنیاد پر اس کا اعلان کر کے ہوا ہے ہاں کچھ پوائنٹس ہیں جو لوگ اس کا تذکرہ کر لیتے ہیں لیکن جس طرح معاہدات کی بنیاد پر اس پر عمل درآمد کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور بڑے طریقے کے ساتھ تدریجی تدریجی طور پر اس پر عمل درامد ہوتا ہے ایک دم سے امریکہ نکلا اور ایک دم سے وہ لوگ شہروں میں آکر انہوں نے کنٹرول سنبھال لیا۔


سلیم صافی: تو اس سے تو لوگ یہ مطلب لیتے ہیں کہ شاید اس پر خود امریکی چاہتے تھے کہ طالبان دوبارہ مسلط ہو۔

مولانا صاحب: میں عرض کروں جی وہ استحکام نہیں چاہتے اس کے لیے ملک کے اندر بھی ان کے لیے مشکلات پیدا ہوئی اور باہر بھی جالیں بنائی جا رہی ہے آپ نے بھی ان کو واچ کیا ہوگا اب ظاہر ہے کہ دنیا کے سامنے پاکستان ایک واحد ٹول ہے کہ جو افغانستان میں معاملات کو اوپر نیچے کر سکتا ہے یہاں پر جب ہم نے اپنے دوستوں سے کہا کہ بھئی یہ تو کام خراب ہو رہا ہے جی اور یہ جو پاکستان میں کوئی دھماکے ہوئے اور ہم نے کہا جی اس میں تو افغانی ہے اور اس سے تلخیاں پیدا ہوئی پھر مہاجرین کی واپسی جبری طور پر جس طرح ہم نے یہاں سے شروع کی ہم نے بارڈر بند کر دیے ہزاروں گاڑیاں ادھر کھڑی ہیں تو ادھر کھڑی ہے تو اس طریقے سے صورتحال پیدا ہوئی تو اس میں ہم نے اپنی خدمات پیش کیں۔


سلیم صافی: تو آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے ایما پہ یہ ہوا ؟

مولانا صاحب: میں سمجھتا ہوں کہ ورلڈ وائڈ گریٹ گیم جو ہے اس کے اندر اس کے زد میں بھی ہم ہیں اور پھر ان حالات پہ جب کہ دنیا واضح طور پر چاہتی ہے عالمی قوتیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں اور اس وقت امریکہ سے لے کر کتنے یورپی ممالک کی فوجیں ہیں جو اس وقت اسرائیل کے اندر موجود ہیں اور وہ فلسطین کے خلاف لڑ رہی ہے وہاں پر بھی ہم نے اپنی پوزیشن کلیئر کر دیا ۔


سلیم صافی: تو اپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو امریکہ اور یہودی لابی نے ہروایا ؟

مولانا صاحب: وہ نہیں چاہتے نا ہمیں وہ نہیں چاہتے یہاں پر پھر جب پریشر آتا ہے تو ہمارے اسٹبلشمنٹ ان کے سامنے لیٹ جاتی ہے۔

سلیم صافی: تو آپ تو کہتے تھے کہ عمران خان یہودی لابی کا بندہ ہے تو پھر تو عمران خان کو جتوانا چاہیے تھا ؟

مولانا صاحب: میں معروضی پوزیشن کی بات نہیں کر رہا ہوں تو ان کو تو جتوا دیا نا تو ان کو تو وہ وہی مینڈیٹ دے دیا ان کو، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ تو میں کہہ رہا ہوں کہ اگر ہمارے تحفظات اس حوالے سے ہیں اب ہم نے سارے معاملات کو اپ سوال کے زیادہ اگے رکھیں میں تمام معاملات پر ایک نئی جہت کے ساتھ انے والے مستقبل کو سوچ رہا ہوں کہ ہمیں کس طرح آگے جانا ہے جی اور ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں اور ہم نے چونکہ ہماری مجلس عاملہ کو پارٹی دستور کے مطابق اختیار نہیں ہے اس کا، اس لیے ہم نے سفارش کر دی اپنی جنرل کونسل سے جی کہ ہم کیوں یہ ایکسرسائز کر رہے ہیں الیکشن میں اترنا پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے توانائیاں بھی صرف ہو رہی ہیں دشمنیاں بھی پیدا ہو رہی ہے۔


