مذہبی جماعتوں کے ہارنے کے حقیقی اسباب۔ تحریر مفتی شکیل احمد پی ایچ ڈی اسکالر


  • مذہبی جماعتوں کے ہارنے کے حقیقی اسباب!

 تحریر! مفتی شکیل احمد پی ایچ ڈی اسکالر

 1.اس وقت عالمی سطح پہ بالعموم اور ہمارے پاکستان میں بالخصوص بے دینی کی فضا حد سے زیادہ پھیل چکی ہے۔

   پہلے این جی آوز کے ذریعہ یہ بددینی پھیلائی جاتی رہی ،عورتوں کو گھر سے نکالا گیا،مردوں میں وی سی آر کے ذریعہ اسے عام کیا گیا، اور اب سوشل میڈیا نے تو ستیا ناس کردی۔اوریہ کےپی کے جیسے مذہب پسند حلقوں میں زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہوا۔

    اب یہ لوگ مذہب بیزار ہو چکے ہیں،کافی سارے مکمل اور کچھ کم اور کچھ نیم۔

  اور یہ ایسے ہی یک دم نہیں ہوگیا ،اس کے پیچھے مغرب کی برسہا برسہاکی محنت اور وسائل کا بے دریغ استعمال اور مکمل اور مضبوط منصوبہ بندی ہوئی ہے۔

  یہ لوگ علماء سے متنفر ،دین سے دور اور مغرب کے دلدادہ ہیں۔

  2. عالمی استعمار کی اس وطن عزیز پہ گہری نظر ہے،یہاں اسے اسلام کی اسپرٹ نظر آتی ہے،اس لئے اسلامی جماعتیں،تبلیغی جماعت،مساجد و مدارس اسے ایک نظر نہیں بھاتے،اسلام کے نفاذ کی بات ان کے حلق سے نہیں اترتی،اسلئے اسٹیبلشمنٹ کو مفاداتی اسارت یا دھونس دھمکی کے ذریعہ اسلام اور اسلامی جماعتوں کے راستے میں،اور مختلف انداز سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،اور حقیقت تو یہ ہے خود اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ہی تربیت مذہب بیزاراطوارپہ کی جاتی ہے،جس کی موجود مثال سی ایس ایس کے طلباء کی ہے جور نگ رلیاں مناتے ہوئے، مردوزن کی مخلوط محفل شبابی میں ہندوانہ رسم ،،ہولی،،مناتے ہوئے پائے گئے،کل یہ لوگ جب کمشنر بن جائیں گے یا الیکشن کمشنر بنیں گے یاکسی کلیدی عہدے پہ براجمان ہوں گے تو پھر انہیں یورپ کے کلبوں میں، مستی سے دوشیزاؤں کی،بانہوں میں بانہیں ڈال کر رنگ رلیاں مناتا ہوا شخص ان کے دل کو بہائے اور لبھائےگا، اور ان کے دل کو handsome اور حسین لگے گا،یا ایک داڑھی پگڑی والا،مسنون لباس میں ملبوس شخص ان کے قلبی جذبات کی تسکین کر سکے گا؟سوچیں،بات واضح ہے پھر یہ کس کے دو کو سو کرے گا اور کس کے سو کودو۔

   وہ کس کو ملک کا امیر بنانا پسند کرے گااورکس کو برداشت ہی نہیں کرے گا۔

  ذرا سوچیں۔۔بلکہ بہت سوچیں۔۔

  3.ذہنی غلامی کی بدترین کی شکل،،اشرافیہ کی نقل کاٹرینڈ بن جانا ہے،،۔یہ شکل بڑی خوفناک بھی ہے اور جنگل کی آگ کی طرح اس کا پھیلاؤہے، اور یہ تو عقل و تدبر کی تمامتر قوتیں سلب کر لیتی ہے،عوام اور چھوٹے طبقے کے لوگ اپنے بڑوں اور اشرافیہ کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں، اوربس۔ اگرچہ ان کے بڑے واضح گمراہ ہوں اور بے عقلی اور کج فہمی روز روشن کی طرح عیاں ہو،وان کان آباؤھم لایعقلون شیئا ولایھتدون۔