سلیم صافی: تو کیا آپ پارلیمانی سیاست چھوڑنے پہ غور کر رہے ہیں؟

مولانا صاحب: تو یہ سفارش کی ہے کہ پارلیمانی سیاست کیوں نہ چھوڑ دی جائے کیوں ہم ایکسرسائز کریں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔


سلیم صافی: تو پارلیمانی سیاست چھوڑ کے پھر آپ کیا کریں گے طالبان والا راستہ اپنائے گے ؟

مولانا صاحب: ایوان نہیں میدان فیصلہ کریں گے۔


سلیم صافی: نہیں تو میدان میں تو پھر وہی ہے جو طالبان والا طریقہ ہے۔

مولانا صاحب: نہیں وہ تو پہاڑوں میں ہے میدان میں نہیں ہے پہاڑوں والا کام نہیں کرنا ہم نے، ہم نے نا اسلحہ اٹھانا ہے ہم نے قانون اور ائین کے دائرے میں رہتی ہوئی ملک کے اندر اپنی موومنٹ کو اگے بڑھانا ہے اور اس ملک کو ایک فلاحی ریاست ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف تحریکوں کی بنیاد پر اگر تحریک کو عدم اعتماد کے ذریعے خراب نہ کیا جاتا جی ڈیڑھ سال دو سال پہلے تو آپ یقین جانیے کہ ہم تحریک کی بنیادی اس حکومت سے جان چھڑاتے۔


سلیم صافی: لیکن مولانا صاحب ایک پاکستان میں ایک ائین کا راستہ ہے پارلیمنٹ کا راستہ ہے دوسرا راستہ طالبان کا ٹی ٹی پی کا راستہ ہے اور تیسرا راستہ جو ہے وہ تبلیغی جماعت کا راستہ ہے یا پھر ہمارے سامنے ماڈل ہے امام خمینی کا جو ایران میں انہوں نے کیا تو اس میں جب آپ لوگ انتخابی سیاست چھوڑیں گے تو کس ماڈل کی طرف جائیں گے ؟

مولانا صاحب: ہم جائیں گے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے فلسفے کی طرف جو 1919 میں انہوں نے جماعت قائم کی اور یہ کہا کہ ہم تحریک کی بنیاد پر انگریز کو نکالیں گے پارلیمنٹ کی بات نہیں کی تھی انہوں نے


سلیم صافی: تو آپ اس پہ سوچ رہے ہیں ؟

مولانا صاحب: تو اس پہ سوچ رہے ہیں جی کہ ہم کیوں اجلاس پہ فیصلہ ہوگا جی ان کو جو بلائیں گے اور ان سے ان کی مرضی جو فیصلہ وہ کرے وہ تو پھر سب سے اٹھ نو سو ہمارے مندوبین ہوتے ہیں اس میں، تو اس میں پھر ہم وہ فیصلہ کیونکہ سب سے طاقتور ادارہ ہمارا وہی ہے یعنی ہم پریشان اس بات پر ہے کہ ہم کس لیے یہ سارے ایکسرسائز کر رہے ہیں کہ پھر بھی ہمارے فیصلے جو ہیں کوئی اور کرتا ہے عوام نہیں کرتے۔


سلیم صافی: لیکن آپ کیوں یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اپ کو شاید جینون شکست ہوئی ہو اس سے پہلے جو 16 مہینے کی آپ لوگوں نے حکومت کی اس سے لوگ بڑے نالاں تھے پھر جو نگران حکومت بنی اس پہ سب پارٹیوں نے اپنے اپنے نمائندے اس سے لوگ نالاں تھے تو یہ کیوں ؟

مولانا صاحب: صافی صاحب اگر ڈیڑھ سال حکومت ہے اگر ڈیڑھ سال کی حکومت کی بات آپ کرتے ہیں تو ڈیڑھ سال حکومت کی قیادت مسلم لیگ کر رہی تھی پھر اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس میں اکثریت پیپلز پارٹی کی تھی ہم تو تیسرے چوتھے نمبر پہ تھے۔


سلیم صافی: تو ان کو بھی اپنے اپنے حصے کی مار تو پڑی ہے ناں سوائے پیپلز پارٹی کے

مولانا صاحب: میں بتا رہا ہوں نا جی پھر تو یہ سارا نزلہ جو ہے پہلے مسلم لیگ پہ گرنا چاہیے تھا اور ان کی کوئی بھی دس پندرہ سیٹیں انی چاہیے تھی پھر دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی پر گرنا چاہیے تھا کہ آج اس کو سندھ میں شکست ہونی چاہیے تھی وہ تو آگے بڑھ رہی ہے بلوچستان کی طرف بڑھ رہی ہے جی اور صرف ہم پر یہ نزلہ گر رہا ہے کہ ہم نے ایک جرم کیا ہے یعنی سوال یہ ہے کہ کوئی بات ایسی بھی کی جائے کہ گراؤنڈ تو تصدیق کرے نا اس کی جی


سلیم صافی: لیکن مولانا صاحب اللہ گواہ ہے میں بہت سوچتا ہوں نا لیکن بہرحال پتہ نہیں میرا دل یہ نہیں مانتا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس کے لیے دھاندلی کی ہوگی پی ٹی آئی کو جتوائیں اور اپ کو ہروائیں اگر ماضی کے پی ٹی ائی تو 2018 کی ہوتی تو پھر تو ٹھیک تھی ہم بھی آپ کے ہمنواں تھے۔

مولانا صاحب: میں نے پی ٹی ائی کو مخصوص نہیں کیا ہے میں نے کہا تو چاروں صوبے انہوں نے کچھ ایسے اپنے اپنے لوگوں کو نکالنا اور تاثر دے دیا کہ جی یہاں پر تو ہم نے پی ٹی آئی کو توڑ دیا ہے پرویز خٹک آرہا ہے پرویز خٹک بھی ایسی باتیں کر رہا تھا جیسے کہ اس کی حکومت آنے والی ہے اس کے ساتھ کیا کیا۔


سلیم صافی: یہ اس کا نتیجہ نہیں ہے کہ آپ پرویز خٹک اور ایمل ولی خان وغیرہ اپس میں لڑتے رہے اور فائدہ پی ٹی ائی کو پہنچ گیا ؟

مولانا صاحب: نہیں میرے خیال میں اس سے پہلے بھی ہم نے کبھی اتحاد نہیں کیا آپس میں اور اس کے باوجود جیتتے رہے ہیں کوئی ایسی بات نہیں تھی بلدیاتی الیکشن میں ہمارا کوئی اتحاد کسی کے ساتھ نہیں تھا اپ نے دیکھا ہم نے پورے صوبے میں مات دیا ان کو جی، تو یہ چیزیں جو ہیں یہ چیزیں کوئی دلیل نہیں بن رہی ہیں اور اس کو دلیل بنانے کے لیے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اس کے نفی کر رہی ہیں تو حالات و واقعات کے ساتھ حضرت جو ہم کہہ رہے ہیں ہم اندھے ہو کر بات نہیں کر رہے ہیں صافی صاحب اپ الیکشن نہیں لڑتے ہم سن 1970 سے الیکشن لڑ رہے ہیں جی میں نے اپنے والد صاحب کی الیکشن کمپین 1970 میں بھی چلائی ہے جی میں نے 1977 میں بھی چلائی ہے اور پھر اس کے بعد 88 سے اپنے الیکشن لڑ رہا ہوں اج تک جتنا گلی کوچے کو میں جانتا ہوں میں اپ کو ایک تجربے کی بات بتانا چاہتا ہوں حضرت جس حلقے میں بھی آپ جائیں گے ہر حلقہ آپ کو فورا بتا دے گا کہ یہاں مقابلہ فلاں فلاں کے بیچ میں چاہے پندرہ بیس کینڈیڈیٹ کیوں نہ کھڑے ہو ۔


سلیم صافی: لیکن لوگ ہماری اب جو نئی نسل ہے وہ مورثی سیاست کی بھی مخالف ہے ایک اعتراض آپ پہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ جی آپ نے اپنے دو بھائیوں کو بھی ٹکٹ دیے دو بیٹوں کو بھی ٹکٹ دیے شاید اس کا لوگوں نے ری ایکٹ کیا ہو۔