  اور اس کی واضح مثال ابھی اس دور فتنہ ،،عین،، ہے۔

4.جب مذہبی جماعتوں کو ووٹ اور سیٹیں کم ملتی ہیں تو لوگ اسے باہمی اتحاد کی کمی قرار دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ایک ہوکے بھی دیکھ لیں،اورپورے پاکستان میں متحد ہوکر اپنے منتخب نمائندے بھی کھڑے کرلیں، پھر بھی نتیجہ یہی نکلے گا،کیا مصر میں اخوان المسلمین نے پورا ملک نہیں جیتا تھا،اس سے بڑھ کر پورے عالم اسلام میں کوئی جماعت اتنی منظم ، سیویلائزڈ، اور ایجوکیٹڈ نہیں ہے، پورے عالم اسلام نے اپنی نشاہ ثانیہ کے لئے اسے کاپی کیاہے،فلسطین،اردن ،شام لبنان،ترکی ،افغانستان اور پاکستان کی جماعت اسلامی وغیرہ۔

لیکن نتیجہ کیا نکلا؟واضح جیت کےباوجود پابند سلاسل۔

 ترکی میں تو 6 صدیوں کی مضبوط خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی،طیب اردگان جیسے امت کے اتحاد کے داعی اور غمخوار کو راستہ سے ہٹانے کی کوشش کی گئی،ضیاء الحق کو اسی عالمی اتحاد کے داعی ہونے کی پاداش میں فضاء میں ہی اڑادیا گیا،شاہ فیصل کو اسی عالمی داعی اتحاد ہونے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔مصر میں تو ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی اسلامی حکومت کا پانسا پلٹ کر، آنکھیں موند کر، تحتہ دار پہ لٹکا دیاگیا،اسامہ بن لادن کس جرم کی سزا میں مارا گیا۔

  یہ عالمی بساط بچھی ہے،مہرے چن دئیے گئے،گیم شروع ہے،اور ہم سیٹوں کو روتے ہیں اور دشمن عیار ہمارے اسلامی وجود کو ہی مٹا دینے کے در پے ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟

   کیا دشمن کو افغانستان کا اسلامی وجود ایک آنکھ بھاتا ہے؟کیا وہ اسے ملیامیٹ کرنے کے لئے،اس کا گھیرا تنگ کرنے کے لئے ہردم بے کل نہیں ہے؟

ہندوستان کے 30000 مدارس کو ختم کرنے کےلئے روزانہ دو گھنٹے ہیرنگ نہیں ہورہی،وہاں ان کا قتل عام کس ظالمانہ سوچ کی کڑی ہے؟بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد اور پھر آہستہ آہستہ تمام مساجد کو گرانے کی تیاری کس عالمی استعمار کی سازشوں کا تسلسل ہے؟

    فلسطین کو بم کے ذریعے صفحہ ہستی سےہی مٹانےدینے کی باتیں ہمیں کیا سبق سکھاتی ہیں؟گزشتہ چند سالوں سے سعودی عرب کا اسلامی تشخص جس برے طریقے سے مسخ در مسخ کرکے وہاں یہودیت مسلط کی جارہی ہے،اس سے ہمیں کیا سمجھ آتا ہے؟

      پورے عالم اسلام پہ یہودیت اور اسلام دشمن عناصر کی کاروائیاں یہ واضح اشارے ہیں کہ اب مسئلہ ایک ملک یا دو ملک کانہیں بلکہ اس سے بڑھ کرایک سیٹ یا دو سیٹ کا نہیں  

بلکہ اب !

 چمن بچاؤ غم آشیاں کا وقت نہیں

  عالم اسلام کے بڑے مفکرین کو یکجا ہوکر سوچنا ہوگا کہ رگ یہود پہ کس طرح پاؤں رکھیں،اور پنجہ استعماریت سے کس طرح جان بچائی جا سکتی ہے؟

  کہیں سے مہاتیر محمد اٹھے،

کسی کچھار سے اردگان نکلے،کسی کوہ کی کوکھ سے ملا ذبیح اللہ برآمد ہراور سلجھے افکار کی کسی چوٹی سے مولانا فضل الرحمن اترے۔

 پھر اس قصر عالیشان کا سنگ بنیاد رکھیں ،جس کی ایک اینٹ پہ ہزاروں سیٹ قربان ہوں،اور اس محل کی حفاظت کے لئے صدر دروازے پہ ابو عبیدہ بواب ہو۔

 اک کاش! کہ ایسا ہو جائے۔۔




0/Post a Comment/Comments