مولانا صاحب: میرے خیال میں اگر جماعت کہے کہ فلاں کینڈیڈیٹ مجھے دو اگر جماعت کہے کہ فلاں کینڈیڈیٹ مجھے دو، جماعت کے نام بھی دیتے ہیں میں کبھی بھی اپنی ذات کی طرف سے کوئی کسی کو امیدوار نہیں بنایا کرتا جماعت طلب کرتی ہے پھر ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے جی لکی مروت میں میرا کوئی ارادہ نہیں تھا اور آپ نے دیکھا تو 2018 میں مولانا انور کو ہم نے کھڑا کیا اور وہ کامیاب ہو گیا جی اور اس دفعہ بھی ہمارا یہ خیال تھا کہ وہاں اپنا کوئی ایک عالم دین وہاں کھڑا ہو جماعت کا ایک نظریاتی آدمی کھڑا ہو لیکن پوری جماعت مکمل طور پر میرے گھر آئی عبدالخیل میں میرے گاؤں میں میرے گھر آئی اور انہوں نے کہا جی کہ آپ کے گھر سے ہمیں بندہ دو۔


سلیم صافی: مجھے اس بنیادی سوال کا جواب نہیں ملا کہ اپ اب کیا چاہتے ہیں ری الیکشن چاہتے ہیں کچھ حلقوں پہ ری الیکشن چاہتے ہیں ری کاؤنٹنگ چاہتے ہیں مطالبہ کیا ہے ؟

مولانا صاحب: میں اب اس کو افراد کی طرف منتقل کرتا ہوں میں فضل الرحمن یا پارٹی کی طرف اس سوچ کو منتقل نہیں کر رہا ہوں جی افراد جو ہمارے امیدواران ہیں اور جو زیادہ تر رنر اپ ہیں دوسرے نمبر پر ہے وہ اپنے طور پر ائے ہیں انہوں نے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے کہ ہمارے یا ری چیکنگ کریں یا ری پولنگ کریں یا جزوی طور پر اپ کریں جو بھی ان کے دلائل ہیں وہ انہوں نے ایڈمٹ کر دیے ہیں اور وہ فیصلے وہ کریں گے کہ اس طرح ہوتا ہے ہم تو یہ سوچتے ہیں کہ الیکشن غلط ہوئے ہیں اور الیکشن کے بارے میں اگر دوبارہ بھی الیکشن کرائے جاتے ہیں تب بھی ہمیں اعتماد نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اثر رسوخ اور مداخلت کے بغیر ہوں گے ۔


سلیم صافی: لیکن تحفظات کے باوجود آپ لوگ اسمبلی میں بیٹھیں گے ؟

مولانا صاحب: ہاں یہ ضرور ہم نے اعلان کیا ہے کہ اب جو لوگوں نے ہمیں ووٹ دے دیا ہے اور چند سیٹیں سہی لیکن ہم پارلیمانی کردار جو ہے فی الحال ہم چھوڑ بھی نہیں سکتے اس لیے کہ ہماری جماعت کو اختیار نہیں ہے۔


سلیم صافی: لیکن میری معلومات کے مطابق مسلم لیگ نون کوشش کرے گی ان کی قیادت آپ کے پاس آئے گی مجبور کرے گی کہ آپ حکومتی بینچوں پہ بیٹھے تو آپ ان کے کہنے پہ حکومتی بینچوں پہ بیٹھے گے ؟

مولانا صاحب: وہ تو بعد میں کہیں گے میں تو پہلے کہہ چکا ہوں ان سے اور پورے اخلاص کے ساتھ کہہ چکا ہوں کہ جس طرح کا الیکشن ہوا ہے جس طرح کا نتیجہ آیا ہے جس طرح کے ملک کے حالات ہیں سیاسی عدم استحکام ہے معاشی عدم استحکام ہے ڈیڑھ سال کا تجربہ آپ کے سامنے ہے کہ ہر چند کے آپ نے چیلنج قبول کیا ہم سب اپ کے ساتھ تھے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کے ساتھ کھڑے رہیں ہم لوگ اس کے باوجود اپ کوئی نیک نامی حاصل نہیں کر سکے مزید اپنی سیاست جو ہے اس کو دفن نہ کریں آئیں ہم سب اپوزیشن میں بیٹھے ہیں تو میں تو کہہ چکا ہوں ۔


سلیم صافی: وہ تو ڈیڈ لاک ہوگا نا کہ یہ پھر پی ٹی ائی کے ازاد بھی تو اپنی حکومت نہیں بنا سکتے تو اس صورت میں بھی تو ڈیڈ لاک ہوگا ؟

مولانا صاحب: اس کا سوال اپ مجھ سے کیوں کرتے ہو ان سے کہو جنہوں نے یہ صورتحال پیدا کی ہے اس چیز کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔


سلیم صافی: نہیں تو اگر ری الیکشن کی طرف معاملہ جاتا ہے تو اس سے کوئی بحران پیدا تو نہیں ہوگا بحران حل ہو جائے گا ؟

مولانا صاحب: میں اسے اوپر جا چکا ہوں جی اب میں چونکہ اس سے اوپر جا چکا ہوں میں ری الیکشن اور یہ اور پھر ایسا ہو جائے گا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں اس میں پھنسنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔


سلیم صافی: اچھا ہمارا ٹائم بھی اوور ہو رہا ہے ایک مختصر سی بریک لے رہے ہیں بریک کے بعد واپس آئیں گے اور مولانا فضل الرحمان صاحب سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں پوچھیں گے

ایک بار پھر خوش امدید اپ کو جرگے میں ہمارے ساتھ ہیں آج کے جرگے میں جناب مولانا فضل الرحمن صاحب، مولانا صاحب یہ الیکشن تو اپ کو جس نے جتوایا جس نے ہروایا وہ اپنی جگہ ہونے کو غصہ اب مسلم لیگ ن پر کیوں غصہ ہے اپ کے تو بڑے تعلقات تھے ؟

مولانا صاحب: نہیں مسلم لیگ نون کے لیے میرے دل میں اب بھی ہمدردی ہے یقین جانیے میرے دل میں ان کے لیے ہمدردی ہے میں چاہتا ہوں اب جو ہو گیا ہے ہم نے اپنا موقف کوئی چھپایا نہیں نہ ہم نے مسلم لیگ سے اپنی رائے چھپائی ہے نہ ہم نے پیپلز پارٹی سے رائے چھپائی ہے مجھے بہرحال حیرت اس بات پہ ہے کہ ان کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ میرے خلاف پریس کانفرنسیں کریں پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت تھی کہ میرے خیال پریس کانفرنس کرے اور ایسے لوگوں سے پریس کانفرنس سے کرائی کہ میں ان کا جواب بھی نہیں دینا چاہوں گا تو اس کی کیا ضرورت تھی۔


سلیم صافی: وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپ نے ایسی بات کی کہ اس سے یہ تاثر ملا کہ جیسے انہوں نے حکومت کسی کے کہنے پہ بنائی تھی اور عمران خان کو کسی کے کہنے پہ تھا تو ان کی پوری سیاست اپ نے سٹیک پہ لگا دی۔

مولانا صاحب: نہیں بات یہ ہے بنیادی طور پر کہ جو ایک اختلاف رائے تھا اور پیپلز پارٹی کے اور جمعیت علماء کے درمیان پی ڈی ایم کے قیام کے وقت اور وہ یہی تھا کہ وہ کہتے تھے کہ عدم اعتماد کے ذریعے سے اور میں کہتا تھا کہ نہیں تحریک اور پارلیمنٹ کے اندر سے استعفوں کے ذریعے سے، اگر ہم سندھ اسمبلی توڑ دیتے ہیں اس کا حصہ تھے اور ہم پنجاب اسمبلی سے بھی نکل جاتے ہیں اور بلوچستان اسمبلی سے کے پی سی بی اور یہاں بھی ادھی اسمبلی خالی ہو جائے تو ناگزیر ہے ممکن نہیں ہے ان کے لیے کہ وہ الیکشن کرا سکے ناگزیر ہے کہ دوبارہ الیکشن کروائیں گے تو یہ ایک اختلاف فکری چل رہا تھا جی اب میں نے ایک حوالہ دیا ہے اور وہ حوالہ حقائق پر مبنی ہے اگر اپ سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ حوالہ کیوں دیا ہے اور اس کے اوپر کچھ تکنیکی اعتراضات ہیں کہ ہمیں نہیں دینا چاہیے تھا یہ اپنی جگہ پر ہے لیکن بہرحال ایک تجویز تھی اب ان کی طرف سے کہ اپ ود ان دی سسٹم جو ہے تبدیلی لائیں اور پھر وہی چیز ان کی رائے تھی۔


سلیم صافی: لیکن نون لیگ کہہ رہی ہے کہ نہیں تجویز ان کی اس سے الٹ تھی کہ اپ لوگ عدم اعتماد نہ لائیں۔

مولانا صاحب: یہ تو اخر میں ہوا جب اعتماد ہم نے تیار کر لیا جب کر لیا تو پھر کہا کہ وہ استعفی دے دے گا اپ واپس لے لے تو پھر میں تو اجلاس میں ابھی پہنچا بھی نہیں تھا جب انہوں نے کہا جی بھائی ہم اس سے اگے نکل چکے ہیں جی یہ کوئی مراحل ہیں نا جی ایک ابتدائی مراحل ہے ایک آخری مراحل ہے ۔


سلیم صافی: ابتدائی مراحل پہ انہوں نے کہا تھا کہ لے ائے ؟

مولانا صاحب: مجھے کہا تھا باقی کوئی مجھے پتہ نہیں کہا تھا یا نہیں کہا لیکن پیپلز پارٹی کی رائے تو تھی نا تو پھر اس پارٹی نے سب کو قائل کر لیا اکیلے ہم رہ گئے اب اگر میں چھوڑتا چار ووٹوں کے اکثریت تھی تو پھر کہتے ہیں کہ جی اپ نے خان کو بچا لیا تو میں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا دوستوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔


سلیم صافی: تو اب یہ جو ناخوشگوار دو تین دن گزرے ایک دوسرے کے حوالے سے تو اس کے بعد مسلم لیگ

مولانا صاحب: ہم نے کوئی بیان نہیں دیا نام بیان دیں گے میں پھر بھی خیر خواہانہ جذبات کے ساتھ میاں نواز شریف صاحب کو بھی مخاطب کروں گا شہباز شریف صاحب مخاطب کروں گا زرداری صاحب کو مخاطب کروں گا اور بڑے خیر خواہانہ انداز کے ساتھ میں گفتگو کروں گا میری ان کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے ہم نے مل کر کام کیے ہیں ہم جتنی بھی حالات ہیں ان میں شریک تھے ایک دوسرے کے ساتھ اج ہم ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیں لیکن ایک چیز جو حقائق ہے کہ جس کو تمام لوگوں نے ابزرو کیا اس اجلاس میں جب سارے موجود تھے کہ وہ انہوں نے پی ڈی ایم کے جو اعلانیہ تھا اس سے صرف استعفوں کا وہ چیز نکال لی تھی اور صرف ایک اپشن رکھا تھا کہ عدم اعتماد جی تو وہ دوبارہ ڈلوا تو دیا۔


سلیم صافی: لیکن اپ جو ان کے ساتھ اتنا تلخ و شیرین وقت گزرا ہے تو اب ان کے ساتھ حکومت سازی میں شریک کیوں نہ ہو جاتے ؟

مولانا صاحب: تلخ تو گزرا نہیں حضرت سارا شیرین شیرین ہی گزرا اور ابھی ہم کہتے ہیں کہ اسے تلخ نہ کرو شیرین شیرین میں چلتے رہو۔


سلیم صافی: نہیں تو وہ تو اس صورت میں ہوگی کہ اپ حکومت میں شامل ہو جائیں نا ان کے ساتھ

مولانا صاحب: نہیں وہ مشکل ہے ہمارے پارٹی کے تقریبا اس وقت سٹینڈ واضح ا چکا ہے جی کہ ہم تحفظات کے ساتھ جائیں گے۔


سلیم صافی: اعتماد کا ووٹ دیں گے ؟

مولانا صاحب: ابھی ہم میں اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا ہم نے پھر مشاورت کرنی ہے اتنا ضرور جماعت نے کہا ہے کہ پارلیمانی کردار ہمارا جاری رہے گا اب جب تک مجلس عمومی یا جنرل کونسل ہماری کوئی فیصلہ نہیں کرتی کہ پارلیمانی سیاست کرتے ہیں یا نہیں کرتے تب تک ہم نے پارلیمانی کردار کا تو اعلان کیا ہوا ہے اب اس ذہن میں کیا حالات بنتے ہیں اور روز بروز حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور صورتحال بالکل نہیں اتی رہی ہے تو جو اس صورتحال اس معروضی ہوگی ہم فیصلہ کر لیں گے ۔


سلیم صافی: لیکن سندھ میں تو جو احتجاج اپ کا ہو رہا ہے تو 100 فیصد پیپلز پارٹی کے خلاف ہے کیونکہ جن سیٹوں پہ اپ کے لوگ ہارے ہیں ۔

مولانا صاحب: جی میں نے اپ سے عرض کیا کہ اس دفعہ معاملہ ایسا نہیں ہے کئی ایک صوبے میں ہم پی ٹی ائی کے لیے دھاندلی جو ہے اس پہ احتجاج کر رہے ہیں کہی پر پیپلز پارٹی، کئی افراد کی حد تک کہ یہ بندہ جو ہے اس کے لیے سیٹ چھوڑ دو ہم نے نہیں چھوڑی تو دھاندلی کی کہی فلانا بندہ یہ سارے ایک ملغوبہ قسم کی صورتحال ہے جس پر کوئی اپ ایک واحد ایک باقاعدہ راستہ نہیں رہ سکتے۔


سلیم صافی: تو اس سے اپ یہ نتیجہ کیوں نہیں نکال لیتے کہ الیکشن فیئر ہوا ہے ؟

مولانا صاحب: میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نتیجہ بدلا ہے اور دیکھنے کے قابل بھی نہیں اتنی بد شکل ہے جی تو اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا الیکشن عوام کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ عوام کا فیصلہ نظر نہیں ا رہا ہمیں جی ۔


سلیم صافی: نہیں اور اب اگے جا کے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اور ان کے ساتھ تعلقات کار پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہوں گے ؟

مولانا صاحب: بظاہر تو یہ ہے کہ یہ کیا تعلقات تعلقات کار کی بات وہ تو جو پارلیمنٹ میں جائیں گے تو ڈے ٹوڈے کے معاملات ہوتے ہیں لیکن یہ ہے کہ اصولی طور پر ہم نے تقریبا فیصلہ کر لیا کہ ہم حکومت میں نہیں جائیں گے۔


سلیم صافی: تو گورنر خیبر پختون خواہ کا عہدہ بھی چھوڑیں گے ؟

مولانا صاحب: وہ تو ابھی جماعت کہہ رہی ہے کہ جو صورتحال آلریڈی چل رہی ہے تو چلنے دے ۔


سلیم صافی: اور اپ کیا سمجھتے ہیں کہ نواز شریف مناسب ہوتے یا شہباز شریف مناسب ہیں ؟

مولانا صاحب: میں کسی دوسری پارٹی کے اندر نہیں جھانکتا یہ ان کا معاملہ ہے وہ جس طرح فیصلہ کریں گے میں نہ اپنی پارٹی کے اندر کسی کو یہ حق دیتا ہوں نہ دوسری کے اندر میں اس قسم کے مداخلت کرتا ہوں کہ کون وہی کا معاملہ ہے جس کو بھی لائے ۔


سلیم صافی: نہیں کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں نا کہ جیسے نواز شریف صاحب کے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے تو اپ کا بھی یہ تاثر ہے ؟

مولانا صاحب: میں کیوں یہ بات کروں وہ خود کرے نا اگر دھوکہ ان کے ساتھ ہے تو وہ خود کہیں ڈٹ کر میں کہہ رہا ہوں وہ کریں جرات کرے اس بات کی


سلیم صافی: اپ خود کتنا ایکسپیکٹ کر رہے تھے کتنے قومی اسمبلی کی سیٹیں ایکسپیکٹ کر رہے تھے اور کتنے صوبائی اسمبلی کی ؟

مولانا صاحب: میرا خیال میں اب اس کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں ہے۔

سلیم صافی: نہیں زیر بحث لانے کی تاکید قوم کو پتہ چلے نا، اس وقت تو ایک مصیبت یہ ہے کہ قوم اس پہ کنفیوز ہے کہ ہر کوئی رونا رو رہا ہے کہ میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔

مولانا صاحب: میں حضرت اس اختلاف کو اس لیے اوپر نہیں لانا چاہتا کل اس پر بات شروع ہوگی کہ یہ صحیح کہہ رہا ہے غلط کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے ۔


سلیم صافی: بلوچستان میں اپ کی پارٹی تین بڑی پارٹیوں میں سے ایک ہے تو بلوچستان میں اپ حکومت سازی کی کوشش کریں گے ؟

مولانا صاحب: ابھی تک تو ہم نے حکومت نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اگر میں دوسروں کو کہتا ہوں کہ حکومت بنا جائے تو میں وہاں پر حکومت بھی کیوں جاؤں لیکن تا ہم مشاورت کا عمل جاری ہے کیا طے ہوتا ہے وہ ذرا اگے کی طرف ہم نے دیکھنا ہے ۔


سلیم صافی: وہاں کس کا امکان سپورٹ کرنے کا زیادہ ہے پیپلز پارٹی کا یا ؟

مولانا صاحب: یہ تو ہم نے ابھی تک سوچا نہیں ہے جو اس حوالے سے تو کوئی مجھے اس امکان کا علم نہیں ہے کہ کون سی پارٹی ہوگی جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر اس پر بات کر سکے گی یا ہم کر سکیں گے جی ۔


سلیم صافی: اچھا کچھ سیاسی جماعتیں یہ جو مس بنا ہوا ہے اس میں چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں ۔

مولانا صاحب: ہم نے بڑا ڈٹ کر مطالبہ کیا ہے کہ ان کو مستعفی ہو جانا چاہیے ذمہ داری قبول کرے ان کے پاس ایک بھی نتیجہ اعلان کرنے کا اختیار نہیں تھا وہ اسٹیبلشمنٹ کا تو یرغمال تھی اور اس نے جو کہا ہے کہ شفاف الیکشن ہوئے ہیں جمعیت علماء اسلام نے باضابطہ طور پر ان کے اس بیان کو مسترد کر دیا ۔


سلیم صافی: اچھا اب جو ایک کمشنر صاحب سامنے ائے ہیں اور پہلے سے امریکی ویزہ لے کے بعد میں ان کا ضمیر جاگ اٹھا ہے تو انہوں نے چیف جسٹس پہ بھی الزام لگایا ہے تو اپ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں چیف جسٹس اف پاکستان کا بھی کوئی کردار ہے ؟

مولانا صاحب: میں تو کبھی بھی نہیں چاہوں گا کہ عدلیہ کو ہم اس پہ ملوث کریں میں کبھی بھی نہیں چاہتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ملوث ہو اور ان پر یہ حرف ائے لیکن بدقسمتی اگیا ہے عدلیہ پر ابھی کوئی ایسا حرف نہیں ہے تو ہم کو ایسے بات کریں اگر ان کے پاس کوئی ایسی چیزیں ہیں تو وہ سامنے لائیں پھر اس پر تبصرہ کیا جا سکتا ہے اور جسٹس فائز عیسی صاحب نے تو اپنی بات کر بھی لی ہے کہ بھئی میرا اتنا دخل تو ہے کہ میں نے کہا کہ تاریخ متعین کرو اور اسی طرح تو میرا کوئی سروکار نہیں ہے تو اب ہمارا بھی کوئی عدلیہ کے اوپر ایسے باتیں نہیں ہیں کہ اب ان کے ان کے اوپر الزام لگائیں یا ان کے پوزیشن کو مجروح کریں۔

سلیم صافی: بہت شکریہ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب ہمیں وقت دینے اور ہم سے بات کرنے لیے

ناظرین مولانا فضل الرحمن صاحب کے ایک بار پھر شکریہ کے ساتھ اور اس دعا کے ساتھ کہ اپ جہاں بھی رہیں خوش رہیں آج کی جرگہ سے اجازت چاہتا ہوں اللہ حافظ


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

تصحیح: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat



0/Post a Comment/Comments